"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(− زمرہ:صحابہ (بذریعہ:آلہ فوری زمرہ بندی)) |
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 45: | سطر 45: | ||
===زہد اور عبادت=== | ===زہد اور عبادت=== | ||
اہل سنت کے مآخذ کے مطابق، عبداللہ کوشش کرتا تھا کہ جتنی عبادتیں [[رسول اکرم(ص)]] سے دیکھی اور سنی ہیں انہیں انجام دے. اور وہی مقام جہاں پر پیغمبر اکرم(ص) آرام فرماتے تھے اور [[نماز]] پڑھتے تھے، سفر کرتا اور اسی مقام پر نماز پڑھتا تھا. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۷.</ref>اس کے زہد کے بارے میں کہتے ہیں کہ کبھی کسی سے پیسے نہیں مانگے، اس کے باوجود اگر کسی حاکم کی طرف سے کوئی ہدیہ ملتا تو اسے رد نہیں کرتا اور سب ہدیے تحفے قبول کر لیتا تھا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۱۲.</ref> اور دنیا پسند نہیں تھا، بہت [[حج]] انجام دئیے اور زیادہ [[صدقہ]] دیتا تھا. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.</ref> | اہل سنت کے مآخذ کے مطابق، عبداللہ کوشش کرتا تھا کہ جتنی عبادتیں [[رسول اکرم(ص)]] سے دیکھی اور سنی ہیں انہیں انجام دے. اور وہی مقام جہاں پر پیغمبر اکرم(ص) آرام فرماتے تھے اور [[نماز]] پڑھتے تھے، سفر کرتا اور اسی مقام پر نماز پڑھتا تھا. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۷.</ref>اس کے زہد کے بارے میں کہتے ہیں کہ کبھی کسی سے پیسے نہیں مانگے، اس کے باوجود اگر کسی حاکم کی طرف سے کوئی ہدیہ ملتا تو اسے رد نہیں کرتا اور سب ہدیے تحفے قبول کر لیتا تھا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۱۲.</ref> اور دنیا پسند نہیں تھا، بہت [[حج]] انجام دئیے اور زیادہ [[صدقہ]] دیتا تھا. <ref> ابن اثیر، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، ۱۴۰۹ق، ج ۳، ص ۲۳۸.</ref> | ||
[[فائل:قبر ابن عمر.jpg|تصغیر|مکہ، فخ کا علاقہ، عبداللہ بن عمر کی قبر]] | |||
==وفات== | ==وفات== | ||
سالم اپنے والد عبداللہ بن عمر سے نقل کرتا ہے کہ حجاج کے ایک دوست کے نیزے کا سرہ میرے پاؤں پر لگا اور یہی زخم عبداللہ کی بیماری کا باعث بنا. ایک دن حجاج اس کی عیادت کے لئے آیا تو عبداللہ نے کہا تم نے مجھے مارا ہے اور تم نے حکم دیا ہے کہ کچھ لوگ خدا کے [[حرم]] میں اپنے ساتھ اسلحہ لے کر آئیں. وہ آخر کار سنہ ٧٣ہجری کو ٨٤سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۸.</ref> | سالم اپنے والد عبداللہ بن عمر سے نقل کرتا ہے کہ حجاج کے ایک دوست کے نیزے کا سرہ میرے پاؤں پر لگا اور یہی زخم عبداللہ کی بیماری کا باعث بنا. ایک دن حجاج اس کی عیادت کے لئے آیا تو عبداللہ نے کہا تم نے مجھے مارا ہے اور تم نے حکم دیا ہے کہ کچھ لوگ خدا کے [[حرم]] میں اپنے ساتھ اسلحہ لے کر آئیں. وہ آخر کار سنہ ٧٣ہجری کو ٨٤سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسا. <ref> ابن سعد، الطبقات الكبرى،۱۴۱۰ق، ج ۴، ص ۱۶۸.</ref> | ||