گمنام صارف
"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Jaravi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 43: | سطر 43: | ||
اس کے مقابلے میں بعض معتقد ہیں کہ ابن عمر نے پیغمبر اکرم(ص) سے بہت کم روایات نقل کی ہیں، جیسے کہ شعبی کہتا ہے کہ میں ایک سال تک اس کے ساتھ رہا، اور اس سے کوئی حدیث نہیں سنی. [٣٤] اور بعض من جملہ جابر بن عبداللہ اس سے روایت نقل کرتے ہیں. [٣٥] میرزا حسین نوری تحریف قرآن کی ابحاث من جملہ وہ دلائل جن پر اسناد کرتا ہے، تحریف قرآن کے بارے میں اہل سنت کی روایات عبداللہ بن عمر سے ہیں. [٣٦] اسی طرح اہل سنت بعض روایات جیسے کہ امام علی(ع) کی فضیلت، [٣٧] قرآن کی مختلف قرائتیں، [٣٨] صدقہ [٣٩] اور دوسرے موضوعات اسی سے نقل کرتے ہیں. | اس کے مقابلے میں بعض معتقد ہیں کہ ابن عمر نے پیغمبر اکرم(ص) سے بہت کم روایات نقل کی ہیں، جیسے کہ شعبی کہتا ہے کہ میں ایک سال تک اس کے ساتھ رہا، اور اس سے کوئی حدیث نہیں سنی. [٣٤] اور بعض من جملہ جابر بن عبداللہ اس سے روایت نقل کرتے ہیں. [٣٥] میرزا حسین نوری تحریف قرآن کی ابحاث من جملہ وہ دلائل جن پر اسناد کرتا ہے، تحریف قرآن کے بارے میں اہل سنت کی روایات عبداللہ بن عمر سے ہیں. [٣٦] اسی طرح اہل سنت بعض روایات جیسے کہ امام علی(ع) کی فضیلت، [٣٧] قرآن کی مختلف قرائتیں، [٣٨] صدقہ [٣٩] اور دوسرے موضوعات اسی سے نقل کرتے ہیں. | ||
===زہد اور عبادت=== | |||
اہل سنت کے مآخذ کے مطابق، عبداللہ کوشش کرتا تھا کہ جتنی عبادتیں رسول اکرم(ص) سے دیکھی اور سنی ہیں انہیں انجام دے. اور وہی مقام جہاں پر پیغمبر اکرم(ص) آرام فرماتے تھے اور نماز پڑھتے تھے، سفر کرتا اور اسی مقام پر نماز پڑھتا تھا. [٤٠] اس کے زہد کے بارے میں کہتے ہیں کہ کبھی کسی سے پیسے نہیں مانگے، اس کے باوجود اگر کسی حاکم کی طرف سے کوئی ہدیہ ملتا تو اسے رد نہیں کرتا اور سب ہدیے تحفے قبول کر لیتا تھا. [٤١] اور دنیا پسند نہیں تھا، بہت حج انجام دئیے اور زیادہ صدقہ دیتا تھا. [٤٢] | |||
==وفات== | |||
سالم اپنے والد عبداللہ بن عمر سے نقل کرتا ہے کہ حجاج کے ایک دوست کے نیزے کا سرہ میرے پاؤں پر لگا اور یہی زخم عبداللہ کی بیماری کا باعث بنا. ایک دن حجاج اس کی عیادت کے لئے آیا تو عبداللہ نے کہا تم نے مجھے مارا ہے اور تم نے حکم دیا ہے کہ کچھ لوگ خدا کے حرم میں اپنے ساتھ اسلحہ لے کر آئیں. وہ آخر کار سنہ ٧٣ہجری کو ٨٤سال کی عمر میں اس دنیا سے چل بسا. [٤٣] | |||
ابن عمر نے موت کے وقت وصیت کی کہ اسے حرم کے حصے سے باہر دفن کیا جائے، لیکن اس پر عمل نہ کیا گیا، حجاج نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اسے فخ کے علاقے میں، مہاجرین کی قبروں کے ساتھ دفن کیا. [٤٤] |