مندرجات کا رخ کریں

"عبد اللہ بن عمر" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 10: سطر 10:


==پیغمبر اکرم(ص) کا زمانہ==
==پیغمبر اکرم(ص) کا زمانہ==
عبداللہ بن عمر "جنگ بدر" اور "جنگ احد" کے وقت بچہ تھا، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے اسے جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی. خندق وہ پہلی جنگ تھی جس میں آپ(ص) نے اسے شرکت کی اجازت دی. وہ اس جنگ میں پندرہ سال کا تھا. اس کے بعد دوسری جںگوں میں بھی شرکت کی. [١٠] اہل سنت کے تاریخی مآخذ میں بیان ہوا ہے کہ "جنگ موتہ" میں جب دشمن کی جیت کا احساس ہوا تو، عبداللہ بن عمر اور کچھ دوسرے مسلمان میدان جنگ کو چھوڑ کر مدینہ واپس چلے گئے. بھاگنے کے بعد پیغمبر اکرم(ص) سے معذرت کی اور آپ(ص) نے بھی معاف فرما دیا. [١١]
عبداللہ بن عمر "جنگ بدر" اور "جنگ احد" کے وقت بچہ تھا، اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے اسے جنگ میں شرکت کی اجازت نہیں دی. خندق وہ پہلی جنگ تھی جس میں آپ(ص) نے اسے شرکت کی اجازت دی. وہ اس جنگ میں پندرہ سال کا تھا. اس کے بعد دوسری جنگوں میں بھی شرکت کی. [١٠] اہل سنت کے تاریخی مآخذ میں بیان ہوا ہے کہ "جنگ موتہ" میں جب دشمن کی جیت کا احساس ہوا تو، عبداللہ بن عمر اور کچھ دوسرے مسلمان میدان جنگ کو چھوڑ کر مدینہ واپس چلے گئے. بھاگنے کے بعد پیغمبر اکرم(ص) سے معذرت کی اور آپ(ص) نے بھی معاف فرما دیا. [١١]


==پہلے تین خلیفہ کا زمانہ==
==پہلے تین خلیفہ کا زمانہ==
سطر 31: سطر 31:


اسی طرح معاویہ نے خلافت کے بارے میں میں، اپنے بیٹے یزید سے کہا کہ مجھے چند افراد سے ڈر لگتا ہے کہ وہ خلافت کو لے لیں گے ان میں ایک عبداللہ بن عمر ہے اور اس کے بعد کہا، کہ عبداللہ نے عبادت اور پارسائی کو اپنا پیشہ بنایا ہوا ہے اس لئے اگر سب لوگ تمہاری بیعت کریں گے تو سب کے بعد، وہ بھی تمہاری بیعت کر لے گا. [٢٥]
اسی طرح معاویہ نے خلافت کے بارے میں میں، اپنے بیٹے یزید سے کہا کہ مجھے چند افراد سے ڈر لگتا ہے کہ وہ خلافت کو لے لیں گے ان میں ایک عبداللہ بن عمر ہے اور اس کے بعد کہا، کہ عبداللہ نے عبادت اور پارسائی کو اپنا پیشہ بنایا ہوا ہے اس لئے اگر سب لوگ تمہاری بیعت کریں گے تو سب کے بعد، وہ بھی تمہاری بیعت کر لے گا. [٢٥]
==یزید کی بیعت==
معاویہ کی وفات کے بعد، مدینہ کے حاکم ولید بن عتبہ نے عبداللہ سے کہا کہ وہ یزید کے ساتھ بیعت کرے، عبداللہ نے کہا کہ اسے اختلاف پسند نہیں ہے، لیکن اگر سب لوگوں نے بیعت کر لی، تو وہ بھی کر لے گا اور چونکہ اس نے کوئی مخالفت نہ کی اس لئے اسے چھوڑ دیا گیا. [٢٦] واقدی کہتا ہے "ولید بن عتبہ جب ابن زبیر اور حسین سے بیعت نہ لے سکا تو وہ رات کے وقت مکہ کی طرف روانہ ہوئے. راستے میں عبداللہ بن عمر نے انہیں دیکھا اور سوال کیا کہ مدینہ میں کیا خبر چل رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ معاویہ کی موت اور یزید کی بیعت. ابن عمر نے ان سے کہا کہ خدا سے ڈریں اور مسلمانوں کے اکٹھ کو نہ بکھیریں، اس کے بعد کچھ عرصہ تک مدینہ رہا اور جب دیکھا کہ مختلف شہروں کے لوگ یزید کے ساتھ بیعت کر رہے ہیں تو وہ بھی ولید کے پاس گیا اور بیعت کر لی." [٢٧] اور کہا: "اگر (خیر) بھلائی ہے تو راضی ہیں اور اگر مصیبت ہے ہے تو صبر کریں گے". [٢٨]
کچھ مدت کے بعد جب لوگوں نے یزید سے بیعت توڑ دی تو، عبداللہ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ یزید کے ساتھ ہماری بیعت، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول(ص) کے ساتھ بیعت تھی اور میں نے پیغمبر اکرم(ص) سے سنا ہے کہ اگر کوئی اپنی بیعت کو توڑے گا تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے. اسی لئے اگر کوئی یزید سے بیعت توڑے گا تو میرا اس کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رہے گا.[٢٩]
اس کے بعد کہا گیا ہے کہ عبداللہ نے حجاج کے ساتھ بیعت کی، وہ رات کو تا کہ اسے لوگ نہ دیکھیں حجاج کے گھر بیعت کے لئے جاتا ہے اور حجاج بھی اسی لئے اپنے پاؤں کو کمبل سے باہر نکالتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ اس کے پاؤں کے ساتھ بیعت کرو. [٣٠]
==علمائے اہل سنت کے قول==
ابن عمر کی شخصیت اپنے والد کی طرح یہ تھی کہ وہ اہل سنت کے سیاسی اور دینی تفکرات کو خاص اہمیت دیتا تھا. وہ پیغمبر اکرم(ص) کے صحابی ہونے کے علاوہ، دوسرے خلیفہ کا فرزند بھی تھا. [٣١] ان دو رتبوں کے علاوہ اہل سنت اسے پیغمبر اکرم(ص) اور ابوبکر، اور عمر کی احادیث کا راوی بھی کہتے ہیں، اور خلیفہ کا فرزںد ہونے کی وجہ سے، اسے زیادہ اہمیت دیتے ہیں. [٣٢] ابن اثیر نے عبداللہ کے بارے میں بہت فضائل نقل کیے ہیں اور اسے اہل سنت کے بزرگوں سے کہا ہے اور یہ کہ اس نے پیغمبر(ص) کے بعد ساٹھ سال تک فتوے دئیے ہیں. [٣٣]
اس کے مقابلے میں بعض معتقد ہیں کہ ابن عمر نے پیغمبر اکرم(ص) سے بہت کم روایات نقل کی ہیں، جیسے کہ شعبی کہتا ہے کہ میں ایک سال تک اس کے ساتھ رہا، اور اس سے کوئی حدیث نہیں سنی. [٣٤] اور بعض من جملہ جابر بن عبداللہ اس سے روایت نقل کرتے ہیں. [٣٥] میرزا حسین نوری تحریف قرآن کی ابحاث من جملہ وہ دلائل جن پر اسناد کرتا ہے، تحریف قرآن کے بارے میں اہل سنت کی روایات عبداللہ بن عمر سے ہیں. [٣٦] اسی طرح اہل سنت بعض روایات جیسے کہ امام علی(ع) کی فضیلت، [٣٧] قرآن کی مختلف قرائتیں، [٣٨] صدقہ [٣٩] اور دوسرے موضوعات اسی سے نقل کرتے ہیں.
گمنام صارف