مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ کربلا" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 298: سطر 298:
امام حسین(ع) نے اتمام حجت کی خاطر اپنے کچھ ساتھیوں سمیت دشمن کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و نصیحت فرمائی۔<ref>خوارزمی، مقتل‌الحسین(ع)، ج۱، ص۲۵۲؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۹۶-۳۹۸.</ref> امام(ع) کی گفتگو کے بعد [[زہیر بن قین]] نے آپ(ع) کی فضیلت بیان کرتے ہوئے دشمن کو وعظ و نصیحت کی۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، صص۴۲۴-۴۲۷</ref>
امام حسین(ع) نے اتمام حجت کی خاطر اپنے کچھ ساتھیوں سمیت دشمن کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و نصیحت فرمائی۔<ref>خوارزمی، مقتل‌الحسین(ع)، ج۱، ص۲۵۲؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۹۶-۳۹۸.</ref> امام(ع) کی گفتگو کے بعد [[زہیر بن قین]] نے آپ(ع) کی فضیلت بیان کرتے ہوئے دشمن کو وعظ و نصیحت کی۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، صص۴۲۴-۴۲۷</ref>


عاشورا کے دن کے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ [[حر بن یزید ریاحی]] کا [[لشکر عمر بن سعد]] سے نکل کر امام حسین(ع) کے لشکر میں شامل ہونا ہے۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۷؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۹؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین(ع)، ج۲، ص۹.</ref>
روز عاشورا کے اہم واقعات میں سے ایک [[حر بن یزید ریاحی]] کا [[لشکر عمر بن سعد]] سے نکل کر امام حسین(ع) کے لشکر میں شامل ہونا ہے۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۷؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۹؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین(ع)، ج۲، ص۹.</ref>


<!--
شروع میں دونوں لشکر گروہی شکل میں ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے۔ بعض تاریخی منابع کے مطابق پہلے ہی حملے میں امام حسین(ع) کے 50 اصحاب شہید ہو گئے۔ اس کے بعد انفرادی طور پر تن بہ تن لڑائی شروع ہوئی۔ امام(ع) کے با وفا اصحاب دشمن کو امام حسین(ع) کے نزدیک ہونے نہیں دیتے تھے۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۹-۴۳۰</ref> غیر ہاشمی اصحاب اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد بنی ہاشم کے جوان یکے بعد دیگرے میدان میں جانے لگے اور بنی ہاشم میں سے سب سے پہلے میدان میں جانے والا جوان [[حضرت علی اکبر]] تھا۔<ref>بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۶۱-۳۶۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل‌الطالبیین، ص۸۰؛ دینوری، اخبارالطوال، ص۲۵۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶؛ جعفر ابن نما، مثیرالاحزان، ص۶۸.</ref> ان کے بعد ایک ایک کر کے امام بنی ہاشم کے جوانوں نے اپنی اپنی قربانی پیش کیں۔ [[عباس بن علی|ابوالفضل العباس(ع)]] جو لشکر کے علمدار اور خیموں کے محافظ تھے، نہر فرات سے خیمہ گاہ حسینی میں پانی لاتے ہوئے دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶-۴۴۹؛ ابن‌شہرآشوب، مناقب، ج۴، ص۱۰۸.</ref>


مروی ہے کہ امام حسین (ع) کی نظر دشمن کی سپاہ عظیم پر پڑی تو آپ نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور التجا کی: "بار خدایا! تو ہے ہر دشواری میں سہارا اور میری امید ہے ہر مشکل میں، الجھنوں میں میری امیدیں صرف تجھ سے وابستہ ہیں اور کس قدر زيادہ ہیں وہ غم جو دلوں کو تحمل سے خالی کردیتے ہیں اور انہیں رفع دفع کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ کیا غموم ہیں جن میں ہمار دوست ہمیں تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور دشمن ہم پر ملامت کرتا ہے اور میں صرف تیری طرف رغبت کی بنا پر ـ نہ کہ دوسروں کی طرف رغبت کی وجہ سے ـ ان غموں کی شکایت تیرے حضور لایا ہوں اور تو نے ان میں میرے لئے فراخی قرار دی ہے اور ان غموں اور دشواریوں کو میرے لئے ہموار کردیا ہے۔ پس تو ہے ہر نعمت کا ولی اور صرف تیری ہیں ساری خوبیاں اور تو ہی ہے ہر مقصود کی انتہا"۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص423؛ المفید، الارشاد، ج2، ص96 و ابن اثیر، الکامل، بیروت، ج4، صص60-61۔</ref>
بنی‌ہاشم کے جوانوں کی شہادت کے بعد امام حسین(ع) خود جنگ کیلئے تیار ہوئے لیکن دشمن کے لشکر سے آپ کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے کوئی میدان میں آنے کیلئے تیار نہ تھے۔ جنگ کے دوران باوجود اینکہ آپ(ع) تنہا تھے اور آپ کا بدن زخموں سے چور چور تھا، آپ نہایت بہادری کے ساتھ تلوار چلاتے تھے۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۲؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۱؛ ابن‌مسکویہ، تجارب‌الامم، ج۲، ص۸۰؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۷.</ref>
 
صبح ہی سے ـ یا شاید تھوڑی دیر بعد سے ـ اصحاب میں سے کئی افراد ـ خیموں کے بیچوں بیچ پہرہ دے رہے تھے کہ سپاہ یزید میں سے کوئی خیموں کے قریب نہ آئے اور کئی اشقیاء وہیں ہلاک کئے گئے۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص438؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3،ص394۔</ref>
 
در ابتدای جنگ، حملات بہ صورت گروہی انجام شد. طبق بعضی روایات تاریخی، تا ۵۰ تن از یاران امام، در اولین حملہ بہ شہادت رسیدند. پس از آن، یاران امام بہ صورت فردی و یا دو نفری بہ مبارزہ رفتند. اصحاب اجازہ نمی‌دادند کسی از سپاہ دشمن بہ حسین(ع) نزدیک شود.<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۹-۴۳۰</ref> پس از شہادت اصحاب غیر ہاشمی امام حسین(ع) در صبح و بعداز ظہر عاشورا، یاران [[بنی‌ہاشم|بنی‌ہاشمی]] حسین(ع) برای نبرد پیش آمدند. اولین کسی کہ از [[بنی ہاشم]] از حسین(ع) اجازہ میدان طلبید و بہ شہادت رسید، [[علی اکبر]] بود.<ref>بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۶۱-۳۶۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل‌الطالبیین، ص۸۰؛ دینوری، اخبارالطوال، ص۲۵۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶؛ جعفر ابن نما، مثیرالاحزان، ص۶۸.</ref> پس از او دیگر خاندان امام نیز یکی پس از دیگری بہ میدان رفتند و بہ شہادت رسیدند. [[عباس بن علی|ابوالفضل العباس(ع)]]، پرچمدار سپاہ و محافظ خیمہ‌ہا نیز در نبرد با نگہبانان [[رود فرات|شریعہ فرات]] بہ شہادت رسید.<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶-۴۴۹؛ ابن‌شہرآشوب، مناقب، ج۴، ص۱۰۸.</ref>
 
پس از شہادت بنی‌ہاشم، امام حسین(ع) عازم نبرد شد، اما از سپاہ کوفہ تا مدتی کسی برای رویارویی با آن حضرت پا پیش نمی‌نہاد. در میانہ نبرد، علیرغم تنہایی حسین(ع) و زخم‌ہای سنگینی کہ بر سر و بدن او وارد شدہ بود، حسین(ع) بی‌مہابا شمشیر می‌زد.<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۲؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۱؛ ابن‌مسکویہ، تجارب‌الامم، ج۲، ص۸۰؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۷.</ref>


==امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد کے واقعات==
==امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد کے واقعات==
پس از آنکہ سنان سر امام را بہ خولی داد. سپاہیان عمر سعد ہر چہ را کہ حضرت بہ تن داشت، غارت کردند. [[قیس بن اشعث]] و [[بحر بن کعب]]، (لباس‌)<ref>ابن‌اثیر، الکامل، ج۴، ص۷۸؛ طبری، ج۵، ص۵۴۳.</ref>، [[اسود بن خالد اودی]] (نعلین‌)، [[جمیع بن خلق اودی]] (شمشیر)، [[اخنس بن مرثد]] ([[عمامہ]])، [[بجدل بن سلیم]] (انگشتر) و [[عمر بن سعد]]، (زرہ)<ref>سید بن طاوس، اللہوف، ص۱۳۰.</ref> آن حضرت را ربودند.
آپ کی شہادت کے بعد دشمن کی فوج نے آپ کے جسم مبارک پر موجود ہر چیز لوٹ کر لے گئے؛ [[قیس بن اشعث]] اور [[بحر بن کعب]] نے آپ کی قمیص <ref>ابن‌اثیر، الکامل، ج۴، ص۷۸؛ طبری، ج۵، ص۵۴۳.</ref>، [[اسود بن خالد اودی]] نے آپ کے نعلین‌، [[جمیع بن خلق اودی]] نے آپ کی تلوار شمشیر، [[اخنس بن مرثد]] نے آپ کا [[عمامہ]]، [[بجدل بن سلیم]] نے آپ کی انگوٹھی اور [[عمر بن سعد]] نے آپ کا زرہ۔<ref>سید بن طاوس، اللہوف، ص۱۳۰.</ref>


=== غارت خیمہ‌ہا===
=== خیموں کی غارت گری===<!--
سپس، سپاہ دشمن بہ خیمہ‌ہا ہجوم بردند و آنچہ بود بہ غنیمت گرفتند. آنان در این امر بر یکدیگر سبقت می‌رفتند.<ref>قمی، نفس المہموم، ص۴۷۹</ref> شمر بہ قصد کشتن امام سجاد(ع)ہمراہ گروہی از سپاہیان، وارد خیمہ‌گاہ شدند کہ زینب(س) مانع این کار شد. بہ نقلی دیگر برخی از سپاہیان عمر بن سعد بہ این امر اعتراض کردند.<ref>قمی، نفس المہموم، ص۴۷۹-۴۸۰.</ref> عمر بن سعد دستور داد زنان حرم را در چادری جمع کردند و تعدادی را بر محافظت آنان گماشت.<ref>قمی، نفس المہموم، ص۴۸۲؛ نک: طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۴-۴۵۳</ref>
سپس، سپاہ دشمن بہ خیمہ‌ہا ہجوم بردند و آنچہ بود بہ غنیمت گرفتند. آنان در این امر بر یکدیگر سبقت می‌رفتند.<ref>قمی، نفس المہموم، ص۴۷۹</ref> شمر بہ قصد کشتن امام سجاد(ع)ہمراہ گروہی از سپاہیان، وارد خیمہ‌گاہ شدند کہ زینب(س) مانع این کار شد. بہ نقلی دیگر برخی از سپاہیان عمر بن سعد بہ این امر اعتراض کردند.<ref>قمی، نفس المہموم، ص۴۷۹-۴۸۰.</ref> عمر بن سعد دستور داد زنان حرم را در چادری جمع کردند و تعدادی را بر محافظت آنان گماشت.<ref>قمی، نفس المہموم، ص۴۸۲؛ نک: طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۴-۴۵۳</ref>


سطر 384: سطر 378:


=== حر بن یزید ریاحی کی توبہ ===
=== حر بن یزید ریاحی کی توبہ ===
{{اصلی|حر بن یزید ریاحی}}
[[عاشورا]] کے روز حر بن یزید نے جب دیکھا کہ کوفیان [[امام حسین ؑ]] کے قتل کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں تو لشکر کو چھوڑ کر [[حضرت امام حسین]] ؑ سے مل گئے۔بالآخر انکی معیت میں جنگ کرتے ہوئے [[شہادت]] سے ہمکنار ہوئے۔ندامت کی وجہ سے کوفی لشکر کو چھوڑ کر حضرت امام حسین سے ملحق ہونے کی وجہ سے شیعہ ان کی نہایت عظمت و احترام کے قائل ہیں۔اسی وجہ سے شیعہ حضرات امید ،وبولیت توبہ اور کامیابی کے نمونے کے طور حضرت حر کو پہچانتے ہیں۔


مروی ہے کہ حر بن یزید ریاحی نے امام حسین(ع) سے اجازت طلب کی کہ سب سے پہلے سپاہ [[یزید بن معاویہ|یزید]] پر حملہ آور ہوں چنانچہ [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے انہیں اجازت دی اور حر بن یزید نے یزیدی لشکر پر حملہ کیا اور لڑتے رہے حتی کہ جام شہادت نوش کرگئے۔<ref>المفید، الارشاد، ج2، ص104۔</ref>


=== عمر بن سعد کی طرف سے جنگ کا آغاز ===
=== عمر بن سعد کی طرف سے جنگ کا آغاز ===
confirmed، templateeditor
8,935

ترامیم