"واقعہ کربلا" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 288: | سطر 288: | ||
حبیب ابن مظاہر دوسرے اصحاب کے ہمراہ ننگی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بلند آواز سے کہا: "اے حریم [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ| رسول خدا(ص)]] یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں یہاں تک کہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انہیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں میں گھونپ دیں جنہوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہیں۔<ref>المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص 219۔</ref> | حبیب ابن مظاہر دوسرے اصحاب کے ہمراہ ننگی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بلند آواز سے کہا: "اے حریم [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ| رسول خدا(ص)]] یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں یہاں تک کہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انہیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں میں گھونپ دیں جنہوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہیں۔<ref>المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص 219۔</ref> | ||
=== روز عاشورا کے واقعات=== | === روز عاشورا کے واقعات=== | ||
{{اصلی|روز عاشورا کے واقعات}} | {{اصلی|روز عاشورا کے واقعات}} | ||
عاشورا کی صبح کو امام حسین (ع) نے اپنے اصحاب کے ساتھ [[نماز]] ادا کی۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص423۔</ref> نماز کے بعد آپ نے اپنی مختصر فوج(32 سوار اور 40 پیادہ) <ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ احمد دینوری، الاخبار الطوال، ص 256، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص101، ابن اثیر، الکامل، ج5، ص59۔</ref> کے صفوں کو منظم فرمایا۔ آپ نے لشکر کے دائیں بازو کو [[زہیر بن قین]] اور بائیں بازو کو [[حبیب بن مظاہر]] کے سپرد کیا اور پرچم بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|ابوالفضل العباس(ع)]] کے حوالے کیا۔<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص256؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید؛ الارشاد، ج2، ص95، ابن اثیر، الکامل، ج4، ص59۔</ref> | عاشورا کی صبح کو امام حسین (ع) نے اپنے اصحاب کے ساتھ [[نماز]] ادا کی۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص423۔</ref> نماز کے بعد آپ نے اپنی مختصر فوج(32 سوار اور 40 پیادہ) <ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ احمد دینوری، الاخبار الطوال، ص 256، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص101، ابن اثیر، الکامل، ج5، ص59۔</ref> کے صفوں کو منظم فرمایا۔ آپ نے لشکر کے دائیں بازو کو [[زہیر بن قین]] اور بائیں بازو کو [[حبیب بن مظاہر]] کے سپرد کیا اور پرچم بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|ابوالفضل العباس(ع)]] کے حوالے کیا۔<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص256؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید؛ الارشاد، ج2، ص95، ابن اثیر، الکامل، ج4، ص59۔</ref> | ||
[[ | میدان کے دوسری جانب [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] نے اپنے لشکر کے ـ جو ایک قول کے مطابق 4000 افراد پر مشتمل تھاـ<ref>سید بن طاوس نے اللہوف، ص119 اور عبد الرزاق الموسوی المقرم نے مقتل الحسین(ع)، ص276 پر لکھا ہے کہ آخر وقت امام(ع) 30000 ہزار کے لشکر کو بھیڑ بکریوں کی طرح ادھر ادھر مار بھگاتے تھے۔ جس سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ لشکر کی تعداد 30000 تھی۔</ref> صفوں کو منظم کیا، عمرو بن حجاج زبیدی کو میمنہ، [[شمر بن ذی الجوشن]] کو میسرہ، [[عزرة بن قیس احمسی]] کو سوار دستے اور [[شبث بن ربعی]] کو پیادہ دستے کی کمانڈ دے دی۔ <ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422-426۔</ref> | ||
اسی [[عبداللہ بن زہیر اسدی]] کو کوفیوں، [[عبدالرحمن بن ابی اسیرہ]] کو [[مذحج]] اور [[بنو اسد]]، [[قیس بن اشعث]] بن قیس کو بنی ربیعہ اور کندہ اور [[حر بن یزید ریاحی]] کو بنی [[بنو تمیم|تمیم]] اور [[بنی ہمدان|ہمدان]] کی امارت دی اور پرچم کو اپنے غلام زوید (یا درید) کے سپرد کر کے<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید، الارشاد، ج2، صص95-96 و ابن اثیر، الکامل، ج4، ص60۔</ref> [[امام حسین علیہ السلام|ابو عبداللہ الحسین(ع)]] کے خلاف صف آرا ہوا۔ | |||
امام حسین(ع) نے اتمام حجت کی خاطر اپنے کچھ ساتھیوں سمیت دشمن کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و نصیحت فرمائی۔<ref>خوارزمی، مقتلالحسین(ع)، ج۱، ص۲۵۲؛ بلاذری، انسابالاشراف، ج۳، ص۳۹۶-۳۹۸.</ref> امام(ع) کی گفتگو کے بعد [[زہیر بن قین]] نے آپ(ع) کی فضیلت بیان کرتے ہوئے دشمن کو وعظ و نصیحت کی۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، صص۴۲۴-۴۲۷</ref> | |||
عاشورا کے دن کے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ [[حر بن یزید ریاحی]] کا [[لشکر عمر بن سعد]] سے نکل کر امام حسین(ع) کے لشکر میں شامل ہونا ہے۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۷؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۹؛ خوارزمی، مقتلالحسین(ع)، ج۲، ص۹.</ref> | |||
<!-- | |||
مروی ہے کہ امام حسین (ع) کی نظر دشمن کی سپاہ عظیم پر پڑی تو آپ نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور التجا کی: "بار خدایا! تو ہے ہر دشواری میں سہارا اور میری امید ہے ہر مشکل میں، الجھنوں میں میری امیدیں صرف تجھ سے وابستہ ہیں اور کس قدر زيادہ ہیں وہ غم جو دلوں کو تحمل سے خالی کردیتے ہیں اور انہیں رفع دفع کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ کیا غموم ہیں جن میں ہمار دوست ہمیں تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور دشمن ہم پر ملامت کرتا ہے اور میں صرف تیری طرف رغبت کی بنا پر ـ نہ کہ دوسروں کی طرف رغبت کی وجہ سے ـ ان غموں کی شکایت تیرے حضور لایا ہوں اور تو نے ان میں میرے لئے فراخی قرار دی ہے اور ان غموں اور دشواریوں کو میرے لئے ہموار کردیا ہے۔ پس تو ہے ہر نعمت کا ولی اور صرف تیری ہیں ساری خوبیاں اور تو ہی ہے ہر مقصود کی انتہا"۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص423؛ المفید، الارشاد، ج2، ص96 و ابن اثیر، الکامل، بیروت، ج4، صص60-61۔</ref> | مروی ہے کہ امام حسین (ع) کی نظر دشمن کی سپاہ عظیم پر پڑی تو آپ نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور التجا کی: "بار خدایا! تو ہے ہر دشواری میں سہارا اور میری امید ہے ہر مشکل میں، الجھنوں میں میری امیدیں صرف تجھ سے وابستہ ہیں اور کس قدر زيادہ ہیں وہ غم جو دلوں کو تحمل سے خالی کردیتے ہیں اور انہیں رفع دفع کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ کیا غموم ہیں جن میں ہمار دوست ہمیں تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور دشمن ہم پر ملامت کرتا ہے اور میں صرف تیری طرف رغبت کی بنا پر ـ نہ کہ دوسروں کی طرف رغبت کی وجہ سے ـ ان غموں کی شکایت تیرے حضور لایا ہوں اور تو نے ان میں میرے لئے فراخی قرار دی ہے اور ان غموں اور دشواریوں کو میرے لئے ہموار کردیا ہے۔ پس تو ہے ہر نعمت کا ولی اور صرف تیری ہیں ساری خوبیاں اور تو ہی ہے ہر مقصود کی انتہا"۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص423؛ المفید، الارشاد، ج2، ص96 و ابن اثیر، الکامل، بیروت، ج4، صص60-61۔</ref> | ||
صبح ہی سے ـ یا شاید تھوڑی دیر بعد سے ـ اصحاب میں سے کئی افراد ـ خیموں کے بیچوں بیچ پہرہ دے رہے تھے کہ سپاہ یزید میں سے کوئی خیموں کے قریب نہ آئے اور کئی اشقیاء وہیں ہلاک کئے گئے۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص438؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3،ص394۔</ref> | صبح ہی سے ـ یا شاید تھوڑی دیر بعد سے ـ اصحاب میں سے کئی افراد ـ خیموں کے بیچوں بیچ پہرہ دے رہے تھے کہ سپاہ یزید میں سے کوئی خیموں کے قریب نہ آئے اور کئی اشقیاء وہیں ہلاک کئے گئے۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص438؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3،ص394۔</ref> | ||
در ابتدای جنگ، حملات بہ صورت گروہی انجام شد. طبق بعضی روایات تاریخی، تا ۵۰ تن از یاران امام، در اولین حملہ بہ شہادت رسیدند. پس از آن، یاران امام بہ صورت فردی و یا دو نفری بہ مبارزہ رفتند. اصحاب اجازہ نمیدادند کسی از سپاہ دشمن بہ حسین(ع) نزدیک شود.<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۹-۴۳۰</ref> پس از شہادت اصحاب غیر ہاشمی امام حسین(ع) در صبح و بعداز ظہر عاشورا، یاران [[بنیہاشم|بنیہاشمی]] حسین(ع) برای نبرد پیش آمدند. اولین کسی کہ از [[بنی ہاشم]] از حسین(ع) اجازہ میدان طلبید و بہ شہادت رسید، [[علی اکبر]] بود.<ref>بلاذری، انسابالاشراف، ج۳، ص۳۶۱-۳۶۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتلالطالبیین، ص۸۰؛ دینوری، اخبارالطوال، ص۲۵۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶؛ جعفر ابن نما، مثیرالاحزان، ص۶۸.</ref> پس از او دیگر خاندان امام نیز یکی پس از دیگری بہ میدان رفتند و بہ شہادت رسیدند. [[عباس بن علی|ابوالفضل العباس(ع)]]، پرچمدار سپاہ و محافظ خیمہہا نیز در نبرد با نگہبانان [[رود فرات|شریعہ فرات]] بہ شہادت رسید.<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶-۴۴۹؛ ابنشہرآشوب، مناقب، ج۴، ص۱۰۸.</ref> | در ابتدای جنگ، حملات بہ صورت گروہی انجام شد. طبق بعضی روایات تاریخی، تا ۵۰ تن از یاران امام، در اولین حملہ بہ شہادت رسیدند. پس از آن، یاران امام بہ صورت فردی و یا دو نفری بہ مبارزہ رفتند. اصحاب اجازہ نمیدادند کسی از سپاہ دشمن بہ حسین(ع) نزدیک شود.<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۹-۴۳۰</ref> پس از شہادت اصحاب غیر ہاشمی امام حسین(ع) در صبح و بعداز ظہر عاشورا، یاران [[بنیہاشم|بنیہاشمی]] حسین(ع) برای نبرد پیش آمدند. اولین کسی کہ از [[بنی ہاشم]] از حسین(ع) اجازہ میدان طلبید و بہ شہادت رسید، [[علی اکبر]] بود.<ref>بلاذری، انسابالاشراف، ج۳، ص۳۶۱-۳۶۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتلالطالبیین، ص۸۰؛ دینوری، اخبارالطوال، ص۲۵۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶؛ جعفر ابن نما، مثیرالاحزان، ص۶۸.</ref> پس از او دیگر خاندان امام نیز یکی پس از دیگری بہ میدان رفتند و بہ شہادت رسیدند. [[عباس بن علی|ابوالفضل العباس(ع)]]، پرچمدار سپاہ و محافظ خیمہہا نیز در نبرد با نگہبانان [[رود فرات|شریعہ فرات]] بہ شہادت رسید.<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶-۴۴۹؛ ابنشہرآشوب، مناقب، ج۴، ص۱۰۸.</ref> |