مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ کربلا" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 271: سطر 271:


اس موقع پر سب سے پہلے آپ کی اہل بیت پھر آپ کے اصحاب نے پرجوش انداز میں امام کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا اور اپنی جانوں کو آپ پر قربان کرنے اور آپ سے دفاع کرنے کی عزم کا اظہار کیا۔ تاریخی منابع میں اس گفتگو کے بعض حصوں کو ذکر کیا گیا ہے۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۹۱-۹۴؛ طبرسی، إعلام الوری بأعلام الہدی، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۲۳۹</ref>
اس موقع پر سب سے پہلے آپ کی اہل بیت پھر آپ کے اصحاب نے پرجوش انداز میں امام کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا اور اپنی جانوں کو آپ پر قربان کرنے اور آپ سے دفاع کرنے کی عزم کا اظہار کیا۔ تاریخی منابع میں اس گفتگو کے بعض حصوں کو ذکر کیا گیا ہے۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۹۱-۹۴؛ طبرسی، إعلام الوری بأعلام الہدی، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۲۳۹</ref>
====اصحاب کی وفاداری کے حوالے سے حضرت زینب(س) کی نگرانی ====<!--
====اصحاب کی وفاداری کے حوالے سے حضرت زینب(س) کی نگرانی ====
آدھی رات کو [[امام حسین علیہ السلام|ابو عبداللہ الحسین]](ع) اطراف میں واقع پہاڑیوں اور دروں کا معائنہ کرنے کے لئے باہر نکلے تو [[نافع بن ہلال بجلی|نافع بن ہلال جملی]] کو معلوم ہوا اور [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔
آدھی رات کو [[امام حسین علیہ السلام|ابو عبداللہ الحسین]](ع) اطراف میں واقع پہاڑیوں اور دروں کا معائنہ کرنے کے لئے باہر نکلے تو [[نافع بن ہلال بجلی|نافع بن ہلال جملی]] کو معلوم ہوا اور [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔


خیام کے اطراف کا معائنہ کرنے کے بعد امام حسین(ع) بہن [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|زینب کبری(س)]] کے خیمے میں داخل ہوئے۔ [[نافع بن ہلال بجلی|نافع بن ہلال]] خیمے کے باہر منتظر بیٹھے تھے اور سن رہے تھے کہ [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|زینب(س)]] نے [[امام حسین علیہ السلام|بھائی حسین]](ع) سے عرض کیا:
خیام کے اطراف کا معائنہ کرنے کے بعد امام حسین(ع) بہن [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|زینب کبری(س)]] کے خیمے میں داخل ہوئے۔ [[نافع بن ہلال بجلی|نافع بن ہلال]] خیمے کے باہر منتظر بیٹھے تھے اور سن رہے تھے کہ [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|زینب(س)]] نے [[امام حسین علیہ السلام|بھائی]] سے عرض کیا:


کیا آپ نے اپنے اصحاب کو آزمایا ہے؟ مجھے اندیشہ یہ ہے کہ وہ بھی ہم سے منہ پھیر لیں اور جنگ کے دوران آپ کو دشمن کی تحویل میں دےدیں
کیا آپ نے اپنے اصحاب کو آزمایا ہے؟ مجھے ہے کہ کہیں یہ لوگ بھی ہم سے منہ پھیر لیں اور جنگ کے دوران آپ کو دشمن کے حوالے کر دیں


امام حسین (ع) نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نے انہیں آزما لیا ہے اور انہیں دیکھا کہ سینہ سپر ہوگئے ہیں اس طرح سے کہ موت کو گوشۂ چشم سے دیکھتے ہیں اور میری راہ میں موت سے ـ ماں کے سینے سے طفل شیرخوار کی انسیت کی مانند ـ انسیت رکھتے ہیں۔
امام حسین (ع) نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نے انہیں آزما لیا ہے اور انہیں سینہ سپر ہو کر جنگ کیلئے اس طرح آمادہ پایا ہے کہ گویا یہ لوگ میری رکاب میں جنگ کرنے کو شیرخوار بچے کی اپنی ماں کے ساتھ رکھنے والی انسیت کی طرح انس رکھتے ہیں۔


نافع نے محسوس کیا کہ اہل بیتِ امام حسین آپ کے اصحاب کی وفاداری کے سلسلے میں فکرمند ہیں چنانچہ وہ [[حبیب بن مظاہر|حبیب بن مظاہر اسدی]] سے مشورہ کرنے گئے اور دونوں نے آپس کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر اہل بیتِ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]] کو یقین دلائیں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک امام حسین(ع) کا دفاع کریں گے۔
نافع نے جب محسوس کیا کہ اہل بیتِ امام حسین(ع) آپ کے اصحاب کی وفاداری کے سلسلے میں فکرمند ہیں چنانچہ وہ [[حبیب بن مظاہر|حبیب بن مظاہر اسدی]] سے مشورہ کرنے گئے اور دونوں نے آپس کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر امام(ع) کے اہل بیتِ کو یقین دلائیں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک امام حسین(ع) کا دفاع کریں گے۔


حبیب بن مظاہر نے اصحاب امام حسین (ع) کو بلایا اور ان کے ہمراہ سونتی ہوئی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بآواز بلند کہا: "اے حریم [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ| رسول خدا(ص)]] یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں تا آنکہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انہیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں گھونپ دیں جنہوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہے۔<ref>المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص 219۔</ref>
حبیب بن مظاہر نے اصحاب امام حسین (ع) کو بلایا، [[بنی ہاشم]] کو خیموں میں واپس بھیج دیا پھر اصحاب سے مخاطب ہو کر جو کچھ نافع نے امام حسین(ع) اور حضرت زینب سے سنا تھا، کو دھرایا۔


تمام اصحاب نے کہا: "اس خدا کی قسم جس نے ہمارے اوپر احسان کرکے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، اگر امام حسین(ع) کے حکم کی انتظار میں نہ کرتے تو ابھی ان (دشمنوں) پر حملہ کرتے اور اپنے جانوں کو امام پر قربان کرنے کے ذریعے پاک اور اپنی آنکھوں کو بہشت کی دیدار سے منور کرتے۔"


حبیب ابن مظاہر دوسرے اصحاب کے ہمراہ ننگی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بلند آواز سے کہا: "اے حریم [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ| رسول خدا(ص)]] یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں یہاں تک کہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انہیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں میں گھونپ دیں جنہوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہیں۔<ref>المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص 219۔</ref>


پس از آن گفتگو حسین(ع) بہ اردوگاہ برگشتند و وارد خیمہ خواہرشان [[زینب کبری|زینب(س)]] شدند. نافع بن ہلال در بیرون خیمہ منتظر حسین(ع) نشستہ بود کہ شنید حضرت زینب(س) بہ حسین(ع) عرض کرد:
=== روز عاشورا کے واقعات===<!--
:::«آیا شما یارانتان را آزمودہ‌اید؟ از این نگرانم کہ آنان نیز بہ ما پشت کنند و در ہنگامہ درگیری شما را تسلیم دشمن کنند.»
{{اصلی|روز عاشورا کے واقعات}}
عاشورا کی صبح کو امام حسین (ع) نے اپنے اصحاب کے ساتھ [[نماز]] ادا کی۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص423۔</ref> نماز کے بعد آپ نے اپنی مختصر فوج(32 سوار اور 40 پیادہ) <ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ احمد دینوری، الاخبار الطوال، ص 256، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص101، ابن اثیر، الکامل، ج5، ص59۔</ref> کے صفوں کو منظم فرمایا۔ آپ نے لشکر کے دائیں بازو کو [[زہیر بن قین]] اور بائیں بازو کو [[حبیب بن مظاہر]] کے سپرد کیا اور پرچم بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|ابوالفضل العباس(ع)]] کے حوالے کیا۔<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص256؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید؛ الارشاد، ج2، ص95، ابن اثیر، الکامل، ج4، ص59۔</ref>


حسین(ع) در پاسخ فرمود:
[[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے حکم پر، اصحاب نے خیموں کو اپنے عقب میں قرار دیا،<ref>المفید؛ الارشاد، ج2، ص96۔</ref> اور ان کے اطراف میں بنی خندق میں پہلے سے موجود لکڑیوں اور جڑی بوٹیوں کو آگ لگا دی تا کہ عقب سے دشمن کی یلغار ممکن نہ ہو۔<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص423-426؛ المفید، الارشاد، ج2، ص96۔</ref>
:::«بہ خدا سوگند، این‌ہا را امتحان کردہ‌ام و آنان را مردانی یافتم کہ سینہ سپر کردہ‌اند، بہ گونہ‌ای کہ مرگ را بہ گوشہ چشمان‌شان می‌نگرند و بہ [[مرگ]] در راہ من چنان شیرخوارہ بہ سینہ مادرش انس دارند.»


نافع ہنگامی کہ احساس کرد اہل بیت امام حسین(ع) نگران وفاداری و استقامت اصحاب ہستند، نزد [[حبیب بن مظاہر]] رفتہ و با مشورت او، تصمیم گرفتند با ہمراہی بقیہ اصحاب بہ حسین(ع) و اہل بیت ایشان اطمینان دہند کہ تا آخرین قطرہ خون از ایشان دفاع خواہند کرد.<ref>الدمعۃ الساکبۃ ج۴، ص۲۷۳-۲۷۴.</ref>
میدان کے دوسرے سرے پر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] نے نماز کے بعد اپنے لشکر کے لئے ـ جو ایک قول کے مطابق 4000 افراد پر مشتمل تھاـ<ref>سید بن طاوس نے اللہوف، ص119 اور عبد الرزاق الموسوی المقرم نے مقتل الحسین(ع)، ص276 پر لکھا ہے کہ آخر وقت امام(ع) 30000 ہزار کے لشکر کو بھیڑ بکریوں کی طرح ادھر ادھر مار بھگاتے تھے۔ جس سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ لشکر کی تعداد 30000 تھی۔</ref> سالار معین کئے، اس نے [[عمرو بن حجاج زبیدی]] کو میمنہ پر، [[شمر بن ذی الجوشن]] کو میسرہ پر، [[عزرة بن قیس احمسی]] کو سواروں پر اور [[شبث بن ربعی]] کو پیادوں پر مقرر کیا۔<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422-426۔</ref>


حبیب بن مظاہر یاران حسین(ع) را ندا داد تا جمع شوند. سپس بہ [[بنی ہاشم]] گفت: بہ خیمہ‌ہای خویش باز گردند؛ بعد رو بہ اصحاب کرد و آن چہ را کہ از نافع شنیدہ بود، بازگو کرد.
ہمگی گفتند: «بہ آن خدایی کہ بر ما منت نہاد کہ در این جایگاہ قرار بگیریم، اگر انتظار فرمان حسین(ع) نبودیم، اکنون با شتاب بر آنان حملہ می‌کردیم تا جان خویش را پاک و چشم را روشن سازیم».


حبیب بہ ہمراہ اصحاب با شمشیرہای کشیدہ و یک صدا بہ نزدیک حرم اہل بیت(ع) رسیدہ و گفت: «ای حریم رسول خدا(ص)! این شمشیرہای جوانان و جوانمردان شماست کہ بہ غلاف نخواہد رفت تا این کہ گردن بدخواہان شما را بزند. این نیزہ‌ہای پسران شماست، سوگند یاد کردہ‌اند کہ آن را تنہا در سینہ کسانی کہ از دعوتتان سر بر تافتہ‌اند فرو برند.»<ref> مقرم، مقتل‌الحسین، ص۲۱۹.</ref>
عمر بن سعد نے [[عبداللہ بن زہیر اسدی]] کو کوفہ کے شہریوں، [[عبدالرحمن بن ابی اسیرہ]] کو [[مذحج]] اور [[بنو اسد]]، [[قیس بن اشعث]] بن قیس کو [[ربیعہ]] اور [[کندہ]] اور [[حر بن یزید ریاحی]] کو [[بنو تمیم]] اور [[ہمدان]] کی امارت دی اور پرچم کو اپنے غلام زوید (یا درید) کے سپرد کیا<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید، الارشاد، ج2، صص95-96 و ابن اثیر، الکامل، ج4، ص60۔</ref> اور [[امام حسین علیہ السلام|ابو عبداللہ الحسین(ع)]] کے خلاف صف آرا ہوا۔


امان نامہ مسترد ہونے کے بعد [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ جنگ کی تیاری کرے؛ چنانچہ سب سوار ہوئے اور نو محرم {یعنی [[تاسوعا]]  کے دن) [[امام حسین علیہ السلام|حسین(ع)]] اور [[اصحاب حسین|اور آپ کے اصحاب]] کے خلاف جنگ شروع کرنے کے لئے تیار ہوئے۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص184؛ الطبری، وہی ماخذ، ص416 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص249 و طبرسی، وہی ماخذ، ج1، ص454۔</ref>
مروی ہے کہ امام حسین (ع) کی نظر دشمن کی سپاہ عظیم پر پڑی تو آپ نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور التجا کی: "بار خدایا! تو ہے ہر دشواری میں سہارا اور میری امید ہے ہر مشکل میں، الجھنوں میں میری امیدیں صرف تجھ سے وابستہ ہیں اور کس قدر زيادہ ہیں وہ غم جو دلوں کو تحمل سے خالی کردیتے ہیں اور انہیں رفع دفع کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ کیا غموم ہیں جن میں ہمار دوست ہمیں تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور دشمن ہم پر ملامت کرتا ہے اور میں صرف تیری طرف رغبت کی بنا پر ـ نہ کہ دوسروں کی طرف رغبت کی وجہ سے ـ ان غموں کی شکایت تیرے حضور لایا ہوں اور تو نے ان میں میرے لئے فراخی قرار دی ہے اور ان غموں اور دشواریوں کو میرے لئے ہموار کردیا ہے۔ پس تو ہے ہر نعمت کا ولی اور صرف تیری ہیں ساری خوبیاں اور تو ہی ہے ہر مقصود کی انتہا"۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص423؛ المفید، الارشاد، ج2، ص96 و ابن اثیر، الکامل، بیروت، ج4، صص60-61۔</ref>
 
صبح ہی سے ـ یا شاید تھوڑی دیر بعد سے ـ اصحاب میں سے کئی افراد ـ خیموں کے بیچوں بیچ پہرہ دے رہے تھے کہ سپاہ یزید میں سے کوئی خیموں کے قریب نہ آئے اور کئی اشقیاء وہیں ہلاک کئے گئے۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص438؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3،ص394۔</ref>


=== روز عاشورا کے واقعات===
{{اصلی|روز عاشورا کے واقعات}}
[[امام حسین(ع)]] پس از اقامہ نماز صبح،<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۳</ref> صفوف نیروہای خود (۳۲ تن سوارہ و ۴۰ تن پیادہ)<ref> بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۹۵؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۲؛ دینوری، اخبارالطوال، ص۲۵۶؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۰۱؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۵۹.</ref> را منظم کرد. حسین(ع) برای اتمام حجت، سوار بر اسب شد و ہمراہ با گروہی از یاران بہ سوی لشکر دشمن پیش رفت و آنان را موعظہ نمود.<ref>خوارزمی، مقتل‌الحسین(ع)، ج۱، ص۲۵۲؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۹۶-۳۹۸.</ref> پس از سخنان حسین(ع)، [[زہیر بن قین]] آغاز بہ سخن کرد و از فضایل حسین(ع) گفت و بہ موعظہ پرداخت.<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، صص۴۲۴-۴۲۷</ref>
[[امام حسین(ع)]] پس از اقامہ نماز صبح،<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۳</ref> صفوف نیروہای خود (۳۲ تن سوارہ و ۴۰ تن پیادہ)<ref> بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۹۵؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۲؛ دینوری، اخبارالطوال، ص۲۵۶؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۰۱؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۵۹.</ref> را منظم کرد. حسین(ع) برای اتمام حجت، سوار بر اسب شد و ہمراہ با گروہی از یاران بہ سوی لشکر دشمن پیش رفت و آنان را موعظہ نمود.<ref>خوارزمی، مقتل‌الحسین(ع)، ج۱، ص۲۵۲؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۹۶-۳۹۸.</ref> پس از سخنان حسین(ع)، [[زہیر بن قین]] آغاز بہ سخن کرد و از فضایل حسین(ع) گفت و بہ موعظہ پرداخت.<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، صص۴۲۴-۴۲۷</ref>


سطر 367: سطر 367:


==صبح عاشورا کے واقعات==
==صبح عاشورا کے واقعات==
عاشورا کی کی صبح کو امام حسین (ع) نے اپنے اصحاب کے ساتھ [[نماز]] ادا کی۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص423۔</ref> نماز کے بعد آپ نے اپنی 40 سواروں اور 32 پیادوں پر مشتمل سپاہ کی صفیں<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ احمد دینوری، الاخبار الطوال، ص 256، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص101، ابن اثیر، الکامل، ج5، ص59۔</ref> منظم کیا۔ آپ نے لشکر کے دائیں بازو (میمنہ) کو [[زہیر بن قین]] اور بائیں بازو (میسرہ) کو [[حبیب بن مظاہر]] کے سپرد کیا اور پرچم بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|ابوالفضل العباس(ع)]] کے حوالے کیا۔<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص256؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید؛ الارشاد، ج2، ص95، ابن اثیر، الکامل، ج4، ص59۔</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے حکم پر، اصحاب نے خیموں کو اپنے عقب میں قرار دیا،<ref>المفید؛ الارشاد، ج2، ص96۔</ref> اور ان کے اطراف میں بنی خندق میں پہلے سے موجود لکڑیوں اور جڑی بوٹیوں کو آگ لگا دی تا کہ عقب سے دشمن کی یلغار ممکن نہ ہو۔<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص423-426؛ المفید، الارشاد، ج2، ص96۔</ref>


میدان کے دوسرے سرے پر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] نے نماز کے بعد اپنے لشکر کے لئے ـ جو ایک قول کے مطابق 4000 افراد پر مشتمل تھاـ<ref>سید بن طاوس نے اللہوف، ص119 اور عبد الرزاق الموسوی المقرم نے مقتل الحسین(ع)، ص276 پر لکھا ہے کہ آخر وقت امام(ع) 30000 ہزار کے لشکر کو بھیڑ بکریوں کی طرح ادھر ادھر مار بھگاتے تھے۔ جس سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ لشکر کی تعداد 30000 تھی۔</ref> سالار معین کئے، اس نے [[عمرو بن حجاج زبیدی]] کو میمنہ پر، [[شمر بن ذی الجوشن]] کو میسرہ پر، [[عزرة بن قیس احمسی]] کو سواروں پر اور [[شبث بن ربعی]] کو پیادوں پر مقرر کیا۔<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422-426۔</ref>
عمر بن سعد نے [[عبداللہ بن زہیر اسدی]] کو کوفہ کے شہریوں، [[عبدالرحمن بن ابی اسیرہ]] کو [[مذحج]] اور [[بنو اسد]]، [[قیس بن اشعث]] بن قیس کو [[ربیعہ]] اور [[کندہ]] اور [[حر بن یزید ریاحی]] کو [[بنو تمیم]] اور [[ہمدان]] کی امارت دی اور پرچم کو اپنے غلام زوید (یا درید) کے سپرد کیا<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید، الارشاد، ج2، صص95-96 و ابن اثیر، الکامل، ج4، ص60۔</ref> اور [[امام حسین علیہ السلام|ابو عبداللہ الحسین(ع)]] کے خلاف صف آرا ہوا۔
مروی ہے کہ امام حسین (ع) کی نظر دشمن کی سپاہ عظیم پر پڑی تو آپ نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور التجا کی: "بار خدایا! تو ہے ہر دشواری میں سہارا اور میری امید ہے ہر مشکل میں، الجھنوں میں میری امیدیں صرف تجھ سے وابستہ ہیں اور کس قدر زيادہ ہیں وہ غم جو دلوں کو تحمل سے خالی کردیتے ہیں اور انہیں رفع دفع کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ کیا غموم ہیں جن میں ہمار دوست ہمیں تنہا چھوڑ دیتے ہیں اور دشمن ہم پر ملامت کرتا ہے اور میں صرف تیری طرف رغبت کی بنا پر ـ نہ کہ دوسروں کی طرف رغبت کی وجہ سے ـ ان غموں کی شکایت تیرے حضور لایا ہوں اور تو نے ان میں میرے لئے فراخی قرار دی ہے اور ان غموں اور دشواریوں کو میرے لئے ہموار کردیا ہے۔ پس تو ہے ہر نعمت کا ولی اور صرف تیری ہیں ساری خوبیاں اور تو ہی ہے ہر مقصود کی انتہا"۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص423؛ المفید، الارشاد، ج2، ص96 و ابن اثیر، الکامل، بیروت، ج4، صص60-61۔</ref>
صبح ہی سے ـ یا شاید تھوڑی دیر بعد سے ـ اصحاب میں سے کئی افراد ـ خیموں کے بیچوں بیچ پہرہ دے رہے تھے کہ سپاہ یزید میں سے کوئی خیموں کے قریب نہ آئے اور کئی اشقیاء وہیں ہلاک کئے گئے۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص438؛ البلاذری، انساب الاشراف، ج3،ص394۔</ref>


===امام(ع) اور اصحاب کے خطابات===
===امام(ع) اور اصحاب کے خطابات===
confirmed، templateeditor
8,935

ترامیم