مندرجات کا رخ کریں

"عبادت" کے نسخوں کے درمیان فرق

111 بائٹ کا ازالہ ،  30 دسمبر 2020ء
سطر 46: سطر 46:


== عبادت کے آداب اور شرائط ==
== عبادت کے آداب اور شرائط ==
عبادت کے اعمال کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے لیے کچھ آداب اور شرائط رکھے گئے ہیں جیسے خلوص، میانہ روی، عالمانہ طریقے سے عبادت کرنا، عبادت میں [[صبر]] کرنا، خشوع و خضوع، [[طہارت]] اور عبادت کا محل اور وقت۔
عبادت کے اعمال کو بہتر طریقے سے انجام دینے کے لیے کچھ آداب اور شرائط رکھے گئے ہیں جیسے خلوص، میانہ روی، عالمانہ طریقے سے عبادت کرنا، عبادت میں [[صبر]] کرنا، خشوع و خضوع، [[طہارت]] اور عبادت کا موقع محل۔
* '''خلوص:''' عبادت کی قبولیت کو ایک عبادت کرنے والے کے اندر موجود خلوص  کے درجے سے مربوط مانا گیا گیا مانا گیا گیا ہے۔ [[علامہ طباطبائی]] کی نظر میں خلوص کا مطلب یہ ہے کہ عبادت میں غیر خدا کو ذہن و دل میں نہ لائے اور اپنے عمل میں کسی کو شریک قرار نہ دے۔  آپ کی نظر میں عبادت اس وقت خالصانہ ہوگی جس وقت وقت نہ تو دل میں کسی جزا کا لالچ ہو اور نہ کسی سزا کا خوف ہو۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۱، ص۲۶۔</ref>  عبادت کے خالصانہ ہونے کا مسئلہ ایسا ہے کہ جس کا قرآن کی پچاس آیتوں میں تذکرہ ہوا ہے۔<ref>مرکز فرہنگ و معارف قرآن، برگزیدہ فرہنگ قرآن، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۲۵۶۔</ref> جوامع روائی میں بھی خلوص کو عبادت کی  شرط قرار دیا گیا ہے اور ایسے شخص سے دوری اختیار کرنے کے لیے کہا گیا ہے جو عبادت کے ذریعہ سے شہرت تک پہنچنا تک پہنچنا چاہتا ہو۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ۲۵۶۔</ref>
* '''خلوص:''' عبادت کی قبولیت کو ایک عبادت کرنے والے کے اندر موجود خلوص  کے درجے سے مربوط مانا گیا ہے۔ [[علامہ طباطبائی]] کی نظر میں خلوص کا مطلب یہ ہے کہ عبادت میں غیر خدا کو ذہن و دل میں نہ لائے اور اپنے عمل میں کسی کو شریک قرار نہ دے۔  آپ کی نظر میں عبادت اس وقت خالصانہ ہوگی جس وقت نہ تو دل میں کسی جزا کا لالچ ہو اور نہ کسی سزا کا خوف ہو۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۱، ص۲۶۔</ref>  عبادت کے خالصانہ ہونے کا مسئلہ ایسا ہے کہ جس کا قرآن کی پچاس آیتوں میں تذکرہ ہوا ہے۔<ref>مرکز فرہنگ و معارف قرآن، برگزیدہ فرہنگ قرآن، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۲۵۶۔</ref> جوامع روائی میں بھی خلوص کو عبادت کی  شرط قرار دیا گیا ہے اور ایسے شخص سے دوری اختیار کرنے کے لیے کہا گیا ہے جو عبادت کے ذریعہ سے شہرت تک پہنچنا چاہتا ہو۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ۲۵۶۔</ref>
* '''میانہ روی:''' عبادت کے اانجام دینے کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں اعتدال اور میانہ روی کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ مفسرین نے [[سورہ اسراء]] کی ایک سو دس ویں آیت {{قرآن کا متن|«وَابْتَغِ بَینَ ذَٰلِک سَبِیلًا»}} سے استناد کیا ہے جس میں نماز کو [[جہر]] اور [[اخفات]] کے درمیان اخوات کے درمیان کی حالت میں پڑھنے کے لئے تاکید کی گئی ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت ہمارے تمام اعمال کے لئے نمونہ ہے اور تمام مسائل میں میانہ روی سے کام لینا چاہیے خصوصاً عبادت میں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۱۳، ص۲۲۵؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۲، ص۳۲۹؛ سیوطی، الدرالمنثور، ۱۴۰۴ھ، ج۴، ص۲۰۶-۲۰۸؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰، ج۲۱، ص۴۱۹-۴۲۰۔</ref> روایت میں بھی عبادت کے اندر میانہ روی روی کے اندر میانہ روی پر تاکید کرنے کے لئے بہت سی داستانیں بیان کی گئی ہیں؛<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۴۳۔</ref> ان روایات میں دین [[اسلام]] کو دین اعتدال و میانہ روی کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جس کے مطابق ہر [[مسلمان]] کی پوری زندگی استوار ہونا چاہئے، روایات کے مطابق عبادت میں میانہ روی کا ایک اثر یہ ہے کہ عبادت کا شوق ہوتا ہے اور اس سے خستگی نہیں ہوتی؛<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۸، ص۲۱۳۔</ref> [[سورہ نسا]] کی 142 ویں آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ [[پیغمبر اسلام]] صلی اللہ علیہ وآلہ ایک روایت میں بندگان خدا کے اوپر ایسی عبادت تھوپنے سے روکتے ہیں جن کے لئے ان کا دل نہ چاہ رہا ہو۔ اور آپ نے اس مثال ایسے درماندہ سوار کی طرح بتائی ہے جس نے نہ کوئی سفر کیا ہے اور نہ ہی کوئی سواری چھوڑی ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۸۶۔</ref> [[حضرت علی علیہ السلام]] نے بھی [[نہج البلاغہ]] میں فرمایا ہے کہ اگر [[واجبات]] کو نقصان پہنچ رہا ہو تو [[مستحبات]] کو ترک کردینا چاہئے۔
* '''میانہ روی:''' عبادت کے انجام دینے کے آداب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس میں اعتدال اور میانہ روی کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ مفسرین نے [[سورہ اسراء]] کی 110 ویں آیت {{قرآن کا متن|«وَابْتَغِ بَینَ ذَٰلِک سَبِیلًا»}} سے استناد کیا ہے جس میں نماز کو [[جہر]] اور [[اخفات]] کے درمیان کی حالت میں پڑھنے کے لئے تاکید کی گئی ہے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت ہمارے تمام اعمال کے لئے نمونہ ہے اور تمام مسائل میں میانہ روی سے کام لینا چاہیے خصوصاً عبادت میں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ھ، ج۱۳، ص۲۲۵؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۲، ص۳۲۹؛ سیوطی، الدرالمنثور، ۱۴۰۴ھ، ج۴، ص۲۰۶-۲۰۸؛ فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰، ج۲۱، ص۴۱۹-۴۲۰۔</ref> روایات میں بھی عبادت کے اندر میانہ روی پر تاکید کرنے کے لئے بہت سی داستانیں بیان کی گئی ہیں؛<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۴۳۔</ref> ان روایات میں دین [[اسلام]] کو دین اعتدال و میانہ روی کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے جس کے مطابق ہر [[مسلمان]] کی پوری زندگی اسی پر استوار ہونا چاہئے، روایات کے مطابق عبادت میں میانہ روی کا ایک اثر یہ ہے کہ عبادت کا شوق ہوتا ہے اور اس سے خستگی نہیں ہوتی؛<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۸، ص۲۱۳۔</ref> [[سورہ نسا]] کی 142 ویں آیت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ [[پیغمبر اسلام]] صلی اللہ علیہ وآلہ ایک روایت میں بندگان خدا کے اوپر ایسی عبادت تھوپنے سے روکتے ہیں جن کے لئے ان کا دل نہ چاہ رہا ہو۔ اور آپ نے اس کی مثال ایسے درماندہ سوار کی طرح بتائی ہے جس نے نہ کوئی سفر کیا ہے اور نہ ہی کوئی سواری چھوڑی ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۸۶۔</ref> [[حضرت علی علیہ السلام]] نے بھی [[نہج البلاغہ]] میں فرمایا ہے کہ اگر [[واجبات]] کو نقصان پہنچ رہا ہو تو [[مستحبات]] کو ترک کردینا چاہئے۔
* '''عالمانہ طریقے سے عبادت کرنا:''' علم و آگاہی کے ساتھ اور تفکر کے ہمراہ عبادت کو انجام دینا عبادت کے کمال اور قبولیت کی شرط ہے۔<ref>فیض کاشانی، محجۃ البیضاء، ۱۳۸۳ھ، ج۱، ص۳۶۶۔</ref> قرآن میں ایسی عبادت و نماز سے روکا گیا ہے جس میں انسان ہوشیاری اور آگاہی کی حالت نہ رکھتا ہو۔<ref>سورہ نساء، آیہ ۴۳۔</ref> روایات میں جاہل انسان کی عبادت کو کولھو کے بیل (حمار الطاحونۃ) سے تشبیہ دی گئی ہے اور عالم کی دو [[رکعت]] نماز کو جاہل کی ستر رکعت سے افضل بتایا گیا ہے؛<ref>مفید، الاختصاص، ۱۴۱۳ھ، ۲۴۵۔</ref> ان متون میں عبادت کے نتیجہ مثلا گناہوں کی مغفرت کو علم و تفکر کے ساتھ عبادت کرنے سے مشروط کیا گیا ہے۔<ref>کلینی،‌ الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۳، ص۲۶۶۔</ref>  
* '''عالمانہ طریقے سے عبادت کرنا:''' علم و آگاہی کے ساتھ اور تفکر کے ہمراہ عبادت کو انجام دینا عبادت کے کمال اور قبولیت کی شرط ہے۔<ref>فیض کاشانی، محجۃ البیضاء، ۱۳۸۳ھ، ج۱، ص۳۶۶۔</ref> قرآن میں ایسی عبادت و نماز سے روکا گیا ہے جس میں انسان ہوشیاری اور آگاہی کی حالت نہ رکھتا ہو۔<ref>سورہ نساء، آیہ ۴۳۔</ref> روایات میں جاہل انسان کی عبادت کو کولھو کے بیل (حمار الطاحونۃ) سے تشبیہ دی گئی ہے اور عالم کی دو [[رکعت]] نماز کو جاہل کی ستر رکعت سے افضل بتایا گیا ہے؛<ref>مفید، الاختصاص، ۱۴۱۳ھ، ۲۴۵۔</ref> ان متون میں عبادت کے نتیجہ مثلا گناہوں کی مغفرت کو علم و تفکر کے ساتھ عبادت کرنے سے مشروط کیا گیا ہے۔<ref>کلینی،‌ الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۳، ص۲۶۶۔</ref>  
* ''' عبادت میں صبر کرنا:''' عبادت انجام دینے کی ایک شرط یہ ہے کہ اس کو راہ اطاعت میں صبر و تحمل کے ساتھ انجام دیا جائے۔ [[سورہ مریم]] 65 ویں آیت میں [[رسول اللہ]] صلی اللہ علیہ وآلہ سے مخاطب ہوکر عبادت میں صبر و تحمل سے کام لینے کی سفارش ہوئی ہے۔ روایات میں بھی صبر کی ایک قسم کو عبادت میں صبر قرار دیا گیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۹۱۔</ref>
* ''' عبادت میں صبر کرنا:''' عبادت انجام دینے کی ایک شرط یہ ہے کہ اس کو راہ اطاعت میں صبر و تحمل کے ساتھ انجام دیا جائے۔ [[سورہ مریم]] کی 65 ویں آیت میں [[رسول اللہ]] صلی اللہ علیہ وآلہ سے مخاطب ہوکر عبادت میں صبر و تحمل سے کام لینے کی سفارش ہوئی ہے۔ روایات میں بھی صبر کی ایک قسم کو عبادت میں صبر قرار دیا گیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۹۱۔</ref>
* '''خشوع و خضوع:''' عبادت کے آداب و شرائط میں سے ایک اور یہ ہے کہ عبادت انجام دیتے وقت، خضوع و خشوع کی باطنی حالت پیدا ہو۔ خشوع عبادت یعنی عظمت الہی کے سامنے انتہائی زیادہ گر جانا اور چھوٹا ہو جانا اور عبادت کی قدر و قیمت اس کے خاضعانہ اور خاشعانہ ہونے سے مربوط ہے۔<ref>خمینی، آداب الصلاۃ، ۱۳۷۸ش، ص۱۷۔</ref> [[قرآن کریم]] نے [[مؤمنین]] کی صفت کو حالت خشوع میں نماز پڑھنا بیان کیا ہے۔<ref>سورہ مؤمنون، آیہ ۲۔</ref>اور روایات کی رو سے بندہ کی عبادت اس وقت عبادت کہلانے کے قابل ہوسکتی ہے جب اس میں خشوع وخضوع پایا جاتا ہو۔<ref>مجلسی،‌ بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۸۱، ص۲۳۰۔</ref> قرآن کریم میں قساوت قلب کو ذکر خدا کے مقابل میں خشوع وخضوع کی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔<ref>سورہ حدید، آیہ ۱۶۔</ref>
* '''خشوع و خضوع:''' عبادت کے آداب و شرائط میں سے ایک اور یہ ہے کہ عبادت انجام دیتے وقت، خضوع و خشوع کی باطنی حالت پیدا ہو۔ خشوع عبادت یعنی عظمت الہی کے سامنے انتہائی زیادہ گر جانا اور چھوٹا ہو جانا اور عبادت کی قدر و قیمت اس کے خاضعانہ اور خاشعانہ ہونے سے مربوط ہے۔<ref>خمینی، آداب الصلاۃ، ۱۳۷۸ش، ص۱۷۔</ref> [[قرآن کریم]] نے [[مؤمنین]] کی صفت کو حالت خشوع میں نماز پڑھنا بیان کیا ہے۔<ref>سورہ مؤمنون، آیہ ۲۔</ref>اور روایات کی رو سے بندہ کی عبادت اس وقت عبادت کہلانے کے قابل ہوسکتی ہے جب اس میں خشوع وخضوع پایا جاتا ہو۔<ref>مجلسی،‌ بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۸۱، ص۲۳۰۔</ref> قرآن کریم کے اندر ذکر خدا کے مقابل میں قساوت قلب کو خشوع وخضوع کی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔<ref>سورہ حدید، آیہ ۱۶۔</ref>
* '''طہارت:''' بہت سے عبادی اعمال کو انجام دینے کے لئے طہارت کی شرط رکھی گئی ہے۔ [[سورہ نساء]] کی 43 ویں آیت میں طہارت کی حالت میں نماز پڑھنے کو جائز شمار کیا گیا ہے اور دوسری آیتوں میں عبادت کے مقامات اور [[مسجد]] کی طہارت کو امور مذہبی کے منتظمین کا فرض بتایا گیا ہے۔<ref>سورہ بقرہ، آیہ ۱۲۵؛ سورہ حج، آیہ ۲۶۔</ref>
* '''طہارت:''' بہت سے عبادی اعمال کو انجام دینے کے لئے طہارت کی شرط رکھی گئی ہے۔ [[سورہ نساء]] کی 43 ویں آیت میں طہارت کی حالت میں نماز پڑھنے کو جائز شمار کیا گیا ہے اور دوسری آیتوں میں عبادت کے مقامات اور [[مسجد]] کی طہارت کو امور مذہبی کے منتظمین کا فرض بتایا گیا ہے۔<ref>سورہ بقرہ، آیہ ۱۲۵؛ سورہ حج، آیہ ۲۶۔</ref>
* '''عبادت کا محل اور وقت''' بھی عبادت کی تاثیر میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ [[اہل بیت]] علیہم السلام کی سیرت اور روایات میں آیا ہے کہ وہ اپنی عبادت کے لئے ایک خاص جگہ مہیا کرتے تھے اور دن رات میں ایک خاص وقت کو نماز و دعا کے لئے قرار دیتے تھے۔<ref>برقی، محاسن، ۱۳۷۱ھ، ج۲، ص۶۱۲۔</ref>
* '''عبادت کا موقع محل:''' بھی عبادت کی تاثیر میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ [[اہل بیت]] علیہم السلام کی سیرت اور روایات میں آیا ہے کہ وہ اپنی عبادت کے لئے ایک خاص جگہ مہیا کرتے تھے اور دن رات میں سے ایک خاص وقت کو نماز و دعا کے لئے قرار دیتے تھے۔<ref>برقی، محاسن، ۱۳۷۱ھ، ج۲، ص۶۱۲۔</ref>


== عبادت کا مظہر اور مصداق ==
== عبادت کا مظہر اور مصداق ==
17

ترامیم