مندرجات کا رخ کریں

"آستانہ حضرت معصومہ (ع)" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 32: سطر 32:
| حوالہ جات          = }}
| حوالہ جات          = }}


'''آستانہ حضرت معصومہ ؑ'''، روضہ حضرت معصومہ، اس کی عمارتوں، موقوفات اور اس سے مربوط انتظامیہ دفاتر، جن میں اکثر شہر [[قم]] میں واقع ہیں، پر مشتمل ہے۔ [[حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا]] 201 ھ/816 ء میں [[امام علی رضا علیہ السلام]] کے مرو آنے کے ایک سال بعد خراسان کے ارادہ سے روانہ ہوئیں۔ جب ساوہ شہر کے قریب پہچیں تو بیمار ہو گئیں۔ [[موسی بن خرزج اشعری]]، جو قم میں مقیم اشعریوں میں سے تھے، ساوہ گئے اور انہیں [[قم]] لے آئے، اپنے یہاں مہمان رکھا، کچھ مدت کے بعد حضرت معصومہ کی وفات ہو گئی۔ ان کے جنازہ کو باغ بابلان نامی مقام، جہاں آج ان کا روضہ ہے، پر دفن کیا گیا۔
'''آستانہ حضرت معصومہ ؑ''' یا '''روضہ حضرت معصومہ''' یا '''حرم حضرت معصومہ''' اس کی عمارتوں، موقوفات اور اس سے مربوط انتظامیہ دفاتر، جن میں اکثر شہر [[قم]] میں واقع ہیں، پر مشتمل ہے۔ [[حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا]] 201 ھ/816 ء میں [[امام علی رضا علیہ السلام]] کے مرو آنے کے ایک سال بعد خراسان کے ارادہ سے روانہ ہوئیں۔ جب ساوہ شہر کے قریب پہچیں تو بیمار ہو گئیں۔ [[موسی بن خرزج اشعری]]، جو قم میں مقیم اشعریوں میں سے تھے، ساوہ گئے اور انہیں [[قم]] لے آئے، اپنے یہاں مہمان رکھا، کچھ مدت کے بعد حضرت معصومہ کی وفات ہو گئی۔ ان کے جنازہ کو باغ بابلان نامی مقام، جہاں آج ان کا روضہ ہے، پر دفن کیا گیا۔


ان کی قبر پر اولین قبہ علوی خاتون زینب نے تعمیر کرایا۔ اس روضے نے صفویہ دور میں ایک خاص شکوہ و جلال حاصل کیا۔ روضہ میں اولین ضریح شاہ طہماسب اول نے تعمیر کرائی۔ آج آستانہ و بارگاہ حضرت معصومہ ؑ میں دو صحن، صحن عتیق و صحن جدید ہیں۔ اسی طرح سے اس وقت اس درگاہ کے تمام امور مندرج قوانین کے مطابق، اس کے متولی کے ذمہ ہیں۔
ان کی قبر پر اولین قبہ علوی خاتون زینب نے تعمیر کرایا۔ اس روضے نے صفویہ دور میں ایک خاص شکوہ و جلال حاصل کیا۔ روضہ میں اولین ضریح شاہ طہماسب اول نے تعمیر کرائی۔ آج آستانہ و بارگاہ حضرت معصومہ ؑ میں دو صحن، صحن عتیق و صحن جدید ہیں۔ اسی طرح سے اس وقت اس درگاہ کے تمام امور مندرج قوانین کے مطابق، اس کے متولی کے ذمہ ہیں۔


==سوانح حیات==
==سوانح حیات==
اصلی مقالہ: [[حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا]]
اصلی مقالہ: [[حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا]]
===نسب و مدت حیات===
===نسب و مدت حیات===
فاطمہ معصومہ (متوفی 201 ھ/816 ء) [[امام موسی کاظم ؑ]] (128۔183 ھ/745۔799 ء) کی بیٹی ہیں۔ وفات کے وقت ان کی عمر کے سلسلہ میں روایات مخلتف ہیں۔ بعض نے انہیں 18 سالہ اور بعض سے زیادہ ذکر کیا ہے۔ البتہ اس بات کے پیش نظر کہ ان کے والد امام موسی کاظم ؑ کو 179 ھ/795 ء میں ہارون رشید کے حکم سے گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا گیا اور چار سال کے بعد اسی قید میں آپ کی شہادت واقع ہوئی اور جناب معصومہ کی وفات 201 ھ ہوئی۔ اس لحاظ سے وفات کے وقت ان کی عمر کم سے کم 21 یا 22 سال بنتی ہے۔
فاطمہ معصومہ (متوفی 201 ھ/816 ء) [[امام موسی کاظم ؑ]] (128۔183 ھ/745۔799 ء) کی بیٹی ہیں۔ وفات کے وقت ان کی عمر کے سلسلہ میں روایات مخلتف ہیں۔ بعض نے انہیں 18 سالہ اور بعض سے زیادہ ذکر کیا ہے۔ البتہ اس بات کے پیش نظر کہ ان کے والد امام موسی کاظم ؑ کو 179 ھ/795 ء میں ہارون رشید کے حکم سے گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا گیا اور چار سال کے بعد اسی قید میں آپ کی شہادت واقع ہوئی اور جناب معصومہ کی وفات 201 ھ ہوئی۔ اس لحاظ سے وفات کے وقت ان کی عمر کم سے کم 21 یا 22 سال بنتی ہے۔


===شہرت===
===شہرت===
معصومہ کے نام سے مشہور ہونے کی علت اور تاریخ کے سلسلہ میں قطعی طور پر اظہار نظر کرنا مشکل ہے۔ جہان شاہ قرہ قویولنو (9 ھ/15 ء) کے حکم کے مطابق فقط یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسی دور میں آپ معصومہ کے نام سے مشہور ہوئی ہیں۔
معصومہ کے نام سے مشہور ہونے کی علت اور تاریخ کے سلسلہ میں قطعی طور پر اظہار نظر کرنا مشکل ہے۔ جہان شاہ قرہ قویولنو (9 ھ/15 ء) کے حکم کے مطابق فقط یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسی دور میں آپ معصومہ کے نام سے مشہور ہوئی ہیں۔


===سفر ایران اور وفات===
===سفر ایران اور وفات===
حضرت [[فاطمہ معصومہ(س)]] 201 ھ/816 ء میں [[امام علی رضا ؑ]] کے مرو آنے کے ایک سال بعد خراسان جانے کے قصد سے روانہ ہوئیں اور جب ساوہ شہر کے قریب پہچیں تو بیمار ہو گئیں۔ موسی بن خرزج اشعری، جو [[قم]] میں مقیم اشعریوں میں سے تھے، [[ساوہ]] گئے اور انہیں قم لے آئے اور اپنے یہاں مہمان رکھا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق، انہوں نے اپنے خادم سے کہا کہ انہیں قم لے چلیں۔ آپ کی بیماری 17 دن تک چلی اور وفات پر منتہی ہوئی۔  
حضرت [[فاطمہ معصومہ(س)]] 201 ھ/816 ء میں [[امام علی رضا ؑ]] کے مرو آنے کے ایک سال بعد خراسان جانے کے قصد سے روانہ ہوئیں اور جب ساوہ شہر کے قریب پہچیں تو بیمار ہو گئیں۔ موسی بن خرزج اشعری، جو [[قم]] میں مقیم اشعریوں میں سے تھے، [[ساوہ]] گئے اور انہیں قم لے آئے اور اپنے یہاں مہمان رکھا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق، انہوں نے اپنے خادم سے کہا کہ انہیں قم لے چلیں۔ آپ کی بیماری 17 دن تک چلی اور وفات پر منتہی ہوئی۔  


سطر 55: سطر 50:


===محل دفن===
===محل دفن===
آپ کا جنازہ باغ بابلان نامی محلہ میں جہاں اس وقت آپ کا روضہ واقع ہے۔ (جو شہر قم کے باہر موسی اشعری کی ملکیت تھا) دفن کیا گیا۔ حسن قمی نے اس مقام کو مقبرہ بابلان کے نام سے تعبیر کیا ہے، اس لئے کہ موسی بن خزرج اشعری نے جناب معصومہ کی تدفین کے بعد اس باغ کو عمومی قبرستان کے لئے [[وقف]] کر دیا تھا۔  
آپ کا جنازہ باغ بابلان نامی محلہ میں جہاں اس وقت آپ کا روضہ واقع ہے۔ (جو شہر قم کے باہر موسی اشعری کی ملکیت تھا) دفن کیا گیا۔ حسن قمی نے اس مقام کو مقبرہ بابلان کے نام سے تعبیر کیا ہے، اس لئے کہ موسی بن خزرج اشعری نے جناب معصومہ کی تدفین کے بعد اس باغ کو عمومی قبرستان کے لئے [[وقف]] کر دیا تھا۔  


===قیام گاہ===
===قیام گاہ===
موسی بن خزرج نے اس مقام کو جہاں جناب معصومہ نے چند روز قیام کیا تھا، مسجد میں تبدیل کر دیا۔ وہ گھر بھی شہر [[قم]] سے پاہر تھا جو اس وقت سرائے ستیہ، جس سے متصل بیت النور بھی ہے جہاں وہ عبادت کیا کرتی تھیں، کے نام سے مشہور [[زیارت گاہ]] ہے۔
موسی بن خزرج نے اس مقام کو جہاں جناب معصومہ نے چند روز قیام کیا تھا، مسجد میں تبدیل کر دیا۔ وہ گھر بھی شہر [[قم]] سے پاہر تھا جو اس وقت سرائے ستیہ، جس سے متصل بیت النور بھی ہے جہاں وہ عبادت کیا کرتی تھیں، کے نام سے مشہور [[زیارت گاہ]] ہے۔


سطر 65: سطر 58:


==روضہ کا محل وقوع==
==روضہ کا محل وقوع==
باغ بابلان (روضہ معصومہ) نہر کے کنارے اور شہر سے باہر واقع تھا۔ یہ باغ حتی ساتویں آٹھویں صدی ہجری تک بھی شہر سے باہر شمار ہوتا تھا۔ کیونکہ قاضی احمد قمی نے شمس الدین صاحب دیوان سے ذکر کرتے ہیں کہ شہر قم کا قصد کیا اور جب وہاں پہچے تو روضہ مبارک کے پاس جو بیرون شہر تھا، سواری سے اترے۔ اسی طرح سے صفویہ دور کے ایک وقف نامہ کے مطابق، حرم شہر [[قم]] کی فصیل کے باہر تھا۔ جن ایام میں شاردن قم کا دیدار کرنے جاتے تھے اس وقت روضہ کی عمارت اور نہر کے درمیان ایک موٹی و چوڑی اینٹوں کی دیوار بنی ہوئی تھی تا کہ نہر کی طغیانی کی وقت روضے کو نقصان نہ پہچ سکے۔
باغ بابلان (روضہ معصومہ) نہر کے کنارے اور شہر سے باہر واقع تھا۔ یہ باغ حتی ساتویں آٹھویں صدی ہجری تک بھی شہر سے باہر شمار ہوتا تھا۔ کیونکہ قاضی احمد قمی نے شمس الدین صاحب دیوان سے ذکر کرتے ہیں کہ شہر قم کا قصد کیا اور جب وہاں پہچے تو روضہ مبارک کے پاس جو بیرون شہر تھا، سواری سے اترے۔ اسی طرح سے صفویہ دور کے ایک وقف نامہ کے مطابق، حرم شہر [[قم]] کی فصیل کے باہر تھا۔ جن ایام میں شاردن قم کا دیدار کرنے جاتے تھے اس وقت روضہ کی عمارت اور نہر کے درمیان ایک موٹی و چوڑی اینٹوں کی دیوار بنی ہوئی تھی تا کہ نہر کی طغیانی کی وقت روضے کو نقصان نہ پہچ سکے۔


سطر 71: سطر 63:


==تاریخچہ بناء حرم==
==تاریخچہ بناء حرم==
حضرت معصومہ کی وفات اور باغ بابلان میں تدفین کے بعد ان کے روضہ میں تاریخ کے مختلف ادوار میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں اور دھیرے دھیرے اس کی اور اس کے اطراف کی عمارتوں کی وسعت اور شان و شکوہ میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ [[حرم امام رضاؑ]] [[مشہد]] کے بعد ایران کی سب سے شاندار اور مشہور زیارت گاہ میں تبدیل ہو گیا۔ روضے کی بناء اندرون ضریح کے حصہ والی عمارت اور اس کے اطراف میں متصل عمارتوں پر مشتمل ہے۔
حضرت معصومہ کی وفات اور باغ بابلان میں تدفین کے بعد ان کے روضہ میں تاریخ کے مختلف ادوار میں تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں اور دھیرے دھیرے اس کی اور اس کے اطراف کی عمارتوں کی وسعت اور شان و شکوہ میں اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ [[حرم امام رضاؑ]] [[مشہد]] کے بعد ایران کی سب سے شاندار اور مشہور زیارت گاہ میں تبدیل ہو گیا۔ روضے کی بناء اندرون ضریح کے حصہ والی عمارت اور اس کے اطراف میں متصل عمارتوں پر مشتمل ہے۔


===روضہ کی اندرونی عمارت===
===روضہ کی اندرونی عمارت===
====پہلی تعمیر====
====پہلی تعمیر====
حضرت معصومہ کی تدفین کے بعد اشعریوں نے قبر پر بوریے سے سائبان بنایا۔ یہ سائبان باقی تھا یہاں تک کہ زینب نامی علوی خاتون نے اس پر قبہ تعمیر کرایا۔ البتہ زینب کے نسب کے سلسلہ میں اختلاف ہے۔ [[تاریخ قم]] (تالیف: 378ھ، 988ء) کے مولف [[حسن قمی]] نے انہیں [[امام محمد تقی ؑ]] کی بیٹی اور بعض نے حضرت [[موسی مبرقع]] کی دختر تحریر کیا ہے۔ [[شیخ عباس قمی]] کا بھی یہ ماننا ہے کہ امام محمد تقی ؑ کی بیٹی نے قم میں وفات پائی اور حضرت معصومہ کے حرم میں دفن ہوئیں۔ ام محمد و میمونہ، زینب کی بہنیں بھی وہیں دفن ہیں۔<ref> محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۴، ص۳۱۶؛ شیخ عباس قمی، منتهی الامال، ج۲، ص ۴۳۲ </ref>
حضرت معصومہ کی تدفین کے بعد اشعریوں نے قبر پر بوریے سے سائبان بنایا۔ یہ سائبان باقی تھا یہاں تک کہ زینب نامی علوی خاتون نے اس پر قبہ تعمیر کرایا۔ البتہ زینب کے نسب کے سلسلہ میں اختلاف ہے۔ [[تاریخ قم]] (تالیف: 378ھ، 988ء) کے مولف [[حسن قمی]] نے انہیں [[امام محمد تقی ؑ]] کی بیٹی اور بعض نے حضرت [[موسی مبرقع]] کی دختر تحریر کیا ہے۔ [[شیخ عباس قمی]] کا بھی یہ ماننا ہے کہ امام محمد تقی ؑ کی بیٹی نے قم میں وفات پائی اور حضرت معصومہ کے حرم میں دفن ہوئیں۔ ام محمد و میمونہ، زینب کی بہنیں بھی وہیں دفن ہیں۔<ref> محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج۴، ص۳۱۶؛ شیخ عباس قمی، منتهی الامال، ج۲، ص ۴۳۲ </ref>


سطر 86: سطر 75:


====روضہ اور قبہ ستی====
====روضہ اور قبہ ستی====
447ھ، 1055ء میں طغرل سلجوقی امیر ابو الفضل عراقی (455ھ، 1063ء) نے [[شیخ طوسی]] (385۔460ھ، 995۔1067ء) کے مطابق قبر اور قبہ ستی کو تعمیر کرایا۔ اس بناء کی تعمیر 457 ھ، 1065 ء تک ہوئی۔ اس میں ایوان، حجرے اور گل دستے شامل نہیں تھے۔
447ھ، 1055ء میں طغرل سلجوقی امیر ابو الفضل عراقی (455ھ، 1063ء) نے [[شیخ طوسی]] (385۔460ھ، 995۔1067ء) کے مطابق قبر اور قبہ ستی کو تعمیر کرایا۔ اس بناء کی تعمیر 457 ھ، 1065 ء تک ہوئی۔ اس میں ایوان، حجرے اور گل دستے شامل نہیں تھے۔


====مغول و تیمور کے حملے====
====مغول و تیمور کے حملے====
مغولوں کے حملے میں قم بھی نقصان سے محفوظ نہیں رہا۔ البتہ احتمالا روضے کو کوئی ضرر نہیں پہچا۔ کیوکہ امیر عراقی کی بنائی ہوئی عمارت صفویوں کے زمانہ تک باقی تھی۔ بعض نے کہا ہے کہ تیمور گورکانی (736۔807ھ، 1335۔1404ء) نے بھی قم کو ویران کیا لیکن بعض نے قم پر اس کے حملے کا انکار کیا ہے۔
مغولوں کے حملے میں قم بھی نقصان سے محفوظ نہیں رہا۔ البتہ احتمالا روضے کو کوئی ضرر نہیں پہچا۔ کیوکہ امیر عراقی کی بنائی ہوئی عمارت صفویوں کے زمانہ تک باقی تھی۔ بعض نے کہا ہے کہ تیمور گورکانی (736۔807ھ، 1335۔1404ء) نے بھی قم کو ویران کیا لیکن بعض نے قم پر اس کے حملے کا انکار کیا ہے۔


سطر 100: سطر 87:


====توسیع====
====توسیع====
'''ادوار صفویہ'''
'''ادوار صفویہ'''


سطر 124: سطر 110:


===مرقد مطہر===
===مرقد مطہر===
روضہ کی تعمیر اور اس کی عمارت کی تجدید و باز سازی کے بعد 605ھ، 1208ء میں امیر مظفر احمد بن اسماعیل کے اشارہ پر اس وقت بڑے کاشی ساز محمد بن ابی طاہر کاشی قمی یا محمد بن طاہر بن ابی الحسن 8 سال حرم مطہر کے لئے کاشی بنانے میں مشغول رہے اور آخر کار 630ھ 1232ء میں تمام کاشی آمادہ ہوئی اور اسے نصب کیا گیا۔ وہ ساری کاشیاں آج تک باقی ہیں اور آستانہ مقدس میں موجود تمام آثار میں ان کا شمار قدیمی ترین اور قیمتی ترین اشیاء میں ہوتا ہے۔
روضہ کی تعمیر اور اس کی عمارت کی تجدید و باز سازی کے بعد 605ھ، 1208ء میں امیر مظفر احمد بن اسماعیل کے اشارہ پر اس وقت بڑے کاشی ساز محمد بن ابی طاہر کاشی قمی یا محمد بن طاہر بن ابی الحسن 8 سال حرم مطہر کے لئے کاشی بنانے میں مشغول رہے اور آخر کار 630ھ 1232ء میں تمام کاشی آمادہ ہوئی اور اسے نصب کیا گیا۔ وہ ساری کاشیاں آج تک باقی ہیں اور آستانہ مقدس میں موجود تمام آثار میں ان کا شمار قدیمی ترین اور قیمتی ترین اشیاء میں ہوتا ہے۔


سطر 130: سطر 115:


===ضریح===
===ضریح===
قبر مبارک پر پہلی ضریح شاہ طہماسب اول نے نصب کروائی۔ یہ ضریح 950ھ، 1543ء میں اینٹوں سے بنی جس کی لمبائی 80۔4 میٹر، چوڑائی 40۔4 میٹر اور اونچائی 2 میٹر تھی۔
قبر مبارک پر پہلی ضریح شاہ طہماسب اول نے نصب کروائی۔ یہ ضریح 950ھ، 1543ء میں اینٹوں سے بنی جس کی لمبائی 80۔4 میٹر، چوڑائی 40۔4 میٹر اور اونچائی 2 میٹر تھی۔


سطر 138: سطر 122:


==گنبد و گلدستے==
==گنبد و گلدستے==
===گنبد===
===گنبد===
حضرت معصومہ کی قبر پر پہلا گنبد 457 ھ، 1064 ء میں ابو الفضل عراقی نے بنوایا تھا۔ 925 ھ، 1519 ء میں شاہ بیگم صفوی نے اسے ختم کرکے وہاں ایک دوسرا گنبد بنوایا جو آج تک باقی ہے۔ 1518 ھ، 1803 ء میں فتح علی شاہ کے حکم سے اسے 12000 سونے کی اینٹوں سے آراستہ کیا گیا۔ اس گنبد کی اونچائی چھت کی سطح سے 16 میٹر اور سطح زمین سے 32 میٹر ہے۔ اس کا خارجی احاطہ 6،35 و داخلی احاطہ 66،28 اور قطر 12 میٹر ہے۔
حضرت معصومہ کی قبر پر پہلا گنبد 457 ھ، 1064 ء میں ابو الفضل عراقی نے بنوایا تھا۔ 925 ھ، 1519 ء میں شاہ بیگم صفوی نے اسے ختم کرکے وہاں ایک دوسرا گنبد بنوایا جو آج تک باقی ہے۔ 1518 ھ، 1803 ء میں فتح علی شاہ کے حکم سے اسے 12000 سونے کی اینٹوں سے آراستہ کیا گیا۔ اس گنبد کی اونچائی چھت کی سطح سے 16 میٹر اور سطح زمین سے 32 میٹر ہے۔ اس کا خارجی احاطہ 6،35 و داخلی احاطہ 66،28 اور قطر 12 میٹر ہے۔


سطر 204: سطر 186:


===موقوفات===
===موقوفات===
جیسا کہ حسن بن محمد قمی کے قول سے حاصل ہوتا ہے کہ ایام قدیم سے آستانہ حضرت معصومہ (س) میں املاک اور زمینوں کے وقف کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ سالہا سال سے آج تک عوام اور بادشاہوں کی طرف سے اس سلسلہ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آج کی تاریخ میں ان اوقاف میں بہت سے املاک اور باغات کا مزید اضافہ ہو چکا ہے۔
جیسا کہ حسن بن محمد قمی کے قول سے حاصل ہوتا ہے کہ ایام قدیم سے آستانہ حضرت معصومہ (س) میں املاک اور زمینوں کے وقف کا سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ سالہا سال سے آج تک عوام اور بادشاہوں کی طرف سے اس سلسلہ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آج کی تاریخ میں ان اوقاف میں بہت سے املاک اور باغات کا مزید اضافہ ہو چکا ہے۔


سطر 221: سطر 202:
شاہ طہماسب کے فرمان میں جو 948ھ، 1541ء میں اور فرمان شاہ عباس جو 1017ھ، 1608ء میں صادر ہوا ہے۔ اس میں اس زمانہ کے جند متولیوں کے نام کا ذکر ہوا ہے جو سب ایک ہی خاندان سے تھے۔ اس دور میں آستانہ میں کام کرنے والے افراد کے نصب و عزل کی ذمہ داری متولی کے فرایض میں شامل تھی۔ اس کے بعد چند صدیوں کے گذرنے کے بعد تدریجی طور پر متولیوں کے اختیارات میں اضافہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ آج آستانہ کے تمام امور کی ذمہ داری مصوب قوانین کے مطابق، متولی کے سپرد ہے۔
شاہ طہماسب کے فرمان میں جو 948ھ، 1541ء میں اور فرمان شاہ عباس جو 1017ھ، 1608ء میں صادر ہوا ہے۔ اس میں اس زمانہ کے جند متولیوں کے نام کا ذکر ہوا ہے جو سب ایک ہی خاندان سے تھے۔ اس دور میں آستانہ میں کام کرنے والے افراد کے نصب و عزل کی ذمہ داری متولی کے فرایض میں شامل تھی۔ اس کے بعد چند صدیوں کے گذرنے کے بعد تدریجی طور پر متولیوں کے اختیارات میں اضافہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ آج آستانہ کے تمام امور کی ذمہ داری مصوب قوانین کے مطابق، متولی کے سپرد ہے۔


==گوشہ عکس==
==فوٹو گیلری==
 
<center>
<center>
<gallery widths="120" heights="120px" perrow="6" style="border: 5px solid #004225; box-shadow: 0.1em 0.1em 0.5em rgba(0،0،0،0.75); -moz-box-shadow: 0.1em 0.1em 0.5em rgba(0،0،0،0.75); -webkit-box-shadow: 0.1em 0.1em 0.5em rgba(0،0،0،0.75); border-radius: 0.5em; -moz-border-radius: 0.5em; -webkit-border-radius: 0.5em;">
<gallery widths="120" heights="120px" perrow="6" style="border: 5px solid #004225; box-shadow: 0.1em 0.1em 0.5em rgba(0،0،0،0.75); -moz-box-shadow: 0.1em 0.1em 0.5em rgba(0،0،0،0.75); -webkit-box-shadow: 0.1em 0.1em 0.5em rgba(0،0،0،0.75); border-radius: 0.5em; -moz-border-radius: 0.5em; -webkit-border-radius: 0.5em;">
سطر 277: سطر 257:
*محمد طاہر نصرآبادی، تذکرہ، بہ کوشش وحید دستگردی، تہران، ۱۳۱۷ش، ص۷۸.
*محمد طاہر نصرآبادی، تذکرہ، بہ کوشش وحید دستگردی، تہران، ۱۳۱۷ش، ص۷۸.
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
[[Category:قم کی تاریخی عمارتیں]]
[[Category:حرم حضرت معصومہ]]
[[Category:قم میں شیعہ زیارتگاہیں]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:قم کی تاریخی عمارتیں]]
[[Category:حرم حضرت معصومہ]]
[[Category:قم میں شیعہ زیارتگاہیں]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]


[[زمرہ:قم کی تاریخی عمارتیں]]
[[زمرہ:قم کی تاریخی عمارتیں]]
confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم