مندرجات کا رخ کریں

"آستانہ حضرت معصومہ (ع)" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 93: سطر 93:
صفویوں کے زمانہ میں آستانہ حضرت معصومہ کی شان و شوکت میں اضافہ ہو گیا۔ صفویوں نے گنبد اور روضے کی بناء کو مزید مرتفع کیا اور اسے کاشی سے آراستہ و مزین کیا۔ وہ خدام، حفاظ اور زائرین کی پزیرائی کا اہتمام کرتے تھے اور ان کے اخراجات برداشت کرتے تھے۔ اس دور میں انہوں نے دار المومنین قم کو معماری اور آباد کاری کے کمال تک پہچایا۔  
صفویوں کے زمانہ میں آستانہ حضرت معصومہ کی شان و شوکت میں اضافہ ہو گیا۔ صفویوں نے گنبد اور روضے کی بناء کو مزید مرتفع کیا اور اسے کاشی سے آراستہ و مزین کیا۔ وہ خدام، حفاظ اور زائرین کی پزیرائی کا اہتمام کرتے تھے اور ان کے اخراجات برداشت کرتے تھے۔ اس دور میں انہوں نے دار المومنین قم کو معماری اور آباد کاری کے کمال تک پہچایا۔  


امیر ابو الفضل عراقی کی بناء ۹۲۵ ھ۔ ۱۵۱۹ ء تک باقی رہی۔ اسی سال شاہ اسماعیل اول صفوی (متوفی ۹۳۰ھ ۔۱۵۲۳ ء) کی بیٹی شاہ بیگم نے عماد بیگ کے ذریعہ روضے کو ۸ پہلو بناء جو ۸ پہلو چبوتروں پر استوار تھی، تعمیر کرائی اور روضے کی دیواروں کو منقش کاشی سے آراستہ کرایا اور اس کے سامنے کے حصے میں ایک ایوان دو میناروں کے ساتھ تعمیر کرایا اور اس میں ایک صحن کی کئی بقعات اور ایوانات کے ساتھ منصوبہ بندی کی۔ لیکن قاضی میر احمد منشی نے اس بناء کی تاریخ کو ۹۴۶ ھ ۔ ۱۵۳۹ ء اور اس کے بانی کا نام شاہ بیگی بیگم جو مہماد بیگ کی بیٹی تھیں، ذکر کیا ہے جنہوں نے حضرت معصومہ کے روضہ کی عمارت کو بلند کرایا اور تقریبا ایک ہزار تومان کی نفیس املاک کو روضے کے لئے وقف کیا۔
امیر ابو الفضل عراقی کی بناء 925 ھ۔ 1519 ء تک باقی رہی۔ اسی سال شاہ اسماعیل اول صفوی (متوفی 930ھ 1523 ء) کی بیٹی شاہ بیگم نے عماد بیگ کے ذریعہ روضے کو 8 پہلو بناء جو ۸ پہلو چبوتروں پر استوار تھی، تعمیر کرائی اور روضے کی دیواروں کو منقش کاشی سے آراستہ کرایا اور اس کے سامنے کے حصے میں ایک ایوان دو میناروں کے ساتھ تعمیر کرایا اور اس میں ایک صحن کی کئی بقعات اور ایوانات کے ساتھ منصوبہ بندی کی۔ لیکن قاضی میر احمد منشی نے اس بناء کی تاریخ کو 946 ھ ۔ 1539 ء اور اس کے بانی کا نام شاہ بیگی بیگم جو مہماد بیگ کی بیٹی تھیں، ذکر کیا ہے جنہوں نے حضرت معصومہ کے روضہ کی عمارت کو بلند کرایا اور تقریبا ایک ہزار تومان کی نفیس املاک کو روضے کے لئے وقف کیا۔


کجوری و آل بحر العلوم کہتے ہیں: (۵۲۹ ھ، ۱۱۳۴ ء) میں عماد بیگ کی بیٹی شاہ بیگم نے [[حضرت معصومہ(س)]] کے روضہ پر گنبد تعمیر کرایا۔ یہ اقوال بلا شبہہ غلط ہیں۔ اس لئے کتاب النقض کے مولف قزوینی رازی جو (۵۶۰ ھ، ۱۱۶۴ ء) میں تالیف ہوئی ہے اس میں ابو الفضل عراقی کے بناء کا ذکر ہوا ہے لہذا اگر شاہ بیگم نے اس روضہ میں کوئی بھی تعمیراتی کام انجام دیا ہوتا تو اس کا ذکر ہوتا۔
کجوری و آل بحر العلوم کہتے ہیں: (529 ھ، 1134 ء) میں عماد بیگ کی بیٹی شاہ بیگم نے [[حضرت معصومہ(س)]] کے روضہ پر گنبد تعمیر کرایا۔ یہ اقوال بلا شبہہ غلط ہیں۔ اس لئے کتاب النقض کے مولف قزوینی رازی جو (560 ھ، 1164 ء) میں تالیف ہوئی ہے اس میں ابو الفضل عراقی کے بناء کا ذکر ہوا ہے لہذا اگر شاہ بیگم نے اس روضہ میں کوئی بھی تعمیراتی کام انجام دیا ہوتا تو اس کا ذکر ہوتا۔


یہ غلطی ظاہرا ۹۲۵ اور ۵۲۹ جیسے اعداد اور عماد بیگ و مہماد بیگ کی شباہت اور ان کتیبوں کے سبب پیدا ہوئی ہے جسے ان دونوں نے نقل کئے ہیں۔ خاص طور پر فیض نے گنجینہ آثار [[قم]] میں اس غلطی کی جو اس بناء کی تاریخ کے ذکر میں ہوئی ہے، وجہ اس دور کے رسم الخط کے مطابق اعداد کا کتبیوں پر بر عکس تحریر کیا جانا بتائی ہے۔ خود انہوں ںے اس طرح کی تاریخ نویسی کی مثالوں کو دیکھا ہے اور ان کے شواہد پیش کئے ہیں۔
یہ غلطی ظاہرا 925 اور 529 جیسے اعداد اور عماد بیگ و مہماد بیگ کی شباہت اور ان کتیبوں کے سبب پیدا ہوئی ہے جسے ان دونوں نے نقل کئے ہیں۔ خاص طور پر فیض نے گنجینہ آثار [[قم]] میں اس غلطی کی جو اس بناء کی تاریخ کے ذکر میں ہوئی ہے، وجہ اس دور کے رسم الخط کے مطابق اعداد کا کتبیوں پر بر عکس تحریر کیا جانا بتائی ہے۔ خود انہوں ںے اس طرح کی تاریخ نویسی کی مثالوں کو دیکھا ہے اور ان کے شواہد پیش کئے ہیں۔


کجوری کا مورد نظر کتیبہ جو قاجاریوں کے دور میں زندگی بسر کرتے تھے، حرم اور اطراف کے دیواروں کی آئینہ کاری کے وقت قدیم کاشی کاری اور گچ کاری کو محو کرنے کی وجہ سے کیکاوس میرزای قاجار کے ذریعہ مٹ گئی۔
کجوری کا مورد نظر کتیبہ جو قاجاریوں کے دور میں زندگی بسر کرتے تھے، حرم اور اطراف کے دیواروں کی آئینہ کاری کے وقت قدیم کاشی کاری اور گچ کاری کو محو کرنے کی وجہ سے کیکاوس میرزای قاجار کے ذریعہ مٹ گئی۔
سطر 103: سطر 103:
'''غارت افاغنہ'''
'''غارت افاغنہ'''


صفویوں کی حکومت کے آخری دور میں جب افغانیوں نے ایران پر حملہ کیا تو حضرت معصومہ کا روضہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہا اور اشرف افغان (متوفی ۱۱۴۲ ھ، ۱۷۲۹ ء) نے نادر شاہ سے مقابلہ میں ہزیمت کے وقت اس آستانہ کی تمام نفیس اشیاء اور زر و زیور حتی شاہ اسماعیل کی قبر کے صندوق پر لگے سونے تک کو لوٹ لیا۔
صفویوں کی حکومت کے آخری دور میں جب افغانیوں نے ایران پر حملہ کیا تو حضرت معصومہ کا روضہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہا اور اشرف افغان (متوفی 1142 ھ، 1729 ء) نے نادر شاہ سے مقابلہ میں ہزیمت کے وقت اس آستانہ کی تمام نفیس اشیاء اور زر و زیور حتی شاہ اسماعیل کی قبر کے صندوق پر لگے سونے تک کو لوٹ لیا۔


'''افشاریان سے قاجاریان تک'''
'''افشاریان سے قاجاریان تک'''


نادر شاہ (۱۱۴۸۔۱۱۶۰ ھ۔ ۱۶۸۸۔ ۱۷۴۷)؟ اور زندی (۱۱۶۲-۱۲۰۹ھ/۱۷۴۸-۱۷۹۴ء) کے دور میں حرم کی بناء کی مرمت یا تجدید کے سلسلہ میں کوئی اطلاع دسترس میں نہیں ہے۔ لیکن قاجاریوں کے دور میں اس روضے نے صفویوں جیسی رونق اور عظمت حاصل کر لی تھی۔
نادر شاہ (1148۔1160 ھ۔ 1688۔ 1747)؟ اور زندی (1162-1209ھ/1748-1794ء) کے دور میں حرم کی بناء کی مرمت یا تجدید کے سلسلہ میں کوئی اطلاع دسترس میں نہیں ہے۔ لیکن قاجاریوں کے دور میں اس روضے نے صفویوں جیسی رونق اور عظمت حاصل کر لی تھی۔


فتح علی‎ شاہ (متوفی ۱۲۵۰ھ/۱۸۳۴ ء) نے روضہ کی زمین پر سنگ مرمر بچھایا۔ موجود کتیبوں کی تصریح کے مطابق حرم کی دیواروں کی آئینہ کاری بھی اسی کے دور میں شروع ہوئی اور محمد شاہ (متوفی ۱۲۶۴ھ/۱۸۴۷ ء) کے زمانہ میں مکمل ہوئی۔
فتح علی‎ شاہ (متوفی 1250ھ/1834 ء) نے روضہ کی زمین پر سنگ مرمر بچھایا۔ موجود کتیبوں کی تصریح کے مطابق حرم کی دیواروں کی آئینہ کاری بھی اسی کے دور میں شروع ہوئی اور محمد شاہ (متوفی 1264ھ/1847 ء) کے زمانہ میں مکمل ہوئی۔


===مرقد مطہر===
===مرقد مطہر===
گمنام صارف