"خطبہ غدیر" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←قرائن خارجی
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←قرائن خارجی) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←قرائن خارجی) |
||
سطر 210: | سطر 210: | ||
''' | *''' اہل بیت کا اس حدیث کے ذریعے احتجاج اور استدلال''': | ||
امام علی(ع) | امام علی(ع) نے کئی مواقع پر اس [[حدیث]] سے استناد کرتے ہوئے خلافت اور امامت کیلئے سب سے زیادہ اپنے آپ کا سزاوار ہونا ثابت کیا ہے۔ مثلا [[جنگ جمل]] میں [[طلحه بن عبیداللہ|طلحه]] کے ساتھ اسی حدیث کے ذریعے استدلال فرمایا،<ref>حاکم نیشابوری، ج۳، ص۴۱۹</ref> اسی طرح [[مسجد کوفه]] میں معاویہ کو لکھے گئے ایک خط میں چند اشعار کے ضمن میں اس حدیث کے ساتھ استدلال فرمایا <ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۵، ص۲۱۱.</ref> <ref>طبرسی، ''الاحتجاج''، ج۱، ص۱۸۱؛</ref> اسی طرح جنگ صفین میں آ پ احتجاج اور استدلال فرمایا<ref>مجلسی، ج۳۳، ص۴۱</ref> حضرت [[فاطمہ زهرا(س)]] نے بھی مخالفین کے مقابلے میں حضرت علی(ع) کی خلافت اور امامت پر اس حدیث کے ذریعے استدلال فرمائی ہے۔ <ref>ابن کثیر، ''البدایۃ و النہایۃ''، ج۷، ص۳۰۴.</ref> | ||
''' | *'''اس حدیث کے بعض منکرین کا لاعلاج بیماریوں میں مبتلا ہونا:''' | ||
بعض صحابہ جو اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے لیکن اس پر گواہی دینے سے انکار کرنے پر [[اہل بیت]] کی لعن میں گرفتار ہوئے۔ ان لعنتوں کے نتیجے میں یہ بیمار ہوئے۔ مثال کے طور پر [[انس بن مالک]] برس کی بیماری میں مبتلاء ہو گئے۔<ref>صدوق، امالی، ص۲۲</ref><ref>ابن قتیبہ، ''الامامۃ والسیاسۃ''، ج۱، ص۵۸۰</ref> [[زید بن ارقم]]<ref>ابن مغازلی، ''مناقب''، ج۱، ص۶۲.</ref> اور [[اشعث بن قیس]] <ref>صدوق، امالی، ص۱۶۲.</ref> نابینا ہو گئے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ صرف حضرت علی(ع) سے دوستی اور محبت کے اظہار کرنے کی سفارش پر مشتمل نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے مستقبل کے حوالے سے ایک اہم کام کا اعلان ہونا تھا اسی لئے بعض اس کا انکار کرتے تھے جس کی وجہ سے اہل بیت کی لعنت کا مستحق قرار پاتے جو بعد میں ایک لا علاج بیماری کی صورت اختیار کر جاتی۔<ref>امینی، ''الغدیر''، ج۱، ص۶۶۴.</ref> | |||
'' | *''نزول آیت تبلیغ کا نزول:''' | ||
[[ | [[ملف:آیه تبلیغ.jpg|LEFT|تصغیر|سورہ مائدہ کی آیت نمبر 67۔ (آیت تبلیغ]] | ||
بعض احادیث <ref>قمی، ج۱، ص۱۷۱</ref><ref>طبرسی، ''جوامع الجامع''، ج۱، ص۳۴۳</ref> اور مفسرین کے مطابق <ref>سیوطی، ج۲، ص۲۹۸</ref><ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۲</ref> سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر 67،[[حجۃ الوداع]] کے موقع پر [[مکہ]] اور [[مدینہ]] نازل ہوئی۔ جس میں ایک اہم کام کی تبلیغ کی ذمہ داری رسول اکرم(ص) کے گردن پر ڈالا گیا جو پیغمبر(ص) کی 23 سالہ زندگی میں انجام دینے والی رسالت کے کام کے برابر تھا۔ چنانچہ اگر اس کام کی تبلیغ نہیں کی گئی تو گویا رسالت کا کوئی کام انجام نہ دیا ہو۔ البتہ یہ تبلیغ بہت ساری مشکلات اور خطرات سے روبروی ہون گے لیکن خداوند عالم نے خود پیغمبر(ص) کو ان خطرات سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے۔ اس آیت میں استعمال ہونے والی تاکیدات اور سفارشات بھی اس کام کی اہمیت اور مقام و منزلت پر واضح دلیل ہے اور یہ آیت جس امر مہم کی تبلیغ کا حکم دی رہی ہے وہ صرف اور حضرت علی(ع) کی امامت اور ولایت کے اعلان کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔<ref>عیاشی، ج۱، ص۳۳۱</ref><ref>طبرسی، ''مجمع البیان''، ج۱، ص۳۳۴.</ref> [[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]]، [[براء بن عاذب]] و محمد بن علی وغیرہ اسی عقیدے پر قائم تھے۔<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۱</ref> | |||
اگرچہ بعض معتقد ہیں کہ اس آیت میں جس امر کی تبلیغ پر تاکید کی گئی تھی وہ بعض احکام جیسے [[قصاص]]،[[رجم]]، رسول کے لے پالک بیٹے [[زید بن حارثہ|زید]] کی بیوی سے شادی کرنے کا حکم، وجوب [[جہاد]] کا حکم یا [[یہود|یہودیوں]] اور [[قریش]] اور [[شرک|مشرکین]] کے بتوں کے عیب کا بیان تھا۔<ref>فخر رازی، ج۱۲، ص۴۰۰-۴۰۲</ref> لیکن مذکورہ قرائن و شواہد کے بعد اس نظریے کا اشتباہ اور باطل ہونا واضح ہے۔ | |||
''' | *'''آیت اکمال دین کا نزول :'''<!-- | ||
[[ | [[ملف:آیه اکمال از آیات غدیر.png|LEFT|تصغیر|واقعہ غدیر سے مربوط آیات میں سے آیت نمبر 3آیه اکمال از آیات مربوط به جریان غدیر خم]] | ||
پیغمبر اکرم(ص) کا خطبہ جب اپنے اختتام کو پہتچا تو اس وقت سورہ مائدہ کی [[آیت]] نمبر 3 نازل ہوئی۔۳ سوره مائده نازل شد.<ref>بحرانی، ج۲، ص۲۲۷</ref> این مطلب، نشان دهنده ویژگیهایی برای این روز است. مأیوس شدن [[کفر|کافران]] از دین [[اسلام]]؛ کامل شدن معارف دین؛ تمام شدن نعمت خداوند و رضایت خداوند به اینکه اسلام دین نهایی مردم باشد.<ref>طباطبایی، ج۵، ص۱۸۱</ref><ref>مکارم شیرازی، ج۴، ص۲۵۸</ref> | |||
این آیه، به تعبیر برخی، آخرین [[واجبات|فریضه]] در اسلام را بیان کرد و بعد از آن امر واجب دیگری بیان نشده است.<ref>عیاشی، ج۱، ص۲۹۳</ref><ref>قمی، ج۱، ص۱۶۲</ref><ref>فخر رازی، ج۱۱، ص۲۸۸</ref> پیامبر(ص) نیز پس از نزول این آیه، حمد و سپاس خداوند را به خاطر کامل شدن دین به جای آورد.<ref>سیوطی، ج۲، ص۲۵۹</ref> با توجه به اینکه در آن زمان حکمی باقی نمانده بود که کامل کننده دین و مأیوس کننده کفار باشد، اعلام ولایت حضرت علی(ع) تنها مسألهای بود که تمام این خصوصیات را دارا بود.<ref>طباطبایی، ج۵، ص۱۶۸-۱۷۵</ref> همانطور که چند روایت به این مسأله اشاره شده است.<ref>عیاشی، ج۱، ص۲۹۳</ref> | این آیه، به تعبیر برخی، آخرین [[واجبات|فریضه]] در اسلام را بیان کرد و بعد از آن امر واجب دیگری بیان نشده است.<ref>عیاشی، ج۱، ص۲۹۳</ref><ref>قمی، ج۱، ص۱۶۲</ref><ref>فخر رازی، ج۱۱، ص۲۸۸</ref> پیامبر(ص) نیز پس از نزول این آیه، حمد و سپاس خداوند را به خاطر کامل شدن دین به جای آورد.<ref>سیوطی، ج۲، ص۲۵۹</ref> با توجه به اینکه در آن زمان حکمی باقی نمانده بود که کامل کننده دین و مأیوس کننده کفار باشد، اعلام ولایت حضرت علی(ع) تنها مسألهای بود که تمام این خصوصیات را دارا بود.<ref>طباطبایی، ج۵، ص۱۶۸-۱۷۵</ref> همانطور که چند روایت به این مسأله اشاره شده است.<ref>عیاشی، ج۱، ص۲۹۳</ref> |