مندرجات کا رخ کریں

"شیعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{زیر تعمیر}}
{{شیعہ}}
{{شیعہ}}
'''شیعہ'''، [[اہل سنت]] کے بعد دین [[اسلام]] کا دوسرا بڑا  مذہب ہے۔ شیعوں کے مطابق [[پیغمبر اکرمؐ]] نے خدا کے حکم سے [[امام علی علیہ السلام|حضرت علیؑ]] کو اپنا بلافصل جانشین اور امام مقرر فرمایا۔ [[امامت]] شیعہ مذہب کا بنیادی عقیدہ ہے جو اس مذہب کو دوسرے اسلامی فرقوں سے ممتاز بناتا ہے۔ شیعوں کے مطابق امام کو خدا معین کر کے پیغمبر اکرمؐ کے ذریعے تعارف کراتا ہے۔  
'''شیعہ'''، [[اہل سنت]] کے بعد دین [[اسلام]] کا دوسرا بڑا  مذہب ہے۔ شیعوں کے مطابق [[پیغمبر اکرمؐ]] نے خدا کے حکم سے [[امام علی علیہ السلام|حضرت علیؑ]] کو اپنا بلافصل جانشین اور امام مقرر فرمایا۔ [[امامت]] شیعہ مذہب کا بنیادی عقیدہ ہے جو اس مذہب کو دوسرے اسلامی فرقوں سے ممتاز بناتا ہے۔ شیعوں کے مطابق امام کو خدا معین کر کے پیغمبر اکرمؐ کے ذریعے تعارف کراتا ہے۔  
سطر 20: سطر 19:


==اجمالی تعارف==
==اجمالی تعارف==
شیعہ [[مسلمان|مسلمانوں]] کے اس فرقے کو کہا جاتا ہے جو [[قرآن کریم|قرآن]] و [[سنت]] کی روشنی میں [[پیغمبر اسلامؐ]] کے بعد [[حضرت علیؑ]] کو آنحضرتؐ کا بلافصل جانشین اور [[خلافت|خلیفۃ المسلمین]] مانتے ہیں۔<ref>شیخ مفید، اوائل‌المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۳۵؛ شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۱۔</ref> شیخ مفید کے مطابق لفظ شیعہ جب الف اور لام کے ساتھ آئے ("الشیعۃ") تو اس سے مراد فقط اور فقط امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے پیروکار ہیں جو پیغمبر اکرمؑ کے بعد حضرت علیؑ کو بلافصل امام اور خلیفۃ المسلمین سمجھتے‌ ہیں۔<ref>شیخ مفید، اوائل‌المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۳۵؛ شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۱.</ref> {{نوٹ|فأما إذا أدخل فیه علامة التعریف فهو علی التخصیص لا محالة لا تباع أمیر المؤمنین - صلوات الله علیه - علی سبیل الولاء والاعتقاد لإمامته بعد الرسول - صلوات الله علیه وآله - بلا فصل ونفی الإمامة عمن تقدمه فی مقام الخلافة… شیخ مفید، اوائل‌المقالات، ص۳۵}}اس کے مقابلے میں [[اہل سنت و جماعت|اہل‌‌ سنت]] کہتے ہیں کہ پبغمبر اکرمؐ نے اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا تھا اس بنا پر مسلمانوں نے بطور [[اجماع]] [[ابوبکر بن ابی‌ قحافہ|ابوبکر]] کی [[بیعت]] کر کے انہیں رسول کا جانشین اور مسلمانوں کا خلیفہ بنایا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شرح‌المواقف، ۱۳۲۵ق، ج۸، ص۳۵۴۔</ref>
شیعہ [[مسلمان|مسلمانوں]] کے اس فرقے کو کہا جاتا ہے جو [[قرآن کریم|قرآن]] و [[سنت]] کی روشنی میں [[پیغمبر اسلامؐ]] کے بعد [[حضرت علیؑ]] کو آنحضرتؐ کا بلافصل جانشین اور [[خلافت|خلیفۃ المسلمین]] مانتے ہیں۔<ref>شیخ مفید، اوائل‌المقالات، 1413ھ، ص35؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص131۔</ref> شیخ مفید کے مطابق لفظ شیعہ جب الف اور لام کے ساتھ آئے ("الشیعۃ") تو اس سے مراد فقط اور فقط امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کے پیروکار ہیں جو پیغمبر اکرمؑ کے بعد حضرت علیؑ کو بلافصل امام اور خلیفۃ المسلمین سمجھتے‌ ہیں۔<ref>شیخ مفید، اوائل‌المقالات، 1413ھ، ص35؛ شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص131.</ref> {{نوٹ|فأما إذا أدخل فیه علامة التعریف فهو علی التخصیص لا محالة لا تباع أمیر المؤمنین - صلوات الله علیه - علی سبیل الولاء والاعتقاد لإمامته بعد الرسول - صلوات الله علیه وآله - بلا فصل ونفی الإمامة عمن تقدمه فی مقام الخلافة… شیخ مفید، اوائل‌المقالات، ص35}}اس کے مقابلے میں [[اہل سنت و جماعت|اہل‌‌ سنت]] کہتے ہیں کہ پبغمبر اکرمؐ نے اپنا جانشین مقرر نہیں فرمایا تھا اس بنا پر مسلمانوں نے بطور [[اجماع]] [[ابوبکر بن ابی‌ قحافہ|ابوبکر]] کی [[بیعت]] کر کے انہیں رسول کا جانشین اور مسلمانوں کا خلیفہ بنایا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شرح‌المواقف، 1325ھ، ج8، ص354۔</ref>


معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق [[اسلام|ظہور اسلام]] کے بعد کی ابتدائی صدیوں میں لفظ شیعہ [[اہل‌ بیتؑ]] کے ماننے والوں اور [[عثمان]] پر حضرت علیؑ کو مقدم سمجھنے والوں پر بھی اطلاق ہوتا تھا۔<ref>ملاحظہ کریں: جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، ۱۳۹۰ش، ص۲۲و۲۷۔</ref> اصطلاح میں پہلے گروہ کو اعتقادی شیعہ{{نوٹ|وہ لوگ جو اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علیؑ خدا کی طرف سے امام مقرر ہونے ہیں}} جبکہ آخری گروہ کو مودتی شیعہ (دوست‌دار اہل‌ بیت) کہا جاتا ہے۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، ۱۳۹۰ش، ص۲۸.</ref>
معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق [[اسلام|ظہور اسلام]] کے بعد کی ابتدائی صدیوں میں لفظ شیعہ [[اہل‌ بیتؑ]] کے ماننے والوں اور [[عثمان]] پر حضرت علیؑ کو مقدم سمجھنے والوں پر بھی اطلاق ہوتا تھا۔<ref>ملاحظہ کریں: جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، 1390ہجری شمسی، ص22و27۔</ref> اصطلاح میں پہلے گروہ کو اعتقادی شیعہ{{نوٹ|وہ لوگ جو اس بات پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علیؑ خدا کی طرف سے امام مقرر ہونے ہیں}} جبکہ آخری گروہ کو مودتی شیعہ (دوست‌دار اہل‌ بیت) کہا جاتا ہے۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، 1390ہجری شمسی، ص28.</ref>


لفظ شیعه لغت میں پیروکار، دوست اور گروہ کو کہا جاتا ہے۔<ref>فراهیدی، العین، ذیل «شیع و شوع».</ref>
لفظ شیعه لغت میں پیروکار، دوست اور گروہ کو کہا جاتا ہے۔<ref>فراهیدی، العین، ذیل «شیع و شوع».</ref>


==شیعہ تاریخ کے آئینے میں==
==شیعہ تاریخ کے آئینے میں==
شیعہ کے عنوان سے ایک گروہ جو [[حضرت علیؑ]] کے پیروکار اور آپ کو پیغمبر اکرمؐ کا جانشین سمجھتا تھا، کی پیدائش کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض کہتے ہیں کہ خود پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں ایک گروہ شیعہ کے نام سے پہچانے جاتے تھے؛ بعض کہتے ہیں کہ شیعہ [[واقعہ سقیفہ بنی‌ ساعدہ|سقیفہ کے واقعے]] کے بعد وجود میں آیا ہے؛ جبکہ بعض کا خیال ہے کہ شیعہ تیسرے خلیفہ [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے قتل کے بعد وجود میں آیا ہے؛ اسی طرح بعض مورخین کے مطابق شیعہ [[حکمیت|حَکَمیت]] کے واقعے کے بعد وجود میں آیا ہے۔<ref>محرمی، تاریخ تشیع، ۱۳۸۲ش، ۴۳و۴۴؛ گروہ تاریخ پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ، تاریخ تشیع، ۱۳۸۹ش، ۲۰تا۲۲؛ فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، ۱۳۸۲ش، ص۴۹تا۵۳۔</ref>
شیعہ کے عنوان سے ایک گروہ جو [[حضرت علیؑ]] کے پیروکار اور آپ کو پیغمبر اکرمؐ کا جانشین سمجھتا تھا، کی پیدائش کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض کہتے ہیں کہ خود پیغمبر اکرمؐ کی حیات مبارکہ میں ایک گروہ شیعہ کے نام سے پہچانے جاتے تھے؛ بعض کہتے ہیں کہ شیعہ [[واقعہ سقیفہ بنی‌ ساعدہ|سقیفہ کے واقعے]] کے بعد وجود میں آیا ہے؛ جبکہ بعض کا خیال ہے کہ شیعہ تیسرے خلیفہ [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے قتل کے بعد وجود میں آیا ہے؛ اسی طرح بعض مورخین کے مطابق شیعہ [[حکمیت|حَکَمیت]] کے واقعے کے بعد وجود میں آیا ہے۔<ref>محرمی، تاریخ تشیع، 1382ہجری شمسی، 43و44؛ گروہ تاریخ پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ، تاریخ تشیع، 1389ہجری شمسی، 20تا22؛ فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، 1382ہجری شمسی، ص49تا53۔</ref>


شیعہ علماء کے درمیان مشہور نظریہ پہلا قول ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ص۱۸تا۲۰۔</ref> شیعہ علماء ان احادیث اور تاریخی‌ استناد سے تمسک کرتے ہیں جن میں پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں ہی شیعیان علی کو بشارتیں دی گئی ہیں اور بعض افراد شیعیان علی کے نام پہچانے جاتے تھے۔<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ص۲۰۔</ref>
شیعہ علماء کے درمیان مشہور نظریہ پہلا قول ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص18تا20۔</ref> شیعہ علماء ان احادیث اور تاریخی‌ استناد سے تمسک کرتے ہیں جن میں پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں ہی شیعیان علی کو بشارتیں دی گئی ہیں اور بعض افراد شیعیان علی کے نام پہچانے جاتے تھے۔<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ص20۔</ref>


معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق خود امام علیؑ کے دور میں بھی شیعہ کی اصطلاح رائج تھی۔<ref>ملاحظہ کریں: جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، ۱۳۹۰ش، ص۲۹و۳۰۔</ref> البتہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مختصر گروہ تھا یہاں تک کہ [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]] کے دور امامت تک ان کی تعداد اتنی نہیں تھی جنہیں ایک فرقے کا نام دیا جا سکے۔<ref>ملاحظہ کریں: فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، ۱۳۸۲ش، ص۶۳تا۶۵۔</ref> ان ادوار میں اکثر [[ائمہ معصومینؑ]] کے اصحاب ہی ان کے پیروکار سمجھتے جاتے تھے۔<ref>فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، ۱۳۸۲ش، ص۶۱۔</ref>
معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق خود امام علیؑ کے دور میں بھی شیعہ کی اصطلاح رائج تھی۔<ref>ملاحظہ کریں: جعفریان، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، 1390ہجری شمسی، ص29و30۔</ref> البتہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک مختصر گروہ تھا یہاں تک کہ [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]] کے دور امامت تک ان کی تعداد اتنی نہیں تھی جنہیں ایک فرقے کا نام دیا جا سکے۔<ref>ملاحظہ کریں: فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، 1382ہجری شمسی، ص63تا65۔</ref> ان ادوار میں اکثر [[ائمہ معصومینؑ]] کے اصحاب ہی ان کے پیروکار سمجھتے جاتے تھے۔<ref>فیاض، پیدایش و گسترش تشیع، 1382ہجری شمسی، ص61۔</ref>
==نظریہ امامت==
==نظریہ امامت==
{{اصلی|امامت}}
{{اصلی|امامت}}
امامت کے بارے میں شیعوں کے نظریے کو تمام شیعہ [[فرق شیعہ|فرقوں]] کا اشتراکی نقطہ سمجھا جاتا ہے۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۱۔</ref> [[کلام اسلامی|علم کلام]] میں نظریہ امامت شیعوں کا ایک اہم اور بنیادی نظریہ ہے۔<ref>انصاری، «امامت (امامت نزد امامیہ)»، ص۱۳۷؛ سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۵۶و۲۵۷۔</ref> شیعوں کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے بعد دینی احکام کی تفسیر کا واحد اور عالی ترین مرجع امامت ہے۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۱۳۔</ref> شیعہ احادیث میں امام کا مقام اس قدر بلند ہے کہ اگر کوئی شخص امام کی شناخت کے بغیر مر جائے تو وہ [[کفر]] کی موت مرے گا۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۲۱۔</ref>
امامت کے بارے میں شیعوں کے نظریے کو تمام شیعہ [[فرق شیعہ|فرقوں]] کا اشتراکی نقطہ سمجھا جاتا ہے۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص131۔</ref> [[کلام اسلامی|علم کلام]] میں نظریہ امامت شیعوں کا ایک اہم اور بنیادی نظریہ ہے۔<ref>انصاری، «امامت (امامت نزد امامیہ)»، ص137؛ سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص256و257۔</ref> شیعوں کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کے بعد دینی احکام کی تفسیر کا واحد اور عالی ترین مرجع امامت ہے۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص213۔</ref> شیعہ احادیث میں امام کا مقام اس قدر بلند ہے کہ اگر کوئی شخص امام کی شناخت کے بغیر مر جائے تو وہ [[کفر]] کی موت مرے گا۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص21۔</ref>
{{جعبہ نقل قول | عنوان = | نقل قول =  [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]]: <br>{{عربی|«من مات ولم یعرف إمام زمانه مات میتة جاہلیة»}}  <br>«جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت(کفر کی حالت میں) مرا ہے۔| منبع =«تفتازانی، شرح المقاصد، ج۵، ص۲۳۹۔» |تراز = چپ| عرض = 280px | پس‌زمینه =#FFF7E6| تراز منبع = چپ}}
{{جعبہ نقل قول | عنوان = | نقل قول =  [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]]: <br>{{عربی|«من مات ولم یعرف إمام زمانه مات میتة جاہلیة»}}  <br>«جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت(کفر کی حالت میں) مرا ہے۔| منبع =«تفتازانی، شرح المقاصد، ج5، ص239۔» |تراز = چپ| عرض = 280px | پس‌زمینه =#FFF7E6| تراز منبع = چپ}}
===امامت پر نص کا ضروری ہونا===
===امامت پر نص کا ضروری ہونا===
{{اصلی|امامت پر نص}}
{{اصلی|امامت پر نص}}
شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امامت اصول دین میں سے ایک اہم اصل اور ایک الہی منصب ہے؛ یعنی امام کے انتخاب کو [[انبیاء]] لوگوں پر نہیں چھوڑ سکتے بلکہ ان پر [[واجب]] ہے کہ وہ اپنا جانشین خود معین کریں۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۱۔</ref> اسی بنا پر شیعہ متکلمین (سوائے زیدیہ کے)<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص۱۳۔</ref> اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ "نصب امام" (یعنی پیغمبر یا پہلے والے امام کے توسط سے امام کو معین کرنا) واجب ہے،<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص۲۹؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۰۵؛‌ اسی طرح ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل‌المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۴۰و۴۱۔</ref> اور "نص" (وہ کام یا بات جو مطلوبہ ہدف پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہو)<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص۱۳۔</ref> کو امام کی شناخت کا واحد راستہ قرار دیتے ہیں۔<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص۱۱؛ اسی طرح ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل‌المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۳۸ و ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱۔</ref>
شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ امامت اصول دین میں سے ایک اہم اصل اور ایک الہی منصب ہے؛ یعنی امام کے انتخاب کو [[انبیاء]] لوگوں پر نہیں چھوڑ سکتے بلکہ ان پر [[واجب]] ہے کہ وہ اپنا جانشین خود معین کریں۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص131۔</ref> اسی بنا پر شیعہ متکلمین (سوائے زیدیہ کے)<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص13۔</ref> اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ "نصب امام" (یعنی پیغمبر یا پہلے والے امام کے توسط سے امام کو معین کرنا) واجب ہے،<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص29؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص105؛‌ اسی طرح ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل‌المقالات، 1413ھ، ص40و41۔</ref> اور "نص" (وہ کام یا بات جو مطلوبہ ہدف پر صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہو)<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص13۔</ref> کو امام کی شناخت کا واحد راستہ قرار دیتے ہیں۔<ref>امیرخانی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، ص11؛ اسی طرح ملاحظہ کریں: شیخ مفید، اوائل‌المقالات، 1413ھ، ص38 و ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص181۔</ref>


ان کی دلیل یہ ہے کہ امام کا [[عصمت|معصوم]] ہونا ضروری ہے اور مقام عصمت سے خدا کے علاوہ کوئی باخبر نہیں ہو سکتا؛<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م، ص۳۱۲؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱۔</ref> کیونکہ عصمت انسان کی ایک باطنی صفت ہے اور انسان کے ظاہر سے اس کی عصمت کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م، ص۳۱۲۔</ref> پس ضروری ہے کہ خدا خود امام کو معین کرے اور پیغمبر اکرمؐ کے ذریعے اسے لوگوں تک پہنچائے۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م، ص۳۱۲؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱۔</ref>
ان کی دلیل یہ ہے کہ امام کا [[عصمت|معصوم]] ہونا ضروری ہے اور مقام عصمت سے خدا کے علاوہ کوئی باخبر نہیں ہو سکتا؛<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406ق/1986م، ص312؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص181۔</ref> کیونکہ عصمت انسان کی ایک باطنی صفت ہے اور انسان کے ظاہر سے اس کی عصمت کا پتہ نہیں لگایا جا سکتا۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406ق/1986م، ص312۔</ref> پس ضروری ہے کہ خدا خود امام کو معین کرے اور پیغمبر اکرمؐ کے ذریعے اسے لوگوں تک پہنچائے۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406ق/1986م، ص312؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص181۔</ref>


شیعہ کتب کلام میں معاشرے میں امام کی ضرورت پر کئی عقلی اور نقلی دلائل دئے گئے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ مفید، الافصاح، ۱۴۱۲ق، ص۲۸و۲۹؛ سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۶۰تا۲۶۳۔</ref> [[آیہ اولوالامر]] اور [[حدیث من مات|حدیث مَن مات]] من جملہ امام کی ضرورت پر پیش کئے جانے والی نقلی دلائل میں سے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ مفید، الافصاح، ۱۴۱۲ق، ص۲۸۔</ref> اسی طرح [[قاعدہ لطف]] اس سلسلے کی عقلی دلائل میں سے ہے۔ اس دلیل کی توضیح میں لکھتے ہیں:‌ ایک طرف سے امام کا وجود لوگوں کو خد کی طاعت کی طرف مائل کرنے نیز انہیں گناہوں سے دور رکھنے کا سبب ہے؛ دوسری طرف سے قاعدہ لطف کا تقاضا ہے کہ ہر وہ کام جو لوگوں کو خدا کی اطاعت سے قریب کرے اور گناہوں سے دور رکھنے کا سبب بنتا ہے ہو اسے انجام دینا خدا پر [[واجب]]۔ پس امام کو نصب کرنا خداپر واجب ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۱۷ق، ص۴۹۱۔</ref>
شیعہ کتب کلام میں معاشرے میں امام کی ضرورت پر کئی عقلی اور نقلی دلائل دئے گئے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ مفید، الافصاح، 1412ھ، ص28و29؛ سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص260تا263۔</ref> [[آیہ اولوالامر]] اور [[حدیث من مات|حدیث مَن مات]] من جملہ امام کی ضرورت پر پیش کئے جانے والی نقلی دلائل میں سے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ مفید، الافصاح، 1412ھ، ص28۔</ref> اسی طرح [[قاعدہ لطف]] اس سلسلے کی عقلی دلائل میں سے ہے۔ اس دلیل کی توضیح میں لکھتے ہیں:‌ ایک طرف سے امام کا وجود لوگوں کو خد کی طاعت کی طرف مائل کرنے نیز انہیں گناہوں سے دور رکھنے کا سبب ہے؛ دوسری طرف سے قاعدہ لطف کا تقاضا ہے کہ ہر وہ کام جو لوگوں کو خدا کی اطاعت سے قریب کرے اور گناہوں سے دور رکھنے کا سبب بنتا ہے ہو اسے انجام دینا خدا پر [[واجب]]۔ پس امام کو نصب کرنا خداپر واجب ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف‌المراد، 1417ھ، ص491۔</ref>


===عصمت امام===
===عصمت امام===
{{اصلی|عصمت}}
{{اصلی|عصمت}}
شیعہ اماموں کی عصمت کے قائل ہیں اور اسے امام کے شرائط میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۱۷ق، ص۴۹۲؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۰۵۔</ref> شیعہ اس سلسلے میں مختلف عقلی اور نقلی دلائل<ref>اس سلسلے میں مزید مطالعہ کیلئے رجوع کریں:علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۱۷ق، ص۴۹۲تا۴۹۴ و سبحانی، الالہیات، ۱۳۸۴ش/۱۴۲۶ق، ص۲۶تا۴۵۔</ref> سے استناد کرتے ہیں من جملہ ان میں [[آیہ اولوالامر]]،<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۱۷ق، ص۴۹۳؛ سبحانی، الالہیات، ۱۳۸۴ش/۱۴۲۶ق، ص۱۲۵تا۱۳۰۔</ref> [[آیہ ابتلائے ابراہیم]]<ref>سبحانی، الالہیات، ۱۳۸۴ش/۱۴۲۶ق، ص۱۱۷تا۱۲۵۔</ref> اور [[حدیث ثقلین|حدیث ثَقَلین]] شامل ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، اضواء علی عقائد الشیعہ الامامیہ، ۱۴۲۱ق، ص۳۸۹تا۳۹۴۔</ref>
شیعہ اماموں کی عصمت کے قائل ہیں اور اسے امام کے شرائط میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف‌المراد، 1417ھ، ص492؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص105۔</ref> شیعہ اس سلسلے میں مختلف عقلی اور نقلی دلائل<ref>اس سلسلے میں مزید مطالعہ کیلئے رجوع کریں:علامہ حلی، کشف‌المراد، 1417ھ، ص492تا494 و سبحانی، الالہیات، 1384ش/1426ھ، ص26تا45۔</ref> سے استناد کرتے ہیں من جملہ ان میں [[آیہ اولوالامر]]،<ref>علامہ حلی، کشف‌المراد، 1417ھ، ص493؛ سبحانی، الالہیات، 1384ش/1426ھ، ص125تا130۔</ref> [[آیہ ابتلائے ابراہیم]]<ref>سبحانی، الالہیات، 1384ش/1426ھ، ص117تا125۔</ref> اور [[حدیث ثقلین|حدیث ثَقَلین]] شامل ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: سبحانی، اضواء علی عقائد الشیعہ الامامیہ، 1421ھ، ص389تا394۔</ref>


شیعہ فرقوں میں سے [[زیدیہ]] تمام اماموں کی عصمت کے قائل ­نہیں ہیں۔ ان کے مطابق صرف [[اصحاب کساء|اصحاب کِساء]] یعنی [[پیغمبر اکرمؐ]]، [[حضرت علیؑ]]، [[حضرت فاطمہ(س)]]، [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]] معصوم‌ ہیں<ref>سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۷۸۔</ref> ان کے علاوہ باقی ائمہ عام لوگوں کی طرح غیر معصوم ہیں۔<ref>سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۷۹۔</ref>
شیعہ فرقوں میں سے [[زیدیہ]] تمام اماموں کی عصمت کے قائل ­نہیں ہیں۔ ان کے مطابق صرف [[اصحاب کساء|اصحاب کِساء]] یعنی [[پیغمبر اکرمؐ]]، [[حضرت علیؑ]]، [[حضرت فاطمہ(س)]]، [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]] معصوم‌ ہیں<ref>سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص278۔</ref> ان کے علاوہ باقی ائمہ عام لوگوں کی طرح غیر معصوم ہیں۔<ref>سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص279۔</ref>


==پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کا مسئلہ==
==پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کا مسئلہ==
شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ نے امام علیؑ کو اپنا جانشین مقرر فرما کر لوگوں کے سامنے اس کا اعلان فرمایا۔ اسی طرح آپؐ نے امامت کے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ(س) کی اولاد میں منحصر قرار دیا ہے۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۱؛ ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۱۷ق، ص۴۹۷۔</ref> البتہ شیعہ فرقوں میں سے [[زیدیہ]] [[ابوبکر]] اور [[عمر]] کی امامت کو بھی قبول کرتے ہیں؛ لیکن اس کے باوجود زیدیہ بھی امام علیؑ کو ان دو خلفاء سے افضل مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وقت کے مسلمانوں نے  ابوبکر اور عمر کے انتخاب میں غلطی کی ہیں لیکن چونکہ خود امام علیؑ نے بھی اس سلسلے میں اپنی رضایت کا اظہار کیا ہے اس بنا پر ان دونوں کی امامت کو قبول کرتے ہیں۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۴۱تا۱۴۳۔</ref>
شیعہ اس بات کے معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ نے امام علیؑ کو اپنا جانشین مقرر فرما کر لوگوں کے سامنے اس کا اعلان فرمایا۔ اسی طرح آپؐ نے امامت کے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہ(س) کی اولاد میں منحصر قرار دیا ہے۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص131؛ ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف‌المراد، 1417ھ، ص497۔</ref> البتہ شیعہ فرقوں میں سے [[زیدیہ]] [[ابوبکر]] اور [[عمر]] کی امامت کو بھی قبول کرتے ہیں؛ لیکن اس کے باوجود زیدیہ بھی امام علیؑ کو ان دو خلفاء سے افضل مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وقت کے مسلمانوں نے  ابوبکر اور عمر کے انتخاب میں غلطی کی ہیں لیکن چونکہ خود امام علیؑ نے بھی اس سلسلے میں اپنی رضایت کا اظہار کیا ہے اس بنا پر ان دونوں کی امامت کو قبول کرتے ہیں۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص141تا143۔</ref>


شیعہ [[کلام اسلامی|متکلمین]] پیغمبر اکرمؐ کے بعد امام علیؑ کی بلافصل جانشینی کو ثابت کرنے کے لئے مختلف آیات اور روایات سے تمسک کرتے ہیں من جملہ ان میں [[آیہ ولایت]]، [[حدیث غدیر]] اور [[حدیث منزلت]] قابل ذکر ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف‌المراد، ۱۴۱۷ق، ص۴۹۸تا۵۰۱؛ شیخ مفید، الافصاح، ۱۴۱۲ق، ص۳۲، ۳۳، ۱۳۴</ref>
شیعہ [[کلام اسلامی|متکلمین]] پیغمبر اکرمؐ کے بعد امام علیؑ کی بلافصل جانشینی کو ثابت کرنے کے لئے مختلف آیات اور روایات سے تمسک کرتے ہیں من جملہ ان میں [[آیہ ولایت]]، [[حدیث غدیر]] اور [[حدیث منزلت]] قابل ذکر ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: علامہ حلی، کشف‌المراد، 1417ھ، ص498تا501؛ شیخ مفید، الافصاح، 1412ھ، ص32، 33، 134</ref>


==فرقے==
==فرقے==
{{اصلی|شیعہ فرقے}}
{{اصلی|شیعہ فرقے}}
[[شیعہ]] مذہب کے اہم فرقوں میں [[امامیہ]]، [[زیدیہ]]، [[اسماعیلیہ]]، [[غالی]]، [[کیسانیہ]] اور کسی حد تک [[واقفیہ]] شامل ہیں۔<ref> ملاحظہ کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۳۲۔</ref> ان میں سے بعض فرقوں کے ذیلی شاخیں بھی ہیں؛ جیسے زیدیہ جس کے دس ذیلی شاخیں کا تذکرہ ملتا ہے؛<ref>ملاحظہ کریں صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۹۵تا۱۰۴۔</ref> اسی طرح کیسانیہ کو بھی چار ذیلی شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۲تا۱۳۶۔</ref> انہی ذیلی شاخوں کی بنا پر بہت سارے فرقوں کو شیعہ فرقوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۱تا۱۷۱۔</ref> البتہ مذکورہ بالا فرقوں میں سے بہت سارے فرقے منقرض ہو چکے ہیں اور اس وقت صرف امامیہ، زیدیہ اور اسماعیلیہ کے ماننے والے موجود ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۶۶۔</ref>
[[شیعہ]] مذہب کے اہم فرقوں میں [[امامیہ]]، [[زیدیہ]]، [[اسماعیلیہ]]، [[غالی]]، [[کیسانیہ]] اور کسی حد تک [[واقفیہ]] شامل ہیں۔<ref> ملاحظہ کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص32۔</ref> ان میں سے بعض فرقوں کے ذیلی شاخیں بھی ہیں؛ جیسے زیدیہ جس کے دس ذیلی شاخیں کا تذکرہ ملتا ہے؛<ref>ملاحظہ کریں صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص95تا104۔</ref> اسی طرح کیسانیہ کو بھی چار ذیلی شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص132تا136۔</ref> انہی ذیلی شاخوں کی بنا پر بہت سارے فرقوں کو شیعہ فرقوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص131تا171۔</ref> البتہ مذکورہ بالا فرقوں میں سے بہت سارے فرقے منقرض ہو چکے ہیں اور اس وقت صرف امامیہ، زیدیہ اور اسماعیلیہ کے ماننے والے موجود ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص66۔</ref>


کیسانیہ [[محمد بن حنفیہ|محمد حنفیہ]] کے ماننے والے تھے۔ یہ فرقہ [[امام علیؑ]]، [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]] کے بعد امام علیؑ کے بیٹے محمد حنفیہ کو امام مانتے تھے اور اس بات کے معتقد تھے کہ محمد حنفیہ وہی [[امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ|مہدی موعود]] ہیں اور کوہ رِضوا میں زندگی گزار رہے ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۶۴۔</ref>
کیسانیہ [[محمد بن حنفیہ|محمد حنفیہ]] کے ماننے والے تھے۔ یہ فرقہ [[امام علیؑ]]، [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]] کے بعد امام علیؑ کے بیٹے محمد حنفیہ کو امام مانتے تھے اور اس بات کے معتقد تھے کہ محمد حنفیہ وہی [[امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ|مہدی موعود]] ہیں اور کوہ رِضوا میں زندگی گزار رہے ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص64۔</ref>


واقفیہ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو [[امام کاظمؑ]] کی [[شہادت]] کے بعد آپؑ کی امامت پر متوقف ہوئے ہیں؛ یعنی آپ کو آخری امام سمجھتے ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۶۵۔</ref>غالی اس گروہ کو کہا جاتا ہے جو خاص کر شیعہ ائمہ کے حق میں حد سے تجاوز کرتے ہیں؛ یعنی ائمہ کے بارے میں الوہیت کا دعوا کرتے ہیں، ائمہ کو مخلوق نہیں سمجھتے بلکہ ان کو خدا سے تشبیہ دیتے ہیں۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۵۴ہ</ref>
واقفیہ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو [[امام کاظمؑ]] کی [[شہادت]] کے بعد آپؑ کی امامت پر متوقف ہوئے ہیں؛ یعنی آپ کو آخری امام سمجھتے ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص65۔</ref>غالی اس گروہ کو کہا جاتا ہے جو خاص کر شیعہ ائمہ کے حق میں حد سے تجاوز کرتے ہیں؛ یعنی ائمہ کے بارے میں الوہیت کا دعوا کرتے ہیں، ائمہ کو مخلوق نہیں سمجھتے بلکہ ان کو خدا سے تشبیہ دیتے ہیں۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص154ہ</ref>
{{شیعہ فرقوں کا شجرہ}}
{{شیعہ فرقوں کا شجرہ}}
===امامیہ یا اثنا عشری===
===امامیہ یا اثنا عشری===
{{اصلی|امامیہ}}
{{اصلی|امامیہ}}
شیعہ اِثناعَشَری یا امامیہ سب سے بڑا شیعہ فرقہ ہے۔<ref>جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، ۱۳۹۶ش، ص۴۶؛ طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۶۶۔</ref> مذہب امامیہ کے مطابق [[پیغمبر اسلامؐ]] کے بعد آپؐ کی جانشینی میں [[بارہ امام]] ہیں جن میں سے پہلا امام، [[امام علیؑ]] اور آخری امام، [[امام مہدی(عج)]] ہیں<ref>علامہ طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۹۷تا۱۹۹۔</ref> جو ابھی زندہ ہیں۔ امام مہدی غیبت میں ہیں اور ایک دن دنیا میں عدل و انصاف برقرار کرنے کے لئے تشریف لائیں گے۔<ref>علامہ طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۰، ۲۳۱۔</ref>
شیعہ اِثناعَشَری یا امامیہ سب سے بڑا شیعہ فرقہ ہے۔<ref>جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، 1396ہجری شمسی، ص46؛ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص66۔</ref> مذہب امامیہ کے مطابق [[پیغمبر اسلامؐ]] کے بعد آپؐ کی جانشینی میں [[بارہ امام]] ہیں جن میں سے پہلا امام، [[امام علیؑ]] اور آخری امام، [[امام مہدی(عج)]] ہیں<ref>علامہ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص197تا199۔</ref> جو ابھی زندہ ہیں۔ امام مہدی غیبت میں ہیں اور ایک دن دنیا میں عدل و انصاف برقرار کرنے کے لئے تشریف لائیں گے۔<ref>علامہ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص230، 231۔</ref>


[[رجعت]] اور [[بداء|بَداء]] شیعہ اثنا عشریہ کا مخصوص عقیدہ ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ شناسی، ۱۳۹۲ش، ص۲۷۳؛ طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۲، ص۱۰۶۔</ref> رجعت کے عقیدے کے مطابق امام مہدیؑ کے ظہور کے بعد بعض اموات زندہ ہونگے۔ ان زندہ ہونے والوں میں نیکوکار اور گناہ کار دونوں قسم کے لوگ شامل ہونگے اسی طرح اہل بیت کے دشمن بھی دنیا میں لوٹ آئیں گے تاکہ وہ اسی دنیا میں اپنے کرتوتوں کی سزا بگھتے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ شناسی، ۱۳۹۲ش، ص۲۷۳۔</ref> بداء یعنی خدا کبھی کبھار بعض مصلحتوں کی بنا پر کسی ایسی چیز کو انبیاء یا امام پر آشکار کر دیا گیا تھا کو تبدیل کر دیتا ہے اور اس کی جگہ کسی اور چیز کو تحقق بخشتا ہے۔<ref> طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱۱، ص۳۸۱؛ شیخ مفید، تصحیح الاعتقاد، ۱۴۱۳ق، ص۶۵۔</ref>
[[رجعت]] اور [[بداء|بَداء]] شیعہ اثنا عشریہ کا مخصوص عقیدہ ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ شناسی، 1392ہجری شمسی، ص273؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج2، ص106۔</ref> رجعت کے عقیدے کے مطابق امام مہدیؑ کے ظہور کے بعد بعض اموات زندہ ہونگے۔ ان زندہ ہونے والوں میں نیکوکار اور گناہ کار دونوں قسم کے لوگ شامل ہونگے اسی طرح اہل بیت کے دشمن بھی دنیا میں لوٹ آئیں گے تاکہ وہ اسی دنیا میں اپنے کرتوتوں کی سزا بگھتے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بہ شیعہ شناسی، 1392ہجری شمسی، ص273۔</ref> بداء یعنی خدا کبھی کبھار بعض مصلحتوں کی بنا پر کسی ایسی چیز کو انبیاء یا امام پر آشکار کر دیا گیا تھا کو تبدیل کر دیتا ہے اور اس کی جگہ کسی اور چیز کو تحقق بخشتا ہے۔<ref> طباطبایی، المیزان، 1393ھ، ج11، ص381؛ شیخ مفید، تصحیح الاعتقاد، 1413ھ، ص65۔</ref>


امامیہ مذہب کے مشہور [[کلام امامیہ|متکلمین]] میں [[شیخ مفید]](۳۳۶یا۳۳۸-۴۱۳ھ)، [[شیخ طوسی]](۳۸۵-۴۶۰ھ)، [[خواجہ نصیرالدین طوسی]](۵۹۷-۶۷۲ھ) اور [[علامہ حلی]](۶۴۸-۷۲۶ھ) شامل ہیں۔<ref>کاشفی، کلام شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۵۲۔</ref> اسی طرح امامیہ کے برجشتہ فقہاء میں [[شیخ طوسی]]، [[محقق حلی]]، [[علامہ حلی]]، [[شہید اول]]، [[شہید ثانی]]، [[جعفر کاشف الغطاء|کاشف‌الغطاء]]، [[میرزای قمی]] اور [[شیخ مرتضی انصاری]] شامل ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۲۶۰تا۲۶۴۔</ref>
امامیہ مذہب کے مشہور [[کلام امامیہ|متکلمین]] میں [[شیخ مفید]](336یا338-413ھ)، [[شیخ طوسی]](385-460ھ)، [[خواجہ نصیرالدین طوسی]](597-672ھ) اور [[علامہ حلی]](648-726ھ) شامل ہیں۔<ref>کاشفی، کلام شیعہ، 1387ہجری شمسی، ص52۔</ref> اسی طرح امامیہ کے برجشتہ فقہاء میں [[شیخ طوسی]]، [[محقق حلی]]، [[علامہ حلی]]، [[شہید اول]]، [[شہید ثانی]]، [[جعفر کاشف الغطاء|کاشف‌الغطاء]]، [[میرزای قمی]] اور [[شیخ مرتضی انصاری]] شامل ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، دائرۃ المعارف فقہ مقارن، 1427ھ، ج1، ص260تا264۔</ref>


شیعوں کی اکثریت [[ایران]] میں موجود ہیں۔ ایران کی کل آبادی کا 90 فیصد شیعہ اثنا عشری ہیں۔<ref>تقی‌زادہ داوری، گزارشی از آمار جمعیتی شیعیان کشورہای جہان، ۱۳۹۰ش، ص۲۹۔</ref>
شیعوں کی اکثریت [[ایران]] میں موجود ہیں۔ ایران کی کل آبادی کا 90 فیصد شیعہ اثنا عشری ہیں۔<ref>تقی‌زادہ داوری، گزارشی از آمار جمعیتی شیعیان کشورہای جہان، 1390ہجری شمسی، ص29۔</ref>


===زیدیہ===
===زیدیہ===
{{اصلی|زیدیہ}}
{{اصلی|زیدیہ}}
مذہب زیدیہ [[امام سجادؑ]] کے فرزند [[زید بن علی|زید]] سے منسوب ہے۔<ref>هاینس، تشیع، ۱۳۸۹ش، ص۳۵۷۔</ref> زیدیہ کے مطابق صرف [[امام علیؑ]]، [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]] کی امامت انتصابی اور پیغمبر کی طرف سے معین ہوئی ہے۔<ref>سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۸۷و۲۸۸؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۸۶۔</ref> ان کے مطابق ان تین اماموں کے علاوہ [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت زہرا(س)]] کی نسل سے جوب بھی عالم، زاہد، شجاع، اور سخاوت مند شخص قیام کرے وہ امام ہوگا۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۷و۱۳۸۔</ref>
مذہب زیدیہ [[امام سجادؑ]] کے فرزند [[زید بن علی|زید]] سے منسوب ہے۔<ref>هاینس، تشیع، 1389ہجری شمسی، ص357۔</ref> زیدیہ کے مطابق صرف [[امام علیؑ]]، [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]] کی امامت انتصابی اور پیغمبر کی طرف سے معین ہوئی ہے۔<ref>سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص287و288؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص86۔</ref> ان کے مطابق ان تین اماموں کے علاوہ [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت زہرا(س)]] کی نسل سے جوب بھی عالم، زاہد، شجاع، اور سخاوت مند شخص قیام کرے وہ امام ہوگا۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص137و138۔</ref>


زیدیہ [[ابوبکر]] اور [[عمر]] کی خلافت کے بارے میں دو طرح کے موقف رکھتے ہیں: ان میں سے بعض ان دونوں کے امامت کے قائل ہیں جبکہ بعض ان کو امام نہیں مانتے ہیں<ref name=":0" /> یمن کے موجودہ زیدیوں کا نظریہ پہلے والے گروہ کے نزدیک ہے۔<ref name=":0">صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۹۵</ref>  
زیدیہ [[ابوبکر]] اور [[عمر]] کی خلافت کے بارے میں دو طرح کے موقف رکھتے ہیں: ان میں سے بعض ان دونوں کے امامت کے قائل ہیں جبکہ بعض ان کو امام نہیں مانتے ہیں<ref name=":0" /> یمن کے موجودہ زیدیوں کا نظریہ پہلے والے گروہ کے نزدیک ہے۔<ref name=":0">صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص95</ref>  


[[جارودیہ]]، صالحیہ اور سلیمانیہ زیدیہ کے تین اصلی فرقے ہیں۔<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۱۰۲۔</ref> کتاب [[الملل و النحل (شہرستانی)|المِلَل و النِّحَل]] کے مصنف شہرستانی کے مطابق زیدیوں کی اکثریت [[کلام اسلامی|کلام]] میں [[معتزلہ|مُعتزلہ]] اور [[فقہ]] میں مذہب حنفیہ سے متأثر ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۴۳۔</ref>
[[جارودیہ]]، صالحیہ اور سلیمانیہ زیدیہ کے تین اصلی فرقے ہیں۔<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص102۔</ref> کتاب [[الملل و النحل (شہرستانی)|المِلَل و النِّحَل]] کے مصنف شہرستانی کے مطابق زیدیوں کی اکثریت [[کلام اسلامی|کلام]] میں [[معتزلہ|مُعتزلہ]] اور [[فقہ]] میں مذہب حنفیہ سے متأثر ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص143۔</ref>


کتاب [[اطلس شیعہ (کتاب)|اطلس شیعہ]] کے مطابق [[یمن]] کی 20 میلین آبادی کا 30 سے 40 فیصد آبادی زیدیوں کی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: رسول جعفریان،اطلس شیعہ، ۱۳۸۷ش، ص۴۶۶۔</ref>
کتاب [[اطلس شیعہ (کتاب)|اطلس شیعہ]] کے مطابق [[یمن]] کی 20 میلین آبادی کا 30 سے 40 فیصد آبادی زیدیوں کی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: رسول جعفریان،اطلس شیعہ، 1387ہجری شمسی، ص466۔</ref>


===اسماعیلیہ===
===اسماعیلیہ===
{{اصلی|اسماعیلیہ}}
{{اصلی|اسماعیلیہ}}
اسماعیلیہ شیعوں کا ایک فرقہ ہے جو [[امام صادقؑ]] کے بعد آپ کے فرزند [[اسماعیل بن امام صادق|اسماعیل]] کی امامت کے قائل ہیں اور [[امام کاظمؑ]] اور دیگر [[ائمہ شیعہ|شیعہ ائمہ]] کو امام نہیں مانتے ہیں۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۷۰و۱۷۱۔</ref> اسماعیلیہ اس بات کے قائل ہیں کہ [[امامت]] سات ادوار پر مشتمل ہے اور ہر دور کا آغاز ایک "ناطق" سے ہوتا ہے جو نئی شریعت لے آتا ہے اور ہر دور میں ان کے بعد سات امام ہوا کرتے ہیں۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۶۵۔</ref>
اسماعیلیہ شیعوں کا ایک فرقہ ہے جو [[امام صادقؑ]] کے بعد آپ کے فرزند [[اسماعیل بن امام صادق|اسماعیل]] کی امامت کے قائل ہیں اور [[امام کاظمؑ]] اور دیگر [[ائمہ شیعہ|شیعہ ائمہ]] کو امام نہیں مانتے ہیں۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، 1375ہجری شمسی، ج1، ص170و171۔</ref> اسماعیلیہ اس بات کے قائل ہیں کہ [[امامت]] سات ادوار پر مشتمل ہے اور ہر دور کا آغاز ایک "ناطق" سے ہوتا ہے جو نئی شریعت لے آتا ہے اور ہر دور میں ان کے بعد سات امام ہوا کرتے ہیں۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص165۔</ref>


ان کے مطابق امامت کے پہلے چھ ادوار کے "ناطق‌" [[اولو العزم]] انبیاء یعنی [[حضرت آدم]]، [[حضرت نوح]]، [[حضرت ابراہیم]]، حضرت موسی، حضرت عیسی اور [[حضرت محمدؐ]] ہیں۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۶۵؛‌ صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۱۵۱۔</ref> امام صادقؑ کی فرزند اسماعیل امامت کے چھتے دور کے آخری امام ہیں جس کا آغاز پیغمبر اسلامؐ سے ہوا تھا۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اسماعیل وہی [[مہدی موعود]] ہیں جب قیام کریں گے تو امامت کے ساتوں دور کا آغاز ہو گا۔<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۱۵۱و۱۵۲؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۶۵۔</ref> کہا جاتا ہے کہ [[فاطمی]] دور حکومت میں ان کے بعض اعتقادات میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۱۶۲۔</ref>
ان کے مطابق امامت کے پہلے چھ ادوار کے "ناطق‌" [[اولو العزم]] انبیاء یعنی [[حضرت آدم]]، [[حضرت نوح]]، [[حضرت ابراہیم]]، حضرت موسی، حضرت عیسی اور [[حضرت محمدؐ]] ہیں۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص165؛‌ صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1384ہجری شمسی، ج2، ص151۔</ref> امام صادقؑ کی فرزند اسماعیل امامت کے چھتے دور کے آخری امام ہیں جس کا آغاز پیغمبر اسلامؐ سے ہوا تھا۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اسماعیل وہی [[مہدی موعود]] ہیں جب قیام کریں گے تو امامت کے ساتوں دور کا آغاز ہو گا۔<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1384ہجری شمسی، ج2، ص151و152؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص165۔</ref> کہا جاتا ہے کہ [[فاطمی]] دور حکومت میں ان کے بعض اعتقادات میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص162۔</ref>


[[باطنی‌ گری]] اسماعیلیہ کی سب سے اہم خصوصیت ہے؛ کیونکہ یہ لوگ [[آیت|آیات]]، [[حدیث|احادیث]] اور اسلامی تعلیمات اور [[احکام شرعی|احکام]] کی [[تأویل]] کرتے ہوئے ان کے ظاہری معنی کے برخلاف معنی لیتے ہیں۔ ان کے مطابق [[قرآن]] کی آیات اور احادیث کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہوا کرتا ہے۔ امام ان کے باطنی معنی سے آگاہی رکھتے ہیں اور امامت کا فلسفہ ہی دین اور اس کے تعلیمات کی باطنی تفسیر بیان کرنا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، ۱۳۸۹ش، ص۹۵۔</ref>
[[باطنی‌ گری]] اسماعیلیہ کی سب سے اہم خصوصیت ہے؛ کیونکہ یہ لوگ [[آیت|آیات]]، [[حدیث|احادیث]] اور اسلامی تعلیمات اور [[احکام شرعی|احکام]] کی [[تأویل]] کرتے ہوئے ان کے ظاہری معنی کے برخلاف معنی لیتے ہیں۔ ان کے مطابق [[قرآن]] کی آیات اور احادیث کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہوا کرتا ہے۔ امام ان کے باطنی معنی سے آگاہی رکھتے ہیں اور امامت کا فلسفہ ہی دین اور اس کے تعلیمات کی باطنی تفسیر بیان کرنا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، 1389ہجری شمسی، ص95۔</ref>


[[قاضی نعمان مغربی|قاضی نُعمان]] کو اسماعلیہ کا سب سے بڑا [[مجتہد]]<ref name=":1" /> اور اس کی کتاب [[دعائم الاسلام (کتاب)|دعائم الاسلام]] کو اس فرقے کا اصلی [[فقہ|فقہی]] منبع قرار دیا جاتا ہے۔<ref name=":1">دفتری، تاریخ و سنت‌ ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۱۲۔</ref> ابوحاتم رازی، [[ناصر خسرو قبادیانی|ناصر خسرو]] اور [[اخوان الصفا|اِخوان الصَّفا]] نامی گروہ کو اسماعیلیہ کے برجستہ دانشمندوں میں شمار کیئے جاتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۱۵۳۔</ref> ابو حاتم رازی کی کتاب [[رسائل اخوان الصفا|رسائل اِخوان الصفا]] اور اَعلام النبوّہ ان کے اہم [[فلسفہ اسلامی|فلسفی]] کتابوں میں شمار ہوتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۱۵۴و۱۶۱</ref>
[[قاضی نعمان مغربی|قاضی نُعمان]] کو اسماعلیہ کا سب سے بڑا [[مجتہد]]<ref name=":1" /> اور اس کی کتاب [[دعائم الاسلام (کتاب)|دعائم الاسلام]] کو اس فرقے کا اصلی [[فقہ|فقہی]] منبع قرار دیا جاتا ہے۔<ref name=":1">دفتری، تاریخ و سنت‌ ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص212۔</ref> ابوحاتم رازی، [[ناصر خسرو قبادیانی|ناصر خسرو]] اور [[اخوان الصفا|اِخوان الصَّفا]] نامی گروہ کو اسماعیلیہ کے برجستہ دانشمندوں میں شمار کیئے جاتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1384ہجری شمسی، ج2، ص153۔</ref> ابو حاتم رازی کی کتاب [[رسائل اخوان الصفا|رسائل اِخوان الصفا]] اور اَعلام النبوّہ ان کے اہم [[فلسفہ اسلامی|فلسفی]] کتابوں میں شمار ہوتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1384ہجری شمسی، ج2، ص154و161</ref>


اس وقت اسماعیلیہ کو [[آغاخان|آغاخانیہ]] اور [[بہرہ|بُہرہ]] میں تقسیم کیا جاتا ہے جو مصر کے [[فاطمی]] یعنی [[نزاریان|نزاریہ]] اور مستعلویہ کے باقیات میں سے ہیں۔<ref>مشکور، فرہنگ فرق اسلامی،۱۳۷۲ش، ص۵۳.</ref> آغاخانیوں کی آبادی تقریبا ایک میلین ہے جو عمدتا ایشائی ممالک جیسے [[ہندوستان]]، [[پاکستان]]، [[افغانستان]] اور [[ایران]] میں مقیم ہیں۔<ref>دفتری، «اسماعیلیہ»، ص۷۰۱۔</ref> جبکہ دوسرے گروہ کی آبادی تقریبا 500 نفوس پر مشتمل ہے جن کی تقریبا 80 فیصد آبادی ہندوستان میں مقیم ہیں۔<ref>دفتری، «بہرہ»، ص۸۱۳۔</ref>
اس وقت اسماعیلیہ کو [[آغاخان|آغاخانیہ]] اور [[بہرہ|بُہرہ]] میں تقسیم کیا جاتا ہے جو مصر کے [[فاطمی]] یعنی [[نزاریان|نزاریہ]] اور مستعلویہ کے باقیات میں سے ہیں۔<ref>مشکور، فرہنگ فرق اسلامی،1372ہجری شمسی، ص53.</ref> آغاخانیوں کی آبادی تقریبا ایک میلین ہے جو عمدتا ایشائی ممالک جیسے [[ہندوستان]]، [[پاکستان]]، [[افغانستان]] اور [[ایران]] میں مقیم ہیں۔<ref>دفتری، «اسماعیلیہ»، ص701۔</ref> جبکہ دوسرے گروہ کی آبادی تقریبا 500 نفوس پر مشتمل ہے جن کی تقریبا 80 فیصد آبادی ہندوستان میں مقیم ہیں۔<ref>دفتری، «بہرہ»، ص813۔</ref>


==مہدویت==
==مہدویت==
{{اصلی|مہدویت}}
{{اصلی|مہدویت}}
مہدویت تمام اسلامی مذاہب کا مشترکہ عقیده سمجھا جاتا ہے؛<ref>صدر، بحث حول المہدی، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م، ص۱۵؛ حکیمی، خورشید مغرب، ۱۳۸۶ش، ص۹۰۔</ref> لیکن یہ عقیدہ شیعوں کے یہاں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اور اس سلسلے میں بہت ساری احادیث، کتابیں، اور مقالات لکھے گئے ہیں۔<ref>حکیمی، خورشید مغرب، ۱۳۸۶ش، ص۹۱۔</ref>
مہدویت تمام اسلامی مذاہب کا مشترکہ عقیده سمجھا جاتا ہے؛<ref>صدر، بحث حول المہدی، 1417ق/1996م، ص15؛ حکیمی، خورشید مغرب، 1386ہجری شمسی، ص90۔</ref> لیکن یہ عقیدہ شیعوں کے یہاں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے اور اس سلسلے میں بہت ساری احادیث، کتابیں، اور مقالات لکھے گئے ہیں۔<ref>حکیمی، خورشید مغرب، 1386ہجری شمسی، ص91۔</ref>


تمام شیعہ فرقوں کا اس عقیدے کی اصل ماہیت میں اتفاق نظر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تفصیلات میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں [[امامیہ]] اس بات کے معتقد ہیں کہ [[امام زمان علیہ السلام|مہدی موعود]] [[امام حسن عسکریؑ]] کے فرزند ارجمند ہیں اور اس وقت [[غیبت]] میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۰و۲۳۱۔</ref> [[اسماعیلیہ]] محمد مکتوم جو کہ امام صادقؑ کی فرزند [[اسماعیل بن امام صادق|اسماعیل]] کے بیتے ہیں کو مہدی موعود قرار دیتے ہیں۔<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۱۵۲۔</ref> اسی طرح زیدیہ چونکہ قیام کرنے کو امام کے شرائط میں سے قرار دیتے ہیں اس لئے [[غیبت]] اور [[انتظار فرج|انتظار]] پر اعتقاد نہیں رکھتے ہیں۔<ref>سلطانی، تاریخ و  عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۹۱۔</ref> زیدیہ ہر امام کو مہدی اور مُنجی قرار دیتے ہیں۔<ref>سلطانی، تاریخ و  عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۹۴۔</ref>
تمام شیعہ فرقوں کا اس عقیدے کی اصل ماہیت میں اتفاق نظر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تفصیلات میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں [[امامیہ]] اس بات کے معتقد ہیں کہ [[امام زمان علیہ السلام|مہدی موعود]] [[امام حسن عسکریؑ]] کے فرزند ارجمند ہیں اور اس وقت [[غیبت]] میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص230و231۔</ref> [[اسماعیلیہ]] محمد مکتوم جو کہ امام صادقؑ کی فرزند [[اسماعیل بن امام صادق|اسماعیل]] کے بیتے ہیں کو مہدی موعود قرار دیتے ہیں۔<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1384ہجری شمسی، ج2، ص152۔</ref> اسی طرح زیدیہ چونکہ قیام کرنے کو امام کے شرائط میں سے قرار دیتے ہیں اس لئے [[غیبت]] اور [[انتظار فرج|انتظار]] پر اعتقاد نہیں رکھتے ہیں۔<ref>سلطانی، تاریخ و  عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص291۔</ref> زیدیہ ہر امام کو مہدی اور مُنجی قرار دیتے ہیں۔<ref>سلطانی، تاریخ و  عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص294۔</ref>
==اہم کلامی نظریات==
==اہم کلامی نظریات==
اصول دین یعنی [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ مشترک ہونے کے ساتھ ساتھ شیعہ بعض ایسے اعتقادات بھی رکھتے ہیں جو انہیں باقی مسلمانوں یا بعض مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں۔ [[امامت]] اور [[مہدویت]] جن کا ذکر پہلے ہوچکا، کے علاوہ یہ اعتقادات میں کچھ یوں ہیں:  [[حسن و قبح|حُسن و قُبح عقلی]]، [[تنزیہ صفات|تَنزیہ صفات خدا]]، [[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]]، [[عدالت صحابہ|تمام صحابہ کا عادل نہ ہونا]]، [[تقیہ|تقیّہ]]، [[توسل]] اور [[شفاعت]]۔
اصول دین یعنی [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ مشترک ہونے کے ساتھ ساتھ شیعہ بعض ایسے اعتقادات بھی رکھتے ہیں جو انہیں باقی مسلمانوں یا بعض مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں۔ [[امامت]] اور [[مہدویت]] جن کا ذکر پہلے ہوچکا، کے علاوہ یہ اعتقادات میں کچھ یوں ہیں:  [[حسن و قبح|حُسن و قُبح عقلی]]، [[تنزیہ صفات|تَنزیہ صفات خدا]]، [[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]]، [[عدالت صحابہ|تمام صحابہ کا عادل نہ ہونا]]، [[تقیہ|تقیّہ]]، [[توسل]] اور [[شفاعت]]۔


شیعہ علماء [[معتزلہ]] کی طرح حُسن و قُبح کو عقلی سمجھتے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۹۶؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۸۸۔</ref> حسن و قبح عقلی کا معنی یہ ہے کہ ہمارے اَعمال اس بات سے قطع‌ نظر کہ خدا انہیں اچھائی یا برائی سے متصف کریں عقلی طور پر بھی اچھے اور برے میں تقسیم ہوتے ہیں۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> [[اشاعرہ]] اس کے برخلاف اعتقاد رکھتے ہیں اور حسن و قبح کو شرعی مانتے ہیں؛<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> یعنی وہ کہتے ہیں کہ اچھائی اور برائی کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ چیزیں اعتباری ہیں۔ بنابراین جس چیز کی انجام دہی کا خدا حکم دے وہ اچھی اور جس چیز سے خدا منع کرے وہ بری ہے۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref>
شیعہ علماء [[معتزلہ]] کی طرح حُسن و قُبح کو عقلی سمجھتے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص296؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص88۔</ref> حسن و قبح عقلی کا معنی یہ ہے کہ ہمارے اَعمال اس بات سے قطع‌ نظر کہ خدا انہیں اچھائی یا برائی سے متصف کریں عقلی طور پر بھی اچھے اور برے میں تقسیم ہوتے ہیں۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، 1430ھ، ج2، ص271۔</ref> [[اشاعرہ]] اس کے برخلاف اعتقاد رکھتے ہیں اور حسن و قبح کو شرعی مانتے ہیں؛<ref>مظفر، اصول الفقہ، 1430ھ، ج2، ص271۔</ref> یعنی وہ کہتے ہیں کہ اچھائی اور برائی کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ چیزیں اعتباری ہیں۔ بنابراین جس چیز کی انجام دہی کا خدا حکم دے وہ اچھی اور جس چیز سے خدا منع کرے وہ بری ہے۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، 1430ھ، ج2، ص271۔</ref>


"تنزیہ صفات" کا نظریہ، "تعطیل" اور "تشبیہ" کے مقابلے میں ہے۔ نظریہ تعطیل کہتا ہے کہ کسی بھی صفت کو خدا کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی جبکہ تشبیہ کا نظریہ تمام صفات میں خدا کو بھی دوسرے مخلوقات کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۲و۱۷۳۔</ref> شیعہ کہتے ہیں کہ بعض مثبت صفات جن سے مخلوقات متصف ہوتے ہیں کو خدا کی طرف بھی نسبت دی جا سکتی ہے لیکن ان صفات کے ساتھ متصف ہونے میں خدا کو مخلوقات کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۲؛‌ طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۲۵و۱۲۶۔</ref> مثال کے طور پر جس طرح انسان علم، قدرت اور حیات سے متصف ہوتا ہے اسی طرح خدا بھی ان صفات سے متصف ہوتے ہیں لیکن خدا کا علم، قدرت اور حیات عام انسانوں کے علم، قدرت اور حیات کی طرح نہیں ہے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۲۵و۱۲۶۔</ref>
"تنزیہ صفات" کا نظریہ، "تعطیل" اور "تشبیہ" کے مقابلے میں ہے۔ نظریہ تعطیل کہتا ہے کہ کسی بھی صفت کو خدا کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی جبکہ تشبیہ کا نظریہ تمام صفات میں خدا کو بھی دوسرے مخلوقات کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص172و173۔</ref> شیعہ کہتے ہیں کہ بعض مثبت صفات جن سے مخلوقات متصف ہوتے ہیں کو خدا کی طرف بھی نسبت دی جا سکتی ہے لیکن ان صفات کے ساتھ متصف ہونے میں خدا کو مخلوقات کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص172؛‌ طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص125و126۔</ref> مثال کے طور پر جس طرح انسان علم، قدرت اور حیات سے متصف ہوتا ہے اسی طرح خدا بھی ان صفات سے متصف ہوتے ہیں لیکن خدا کا علم، قدرت اور حیات عام انسانوں کے علم، قدرت اور حیات کی طرح نہیں ہے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1383ہجری شمسی، ص125و126۔</ref>


[[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]] کا معنی یہ ہے کہ انسان نہ مکمل طور پر مختار ہے جس طرح معتزلہ قائل ہیں اور نہ مکمل طور پر مجبور ہے جس طرح [[اصحاب حدیث|اہل‌ حدیث]] خیال کرتے ہیں؛<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۷۷۔</ref> بلکہ انسان اگرچہ اپنے افعال کی انجام دہی میں مختار ہے لیکن اس کا ارادہ اور اس کی قدرت خدا سے وابستہ ہے مستقل نہیں ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۳۔</ref> شیعوں میں سے [[زیدیہ]] بھی معتزلہ کی طرح انسان کو مکمل مختار تصور کرتے ہیں۔<ref> سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۱۶۔</ref>
[[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]] کا معنی یہ ہے کہ انسان نہ مکمل طور پر مختار ہے جس طرح معتزلہ قائل ہیں اور نہ مکمل طور پر مجبور ہے جس طرح [[اصحاب حدیث|اہل‌ حدیث]] خیال کرتے ہیں؛<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص277۔</ref> بلکہ انسان اگرچہ اپنے افعال کی انجام دہی میں مختار ہے لیکن اس کا ارادہ اور اس کی قدرت خدا سے وابستہ ہے مستقل نہیں ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص173۔</ref> شیعوں میں سے [[زیدیہ]] بھی معتزلہ کی طرح انسان کو مکمل مختار تصور کرتے ہیں۔<ref> سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، 1390ہجری شمسی، ص216۔</ref>


[[اہل سنت و جماعت|اہل‌ سنت]] کے برخلاف شیعہ متکلمین <ref>ابن‌اثیر، اُسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۰؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، ۱۹۹۲م/۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۔</ref> پیغمبر اکرمؐ کے تمام [[صحابہ|اصحاب]] کو عادل نہیں سمجھتے<ref>شہید ثانی، الرعایة فی علم الدرایۃ، ۱۴۰۸ق، ص۳۴۳؛ امین، اعیان‌الشیعۃ، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸م، ج۱، ص۱۶۱؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۹و۲۱۰۔</ref> کیونکہ صرف پیغمبر اکرمؐ کی مصاحبت کسی کی عدالت پر دلیل نہیں بن سکتی۔<ref>شهید ثانی، الرعایة فی علم الدرایة، ۱۴۰۸ق، ص۳۴۳؛ امین، اعیان‌الشیعة، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸م، ج۱، ص۱۶۱.</ref>
[[اہل سنت و جماعت|اہل‌ سنت]] کے برخلاف شیعہ متکلمین <ref>ابن‌اثیر، اُسدالغابہ، 1409ھ، ج1، ص10؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1992م/1412ھ، ج1، ص2۔</ref> پیغمبر اکرمؐ کے تمام [[صحابہ|اصحاب]] کو عادل نہیں سمجھتے<ref>شہید ثانی، الرعایة فی علم الدرایۃ، 1408ھ، ص343؛ امین، اعیان‌الشیعۃ، 1419ق/1998م، ج1، ص161؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، 1387ہجری شمسی، ص209و210۔</ref> کیونکہ صرف پیغمبر اکرمؐ کی مصاحبت کسی کی عدالت پر دلیل نہیں بن سکتی۔<ref>شهید ثانی، الرعایة فی علم الدرایة، 1408ھ، ص343؛ امین، اعیان‌الشیعة، 1419ق/1998م، ج1، ص161.</ref>


زیدیہ کے علاوہ<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۸۷.</ref> دیگر شیعہ فرق [[تقیہ]] کو جائز سمجھتے ہیں؛ یعنی وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اگسی کسی جگہ اپنے اعتقادات کا اظہار اس کے لئے نقصان کا باعث ہو تو انسان اپنے عقیدے کو چھپا سکتا ہے اور اپنے عقیدے کے برخلاف چیز کا اظہار کر سکتا ہے۔<ref>سبحانی، «تقیہ»، ص۸۹۱و۸۹۲؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۸۷۔</ref>
زیدیہ کے علاوہ<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، 1388ہجری شمسی، ج2، ص87.</ref> دیگر شیعہ فرق [[تقیہ]] کو جائز سمجھتے ہیں؛ یعنی وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اگسی کسی جگہ اپنے اعتقادات کا اظہار اس کے لئے نقصان کا باعث ہو تو انسان اپنے عقیدے کو چھپا سکتا ہے اور اپنے عقیدے کے برخلاف چیز کا اظہار کر سکتا ہے۔<ref>سبحانی، «تقیہ»، ص891و892؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص87۔</ref>


اگرچہ دیگر مسلمان فرقوں میں بھی [[توسل]] کا مفہوم رائج ہے لیکن شیعوں کے یہاں توسل ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔<ref>پاکتچی، «توسل»، ص۳۶۲۔</ref> شیعہ بعض اہل سنت فرقوں من جملہ وہابیوں کے برخلاف<ref>سبحانی، «توسل»، ص۵۴۱۔</ref> اپنی دعاؤوں کی قبولیت اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کے لئے اولیائے خدا کو واسطه قرار دینے کو شائستہ اقدام قرار دیتے ہیں۔<ref>سبحانی، «توسل»، ص۵۴۰۔</ref> توسل اور [[شفاعت]] ایک دوسرے کے ساتھ محکم رابطہ رکھتے ہیں۔<ref>پاکتچی، «توسل»، ص۳۶۲۔</ref> [[شیخ مفید]] کے مطابق شفاعت سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین قیامت کے دن [[گناہ|گناہکاروں]] کے شفیع بنتے ہیں اور خدا ان ہستیوں کی شفاعت کی وجہ سے ان گناہگاوں کو بہت سارے گناہوں سے نجات دیتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مفید، اوائل‌المقالات، ۱۴۱۳ق، ص۴۷۔</ref>
اگرچہ دیگر مسلمان فرقوں میں بھی [[توسل]] کا مفہوم رائج ہے لیکن شیعوں کے یہاں توسل ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔<ref>پاکتچی، «توسل»، ص362۔</ref> شیعہ بعض اہل سنت فرقوں من جملہ وہابیوں کے برخلاف<ref>سبحانی، «توسل»، ص541۔</ref> اپنی دعاؤوں کی قبولیت اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کے لئے اولیائے خدا کو واسطه قرار دینے کو شائستہ اقدام قرار دیتے ہیں۔<ref>سبحانی، «توسل»، ص540۔</ref> توسل اور [[شفاعت]] ایک دوسرے کے ساتھ محکم رابطہ رکھتے ہیں۔<ref>پاکتچی، «توسل»، ص362۔</ref> [[شیخ مفید]] کے مطابق شفاعت سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین قیامت کے دن [[گناہ|گناہکاروں]] کے شفیع بنتے ہیں اور خدا ان ہستیوں کی شفاعت کی وجہ سے ان گناہگاوں کو بہت سارے گناہوں سے نجات دیتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: مفید، اوائل‌المقالات، 1413ھ، ص47۔</ref>


==فقہ==
==فقہ==
{{اصلی|فقہ}}
{{اصلی|فقہ}}
[[قرآن]] و [[سنت]] کو تمام شیعہ فرق [[احکام شرعی]] کے معتبر منابع کے طور پر قبول کرتے ہیں؛<ref>ملاحظہ کریں: دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۱۲؛ مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۱، ۵۱؛ رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص۹۸۔</ref> لیکن احکام کے استنباط میں دیگر فقہی منابع کی طرح ان دونوں کے استعمال میں اختلاف‌ رکھتے ہیں۔
[[قرآن]] و [[سنت]] کو تمام شیعہ فرق [[احکام شرعی]] کے معتبر منابع کے طور پر قبول کرتے ہیں؛<ref>ملاحظہ کریں: دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص212؛ مظفر، اصول الفقہ، 1430ھ، ج1، 51؛ رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98۔</ref> لیکن احکام کے استنباط میں دیگر فقہی منابع کی طرح ان دونوں کے استعمال میں اختلاف‌ رکھتے ہیں۔


[[اہل سنت و جماعت|اہل‌ سنت]] کی طرح [[امامیہ]] اور [[زیدیہ]] قرآن و سنت کے علاوہ [[عقل]] اور [[اجماع]] کو بھی حجت مانتے ہیں؛<ref>ملاحظہ کریں: مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۵۱؛ رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص۹۸و۹۹۔</ref> لیکن [[اسماعیلیہ]] اس مسئلے میں ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ اسی طرح اسماعیلیہ کسی بھی [[مجتہد]] کی تقلید کو جائز نہیں سمجھتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ احکام شرعی کو براہ راست قرآن، سنت اور ائمہ کی تعلیمات سے اخذ کرنا چاہئے۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۱۴۔</ref>
[[اہل سنت و جماعت|اہل‌ سنت]] کی طرح [[امامیہ]] اور [[زیدیہ]] قرآن و سنت کے علاوہ [[عقل]] اور [[اجماع]] کو بھی حجت مانتے ہیں؛<ref>ملاحظہ کریں: مظفر، اصول الفقہ، 1430ھ، ج1، ص51؛ رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98و99۔</ref> لیکن [[اسماعیلیہ]] اس مسئلے میں ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ اسی طرح اسماعیلیہ کسی بھی [[مجتہد]] کی تقلید کو جائز نہیں سمجھتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ احکام شرعی کو براہ راست قرآن، سنت اور ائمہ کی تعلیمات سے اخذ کرنا چاہئے۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص214۔</ref>


زیدیہ سنت میں صرف پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کو حجت مانتے ہیں اور اہل‌ سنت حدیثی منابع جیسے [[صحاح ستۃ|صِحاح سِتّہ]] کی طرف رجوع کرتے ہیں؛<ref>رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص۹۸و۹۹۔</ref> لیکن امامیہ اور اسماعیلیہ ان احادیث کو بھی فقہی منابع کے طور پر قبول کرتے ہیں جو ائمہ معصومین سے نقل ہوئی ہیں۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۱۲؛ مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۱، ۵۱۔</ref>
زیدیہ سنت میں صرف پیغمبر اکرمؐ کی احادیث کو حجت مانتے ہیں اور اہل‌ سنت حدیثی منابع جیسے [[صحاح ستۃ|صِحاح سِتّہ]] کی طرف رجوع کرتے ہیں؛<ref>رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98و99۔</ref> لیکن امامیہ اور اسماعیلیہ ان احادیث کو بھی فقہی منابع کے طور پر قبول کرتے ہیں جو ائمہ معصومین سے نقل ہوئی ہیں۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص212؛ مظفر، اصول الفقہ، 1430ھ، ج1، 51۔</ref>


اسی طرح زیدیہ اہل‌ سنتْ کی طرح [[قیاس]] اور [[استحسان]] کو بھی حجت مانتے ہیں؛<ref>رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص۹۸و۹۹۔</ref> جبکہ امامیہ اور اسماعیلیہ ان کو معتبر نہیں سمجھتے ہیں۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۱۳و۲۱۴۔</ref> البتہ امامیہ اور اہل‌ سنت کے درمیان بعض اختلافی مسائل میں زیدیہ بھی امامیہ کا ساتھ دیتے ہیں؛ مثلا زیدیہ بھی [[حی علی خیر العمل|حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمِل]] کو [[اذان]] کا جزء سمجھتے ہیں اور اذان میں "الصلاۃ خَیرٌ مِن النَّوم" (نماز نیند سے بہتر ہے) کہنے کو [[حرام]] سمجھتے ہیں۔<ref>رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص۹۸۔</ref>
اسی طرح زیدیہ اہل‌ سنتْ کی طرح [[قیاس]] اور [[استحسان]] کو بھی حجت مانتے ہیں؛<ref>رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98و99۔</ref> جبکہ امامیہ اور اسماعیلیہ ان کو معتبر نہیں سمجھتے ہیں۔<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص213و214۔</ref> البتہ امامیہ اور اہل‌ سنت کے درمیان بعض اختلافی مسائل میں زیدیہ بھی امامیہ کا ساتھ دیتے ہیں؛ مثلا زیدیہ بھی [[حی علی خیر العمل|حَیَّ عَلیٰ خَیرِ العَمِل]] کو [[اذان]] کا جزء سمجھتے ہیں اور اذان میں "الصلاۃ خَیرٌ مِن النَّوم" (نماز نیند سے بہتر ہے) کہنے کو [[حرام]] سمجھتے ہیں۔<ref>رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98۔</ref>


جبکہ [[متعہ]] کے سلسلے میں اسماعیلیہ اور زیدیہ اہل‌ سنت کا ساتھ دیتے ہیں؛<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۲۱۴؛ رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص۹۸</ref> اور امامیہ کے برخلاف متعہ کو [[حرام]] سمجھتے ہیں۔<ref>رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص۹۸۔</ref>
جبکہ [[متعہ]] کے سلسلے میں اسماعیلیہ اور زیدیہ اہل‌ سنت کا ساتھ دیتے ہیں؛<ref>دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، 1393ہجری شمسی، ص214؛ رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98</ref> اور امامیہ کے برخلاف متعہ کو [[حرام]] سمجھتے ہیں۔<ref>رحمتی و ہاشمی، «زیدیہ (فقہ زیدیہ)»، ص98۔</ref>


==آبادی اور جغرافیائی حدود اربعہ==
==آبادی اور جغرافیائی حدود اربعہ==
[[ملف:FT 14.06.17 ShiaSunni.png|تصغیر|سنہ 2014ء کی مردم شماری کے مطابق [[ایران]]، [[آذربایجان]]، [[بحرین]]، [[عراق]] اور [[لبنان]] میں آبادی کے 50فیصد سے زیادہ شیعہ ہیں۔<ref>[https://www.pewresearch.org/fact-tank/2014/06/18/the-sunni-shia-divide-where-they-live-what-they-believe-and-how-they-view-each-other/ft_14-06-17_shiasunni/ FT_14.06.17_ShiaSunni]</ref>
[[ملف:FT 14.06.17 ShiaSunni.png|تصغیر|سنہ 2014ء کی مردم شماری کے مطابق [[ایران]]، [[آذربایجان]]، [[بحرین]]، [[عراق]] اور [[لبنان]] میں آبادی کے 50فیصد سے زیادہ شیعہ ہیں۔<ref>[https://www.pewresearch.org/fact-tank/2014/06/18/the-sunni-shia-divide-where-they-live-what-they-believe-and-how-they-view-each-other/ft_14-06-17_shiasunni/ FT_14.06.17_ShiaSunni]</ref>
]]
]]
پیو ریسرچ سینٹر(Pew Research Center) کی [[7 اکتوبر]] 2009ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی مسلم آبادی کا 10 سے 13 فیصد شیعہ ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق شیعوں کی کل آبادی 154 میلین سے 200 میلین تک ہے۔<ref>انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، ۱۳۹۳ش، ص۱۹۔</ref> البتہ بعض ان اعداد و شمار کو غیر معبر قرار دیتے ہوئے شیعوں کی آبادی کو 300 میلین سے بھی زیادہ یعنی دنیا کی مسلم آبادی کا 19 فیصد سے بھی زیادہ بتاتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں:انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، ۱۳۹۳ش، ص۱۱۔</ref>
پیو ریسرچ سینٹر(Pew Research Center) کی [[7 اکتوبر]] 2009ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی مسلم آبادی کا 10 سے 13 فیصد شیعہ ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق شیعوں کی کل آبادی 154 میلین سے 200 میلین تک ہے۔<ref>انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، 1393ہجری شمسی، ص19۔</ref> البتہ بعض ان اعداد و شمار کو غیر معبر قرار دیتے ہوئے شیعوں کی آبادی کو 300 میلین سے بھی زیادہ یعنی دنیا کی مسلم آبادی کا 19 فیصد سے بھی زیادہ بتاتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں:انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، 1393ہجری شمسی، ص11۔</ref>


پیو ریسرچ سینٹر(Pew Research Center) کی رپورٹ کے مطابق شیعہ آبادی کا 68 سے 80 فیصد آبادی [[ایران]]، [[عراق]]، [[پاکستان]] اور [[ہندوستان]] میں آباد ہیں۔ ایران میں 66 سے 70 میلین شیعہ آباد ہیں جو دنیا کی شیعہ آبادی کا 37 سے 40 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان، ہندوستان اور عراق میں 16 میلین  سے بھی زیادہ شیعہ موجود ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، ۱۳۹۳ش، ص۱۹۔</ref>
پیو ریسرچ سینٹر(Pew Research Center) کی رپورٹ کے مطابق شیعہ آبادی کا 68 سے 80 فیصد آبادی [[ایران]]، [[عراق]]، [[پاکستان]] اور [[ہندوستان]] میں آباد ہیں۔ ایران میں 66 سے 70 میلین شیعہ آباد ہیں جو دنیا کی شیعہ آبادی کا 37 سے 40 فیصد بنتا ہے۔ پاکستان، ہندوستان اور عراق میں 16 میلین  سے بھی زیادہ شیعہ موجود ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، 1393ہجری شمسی، ص19۔</ref>


[[ایران]]، [[عراق]]، [[آذربایجان]] اور [[بحرین]] کی اکثریت شیعہ ہیں۔<ref>انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، ۱۳۹۳ش، ص۲۰۔</ref> براعظم ایشیاء، شمالی افریقہ، [[امریکہ]] اور [[کینڈا]] میں بھی شیعہ موجود ہیں۔<ref>انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، ۱۳۹۳ش، ص۱۹، ۲۰۔</ref>
[[ایران]]، [[عراق]]، [[آذربایجان]] اور [[بحرین]] کی اکثریت شیعہ ہیں۔<ref>انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، 1393ہجری شمسی، ص20۔</ref> براعظم ایشیاء، شمالی افریقہ، [[امریکہ]] اور [[کینڈا]] میں بھی شیعہ موجود ہیں۔<ref>انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، 1393ہجری شمسی، ص19، 20۔</ref>


==حکومتیں==
==حکومتیں==
[[آل ادریس]]، [[علویان (طبرستان)|علویان طبرستان]]، [[آل بویہ]]، [[یمن]] کے زیدی، [[فاطمیان]]، [[الموت|اَلَموت]] کے اسماعیلیہ، [[سبزوار]] کے [[سربداران]]، [[صفویہ]] اور [[جمہوری اسلامی ایران|جمہوری اسلامی ایران‌]] دنیا میں شیعہ حکومتیں ہیں۔
[[آل ادریس]]، [[علویان (طبرستان)|علویان طبرستان]]، [[آل بویہ]]، [[یمن]] کے زیدی، [[فاطمیان]]، [[الموت|اَلَموت]] کے اسماعیلیہ، [[سبزوار]] کے [[سربداران]]، [[صفویہ]] اور [[جمہوری اسلامی ایران|جمہوری اسلامی ایران‌]] دنیا میں شیعہ حکومتیں ہیں۔


مراکش اور الجزایر کے بعض حصوں پر قائم ہونے والی آل‌ ادریس کی حکومت<ref>سجادی، «آل‌ادریس، ص۵۶۱.</ref> کو دنیا میں شیعوں کی پہلی حکومت تصور کی جاتی ہے۔<ref>سجادی، «آل‌ادریس، ص۵۶۴.</ref> یہ حکومت سنہ ۱۷۲ھ [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبیؑ]] کے پوتے ادریس کے ذریعے قائم ہوئی اور تقریبا دو صدیاں تک باقی رہی۔<ref>سجادی، «آل‌ادریس، ص۵۶۱و۵۶۲۔</ref>  
مراکش اور الجزایر کے بعض حصوں پر قائم ہونے والی آل‌ ادریس کی حکومت<ref>سجادی، «آل‌ادریس، ص561.</ref> کو دنیا میں شیعوں کی پہلی حکومت تصور کی جاتی ہے۔<ref>سجادی، «آل‌ادریس، ص564.</ref> یہ حکومت سنہ 172ھ [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبیؑ]] کے پوتے ادریس کے ذریعے قائم ہوئی اور تقریبا دو صدیاں تک باقی رہی۔<ref>سجادی، «آل‌ادریس، ص561و562۔</ref>  


حکومت علویانْ [[زیدیہ|زیدی]] مذہب تھے۔<ref>چلونگر و شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، ۱۳۹۵ش، ص۵۱۔</ref> اسی طرح زیدیوں نے سنہ ۲۸۴ھ سے سنہ ۱۳۸۲ھ تک یمن پر بھی حکومت کی ہیں۔<ref>رسول جعفریان، ۱۳۸۷ش، اطلس شیعہ، ص۴۶۲.</ref> الموت میں فاطمیوں اور اسماعیلیوں کی حکومت اسماعیلیہ مذہب تھی۔<ref>چلونگر و شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، ۱۳۹۵ش، ص۱۵۵تا۱۵۷۔</ref> آل بویہ کے بارے میں اختلاف‌ ہے۔ بعض انہیں زیدی سمجھتے ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ لوگ [[امامیہ]] تھے۔ اسی طرح بعض کہتے ہیں کہ یہ لوگ ابتداء میں زیدی مذہب تھے لیکن بعد میں انہوں نے امامیہ مذہب اختیار کئے تھے۔<ref>چلونگر و شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، ۱۳۹۵ش، ص۱۲۵تا۱۳۰۔</ref>
حکومت علویانْ [[زیدیہ|زیدی]] مذہب تھے۔<ref>چلونگر و شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، 1395ہجری شمسی، ص51۔</ref> اسی طرح زیدیوں نے سنہ 284ھ سے سنہ 1382ھ تک یمن پر بھی حکومت کی ہیں۔<ref>رسول جعفریان، 1387ہجری شمسی، اطلس شیعہ، ص462.</ref> الموت میں فاطمیوں اور اسماعیلیوں کی حکومت اسماعیلیہ مذہب تھی۔<ref>چلونگر و شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، 1395ہجری شمسی، ص155تا157۔</ref> آل بویہ کے بارے میں اختلاف‌ ہے۔ بعض انہیں زیدی سمجھتے ہیں جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ لوگ [[امامیہ]] تھے۔ اسی طرح بعض کہتے ہیں کہ یہ لوگ ابتداء میں زیدی مذہب تھے لیکن بعد میں انہوں نے امامیہ مذہب اختیار کئے تھے۔<ref>چلونگر و شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، 1395ہجری شمسی، ص125تا130۔</ref>


سلطان محمد خدابندہ جو [[اولجایتو]](حکومت ۷۰۳-۷۱۶ھ) کے نام سے مشہور تھے، نے ایک عرصے تک شیعہ اثناعشریہ کو اپنی حکومت کا سرکاری مذہب قرار دیا؛ لیکن ان کے حکومتی ارکان جن کی اکثریت [[اہل سنت و جماعت|اہل‌ سنت]] کی تھی، کے دباؤ میں آکر دوبارہ مذہب اہل سنت کو سرکاری مذہب قرار دیا۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، ۱۳۹۰ش، ص۶۹۴۔</ref>
سلطان محمد خدابندہ جو [[اولجایتو]](حکومت 703-716ھ) کے نام سے مشہور تھے، نے ایک عرصے تک شیعہ اثناعشریہ کو اپنی حکومت کا سرکاری مذہب قرار دیا؛ لیکن ان کے حکومتی ارکان جن کی اکثریت [[اہل سنت و جماعت|اہل‌ سنت]] کی تھی، کے دباؤ میں آکر دوبارہ مذہب اہل سنت کو سرکاری مذہب قرار دیا۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، 1390ہجری شمسی، ص694۔</ref>


[[سبزوار]] میں [[سربداران]] کی حکومت کو بھی شیعہ حکومت قرار دیا جاتا ہے۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، ۱۳۹۰ ش، ص۷۷۶۔</ref> البتہ معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق سربداران کے حاکموں کا اصل مذہب کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا؛‌ لیکن ان کے مذہبی رہنما صوفی مذہب تھے جو شیعہ مذہب کے طرف مائل تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، ۱۳۹۰ ش، ص۷۷۷تا۷۸۰۔</ref> سربدارن کے آخری حاکم خواجہ علی مؤید<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، ۱۳۹۰ش، ص۷۷۸۔</ref> نے امامایہ مذہب کو سرکاری مذہب قرار دیا۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، ۱۳۹۰ ش، ص۷۸۱۔</ref>
[[سبزوار]] میں [[سربداران]] کی حکومت کو بھی شیعہ حکومت قرار دیا جاتا ہے۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، 1390 ہجری شمسی، ص776۔</ref> البتہ معاصر مورخ رسول جعفریان کے مطابق سربداران کے حاکموں کا اصل مذہب کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا؛‌ لیکن ان کے مذہبی رہنما صوفی مذہب تھے جو شیعہ مذہب کے طرف مائل تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، 1390 ہجری شمسی، ص777تا780۔</ref> سربدارن کے آخری حاکم خواجہ علی مؤید<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، 1390ہجری شمسی، ص778۔</ref> نے امامایہ مذہب کو سرکاری مذہب قرار دیا۔<ref>جعفریان، تاریخ تشیع در ایران (از آغاز تا دولت صفوی)، 1390 ہجری شمسی، ص781۔</ref>


سلسلہ [[صفویہ]] جسے سنہ ۹۰۷ھ میں [[اسماعیل اول صفوی|شاہ اسماعیل]] نے تشکیل دیا، شیعہ اثناعشریہ تھا۔<ref>ہاینس، تشیع، ۱۳۸۹ش، ص۱۵۶و۱۵۷۔</ref> اس حکومت نے ایران میں مذہب امامیہ کو ترویج دے کر ایران کو مکمل طور پر ایک شیعہ ملک میں تبدیل کیا۔<ref>چلونگر و شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، ۱۳۹۵ش، ص۲۷۶، ۲۷۷۔</ref>
سلسلہ [[صفویہ]] جسے سنہ 907ھ میں [[اسماعیل اول صفوی|شاہ اسماعیل]] نے تشکیل دیا، شیعہ اثناعشریہ تھا۔<ref>ہاینس، تشیع، 1389ہجری شمسی، ص156و157۔</ref> اس حکومت نے ایران میں مذہب امامیہ کو ترویج دے کر ایران کو مکمل طور پر ایک شیعہ ملک میں تبدیل کیا۔<ref>چلونگر و شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، 1395ہجری شمسی، ص276، 277۔</ref>


جمہوری اسلامی ایران‌ میں [[اصول دین]] اور [[فقہ]] دونوں اعتبار سے شیعہ اثناعشریہ رائج ہے۔<ref>قاسمی و کریمی، «جمہوری اسلامی ایران»، ص۷۶۵و۷۶۶۔</ref>
جمہوری اسلامی ایران‌ میں [[اصول دین]] اور [[فقہ]] دونوں اعتبار سے شیعہ اثناعشریہ رائج ہے۔<ref>قاسمی و کریمی، «جمہوری اسلامی ایران»، ص765و766۔</ref>


== متعلقہ صفحات==
== متعلقہ صفحات==
سطر 158: سطر 157:
ملف:حرم امام علی1.jpg|[[حرم امام علیؑ]]، [[نجف]]
ملف:حرم امام علی1.jpg|[[حرم امام علیؑ]]، [[نجف]]
ملف:ضریح امام حسین5.jpg|[[ضریح]] امام حسینؑ، [[کربلا]]
ملف:ضریح امام حسین5.jpg|[[ضریح]] امام حسینؑ، [[کربلا]]
ملف: راهپیمایی اربعین حسینی.jpg|تصغیر|۴۰۰px|[[اربعین ملین مارچ]]  
ملف: راهپیمایی اربعین حسینی.jpg|تصغیر|400px|[[اربعین ملین مارچ]]  
ملف: بقیع10.jpg|تصغیر|قبور [[ائمہ بقیع]]، [[قبرستان بقیع]]
ملف: بقیع10.jpg|تصغیر|قبور [[ائمہ بقیع]]، [[قبرستان بقیع]]
ملف:مسجد کوفه.jpg|[[مسجد کوفہ]]، شیعوں کی چوتھی اہم [[مسجد]]
ملف:مسجد کوفه.jpg|[[مسجد کوفہ]]، شیعوں کی چوتھی اہم [[مسجد]]
سطر 171: سطر 170:
== مآخذ==
== مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* ابن‌اثیر، علی بن محمد، اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، دارالفکر، بیروت، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م۔
* ابن‌اثیر، علی بن محمد، اُسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، دارالفکر، بیروت، 1409ق/1989ء۔
* ابن‌عبد‌البر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، ۱۹۹۲م/۱۴۱۲ق۔
* ابن‌عبد‌البر، یوسف بن عبداللہ، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، 1992م/1412ھ۔
* امیرخانی، علی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، امامت‌پژوہی، ش۱۰، ۱۳۹۲ش۔
* امیرخانی، علی، «نظریہ نص از دیدگاہ متکلمان امامی»، امامت‌پژوہی، ش10، 1392ہجری شمسی۔
* امین، سیدمحسن، اَعیان‌الشیعۃ، تحقق حسن امین، بیروت، دارالتعارف، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸م۔
* امین، سیدمحسن، اَعیان‌الشیعۃ، تحقق حسن امین، بیروت، دارالتعارف، 1419ق/1998ء۔
* انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، ترجمہ محمود تقی‌زادہ داوری، قم، انتشارات شیعہ‌شناسی، چاپ اول، ۱۳۹۳ش۔
* انجمن دین و زندگی عمومی پیو، نقشہ جمعیت مسلمانان جہان، ترجمہ محمود تقی‌زادہ داوری، قم، انتشارات شیعہ‌شناسی، چاپ اول، 1393ہجری شمسی۔
* انصاری، حسن، «امامت (امامت نزد امامیہ)»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۱۰، تہران، مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۰ش۔
* انصاری، حسن، «امامت (امامت نزد امامیہ)»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج10، تہران، مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1380ہجری شمسی۔
* ایجی، میرسیدشریف، شرح‌المواقف، تصحیح بدرالدین نعسانى‌، قم، شریف رضی، چاپ اول، ۱۳۲۵ق۔
* ایجی، میرسیدشریف، شرح‌المواقف، تصحیح بدرالدین نعسانى‌، قم، شریف رضی، چاپ اول، 1325ھ۔
* برنجکار، رضا، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، قم، کتاب طہ، چاپ چہارم، ۱۳۸۹ش۔
* برنجکار، رضا، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، قم، کتاب طہ، چاپ چہارم، 1389ہجری شمسی۔
* پاکتچی، احمد، «توسل»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۱۶، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۷ش۔
* پاکتچی، احمد، «توسل»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج16، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
* تقی‌زادہ داوری، محمود، گزارشی از آمار جمعیتی شیعیان کشورہای جہان براساس منابع اینترنتی و مکتوب، قم، انتشارات شیعہ‌شناسی، چاپ اول، ۱۳۹۰ش۔
* تقی‌زادہ داوری، محمود، گزارشی از آمار جمعیتی شیعیان کشورہای جہان براساس منابع اینترنتی و مکتوب، قم، انتشارات شیعہ‌شناسی، چاپ اول، 1390ہجری شمسی۔
* جبرئیلی، محمدصفر، سیر تطور کلام شیعہ، دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیر طوسی، تہران، انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۹۶ش۔
* جبرئیلی، محمدصفر، سیر تطور کلام شیعہ، دفتر دوم: از عصر غیبت تا خواجہ نصیر طوسی، تہران، انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ پنجم، 1396ہجری شمسی۔
* جعفریان، رسول، اطلس شیعہ، تہران، سازمان جغرافیایی نیروہای مسلح، چاپ پنجم، ۱۳۹۱ش۔
* جعفریان، رسول، اطلس شیعہ، تہران، سازمان جغرافیایی نیروہای مسلح، چاپ پنجم، 1391ہجری شمسی۔
* جعفریان، رسول، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، تہران، نشر علم، چاپ چہارم، ۱۳۹۰ش۔
* جعفریان، رسول، تاریخ تشیع در ایران از آغاز تا طلوع دولت صفوی، تہران، نشر علم، چاپ چہارم، 1390ہجری شمسی۔
* چلونگر، محمدعلی و سیدمسعود شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، چاپ اول،  ۱۳۹۵ش۔
* چلونگر، محمدعلی و سیدمسعود شاہمرادی، دولت‌ہای شیعی در تاریخ، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، چاپ اول،  1395ہجری شمسی۔
* حکیمی، محمدرضا، خوشید مغرب، قم، دلیل ما، چاپ بیست و ہشتم، ۱۳۸۶ش۔
* حکیمی، محمدرضا، خوشید مغرب، قم، دلیل ما، چاپ بیست و ہشتم، 1386ہجری شمسی۔
* دفتری، فرہاد، «اسماعیلیہ»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۸، تہران، مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول،  ۱۳۷۷ش۔
* دفتری، فرہاد، «اسماعیلیہ»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج8، تہران، مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول،  1377ہجری شمسی۔
* دفتری، فرہاد، «بہرہ»، دانشنامہ جہان اسلام، ج۴، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول،  ۱۳۷۷ش۔
* دفتری، فرہاد، «بہرہ»، دانشنامہ جہان اسلام، ج4، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول،  1377ہجری شمسی۔
* دفتری، فرہاد، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ترجمہ فریدون بدرہ‌ای، تہران، فروزان روز، چاپ اول، ۱۳۹۳ش۔
* دفتری، فرہاد، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ترجمہ فریدون بدرہ‌ای، تہران، فروزان روز، چاپ اول، 1393ہجری شمسی۔
* ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بر علم کلام، قم، دارالفکر، چاپ اول، ۱۳۸۷ش۔
* ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بر علم کلام، قم، دارالفکر، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
* ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، قم، مرکز بین‌المللی ترجمہ و نشر المصطفی، چاپ چہارم، ۱۳۹۲ش۔
* ربانی گلپایگانی، علی، درآمدی بہ شیعہ‌شناسی، قم، مرکز بین‌المللی ترجمہ و نشر المصطفی، چاپ چہارم، 1392ہجری شمسی۔
* رحمتی، محمدکاظم و سیدرضا ہاشمی، «زیدیہ»، دانشنامہ جہان اسلام، ج۲۲، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۹۶ش۔
* رحمتی، محمدکاظم و سیدرضا ہاشمی، «زیدیہ»، دانشنامہ جہان اسلام، ج22، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1396ہجری شمسی۔
* سبحانی، جعفر، اضواءٌ علی عقائد الشیعۃ الامامیہ و تاریخہم، تہران، مشعر، ۱۴۲۱ق۔
* سبحانی، جعفر، اضواءٌ علی عقائد الشیعۃ الامامیہ و تاریخہم، تہران، مشعر، 1421ھ۔
* سبحانی، جعفر، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، بہ‌قلم حسن مکی عاملی، قم، موسسہ امام صادق، چاپ ششم، ۱۳۸۶ش/۱۴۲۶ق۔
* سبحانی، جعفر، الالہیات علی ہدی الکتاب و السنۃ و العقل، بہ‌قلم حسن مکی عاملی، قم، موسسہ امام صادھ، چاپ ششم، 1386ش/1426ھ۔
* سبحانی، جعفر، «تقیہ»، دانشنامہ جہان اسلام، ج۷، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۲ش۔
* سبحانی، جعفر، «تقیہ»، دانشنامہ جہان اسلام، ج7، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1382ہجری شمسی۔
* سبحانی، جعفر، «توسل»، دانشنامہ جہان اسلام، ج۸، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۳ش۔
* سبحانی، جعفر، «توسل»، دانشنامہ جہان اسلام، ج8، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1383ہجری شمسی۔
* سجادی، صادق، «آل‌ادریس، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۱، تہران، مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔
* سجادی، صادھ، «آل‌ادریس، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج1، تہران، مرکز دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، 1374ہجری شمسی۔
* سلطانی، مصطفی، تاریخ و عقاید زیدیہ، قم، نشر ادیان، چاپ اول، ۱۳۹۰ش۔
* سلطانی، مصطفی، تاریخ و عقاید زیدیہ، قم، نشر ادیان، چاپ اول، 1390ہجری شمسی۔
* شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق محمد بن فتح‌اللہ بدران، قم، الشریف الرضی، ۱۳۷۵ش۔
* شہرستانی، محمد بن عبدالکریم، الملل و النحل، تحقیق محمد بن فتح‌اللہ بدران، قم، الشریف الرضی، 1375ہجری شمسی۔
* شہید ثانی، زین الدین بن علی، الرعایۃ، فی علم الدرایۃ، تحقیق عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، ۱۴۰۸ق۔
* شہید ثانی، زین الدین بن علی، الرعایۃ، فی علم الدرایۃ، تحقیق عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ العظمی المرعشی النجفی، 1408ھ۔
* شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد فیما یتعلق بالاعتقاد، بیروت، دارالاضواء، چاپ دوم، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م۔
* شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد فیما یتعلق بالاعتقاد، بیروت، دارالاضواء، چاپ دوم، 1406ق/1986ء۔
* صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، تہران، سمت، چاپ پنجم، ۱۳۸۴ش۔
* صابری، حسین، تاریخ فرق اسلامی، تہران، سمت، چاپ پنجم، 1384ہجری شمسی۔
* صدر، سیدمحمدباقر، بحثٌ حول المہدی، تحقیق عبدالجبار شرارہ، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م۔
* صدر، سیدمحمدباقر، بحثٌ حول المہدی، تحقیق عبدالجبار شرارہ، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، 1417ق/1996ء۔
* طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیرالقرآن، قم، انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۱۷ق۔
* طباطبایی، سیدمحمدحسین، المیزان فی تفسیرالقرآن، قم، انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1417ھ۔
* طباطبایی، سیدمحمدحسین، شیعہ در اسلام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ شانزدہم، ۱۳۸۳ش۔
* طباطبایی، سیدمحمدحسین، شیعہ در اسلام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ شانزدہم، 1383ہجری شمسی۔
* علامہ حلی، کشف‌المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تحقیق و تعلیق حسن حسن‌زادہ آملی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ ہفتم، ۱۴۱۷ق۔
* علامہ حلی، کشف‌المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، تحقیق و تعلیق حسن حسن‌زادہ آملی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ ہفتم، 1417ھ۔
* فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، تصحیح مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم، نشر ہجرت، ۱۴۱۰ق۔
* فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، تصحیح مہدی مخزومی و ابراہیم سامرائی، قم، نشر ہجرت، 1410ھ۔
* فیاض، عبداللہ، پیدایش و گسترش تشیع، ترجمہ سیدجواد خاتمی، سبزوار، انتشارات ابن‌یمین، چاپ اول، ۱۳۸۲ش۔
* فیاض، عبداللہ، پیدایش و گسترش تشیع، ترجمہ سیدجواد خاتمی، سبزوار، انتشارات ابن‌یمین، چاپ اول، 1382ہجری شمسی۔
* قاسمی ترکی، محمدعلی و جواد کریمی، «جمہوری اسلامی ایران»، دانشنامہ جہان اسلام، ج۱۰، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول،  ۱۳۸۵ش۔
* قاسمی ترکی، محمدعلی و جواد کریمی، «جمہوری اسلامی ایران»، دانشنامہ جہان اسلام، ج10، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول،  1385ہجری شمسی۔
* کاشفی، محمدرضا، کلام شیعہ ماہیت، مختصات و منابع، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ سوم، ۱۳۸۷ش۔
* کاشفی، محمدرضا، کلام شیعہ ماہیت، مختصات و منابع، تہران، سازمان انتشارات پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، چاپ سوم، 1387ہجری شمسی۔
* محرمی، غلامحسن، تاریخ تشیع از آغاز تا پایان غیبت صغری، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ دوم، ۱۳۸۲ش۔
* محرمی، غلامحسن، تاریخ تشیع از آغاز تا پایان غیبت صغری، قم، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، چاپ دوم، 1382ہجری شمسی۔
* مشکور، محمدجواد، فرہنگ فرق اسلامی، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، چاپ دوم، ۱۳۷۲ش۔
* مشکور، محمدجواد، فرہنگ فرق اسلامی، مشہد، بنیاد پژوہش‌ہای اسلامی آستان قدس رضوی، چاپ دوم، 1372ہجری شمسی۔
* مظفر، محمدرضا، اصول‌الفقہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، ۱۴۳۰۔
* مظفر، محمدرضا، اصول‌الفقہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ پنجم، 1430۔
* مفید، محمد بن محمد، الافصاح، فی امامۃ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام، قم، مؤسسۃالبعثہ، چاپ اول، ۱۴۱۲ق۔
* مفید، محمد بن محمد، الافصاح، فی امامۃ امیرالمؤمنین علیہ‌السلام، قم، مؤسسۃالبعثہ، چاپ اول، 1412ھ۔
* مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، ۱۴۱۳ق۔
* مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات فی المذاہب و المختارات، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، 1413ھ۔
* مفید، محمد بن محمد، تصحیح اعتقادات الامامیہ، تحقیق حسین درگاہی، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، ۱۳۷۱ش۔
* مفید، محمد بن محمد، تصحیح اعتقادات الامامیہ، تحقیق حسین درگاہی، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، 1371ہجری شمسی۔
* مکارم شیرازی، ناصر، دایرۃالمعارف فقہ مقارن، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ اول، ۱۴۲۷ق۔
* مکارم شیرازی، ناصر، دایرۃالمعارف فقہ مقارن، قم، مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ اول، 1427ھ۔
* ہالم، ہاینس، تشیع، ترجمہ محمدتقی اکبری، قم، نشر ادیان، چاپ دوم، ۱۳۸۹ش۔
* ہالم، ہاینس، تشیع، ترجمہ محمدتقی اکبری، قم، نشر ادیان، چاپ دوم، 1389ہجری شمسی۔
* [https://www.pewresearch.org/fact-tank/2014/06/18/the-sunni-shia-divide-where-they-live-what-they-believe-and-how-they-view-each-other/ft_14-06-17_shiasunni/ FT_14.06.17_ShiaSunni]
* [https://www.pewresearch.org/fact-tank/2014/06/18/the-sunni-shia-divide-where-they-live-what-they-believe-and-how-they-view-each-other/ft_14-06-17_shiasunni/ FT_14.06.17_ShiaSunni]
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
سطر 238: سطر 237:
  | جامعیت = <!--مفقود، موجود-->موجود
  | جامعیت = <!--مفقود، موجود-->موجود
  | غیرمربوط مطلب= <!--موجود، مفقود-->مفقود
  | غیرمربوط مطلب= <!--موجود، مفقود-->مفقود
  | خوب ٹھہرنے کی تاریخ=<!-- ۲۰ نومبر ۲۰۱۹{{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | خوب ٹھہرنے کی تاریخ=<!-- 20 نومبر 2019{{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | منتخب ٹھہرنے کی تاریخ =<!-- ۲۰ نومبر ۲۰۱۹{{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | منتخب ٹھہرنے کی تاریخ =<!-- 20 نومبر 2019{{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | وضاحت = }}</onlyinclude>
  | وضاحت = }}</onlyinclude>


confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم