مندرجات کا رخ کریں

"شیعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 100: سطر 100:


تمام شیعہ فرقوں کا اس عقیدے کی اصل ماہیت میں اتفاق نظر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تفصیلات میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں [[امامیہ]] اس بات کے معتقد ہیں کہ [[امام زمان علیہ السلام|مہدی موعود]] [[امام حسن عسکریؑ]] کے فرزند ارجمند ہیں اور اس وقت [[غیبت]] میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۰و۲۳۱۔</ref> [[اسماعیلیہ]] محمد مکتوم جو کہ امام صادقؑ کی فرزند [[اسماعیل بن امام صادق|اسماعیل]] کے بیتے ہیں کو مہدی موعود قرار دیتے ہیں۔<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۱۵۲۔</ref> اسی طرح زیدیہ چونکہ قیام کرنے کو امام کے شرائط میں سے قرار دیتے ہیں اس لئے [[غیبت]] اور [[انتظار فرج|انتظار]] پر اعتقاد نہیں رکھتے ہیں۔<ref>سلطانی، تاریخ و  عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۹۱۔</ref> زیدیہ ہر امام کو مہدی اور مُنجی قرار دیتے ہیں۔<ref>سلطانی، تاریخ و  عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۹۴۔</ref>
تمام شیعہ فرقوں کا اس عقیدے کی اصل ماہیت میں اتفاق نظر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی تفصیلات میں تھوڑا بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں [[امامیہ]] اس بات کے معتقد ہیں کہ [[امام زمان علیہ السلام|مہدی موعود]] [[امام حسن عسکریؑ]] کے فرزند ارجمند ہیں اور اس وقت [[غیبت]] میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۳۰و۲۳۱۔</ref> [[اسماعیلیہ]] محمد مکتوم جو کہ امام صادقؑ کی فرزند [[اسماعیل بن امام صادق|اسماعیل]] کے بیتے ہیں کو مہدی موعود قرار دیتے ہیں۔<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۱۵۲۔</ref> اسی طرح زیدیہ چونکہ قیام کرنے کو امام کے شرائط میں سے قرار دیتے ہیں اس لئے [[غیبت]] اور [[انتظار فرج|انتظار]] پر اعتقاد نہیں رکھتے ہیں۔<ref>سلطانی، تاریخ و  عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۹۱۔</ref> زیدیہ ہر امام کو مہدی اور مُنجی قرار دیتے ہیں۔<ref>سلطانی، تاریخ و  عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۹۴۔</ref>
==دیگر اہم کلامی نظریات==
==اہم کلامی نظریات==
اصول دین یعنی [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ مشترک ہونے کے ساتھ ساتھ شیعہ بعض ایسے اعتقادات بھی رکھتے ہیں جو انہیں باقی مسلمانوں یا بعض مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں۔ یہ اعتقادات [[امامت]] اور [[مہدویت]] جن کا ذکر ہو چکا، کے علاوہ درج ذیل ہیں:  [[حسن و قبح|حُسن و قُبح عقلی]]، [[تنزیہ صفات|تَنزیہ صفات خدا]]، [[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]]، [[عدالت صحابہ|تمام صحابہ کا عادل نہ ہونا]]، [[تقیہ|تقیّہ]]، [[توسل]] اور [[شفاعت]]۔
اصول دین یعنی [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ مشترک ہونے کے ساتھ ساتھ شیعہ بعض ایسے اعتقادات بھی رکھتے ہیں جو انہیں باقی مسلمانوں یا بعض مذاہب سے ممتاز کرتے ہیں۔ [[امامت]] اور [[مہدویت]] جن کا ذکر پہلے ہوچکا، کے علاوہ یہ اعتقادات میں کچھ یوں ہیں:  [[حسن و قبح|حُسن و قُبح عقلی]]، [[تنزیہ صفات|تَنزیہ صفات خدا]]، [[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]]، [[عدالت صحابہ|تمام صحابہ کا عادل نہ ہونا]]، [[تقیہ|تقیّہ]]، [[توسل]] اور [[شفاعت]]۔


شیعہ علماء [[معتزلہ]] کی طرح حُسن و قُبح کو عقلی سمجھتے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۹۶؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۸۸۔</ref> حسن و قبح عقلی کا معنی یہ ہے کہ ہمارے اَعمال اس بات سے قطع‌ نظر کہ خدا انہیں اچھائی یا برائی سے متصف کریں عقلی طور پر بھی اچھے اور برے میں تقسیم ہوتے ہیں۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> [[اشاعرہ]] اس کے برخلاف اعتقاد رکھتے ہیں اور حسن و قبح کو شرعی مانتے ہیں؛<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> یعنی وہ کہتے ہیں کہ اچھائی اور برائی کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ چیزیں اعتباری ہیں۔ بنابراین جس چیز کی انجام دہی کا خدا حکم دے وہ اچھی اور جس چیز سے خدا منع کرے وہ بری ہے۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref>
شیعہ علماء [[معتزلہ]] کی طرح حُسن و قُبح کو عقلی سمجھتے ہیں۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۹۶؛ صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۸۸۔</ref> حسن و قبح عقلی کا معنی یہ ہے کہ ہمارے اَعمال اس بات سے قطع‌ نظر کہ خدا انہیں اچھائی یا برائی سے متصف کریں عقلی طور پر بھی اچھے اور برے میں تقسیم ہوتے ہیں۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> [[اشاعرہ]] اس کے برخلاف اعتقاد رکھتے ہیں اور حسن و قبح کو شرعی مانتے ہیں؛<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref> یعنی وہ کہتے ہیں کہ اچھائی اور برائی کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ چیزیں اعتباری ہیں۔ بنابراین جس چیز کی انجام دہی کا خدا حکم دے وہ اچھی اور جس چیز سے خدا منع کرے وہ بری ہے۔<ref>مظفر، اصول الفقہ، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۲۷۱۔</ref>


"تنزیہ صفات" کا نظریہ، نظریہ "تعطیل" اور "تشبیہ" کے مقابلے میں ہے۔ نظریہ تعطیل کہتا ہے کہ کسی بھی صفت کو خدا کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی جبکہ تشبیہ کا نظریہ خدا کے صفات کو بھی دوسرے مخلوقات کے صفات کے ساتل تشبیہ دیتا ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۲و۱۷۳۔</ref> شیعہ کہتے ہیں کہ بعض مثبت صفات جن سے مخلوقات متصف ہوتے ہیں کو خدا کی طرف بھی نسبت دی جا سکتی ہے لیکن ان صفات کے ساتھ متصف ہونے میں خدا کو مخلوقات کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۲؛‌ طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۲۵و۱۲۶۔</ref> مثال کے طور پر جس طرح انسان علم، قدرت اور حیات سے متصف ہوتے ہیں اسی طرح خدا بھی ان صفات سے متصف ہوتے ہیں خدا کا علم، قدرت اور حیات عام انسانوں کے علم، قدرت اور حیات کی طرح نہیں ہے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۲۵و۱۲۶۔</ref>
"تنزیہ صفات" کا نظریہ، "تعطیل" اور "تشبیہ" کے مقابلے میں ہے۔ نظریہ تعطیل کہتا ہے کہ کسی بھی صفت کو خدا کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی جبکہ تشبیہ کا نظریہ خدا کے صفات کو بھی دوسرے مخلوقات کے صفات کے ساتھ تشبیہ دیتا ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۲و۱۷۳۔</ref> شیعہ کہتے ہیں کہ بعض مثبت صفات جن سے مخلوقات متصف ہوتے ہیں کو خدا کی طرف بھی نسبت دی جا سکتی ہے لیکن ان صفات کے ساتھ متصف ہونے میں خدا کو مخلوقات کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۲؛‌ طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۲۵و۱۲۶۔</ref> مثال کے طور پر جس طرح انسان علم، قدرت اور حیات سے متصف ہوتا ہے اسی طرح خدا بھی ان صفات سے متصف ہوتے ہیں لیکن خدا کا علم، قدرت اور حیات عام انسانوں کے علم، قدرت اور حیات کی طرح نہیں ہے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۱۲۵و۱۲۶۔</ref>


[[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]] کا معنی یہ ہے کہ انسان نہ مکمل طور پر مختار ہے جس طرح معتزلہ قائل ہیں اور نہ مکمل طور پر مجبور ہے جس طرح [[اصحاب حدیث|اہل‌ حدیث]] خیال کرتے ہیں؛<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۷۷۔</ref> بلکہ انسان اگرچہ اپنے افعال کی انجام دہی میں مختار ہے لیکن اس کا ارادہ اور اس کی قدرت خدا سے وابستہ ہے مستقل نہیں ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۳۔</ref> شیعوں میں سے [[زیدیہ]] بھی معتزلہ کی طرح انسان کو مکمل مختار تصور کرتے ہیں۔<ref> سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۱۶۔</ref>
[[امر بین الامرین|اَمرٌ بَینَ الاَمرَین]] کا معنی یہ ہے کہ انسان نہ مکمل طور پر مختار ہے جس طرح معتزلہ قائل ہیں اور نہ مکمل طور پر مجبور ہے جس طرح [[اصحاب حدیث|اہل‌ حدیث]] خیال کرتے ہیں؛<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۷۷۔</ref> بلکہ انسان اگرچہ اپنے افعال کی انجام دہی میں مختار ہے لیکن اس کا ارادہ اور اس کی قدرت خدا سے وابستہ ہے مستقل نہیں ہے۔<ref>ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۱۷۳۔</ref> شیعوں میں سے [[زیدیہ]] بھی معتزلہ کی طرح انسان کو مکمل مختار تصور کرتے ہیں۔<ref> سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ۱۳۹۰ش، ص۲۱۶۔</ref>


شیعہ متکلمین [[اہل سنت و جماعت|اہل‌ سنت]] کے برخلاف،<ref>ابن‌اثیر، اُسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۰؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، ۱۹۹۲م/۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۔</ref> پیغمبر اکرمؐ کے تمام [[صحابہ|اصحاب]] کو عادل نہیں سمجھتے<ref>شہید ثانی، الرعایة فی علم الدرایۃ، ۱۴۰۸ق، ص۳۴۳؛ امین، اعیان‌الشیعۃ، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸م، ج۱، ص۱۶۱؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۹و۲۱۰۔</ref> اور کہتے ہیں کہ صرف پیغمبر اکرمؐ کی مصاحبت کسی کی عدالت پر دلیل نہیں بن سکتی۔<ref>شهید ثانی، الرعایة فی علم الدرایة، ۱۴۰۸ق، ص۳۴۳؛ امین، اعیان‌الشیعة، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸م، ج۱، ص۱۶۱.</ref>
[[اہل سنت و جماعت|اہل‌ سنت]] کے برخلاف شیعہ متکلمین <ref>ابن‌اثیر، اُسدالغابہ، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۰؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، ۱۹۹۲م/۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۔</ref> پیغمبر اکرمؐ کے تمام [[صحابہ|اصحاب]] کو عادل نہیں سمجھتے<ref>شہید ثانی، الرعایة فی علم الدرایۃ، ۱۴۰۸ق، ص۳۴۳؛ امین، اعیان‌الشیعۃ، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸م، ج۱، ص۱۶۱؛ ربانی گلپایگانی، درآمدی بر علم کلم، ۱۳۸۷ش، ص۲۰۹و۲۱۰۔</ref> کیونکہ صرف پیغمبر اکرمؐ کی مصاحبت کسی کی عدالت پر دلیل نہیں بن سکتی۔<ref>شهید ثانی، الرعایة فی علم الدرایة، ۱۴۰۸ق، ص۳۴۳؛ امین، اعیان‌الشیعة، ۱۴۱۹ق/۱۹۹۸م، ج۱، ص۱۶۱.</ref>


زیدیہ کے علاوہ<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۸۷.</ref> دیگر شیعہ فرق [[تقیہ]] کو جائز سمجھتے ہیں؛ یعنی وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اگسی کسی جگہ اپنے اعتقادات کا اظہار اس کے لئے نقصان کا باعث ہو تو انسان اپنے عقیدے کو چھپا سکتا ہے اور اپنے عقیدے کے برخلاف چیز کا اظہار کر سکتا ہے۔<ref>سبحانی، «تقیہ»، ص۸۹۱و۸۹۲؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۸۷۔</ref>
زیدیہ کے علاوہ<ref>صابری، تاریخ فرق اسلامی، ۱۳۸۸ش، ج۲، ص۸۷.</ref> دیگر شیعہ فرق [[تقیہ]] کو جائز سمجھتے ہیں؛ یعنی وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اگسی کسی جگہ اپنے اعتقادات کا اظہار اس کے لئے نقصان کا باعث ہو تو انسان اپنے عقیدے کو چھپا سکتا ہے اور اپنے عقیدے کے برخلاف چیز کا اظہار کر سکتا ہے۔<ref>سبحانی، «تقیہ»، ص۸۹۱و۸۹۲؛ دفتری، تاریخ و سنت‌ہای اسماعیلیہ، ۱۳۹۳ش، ص۸۷۔</ref>
confirmed، templateeditor
5,869

ترامیم