confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,184
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←ابوبکر) |
||
سطر 237: | سطر 237: | ||
'''اجباری بیعت''' | '''اجباری بیعت''' | ||
[[بیعت]] سے امام علیؑ کا اجتناب اور بعض [[صحابہ]] کی خلافت [[ابوبکر]] کے خلاف اقدامات، ابوبکر اور حتی [[عمر]] کے لئے سنجیدہ خطرے میں تبدیل ہوگئے۔ چنانچہ ابوبکر و عمر نے اس خطرے کے خاتمے اور اپنے منصوبے کے تحت علی بن ابیطالبؑ کو بیعت پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔<ref>پیشوائی، ج 2، ص 191۔</ref> [[ابوبکر]] نے کئی مرتبہ امامؑ سے بیعت لینے کیلئے [[قنفذ|قُنفُذ]] نامی شخص کو امام علیؑ کے گھر کے دروازے پر بھجوایا لیکن امامؑ نے قبول نہ کیا چنانچہ عمر نے ابوبکر سے کہا: خود ہی اٹھو، ہم مل کر علی بن ابیطالب کے پاس جاتے ہیں اور یوں ابو بکر، عمر، [[عثمان]]، [[خالد بن ولید]]، [[مغیرہ بن شعبہ]]، [[ابو عبیدہ جراح]] اور قنفذ علیؑ کے گھر کے دروازے پر پہنچے۔ یہ گروہ جب گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے بنت رسولؐ [[حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]] کی توہین کی اور دروازے کو دھکا دیا اور سیدہؑ دروازے اور دیوار کے درمیان دب گئیں اور ان افراد میں سے بعض نے سیدہؑ کو تازیانے مارے۔<ref>ابن قتیبہ، ج 1، ص 29-30؛ مجلسی، ج 43، ص 70؛ مجلسی، مرآة العقول، ج 5، ص 320 ؛ شہرستانی، ج1، ص 57۔</ref> اور اس کے بعد امام علیؑ پر حملہ کیا اور آپ کا لباس ان کی گردن میں لپیٹا اور انہیں گھسیٹ کر سقیفہ لے گئے اور ان کے بیعت کا مطالبہ کیا۔ امام نے جواب دیا: میں خلافت کے لئے تم سے زیادہ اس کا اہل ہوں، اس لئے میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا۔ بہتر ہوگا کہ تم میری بیعت کرو، اس لئے کہ تم نے انصار کو رسول خدا کا رشتہ دار بتا کر ان سے خلافت لے لی اور اب ہم سے خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہو۔ | [[بیعت]] سے امام علیؑ کا اجتناب اور بعض [[صحابہ]] کی خلافت [[ابوبکر]] کے خلاف اقدامات، ابوبکر اور حتی [[عمر]] کے لئے سنجیدہ خطرے میں تبدیل ہوگئے۔ چنانچہ ابوبکر و عمر نے اس خطرے کے خاتمے اور اپنے منصوبے کے تحت علی بن ابیطالبؑ کو بیعت پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔<ref>پیشوائی، ج 2، ص 191۔</ref> [[ابوبکر]] نے کئی مرتبہ امامؑ سے بیعت لینے کیلئے [[قنفذ|قُنفُذ]] نامی شخص کو امام علیؑ کے گھر کے دروازے پر بھجوایا لیکن امامؑ نے قبول نہ کیا چنانچہ عمر نے ابوبکر سے کہا: خود ہی اٹھو، ہم مل کر علی بن ابیطالب کے پاس جاتے ہیں اور یوں ابو بکر، عمر، [[عثمان]]، [[خالد بن ولید]]، [[مغیرہ بن شعبہ]]، [[ابو عبیدہ جراح]] اور قنفذ علیؑ کے گھر کے دروازے پر پہنچے۔ یہ گروہ جب گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے بنت رسولؐ [[حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]] کی توہین کی اور دروازے کو دھکا دیا اور سیدہؑ دروازے اور دیوار کے درمیان دب گئیں اور ان افراد میں سے بعض نے سیدہؑ کو تازیانے مارے۔<ref>ابن قتیبہ، ج 1، ص 29-30؛ مجلسی، ج 43، ص 70؛ مجلسی، مرآة العقول، ج 5، ص 320 ؛ شہرستانی، ج1، ص 57۔</ref> اور اس کے بعد امام علیؑ پر حملہ کیا اور آپ کا لباس ان کی گردن میں لپیٹا اور انہیں گھسیٹ کر سقیفہ لے گئے اور ان کے بیعت کا مطالبہ کیا۔ امام نے جواب دیا: میں خلافت کے لئے تم سے زیادہ اس کا اہل ہوں، اس لئے میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا۔ بہتر ہوگا کہ تم میری بیعت کرو، اس لئے کہ تم نے انصار کو رسول خدا کا رشتہ دار بتا کر ان سے خلافت لے لی اور اب ہم سے خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہو۔<ref>ابن قتیبہ، ج۱، ص۲۸۔</ref> | ||
بیعت کے وقت کے سلسلہ میں مورخین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض اس بیعت کو [[حضرت فاطمہ زہرا]] کی وفات کے بعد اور بعض دیگر 40 روز کے بعد مانتے ہیں اور ایک دوسرے گروہ کے مطابق 6 ماہ بعد ذکر ہوئی ہے۔ البتہ [[شیخ مفید]] کا ماننا ہے کہ امام نے ہرگز ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔ | بیعت کے وقت کے سلسلہ میں مورخین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض اس بیعت کو [[حضرت فاطمہ زہرا]] کی وفات کے بعد اور بعض دیگر 40 روز کے بعد مانتے ہیں اور ایک دوسرے گروہ کے مطابق 6 ماہ بعد ذکر ہوئی ہے۔<ref>يعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۱، ص ۵۲۷.</ref> البتہ [[شیخ مفید]] کا ماننا ہے کہ امام نے ہرگز ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔<ref>مفيد، الفصول المختارہ، ص ۵۶-۵۷۔</ref> | ||
'''خلافت ابوبکر میں آپ کا رویہ''' | '''خلافت ابوبکر میں آپ کا رویہ''' | ||
[[خلافت]] [[ابوبکر]] کے زمانہ میں جس کی مدت 2 سال تھی، امام علی تمام محظورات کے باوجود دستگاہ خلافت کو جہاں تک ان کے لئے قبول کرنا ممکن ہوتا تھا، انہیں مشورہ دیا کرتے تھے۔ علمائے [[اہل سنت]] کے عقیدہ کے مطابق، ابوبکر مہم امور میں امام علی سے مشورہ کیا کرتے | [[خلافت]] [[ابوبکر]] کے زمانہ میں جس کی مدت 2 سال تھی، امام علی تمام محظورات کے باوجود دستگاہ خلافت کو جہاں تک ان کے لئے قبول کرنا ممکن ہوتا تھا، انہیں مشورہ دیا کرتے تھے۔ علمائے [[اہل سنت]] کے عقیدہ کے مطابق، ابوبکر مہم امور میں امام علی سے مشورہ کیا کرتے تھے۔<ref>جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج ۱، ص ۳۰۶۔</ref> اور ان کے مشورہ کے مطابق عمل کیا کرتے تھے اور اس لئے کہ وہ امام کے مشوروں سے فائدہ اٹھا سکیں انہیں دیگر [[مسلمانوں]] کی طرح [[مدینہ]] سے خارج ہونے کی اجازت نہین دیتے تھے۔<ref>رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین علیهالسلام، ص۲۵۳۔</ref> آپ نے کوئی بھی منصب قبول نہ کرنے سے پرہیز کے باجود جب بھی انہیں مشورہ کی کوئی ضرورت پیش آتی تھی اور [[اسلام]] و [[مسلمین]] کی مصلحت کا تقاضا ہوتا تھا تو [[خلیفہ]] کے ساتھ تعاون سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ [[یعقوبی]] اس بارے میں تحریر کرتے ہیں: خلافت ابوبکر کے زمانے میں جن افراد سے [[فقہ]] حاصل کی جاتی تھی ان میں سے ایک علی بن ابی طالب تھے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص۱۳۸.</ref> ان کے دور حکومت میں جنگوں و فتوحات کے سلسلہ میں امام کا موقف غیر جانب دارانہ یا زیادہ سے زیادہ مشاورانہ ہوتا تھا لیکن آپ نے بذات خود ان میں سے کسی میں شرکت نہیں کی۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق، ابوبکر نے فتح [[شام]] کے سلسلہ میں اصحاب سے نظر خواہی کی اور فقط امام علی کے نظریہ کو قبول کیا۔<ref>ازدی، تاریخ فتوح الشام، ص۴-۵۴؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص ۱۳۳۔</ref> | ||
===عمر === | ===عمر === |