گمنام صارف
"امام علی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
←فضائل و مناقب
imported>E.musavi (←روضہ) |
imported>E.musavi |
||
سطر 314: | سطر 314: | ||
== فضائل و مناقب == | == فضائل و مناقب == | ||
'''کعبہ | '''مولود کعبہ''' | ||
{{اصلی|کعبہ میں ولادت}} | {{اصلی|کعبہ میں ولادت}} | ||
[[علامہ امینی]] کے نقل کے مطابق، | [[علامہ امینی]] کے نقل کے مطابق، 16 منابع [[اہل سنت]]، 50 منابع [[شیعہ]] اور 41 شعراء نے دوسرے صدی ہجری کے بعد [[خانہ کعبہ]] میں امام علی کی ولادت کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، ۱۳۹۷ق، ج۶، ص۲۱-۲۳.</ref> اسی طرح سے [[علامہ مجلسی]] نے 18 شیعہ منابع میں خانہ کعبہ میں آپ کی ولادت ہونے کا ذکر کیا ہے۔<ref> مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ ج۳۵، ص۲۳.</ref> ان روایات کی بناء پر امام کی والدہ فاطمہ بنت اسد کنار کعبہ دعا کی اور اللہ سے چاہا کہ ان کے فرزند کی ولادت ان پر آسان ہو۔<ref> کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۰۱.</ref> دعا کے دیوار کعبہ شگافتہ ہوئی، آپ اس کے اندر وارد ہوئیں، تین دن کعبہ میں رہنے بعد چوتھے دن کعبہ سے باہر آئیں جبکہ ان کے فرزند علی ان کی آغوش میں تھے۔<ref> امینی، الغدیر، ۱۳۹۷ق، ج ۶، ص۲۲.</ref> | ||
'''مسلمِ اول''' | '''مسلمِ اول''' | ||
{{اصلی|مسلم اول}} | {{اصلی|مسلم اول}} | ||
[[شیعہ]] عقائد اور بعض علمائے [[اہل سنت]] کے مطابق حضرت علی [[آنحضرت]] پر [[ایمان]] لانے والے پہلے مرد ہیں۔<ref>النسائی، السنن الکبری، ج۵، ص۱۰۷؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج۱، ص۱۵؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۶۵، پاورقی شماره ۲؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج۱، ص۳۰.</ref> بعض شیعہ [[روایات]] کے مطابق، [[پیغمبر اکرم (ص)]] نے امام علی کا تعارف پہلے مسلمان، پہلے مومن<ref>ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی طالب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۶.</ref> اور آپ کی تصدیق کرکے والے انسان کے عنوان سے کرایا ہے۔<ref>صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۸۴.</ref> [[شیخ طوسی]] نے [[امام رضا]] سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس میں آپ نے امام علی کا تعارف آنحضرت پر سب سے ایمان لانے والے کے طور پر کیا ہے۔<ref>طوسی، الأمالی، ۱۴۱۴ق، ص۳۴۳.</ref> [[علامہ مجلسی]] ایمان لانے والے افراد کا ذکر اس ترتیب سے کرتے ہیں: سب سے پہلے حضرت علی، اس کے بعد [[حضرت خدیجہ]]، اس کے بعد [[جعفر بن ابی طالب]] ایمان لائے۔<ref>مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۶، ص۱۰۲ | [[شیعہ]] عقائد اور بعض علمائے [[اہل سنت]] کے مطابق حضرت علی [[آنحضرت]] پر [[ایمان]] لانے والے پہلے مرد ہیں۔<ref> النسائی، السنن الکبری، ج۵، ص۱۰۷؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج۱، ص۱۵؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۶۵، پاورقی شماره ۲؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج۱، ص۳۰.</ref> بعض شیعہ [[روایات]] کے مطابق، [[پیغمبر اکرم (ص)]] نے امام علی کا تعارف پہلے مسلمان، پہلے مومن<ref> ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی طالب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۶.</ref> اور آپ کی تصدیق کرکے والے انسان کے عنوان سے کرایا ہے۔<ref> صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۸۴.</ref> [[شیخ طوسی]] نے [[امام رضا]] سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس میں آپ نے امام علی کا تعارف آنحضرت پر سب سے ایمان لانے والے کے طور پر کیا ہے۔<ref> طوسی، الأمالی، ۱۴۱۴ق، ص۳۴۳.</ref> [[علامہ مجلسی]] ایمان لانے والے افراد کا ذکر اس ترتیب سے کرتے ہیں: سب سے پہلے حضرت علی، اس کے بعد [[حضرت خدیجہ]]، اس کے بعد [[جعفر بن ابی طالب]] ایمان لائے۔<ref> مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۶، ص۱۰۲</ref> | ||
بعض محققین کے مطابق اس بات پر شیعوں میں [[اجماع]] ہے کہ امام علی پہلے [[مسلمان]] مرد ہیں۔<ref>حسینی، «نخستین مومن و آگاهانهترین ایمان»، ص۴۸.</ref> جبکہ [[طبری]]<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۱۰.</ref>، [[ذہبی]]<ref> ذهبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۲۸.</ref> وغیرہ<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۹۰.</ref> جیسے بعض اہل سنت مورخین نے بھی بعض روایات کی ہیں جن کی بنیاد پر حضرت علی پہلے مسلمان ہیں۔ مشہور کی بناء پر اس وقت حضرت علی کی عمر دس سال تھی۔ حالانکہ بعض منابع میں ایمان لانے کے وقت ان کی عمر بارہ سال ذکر ہوئی ہے، اس لئے کہ [[شہادت]] کے وقت آپ کی عمر ۶۵ سال ذکر ہوئی ہے۔<ref> رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین، ۱۳۸۶، ص۴۴.</ref> | بعض محققین کے مطابق اس بات پر شیعوں میں [[اجماع]] ہے کہ امام علی پہلے [[مسلمان]] مرد ہیں۔<ref> حسینی، «نخستین مومن و آگاهانهترین ایمان»، ص۴۸.</ref> جبکہ [[طبری]]<ref> طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۱۰.</ref>، [[ذہبی]]<ref> ذهبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۲۸.</ref> وغیرہ<ref> ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۹۰.</ref> جیسے بعض اہل سنت مورخین نے بھی بعض روایات کی ہیں جن کی بنیاد پر حضرت علی پہلے مسلمان ہیں۔ مشہور کی بناء پر اس وقت حضرت علی کی عمر دس سال تھی۔ حالانکہ بعض منابع میں ایمان لانے کے وقت ان کی عمر بارہ سال ذکر ہوئی ہے، اس لئے کہ [[شہادت]] کے وقت آپ کی عمر ۶۵ سال ذکر ہوئی ہے۔<ref> رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین، ۱۳۸۶، ص۴۴.</ref> | ||
'''حدیث یوم الدار''' | '''حدیث یوم الدار''' | ||
{{اصلی|حدیث یوم الدار}} | {{اصلی|حدیث یوم الدار}} | ||
[[رسول خدا (ص)]] نے [[مکہ]] میں تین سال تک مخفیانہ طور پر [[اسلام]] کی دعوت دی۔ اس کے بعد خداوند عالم کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ علنی طور رپر دعوت دیں۔ تاریخ اسلام و تفاسیر [[قرآن]] کے مصادر کے مطابق جب [[سنہ 3 بعثت]] میں [[آیہ انذار]] نازل ہوئی تو آنحضرت نے امام کو حکم دیا کہ وہ غذا کا انتظام کریں اور فرزندان [[عبد المطلب]] کو بلائیں تا کہ وہ انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ تقریبا چالیس افراد جن میں [[ابو طالب]]، [[حمزہ]] و [[ابو لہب]] شامل تھے، دعوت میں آئے۔ آنحضرت نے کھانے کے بعد فرمایا: اے اولاد عبد المطلب، خدا کی قسم، عربوں کے درمیان میں کسی ایسے جوان کو نہیں جانتا جو تمہارے لئے اس چیز سے بہتر لایا ہو جو میں تمہارے لئے لایا ہوں۔ میں تمہارے لئے خیر دنیا و آخرت لایا ہوں۔ پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کی دعوت دوں، تم میں سے کون اس کام میں میری مدد کرے گا تا کہ وہ میرا بھائی اور وصی و جانشین بنے۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔ امام علی جو سب سے چھوٹے تھے اور ان کی عمر تیرہ یا چودہ سال تھی، نے کہا: اے رسول خدا میں آپ کی نصرت کروں گا۔ آپ نے فرمایا: یہ تمہارے درمیان میر بھائی، وصی و جانشین ہے، اس کے بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔<ref>طبری، تاریخ الامم والملوک، دار قاموس الحدیث، ج۲، ص۲۷۹؛ سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۲۱؛ حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۵۴۳؛ رجوع کریں: ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۹۹ق، ج۲، ص۶۳-۶۰؛ ابن کثیر، البدایہ و النهایہ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۵۴-۵۰؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۶، ص۱۵۳-۱۵۱؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۲۰۶؛ بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۶ق، ج۴، ص۱۸۹-۱۸۶؛ فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، ۱۴۱۰ق، ص۳۰۰؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۹۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۵۴۳-۵۴۲؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، المکتبہ العلمیہ، ج۱، ص۲۶۲.</ref> | [[رسول خدا (ص)]] نے [[مکہ]] میں تین سال تک مخفیانہ طور پر [[اسلام]] کی دعوت دی۔ اس کے بعد خداوند عالم کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ علنی طور رپر دعوت دیں۔ تاریخ اسلام و تفاسیر [[قرآن]] کے مصادر کے مطابق جب [[سنہ 3 بعثت]] میں [[آیہ انذار]] نازل ہوئی تو آنحضرت نے امام کو حکم دیا کہ وہ غذا کا انتظام کریں اور فرزندان [[عبد المطلب]] کو بلائیں تا کہ وہ انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ تقریبا چالیس افراد جن میں [[ابو طالب]]، [[حمزہ]] و [[ابو لہب]] شامل تھے، دعوت میں آئے۔ آنحضرت نے کھانے کے بعد فرمایا: اے اولاد عبد المطلب، خدا کی قسم، عربوں کے درمیان میں کسی ایسے جوان کو نہیں جانتا جو تمہارے لئے اس چیز سے بہتر لایا ہو جو میں تمہارے لئے لایا ہوں۔ میں تمہارے لئے خیر دنیا و آخرت لایا ہوں۔ پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کی دعوت دوں، تم میں سے کون اس کام میں میری مدد کرے گا تا کہ وہ میرا بھائی اور وصی و جانشین بنے۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔ امام علی جو سب سے چھوٹے تھے اور ان کی عمر تیرہ یا چودہ سال تھی، نے کہا: اے رسول خدا میں آپ کی نصرت کروں گا۔ آپ نے فرمایا: یہ تمہارے درمیان میر بھائی، وصی و جانشین ہے، اس کے بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔<ref> طبری، تاریخ الامم والملوک، دار قاموس الحدیث، ج۲، ص۲۷۹؛ سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۲۱؛ حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۵۴۳؛ رجوع کریں: ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۹۹ق، ج۲، ص۶۳-۶۰؛ ابن کثیر، البدایہ و النهایہ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۵۴-۵۰؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۶، ص۱۵۳-۱۵۱؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۲۰۶؛ بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۶ق، ج۴، ص۱۸۹-۱۸۶؛ فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، ۱۴۱۰ق، ص۳۰۰؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۹۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۵۴۳-۵۴۲؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، المکتبہ العلمیہ، ج۱، ص۲۶۲.</ref> | ||
'''شب ہجرت ''' (لیلۃ المبیت) | '''شب ہجرت ''' (لیلۃ المبیت) | ||
{{اصلی|شب ہجرت}} | {{اصلی|شب ہجرت}} | ||
[[قریش]] نے مسلمانوں کو آزار و اذيت کا نشانہ بنایا تو [[پیغمبرؐ]] نے اپنے اصحاب کو [[مدینہ]] کی طرف [[ہجرت]] کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کے اصحاب مرحلہ وار مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔<ref>ابن ہشام، ج 1، ص 480۔</ref> [[ | [[قریش]] نے مسلمانوں کو آزار و اذيت کا نشانہ بنایا تو [[پیغمبرؐ]] نے اپنے اصحاب کو [[مدینہ]] کی طرف [[ہجرت]] کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ کے اصحاب مرحلہ وار مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔<ref>ابن ہشام، ج 1، ص 480۔</ref> [[دار الندوہ]] میں مشرکین کا اجلاس ہوا تو قریشی سرداروں کے درمیان مختلف آرا پر بحث و مباحثہ ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ہر قبیلے کا ایک نڈر اور بہادر نوجوان اٹھے اور [[رسول خدا]] کے قتل میں شرکت کرے۔ [[جبرائیل]] نے اللہ کے حکم پر نازل ہوکر آپؐ کو سازش سے آگاہ کیا اور آپ کو اللہ کا یہ حکم پہنچایا کہ: آج رات اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کریں۔ پیغمبرؐ نے علیؑ کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور حکم دیا کہ آپ کی خوابگاہ میں آپ کے بستر پر آرام کریں۔<ref> ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص 72؛ مجلسی، ج 19، 59۔</ref> | ||
آیت اور اس کا شان نزول: <font color=green>{{حدیث|'''وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَہ ُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہ ِ وَاللّہ ُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ'''}}</font> اور آدمیوں ہی میں وہ بھی ہے جو اللہ کی مرضی کی طلب میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اور اللہ بندوں پر بڑا شفیق و مہربان ہے۔<ref>سورہ بقرہ (2) آیت 207، ترجمہ علامہ سید علی نقی نقوی۔</ref> <br /> | آیت اور اس کا شان نزول: <font color=green>{{حدیث|'''وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَہ ُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہ ِ وَاللّہ ُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ'''}}</font> اور آدمیوں ہی میں وہ بھی ہے جو اللہ کی مرضی کی طلب میں اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور اور اللہ بندوں پر بڑا شفیق و مہربان ہے۔<ref>سورہ بقرہ (2) آیت 207، ترجمہ علامہ سید علی نقی نقوی۔</ref> <br /> | ||
مفسرین کے مطابق یہ آیت [[لیلۃ المبیت]] سے تعلق رکھتی ہے اور علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔<ref>فخر رازی، ج 5، 223؛ حاکم حسکانی، ج 1، 96؛ علی بن ابراہیم، ص 61؛ طباطبائی، ج 2، ص 150۔</ref> | مفسرین کے مطابق یہ آیت [[لیلۃ المبیت]] سے تعلق رکھتی ہے اور علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔<ref> فخر رازی، ج 5، 223؛ حاکم حسکانی، ج 1، 96؛ علی بن ابراہیم، ص 61؛ طباطبائی، ج 2، ص 150۔</ref> | ||
'''رسول خداؐ کے ساتھ مؤاخات''' | '''رسول خداؐ کے ساتھ مؤاخات''' | ||
[[رسول خداؐ]] نے ہجرت کے بعد [[مدینہ]] پہنچنے پر [[مہاجرین]] کے درمیان عقد اخوت برقرار کیا اور پھر مہاجرین اور | [[رسول خداؐ]] نے ہجرت کے بعد [[مدینہ]] پہنچنے پر [[مہاجرین]] کے درمیان عقد اخوت برقرار کیا اور پھر مہاجرین اور [[انصار]] کے درمیان اخوت قائم کی اور دونوں مواقع پر علیؑ سے فرمایا: تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو نیز اپنے اور علیؑ کے درمیان عقد اخوت جاری کیا۔ <ref> ابن عبدالبر، الاستیعاب، بحوالہ محسن امین العاملی، اعیان الشیعہ، بیروت: دار التعارف للمطبوعات، 1418ق۔/1998م۔، ج 2، ص 27۔</ref> | ||
'''ردّ الشمس''' | '''ردّ الشمس''' | ||
{{اصلی|رد الشمس}} | {{اصلی|رد الشمس}} | ||
یہ [[سنہ 7 ہجری]] کا واقعہ ہے جب رسول خداؐ اور علیؑ نے [[نماز ظہر]] ادا کی اور رسول خداؐ نے علیؑ کو کسی کام کی غرض سے کہیں بھیجا جبکہ علیؑ نے نماز عصر ادا نہیں کی تھی۔ جب علیؑ واپس لوٹ کر آئے تو پیغمبرؐ نے اپنا سر علیؑ کی گود میں رکھا اور سوگئے یہاں تک سورج [[غروب]] ہوگیا۔ جب [[رسول خدا]]ؐ جاگ اٹھے بارگاہ الہی میں دعا کی: "خدایا! تیرے بندے علی نے اپنے آپ کو تیرے رسولؐ کے لئے وقف کیا، سورج کی تابش اس کی طرف لوٹا دے"۔ پس علیؑ اٹھے، [[وضو]] تازہ کیا اور [[نماز عصر]] ادا کی اور سورج ایک بار پھر غروب ہوگیا۔<ref>امینی، ج 3، ص 140؛ شوشتری، احقاق الحق،ج 5،ص 522۔</ref> | یہ [[سنہ 7 ہجری]] کا واقعہ ہے جب رسول خداؐ اور علیؑ نے [[نماز ظہر]] ادا کی اور رسول خداؐ نے علیؑ کو کسی کام کی غرض سے کہیں بھیجا جبکہ علیؑ نے نماز عصر ادا نہیں کی تھی۔ جب علیؑ واپس لوٹ کر آئے تو پیغمبرؐ نے اپنا سر علیؑ کی گود میں رکھا اور سوگئے یہاں تک سورج [[غروب]] ہوگیا۔ جب [[رسول خدا]]ؐ جاگ اٹھے بارگاہ الہی میں دعا کی: "خدایا! تیرے بندے علی نے اپنے آپ کو تیرے رسولؐ کے لئے وقف کیا، سورج کی تابش اس کی طرف لوٹا دے"۔ پس علیؑ اٹھے، [[وضو]] تازہ کیا اور [[نماز عصر]] ادا کی اور سورج ایک بار پھر غروب ہوگیا۔<ref> امینی، ج 3، ص 140؛ شوشتری، احقاق الحق،ج 5،ص 522۔</ref> | ||
'''ابلاغ سورہ برائت ( توبہ)''' | '''ابلاغ سورہ برائت ( توبہ)''' | ||
[[سورہ توبہ]] کی ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا تھا کہ [[مشرکین]] کو چار مہینوں تک مہلت دی جاتی ہے کہ یکتا پرستی اور [[توحید]] کا عقیدہ قبول کریں جس کے بعد وہ مسلمانوں کے زمرے میں آئیں گے لیکن اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں تو انہیں جنگ کے لئے تیار ہونا پڑے گا اور انہیں جان لینا چاہئے کہ جہاں بھی پکڑے جائیں گے مارے جائیں گے۔ یہ آیات کریمہ ایسے حال میں نازل ہوئیں کہ [[پیغمبر]]ؐ حج کی انجام دہی میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتے تھے؛ چنانچہ اللہ کے فرمان کے مطابق ان پیغامات کے ابلاغ کی ذمہ داری یا تو [[رسول اللہؐ]] خود نبھائیں یا پھر ایسا فرد یہ ذمہ داری پوری کرے جو آپؐ سے ہو، اور ان کے سوا کوئی بھی اس کام کی اہلیت نہيں رکھتا" <ref>ابن ہشام، ج4، ص 545۔</ref>، ـ حضرت محمدؐ نے علیؑ کو بلوایا اور حکم دیا کہ [[مکہ]]۔ تشریف لے جائے اور [[عید الاضحیٰ]] کے دن [[مِنیٰ]] کے مقام پر [[سورہ برائت]] کو مشرکین تک پہنچا دیں۔<ref>طبری، ج 6، جزء 10؛ ابن ہشام ، ج 4، ص 188ـ190۔</ref> | [[سورہ توبہ]] کی ابتدائی آیات میں بیان کیا گیا تھا کہ [[مشرکین]] کو چار مہینوں تک مہلت دی جاتی ہے کہ یکتا پرستی اور [[توحید]] کا عقیدہ قبول کریں جس کے بعد وہ مسلمانوں کے زمرے میں آئیں گے لیکن اگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہیں تو انہیں جنگ کے لئے تیار ہونا پڑے گا اور انہیں جان لینا چاہئے کہ جہاں بھی پکڑے جائیں گے مارے جائیں گے۔ یہ آیات کریمہ ایسے حال میں نازل ہوئیں کہ [[پیغمبر]]ؐ حج کی انجام دہی میں شرکت کا ارادہ نہیں رکھتے تھے؛ چنانچہ اللہ کے فرمان کے مطابق ان پیغامات کے ابلاغ کی ذمہ داری یا تو [[رسول اللہؐ]] خود نبھائیں یا پھر ایسا فرد یہ ذمہ داری پوری کرے جو آپؐ سے ہو، اور ان کے سوا کوئی بھی اس کام کی اہلیت نہيں رکھتا" <ref>ابن ہشام، ج4، ص 545۔</ref>، ـ حضرت محمدؐ نے علیؑ کو بلوایا اور حکم دیا کہ [[مکہ]]۔ تشریف لے جائے اور [[عید الاضحیٰ]] کے دن [[مِنیٰ]] کے مقام پر [[سورہ برائت]] کو مشرکین تک پہنچا دیں۔<ref> طبری، ج 6، جزء 10؛ ابن ہشام ، ج 4، ص 188ـ190۔</ref> | ||
'''حدیث حق''' | '''حدیث حق''' | ||
سطر 360: | سطر 360: | ||
{{اصلی|حدیث سد الابواب}} | {{اصلی|حدیث سد الابواب}} | ||
صدر اسلام میں [[مسجد النبی]] کے اطراف میں موجود گھروں کے دروازے مسجد کے اندر کھلتے تھے۔ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کے سوا تمام گھروں کے مسجد النبی میں کھلنے والے دروازوں کے بند کرنے کا حکم دیا گیا۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو [[رسول خدا]] نے فرمایا: <br /> "مجھے علی کے گھر کے سوا تمام گھروں کے دروازے بند کرنے کا حکم تھا لیکن اس بارے میں بہت سی باتیں ہوئی ہیں۔ خدا کی قسم! میں نے کوئی دروازہ بند نہيں کیا اور نہيں کھولا مگر یہ کہ ایسا کرنے کا مجھے حکم ہوا اور میں نے بھی اطاعت کی۔<ref>متقی ہندی، ج 6، ص 155۔</ref> | صدر اسلام میں [[مسجد النبی]] کے اطراف میں موجود گھروں کے دروازے مسجد کے اندر کھلتے تھے۔ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کے سوا تمام گھروں کے مسجد النبی میں کھلنے والے دروازوں کے بند کرنے کا حکم دیا گیا۔ لوگوں نے سبب پوچھا تو [[رسول خدا]] نے فرمایا: <br /> "مجھے علی کے گھر کے سوا تمام گھروں کے دروازے بند کرنے کا حکم تھا لیکن اس بارے میں بہت سی باتیں ہوئی ہیں۔ خدا کی قسم! میں نے کوئی دروازہ بند نہيں کیا اور نہيں کھولا مگر یہ کہ ایسا کرنے کا مجھے حکم ہوا اور میں نے بھی اطاعت کی۔<ref> متقی ہندی، ج 6، ص 155۔</ref> | ||
'''جمع آوری قرآن ''' | '''جمع آوری قرآن ''' | ||
سطر 373: | سطر 373: | ||
===قرآن میں امام علی کے فضائل=== | ===قرآن میں امام علی کے فضائل=== | ||
حضرت علی (ع) کے فضائل و مناقب میں نازل ہونے والی آیات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ [[ابن عباس]] سے نقل ہوا ہے کہ 300 سے زیادہ آیات حضرت علی کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔<ref>تاریخ بغداد، ج۶، ص۲۲۱؛بحوالۂ خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۴۸۶.</ref> یہاں پر ان میں سے بعض کا ذکر کیا جا رہا ہے: | حضرت علی (ع) کے فضائل و مناقب میں نازل ہونے والی آیات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ [[ابن عباس]] سے نقل ہوا ہے کہ 300 سے زیادہ آیات حضرت علی کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔<ref> تاریخ بغداد، ج۶، ص۲۲۱؛بحوالۂ خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۴۸۶.</ref> یہاں پر ان میں سے بعض کا ذکر کیا جا رہا ہے: | ||
'''آیت مباہلہ''' | '''آیت مباہلہ''' | ||
{{اصلی|آیت مباہلہ}} | {{اصلی|آیت مباہلہ}} | ||
[[سنہ 10 ہجری]] میں روز [[مباہلہ]] طے یہ پایا تھا کہ [[مسلمان]] اور نجران کے عیسائی ایک دوسرے پر لعنت کریں، تا کہ خدا جھوٹی جماعت پر عذاب نازل کرے۔ اسی مقصد سے رسول خداؐ [[علی]]، [[فاطمہؑ|فاطمہ]]، [[حسن]] اور [[حسین]] کو لے کر صحرا میں نکلے۔ عیسائیوں نے جب دیکھا کہ آپ اس قدر مطمئن ہیں کہ صرف قریب ترین افراد خاندان کو ساتھ لائے ہیں، تو خوفزدہ ہوئے اور جزیہ کی ادائیگی قبول کرلی۔ آیہ مباہلہ میں حضرت علی کو نفس پیغمبر کہا گیا ہے۔<ref>سیوطی، الدر المنثور، ذیل آیہ 61؛ زمخشری، ذیل آیہ | [[سنہ 10 ہجری]] میں روز [[مباہلہ]] طے یہ پایا تھا کہ [[مسلمان]] اور نجران کے عیسائی ایک دوسرے پر لعنت کریں، تا کہ خدا جھوٹی جماعت پر عذاب نازل کرے۔ اسی مقصد سے رسول خداؐ [[علی]]، [[فاطمہؑ|فاطمہ]]، [[حسن]] اور [[حسین]] کو لے کر صحرا میں نکلے۔ عیسائیوں نے جب دیکھا کہ آپ اس قدر مطمئن ہیں کہ صرف قریب ترین افراد خاندان کو ساتھ لائے ہیں، تو خوفزدہ ہوئے اور جزیہ کی ادائیگی قبول کرلی۔ آیہ مباہلہ میں حضرت علی کو نفس پیغمبر کہا گیا ہے۔<ref> سیوطی، الدر المنثور، ذیل آیہ 61؛ زمخشری، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران؛ طبرسی، مجمع البیان، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران؛ طباطبایی، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران۔</ref> | ||
'''آیت تطہیر''' | '''آیت تطہیر''' | ||
{{اصلی|آیت تطہیر}} | {{اصلی|آیت تطہیر}} | ||
شیعہ علماء کی عمومی رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ زوجۂ رسولؐ [[ام سلمہ]] کے گھر میں نازل ہوئی اور نزول کے وقت رسول اللہؐ کے علاوہ، علیؑ، [[ فاطمہ]]ؑ اور [[حسنین]]ؑ بھی موجود تھے۔ آيت نازل ہونے کے بعد رسول خداؐ نے چادر [[کساء]] کو جس پر آپ بیٹھے تھے، اٹھا کر [[اصحاب کساء]] یعنی اپنے آپ، [[علی]]، [[فاطمہ]] اور حسنین کے اوپر ڈال دیا اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور عرض کیا: خداوندا! یہ میرے [[اہل بیت]] ہیں، انہیں ہر پلیدی سے پاک رکھ۔<ref>ابن بابویہ، ج2، ص403؛ سید قطب، ج6، ص586؛ طبرسی، مجمعالبیان، ج 8، ص 559۔</ref> | شیعہ علماء کی عمومی رائے یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ زوجۂ رسولؐ [[ام سلمہ]] کے گھر میں نازل ہوئی اور نزول کے وقت رسول اللہؐ کے علاوہ، علیؑ، [[ فاطمہ]]ؑ اور [[حسنین]]ؑ بھی موجود تھے۔ آيت نازل ہونے کے بعد رسول خداؐ نے چادر [[کساء]] کو جس پر آپ بیٹھے تھے، اٹھا کر [[اصحاب کساء]] یعنی اپنے آپ، [[علی]]، [[فاطمہ]] اور حسنین کے اوپر ڈال دیا اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے اور عرض کیا: خداوندا! یہ میرے [[اہل بیت]] ہیں، انہیں ہر پلیدی سے پاک رکھ۔<ref> ابن بابویہ، ج2، ص403؛ سید قطب، ج6، ص586؛ طبرسی، مجمعالبیان، ج 8، ص 559۔</ref> | ||
'''آیت مودت''' | '''آیت مودت''' | ||
{{اصلی|آیت مودت}} | {{اصلی|آیت مودت}} | ||
اس آیہ کریمہ میں مودت و محبت القربی کو اجر رسالت کے عنوان سے [[مسلمانوں]] پر [[واجب]] کیا گیا ہے۔ [[ابن عباس]] کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے [[رسول اللہؐ]] کی خدمت میں عرض کیا کہ اس آیت کی رو سے جن لوگوں کی مودت واجب ہوئی ہے، وہ کون ہیں؟ آپؑ نے فرمایا: علی، فاطمہ، حسن اور حسین اور یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔<ref>مجلسی بحار الانوار، ج 23، ص 233۔</ref> | اس آیہ کریمہ میں مودت و محبت القربی کو اجر رسالت کے عنوان سے [[مسلمانوں]] پر [[واجب]] کیا گیا ہے۔ [[ابن عباس]] کہتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے [[رسول اللہؐ]] کی خدمت میں عرض کیا کہ اس آیت کی رو سے جن لوگوں کی مودت واجب ہوئی ہے، وہ کون ہیں؟ آپؑ نے فرمایا: علی، فاطمہ، حسن اور حسین اور یہ جملہ آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔<ref> مجلسی بحار الانوار، ج 23، ص 233۔</ref> | ||
===دیگر فضائل=== | ===دیگر فضائل=== | ||
سطر 394: | سطر 394: | ||
'''سرچشمہ علوم''' | '''سرچشمہ علوم''' | ||
[[مسلمان]] علماء کے مطابق، امام علی (ع) بہت سے علوم مبتکر اور سرچشمہ ہیں۔ ساتویں صدی ہجری کے [[اہل سنت]] عالم [[ابن ابی الحدید]] کا ماننا ہے کہ امام تمام فضائل کی بنیاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرقہ، ہر گروہ خود کو ان سے منتسب کرتا ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۷.</ref> اور ان کے و ان کے چاہنے والوں کے خلاف نہایت بد گوئی و دشمنی کے باوجود ان کے نام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۶-۱۷.</ref> اسی طرح سے ابن ابی الحدید کا ماننا ہے کہ [[علم کلام]]، [[فقہ]]، [[تفسیر]]<ref>ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۹.</ref> و [[قرائت]]، ادبیات عرب و فصاحت و بلاغت<ref>ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۲۴.</ref> جیسے علوم کا سرچشمہ آپ کی ذات ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۲۷-۱۸.</ref> ابن ابی الحدید کے بقول: الہیات کے تفصیلی بیان کا منشاء بھی حضرت امیر (ع) ہیں اور [[محمد بن حنفیہ]] کے واسطہ سے تمام [[معتزلہ]] ان کے شاگرد ہیں اور [[اشاعرہ]]، [[امامیہ]] و [[زیدیہ]] کا معاملہ بھی ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۷.</ref> فقہ میں بھی احمد بن حنبل، مالک بن انس، شافعی و ابو حنیفہ بھی با واسطہ ان کے شاگرد ہیں۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۸.</ref> قرائت میں بھی ان کے شاگرد [[ابو عبد الرحمن سلمی]] کے واسطہ سے قاریوں کی قرائت کی سند امام تک منتہی ہوتی ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۲۸-۲۷.</ref> اور انہیں [[علم نحو]] کا واضع بھی مانتے ہے کیونکہ اس علم کے قواعد ان کے شاگرد [[ابو الاسود دوئلی]] نے دوسروں تک منتقل کئے ہیں۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۲۰.</ref> | [[مسلمان]] علماء کے مطابق، امام علی (ع) بہت سے علوم مبتکر اور سرچشمہ ہیں۔ ساتویں صدی ہجری کے [[اہل سنت]] عالم [[ابن ابی الحدید]] کا ماننا ہے کہ امام تمام فضائل کی بنیاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرقہ، ہر گروہ خود کو ان سے منتسب کرتا ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۷.</ref> اور ان کے و ان کے چاہنے والوں کے خلاف نہایت بد گوئی و دشمنی کے باوجود ان کے نام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۶-۱۷.</ref> اسی طرح سے ابن ابی الحدید کا ماننا ہے کہ [[علم کلام]]، [[فقہ]]، [[تفسیر]]<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۹.</ref> و [[قرائت]]، ادبیات عرب و فصاحت و بلاغت<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۲۴.</ref> جیسے علوم کا سرچشمہ آپ کی ذات ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۲۷-۱۸.</ref> ابن ابی الحدید کے بقول: الہیات کے تفصیلی بیان کا منشاء بھی حضرت امیر (ع) ہیں اور [[محمد بن حنفیہ]] کے واسطہ سے تمام [[معتزلہ]] ان کے شاگرد ہیں اور [[اشاعرہ]]، [[امامیہ]] و [[زیدیہ]] کا معاملہ بھی ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۷.</ref> فقہ میں بھی احمد بن حنبل، مالک بن انس، شافعی و ابو حنیفہ بھی با واسطہ ان کے شاگرد ہیں۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۸.</ref> قرائت میں بھی ان کے شاگرد [[ابو عبد الرحمن سلمی]] کے واسطہ سے قاریوں کی قرائت کی سند امام تک منتہی ہوتی ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۲۸-۲۷.</ref> اور انہیں [[علم نحو]] کا واضع بھی مانتے ہے کیونکہ اس علم کے قواعد ان کے شاگرد [[ابو الاسود دوئلی]] نے دوسروں تک منتقل کئے ہیں۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۲۰.</ref> | ||
'''سلسلہ صوفیان''' | '''سلسلہ صوفیان''' | ||
تقریبا اکثر سلسلہ تصوف اسلامی اپنا سلسلہ حضرت امیر المومنین (ع) سے منسوب کرتے ہیں۔ نصر اللہ پور جوادی دانش نامہ جہان اسلام میں تحریر کرتے ہیں کہ [[شیخ احمد غزالی]] (متوفی | تقریبا اکثر سلسلہ تصوف اسلامی اپنا سلسلہ حضرت امیر المومنین (ع) سے منسوب کرتے ہیں۔ نصر اللہ پور جوادی دانش نامہ جہان اسلام میں تحریر کرتے ہیں کہ [[شیخ احمد غزالی]] (متوفی 520 ھ) تصوف کے سلسلوں کے وجود میں آنے میں موثر تھے اور بہت سے سلسلوں نے اہنی نسبت ان کی طرف دی ہے۔ ان سلسلہ سازوں (چونکہ اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے) کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ایک شجرہ نسب تلاش کریں اور اپنے سلسلہ کو [[صحابہ]] و [[آنحضرت (ص)]] تک پہچا دیں۔<ref> پور جوادی، دانشنامہ جهان اسلام، ۷: ۳۸۱-۳۸۷.</ref> دانش نامہ جہان اسلام میں شہرام پازوکی کے بقول، تمام صوفی سلسلہ اپنے مشایخ کے تمام اجازت ناموں (بشمول اجازہ ارشاد و تربیت) کے سلسلہ کو پیغمبر اکرم (ص) سے متصل کرتے ہیں اور اس سلسلہ کو زیادہ تر حضرت علی کے ذریعہ سے آنحضرت تک پہچاتے ہیں۔<ref> پازوکی، دانشنامہ جهان اسلام، ۷: ۳۸۷-۳۹۸.</ref> ابن ابی الحدید کے مطابق، خرقہ جو صوفیہ شعار ہے، وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱: ۱۹.</ref> | ||
==امامت و ولایت == | ==امامت و ولایت == |