مندرجات کا رخ کریں

"سعد بن عبادہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 39: سطر 39:
زمانۂ جاہلیت میں سعد اوراسکے آباؤجداد سخاوتمندی اور سرداری میں مشہور تھے۔<ref>رکـ: حائری، منتہی المقال، ج۳، صص۳۲۲-۳۲۳؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸؛ ابن حجر، تقریب التہذیب، ص۲۸۰؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۲۹۹؛ زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۸۵.</ref> اس شرافت اور سرداری اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ان میں باقی رہی۔ یہ لوگ مدینہ میں لوگوں کو کھانا کھلانے والوں میں شمار ہوتے تھے۔<ref>تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۴۸.</ref> کہا گیا ہے کہ عربوں کے کسی خاندان کی چار نسلوں میں اس طرح میہمان نوای کا سلسلہ جاری نہیں رہا جبکہ سعد کا بیٹا قیس سب سے زیادہ مہمان نواز تھا۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، صص۳۵۰-۳۵۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۳۰۰.</ref>
زمانۂ جاہلیت میں سعد اوراسکے آباؤجداد سخاوتمندی اور سرداری میں مشہور تھے۔<ref>رکـ: حائری، منتہی المقال، ج۳، صص۳۲۲-۳۲۳؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸؛ ابن حجر، تقریب التہذیب، ص۲۸۰؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۲۹۹؛ زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۸۵.</ref> اس شرافت اور سرداری اسلام قبول کرنے کے بعد بھی ان میں باقی رہی۔ یہ لوگ مدینہ میں لوگوں کو کھانا کھلانے والوں میں شمار ہوتے تھے۔<ref>تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۴۸.</ref> کہا گیا ہے کہ عربوں کے کسی خاندان کی چار نسلوں میں اس طرح میہمان نوای کا سلسلہ جاری نہیں رہا جبکہ سعد کا بیٹا قیس سب سے زیادہ مہمان نواز تھا۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، صص۳۵۰-۳۵۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۳۰۰.</ref>


سعد کی سخاوتمندی کی اکثر حکایات معروف ہیں؛مروی ہے کہ سعد کے جد دلیم کی ایک منزل تھی کہ ہر روز اس میں سے کوئی آواز دیتا: جسے مرغن اور نرم غذا کھانا ہو وہ دلیم کی منزل پر آ جائے۔ دلیم کی موت کت بعد  سعد نے یہی سلسلہ جاری رکھا اور اس کے بعد اسکے بیٹے قیس نے اپنے بزرگوں کے اس سلسلے کو جاری رکھا۔<ref>رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۵۴؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۳.</ref>
سعد کی سخاوتمندی کی اکثر حکایات معروف ہیں؛مروی ہے کہ سعد کے جد دلیم کی ایک منزل تھی کہ ہر روز اس میں سے کوئی آواز دیتا: جسے مرغن اور نرم غذا کھانا ہو وہ دلیم کی منزل پر آ جائے۔ دلیم کی موت کے بعد  سعد نے یہی سلسلہ جاری رکھا اور اس کے بعد اسکے بیٹے قیس نے اپنے بزرگوں کی اس رسم کی پاسداری کی۔<ref>رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۵۴؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۳.</ref>


اسی طرح ابن سیرین نے نقل کیا ہے کہ  پیامبر(ص) ہر رات [[اہل صفہ]] کے [[اصحاب]] میں کھانا تقسیم کرتے تھے۔ بعض ایک شخص کو بعض دو کو یا اس سے زیادہ جبکہ سعد ہر رات  اسّی افراد کو کھانا کھلانے کیلئے اپنی منزل پر لے کر جاتے۔<ref>تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۵۴؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۰.</ref>
اسی طرح ابن سیرین نے نقل کیا ہے کہ  پیامبر(ص) ہر رات [[اہل صفہ]] کے [[اصحاب]] میں کھانا تقسیم کرتے تھے۔ بعض ایک شخص کو بعض دو کو یا اس سے زیادہ جبکہ سعد ہر رات  اسّی افراد کو کھانا کھلانے کیلئے اپنی منزل پر لے کر جاتے۔<ref>تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۵۴؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۰.</ref>


پیغمبر(ص) نے ایک دن افطار کے بعد یوں دعا فرمائی:
پیغمبر(ص) نے ایک دن افطار کے بعد یوں دعا فرمائی:
::روزه‌دار اور نیک لوگ تمہارے دسترخوان پر کھانا کھا رہے ہیں اور فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں۔<ref>تستری، قاموس الرجال، ج۵، صص۵۳-۵۴.</ref>
::[[روزه‌|روزه‌دار]] اور نیک لوگ تمہارے دسترخوان پر کھانا کھا رہے ہیں اور [[فرشتہ|فرشتے]] تم پر درود بھیجتے ہیں۔<ref>تستری، قاموس الرجال، ج۵، صص۵۳-۵۴.</ref>


سعد اور اسکے بیٹوں نے حضرت علی(ع) و [[فاطمہ]] (س)،؎ کی شادی کے اسباب فراہم کرنے میں بہت مدد کی۔<ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ص۲۳۳.</ref>
سعد اور اسکے بیٹوں نے حضرت علی(ع) و [[فاطمہ]] (س)،؎ کی شادی کے اسباب فراہم کرنے میں بہت مدد کی۔<ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ص۲۳۳.</ref>


==اسلام قبول کرنا==
==اسلام قبول کرنا==
سعد بن عباده در [[بیعت عقبہ]] کے موقع پر سعد بن عبادہ نے اہل یثرب کے انصار میں سے  ستّر افراد کے ہمراہ رسول خدا(ص) کی [[بیعت]] کی۔ جب سعد  نے اسلام قبول کیا تو [[منذر بن عمرو]] اور [[ابودجانہ|ابودُجانہ]] کے ساتھ مل کر  [[بنی ساعده]] کے بتوں کو توڑا۔<ref>رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸، ص۲۷۹؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۴.</ref> سعد ان بارہ نقبا میں سے ہے جنہیوں رسول اللہ نے [[جبرئیل]] کے اشارے پر متعین فرمایا۔<ref>رکـ: مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱؛ ابن حجر، تقریب التہذیب، ص۲۸۰؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۴؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۲۹۳.</ref>
[[بیعت عقبہ]] کے موقع پر سعد بن عبادہ نے اہل یثرب کے [[انصار]] میں سے  ستّر افراد کے ہمراہ رسول خدا(ص) کی [[بیعت]] کی۔ جب سعد  نے [[اسلام]] قبول کیا تو [[منذر بن عمرو]] اور [[ابودجانہ|ابودُجانہ]] کے ساتھ مل کر  [[بنی ساعده]] کے بتوں کو توڑا۔<ref>رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸، ص۲۷۹؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۴.</ref> سعد ان بارہ نقبا میں سے ہے جنہیوں [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]] نے [[جبرئیل]] کے اشارے پر متعین فرمایا۔<ref>رکـ: مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱؛ ابن حجر، تقریب التہذیب، ص۲۸۰؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۴؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۲۹۳.</ref>


==غزوات میں شرکت==
==غزوات میں شرکت==
سعد اکثر [[غزوات]] میں رسول خدا(ص) کے ساتھ شریک ہوئے۔ لیکن جنگ بدر میں اس کی شرکت محل اختلاف ہے۔<ref>رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱؛ بخاری، التاریخ الکبیر، ج۴، ص۴۴؛ ابن حجر، تقریب التہذیب، صص۲۸۰-۲۸۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۲۹۹؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸.</ref> وہ رسول اللہ کے مورد اعتماد اور مشاور افراد میں تھے۔[[جنگ احزاب]] میں پیغمبر(ص) نے سعد بن عباده اور [[سعد بن معاذ]]  کے اسلام اور رسول خدا کی حیثیت اور دفاع کے سخت مؤقف اور مشورے کے بعد ہی مشرکین سے مذاکرات کی پیش کش کو رد کر دیا۔<ref>رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، صص۱۶۲-۱۶۳؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۴۸؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۳۰۰.</ref>
سعد اکثر [[غزوہ|غزوات]] میں رسول خدا(ص) کے ساتھ شریک ہوئے۔ لیکن جنگ بدر میں اس کی شرکت محل اختلاف ہے۔<ref>رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۱؛ بخاری، التاریخ الکبیر، ج۴، ص۴۴؛ ابن حجر، تقریب التہذیب، صص۲۸۰-۲۸۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۲۹۹؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۷۸.</ref> وہ رسول اللہ کے مورد اعتماد اور مشاور افراد میں تھے۔[[جنگ احزاب]] میں پیغمبر(ص) نے سعد بن عباده اور [[سعد بن معاذ]]  کے اسلام اور رسول خدا کی حیثیت اور دفاع کے سخت مؤقف اور مشورے کے بعد ہی [[مشرک|مشرکین]] سے مذاکرات کی پیش کش کو رد کر دیا۔<ref>رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، صص۱۶۲-۱۶۳؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۴۸؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۳۰۰.</ref>


کتب میں اسے اسلام کے  پرچمداروں میں شمار کیا ہے۔ [[غزوات]] پیامبر(ص) میں  [[مہاجرین]] کا علم [[امام علی]](ع) اور انصار کا پرچم  سعد میں رہا۔<ref>مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۰؛ طبرانی، العجم الکبیر، ج۶، ص۱۵، ح۵۳۵۶؛ سیوطی، جامع الاحادیث، جزء۳۶، ص۱۷۳، باب مسند عبدالله بن عباس، ح۳۹۰۳۲؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج۲۰، ص۲۴۹.</ref> اگرچہ [[فتح مکہ]] کے موقع پر بھی علم سعد بن عباده کے ہاتھوں میں ہی تھا۔<ref>رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۲.</ref> لیکن سعد بن عبادہ سے انتقام جوئی اور خونریزی پر مشتمل شعار رسول اللہ کے کانوں میں پڑے تو آپ نے علی سے فرمایا: اے علی(ع) جاؤ اور سعد سے پرچم لے لو، مرحمت اور عفو پر مشتمل شعار کہو۔ایک اور روایت کے مطابق [[قیس بن سعد بن عباده]] کو اس کام پر مامور کیا۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، صص۱۶۳-۱۶۴؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، صص۳۰۰-۳۰۱.</ref>
کتب میں اسے اسلام کے  پرچمداروں میں شمار کیا ہے۔ [[غزوات]] پیامبر(ص) میں  [[مہاجرین]] کا علم [[امام علی]](ع) اور انصار کا پرچم  سعد میں رہا۔<ref>مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۰؛ طبرانی، العجم الکبیر، ج۶، ص۱۵، ح۵۳۵۶؛ سیوطی، جامع الاحادیث، جزء۳۶، ص۱۷۳، باب مسند عبدالله بن عباس، ح۳۹۰۳۲؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج۲۰، ص۲۴۹.</ref> اگرچہ [[فتح مکہ]] کے موقع پر بھی علم سعد بن عباده کے ہاتھوں میں ہی تھا۔<ref>رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۲.</ref> لیکن سعد بن عبادہ سے انتقام جوئی اور خونریزی پر مشتمل شعار رسول اللہ کے کانوں میں پڑے تو آپ نے علی سے فرمایا: اے [[امام علی علیہ السلام|علی(ع)]] جاؤ اور سعد سے پرچم لے لو، مرحمت اور عفو پر مشتمل شعار کہو۔ایک اور روایت کے مطابق [[قیس بن سعد بن عباده]] کو اس کام پر مامور کیا۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، صص۱۶۳-۱۶۴؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، صص۳۰۰-۳۰۱.</ref>


==خلافت ابوبکر==
==خلافت ابوبکر==
{{اصلی|ابوبکر}}
{{اصلی|ابوبکر}}
[[پیامبر(ص)]] کے وصال کے بعد  سعد بن عباده شہر [[مدینہ]] کے بزرگوں کے ساتھ  [[واقعہ سقیفہ|سقیفہ بنی ساعده]] میں [[خلافت]] کے حصول کیلئے اکٹھے ہوئے۔<ref> ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۳۰۱؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۶.</ref> لیکن [[ابو بکر بن ابی قحافہ]]، [[عمر]] اور [[ابو عبیدہ جراح]] کے [[سقیفہ بنی ساعدہ|سقیفہ]] میں آنے کی وجہ سے حاضرین نے [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کی طرف رجحان پیدا کر لیا۔سعد کی سخت مخالفت کے باوجود حاضرین نے ابوبکر کا خلیفہ کے عنوان سے انتخاب کیا اور اسکی [[بیعت]] کی البتہ بعض کا کہنا ہے کہ  سعد نے اپنے لئے خلافت کا ادعا نہیں کیا تھا بلکہ خزرجی تھے جو سعد کے خلیفہ ہونے کو چاہتے تھے۔<ref>رکـ: شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، صص۲۳۳-۲۳۵؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، صص۴۹-۵۲.</ref> حضرت ابوبکر کی بیعت کے بعد بھی سعد اور اس کے قبیلے نے سعد کی پیروی کرتے ہوئے ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔<ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۳۳.</ref> اس کے مقابلے میں بعض نے لکھا ہے کہ سعد خلافت کا خواہاں تھا لیکن جب اسے حاصل نہ کر سکا تو حضرت ابوبکر کی  بیعت نہیں کی۔<ref>رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۴؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۱؛ زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۸۵.</ref>
[[پیامبر(ص)]] کے وصال کے بعد  سعد بن عباده شہر [[مدینہ]] کے بزرگوں کے ساتھ  [[واقعہ سقیفہ|سقیفہ بنی ساعده]] میں [[خلافت]] کے حصول کیلئے اکٹھے ہوئے۔<ref> ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۲، ص۳۰۱؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۶.</ref> لیکن [[ابو بکر بن ابی قحافہ]]، [[عمر]] اور [[ابو عبیدہ جراح]] کے [[سقیفہ بنی ساعدہ|سقیفہ]] میں آنے کی وجہ سے حاضرین نے [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کی طرف رجحان پیدا کر لیا۔سعد کی سخت مخالفت کے باوجود حاضرین نے ابوبکر کا خلیفہ کے عنوان سے انتخاب کیا اور اسکی [[بیعت]] کی البتہ بعض کا کہنا ہے کہ  سعد نے اپنے لئے خلافت کا ادعا نہیں کیا تھا بلکہ خزرجی تھے جو سعد کے [[خلافت|خلیفہ]] ہونے کو چاہتے تھے۔<ref>رکـ: شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، صص۲۳۳-۲۳۵؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، صص۴۹-۵۲.</ref> [[ابو بکر بن ابی قحافہ|حضرت ابوبکر]] کی بیعت کے بعد بھی سعد اور اس کے قبیلے نے سعد کی پیروی کرتے ہوئے ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔<ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۳۳.</ref> اس کے مقابلے میں بعض نے لکھا ہے کہ سعد خلافت کا خواہاں تھا لیکن جب اسے حاصل نہ کر سکا تو حضرت ابوبکر کی  بیعت نہیں کی۔<ref>رکـ: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۴؛ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛ مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۱؛ زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۸۵.</ref>


اسکے بعد خلافت اول نے اس سے بیعت لینے کوشش کی لیکن  اس نے انکار کرتے ہوئے کہا:
اسکے بعد خلافت اول نے اس سے [[بیعت]] لینے کوشش کی لیکن  اس نے انکار کرتے ہوئے کہا:
::اس جھوٹ کو اپنے لئے بھی نہیں چاہا، کسی دوسرے کیلئے بھی اس جھوٹ کو نہیں چاہتا ہوں اور کسی کی خاطر جہنم جانے کیلئے تیار نہیں ہوں۔ <ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۳۳.</ref>
::اس [[جھوٹ]] کو اپنے لئے بھی نہیں چاہا، کسی دوسرے کیلئے بھی اس جھوٹ کو نہیں چاہتا ہوں اور کسی کی خاطر جہنم جانے کیلئے تیار نہیں ہوں۔ <ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۳۳.</ref>


==خلافت عمر==
==خلافت عمر==
خلیفہ اول کیلئے بیعت لینے اور سعد کے انکار کا واقعہ دوبارہ خلافت ثانیہ میں پھر تکرار ہوا۔ ہرچند  [[خلیفہ دوم]] نے سعد سے بیعت لینے کا اسرار کیا لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے۔ منقول ہے کہ سعد کے قبیلے کی طاقت اور قوت کے پیش نظر حکومت وقت اس کا سامنا کرنے سے کتراتی تھی۔<ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۳۳.</ref>
[[ابو بکر بن ابی قحافہ|خلیفہ اول]] کیلئے بیعت لینے اور سعد کے انکار کا واقعہ دوبارہ خلافت ثانیہ میں پھر تکرار ہوا۔ ہرچند  [[خلیفہ دوم]] نے سعد سے بیعت لینے کا اسرار کیا لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے۔ منقول ہے کہ سعد کے قبیلے کی طاقت اور قوت کے پیش نظر حکومت وقت اس کا سامنا کرنے سے کتراتی تھی۔<ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۳۳.</ref>


ایک روز سعد کا بیٹا  عمر کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے: «سعد نے قسم اٹھائی ہے کہ وہ تمہاری بیعت نہیں کرے گا اور تم زبردستی اس سے بیعت نہیں لے سکتے ہو  مگر یہ کہ تم اسے قتل کر دو! سعد کا قتل تمام خزرج قبیلے کے قتل پر موقوف اور خزرج  کا قتل تمام اوس کے قتل پر اور ان کا قتل تمام یمنی قبیلوں کے قتل پر موقوف ہے اور  یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ پس سعد کے ساتھ حالات بہتر رکھو۔<ref>رکـ: شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، صص۲۳۳-۲۳۴؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، صص۵۱-۵۲؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۳.</ref>
ایک روز سعد کا بیٹا  عمر کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے: «سعد نے قسم اٹھائی ہے کہ وہ تمہاری بیعت نہیں کرے گا اور تم زبردستی اس سے بیعت نہیں لے سکتے ہو  مگر یہ کہ تم اسے قتل کر دو! سعد کا قتل تمام خزرج قبیلے کے قتل پر موقوف اور خزرج  کا قتل تمام اوس کے قتل پر اور ان کا قتل تمام یمنی قبیلوں کے قتل پر موقوف ہے اور  یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ پس سعد کے ساتھ حالات بہتر رکھو۔<ref>رکـ: شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، صص۲۳۳-۲۳۴؛ تستری، قاموس الرجال، ج۵، صص۵۱-۵۲؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۳.</ref>
گمنام صارف