گمنام صارف
"آیت تبلیغ" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mehrizi م (data) |
imported>E.musavi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 19: | سطر 19: | ||
'''آیت تبلیغ''' [[سورہ مائدہ]] کی 67 ویں [[آیت]] اور [[پیغمبر اکرمؐ]] پر نازل ہونے والی آخری [[آیات]] میں سے ہے۔ اس آیت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ لوگوں تک ایک پیغام پہنچائیں اور کوتاہی کرنے کی صورت میں گویا انہوں نے اپنی رسالت کو انجام نہیں دیا ہے۔ | '''آیت تبلیغ''' [[سورہ مائدہ]] کی 67 ویں [[آیت]] اور [[پیغمبر اکرمؐ]] پر نازل ہونے والی آخری [[آیات]] میں سے ہے۔ اس آیت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ لوگوں تک ایک پیغام پہنچائیں اور کوتاہی کرنے کی صورت میں گویا انہوں نے اپنی رسالت کو انجام نہیں دیا ہے۔ | ||
[[شیعہ]] اور بعض [[اہل سنت]] کے | [[شیعہ]] اور بعض [[اہل سنت]] کے نظریے کے مطابق یہ آیت [[سنہ 10 ہجری قمری|سنہ 10 ھ]] کو [[حجۃ الوداع]] کے موقعے پر [[18 ذی الحجہ]] سے کچھ پہلے نازل ہوئی ہے۔ شیعوں کے عقیدے کے مطابق اس پیغام کا موضوع [[حضرت علی علیہ السلام]] کی [[خلافت]] اور وصایت ہے جسے پیغمبر اکرمؐ نے آیت کے نزول کے بعد انجام دیا۔ | ||
==متن اور ترجمہ== | ==متن اور ترجمہ== | ||
::: {| class="wikitable" style="background:#F0F5FF; font-size:85%; border:5px;" | ::: {| class="wikitable" style="background:#F0F5FF; font-size:85%; border:5px;" | ||
سطر 70: | سطر 70: | ||
* منافقین اسلامی معاشرے کی ریاست کے لیے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے خواہاں تھے اور دنیا کی نعمتوں کے حصول کو آپ کی جانشینی کے حصول میں دیکھتے تھے۔ اور امام علیؑ کا جانشین بننا ان کی آرزو کے خلاف تھا۔<ref>عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۹۷،۹۹.</ref> | * منافقین اسلامی معاشرے کی ریاست کے لیے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے خواہاں تھے اور دنیا کی نعمتوں کے حصول کو آپ کی جانشینی کے حصول میں دیکھتے تھے۔ اور امام علیؑ کا جانشین بننا ان کی آرزو کے خلاف تھا۔<ref>عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۹۷،۹۹.</ref> | ||
*حضرت علیؑ | *حضرت علیؑ قاطع اور دوسروں سے متاثر نہ ہونے والی شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۸۲-۱۳۸۷ش، ج۴، ص۲۷۶</ref> | ||
* نئے | * نئے مسلمانوں کے دلوں میں حضرت علیؑ کی نسبت کینہ تھا چونکہ اکثر جنگوں میں حضرت علی نے انکے عزیزوں اور اقربا کو قتل کیا تھا۔{{حوالہ درکار}} | ||
*حضرت رسول ختمی مرتبت کی وصال کے وقت حضرت علیؑ کی عمر صرف 33 سال تھی۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں منصب پر پہنچنے کے لیے عمر کا زیادہ ہونا ایک نہایت اہم عامل ہو وہاں پر آپؑ کی رہبری کو قبول کرنا اتنا آسان مسئلہ نہیں تھا۔{{حوالہ درکار}}اور یہ بات جنگ تبوک کے موقع پر مدینہ میں حضرت علی کو پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے جانشین مقرر کرنے نیز آپؐ عمر کے آخری لمحات میں [[اسامہ بن زید]] کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کرنے پر ظاہر ہوگئی۔<ref>طبری،تاریخ طبری،3/186۔ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،1/159۔</ref> | *حضرت رسول ختمی مرتبت کی وصال کے وقت حضرت علیؑ کی عمر صرف 33 سال تھی۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں منصب پر پہنچنے کے لیے عمر کا زیادہ ہونا ایک نہایت اہم عامل ہو وہاں پر آپؑ کی رہبری کو قبول کرنا اتنا آسان مسئلہ نہیں تھا۔{{حوالہ درکار}}اور یہ بات جنگ تبوک کے موقع پر مدینہ میں حضرت علی کو پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے جانشین مقرر کرنے نیز آپؐ عمر کے آخری لمحات میں [[اسامہ بن زید]] کو لشکر کا سپہ سالار مقرر کرنے پر ظاہر ہوگئی۔<ref>طبری،تاریخ طبری،3/186۔ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،1/159۔</ref> | ||
سطر 89: | سطر 89: | ||
== مآخذ == | == مآخذ == | ||
* آلوسی، | * آلوسی، محمود بن عبداللہ، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ھ۔ | ||
* ابن عاشور، محمد طاہر، تفسیر التحریر و التنویر، تونس، بی نا، ۱۹۸۴ء۔ | * ابن عاشور، محمد طاہر، تفسیر التحریر و التنویر، تونس، بی نا، ۱۹۸۴ء۔ | ||
* ابن عطیہ، | * ابن عطیہ، عبد الحق بن غالب، المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز، تحقیق محد عبد السلام عبد الشافی، بیروت، دار الکتب العلیمہ، ۱۴۲۲ھ۔ | ||
* ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق خلیل میس، بیروت، | * ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق خلیل میس، بیروت، دار القلم، بیتا. | ||
* | * ابو الفتوح رازی، حسین بن علی، تفسیر روض الجنان و روح الجنان، محقق ابو الحسن شعرانی و علی اکبر غفاری، تہران ۱۳۸۲-۱۳۸۷ہجری شمسی۔ | ||
* | * ابو حیان، محمد بن یوسف، تفسیر البحر المحیط، بیروت، بی نا، ۱۹۸۳ء۔ | ||
* ترمذی، | * ترمذی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح، محقق شاکر احمد محمد، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۰۸ھ۔ | ||
* ثعالبی، | * ثعالبی، عبد الرحمان بن احمد، الجواہر الحسان فی تفسیر القرآن، مصحح ابو محمد غماری ادریسی حسنی، بیروت، بی نا، ۱۴۱۶ھ/ ۱۹۹۶ء۔ | ||
* حویزی، | * حویزی، عبد علی بن جمعہ، کتاب تفسیر نور الثقلین، تصحیح ہاشم رسولی محلاتی، قم، المطبعۃ العلمیۃ، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔ | ||
* سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۴ھ۔ | * سیوطی، جلال الدین، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۴ھ۔ | ||
* طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، مشہد، نشر المرتضی، چاپ اول، ۱۴۰۳ھ۔ | * طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، مشہد، نشر المرتضی، چاپ اول، ۱۴۰۳ھ۔ | ||
* طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری بأعلام الہدی، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، ۱۴۱۷ھ۔ | * طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری بأعلام الہدی، قم، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لاحیاء التراث، ۱۴۱۷ھ۔ | ||
* طبرسی، فضل بن الحسن، مجمع البیان فی | * طبرسی، فضل بن الحسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح و تعلیق ہاشم رسولی محلاتی و فضل اللّہ یزدی طباطبائی، بیروت ۱۴۰۸ھ۔ | ||
* طبری، محمد بن جریر، الجامع البیان عن تأویل آی القرآن، بہ تحقیق عبداللہ بن | * طبری، محمد بن جریر، الجامع البیان عن تأویل آی القرآن، بہ تحقیق عبداللہ بن عبد المحسن الترکی، [بیجا]، دار ہجر للطباعۃ و النشر، چاپ اول، ۱۴۲۲ق/۲۰۰۱ء۔ | ||
* طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری(تاریخ الامم و الملوک)، تحقیق محمد | * طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری (تاریخ الامم و الملوک)، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت، روائع التراث العربی، ۱۳۸۷ھ۔ | ||
* عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، بہ کوشش ہشام رسولی محلاتی، تہران، المکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، ۱۳۸۰ھ۔ | * عیاشی، محمد بن مسعود، تفسیر العیاشی، بہ کوشش ہشام رسولی محلاتی، تہران، المکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، ۱۳۸۰ھ۔ | ||
* کلینی، | * کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، بیروت: دار التعارف، ۱۴۰۱ھ۔ | ||
* فخر رازی، | * فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا. | ||
* قرطبی، | * قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، بیروت، ۱۹۶۵ء، چاپ افست تہران ۱۳۶۴ہجری شمسی۔ | ||
* قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۱ء۔ | * قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۱ء۔ | ||