مندرجات کا رخ کریں

"عبد اللہ بن زبیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi
سطر 66: سطر 66:
تاریخی مآخذوں میں ابن زبیر کی لوگوں کو دعوت  یعت کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔بعض نے نہم رجب سال ۶۴ق. ذکر کی ہے  <ref> تاریخ خلیفہ، ص۱۶۰.</ref>بعض اس واقعہ کو یزید کی موت کے تین ماہ بعد کہتے ہیں ۔<ref>عبدالله بن زبیر، ص۱۱۹.</ref> کہتے ہیں کہ یزید بن معاویہ کی موت کے بعد شام کے اطراف میں ابن زبیر کے اہم  طرفدار پیدا ہو گئے اور اسی وجہ سے یزید کی موت کے بعد اسکے لشکر کے سپہ سالار نے شام کی طرف جانے سے پہلے ابن زبیر سے درخواست کی کہ  جو کچھ اس سے  [[واقعہ حره]] جیسا ہوا اس سے چشم پوشی کرے اور اسکے ساتھ خلافت شام کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے آئے لیکن ابن زبیر نے چند وجوہات کی بنا پر اس تجویز کو قبول نہیں کیا ۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۴۴، ۳۷۲.</ref><ref>تفصیل کیلئے دیکھیں : نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftn127)</ref>
تاریخی مآخذوں میں ابن زبیر کی لوگوں کو دعوت  یعت کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔بعض نے نہم رجب سال ۶۴ق. ذکر کی ہے  <ref> تاریخ خلیفہ، ص۱۶۰.</ref>بعض اس واقعہ کو یزید کی موت کے تین ماہ بعد کہتے ہیں ۔<ref>عبدالله بن زبیر، ص۱۱۹.</ref> کہتے ہیں کہ یزید بن معاویہ کی موت کے بعد شام کے اطراف میں ابن زبیر کے اہم  طرفدار پیدا ہو گئے اور اسی وجہ سے یزید کی موت کے بعد اسکے لشکر کے سپہ سالار نے شام کی طرف جانے سے پہلے ابن زبیر سے درخواست کی کہ  جو کچھ اس سے  [[واقعہ حره]] جیسا ہوا اس سے چشم پوشی کرے اور اسکے ساتھ خلافت شام کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے آئے لیکن ابن زبیر نے چند وجوہات کی بنا پر اس تجویز کو قبول نہیں کیا ۔ <ref>انساب الاشراف، ج۵، ص۳۴۴، ۳۷۲.</ref><ref>تفصیل کیلئے دیکھیں : نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftn127)</ref>


جلد ہی  دمشق، کوفہ، بصره، یمن اور خراسان کے مختلف علاقوں سمیت ممالک اسلامی کے اکثر لوگوں نے  اسکے نمائیدوں کے ہاتھ پر ابن زبیر کی بیعت کر لی <ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۷۳-۳۷۴؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۵.</ref> ابن زبیر [[بنی امیہ]] سے وابستہ لوگوں سے سخت برتاؤ کیا اور انہیں مکہ سے باہر نکال دیا<ref>لفتوح، ج۵، ص۱۵۶.</ref> نیز ان میں حرم کی احدود میں [[عتبہ بن ابی‌ سفیان]] کے مولا سمیت پچاس افراد کا قتل بھی شامل ہے <ref>الفتوح، ج۵، ص۱۵۶.</ref> جس کی وجہ سے اسے [[عبدالله بن عمر]] اور [[عبدالله بن عباس]] کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ <ref>اخبار مکہ، فاکهی، ج۳، ص۳۶۴؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۵.</ref>
جلد ہی  دمشق، کوفہ، بصره، یمن اور خراسان کے مختلف علاقوں سمیت ممالک اسلامی کے اکثر لوگوں نے  اسکے نمائندوں کے ہاتھ پر ابن زبیر کی بیعت کر لی۔ <ref> انساب الاشراف، ج۵، ص۳۷۳-۳۷۴؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۵۵.</ref> ابن زبیر نے [[بنی امیہ]] سے وابستہ لوگوں سے سخت برتاؤ کیا اور انہیں مکہ سے باہر نکال دیا<ref>لفتوح، ج۵، ص۱۵۶.</ref> نیز ان واقعات میں   حرم کی حدود کے اندر [[عتبہ بن ابی‌ سفیان]] کے مولا سمیت پچاس افراد کا قتل بھی شامل ہے <ref>الفتوح، ج۵، ص۱۵۶.</ref> جس کی وجہ سے اسے [[عبدالله بن عمر]] اور [[عبدالله بن عباس]] کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ <ref>اخبار مکہ، فاکهی، ج۳، ص۳۶۴؛ انساب الاشراف، ج۵، ص۳۳۵.</ref>


ابن زبیر کی خلافت کے دوران [[بنی ہاشم]] کے ساتھ اسکا رابطہ اچھا نہیں ہوا ۔ ابن زبیر کی طرف سے بیعت کی درخواست پر [[محمد بن حنفیہ|محمد بن حنفیہ]] نے مثبت جواب نہیں دیا  اور اپنی بیعت کو  تمام مسلمانوں کے اتفاق نظر کے ساتھ مشروط کیا کہ جس کا واقع ہونا ممکن نہ تھا۔<ref>انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۲؛ الفتوح، ج۶، ص۲۴۸.</ref>ابن زبیر نے اپنے خطبے میں  امام علی(ع) کی توہین کی اور اس کے اعتراض میں محمد بن حنفیہ نے  خطبہ دیا نیز لوگوں اور قریش کے بزرگوں کو ردعمل ظاہر کرنے طرف دعوت دی ۔ <ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۲؛ مروج الذہب، ج۳، ص۸۰؛ شرح نہج البلاغہ، ج۴، ص۶۲.</ref>ابن زبیر کی محمد بن حنفیہ سے بیعت کا مطالبہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ یہ ماجرا جاری رہا ۔ کوفے میں اس کے گورنر عبدالله بن مطیع کے اخراج اور  قیام مختار کے بعد ایک مرتبہ پھر اس نے محمد بن حنفیہ پر بیعت کیلئے دباؤ ڈالا، اس مرتبہ اس نے محمد بن حنفیہ اور اسکے ساتھیوں کو  [[زمزم|حجره زمزم]] میں زندانی کیا اور کہا : اس نے خدا سے عہد کیا ہے کہ اگر انہوں نے اسکی بیعت نہ کی تو وہ انہیں اسی مقام پر جلا دے گا یا قتل کر ڈالے گا۔ <ref> انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۲-۴۷۳؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۶.</ref> کہتے ہیں  : محمد بن حنفیہ نے خط کے ذریعے کوفہ میں مختار سے مدد کی درخواست کی  <ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۱؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۶؛ تجارب الامم، ج۲، ص۱۸۸.</ref> اس کے جواب میں  مختار نے ایک دستہ اس کی مدد کیلئے مکہ روانہ کیا اس دوران  محمد کے مقما قید کے اطراف میں آگ لگانے کیلئے ایندھن اکٹھا کیا ہوا تھا۔ <ref>انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۵؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۶.</ref> کوفے سے  150  افراد کے آنے والا گروہ  [[یا لثارات الحسین]] کے شعار کے ساتھ [[مسجدالحرام]] میں وارد ہوا اور اس نے زندانیوں کو آزاد کر دیا اور وہ حرمت مسجد کی خاطر  شمشیروں کی بجائے لکڑی کے ڈنڈے اٹھائے ہوئے تھے ۔  مختار نے مزید افراد مسجد الحرام  بھیجے ابن زبیر کے افراد اور وہ صف آرا ہوئے  ۔<ref>انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۶-۴۷۷؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۷.</ref>تین دن کے بعد کوفہ سے مدد آئی اور  محمد بن حنفیہ اور اسکے ساتھ مسجد سے باہر آئے اور اس نے قتل مختار (۶۷ق.)<ref>البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۸۷.</ref> تک  شعب علی  میں اقامت اختیار کی ۔<ref> انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۸؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۱۰۷.</ref> اسکے بعد ابن زبیر اور محمد بن حنفیہ کے درمیان مسلسل درگیری رہی ۔ <ref> تفصیل مطلب نک: نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftnref195)</ref><br />
ابن زبیر کی خلافت کے دوران [[بنی ہاشم]] کے ساتھ اسکا رابطہ اچھا نہیں ہوا ۔ ابن زبیر کی طرف سے بیعت کی درخواست پر [[محمد بن حنفیہ|محمد بن حنفیہ]] نے مثبت جواب نہیں دیا  اور اپنی بیعت کو  تمام مسلمانوں کے اتفاق نظر کے ساتھ مشروط کیا کہ جس کا واقع ہونا ممکن نہ تھا۔<ref>انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۲؛ الفتوح، ج۶، ص۲۴۸.</ref>ابن زبیر نے اپنے خطبے میں  امام علی(ع) کی توہین کی اور اس کے اعتراض میں محمد بن حنفیہ نے  خطبہ دیا نیز لوگوں اور قریش کے بزرگوں کو ردعمل ظاہر کرنے طرف دعوت دی ۔ <ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۲؛ مروج الذہب، ج۳، ص۸۰؛ شرح نہج البلاغہ، ج۴، ص۶۲.</ref>ابن زبیر کی محمد بن حنفیہ سے بیعت کا مطالبہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ یہ ماجرا جاری رہا ۔ کوفے میں اس کے گورنر عبدالله بن مطیع کے اخراج اور  قیام مختار کے بعد ایک مرتبہ پھر اس نے محمد بن حنفیہ پر بیعت کیلئے دباؤ ڈالا، اس مرتبہ اس نے محمد بن حنفیہ اور اسکے ساتھیوں کو  [[زمزم|حجره زمزم]] میں زندانی کیا اور کہا : اس نے خدا سے عہد کیا ہے کہ اگر انہوں نے اسکی بیعت نہ کی تو وہ انہیں اسی مقام پر جلا دے گا یا قتل کر ڈالے گا۔ <ref> انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۲-۴۷۳؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۶.</ref> کہتے ہیں  : محمد بن حنفیہ نے خط کے ذریعے کوفہ میں مختار سے مدد کی درخواست کی  <ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۱؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۶؛ تجارب الامم، ج۲، ص۱۸۸.</ref> اس کے جواب میں  مختار نے ایک دستہ اس کی مدد کیلئے مکہ روانہ کیا اس دوران  محمد کے مقما قید کے اطراف میں آگ لگانے کیلئے ایندھن اکٹھا کیا ہوا تھا۔ <ref>انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۵؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۶.</ref> کوفے سے  150  افراد کے آنے والا گروہ  [[یا لثارات الحسین]] کے شعار کے ساتھ [[مسجدالحرام]] میں وارد ہوا اور اس نے زندانیوں کو آزاد کر دیا اور وہ حرمت مسجد کی خاطر  شمشیروں کی بجائے لکڑی کے ڈنڈے اٹھائے ہوئے تھے ۔  مختار نے مزید افراد مسجد الحرام  بھیجے ابن زبیر کے افراد اور وہ صف آرا ہوئے  ۔<ref>انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۶-۴۷۷؛ تاریخ طبری، ج۶، ص۷۷.</ref>تین دن کے بعد کوفہ سے مدد آئی اور  محمد بن حنفیہ اور اسکے ساتھ مسجد سے باہر آئے اور اس نے قتل مختار (۶۷ق.)<ref>البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۲۸۷.</ref> تک  شعب علی  میں اقامت اختیار کی ۔<ref> انساب الاشراف، ج۳، ص۴۷۸؛ اخبار الدولۃ العباسیہ، ص۱۰۷.</ref> اسکے بعد ابن زبیر اور محمد بن حنفیہ کے درمیان مسلسل درگیری رہی ۔ <ref> تفصیل مطلب نک: نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftnref195)</ref><br />
گمنام صارف