مندرجات کا رخ کریں

"عبد اللہ بن زبیر" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 58: سطر 58:


بنی امیہ کے داخلی اختلافات ،رومیوں کی دھمکیوں اور خوارج نے مروانیوں کو ابن زبیر کے خلاف سنجیدگی اور یکسوئی سے اقدام کرنے روکے رکھا  <ref>الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۳۷؛ دولت امویان، ص۱۱۰.</ref> یہانتک کہ سال ۷۲ق. عبدالملک نے مصعب بن زبیر کے قتل ، تصرف عراق اور شکست کے بعد [[حجاج بن یوسف ثقفی|حجاج بن یوسف ثقفی]] کو ابن زبیر کی سرکوبی کیلئے حجاز بھیجا۔<ref>انساب الاشراف، ج۷، ص۹۵؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۱۵.</ref>حجاج نے ذی القعده سال ۷۲ق. میں ابن زبیر کی فوجی ناتوانی سے آگاہی اور  ۵۰۰۰ اشخاص کی مدد پہنچنے کے بعد مدینہ میں داخل ہوا اور ابن زبیر کے مقرر کردہ حاکم کو باہر نکالنے <ref>تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.</ref> کے بعد مکہ کی جانب راہی ہوا اور ابن زبیر کو مسجد الحرام میں محبوس کیا ۔ یہ محاصرہ  ذی‌ الحجہ سال ۷۲ق. سے شروع ہو کر چھ مہینے اور  ۱۷ روز قتل ابن‌ زبیر کے قتل کے ساتھ  منگل کے دن  ۱۷ جمادی الاولی سال ۷۳ق. کو  ختم ہوا ۔ بعض نے اس محاصرے کی مدت آٹھ مہینے اور ۱۷ لکھی ہے ۔<ref> تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۴.</ref> تاریخی روایات کے مطابق  عبدالملک نے شروع میں حجاج کو مکہ میں فوجی حملوں سے ڈرایا اور اس سے درخواست کی کہ ابن زبیر کو اقتصادی پابندیوں کے ذریعے تسلیم کرے ۔<ref>الفتوح، ج۶، ص۳۳۸.</ref>
بنی امیہ کے داخلی اختلافات ،رومیوں کی دھمکیوں اور خوارج نے مروانیوں کو ابن زبیر کے خلاف سنجیدگی اور یکسوئی سے اقدام کرنے روکے رکھا  <ref>الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۳۷؛ دولت امویان، ص۱۱۰.</ref> یہانتک کہ سال ۷۲ق. عبدالملک نے مصعب بن زبیر کے قتل ، تصرف عراق اور شکست کے بعد [[حجاج بن یوسف ثقفی|حجاج بن یوسف ثقفی]] کو ابن زبیر کی سرکوبی کیلئے حجاز بھیجا۔<ref>انساب الاشراف، ج۷، ص۹۵؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۱۵.</ref>حجاج نے ذی القعده سال ۷۲ق. میں ابن زبیر کی فوجی ناتوانی سے آگاہی اور  ۵۰۰۰ اشخاص کی مدد پہنچنے کے بعد مدینہ میں داخل ہوا اور ابن زبیر کے مقرر کردہ حاکم کو باہر نکالنے <ref>تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.</ref> کے بعد مکہ کی جانب راہی ہوا اور ابن زبیر کو مسجد الحرام میں محبوس کیا ۔ یہ محاصرہ  ذی‌ الحجہ سال ۷۲ق. سے شروع ہو کر چھ مہینے اور  ۱۷ روز قتل ابن‌ زبیر کے قتل کے ساتھ  منگل کے دن  ۱۷ جمادی الاولی سال ۷۳ق. کو  ختم ہوا ۔ بعض نے اس محاصرے کی مدت آٹھ مہینے اور ۱۷ لکھی ہے ۔<ref> تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۴.</ref> تاریخی روایات کے مطابق  عبدالملک نے شروع میں حجاج کو مکہ میں فوجی حملوں سے ڈرایا اور اس سے درخواست کی کہ ابن زبیر کو اقتصادی پابندیوں کے ذریعے تسلیم کرے ۔<ref>الفتوح، ج۶، ص۳۳۸.</ref>
<!--
 
  سال ۷۲ق. میں ابن‌ زبیر  مسجدالحرام میں  محاصره میں تھا لہذا وہ وقوف  عرفات اور رمی جمرات سے رہ گیا اور اس نے حج نہیں کیا۔<ref>  الاستیعاب ، ج۳، ص۹۰۷؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.</ref> [[عبدالله بن عمر|ابن‌ عمر]] یا [[جابر بن عبدالله انصاری|جابر بن عبدالله انصاری]] اور [[ابوسعید خدری|ابوسعید خُدری]] جیسے اصحاب کی درخواست پر حجاج بن یوسف منا سے حاجیوں کی واپسی تک حملے سے ہاتھ کھینچا لیا ۔حاجیوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے شہروں کو لوٹ جائیں تا کہ جنگ کو جاری رکھا جا سکے ۔ <ref>اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۷۲؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.</ref> اس نے اپنے آپ کو''' امیرالحاج''' کہا لوگوں کے ساتھ حج ادا کیا اور فوجی لباس کے ساتھ  عرفات میں حاضر ہوا. <ref>تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۰.</ref>، اگرچہ ابن زبیر کے حائل ہونے  کی وجہ سے اس نے  طواف کعبہ اور صفا و مروہ کے درمیان سعی ادا نہیں کی تھی ۔ <ref> الکامل، ج۴، ص۳۵۰؛ الطبقات، خامسہ۲، ص۹۳.</ref>
  سال ۷۲ق. میں ابن‌ زبیر  مسجدالحرام میں  محاصره میں تھا لہذا وہ وقوف  عرفات اور رمی جمرات سے رہ گیا اور اس نے حج نہیں کیا۔<ref>  الاستیعاب ، ج۳، ص۹۰۷؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.</ref> [[عبدالله بن عمر|ابن‌ عمر]] یا [[جابر بن عبدالله انصاری|جابر بن عبدالله انصاری]] اور [[ابوسعید خدری|ابوسعید خُدری]] جیسے اصحاب کی درخواست پر حجاج بن یوسف منا سے حاجیوں کی واپسی تک حملے سے ہاتھ کھینچا لیا ۔حاجیوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے شہروں کو لوٹ جائیں تا کہ جنگ کو جاری رکھا جا سکے ۔ <ref>اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۷۲؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۰.</ref> اس نے اپنے آپ کو''' امیرالحاج''' کہا لوگوں کے ساتھ حج ادا کیا اور فوجی لباس کے ساتھ  عرفات میں حاضر ہوا. <ref>تاریخ طبری، ج۶، ص۱۷۵؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۰.</ref>، اگرچہ ابن زبیر کے حائل ہونے  کی وجہ سے اس نے  طواف کعبہ اور صفا و مروہ کے درمیان سعی ادا نہیں کی تھی ۔ <ref> الکامل، ج۴، ص۳۵۰؛ الطبقات، خامسہ۲، ص۹۳.</ref>
<!--
حجاج مانع رسیدن آذوقه به زبیریان شد و آنان تنها به آب زمزم دسترسی داشتند.<ref> الطبقات، خامسہ۲، ص۹۴؛ اخبار مکہ، فاکهی، ج۲، ص۳۱.</ref>او با منجیق زبیریان را سخت کوبید و در این میان، سنگ‌هایی نیز به کعبه اصابت کرد.<ref>الطبقات، خامسہ۲، ص۹۵؛ الانباء، ص۵۰.</ref> سنگ‌های منجنیق دیوار مشرف بر چاه زمزم را فروریخت و کناره‌های کعبه را ویران کرد<ref> الفتوح، ج۶، ص۳۴۰؛ حیاة الحیوان، ج۲، ص۵۹.</ref>و حجرالاسود را از جای خود بیرون افکند.<ref>تاریخ الاسلام، ج۵، ص۳۱۵.</ref>سپس حجاج دستور داد تا با گلوله‌های آتشین مسجد را هدف گیرند. این کار که پرده‌های کعبه را سوزاند، ابن‌ زبیر را واداشت تا برای جلوگیری از آسیب بیشتر کعبه، با فرستادن قسمتی از نیروهایش به بیرون از مسجد، میدان نبرد را توسعه دهد.<ref>اخبار مکہ، فاکهی، ج۲، ص۳۶۰؛ الفتوح، ج۶، ص۳۴۱.</ref>وی برای جلوگیری از آسیب دیدن دیگر بار حجرالاسود، حفاظی بر آن نهاد.<ref>الوافی بالوفیات، ج۵، ص۳۹۰؛ مجمع الزوائد، ج۷، ص۵۰۳.</ref>


خاندان و یاران عبدالله بن زبیر و برادرش عروه، او را به صلح با عبدالملک و تأسی به [[امام حسن(ع)]] فرامی‌خواندند. وی در واکنش به این پیشنهاد، عروه را با همه شأن و جایگاهش سخت تنبیه کرد.<ref> الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۳۸.</ref>این وضعیت در کنار اعلان عفو عمومی حجاج<ref>الطبقات، خامسہ۲، ص۹۹؛ انساب الاشراف، ج۷، ص۱۲۴؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۰.</ref>سبب گشت یاران ابن‌ زبیر و حتی پسرانش خبیب و حمزه برای حفظ جان خود تسلیم شوند.<ref> تاریخ طبری، ج۶، ص۱۸۸؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۲.</ref>
حجاج زبیریوں تک کھانے پینے کے سامان پہنچنے سے مانع ہوا وہ صرف آب زمزم تک رسائی رکھتے تھے ۔<ref> الطبقات، خامسہ۲، ص۹۴؛ اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۱.</ref> اس نے منجنیقوں کے ساتھ انہیں بری طرح نقصان پہنچایا اس دوران کعبہ کو بھی پتھر لگے ۔ <ref>الطبقات، خامسہ۲، ص۹۵؛ الانباء، ص۵۰.</ref>  منجنیق  کی سنگ باری نے چاہ  زمزم کی چار دیواری کو گرا دیا اور کعبہ کے اطراف کو ویران کر دیا ۔ <ref> الفتوح، ج۶، ص۳۴۰؛ حیاة الحیوان، ج۲، ص۵۹.</ref>نیز  حجرالاسود اپنی جگہ سے اکھڑ گیا ۔ <ref>تاریخ الاسلام، ج۵، ص۳۱۵.</ref> پھر اس نے دستور دیا مسجد کو اسلحہ آتشین سے ہدف قرار دیں ۔اس کی وجہ سے کعبہ کے پردوں کو آگ لگ گئی ۔ کعبہ کو اور نقصان سے بچانے کی خاطر ابن زبیر نے کچھ افراد مسجد سے باہر بھیجے ۔ <ref>اخبار مکہ، فاکہی، ج۲، ص۳۶۰؛ الفتوح، ج۶، ص۳۴۱.</ref>  اس نے حجرالاسود کو دوبارہ نقصان بچانے کی خاطر وہاں محافظین مقرر کئے ۔ <ref>الوافی بالوفیات، ج۵، ص۳۹۰؛ مجمع الزوائد، ج۷، ص۵۰۳.</ref>
 
عبدالله بن زبیر کے اطرافی اور اسکے خاندان کے لوگ نیز اسکے بھائی عروه نے اسے امام حسن کی پیروی میں عبدالملک سے صلح کی طرف دعوت دی لیکن اس نے اس تجویز کے جواب میں سخت ردعمل ظاہر کیا اور عروہ کی اس شان و شوکت اور حیثیت کے باوجود اسے  سخت تنبیہ کی ۔ <ref> الامامہ و السیاسہ، ج۲، ص۳۸.</ref> دوسری طرف حجاج کی طرف سے عام معافی کے اعلان <ref>الطبقات، خامسہ۲، ص۹۹؛ انساب الاشراف، ج۷، ص۱۲۴؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۰.</ref> کے باعث ابن زبیر کے مددگار یہانتک کہ اس کے بیٹے : خبیب اور حمزه بھی اپنی جان حفاظت کی خاطر تسلیم ہو گئے ۔ <ref> تاریخ طبری، ج۶، ص۱۸۸؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۲.</ref>


====کشته شدن ابن زبیر====
====قتل ابن زبیر====
<!--
ابن زبیر سرانجام دانست که تاب مقاومت دربرابر سپاه شام را ندارد. در آخرین روز در گفت‌وگو با مادرش اسماء قیام خود را برای خدا و دامن خود را از هرگونه خیانت و ارتکاب عمدی گناه و دنیاطلبی پاک دانست و تصریح کرد که به ظلم‌ها و جنایت‌های کارگزارانش خشنود نبوده است.<ref> تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۷؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۳.</ref>وی به سفارش مادرش<ref> الطبقات، خامسہ۲، ص۹۸؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۵.</ref>با یارانی اندک تا واپسین لحظه و در حالی‌ که به کعبه تکیه داده بود، جنگید و به دست مردانی از بنیسکون و بنیمراد کشته شد.<ref>الطبقات، خامسہ۲، ص۹۹؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۴۲.</ref>در این نبرد ۲۴۰ نفر همراه ابن‌ زبیر کشته شدند و خون برخی از آنان تا درون کعبه جاری شد.<ref> الاستیعاب، ج۳، ص۹۱۰؛ الجوهرة فی نسب النبی، ج۱، ص۳۲۰.</ref>سر او را همراه سر عبدالله بن مطیع و عبدالله بن صفوان به مدینہ بردند<ref>تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۵۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۵۲.</ref>و آن‌جا نصب کردند.<ref>تاریخ طبری، ج۶، ص۱۹۲؛ الاصابہ، ج۵، ص۲۲.</ref>سپس این سرها را برای عبدالملک بردند و هر یک از حاملان سرها ۵۰۰ دینار پاداش گرفت.<ref>الطبقات، خامسہ۲، ص۱۱۳-۱۱۴؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۶.</ref>روایت‌های دیگر، محل قتل ابن‌ زبیر را نزدیک حجون دانسته‌اند.<ref>تجارب الامم، ج۲، ص۲۴۷؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۴۲.</ref>بر پایه برخی روایت‌ها، عبدالملک سر ابن‌ زبیر را برای تسلیم‌کردن عبدالله بن خازم، حاکم ابن‌ زبیر در خراسان، به آن دیار فرستاد و او سر را همان جا دفن کرد.<ref> تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۵۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۲۶.</ref>
ابن زبیر سرانجام دانست که تاب مقاومت دربرابر سپاه شام را ندارد. در آخرین روز در گفت‌وگو با مادرش اسماء قیام خود را برای خدا و دامن خود را از هرگونه خیانت و ارتکاب عمدی گناه و دنیاطلبی پاک دانست و تصریح کرد که به ظلم‌ها و جنایت‌های کارگزارانش خشنود نبوده است.<ref> تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۷؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۳.</ref>وی به سفارش مادرش<ref> الطبقات، خامسہ۲، ص۹۸؛ المنتظم، ج۶، ص۱۲۵.</ref>با یارانی اندک تا واپسین لحظه و در حالی‌ که به کعبه تکیه داده بود، جنگید و به دست مردانی از بنیسکون و بنیمراد کشته شد.<ref>الطبقات، خامسہ۲، ص۹۹؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۴۲.</ref>در این نبرد ۲۴۰ نفر همراه ابن‌ زبیر کشته شدند و خون برخی از آنان تا درون کعبه جاری شد.<ref> الاستیعاب، ج۳، ص۹۱۰؛ الجوهرة فی نسب النبی، ج۱، ص۳۲۰.</ref>سر او را همراه سر عبدالله بن مطیع و عبدالله بن صفوان به مدینہ بردند<ref>تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۵۱؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۵۲.</ref>و آن‌جا نصب کردند.<ref>تاریخ طبری، ج۶، ص۱۹۲؛ الاصابہ، ج۵، ص۲۲.</ref>سپس این سرها را برای عبدالملک بردند و هر یک از حاملان سرها ۵۰۰ دینار پاداش گرفت.<ref>الطبقات، خامسہ۲، ص۱۱۳-۱۱۴؛ الکامل، ج۴، ص۳۵۶.</ref>روایت‌های دیگر، محل قتل ابن‌ زبیر را نزدیک حجون دانسته‌اند.<ref>تجارب الامم، ج۲، ص۲۴۷؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۴۲.</ref>بر پایه برخی روایت‌ها، عبدالملک سر ابن‌ زبیر را برای تسلیم‌کردن عبدالله بن خازم، حاکم ابن‌ زبیر در خراسان، به آن دیار فرستاد و او سر را همان جا دفن کرد.<ref> تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۵۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۲۶.</ref>


سطر 73: سطر 74:
گزارش‌های تاریخی در مورد عبدالله بن زبیر متفاوت است، برخی از روایات که بیشتر از طرف حامیان وی نقل شده او را مبالغه آمیز تمجید کرده ولی طبق برخی از روایات و گزراش‎ها از مذمت وی حکایت می‌کند.
گزارش‌های تاریخی در مورد عبدالله بن زبیر متفاوت است، برخی از روایات که بیشتر از طرف حامیان وی نقل شده او را مبالغه آمیز تمجید کرده ولی طبق برخی از روایات و گزراش‎ها از مذمت وی حکایت می‌کند.
===فضیلت‌===
===فضیلت‌===
در منابع اهل سنت فضیلت‌های بسیاری برای ابن زبیر نقل شده که بخشی از آنها عبادت‌های شگفتی را به او نسبت می‌دهند. برخی پژوشگران تاریخ اسلام،<ref>برای نمونه نک: نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر».(http://hajj.ir/99/3019#_ftn298)</ref> با ذکر تحلیلهایی در صحت روایات حاوی این فضیلتها تردید کرده‌اند؛ فضیلتهایی همچون: سجده‌اش چنان طولانی بود که پرندگان بر پشتش می‌نشستند<ref>تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۷۰؛ نهایة الارب، ج۲۱، ص۱۴۳.</ref>؛ وقتی در مسجد الحرام سیل آمد، وی شناکنان کعبه را طواف کرد<ref>اخبار مکہ، فاکهی، ج۱، ص۲۵۱؛ الکامل، ج۴، ص۳۶۰.</ref>؛ هفت یا پانزده روز پیاپی بدون افطار روزه می‌گرفت<ref>حلیة الاولیاء، ج۱، ص۳۳۵؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۴۰.</ref> ؛ در میان جمعی به رکوع رفت و با این که حاضران سوره‌های طولانی مانند بقره، آل ‌عمران، نساء و مائده را خواندند، او از رکوع برنیامد<ref> تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۷۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۴.</ref>؛ به ۱۰۰ زبان با غلامانش سخن می‌گفت<ref>تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۴۴؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۹.</ref>؛ نخستین واژه‌ای که در کودکی بر زبان آورد، شمشیر بود و پیوسته آن را تکرار می‌کرد<ref> الکامل، ج۴، ص۳۶۰؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۴۰.</ref>؛ در کودکی، خون حجامت پیامبر را نوشید<ref> تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۷؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۳؛ سبل الهدی، ج۱۰، ص۴۰.</ref>؛ زنان جنی را در طواف دید و آنان را فراری داد؛<ref>تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۸۵؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۶.</ref> با مردان جنی همسخن ‌شد و از آنان نمی‌ترسید<ref>تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۸۵؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۶.</ref>؛ کنار حجرالاسود برای دستیابی به حکومت حجاز و خلافت، دعا نمود و خواسته‌اش برآورده شد.<ref>اخبار مکہ، فاکهی، ج۱، ص۱۴۰؛ المنتظم، ج۶، ص۱۳۵.</ref><ref>نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftn306)</ref>
در منابع اهل سنت فضیلت‌های بسیاری برای ابن زبیر نقل شده که بخشی از آنها عبادت‌های شگفتی را به او نسبت می‌دهند. برخی پژوشگران تاریخ اسلام،<ref>برای نمونه نک: نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر».(http://hajj.ir/99/3019#_ftn298)</ref> با ذکر تحلیلهایی در صحت روایات حاوی این فضیلتها تردید کرده‌اند؛ فضیلتهایی همچون: سجده‌اش چنان طولانی بود که پرندگان بر پشتش می‌نشستند<ref>تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۷۰؛ نهایة الارب، ج۲۱، ص۱۴۳.</ref>؛ وقتی در مسجد الحرام سیل آمد، وی شناکنان کعبه را طواف کرد<ref>اخبار مکہ، فاکہی، ج۱، ص۲۵۱؛ الکامل، ج۴، ص۳۶۰.</ref>؛ هفت یا پانزده روز پیاپی بدون افطار روزه می‌گرفت<ref>حلیة الاولیاء، ج۱، ص۳۳۵؛ تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۴۰.</ref> ؛ در میان جمعی به رکوع رفت و با این که حاضران سوره‌های طولانی مانند بقره، آل ‌عمران، نساء و مائده را خواندند، او از رکوع برنیامد<ref> تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۷۱؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۴.</ref>؛ به ۱۰۰ زبان با غلامانش سخن می‌گفت<ref>تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۴۴؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۹.</ref>؛ نخستین واژه‌ای که در کودکی بر زبان آورد، شمشیر بود و پیوسته آن را تکرار می‌کرد<ref> الکامل، ج۴، ص۳۶۰؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۴۰.</ref>؛ در کودکی، خون حجامت پیامبر را نوشید<ref> تاریخ الاسلام، ج۵، ص۴۳۷؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۳؛ سبل الهدی، ج۱۰، ص۴۰.</ref>؛ زنان جنی را در طواف دید و آنان را فراری داد؛<ref>تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۸۵؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۶.</ref> با مردان جنی همسخن ‌شد و از آنان نمی‌ترسید<ref>تاریخ دمشق، ج۲۸، ص۱۸۵؛ البدایہ و النہایہ، ج۸، ص۳۳۶.</ref>؛ کنار حجرالاسود برای دستیابی به حکومت حجاز و خلافت، دعا نمود و خواسته‌اش برآورده شد.<ref>اخبار مکہ، فاکہی، ج۱، ص۱۴۰؛ المنتظم، ج۶، ص۱۳۵.</ref><ref>نجاتی، دانشنامہ حج و حرمین شریفین، ذیل مدخل «ابن زبیر»(http://hajj.ir/99/3019#_ftn306)</ref>


===مذمت===
===مذمت===
گمنام صارف