گمنام صارف
"معاویۃ بن ابی سفیان" کے نسخوں کے درمیان فرق
←معاویہ کی سیاسی روش
imported>E.musavi |
imported>E.musavi |
||
سطر 128: | سطر 128: | ||
== معاویہ کی سیاسی روش== | == معاویہ کی سیاسی روش== | ||
معاویہ کی [[امام حسن(ع)]] کے ساتھ صلح کے ساتھ اس کی خلافت کا پہلا دور اختتام ہوا اور اموی دور حکومت کا آغاز ہوا۔ | معاویہ کی [[امام حسن(ع)]] کے ساتھ صلح کے ساتھ اس کی خلافت کا پہلا دور اختتام ہوا اور اموی دور حکومت کا آغاز ہوا۔ معاویہ کی حکومت کا پایہ تخت دمشق تھا۔ اس نے اپنے اہداف کے تحت اپنی حکومت کی بنیادیں فراہم کیں۔ اسکی اہم کوششیں عبارت ہیں: نظام سیاسی میں تبدیلی، فوج کے کردار کو اساسی محور قرار دینا، قبائل کا موازنہ اور چلانا، ولی عہدی کی ایجاد، مخالفین کی سرکوبی، خوش روئی کا مظاہرہ کرنا اور بزرگ شخصیات اسلامی کو بخشش و ہدایا دینا، جابر اور قدرتمند والیوں کے ذریعے امنیت ایجاد کرنا، حکومتی کاموں کو مستقیم ادارہ کرنا اور توسیع طلبانہ سیاستیں۔<ref>محمدسہیل طقوش، دولت امویان، ترجمہ حجت اللہ جودکی، ص ۱۸</ref> | ||
=== خلافت کے استحکام کیلئے دینی اصولوں کا استعمال === | === خلافت کے استحکام کیلئے دینی اصولوں کا استعمال === | ||
معاویہ نے اپنی خلافت کے استحکام کیلئے بعض دینی اصول بھی بروئے کار لاتا تھا ۔قدرت حاصل کرنے کیلئے اپنے آپکو خدا کی طرف سے (نمائندہ) سمجھتا تھا ۔کیونکہ تمام کام اسی کی طرف سے ہیں ۔<ref>کاندہلوی، حیاة الصحابہ، ج ۳، ص ۶۳</ref> ایک زمانے میں معاویہ نے کہا: یہ خلافت خداوند کا امر اور اس کی قضاؤں میں سے قضائے الہی ہے ۔ <ref>ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق، ج ۹، ص ۸۵:{{حدیث|هذه الخلافة امر من امرالله و قضاء من قضاء الله}}</ref>معاویہ نے یزید کی ولی عہدی کے متعلق عائشہ کی مخالفت کے وقت کہا:یہ قضائے الہی ہے اور قضائے [[توحید|الہی]] میں کسی کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔ <ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص ۲۰۵</ref> بعض گزارشوں کے مطابق اسی نے عائشہ کو قتل کروایا۔ <ref>الصراط المستقیم، ج ۳، ص ۴۸ </ref>بصرے اور کوفہے میں معاویہ کے حاکم زیاد بن ابیہ، نے اپنے معروف خطبے کے ضمن میں کہا :اے لوگوں !ہم سیاست کرنے والے ہیں اور آپ کے مدافع ہیں اور ہم تمہیں اس حکومت کی طرف سیاست کرتے ہیں جو خدا نے ہمیں دی ہے۔<ref>ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج ۴، ص ۱۸۰؛ جاحظ، ابوعثمان عمرو، البیان و التبیین، ج ۲، ص ۴۹؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۲۲۰</ref> یزید نے بھی اپنے پہلے خطبے میں کہا تھا : اسکا باپ بندگان خدا میں تھا ،خدا نے اس پر اکرام کیا اور است خلافت بخشی ....اور اب خدا نے وہ خلافت مجھے عطا کی ہے ۔<ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، چ۱، ص ۲۲۵؛ دینوری، ابو حنیفہ، الاخبار الطوال، ص ۲۲۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۴، ص ۲۹۹، ش ۷۹۸</ref> معاویہ کے سامنے عثمان کے بیٹے نے یزید کی ولایتعہدی پر اعتراض کیا اور کہا تو میرے باپ کی وجہ سے تخت نشین ہوئے ہو تو اس نے جواب میں کہا : یہ وہ ملک ہے جسے خدا نے ہمارے اختیار میں دیا ہے ۔<ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج ۱، ص ۲۱۴</ref> | معاویہ نے اپنی خلافت کے استحکام کیلئے بعض دینی اصول بھی بروئے کار لاتا تھا ۔قدرت حاصل کرنے کیلئے اپنے آپکو خدا کی طرف سے (نمائندہ) سمجھتا تھا ۔کیونکہ تمام کام اسی کی طرف سے ہیں ۔<ref>کاندہلوی، حیاة الصحابہ، ج ۳، ص ۶۳</ref> ایک زمانے میں معاویہ نے کہا: یہ خلافت خداوند کا امر اور اس کی قضاؤں میں سے قضائے الہی ہے ۔ <ref>ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق، ج ۹، ص ۸۵:{{حدیث|هذه الخلافة امر من امرالله و قضاء من قضاء الله}}</ref>معاویہ نے یزید کی ولی عہدی کے متعلق عائشہ کی مخالفت کے وقت کہا:یہ قضائے الہی ہے اور قضائے [[توحید|الہی]] میں کسی کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔ <ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص ۲۰۵</ref> بعض گزارشوں کے مطابق اسی نے عائشہ کو قتل کروایا۔ <ref>الصراط المستقیم، ج ۳، ص ۴۸ </ref>بصرے اور کوفہے میں معاویہ کے حاکم زیاد بن ابیہ، نے اپنے معروف خطبے کے ضمن میں کہا :اے لوگوں !ہم سیاست کرنے والے ہیں اور آپ کے مدافع ہیں اور ہم تمہیں اس حکومت کی طرف سیاست کرتے ہیں جو خدا نے ہمیں دی ہے۔<ref>ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج ۴، ص ۱۸۰؛ جاحظ، ابوعثمان عمرو، البیان و التبیین، ج ۲، ص ۴۹؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۲۲۰</ref> یزید نے بھی اپنے پہلے خطبے میں کہا تھا : اسکا باپ بندگان خدا میں تھا ،خدا نے اس پر اکرام کیا اور است خلافت بخشی ....اور اب خدا نے وہ خلافت مجھے عطا کی ہے ۔<ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، چ۱، ص ۲۲۵؛ دینوری، ابو حنیفہ، الاخبار الطوال، ص ۲۲۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۴، ص ۲۹۹، ش ۷۹۸</ref> معاویہ کے سامنے عثمان کے بیٹے نے یزید کی ولایتعہدی پر اعتراض کیا اور کہا تو میرے باپ کی وجہ سے تخت نشین ہوئے ہو تو اس نے جواب میں کہا : یہ وہ ملک ہے جسے خدا نے ہمارے اختیار میں دیا ہے ۔<ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج ۱، ص ۲۱۴</ref> |