گمنام صارف
"حدیث قرطاس" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Jaravi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{زیر تعمیر}} | |||
{{تاریخ صدر اسلام}} | {{تاریخ صدر اسلام}} | ||
[[حدیث قرطاس]] یا [[حدیث قرطاس|حدیث قلم و کاغذ]]، [[رسول خدا]] کےآخری ایام کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ نے اپنے بعد مسلمانوں کو گمراهی سے محفوظ رکھنے کا نسخہ لکھنے کیلئے [[صحابہ]] سے قلم اور دوات مانگی جسے حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] نے یہ کہہ کر رد کیا کہ "یہ شخص بیماری کی وجہ سے ہذیان کہہ رہا ہے"۔ یوں [[رسول اللہ]] امت کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے اپنی [[وصیت]] نہ لکھ سکے۔ | [[حدیث قرطاس]] یا [[حدیث قرطاس|حدیث قلم و کاغذ]]، [[رسول خدا]] کےآخری ایام کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ نے اپنے بعد مسلمانوں کو گمراهی سے محفوظ رکھنے کا نسخہ لکھنے کیلئے [[صحابہ]] سے قلم اور دوات مانگی جسے حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] نے یہ کہہ کر رد کیا کہ "یہ شخص بیماری کی وجہ سے ہذیان کہہ رہا ہے"۔ یوں [[رسول اللہ]] امت کو گمراہی سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے اپنی [[وصیت]] نہ لکھ سکے۔ | ||
سطر 7: | سطر 8: | ||
== واقعے کی تفصیل == | == واقعے کی تفصیل == | ||
تاریخی اور حدیثی کتابوں کے مطابق [[پیغمبر اکرم(ص)]] نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بستر بیماری پر [[25 صفر]] [[سنہ 11 ہجری]] کو حاضرین سے فرمایا: مجھے قلم اور دوات دو تا کہ میں تمہیں ایسی چیز لکھ دوں، جس کی بدولت تم کبھی گمراہ نہیں ہو | تاریخی اور حدیثی کتابوں کے مطابق [[پیغمبر اکرم(ص)]] نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بستر بیماری پر [[25 صفر]] [[سنہ 11 ہجری]] کو حاضرین سے فرمایا: مجھے قلم اور دوات دو تا کہ میں تمہیں ایسی چیز لکھ دوں، جس کی بدولت تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔{{نوٹ|منابع میں پیغمبر اکرم کی اس درخواست کو مختلف عبارتوں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے منجلمہ یہ کہ: | ||
*{{حدیث|ائتونی بدواة و کتف أکتب لکم کتابا لا تضلّوا بعده أبدا | *<font size=3px , font color=green>{{حدیث|"ائتونی بدواة و کتف أکتب لکم کتابا لا تضلّوا بعده أبدا"}}</font> ترجمہ: مجھے قلم اور ہڈی کا ایک ٹکرا لا دو تاکہ میں ایک ایسی چیز لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوں۔(مفید، الارشاد، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۱۸۴؛ بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۱ق، ج۴، ص۶۶؛ مسلم، صحیح مسلم، دارالفکر، ج۵، ص۷۶.) | ||
*{{حدیث|هلُمّ اکتب لکم کتابا لا تضلون بعده | *<font size=3px , font color=green>{{حدیث|"هلُمّ اکتب لکم کتابا لا تضلون بعده"}}</font> ترجمہ: آؤ میں تمھیں ایک ایسی تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوں۔(مسلم، صحیح مسلم، دارالفکر، ج۵، ص۷۶.) | ||
*{{حدیث|ائتونی بدواة وصحیفة أکتب لکم کتابا لا تضلوا بعده أبدا | *<font size=3px , font color=green>{{حدیث|ائتونی بدواة وصحیفة أکتب لکم کتابا لا تضلوا بعده أبدا"}}</font> ترجمہ: مجھے قلم اور کاغذ لا دو تاکہ میں ایک ایسی چیز لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوں۔ (ابن سعد، الطبقات الکبری، دارالصادر، ج۲، ص۲۴۲.) | ||
*{{حدیث|ائتونی بالکتف والدواة أکتب لکم کتابا لا تضلوا بعده أبدا}} (ابن سعد، الطبقات الکبری، دارالصادر، ج۲، ص۲۴۳.)}}اس موقع پر [[عمر بن خطاب|خلیفہ دوم]] جو پیغمبر اکرم کے پاس بیٹھے تھے، نے [[رسول اللہ]] کی اس درخواست کی مخالفت کی اور کہا: [[پیغمبر]] ہذیان کہہ رہے ہیں ہمارے لئے [[قرآن]] کافی ہے۔ اس واقعہ میں خلیفہ دوم کے الفاظ مختلف عبارتوں کے ساتھ شیعہ سنی منابع میں ذکر ہوا ہے۔{{نوٹ| | *<font size=3px , font color=green>{{حدیث|ائتونی بالکتف والدواة أکتب لکم کتابا لا تضلوا بعده أبدا"}}</font> (ابن سعد، الطبقات الکبری، دارالصادر، ج۲، ص۲۴۳.)}}اس موقع پر [[عمر بن خطاب|خلیفہ دوم]] جو پیغمبر اکرم کے پاس بیٹھے تھے، نے [[رسول اللہ]] کی اس درخواست کی مخالفت کی اور کہا: [[پیغمبر]] ہذیان کہہ رہے ہیں ہمارے لئے [[قرآن]] کافی ہے۔ اس واقعہ میں خلیفہ دوم کے الفاظ مختلف عبارتوں کے ساتھ شیعہ سنی منابع میں ذکر ہوا ہے۔{{نوٹ| | ||
*{{حدیث| | *<font size=3px , font color=green>{{حدیث|"إن نبی الله ليهجر"}}</font> <ref>ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج۲، ص۱۸۷</ref> خدا کا نبی ہذیان کہہ رہا ہے۔ | ||
*{{حدیث| | *<font size=3px , font color=green>{{حدیث|"إن رسول الله يهجر"}}</font> <ref>صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶</ref> [[رسول خدا]] ہذیان کہتا ہے۔ | ||
*{{حدیث| | *<font size=3px , font color=green>{{حدیث|"ان الرجل لیهجر"}}</font> <ref>اربلي، كشف الغمہ، ج۱، ص۴۰۲</ref> یہ مرد ہذیان کہتا ہے ۔ | ||
*{{حدیث| | *<font size=3px , font color=green>{{حدیث|"أهجر رسول الله؟"}}</font> <ref> صحيح بخارى، كتاب الجہاد و السير، باب 175، ح 1 </ref> کیا [[رسول خدا]] نے ہذیان کہا ہے۔ | ||
*{{حدیث| | *{{حدیث|"ما شأنه؟ أهجر؟ استفهموه"}} <ref> صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصيہ، باب 6، ح 6 </ref> اسے کیا ہوا ہے ؟ آیا(اسنے) یذیان کہا؟اس سے پوچھو۔ | ||
*{{حدیث| | *<font size=3px , font color=green>{{حدیث|"إنّ النّبى (رسول الله) قد غلب عليه (غلبه) الوجع وعندکم القرآن حسبنا کتاب الله"}}</font> <ref> صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 5 . 13 و كتاب المرضى، باب 17، ح 1 . 15 و كتاب العلم، باب 39 (باب كتابۃ العلم)، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصيہ، باب 6، ح 8 . 14 .</ref> درد نے [[رسول خدا]] پر غلبہ کیا ہے، تمہارے پاس [[قرآن]] موجود ہے اور ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے۔}}یہ سننے کے بعد [[صحابہ]] کے درمیان نزاع شروع ہو گئی۔ [[پیغمبر]] نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ۔ | ||
[[سید عبدالحسین شرف الدین]] نے اپنی تصنیف [[المراجعات]] میں کہا ہے کہ {{حدیث|قد غلب عليه الوجع}} کے الفاظ [[اہل سنت]] محدثین نے تبدیل کئے ہیں تا کہ اس کے ذریعے عبارت کی تلخی کو کم کر سکیں <ref>شرف الدین، المراجعات، صص۲۴۳-۲۴۲؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۱-۴۳۲.</ref> انہوں نے اپنے اس مدعا کے اثبات کیلئے ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری کی کتاب "السقیفہ" میں ابن عباس کی روایت سے استناد کرتے ہوئے یوں نقل کیا ہے : پس [[عمر بن خطاب|خلیفہ دوم]] نے ایسی بات کہی کہ جس کا معنی یہ ہے کہ درد [[پیغمبر]] پر غالب ہو گیا ... | [[سید عبدالحسین شرف الدین]] نے اپنی تصنیف [[المراجعات]] میں کہا ہے کہ <font size=3px , font color=green>{{حدیث|"قد غلب عليه الوجع"}}</font> کے الفاظ [[اہل سنت]] محدثین نے تبدیل کئے ہیں تا کہ اس کے ذریعے عبارت کی تلخی کو کم کر سکیں <ref>شرف الدین، المراجعات، صص۲۴۳-۲۴۲؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۱-۴۳۲.</ref> انہوں نے اپنے اس مدعا کے اثبات کیلئے ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری کی کتاب "السقیفہ" میں ابن عباس کی روایت سے استناد کرتے ہوئے یوں نقل کیا ہے : پس [[عمر بن خطاب|خلیفہ دوم]] نے ایسی بات کہی کہ جس کا معنی یہ ہے کہ درد [[پیغمبر]] پر غالب ہو گیا ... | ||
==منابع حدیث== | ==منابع حدیث== | ||
سطر 39: | سطر 40: | ||
== مختلف مؤقف == | == مختلف مؤقف == | ||
=== شیعہ مؤقف=== | === شیعہ کا مؤقف=== | ||
علمائے [[شیعہ]] اس واقعہ کو بہت بڑی مصیبت سمجھتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے سے کیلئے [[رسول اللہ]] کے [[وصیت]] لکھنے میں رکاوٹ بنا۔ <ref>جوہري، مقتضب الأثر، ص1</ref> [[اہل سنت]] کے بعض مآخذوں میں بھی آیا ہے کہ [[عبد اللہ بن عباس]] [[رسول اللہ]] کی [[وصیت]] میں رکاوٹ کو ایک عظیم مصیبت سمجھتے اور گریہ کرتے تھے۔<ref>صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.</ref> | علمائے [[شیعہ]] اس واقعہ کو بہت بڑی مصیبت سمجھتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے سے کیلئے [[رسول اللہ]] کے [[وصیت]] لکھنے میں رکاوٹ بنا۔ <ref>جوہري، مقتضب الأثر، ص1</ref> [[اہل سنت]] کے بعض مآخذوں میں بھی آیا ہے کہ [[عبد اللہ بن عباس]] [[رسول اللہ]] کی [[وصیت]] میں رکاوٹ کو ایک عظیم مصیبت سمجھتے اور گریہ کرتے تھے۔<ref>صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.</ref> | ||
سطر 53: | سطر 54: | ||
:کہ تمہارا یہ ساتھی [[پیغمبرِ اسلام(ص) ]] نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ (2) اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔ (3) وہ تو بس وحی (بات کرتا) ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ (4) | :کہ تمہارا یہ ساتھی [[پیغمبرِ اسلام(ص) ]] نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ (2) اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔ (3) وہ تو بس وحی (بات کرتا) ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ (4) | ||
===اہل سنت مؤقف=== | ===اہل سنت کا مؤقف=== | ||
[[اہل سنت]] علما اس واقعے کی توجیہ کے در پے ہوئے ہیں مثلا: | [[اہل سنت]] علما اس واقعے کی توجیہ کے در پے ہوئے ہیں مثلا: | ||
* بعض اس واقعے کو متون اصلی میں مذکور ہونے کے باوجود اسے ضعیف اورغیر معتبر سمجھتے ہیں ۔ | * بعض اس واقعے کو متون اصلی میں مذکور ہونے کے باوجود اسے ضعیف اورغیر معتبر سمجھتے ہیں ۔ | ||
* بعض اس [[حدیث]] کا ایک اور معنا ذکر کرتے ہیں ۔ مثلا: «ہجر» کا مادہ چھوڑنے اور تک کرنے کے معنا میں ہے اور اس سے حضرت عمر کی مراد یہ تھی کہ [[پیغمبر]] ہمیں چھوڑ رہے ہیں یا حضرت عمر کی گفتگو استفہام انکاری ہے یعنی [[پیغمبر]] ہذیان نہیں کہتا ہے ؟ | * بعض اس [[حدیث]] کا ایک اور معنا ذکر کرتے ہیں ۔ مثلا: «ہجر» کا مادہ چھوڑنے اور تک کرنے کے معنا میں ہے اور اس سے حضرت عمر کی مراد یہ تھی کہ [[پیغمبر]] ہمیں چھوڑ رہے ہیں یا حضرت عمر کی گفتگو استفہام انکاری ہے یعنی [[پیغمبر]] ہذیان نہیں کہتا ہے ؟ | ||
*عمر کا[[ قرآن]] کو کافی سمجھنا اسکی قوت فقہ اور دقت نظر کا بیان گر ہے ۔ | *عمر کا[[ قرآن]] کو کافی سمجھنا اسکی قوت فقہ اور دقت نظر کا بیان گر ہے ۔ | ||
*بعض مآخذوں کے مطابق ایک شخص نہیں کئی افراد مراد ہیں | *بعض مآخذوں کے مطابق ایک شخص نہیں کئی افراد مراد ہیں. | ||
== | ==حضور(ص) نے کیوں لکھنے کا ارادہ ترک کیا== | ||
بعض شیعہ علماء کے مطابق، پیغمبر(ص) کے لکھنے کا ارادہ ترک کرنے کی دلیل، وہی گفتگو تھی جو اس کے مقابلے میں کہی گئی، کیونکہ حضور اکرم(ص) کی وفات کے بعد، اب اس لکھے ہوئے کا کوئی اثر باقی نہیں رہنا تھا، سوائے اختلاف کے. اس لئے اگر پیغمبر اکرم(ص) لکھنے کا حکم بھی دیتے تو ممکن ہے کہا جاتا کہ یہ لکھا ہوا بے ہوشی کے عالم میں تھا. <ref> شرف الدین، المراجعات، المجمع العالمی لاہل البیت، ص۵۲۷.</ref> | |||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |