مندرجات کا رخ کریں

"حدیث قرطاس" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 41: سطر 41:
=== منابع اهل سنت ===
=== منابع اهل سنت ===
یہ حدیث  [[اهل سنت]] کے بہتسے معتبر مآخذوں میں مذکور ہوئی ہے مثلا:
یہ حدیث  [[اهل سنت]] کے بہتسے معتبر مآخذوں میں مذکور ہوئی ہے مثلا:
{{ستون آ|2}}
* [[صحیح بخاری]] کےاب میں پانچ مقامات پر آئی جن میں سے دو مقام پر [[عمر بن خطاب|عمر]] کا نام آیا ہے ۔<ref>صحیح البخاری، ج۱، ص۳۷.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۴، ص۳۱.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۴، ص۶۶.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۷، ص۹.</ref>
* [[صحیح بخاری]] کےاب میں پانچ مقامات پر آئی جن میں سے دو مقام پر [[عمر بن خطاب|عمر]] کا نام آیا ہے ۔<ref>صحیح البخاری، ج۱، ص۳۷.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۴، ص۳۱.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۴، ص۶۶.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۷، ص۹.</ref>
* [[صحیح مسلم]] میں تین جگہ پر : ایک مقام پر حضرت عمر کا نام آیا ہے <ref>صحیح مسلم، ج۵، ص۷۵.</ref> <ref>صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.</ref> <ref>صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.</ref>
* [[صحیح مسلم]] میں تین جگہ پر : ایک مقام پر حضرت عمر کا نام آیا ہے <ref>صحیح مسلم، ج۵، ص۷۵.</ref> <ref>صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.</ref> <ref>صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.</ref>
سطر 46: سطر 47:
* [[سنن بیهقی]] ایک جگہ نقل ہوا ہے :کہنے والے کے نام نہیں آیا ۔<ref>البیهقی، السنن الکبری، ج۹، ص۲۰۷.</ref>
* [[سنن بیهقی]] ایک جگہ نقل ہوا ہے :کہنے والے کے نام نہیں آیا ۔<ref>البیهقی، السنن الکبری، ج۹، ص۲۰۷.</ref>
* [[الطبقات الکبری|طبقات ابن سعد]] آٹھ جگہ آیا ہے : تین جگہ حضرت عمر کا  نام آیا ہے <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۳.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۵.</ref>
* [[الطبقات الکبری|طبقات ابن سعد]] آٹھ جگہ آیا ہے : تین جگہ حضرت عمر کا  نام آیا ہے <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۳.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.</ref> <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۵.</ref>
{{ستون خ}}


===شیعہ مآخذ===
===شیعہ مآخذ===

نسخہ بمطابق 22:59، 24 جنوری 2017ء



حدیث قرطاس، حدیث دوات و قرطاس، یا حدیث قلم و کاغذ سے رسول خدا کےآخری ایام کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ جس میں آپ نے موجود صحابہ سے فرمایا کہ مجھے قلم اور دوات دو تا کہ میں تمہیں گمراہی بچنے کیلئے وصیت لکھ دوں ۔وہاں موجود حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ ک اس چاہت کی مخالفت کی اور یوں رسول اللہ اپنی وصیت نہ لکھ سکے۔ اس واقعے کو رسول اللہ کی زندگی کے واقعات میں سے مشہور ترین اور بزرگترین مصیبتوں میں سے سمجھا جاتا ہے کہ جسے صحاح ستہ ، سُنَن ، سیَر اور کے تمام مصنفین نے ذکر کیا ہے۔اس واقعے کی روایات میں اگرچہ جزئی اختلاف مذکور ہیں لیکن اصل واقعہ اور ان کا رسول اللہ کی وصیت میں رکاوٹ بننا خود حضرت عمر بن خطاب سے بھی منقول ہے ۔

شیعہ مکتب کے نزدیک رسول خدا کا اس وصیت سے مقصد اپنے بعد حضرت علی کی جانشینی کی تاکید اور وصیت کرنا تھی۔

حدیث کا متن اور مضمون

تاریخی اور روائی منابع کے مطابق رسول نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بستر بیماری پر ۱۱ ہجری 25 صفر کو حاضرین سے فرمایا :

مجھے قلم اور دوات دو تا میں تمہیں ایسی چیز لکھ دوں کہ جس کی بدولت تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے ۔

عمر بن خطاب نے رسول اللہ کی اس درخواست کی مخالفت کی اور کہا: پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں اور بعض روایات کے مطابق قرآن ہمارے لئے کافی ہے کہ جملے کا اضافہ موجود ہے ۔یہ سننے کے بعد صحابہ کے درمیان نزاع شروع ہو گئی ۔پیغمبر نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ۔ یہ واقعہ تفصیلی اور مختلف جملوں کے ساتھ منابع میں ذکر ہوا ہے ۔مختلف منابع میں رسول اللہ سے نقل ہونے والے جملے درج ذیل ہیں :

  • ائتونی بدواة و كتف أكتب لكم كتابا لا تضلّوا بعده أبدا[1]

مجھے قلم اور دوات دو، میں تمہارے لئے ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ جسکے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔

  • هلُمّ اکتب لکم کتابا لا تضلون بعده[2]
آؤ !میں تمہارے لئے ایسی تحریر لکھ دوں کہ اسکے بعد گمراہی نہیں ہو گی ۔
  • ائتونی بدواة وصحیفة أکتب لکم کتابا لا تضلوا بعده أبدا[3]
دوات لاؤ تا کہ میں میں تمہارے لئے تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو جاؤ ۔
  • ائتونی بالکتف والدواة أکتب لکم کتابا لا تضلوا بعده أبدا[4]

اسی طرح بعض تاریخی منابع میں حضرت عمر بن خطاب کو اس قول رسول کی مخالفت کرنے والا کہا گیا ہے لیکن بعض میں مخالفت کرنے والے کا نام ذکر نہیں ہوا ہے ۔مختلف کتب میں حضرت عمر کی مخالفت مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہے :

  • إن نبی الله ليهجر[5]
خدا کا نبی ہذیان کہہ رہا ہے۔
  • إن رسول الله يهجر[6]
رسول خدا هذیان کہتا ہے۔
  • ان الرجل لیهجر[7]
یہ مرد ہذیان کہتا ہے ۔
  • أهجر رسول الله؟[8]
کیا رسول خدا نے ہذیان کہا ہے۔
  • ما شأنه؟ أهجر؟ استفهموه[9]
اسے کیا ہوا ہے ؟ آیا(اسنے) یذیان کہا؟اس سے پوچھو۔
  • إنّ النّبى (رسول الله) قد غلب عليه (غلبه) الوجع وعندکم القرآن حسبنا کتاب الله[10]
درد نے رسول خدا پر غلبہ کیا ہے ،تمہارے لئے قرآن ہے اور ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے۔

سید عبدالحسین شرف الدین نے اپنی تصنیف المراجعات میں کہا ہے کہ قد غلب عليه الوجع کے الفاظ اہل سنت محدثین نے تبدیل کئے ہیں تا کہ اس کے ذریعے عبارت کی تلخی کو کم کر سکیں [11] اس نے اپنے اس مدعا کے اثبات کیلئے ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری کی کتاب السقیفہ میں ابن عباس کی روایت سے استناد کرتے ہوئے کہا اس میں آیا ہے : پس عمر ایسی بات کہ کہ جس کا معنی یہ ہے کہ درد نے پیغمبر پر غالب ہو گیا ...

منابع حدیث

منابع اهل سنت

یہ حدیث اهل سنت کے بہتسے معتبر مآخذوں میں مذکور ہوئی ہے مثلا:

شیعہ مآخذ

مختلف مؤقف

شیعہ مؤقف

علمائے شیعہاس واقعہ کو بہت بڑی مصیبت سمجھتے ہیں ، کیونکہ یہ واقعہ مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے سے کیلئے رسول اللہ کے وصیت لکھنے میں رکاوٹ بنا۔ [34] اہل سنت کے بعض مآخذوں میں بھی آیا ہے کہ عبد اللہ بن عباس رسول اللہ کی وصیت میں رکاوٹ کو ایک عظیم مصیبت سمجھتے اور گریہ کرتے تھے۔[35]

شرف الدین عاملی المراجعات میں قرآنی آیات کے تناظر میں حضرت عمر پر چند اعتراض کرتے ہیں ان میں سے:[36]

  1. رسول خدا(ص) کے حکم کی نافرمانی اور رسول کی مخالفت ۔
  2. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا حضرت عمر رسول اللہ سے زیادہ دانا تر ہے۔
  3. رسول کی نسبت ہذیان گوئی کا الزام لگانا۔

شیعوں کے نزدیک حضرت عمر کا یہ رویہ قرآن کی بہت سی آیات کے مخالف تھا مثلا:

  • وَمَا آتَاکمُ الرَّ‌سُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکمْ عَنْهُ فَانتَهُواسورہ حشر

جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔

  • مَا ضَلَّ صَاحِبُکمْ وَمَا غَوَیٰ ﴿۲﴾ وَمَا ینطِقُ عَنِ الْهَوَیٰ ﴿۳﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْی یوحَیٰ ﴿۴﴾ عَلَّمَهُ شَدِیدُ الْقُوَیٰ ﴿۵﴾سورہ نجم

اہل سنت مؤقف

اهل سنت علما اس واقعے کی توجیہ کے در پے ہوئے ہیں مثلا:

  • بعض اس واقعے کو متون اصلی میں مذکور ہونے کے باوجود اسے ضعیف اور معتبر سمجھتے ہیں ۔
  • بعض اس حدیث کا ایک اور معنا ذکر کرتے ہیں ۔ مثلا: «ہجر» کا مادہ چھوڑنے اور تک کرنے کے معنا میں ہے اور اس سے حضرت عمر کی مراد یہ تھی کہ پیغمبر ہمیں چھوڑ رہے ہیں یا حضرت عمر کی گفتگو استفہام انکاری ہے یعنی پیغمبر ہذیان نہیں کہتا ہے ؟
  • عمر کا قرآن کو کافی سمجھنا اسکی قوت فقہ اور دقت نظر کا بیان گر ہے ۔
  • بعض مآخذوں کے مطابق ایک شخص نہیں کئی افراد مراد ہیں ۔

پیامبر(ص) کا مقصود

  1. مفید، الارشاد، ج۱، ص۱۸۴؛ صحیح البخاری، ج۴، ص۶۶؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶
  2. صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
  3. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.
  4. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.
  5. ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج۲، ص۱۸۷
  6. صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶
  7. اربلي، كشف الغمة، ج۱، ص۴۰۲
  8. صحيح بخارى، كتاب الجهاد و السير، باب 175، ح 1
  9. صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح 6
  10. صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 5 . 13 و كتاب المرضى، باب 17، ح 1 . 15 و كتاب العلم، باب 39 (باب كتابة العلم)، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصية، باب 6، ح 8 . 14 .
  11. شرف الدین، المراجعات، صص۲۴۳-۲۴۲؛ ترجمه فارسی: مناظرات، ص۴۳۱-۴۳۲.
  12. صحیح البخاری، ج۱، ص۳۷.
  13. صحیح البخاری، ج۴، ص۳۱.
  14. صحیح البخاری، ج۴، ص۶۶.
  15. صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸.
  16. صحیح البخاری، ج۷، ص۹.
  17. صحیح مسلم، ج۵، ص۷۵.
  18. صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
  19. صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
  20. مسند الامام احمد بن حنبل، ج۲، ح۱۹۶۳، ص۴۵.
  21. البیهقی، السنن الکبری، ج۹، ص۲۰۷.
  22. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.
  23. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.
  24. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.
  25. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.
  26. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۳.
  27. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.
  28. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.
  29. ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۵.
  30. شیخ مفيد، الإرشاد، ج۱، ص۱۸۴
  31. شیخ مفید، اوائل المقالات، ص۴۰۶
  32. نعماني الغيبة، ص ۸۱-۸۲
  33. ابن شهرآشوب، المناقب، ج۱، ص۲۳۶
  34. جوہري، مقتضب الأثر، ص1
  35. صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
  36. شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۴؛ ترجمه فارسی: مناظرات، ص۴۳۵.