مندرجات کا رخ کریں

"علامہ حلی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 10: سطر 10:
| آبائی شہر    = [[حلہ]]
| آبائی شہر    = [[حلہ]]
| آبائی ملک  = [[عراق]]
| آبائی ملک  = [[عراق]]
| مسکن  = حلہ اور [[ایران]]
| مسکن  = حلہ، [[ایران]]
| تاریخ وفات    =[[21 محرم]] 726 ھ
| تاریخ وفات    =[[21 محرم]] 726 ھ
| مقام وفات = حلہ
| مقام وفات = حلہ
سطر 17: سطر 17:
|پیشرو          =
|پیشرو          =
|جانشین        =
|جانشین        =
| اساتذہ =[[سید بن طاووس]]، [[خواجہ نصیرالدین طوسی]]، [[ابن میثم بحرانی]]
| اساتذہ =[[سید بن طاووس]]، [[خواجہ نصیر الدین طوسی]]، [[ابن میثم بحرانی]]
| شاگرد         =قطب الدین رازی، [[فخرالمحققین ]]
| شاگرد         =قطب الدین رازی، [[فخر المحققین]]
| مادر علمی         =
| مادر علمی         =
| اجازہ روایت از =
| اجازہ روایت از =
سطر 31: سطر 31:
| رسمی ویب سائٹ =
| رسمی ویب سائٹ =
}}
}}
'''حسن بن یوسف بن مطہر حلّی''' (648۔726 ھ) '''علامہ حلّی''' کے نام سے مشہور، آٹھویں صدی ہجری کے [[شیعہ]] [[فقیہ]] اور [[کلام|متکلم]] ہیں۔ انہوں نے علم اصول فقہ، [[فقہ]]، تفسیر، منطق، [[کلام]] اور رجال میں 120 سے زیادہ کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے اکثر اس وقت بھی شیعہ [[حوزہ علمیہ|حوزات علمیہ]] میں تدریس اور تحقیق کا اصلی منبع شمار کی جاتی ہیں۔ [[فقہ]] شیعہ کی گسترش اور توسیع میں ان کا بڑا کردار رہا ہے۔ نیز انہوں نے شیعہ مذہب کے کلامی اور اعتقادی مبانی کو عقلی بنیادوں پر استوار کیا۔ ان کی کتاب [[باب حادی عشر]] اور [[خواجہ نصیر الدین طوسی]] کی [[تجرید الاعتقاد]] کی شرح میں لکھی جانے والی کتاب [[کشف المراد]] شیعہ اعتقادات کے اصلی متون میں شامل ہیں۔ نہج الحق و کشف الصدق، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، الجوہر النضید، [[تذکرۃ الفقہاء]]، قواعد الاحکام اور مختلف الشیعہ وغیرہ ان کی دیگر معروف تصانیف ہیں۔
'''حسن بن یوسف بن مطہر حلّی''' (648۔726 ھ) '''علامہ حلّی''' کے نام سے مشہور، آٹھویں صدی ہجری کے [[شیعہ]] [[فقیہ]] اور [[کلام|متکلم]] ہیں۔ انہوں نے علم اصول فقہ، [[فقہ]]، تفسیر، منطق، [[علم کلام]] اور رجال میں 120 سے زیادہ کتابیں تحریر کی ہیں جن میں سے اکثر اس وقت بھی شیعہ [[حوزہ علمیہ|حوزات علمیہ]] میں تدریس اور تحقیق کا اصلی منبع شمار کی جاتی ہیں۔ [[فقہ]] شیعہ کی گسترش اور توسیع میں ان کا بڑا کردار رہا ہے۔ نیز انہوں نے شیعہ مذہب کے کلامی اور اعتقادی مبانی کو عقلی بنیادوں پر استوار کیا۔ ان کی کتاب [[باب حادی عشر]] اور [[خواجہ نصیر الدین طوسی]] کی [[تجرید الاعتقاد]] کی شرح میں لکھی جانے والی کتاب [[کشف المراد]] شیعہ اعتقادات کے اصلی متون میں شامل ہیں۔ نہج الحق و کشف الصدق، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، الجوہر النضید، [[تذکرۃ الفقہاء]]، قواعد الاحکام اور مختلف الشیعہ وغیرہ ان کی دیگر معروف تصانیف ہیں۔


علامہ حلی پہلی شخصیت ہیں جنہیں [[آیت اللہ]] کا لقب دیا گیا۔ قطب الدین رازی، [[فخر المحققین]]، ابن معیہ اور محمد بن علی جرجانی ان کے مشہور شاگردوں میں سے ہیں۔ ایران اور سلطان محمد خدا بندہ کے دربار میں ان کی موجودگی اس ملک میں شیعہ مذہب کے رواج پیدا کرنے کا سبب بنا۔
علامہ حلی پہلی شخصیت ہیں جنہیں [[آیت اللہ]] کا لقب دیا گیا۔ قطب الدین رازی، [[فخر المحققین]]، ابن معیہ اور محمد بن علی جرجانی ان کے مشہور شاگردوں میں سے ہیں۔ ایران اور سلطان محمد خدا بندہ کے دربار میں ان کی موجودگی اس ملک میں شیعہ مذہب کے رواج پیدا کرنے کا سبب بنی۔


==زندگی اور حصول علم==
==زندگی اور حصول علم==
علامہ حلی جمعہ [[29 رمضان]] سنہ 648 ھ کو عراق کے شہر [[حلہ]] میں پیدا ہوئے۔<ref>حسن بن یوسف بن مطہر حلی، رجال العلامہ، ص ۴۸</ref> ان کے والد گرامی [[شیخ یوسف سدید الدین|یوسف بن مطہر]] [[:زمرہ:شیعہ متکلمین|متکلمین]] اور بلند پائے کے شقعہ فقہاء میں سے تھے۔<ref>اشمیتکہ، اندیشہ‌ہای کلامی علامہ حلی، ص ۲۴</ref> پیدائش کے چند سال بعد اپنے والد بزرگوار کی ہدایات پر [[قرآن]] کی تعلیم کیلئے مدرسہ میں داخلہ لیا اور اسی مدرسے میں انہوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کیں۔ اس کے بعد ادبیات عرب، علم [[فقہ]]، اصول فقہ، [[علم حدیث|حدیث]] اور [[علم کلام|کلام]] اپنے والد بزرگوار اور اپنے ماموں [[محقق حلی]] کے ہاں جبکہ علم منطق، فلسفہ اور ہیئت وغیرہ دوسرے اساتید بطور خاص [[خواجہ نصیر الدین طوسی]] سے کسب کئے اور سن [[بلوغ]] تک پہنچنے سے پہلے [[اجتہاد]] کے درجے پر فائز ہوئے۔ کمسنی میں تعلیم اور اعلی فضائل کے حامل ہونے کی وجہ سے آپ اپنے خاندان اور اہل علم کے درمیان جمال الدین کے نام سے مشہور تھے۔ <ref>جمعی از مؤلفان، گلشن ابرار، ج۱، ص ۱۳۸</ref>
علامہ حلی جمعہ [[29 رمضان]] سنہ 648 ھ میں عراق کے شہر [[حلہ]] میں پیدا ہوئے۔<ref> حسن بن یوسف بن مطہر حلی، رجال العلامہ، ص ۴۸</ref> ان کے والد [[شیخ یوسف سدید الدین|یوسف بن مطہر]] [[:زمرہ:شیعہ متکلمین|متکلمین]] اور بلند پائے کے شقعہ [[فقہاء]] میں سے تھے۔<ref> اشمیتکہ، اندیشہ‌ہای کلامی علامہ حلی، ص ۲۴</ref> پیدائش کے چند سال بعد اپنے والد کی ہدایات پر [[قرآن]] کی تعلیم کیلئے مدرسہ میں داخلہ لیا اور اسی مدرسے میں انہوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ اس کے بعد ادبیات عرب، علم [[فقہ]]، اصول فقہ، [[علم حدیث|حدیث]] اور [[علم کلام|کلام]] اپنے والد اور اپنے ماموں [[محقق حلی]] سے جبکہ علم منطق، فلسفہ اور ہیئت وغیرہ دوسرے اساتید بطور خاص [[خواجہ نصیر الدین طوسی]] سے کسب کئے اور سن [[بلوغ]] تک پہنچنے سے پہلے [[اجتہاد]] کے درجے پر فائز ہوئے۔ کمسنی میں تعلیم اور اعلی فضائل کے حامل ہونے کی وجہ سے آپ اپنے خاندان اور اہل علم کے درمیان جمال الدین کے نام سے مشہور تھے۔<ref> جمعی از مؤلفان، گلشن ابرار، ج۱، ص ۱۳۸</ref>


== علمی کمالات ==
== علمی کمالات ==
سنہ 676 ھ میں [[محقق حلی]] جو اپنے زمانے میں دنیائے تشیع کے [[مرجع تقلید]] تھے، کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں اور دیگر دانشوروں نے ایک ایسی شخصیت کی تلاش شروع کیا جو شیعیان جہاں کی مرجعیت اور زعامت کیلئے سب سے لائق اور مناسب ہو۔ اس حوالے سے علامہ حلی  کو اس مقام کیلئے سب سے زیادہ مناسب پایا یوں انہوں نے 28 سال کی عمر میں شیعہ مرجعیت کو قبول کیا۔
سنہ 676 ھ میں [[محقق حلی]] جو اپنے زمانے میں دنیائے تشیع کے [[مرجع تقلید]] تھے، کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں اور دیگر دانشوروں نے ایک ایسی شخصیت کی تلاش شروع کیا جو شیعیان جہاں کی مرجعیت اور زعامت کیلئے سب سے لائق اور مناسب ہو۔ اس حوالے سے علامہ حلی  کو اس مقام کیلئے سب سے زیادہ مناسب پایا یوں انہوں نے 28 سال کی عمر میں شیعہ مرجعیت کو قبول کیا۔


علامہ حلی پہلی شخصیت تھی جنہیں ان کی علمی مقام اور اخلاقی فضائل و کمالات کی بنا پر [[آیت اللہ]] کا لقب دیا گیا۔<ref>دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، مدخل «آیت اللہ».</ref> [[ابن‌ حجر عسقلانی‌]] (متوفی ۸۵۲ ق) نے انہیں "آیۃ فی‌ الذكاء" کا لقب دیا۔<ref>عسقلانی، ج۲، ص۳۱۷</ref> شرف الدین شولستانی، [[بہاء الدین عاملی|شیخ بہائی]] اور [[محمد باقر مجلسی|ملا محمد باقر مجلسی‌]] نے اپنے اپنے شاگردوں کو دیئے جانے والے [[اجازہ اجتہاد]] میں علامہ حلی کو آیت‌ اللہ‌ فی‌ العالمین‌ کے نام سے یاد کیا ہے۔<ref>مجلسی‌، بحار الانوار، ج۱، ص۲۰۴-۱۰۷/۸۱.</ref>
علامہ حلی پہلی شخصیت تھی جنہیں ان کی علمی مقام اور اخلاقی فضائل و کمالات کی بنا پر [[آیت اللہ]] کا لقب دیا گیا۔<ref> دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، مدخل «آیت اللہ».</ref> [[ابن‌ حجر عسقلانی‌]] (متوفی 852 ھ) نے انہیں "آیۃ فی‌ الذكاء" کا لقب دیا۔<ref> عسقلانی، ج۲، ص۳۱۷</ref> شرف الدین شولستانی، [[بہاء الدین عاملی|شیخ بہائی]] اور [[محمد باقر مجلسی|ملا محمد باقر مجلسی‌]] نے اپنے اپنے شاگردوں کو دیئے جانے والے [[اجازہ اجتہاد]] میں علامہ حلی کو آیت‌ اللہ‌ فی‌ العالمین‌ کے نام سے یاد کیا ہے۔<ref> مجلسی‌، بحار الانوار، ج۱، ص۲۰۴-۱۰۷/۸۱.</ref>


== ایران میں آمد ==
== ایران میں آمد ==
علامہ حلی ایران کب تشریف لائے اس کی کوئی دقیق تاریخ مشخص نہیں۔ لیکن یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ سنہ 705 ہجری قمری میں انہوں نے سلسلہ ایلخانیان کے بادشاہ سلطان محمد خدا بندہ کی دعوت پر ایران کا سفر کیا۔ تاج الدین آوی نے بادشاہ کے دربار میں علامہ حلی کی رسائی کیلئے زمینہ ہموار کیا۔ <ref>مستدرک الوسائل، ج ۲، ص۴۰۶</ref> علامہ حلی کی ایران میں داخلے کے بعد ایک دن کسی مجلس میں [[اہل سنت]] کے مذاہب اربعہ کے مختلف علماء منجملہ خواجہ نظام الدین عبدالملک مراغہ‌ای کے ساتھ مناظرہ کیا۔ ان مناظرے میں علامہ حلی نے [[امام علی(ع)]] کی [[ولایت]] و [[امامت]] اور مذہب [[شیعہ]] کی حقانیت کو پادشاہ کے سامنے ثابت کیا۔ یہ واقعہ پادشاہ کے مذہب شیعہ اختیار کرنے کا باعث بنا اور انہوں نے اپنا نام "الجایتو" سے سلطان [[محمد خدا بندہ]] میں تبدیل کیا اور [[شیعہ]] مذہب کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا۔<ref>خوانساری، روضات الجنات، ج۲، ص ۲۷۹ و ۲۸۰</ref> مختلف تاریخی منابع میں سلطان محمد خدا بندہ کی مذہب شیعہ اختیار کرنے میں علامہ حلی کے کردار کی طرف اشارہ ہوا ہے۔<ref>ابن بطوطہ، سفرنامہ، ج۲، ص ۵۷ و امین، اعیان الشیعہ، ج۲۴، ص ۲۳۱ بہ بعد</ref>
علامہ حلی ایران کب تشریف لائے اس کی کوئی دقیق تاریخ مشخص نہیں۔ لیکن یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ سنہ 705 ہجری میں انہوں نے سلسلہ ایلخانیان کے بادشاہ سلطان محمد خدا بندہ کی دعوت پر ایران کا سفر کیا۔ تاج الدین آوی نے بادشاہ کے دربار میں علامہ حلی کی رسائی کیلئے زمینہ ہموار کیا۔<ref> مستدرک الوسائل، ج ۲، ص۴۰۶</ref> علامہ حلی کی ایران میں داخلے کے بعد ایک دن کسی مجلس میں [[اہل سنت]] کے مذاہب اربعہ کے مختلف علماء منجملہ خواجہ نظام الدین عبد الملک مراغہ‌ای کے ساتھ مناظرہ کیا۔ ان مناظرے میں علامہ حلی نے [[امام علی(ع)]] کی [[ولایت]] و [[امامت]] اور مذہب [[شیعہ]] کی حقانیت کو پادشاہ کے سامنے ثابت کیا۔ یہ واقعہ پادشاہ کے مذہب شیعہ اختیار کرنے کا باعث بنا اور انہوں نے اپنا نام "الجایتو" سے سلطان [[محمد خدا بندہ]] میں تبدیل کیا اور [[شیعہ]] مذہب کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا۔<ref> خوانساری، روضات الجنات، ج۲، ص ۲۷۹ و ۲۸۰</ref> مختلف تاریخی منابع میں سلطان محمد خدا بندہ کی مذہب شیعہ اختیار کرنے میں علامہ حلی کے کردار کی طرف اشارہ ہوا ہے۔<ref> ابن بطوطہ، سفرنامہ، ج۲، ص ۵۷ و امین، اعیان الشیعہ، ج۲۴، ص ۲۳۱ بہ بعد</ref>


===علامہ حلی کا مشہور مناظرہ===
===علامہ حلی کا مشہور مناظرہ===
میرزا محمد علی مدرس تبریزی اپنی کتاب [[ریحانۃ الادب]] میں [[علامہ مجلسی]] سے کتاب [[من لایحضرہ الفقیہ]] کی شرح میں لکھتے ہیں: ایک دن [[سلطان محمد خدا بندہ]] نے ایک مجلسی منعقد کیا اور [[اہل سنت]] کے بڑے بڑے علماء کو مدعو کیا نیز علامہ حلی کو بھی اس مجلس میں دعوت دی گئی۔ علامہ حلی نے مجلس میں داخل ہوتے وقت جوتے اپنی بغل میں رکھ کر پادشاہ کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ درباریوں نے علامہ سے پوچھا کہ کیوں آپ نے پادشاہ کو [[سجدہ]] اور احترام نہیں کیا؟ اس موقع پر علامہ نے جواب دیا: [[پیغمبر اکرم(ص)]] تمام پادشاہوں کے پادشاہ تھے اور انہیں سب سلام کرتے تھے اور قرآن میں بھی آیا ہے کہ "<font color=green>{{حدیث|فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّة مِّنْ عِندِ اللَّه مُبَارَكَة طَيِّبَة|ترجمہ= جب بھی کسی گھر میں داخل ہو جاؤ تو ایک دوسرے کو سلام کیا کرو! یہ سلام خدا کے نزدیک مبارک اور پسندیدہ ہے}}"</font> <ref> سورہنور/آیت نمبر61۔</ref> اس کے علاوہ ہمارے اور تمہارے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سجدہ صرف [[خدا]] کے ساتھ مختص ہے۔
میرزا محمد علی مدرس تبریزی اپنی کتاب [[ریحانۃ الادب]] میں [[علامہ مجلسی]] سے کتاب [[من لا یحضرہ الفقیہ]] کی شرح میں لکھتے ہیں: ایک دن [[سلطان محمد خدا بندہ]] نے ایک مجلس منعقد کی اور [[اہل سنت]] کے بڑے بڑے علماء کو مدعو کیا نیز علامہ حلی کو بھی اس مجلس میں دعوت دی گئی۔ علامہ حلی نے مجلس میں داخل ہوتے وقت جوتے اپنی بغل میں رکھ کر پادشاہ کے قریب جا کر بیٹھ گئے۔ درباریوں نے علامہ سے پوچھا کہ کیوں آپ نے پادشاہ کو [[سجدہ]] اور احترام نہیں کیا؟ اس موقع پر علامہ نے جواب دیا: [[پیغمبر اکرم(ص)]] تمام پادشاہوں کے پادشاہ تھے اور انہیں سب سلام کرتے تھے اور قرآن میں بھی آیا ہے کہ "<font color=green>{{حدیث|فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّة مِّنْ عِندِ اللَّه مُبَارَكَة طَيِّبَة|ترجمہ= جب بھی کسی گھر میں داخل ہو جاؤ تو ایک دوسرے کو سلام کیا کرو! یہ سلام خدا کے نزدیک مبارک اور پسندیدہ ہے}}"</font> <ref> سورہنور/آیت نمبر61۔</ref> اس کے علاوہ ہمارے اور تمہارے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سجدہ صرف [[خدا]] کے ساتھ مختص ہے۔


انہوں نے کہا پس کیوں تم پادشاہ کے قریب جا کر بیٹھ گئے ہو؟ علامہ نے جواب دیا: کیونکہ اس کے علاوہ کوئی جگہ خالی نہیں تھی اور حدیث میں آیا ہے کہ جب تم کسی مجلس میں جاؤ تو جہاں کہیں جگہ خالی ہو وہیں بیٹھ جاؤ۔ پوچھا گیا: ان جوتوں کی کیا حیثیت تھی کہ تم اسے پادشاہ کے دربار میں لے آئے ہو؟ علامہ نے جواب دیا: مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ مذہب حنفی والے میرے جوتے چوری نہ کر لیں جس طرح ان کے پیشواؤں نے پیغمبر اکرم(ص) کی جوتیاں چوری کی تھیں۔ یہ سنا تھا کہ مذہب حنفی کے ماننے والوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ [[ابو حنیفہ]] تو پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں موجود نہیں نہیں تھا۔ علامہ نے کہا معاف کیجئے گا مجھ سے غلطی ہوگئی وہ شخص شافعی تھا، اس طرح یہ گفتگو اور اعتراض شافعی، مالکی اور جنبلیوں کے ساتھ تکرار ہوا۔ اس موقع پر علامہ حلی نے پادشاہ کی طرف رخ کر کے کہا: اب حقیقت روشن ہو گئی کہ مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کا پیشوا پیغمبر اکرم(ص) کے زمانے میں موجود نہیں تھا اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نظریات ان کی اپنی اختراع ہے اس کا وحی اور پیغمبر اکرم(ص) کے تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن مذہب [[شیعہ]] جو [[امام علی|امیرالمؤمنین]] حضرت علی(ع) کے پیروکار ہیں جو پیغمبر اکرم(ص) کے وصی، جانشین اور نفس پیغمبر ہیں۔ علامہ نے اس مناظرہ کے آخر میں ایک نہایت فصیح اور بلیغ [[خطبہ]] بھی دیا جس سننے کے بعد پادشاہ نے مذہب شیعہ اختیار کیا۔<ref>مدرس، ریحانۃ الادب، ج ۳ و ۴، ص۱۶۹.</ref>
انہوں نے کہا پس کیوں تم پادشاہ کے قریب جا کر بیٹھ گئے ہو؟ علامہ نے جواب دیا: کیونکہ اس کے علاوہ کوئی جگہ خالی نہیں تھی اور حدیث میں آیا ہے کہ جب تم کسی مجلس میں جاؤ تو جہاں کہیں جگہ خالی ہو وہیں بیٹھ جاؤ۔ پوچھا گیا: ان جوتوں کی کیا حیثیت تھی کہ تم اسے پادشاہ کے دربار میں لے آئے ہو؟ علامہ نے جواب دیا: مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ مذہب حنفی والے میرے جوتے چوری نہ کر لیں جس طرح ان کے پیشواؤں نے پیغمبر اکرم (ص) کی جوتیاں چوری کی تھیں۔ یہ سننا تھا کہ مذہب حنفی کے ماننے والوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ [[ابو حنیفہ]] تو پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں موجود نہیں نہیں تھے۔ علامہ نے کہا معاف کیجئے گا مجھ سے غلطی ہوگئی وہ شخص شافعی تھا، اس طرح یہ گفتگو اور اعتراض شافعی، مالکی اور جنبلیوں کے ساتھ تکرار ہوا۔ اس موقع پر علامہ حلی نے پادشاہ کی طرف رخ کرکے کہا: اب حقیقت روشن ہو گئی کہ مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک مذہب کا پیشوا پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں موجود نہیں تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نظریات ان کی اپنی اختراع ہیں، اس کا وحی اور پیغمبر اکرم (ص) کی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ لیکن مذہب [[شیعہ]] جو [[امام علی|امیرالمؤمنین]] حضرت علی (ع) کے پیروکار ہیں جو پیغمبر اکرم (ص) کے وصی، جانشین اور نفس پیغمبر ہیں۔ علامہ نے اس مناظرہ کے آخر میں ایک نہایت فصیح اور بلیغ [[خطبہ]] بھی دیا جسے سننے کے بعد پادشاہ نے مذہب شیعہ اختیار کیا۔<ref> مدرس، ریحانۃ الادب، ج ۳ و ۴، ص۱۶۹.</ref>


علامہ سلطان محمد خدابندہ کی وفات تک ایران ‌میں مقیم رہے اور مذہب حقہ کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ ایران میں اقامت کے دوران علامہ حلی پادشاہ کے تمام مسافرتوں میں ہمراہ رہے اور ان کی ہی تجویز پر پادشاہ نے ایک سیار مدرسہ بھی تاسیس ہوا یوں علامہ جہاں بھی جاتے خیمہ نصب کئے جاتے یوں علامہ درس و تدریس میں مشغول ہو جاتے تھے۔<ref>خواندمیر، تاریخ حبیب السیر، ج۳، ص ۱۹۷ و شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص ۳۶۰</ref>
علامہ سلطان محمد خدا بندہ کی وفات تک ایران ‌میں مقیم رہے اور مذہب حقہ کی نشر و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ ایران میں اقامت کے دوران علامہ حلی پادشاہ کے تمام مسافرتوں میں ہمراہ رہے اور ان کی ہی تجویز پر پادشاہ نے ایک سیار مدرسہ بھی تاسیس کیا یوں علامہ جہاں بھی جاتے خیمہ نصب کئے جاتے یوں علامہ درس و تدریس میں مشغول ہو جاتے تھے۔<ref> خواندمیر، تاریخ حبیب السیر، ج۳، ص ۱۹۷ و شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص ۳۶۰</ref>


==اساتذہ==
==اساتذہ==
گمنام صارف