مندرجات کا رخ کریں

"ابو بکر بن ابی قحافہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 237: سطر 237:


===آخری عمر میں اظہار پشیمانی===
===آخری عمر میں اظہار پشیمانی===
بیماری کے بسترے میں ابوبکر سے وصیت کے عنوان سے کچھ باتیں نقل ہو‎ئی ہیں جن میں کچھ باتیں [[عمر]] کی جانشینی اور اس پر کئے جانے والے اعتراضات کے بارے میں ہیں اور بعض باتیں اس کی شخصی زندگی، بیت المال کا حساب کتاب اور اسکے ترکہ کے بارے میں ہیں۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۹۲-۲۰۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۸-۴۳۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱-۱۹۴</ref> ان باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات بھی الفاظ اور معانی میں مختصر اختلاف کے ساتھ منابع میں ذکر ہو‎ئی ہیں جو اس کی آخری عمر میں اندرونی شخصیت کی پہچان اور تاریخ اسلام کے بعض حادثات کی حقیقت کے بارے میں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ باتیں اس نے عبدالرحمن کی باتوں کے جواب میں کہا تھا۔ عبد الرحمن نے کہا: «۔۔۔۔ آپ ہمیشہ مصلح اور صالح تھے اور دنیا کی کسی بات پر مغموم نہ ہوجا‎ئیے» تو ابوبکر نے جواب میں کہا:« جی ہاں، تین کاموں کے علاوہ دنیا کی کسی چیز کی وجہ سے مجھے افسوس نہیں، کاش وہ تین کام انجام نہ دیا ہوتا اور تین کام انجام نہیں دیا کاش انکو انجام دیا ہوتا! اور ان تین کاموں کے بارے میں افسوس ہے جنکا جواب پیغمبر اکرم سے پوچھا تھا۔ جن کاموں کو نہیں کرنا چاہتا تھا اور انجام پایا ان میں سے ایک، [[فاطمہ]] کے گھر کا دروازہ اگرچہ میرے ساتھ جنگ کی قصد سے ہی بند کیا ہو، کاش اسے نہ کھولتا، دوسرا یہ کہ کاش فجا‌‎ئہ سلمی کو جلانے کے بجا‎ئے قتل کرتا یا اسے آزاد کرتا اور تیسرا کام [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں خلافت کو ان دونوں عمر اور [[ابو عبیدہ جراح|ابو عبیدہ]] کی گردن میں ڈال دیتا اور ان میں سے ایک امیر ہوتا اور میں اسکا وزیر بنتا؛۔۔۔<ref> لیکن وہ تین کام جن کو کرنا چاہیے تھا اور نہیں کیا ان میں سے ایک یہ تھا کہ جب [[اشعث بن قیس]] کو گرفتار کر کے میرے پاس لایا گیا اس وقت کاش اس کی گردن اڑا دیتا چونکہ میرے خیال سے جہاں پر بھی کو‎ئی شرارت ہوتی وہ وہاں پر مددگار تھا۔ دوسرا یہ کہ جب [[خالد بن ولید]] کو مرتدوں کے خلاف جنگ کے لیے بھیجا تو کاش میں خود ذو القصہ میں ٹھہرتا اور جنگ کیلیے تیار اور مدد کرنے کیلیے آمادہ رہتا۔ تیسرا کام یہ تھا کہ جب خالد کو شام بھیجا تھا تو اس وقت عمر کو بھی عراق بھیجتا تاکہ اسطرح سے اپنے دونوں بازووں کو اللہ کی راہ میں پھیلا چکا ہوتا» پھر اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور کہا: «</ref>کاش پیغمبر خدا سے پوچھا ہوتا کہ خلافت کس کا حق ہے تاکہ ہر کو‎ئی اس کے حصول میں جنگ کے لیے تیار نہ ہوسکے، کاش پوچھا ہوتا ہے بھتیجی اور پھوپھی کو ارث ملتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس بارے میں مطمئن نہیں ہوں »۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۹-۴۳۱؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۳۷؛ الامامہ، ج۱، ص۱۸-۱۹؛ مسعودی، مروج، ج۲، ص۳۰۸-۳۰۹؛ مبرد، ج۱، ص۱۱؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۸- ۲۶۹؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۶-۴۷</ref>
بستر بیماری پر ابوبکر سے وصیت کے عنوان سے کچھ باتیں نقل ہو‎ئی ہیں جن میں کچھ باتیں [[عمر]] کی جانشینی اور اس پر کئے جانے والے اعتراضات کے بارے میں ہیں اور بعض باتیں اس کی شخصی زندگی، بیت المال کا حساب کتاب اور اسکے ترکہ کے بارے میں ہیں۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۹۲-۲۰۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۸-۴۳۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱-۱۹۴</ref> ان باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات بھی الفاظ اور معانی میں مختصر اختلاف کے ساتھ منابع میں ذکر ہو‎ئی ہیں جو اس کی آخری عمر میں اندرونی شخصیت کی پہچان اور تاریخ اسلام کے بعض حادثات کی حقیقت کے بارے میں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ باتیں اس نے عبدالرحمن کی باتوں کے جواب میں کہا تھا۔ عبد الرحمن نے کہا: «۔۔۔۔ آپ ہمیشہ مصلح اور صالح تھے اور دنیا کی کسی بات پر مغموم نہ ہوجا‎ئیے» تو ابوبکر نے جواب میں کہا:« جی ہاں، تین کاموں کے علاوہ دنیا کی کسی چیز کی وجہ سے مجھے افسوس نہیں، کاش وہ تین کام انجام نہ دیا ہوتا اور تین کام انجام نہیں دیا کاش انکو انجام دیا ہوتا! اور ان تین کاموں کے بارے میں افسوس ہے جنکا جواب پیغمبر اکرم سے پوچھا تھا۔ جن کاموں کو نہیں کرنا چاہتا تھا اور انجام پایا ان میں سے ایک، [[فاطمہ]] کے گھر کا دروازہ اگرچہ میرے ساتھ جنگ کی قصد سے ہی بند کیا ہو، کاش اسے نہ کھولتا، دوسرا یہ کہ کاش فجا‌‎ئہ سلمی کو جلانے کے بجا‎ئے قتل کرتا یا اسے آزاد کرتا اور تیسرا کام [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں خلافت کو ان دونوں عمر اور [[ابو عبیدہ جراح|ابو عبیدہ]] کی گردن میں ڈال دیتا اور ان میں سے ایک امیر ہوتا اور میں اسکا وزیر بنتا؛۔۔۔<ref> لیکن وہ تین کام جن کو کرنا چاہیے تھا اور نہیں کیا ان میں سے ایک یہ تھا کہ جب [[اشعث بن قیس]] کو گرفتار کر کے میرے پاس لایا گیا اس وقت کاش اس کی گردن اڑا دیتا چونکہ میرے خیال سے جہاں پر بھی کو‎ئی شرارت ہوتی وہ وہاں پر مددگار تھا۔ دوسرا یہ کہ جب [[خالد بن ولید]] کو مرتدوں کے خلاف جنگ کے لیے بھیجا تو کاش میں خود ذو القصہ میں ٹھہرتا اور جنگ کیلیے تیار اور مدد کرنے کیلیے آمادہ رہتا۔ تیسرا کام یہ تھا کہ جب خالد کو شام بھیجا تھا تو اس وقت عمر کو بھی عراق بھیجتا تاکہ اسطرح سے اپنے دونوں بازووں کو اللہ کی راہ میں پھیلا چکا ہوتا» پھر اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور کہا: «</ref>کاش پیغمبر خدا سے پوچھا ہوتا کہ خلافت کس کا حق ہے تاکہ ہر کو‎ئی اس کے حصول میں جنگ کے لیے تیار نہ ہوسکے، کاش پوچھا ہوتا ہے بھتیجی اور پھوپھی کو ارث ملتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس بارے میں مطمئن نہیں ہوں »۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۹-۴۳۱؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۳۷؛ الامامہ، ج۱، ص۱۸-۱۹؛ مسعودی، مروج، ج۲، ص۳۰۸-۳۰۹؛ مبرد، ج۱، ص۱۱؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۸- ۲۶۹؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۶-۴۷</ref>


==ابوبکر بزبان ابوبکر==
==ابوبکر بزبان ابوبکر==
confirmed، templateeditor
8,972

ترامیم