مندرجات کا رخ کریں

"ابو بکر بن ابی قحافہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 48: سطر 48:
|belowstyle = background:#ddf;
|belowstyle = background:#ddf;
|below =}}
|below =}}
'''اَبوبَکْر ابن ابی قُحافہ''' (متوفی سنہ ۱۳ ہجری قمری) ، [[اصحاب]] پیغمبر  میں سے تھا. [[رسول خدا]] صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد بعض دیگر اصحاب کے ساتھ [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں جمع ہوگئے اور رسول خدا کی [[علی(ع)]] کی خلافت کے بارے میں وصیت ہونے کے باوجود مسلمانوں کے لیے خلیفہ انتخاب کرنے لگے۔ سقیفہ بنی سعدہ میں موجود افراد نے آخرکار رسول خدا (صلی اللہ علیہ او آلہ وسلم) کے [[خلافت|خلیفہ]] کے عنوان سے ابوبکر کی [[بیعت]] کی۔ وہ [[اہل سنت]] کی نظر میں [[خلفائے راشدین]] میں سے پہلا خلیفہ ہے۔ آپ ظہور اسلام کے ابتدا‎ئی سالوں میں، مکہ میں، مسلمان ہو‎ئے۔ اور اسلامی مؤرخین کے مشہور نظریے کے مطابق [[پیغمبر اکرم]] کی [[مدینہ]] کی طرف [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] کے دوران آنحضرت کے ساتھ ہمسفر تھا اور آپ کے ساتھ [[غار ثور]] میں مخفی تھے۔ انکی مختصر حکومت کے دوران تاریخ اسلامی کے متنازعہ حادثات رونما ہو‎ئے جن میں سے [[حضرت زہرا(س)]] سے [[فدک]] کا چھیننا [[حروب الردہ|ردّہ کی جنگیں]] اور [[فتوحات]] کا آغاز ہیں۔
'''اَبوبَکْر ابن ابی قُحافہ''' (متوفی سنہ ۱۳ ہجری قمری) ، [[اصحاب]] پیغمبر  میں سے تھا۔ [[رسول خدا]] صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد بعض دیگر اصحاب کے ساتھ [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں جمع ہوگئے اور رسول خدا کی [[علی(ع)]] کی خلافت کے بارے میں وصیت ہونے کے باوجود مسلمانوں کے لیے خلیفہ انتخاب کرنے لگے۔ سقیفہ بنی سعدہ میں موجود افراد نے آخرکار رسول خدا (صلی اللہ علیہ او آلہ وسلم) کے [[خلافت|خلیفہ]] کے عنوان سے ابوبکر کی [[بیعت]] کی۔ وہ [[اہل سنت]] کی نظر میں [[خلفائے راشدین]] میں سے پہلا خلیفہ ہے۔ آپ ظہور اسلام کے ابتدا‎ئی سالوں میں، مکہ میں، مسلمان ہو‎ئے۔ اور اسلامی مؤرخین کے مشہور نظریے کے مطابق [[پیغمبر اکرم]] کی [[مدینہ]] کی طرف [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] کے دوران آنحضرت کے ساتھ ہمسفر تھا اور آپ کے ساتھ [[غار ثور]] میں مخفی تھے۔ انکی مختصر حکومت کے دوران تاریخ اسلامی کے متنازعہ حادثات رونما ہو‎ئے جن میں سے [[حضرت زہرا(س)]] سے [[فدک]] کا چھیننا [[حروب الردہ|ردّہ کی جنگیں]] اور [[فتوحات]] کا آغاز ہیں۔


== ولادت، نسب، کنیہ اور القاب ==
== ولادت، نسب، کنیہ اور القاب ==
بعض روایات <ref>ابن اثیر، اسدالغابہ، ۳، ص۲۲۳؛ حارثی، ۹</ref> اور قرا‌‎ئن و شواہد (مدت عمر اور تاریخ وفات) کے مطابق ابوبکر [[عام الفیل]] کے چند ماہ بعد (احتمالا ہجرت سے 50 سال پہلے [[مکہ]] میں متولد ہو‎ا۔
بعض روایات <ref>ابن اثیر، اسدالغابہ، ۳، ص۲۲۳؛ حارثی، ۹</ref> اور قرا‌‎ئن و شواہد (مدت عمر اور تاریخ وفات) کے مطابق ابوبکر [[عام الفیل]] کے چند ماہ بعد (احتمالا ہجرت سے 50 سال پہلے [[مکہ]] میں متولد ہو‎ا۔
[[جاہلیت]] کے دور میں انکا نام عبد الکعبہ تھا اور [[اسلام]] لانے کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ نام دیا<ref>ابن قتیبہ، ۱۶۷؛ نیز نک: سقا، ج۱، ص۲۶۶</ref>انکا باپ ابوقحافہ عثمان(متوفی [[۱۴ہجری قمری|۱۴ہ ق]]) اور انکی ماں امّ الخیر سَلْمی، بنت صخر بن عمرو بن کعب، دونوں بنی تیم سے تھے اور پانچویں پشت میں مرہ بن کعب پر [[پیغمبر اکرم(ص)]] کے شجرہ نسب سے ملتے ہیں.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۶۹؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۷-۱۶۸</ref>بعض اہل سنت کی روایات میں انکا نام عتیق ذکر ہوا ہے۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۰، ابن سیرین سے نقل کیا ہے؛ ابن اثیر، أسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۵</ref> لیکن ظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ عتیق انکا لقب تھا
[[جاہلیت]] کے دور میں انکا نام عبد الکعبہ تھا اور [[اسلام]] لانے کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ نام دیا<ref>ابن قتیبہ، ۱۶۷؛ نیز نک: سقا، ج۱، ص۲۶۶</ref>انکا باپ ابوقحافہ عثمان(متوفی [[۱۴ہجری قمری|۱۴ہ ق]]) اور انکی ماں امّ الخیر سَلْمی، بنت صخر بن عمرو بن کعب، دونوں بنی تیم سے تھے اور پانچویں پشت میں مرہ بن کعب پر [[پیغمبر اکرم(ص)]] کے شجرہ نسب سے ملتے ہیں۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۶۹؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۷-۱۶۸</ref>بعض اہل سنت کی روایات میں انکا نام عتیق ذکر ہوا ہے۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۰، ابن سیرین سے نقل کیا ہے؛ ابن اثیر، أسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۵</ref> لیکن ظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ عتیق انکا لقب تھا
انکی کنیت ابوبکر تھی۔ لیکن انکا بکر نامی کو‎ئی بیٹا بھی تھا یہ نہیں اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور جتنی بھی کتابوں میں ابوبکر کے بیٹوں کا ذکر ہوا ہے «بکر» نام کے کسی بیٹے کا تذکرہ نہیں ہوا ہے۔<ref>نک: طبری، تاریخ، ۳، ص۲۴۶؛ ابن کثیر، ۶، ص۳۱۳</ref>لیکن انکے مخالفین، جیسے [[ابوسفیان]] نے ابوبکر (بکر=جوان اونٹ) کی توہین کرتے ہو‎ئے ابوفصیل (فصیل=اونٹ کا وہ بچہ جس سے ابھی ماں کا دودھ روک دیا گیا ہو) میں بدل دیا ہے۔<ref>بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۹؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۵۳، ۲۵۵؛ مفید، الارشاد، ص۱۰۲</ref>.
انکی کنیت ابوبکر تھی۔ لیکن انکا بکر نامی کو‎ئی بیٹا بھی تھا یہ نہیں اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اور جتنی بھی کتابوں میں ابوبکر کے بیٹوں کا ذکر ہوا ہے «بکر» نام کے کسی بیٹے کا تذکرہ نہیں ہوا ہے۔<ref>نک: طبری، تاریخ، ۳، ص۲۴۶؛ ابن کثیر، ۶، ص۳۱۳</ref>لیکن انکے مخالفین، جیسے [[ابوسفیان]] نے ابوبکر (بکر=جوان اونٹ) کی توہین کرتے ہو‎ئے ابوفصیل (فصیل=اونٹ کا وہ بچہ جس سے ابھی ماں کا دودھ روک دیا گیا ہو) میں بدل دیا ہے۔<ref>بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۹؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۵۳، ۲۵۵؛ مفید، الارشاد، ص۱۰۲</ref>۔
ابوبکر چند القاب ہیں:
ابوبکر چند القاب ہیں:


۱- عتیق؛ اہل سنت کی اکثر کتابوں میں عتیق کو انکے القاب میں سے شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ پیغمبر اکرم نے انکے چہرے کی خوبصورتی کی وجہ سے عتیق کا لقب دیا ہے۔<ref>ابن قتیبہ، ص۱۶۷؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۷</ref>.[[عایشہ]]، سے ایک روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے انکو «عتیق اللہ من النار» سے پکارا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۰؛ قسک ابن قتیبہ، ص۱۶۷</ref>اس کے علاوہ کچھ دیگر دلایل بھی عتیق کہنے کے بارے میں نقل ہو‎ئی ہیں<ref>مثلا نک: ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۵؛ نویری، ج۱۹، ص۸-۹؛ سیوطی، تاریخ، ص۲۸-۲۹</ref>.
۱- عتیق؛ اہل سنت کی اکثر کتابوں میں عتیق کو انکے القاب میں سے شمار کیا ہے اور لکھا ہے کہ پیغمبر اکرم نے انکے چہرے کی خوبصورتی کی وجہ سے عتیق کا لقب دیا ہے۔<ref>ابن قتیبہ، ص۱۶۷؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۷</ref>۔[[عایشہ]]، سے ایک روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے انکو «عتیق اللہ من النار» سے پکارا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۰؛ قسک ابن قتیبہ، ص۱۶۷</ref>اس کے علاوہ کچھ دیگر دلایل بھی عتیق کہنے کے بارے میں نقل ہو‎ئی ہیں<ref>مثلا نک: ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۵؛ نویری، ج۱۹، ص۸-۹؛ سیوطی، تاریخ، ص۲۸-۲۹</ref>۔


۲- اہل سنت کے درمیان انکا دوسرا مشہور لقب، [[صدیق|صدّیق]] ہے جو اہل سنت کے منابع کے مطابق [[اسراء]] (معراج) کی خبر کو بغیر کسی چون و چرا کے ماننے کی وجہ سے انہیں دیا گیا ہے۔ <ref>ابن قتیبہ، ص۱۶۷؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۰۶</ref> ایک اور روایت میں [[ابوہریرہ]] سے یہ بات نقل ہو‎ئی ہے کہ  معراج کی رات [[جبرئیل]] نے انہیں صدیق سے پکارا ہے۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۰</ref> بعض نے کہا ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت سے ہی اس لقب سے مشہور تھا اور عتیق کا لقب بھی اسی سے لیا گیا ہے۔<ref>دروزہ، ص۲۶</ref>.
۲- اہل سنت کے درمیان انکا دوسرا مشہور لقب، [[صدیق|صدّیق]] ہے جو اہل سنت کے منابع کے مطابق [[اسراء]] (معراج) کی خبر کو بغیر کسی چون و چرا کے ماننے کی وجہ سے انہیں دیا گیا ہے۔ <ref>ابن قتیبہ، ص۱۶۷؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۰۶</ref> ایک اور روایت میں [[ابوہریرہ]] سے یہ بات نقل ہو‎ئی ہے کہ  معراج کی رات [[جبرئیل]] نے انہیں صدیق سے پکارا ہے۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۰</ref> بعض نے کہا ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت سے ہی اس لقب سے مشہور تھا اور عتیق کا لقب بھی اسی سے لیا گیا ہے۔<ref>دروزہ، ص۲۶</ref>۔


۳- «اَوّاہ» کا لقب مہربانی اور مونس ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے <ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۰۵</ref>
۳- «اَوّاہ» کا لقب مہربانی اور مونس ہونے کی وجہ سے دیا گیا ہے <ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۰۵</ref>


۴- «صاحب رسول اللہ» کا لقب پیغمبر اکرم کے ساتھ ہمراہی کی وجہ سے دیا گیا ہے <ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۰۵</ref>
۴- «صاحب رسول اللہ» کا لقب پیغمبر اکرم کے ساتھ ہمراہی کی وجہ سے دیا گیا ہے <ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۰۵</ref>
[[شیعہ]] علما صدیق لقب ابوبکر کا ہونے میں نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اہل سنت کے منابع <ref>بلاذری، انساب ج۲، ص۱۴۶؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۹؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۰؛ ابن ماجہ، ج۱، ص۴۴؛ نسائی، ۲۱-۲۲؛ جوینی، ج۱، ص۱۴۰، ۲۴۸؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۲۸؛ ابن کثیر، ج۳، ص۲۶؛ سیوطی، الجامع، ج۲، ص۵۰</ref>سے مستند کرتے ہو‎ئے یہ لقب اور اسی طرح [[فاروق]]  کے لقب کو امام [[علی(ع)]]  علیہ السلام کے القابات میں سے سمجھتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر یہ لقب ابوبکر کے لیے ہوتا تو اسلام کے ابتدا‎ئی دنوں میں ابوبکر سے منسوب ہونا چاہئے تھا؛ کیونکہ [[علی(ع)]]  علیہ السلام نے اپنی [[خلافت]] کے دوران [[بصرہ]] میں منبر سے ان القابات کو اپنے لیے قرار دیا ہے۔<ref>عاملی، ج۲، ص۲۶۳-۲۷۰؛ امینی، ج۲، ص۳۱۲-۳۱۴</ref>.
[[شیعہ]] علما صدیق لقب ابوبکر کا ہونے میں نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اہل سنت کے منابع <ref>بلاذری، انساب ج۲، ص۱۴۶؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۹؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۰؛ ابن ماجہ، ج۱، ص۴۴؛ نسائی، ۲۱-۲۲؛ جوینی، ج۱، ص۱۴۰، ۲۴۸؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۲۸؛ ابن کثیر، ج۳، ص۲۶؛ سیوطی، الجامع، ج۲، ص۵۰</ref>سے مستند کرتے ہو‎ئے یہ لقب اور اسی طرح [[فاروق]]  کے لقب کو امام [[علی(ع)]]  علیہ السلام کے القابات میں سے سمجھتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر یہ لقب ابوبکر کے لیے ہوتا تو اسلام کے ابتدا‎ئی دنوں میں ابوبکر سے منسوب ہونا چاہئے تھا؛ کیونکہ [[علی(ع)]]  علیہ السلام نے اپنی [[خلافت]] کے دوران [[بصرہ]] میں منبر سے ان القابات کو اپنے لیے قرار دیا ہے۔<ref>عاملی، ج۲، ص۲۶۳-۲۷۰؛ امینی، ج۲، ص۳۱۲-۳۱۴</ref>۔


== بیویاں اور بچے ==
== بیویاں اور بچے ==
سطر 75: سطر 75:


==مکہ کی زندگی==
==مکہ کی زندگی==
بعض روایات کے مطابق اسلام لانے سے پہلے ابوبکر ایک نرم مزاج انسان تھا اور قریش اسے چاہتے تھے اور اسکا احترام کرتے تھے<ref>ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۶</ref>  اور نقل ہوا ہے کہ جوانی سے ہی وہ تجارت میں مشغول تھا.<ref>ابن ہشام، ج۱، ص۲۶۷؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۷؛ ابن رستہ، ج۷، ص۲۱۵</ref>.
بعض روایات کے مطابق اسلام لانے سے پہلے ابوبکر ایک نرم مزاج انسان تھا اور قریش اسے چاہتے تھے اور اسکا احترام کرتے تھے<ref>ابن اثیر، اسد الغابہ، ج۳، ص۲۰۶</ref>  اور نقل ہوا ہے کہ جوانی سے ہی وہ تجارت میں مشغول تھا۔<ref>ابن ہشام، ج۱، ص۲۶۷؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۷؛ ابن رستہ، ج۷، ص۲۱۵</ref>۔
   
   
=== اسلام لانے کا دور ===
=== اسلام لانے کا دور ===
ابوبکر کے اسلام لانے کے بارے میں اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض اہل سنت کے علماء ان کو [[خدیجہ]]، [[امام علی (ع)]] و [[زید بن حارثہ]] کے بعد چوتھا مسلمان سمجھتے ہیں،.<ref> تفسیر قرطبی، ج ۵، ص ۳۰۷۵</ref>  جبکہ بعض اہل سنت انہیں ان چاروں میں سے پہلا مسلمان سمجھتے ہیں کہ ایک آزاد مرد تھا اور مسلمان ہو‎ا<ref>ابن ہشام، ج۱، ص۲۶۴؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۰؛ قس: حاکم، ج۳، ص۱۱۲؛ ابن عبدالبر، ج۳، ص۳۲؛ ابن ہشام، ج۱، ص۲۶۲؛ احمد بن حنبل، ج۴، ص۳۶۸؛ ابن حبان، ج۱، ص۵۲؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۸، ۱۰۹؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۵۷-۵۹؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۹؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۶؛ یعقوبی، ج۲، ص۲۳؛ مسعودی، التنبیہ، ص۱۹۸؛ ابن ابی الحدید، ج۴، ص۱۱۶-۱۲۵؛ قسک وات، ص۸۹</ref>[[طبری]] محمد ابن سعد سے نقل کرتے ہو‎ئے کہتا ہے کہ ابوبکر نے پچاس افراد کے بعد اسلام لے آیا ہے.<ref>تاریخ الطبری، ج‌۲، ص:۳۱۶</ref> [[سید جعفر مرتضی عاملی|سید جعفر مرتضی]] اسی آخری قول کو محققین کی رای سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں: ابوبکر کا سب سے پہلے اسلام لانے کی بات چاروں خلیفوں کی خلافت کے بعد اور حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد گھاڑی گئی ہے اور ممکن ہے کہ یہ کام معاویہ کے حکم سے ہوا ہو اور دنیا کی مختلف اسلامی سرزمینوں تک پھیلایا ہو۔ پھر آپ اس بات کو بہت ساری دلا‌‎ئل کے ساتھ ٹھکراتے ہیں<ref>الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج۲، ص۳۲۴-۳۳۰</ref>بعض اہل سنت راویوں کی روایات ابوقحافہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے کو حکایت کرتی ہیں<ref>احمد بن حنبل، ج۶، ص۳۴۹؛ حاکم، ج۳، ص۲۴۳-۲۴۵؛ ابن حجر، الاصابہ، ج۴، ص۱۱۶-۱۱۷</ref>، لیکن بعض دیگر راویوں نے ان روایات کو نقد کیا ہے <ref>نک: ذہبی، ج۱، ص۲۲۸، ج۲، ص۱۸، ۵۵، ۸۶، ج۳، ص۵۸، ۱۲۵، ۲۱۴، ۳۴۵؛ ابن حجر، تہذیب، ج۹، ص۲۲۰، ج۱۲، ص۴۶</ref>.
ابوبکر کے اسلام لانے کے بارے میں اہل سنت کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض اہل سنت کے علماء ان کو [[خدیجہ]]، [[امام علی (ع)]] و [[زید بن حارثہ]] کے بعد چوتھا مسلمان سمجھتے ہیں،۔<ref> تفسیر قرطبی، ج ۵، ص ۳۰۷۵</ref>  جبکہ بعض اہل سنت انہیں ان چاروں میں سے پہلا مسلمان سمجھتے ہیں کہ ایک آزاد مرد تھا اور مسلمان ہو‎ا<ref>ابن ہشام، ج۱، ص۲۶۴؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۰؛ قس: حاکم، ج۳، ص۱۱۲؛ ابن عبدالبر، ج۳، ص۳۲؛ ابن ہشام، ج۱، ص۲۶۲؛ احمد بن حنبل، ج۴، ص۳۶۸؛ ابن حبان، ج۱، ص۵۲؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۸، ۱۰۹؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۵۷-۵۹؛ ابن قتیبہ، ص۱۶۹؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۶؛ یعقوبی، ج۲، ص۲۳؛ مسعودی، التنبیہ، ص۱۹۸؛ ابن ابی الحدید، ج۴، ص۱۱۶-۱۲۵؛ قسک وات، ص۸۹</ref>[[طبری]] محمد ابن سعد سے نقل کرتے ہو‎ئے کہتا ہے کہ ابوبکر نے پچاس افراد کے بعد اسلام لے آیا ہے۔<ref>تاریخ الطبری، ج‌۲، ص:۳۱۶</ref> [[سید جعفر مرتضی عاملی|سید جعفر مرتضی]] اسی آخری قول کو محققین کی رای سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں: ابوبکر کا سب سے پہلے اسلام لانے کی بات چاروں خلیفوں کی خلافت کے بعد اور حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعد گھاڑی گئی ہے اور ممکن ہے کہ یہ کام معاویہ کے حکم سے ہوا ہو اور دنیا کی مختلف اسلامی سرزمینوں تک پھیلایا ہو۔ پھر آپ اس بات کو بہت ساری دلا‌‎ئل کے ساتھ ٹھکراتے ہیں<ref>الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ج۲، ص۳۲۴-۳۳۰</ref>بعض اہل سنت راویوں کی روایات ابوقحافہ فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے کو حکایت کرتی ہیں<ref>احمد بن حنبل، ج۶، ص۳۴۹؛ حاکم، ج۳، ص۲۴۳-۲۴۵؛ ابن حجر، الاصابہ، ج۴، ص۱۱۶-۱۱۷</ref>، لیکن بعض دیگر راویوں نے ان روایات کو نقد کیا ہے <ref>نک: ذہبی، ج۱، ص۲۲۸، ج۲، ص۱۸، ۵۵، ۸۶، ج۳، ص۵۸، ۱۲۵، ۲۱۴، ۳۴۵؛ ابن حجر، تہذیب، ج۹، ص۲۲۰، ج۱۲، ص۴۶</ref>۔
[[ابوجعفر اسکافی معتزلی]] کہتا ہے : اگر ابوبکر نے سب سے پہلے اسلام لایا ہے تو پھر اس نے خود کہیں پر بھی اس کو ایک فضیلت کے طور پر بیان کیوں نہیں کیا ہے یہاں تک کہ سقیفہ میں بھی اس کو بیان نہیں کیا ہے اور بلکہ انکے حامیوں میں سے بھی کسی صحابی نے اس طرح کا ادعا تک نہیں کیا ہے۔<ref>شرح نہج البلاغہ، ص۲۲۴</ref>
[[ابوجعفر اسکافی معتزلی]] کہتا ہے : اگر ابوبکر نے سب سے پہلے اسلام لایا ہے تو پھر اس نے خود کہیں پر بھی اس کو ایک فضیلت کے طور پر بیان کیوں نہیں کیا ہے یہاں تک کہ سقیفہ میں بھی اس کو بیان نہیں کیا ہے اور بلکہ انکے حامیوں میں سے بھی کسی صحابی نے اس طرح کا ادعا تک نہیں کیا ہے۔<ref>شرح نہج البلاغہ، ص۲۲۴</ref>


{{تاریخ آغاز اسلام}}
{{تاریخ آغاز اسلام}}
اہل سنت کی بعض کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ قریش کے معاشرے میں ابوبکر کے منزلت کی وجہ سے ابوبکر مسلمان ہونے کے بعد مکہ کے کچھ لوگ [[عثمان بن عفان|عثمان بن عفّان]]، [[زبیر بن عوام]]، [[عبدالرحمن بن عوف]]، [[سعد بن ابی وقاص]]، اور [[طلحة بن عبیداللہ]]<ref>ابن اسحاق، سیرہ، ص۱۲۱؛ ابن ہشام، ج۱، ص۲۶۷-۲۶۸؛ ابن حبان، ج۱، ص۵۲-۵۳</ref>، مسلمان ہوگئے ہیں۔ جبکہ بعض نے ان روایات اور ان لوگوں کا ابوبکر کی دعوت پر اسلام لانے کو تردید کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض (زبیر، سعد و طلحہ) کی عمر اور ابوبکر کی عمر میں تقریبا بیس سال کا فرق ہے اور اس کے ہم معاشر نہیں بن سکتے تھے<ref>نک: طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۷</ref> اور دوسری بات یہ کہ ابن سعد کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالرحمن بن عوف ان افراد میں سے ہے جنہوں نے [[عثمان بن مظعون]] کے ساتھ اسلام لایا ہے نہ کہ ابوبکر کے ساتھ۔ اس سے احتمال دیا جاسکتا ہے ان لوگوں کی [[عمر |عمر بن خطاب]] کی [[چھ رکنی شورای]] کی رکنیت اور کچھ دوسرے وجوہات کی بنا پر بعد والے راویوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ ان کے اسلام لانے کی وجہ کو ابوبکر کی ہدایت قرار دیکر دوسروں پر فوقیت دیں، اس احتمال کو کچھ ایسی روایات<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۳۹</ref>  تقویت دیتی ہیں جن میں کچھ اور افراد ان سے اسلام لانے میں آگے ہیں۔.<ref>وات، ص۸۶-۸۸؛ نیز نک: EI۲؛ زریاب، ص۱۱۵-۱۱۶</ref>
اہل سنت کی بعض کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ قریش کے معاشرے میں ابوبکر کے منزلت کی وجہ سے ابوبکر مسلمان ہونے کے بعد مکہ کے کچھ لوگ [[عثمان بن عفان|عثمان بن عفّان]]، [[زبیر بن عوام]]، [[عبدالرحمن بن عوف]]، [[سعد بن ابی وقاص]]، اور [[طلحة بن عبیداللہ]]<ref>ابن اسحاق، سیرہ، ص۱۲۱؛ ابن ہشام، ج۱، ص۲۶۷-۲۶۸؛ ابن حبان، ج۱، ص۵۲-۵۳</ref>، مسلمان ہوگئے ہیں۔ جبکہ بعض نے ان روایات اور ان لوگوں کا ابوبکر کی دعوت پر اسلام لانے کو تردید کیا ہے اور کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض (زبیر، سعد و طلحہ) کی عمر اور ابوبکر کی عمر میں تقریبا بیس سال کا فرق ہے اور اس کے ہم معاشر نہیں بن سکتے تھے<ref>نک: طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۷</ref> اور دوسری بات یہ کہ ابن سعد کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدالرحمن بن عوف ان افراد میں سے ہے جنہوں نے [[عثمان بن مظعون]] کے ساتھ اسلام لایا ہے نہ کہ ابوبکر کے ساتھ۔ اس سے احتمال دیا جاسکتا ہے ان لوگوں کی [[عمر |عمر بن خطاب]] کی [[چھ رکنی شورای]] کی رکنیت اور کچھ دوسرے وجوہات کی بنا پر بعد والے راویوں کو اس بات پر مجبور کیا کہ ان کے اسلام لانے کی وجہ کو ابوبکر کی ہدایت قرار دیکر دوسروں پر فوقیت دیں، اس احتمال کو کچھ ایسی روایات<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۳۹</ref>  تقویت دیتی ہیں جن میں کچھ اور افراد ان سے اسلام لانے میں آگے ہیں۔۔<ref>وات، ص۸۶-۸۸؛ نیز نک: EI۲؛ زریاب، ص۱۱۵-۱۱۶</ref>


=== مسلمانوں پر تشدد کا دَور ===
=== مسلمانوں پر تشدد کا دَور ===
[[شرک|مشرکوں]]  کی طرف سے مسلمانوں پر کی جانے والی تشدد کا ابوبکر بھی شکار ہوگیا، اہل سنت کے منابع میں زخمی ہونے کا بھی ذکر ہوا ہے۔.<ref>ابن ہشام، ج۱، ص۳۱۰؛ احمدبن حنبل، ج۲، ص۲۰۴</ref>جب [[بنی ہاشم]] کو مکہ سے طرد کرنے کے ساتھ ساتھ مظالم نے شدت اختیار کیا تو پیغمبر اکرم کی اجازت سے ناخواستہ طور پر [[مکہ]] سے [[حبشہ کی طرف ہجرت]] کرنا پڑا لیکن [[قریش]] کے با اثر افراد؛ جِوار کی تجویز اور ابن الدُّغُنّہ کی حمایت کی وجہ سے دوبارہ مکہ لوٹ آ‎یا۔ لیکن کھلے عام تبلیغ کرنے کی وجہ سے دوبارہ تشدد شروع ہوگیا۔<ref>ابن ہشام، ج۲، ص۱۱-۱۳؛ ابن حبان، ج۱، ص۶۷-۶۹</ref>بعض نے ابوبکر کا حبشہ ہجرت نہ کرنے کے بارے میں یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ قبیلہ تیم (ابوبکر کا خاندان) بھی [[حلف الفضول]] کے دوسرے اعضاء کی طرح ظلم و تشدد سے محفوظ تھے لیکن جب ابوبکر کا قبیلہ نے اپنے مسلمان افراد کا دفاع نہ کرسکا یا دفاع کرنا نہ چاہا<ref>ص ۹۵</ref>  تو ابوبکر تشدد کا شکار ہوگیا اور ناچار ہجرت کی قصد سے مکہ سے خارج ہوا<ref>EI۲</ref>.
[[شرک|مشرکوں]]  کی طرف سے مسلمانوں پر کی جانے والی تشدد کا ابوبکر بھی شکار ہوگیا، اہل سنت کے منابع میں زخمی ہونے کا بھی ذکر ہوا ہے۔۔<ref>ابن ہشام، ج۱، ص۳۱۰؛ احمدبن حنبل، ج۲، ص۲۰۴</ref>جب [[بنی ہاشم]] کو مکہ سے طرد کرنے کے ساتھ ساتھ مظالم نے شدت اختیار کیا تو پیغمبر اکرم کی اجازت سے ناخواستہ طور پر [[مکہ]] سے [[حبشہ کی طرف ہجرت]] کرنا پڑا لیکن [[قریش]] کے با اثر افراد؛ جِوار کی تجویز اور ابن الدُّغُنّہ کی حمایت کی وجہ سے دوبارہ مکہ لوٹ آ‎یا۔ لیکن کھلے عام تبلیغ کرنے کی وجہ سے دوبارہ تشدد شروع ہوگیا۔<ref>ابن ہشام، ج۲، ص۱۱-۱۳؛ ابن حبان، ج۱، ص۶۷-۶۹</ref>بعض نے ابوبکر کا حبشہ ہجرت نہ کرنے کے بارے میں یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ قبیلہ تیم (ابوبکر کا خاندان) بھی [[حلف الفضول]] کے دوسرے اعضاء کی طرح ظلم و تشدد سے محفوظ تھے لیکن جب ابوبکر کا قبیلہ نے اپنے مسلمان افراد کا دفاع نہ کرسکا یا دفاع کرنا نہ چاہا<ref>ص ۹۵</ref>  تو ابوبکر تشدد کا شکار ہوگیا اور ناچار ہجرت کی قصد سے مکہ سے خارج ہوا<ref>EI۲</ref>۔
بعض منابع نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے مال میں سے بعض دوسرے 7 مسلمان غلاموں کو انکے [[شرک|مشرک]] آقا‎‎‎ؤں کی آزار و اذیت سے آزاد کیا یہاں تک کہ انکے باپ ابوقحافہ نے بھی اس کی مذمت کی.<ref>ابن ہشام، ج۱، ص۳۴۰-۳۴۱؛ ابن سعد، ج۳، ص۲۳۰، ۲۳۲</ref>
بعض منابع نے لکھا ہے کہ اس نے اپنے مال میں سے بعض دوسرے 7 مسلمان غلاموں کو انکے [[شرک|مشرک]] آقا‎‎‎ؤں کی آزار و اذیت سے آزاد کیا یہاں تک کہ انکے باپ ابوقحافہ نے بھی اس کی مذمت کی۔<ref>ابن ہشام، ج۱، ص۳۴۰-۳۴۱؛ ابن سعد، ج۳، ص۲۳۰، ۲۳۲</ref>


==مدینہ کی طرف ہجرت==
==مدینہ کی طرف ہجرت==
{{اصلی| ہجرت مدینہ}}
{{اصلی| ہجرت مدینہ}}
ابوبکر کی مکی زندگی میں سب سے اہم حادثہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مدینہ کیطرف ہجرت کرنا اور [[غار ثور]] میں چھپ جانا ہے.<ref>ابن سعد، ج۱، ص۲۲۷-۲۲۸، ۲۳۲؛ قس: مقدسی، ج۴، ص۱۷۷</ref> یہ واقعہ جمعرات کی رات  یکم ربیع‌الاول بعثت کے 14 سال بعد( ۱۳ سپتامبر ۶۲۲) کو رونما ہوا۔ اور مشہور قول کے مطابق جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم [[وحی]] کے ذریعے سے اپنے قتل کی سازش سے آگاہ ہوگئے تو ابوبکر کے ساتھ مدینہ سے راستہ چھوڑ کر [[مدینہ|یثرب]] کی طرف ایک روانہ ہوگئے اور غار تک پہنچے.<ref>ابن ہشام، ج۲، ص۱۲۶-۱۲۹؛ ابن سعد، ج۱، ص۲۲۷-۲۲۹</ref>
ابوبکر کی مکی زندگی میں سب سے اہم حادثہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ مدینہ کیطرف ہجرت کرنا اور [[غار ثور]] میں چھپ جانا ہے۔<ref>ابن سعد، ج۱، ص۲۲۷-۲۲۸، ۲۳۲؛ قس: مقدسی، ج۴، ص۱۷۷</ref> یہ واقعہ جمعرات کی رات  یکم ربیع‌الاول بعثت کے 14 سال بعد( ۱۳ سپتامبر ۶۲۲) کو رونما ہوا۔ اور مشہور قول کے مطابق جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم [[وحی]] کے ذریعے سے اپنے قتل کی سازش سے آگاہ ہوگئے تو ابوبکر کے ساتھ مدینہ سے راستہ چھوڑ کر [[مدینہ|یثرب]] کی طرف ایک روانہ ہوگئے اور غار تک پہنچے۔<ref>ابن ہشام، ج۲، ص۱۲۶-۱۲۹؛ ابن سعد، ج۱، ص۲۲۷-۲۲۹</ref>


[[آیت غار]] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ابوبکر کی غار میں سکونت کے ماجرا کی طرف اشارہ ہے اور اہل سنت کے علماء اس آیہ کو ابوبکر کی فضیلت پر دلیل سمجھتے ہیں لیکن وہ اور پیغمبر اکرم کے غار ثور کے بارے میں آیہ کی تفسیر میں اختلاف ہے.<ref>ر.ک بہ مدخل [[آیت لا تحزن]]</ref>
[[آیت غار]] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ابوبکر کی غار میں سکونت کے ماجرا کی طرف اشارہ ہے اور اہل سنت کے علماء اس آیہ کو ابوبکر کی فضیلت پر دلیل سمجھتے ہیں لیکن وہ اور پیغمبر اکرم کے غار ثور کے بارے میں آیہ کی تفسیر میں اختلاف ہے۔<ref>ر۔ک بہ مدخل [[آیت لا تحزن]]</ref>
ابوبکر، پیغمبر اکرم(ص) کے ہمراہ کیسے آیا؟ یہ مشخص نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ابوبکر کو اچانک راستے میں دیکھا اور اپنے ساتھ لے گیے۔<ref>طبری، تاریخ، ج۲، ص ۳۷۴</ref>اسیطرح سے ایک اور نقل کے مطابق مشرکوں کے حملے کی رات پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ابوبکر کے گھر گئے اور وہیں سے ابوبکر کے ساتھ غار ثور چلے گئے.<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص ۲۶۰</ref>تیسرے قول کے مطابق ابوبکر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تلاش میں آیا اور علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم کے چھپنے کی جگہ دکھا‎ئی۔.<ref>ابن کثیر،‌ البدایہ و النہایہ، ج۳،‌ ص ۱۷۹</ref>
ابوبکر، پیغمبر اکرم(ص) کے ہمراہ کیسے آیا؟ یہ مشخص نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ابوبکر کو اچانک راستے میں دیکھا اور اپنے ساتھ لے گیے۔<ref>طبری، تاریخ، ج۲، ص ۳۷۴</ref>اسیطرح سے ایک اور نقل کے مطابق مشرکوں کے حملے کی رات پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ابوبکر کے گھر گئے اور وہیں سے ابوبکر کے ساتھ غار ثور چلے گئے۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص ۲۶۰</ref>تیسرے قول کے مطابق ابوبکر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تلاش میں آیا اور علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم کے چھپنے کی جگہ دکھا‎ئی۔۔<ref>ابن کثیر،‌ البدایہ و النہایہ، ج۳،‌ ص ۱۷۹</ref>
مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ابوبکر مدینہ کے مضافات میں مدینہ سے ایک میل کے فاصلے پر سُنْخ محلے میں خبیب بن اِساف (حبیب ابن یساف) یا خارجہ ابن زید ابن ابی زہیر (قبیلہ بنی الحارث بن الخزرج) کے گھر ساکن ہوا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۳-۱۷۴؛ ابن ہشام، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ یاقوت، ج۳، ص۱۶۳</ref>.بعض منابع کے مطابق ابوبکر مدینہ میں ہمیشہ [[پیغمبر (ص)]] کے ساتھ ساتھ رہا اور 8 مہینے کے بعد جب آنحضرت نے مہاجر اور انصار کے درمیان برادری کا پیمان باندھا تو انکو عمر کا بھا‎ئی بنادیا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۴</ref>لیکن سیرہ ابن اسحاق کا فارسی ترجمہ رفیع الدین ہمدانی میں لکھا ہے کہ « ابوبکر۔۔۔۔ خارجہ بن (زید بن ابی) زہیر (جو کہ انصار تھے) سے برادری کا عقد باندھا».<ref>ابن اثیر، سیرت رسول اللہ، ص۴۸۵</ref>
مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ابوبکر مدینہ کے مضافات میں مدینہ سے ایک میل کے فاصلے پر سُنْخ محلے میں خبیب بن اِساف (حبیب ابن یساف) یا خارجہ ابن زید ابن ابی زہیر (قبیلہ بنی الحارث بن الخزرج) کے گھر ساکن ہوا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۳-۱۷۴؛ ابن ہشام، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ یاقوت، ج۳، ص۱۶۳</ref>۔بعض منابع کے مطابق ابوبکر مدینہ میں ہمیشہ [[پیغمبر (ص)]] کے ساتھ ساتھ رہا اور 8 مہینے کے بعد جب آنحضرت نے مہاجر اور انصار کے درمیان برادری کا پیمان باندھا تو انکو عمر کا بھا‎ئی بنادیا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۴</ref>لیکن سیرہ ابن اسحاق کا فارسی ترجمہ رفیع الدین ہمدانی میں لکھا ہے کہ « ابوبکر۔۔۔۔ خارجہ بن (زید بن ابی) زہیر (جو کہ انصار تھے) سے برادری کا عقد باندھا»۔<ref>ابن اثیر، سیرت رسول اللہ، ص۴۸۵</ref>
ابوبکر مدینہ میں ہر دوسرے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملتا تھا<ref>EI۱</ref> اور بعض روایات کے مطابق تمام [[غزوہ|غزوات]] میں آپ کے ساتھ تھا.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۵؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۱۲</ref>
ابوبکر مدینہ میں ہر دوسرے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملتا تھا<ref>EI۱</ref> اور بعض روایات کے مطابق تمام [[غزوہ|غزوات]] میں آپ کے ساتھ تھا۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۵؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۱۲</ref>


==غزوات میں شمولیت==
==غزوات میں شمولیت==
واقدی نے ابوبکر کی غزوہ [[غزوہ بدر|بدر]]<ref> ج۱، ص۲۶، ۵۵، جم‌</ref>، [[غزوہ احد|احد]]<ref>۱، ص۲۴۰</ref>، [[غزوہ حمراء الاسد|حَمراءُ الاسد]]<ref>۱، ص۳۳۶</ref>، [[غزوہ بنی النضیر|بنی النَضیر]]<ref>۱، ص۳۶۴</ref>، [[غزوہ بدر الموعد|بَدرُ المَوعِد]]<ref>۱، ص۳۸۶</ref>، [[غزوہ مریسیع|مُرَیسیع]]<ref>۱، ص۴۰۵</ref>، [[غزوہ خندق|خندق]]<ref>۱، ص۴۴۸، ۴۴۹، جم‌</ref>، [[غزوہ بنی قریظہ|بنی قُرَیظہ]]<ref>۱، ص۴۹۸</ref>، [[غزوہ بنی لحیان|بنی لِحیان]]<ref>۱، ص۵۳۶</ref>، [[حدیبیہ]]<ref>۱، ص۵۸۰</ref>، [[غزوہ خیبر|خیبر]]<ref>۲، ص۶۴۴</ref>، [[فتح مکہ]]<ref>۲، ص۷۸۲، ۸۱۳</ref>، [[غزوہ حنین|حُنَین]]<ref>۲، ص۹۰۰</ref>،[[غزوہ طائف|طائف]]<ref>۲، ص۹۳۰-۹۳۱</ref>، [[غزوہ تبوک|تَبوک]]<ref>۲، ص۹۹۱-۹۹۶</ref> اور اسی طرح سرایای [[سریہ نجد|نجد]]<ref>۲، ص۷۲۲</ref> اور [[سریہ ذات السلاسل|ذاتُ السَلاسِل]]<ref>۲، ص۷۷۰</ref> میں شریک ہونے کی تصریح کی ہے۔
واقدی نے ابوبکر کی غزوہ [[غزوہ بدر|بدر]]<ref> ج۱، ص۲۶، ۵۵، جم‌</ref>، [[غزوہ احد|احد]]<ref>۱، ص۲۴۰</ref>، [[غزوہ حمراء الاسد|حَمراءُ الاسد]]<ref>۱، ص۳۳۶</ref>، [[غزوہ بنی النضیر|بنی النَضیر]]<ref>۱، ص۳۶۴</ref>، [[غزوہ بدر الموعد|بَدرُ المَوعِد]]<ref>۱، ص۳۸۶</ref>، [[غزوہ مریسیع|مُرَیسیع]]<ref>۱، ص۴۰۵</ref>، [[غزوہ خندق|خندق]]<ref>۱، ص۴۴۸، ۴۴۹، جم‌</ref>، [[غزوہ بنی قریظہ|بنی قُرَیظہ]]<ref>۱، ص۴۹۸</ref>، [[غزوہ بنی لحیان|بنی لِحیان]]<ref>۱، ص۵۳۶</ref>، [[حدیبیہ]]<ref>۱، ص۵۸۰</ref>، [[غزوہ خیبر|خیبر]]<ref>۲، ص۶۴۴</ref>، [[فتح مکہ]]<ref>۲، ص۷۸۲، ۸۱۳</ref>، [[غزوہ حنین|حُنَین]]<ref>۲، ص۹۰۰</ref>،[[غزوہ طائف|طائف]]<ref>۲، ص۹۳۰-۹۳۱</ref>، [[غزوہ تبوک|تَبوک]]<ref>۲، ص۹۹۱-۹۹۶</ref> اور اسی طرح سرایای [[سریہ نجد|نجد]]<ref>۲، ص۷۲۲</ref> اور [[سریہ ذات السلاسل|ذاتُ السَلاسِل]]<ref>۲، ص۷۷۰</ref> میں شریک ہونے کی تصریح کی ہے۔


[[ابن ابی الحدید]] کی اپنے استاد ابوجعفر اسکافی کے نقل کے مطابق «ابوبکر نے نہ تو تیر چلایا ہے اور نہ تلوار کھینچا ہے اور نہ ہی خونریزی کی ہے.»<ref>إبن أبی الحدید المدائنی المعتزلی، أبو حامد عز الدین بن ہبة اللہ بن محمد بن محمد (متوفای۶۵۵ ق) ، شرح نہج البلاغة، ج۱۳، ص۱۷۰، تحقیق محمد عبد الکریم النمری، ناشر:‌ دار الکتب العلمیة - بیروت / لبنان، الطبعة الأولی، ۱۴۱۸ہـ - ۱۹۹۸م./الجاحظ، أبی عثمان عمرو بن بحر (متوفای۲۵۵ہـ)، العثمانیة، ص۲۳۰، ناشر:‌دار الکتب العربی ـ مصر</ref>
[[ابن ابی الحدید]] کی اپنے استاد ابوجعفر اسکافی کے نقل کے مطابق «ابوبکر نے نہ تو تیر چلایا ہے اور نہ تلوار کھینچا ہے اور نہ ہی خونریزی کی ہے۔»<ref>إبن أبی الحدید المدائنی المعتزلی، أبو حامد عز الدین بن ہبة اللہ بن محمد بن محمد (متوفای۶۵۵ ق) ، شرح نہج البلاغة، ج۱۳، ص۱۷۰، تحقیق محمد عبد الکریم النمری، ناشر:‌ دار الکتب العلمیة - بیروت / لبنان، الطبعة الأولی، ۱۴۱۸ہـ - ۱۹۹۸م۔/الجاحظ، أبی عثمان عمرو بن بحر (متوفای۲۵۵ہـ)، العثمانیة، ص۲۳۰، ناشر:‌دار الکتب العربی ـ مصر</ref>
پیغمبر  (ص) نے [[جنگ خیبر]] میں ابوبکر و اسی طرح [[عمر بن خطاب]] کو خیبر فتح کرنے کے لیے بھیجا لیکن قلعہ خیبر فتح کرنے میں ناکام رہے پھر رسول خدا نے فرمایا: کل میں پرچم کو ایسے شخص کے ہاتھ دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اسکے رسول ان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے ہاتھوں خیبر فتح ہوگا۔ پھر امام علی علیہ السلام کو بلایا اور عَلم آپ کے ہاتھوں تھما دیا اور امام علی علیہ السلام نے خیبر کا قلعہ فتح کیا.<ref>الذہبی، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفای۷۴۸ہـ)، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام، ج۲، ص۴۱۲، تحقیق د. عمر عبد السلام تدمری، بیروت،‌دار الکتاب العربی، الطبعہ الأولی، ۱۴۰۷ہـ - ۱۹۸۷م اور اسی طرح إبن أبی شیبہ الکوفی، أبو بکر عبد اللہ بن محمد (متوفای۲۳۵ ہـ)، الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، ج۶، ص۳۶۷، ح ۳۲۰۸۰، تحقیق کمال یوسف الحوت، ریاض، مکتبہ الرشد، الطبعہ الأولی، ۱۴۰۹ہ؛ و النیسابوری، محمد بن عبداللہ أبو عبداللہ الحاکم (متوفای۴۰۵ ہـ)، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۳۹، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا، بیروت،‌دار الکتب العلمیہ، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۱ہ - ۱۹۹۰م؛ الإیجی، عضد الدین (متوفای۷۵۶ہـ)، کتاب المواقف، ج۳، ص۶۳۴، تحقیق عبد الرحمن عمیرہ، بیروت،‌دار الجیل، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۷ہـ، ۱۹۹۷م.</ref>
پیغمبر  (ص) نے [[جنگ خیبر]] میں ابوبکر و اسی طرح [[عمر بن خطاب]] کو خیبر فتح کرنے کے لیے بھیجا لیکن قلعہ خیبر فتح کرنے میں ناکام رہے پھر رسول خدا نے فرمایا: کل میں پرچم کو ایسے شخص کے ہاتھ دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اسکے رسول ان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے ہاتھوں خیبر فتح ہوگا۔ پھر امام علی علیہ السلام کو بلایا اور عَلم آپ کے ہاتھوں تھما دیا اور امام علی علیہ السلام نے خیبر کا قلعہ فتح کیا۔<ref>الذہبی، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفای۷۴۸ہـ)، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام، ج۲، ص۴۱۲، تحقیق د۔ عمر عبد السلام تدمری، بیروت،‌دار الکتاب العربی، الطبعہ الأولی، ۱۴۰۷ہـ - ۱۹۸۷م اور اسی طرح إبن أبی شیبہ الکوفی، أبو بکر عبد اللہ بن محمد (متوفای۲۳۵ ہـ)، الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، ج۶، ص۳۶۷، ح ۳۲۰۸۰، تحقیق کمال یوسف الحوت، ریاض، مکتبہ الرشد، الطبعہ الأولی، ۱۴۰۹ہ؛ و النیسابوری، محمد بن عبداللہ أبو عبداللہ الحاکم (متوفای۴۰۵ ہـ)، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۳۹، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا، بیروت،‌دار الکتب العلمیہ، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۱ہ - ۱۹۹۰م؛ الإیجی، عضد الدین (متوفای۷۵۶ہـ)، کتاب المواقف، ج۳، ص۶۳۴، تحقیق عبد الرحمن عمیرہ، بیروت،‌دار الجیل، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۷ہـ، ۱۹۹۷م۔</ref>
پیغمبر اکرم نے اپنی عمر کے آخری ایام میں [[روم|رومیوں]] کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے ایک فوج تیار کی جس میں ابوبکر کی طرح جانی پہچانی شخصیات موجود ہونے کے باوجود فوج کی کمانڈ [[اسامہ بن زید]] کے حوالے کیا.<ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۱۳</ref>
پیغمبر اکرم نے اپنی عمر کے آخری ایام میں [[روم|رومیوں]] کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے ایک فوج تیار کی جس میں ابوبکر کی طرح جانی پہچانی شخصیات موجود ہونے کے باوجود فوج کی کمانڈ [[اسامہ بن زید]] کے حوالے کیا۔<ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۱۳</ref>


==سورہ برائت کی تبلیغ کا واقعہ==
==سورہ برائت کی تبلیغ کا واقعہ==
ابوبکر کی ذمہ داریوں میں سے متنازعہ ذمہ داری [[نہم ہجری قمری|نویں ہجری]] کو حج کی سرپرستی اور [[سورہ برائت]] کی تبلیغ کرنا ہے ابن اسحاق کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے [[جنگ تبوک]] نویں ہجری ذی الحجہ کے مہینے میں ابوبکر کو حج کا سرپرست بنا کر مکہ روانہ کیا اور انکے مدینہ سے جانے کے بعد سورہ برا‎ئت نازل ہو‎ئی اور پیغمبر اکرم نے یہ کہہ کر کہ: ‎‎‎« صرف میرے ہی خاندان کا کو‎ئی شخص اس پیغام کو میری طرف سے پہنچا‎ئے گا» علی علیہ السلام کو اپنی اونٹ دیکر اس پیغام کو پہنچانے کے لیے مکہ بھیجا.<ref>ابن ہشام، ج۴، ص۱۸۸-۱۹۱</ref> مفسرین اور مورخین کے مابین موسم حج میں پڑھے گئےآیات کی تعداد، آیات پڑھنے کا محل، نازل ہونے کا وقت، ابوبکر کی حج سرپرستی سے معزول ہونا اور علی علیہ السلام کو انکی جگہ منصوب کرنے میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔.<ref>نک: واقدی، ج۲، ص۱۰۷۷؛ ابن سعد، ج۲، ص۱۶۸-۱۶۹، ج۳، ص۱۷۷؛ ترمذی، ج۵، ص۲۷۲-۲۷۶؛ طبری، تاریخ، ج۱۰، ص۴۱-۴۷؛ طوسی، ج۵، ص۱۶۹؛ ابن حزم، ص۲۰۶؛ طبرسی، فضل، ج۵، ص۶</ref>
ابوبکر کی ذمہ داریوں میں سے متنازعہ ذمہ داری [[نہم ہجری قمری|نویں ہجری]] کو حج کی سرپرستی اور [[سورہ برائت]] کی تبلیغ کرنا ہے ابن اسحاق کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے [[جنگ تبوک]] نویں ہجری ذی الحجہ کے مہینے میں ابوبکر کو حج کا سرپرست بنا کر مکہ روانہ کیا اور انکے مدینہ سے جانے کے بعد سورہ برا‎ئت نازل ہو‎ئی اور پیغمبر اکرم نے یہ کہہ کر کہ: ‎‎‎« صرف میرے ہی خاندان کا کو‎ئی شخص اس پیغام کو میری طرف سے پہنچا‎ئے گا» علی علیہ السلام کو اپنی اونٹ دیکر اس پیغام کو پہنچانے کے لیے مکہ بھیجا۔<ref>ابن ہشام، ج۴، ص۱۸۸-۱۹۱</ref> مفسرین اور مورخین کے مابین موسم حج میں پڑھے گئےآیات کی تعداد، آیات پڑھنے کا محل، نازل ہونے کا وقت، ابوبکر کی حج سرپرستی سے معزول ہونا اور علی علیہ السلام کو انکی جگہ منصوب کرنے میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔۔<ref>نک: واقدی، ج۲، ص۱۰۷۷؛ ابن سعد، ج۲، ص۱۶۸-۱۶۹، ج۳، ص۱۷۷؛ ترمذی، ج۵، ص۲۷۲-۲۷۶؛ طبری، تاریخ، ج۱۰، ص۴۱-۴۷؛ طوسی، ج۵، ص۱۶۹؛ ابن حزم، ص۲۰۶؛ طبرسی، فضل، ج۵، ص۶</ref>


==جیش اسامہ کا واقعہ==
==جیش اسامہ کا واقعہ==
ابوبکر، عمر، [[ابوعبیدہ جراح|ابوعُبَیدہ جَرّاح]] و بعض دیگر جلیل القدر اصحاب کو پیغمبر اکرم کی حیات مبارک کے میں آخری [[جیش اسامہ|سپاہ اسامہ]] میں شرکت اور مؤتہ شام کی طرف جانے کی ذمہ داری دی گئی تھی.<ref>ابن حجر، فنح، ج۸، ص۱۲۴</ref> واقدی <ref>۲، ص۱۱۱۷</ref> اور ابن سعد<ref>۲، ص۱۸۹-۱۹۰</ref>کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے [[حجة الوداع]] کے بعد ابھی [[صفر المظفر|صفر]] کے چار دن باقی رہتے تھے بروز پیر روم کے ساتھ جنگ کا حکم دیا اور اگلے دن [[اسامہ بن زید|اسامہ]] کو بلایا اور لشکر کی سربراہی اسے سپرد کیا۔<ref>قس: طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۴؛ ابن ہشام، ج۴، ص۲۵۳</ref>لیکن پیغمبر اکرم کی تاکید اور اصرار کے باوجود لشکر نے حرکت نہیں کیا شروع میں اسامہ کی کم عمری کو بعض اصحاب نے بہانہ بنایا اور پھر سفر کے ساز و سامان مہیا کرنے کا بہانہ اور آخر میں پیغمبر  کی بیماری شدید ہونے کی خبر اسامہ تک پہنچنا اور انکا مدینہ لوٹنا باعث بنا کہ ابوبکر، عمر اور بعض دیگر افراد پیغمبر اکرم کے صریح فرمان کے باوجود جُرف کے کیمپ سے واپس مدینہ آیے.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۶؛ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۱۵۹-۱۶۲</ref>
ابوبکر، عمر، [[ابوعبیدہ جراح|ابوعُبَیدہ جَرّاح]] و بعض دیگر جلیل القدر اصحاب کو پیغمبر اکرم کی حیات مبارک کے میں آخری [[جیش اسامہ|سپاہ اسامہ]] میں شرکت اور مؤتہ شام کی طرف جانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔<ref>ابن حجر، فنح، ج۸، ص۱۲۴</ref> واقدی <ref>۲، ص۱۱۱۷</ref> اور ابن سعد<ref>۲، ص۱۸۹-۱۹۰</ref>کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے [[حجة الوداع]] کے بعد ابھی [[صفر المظفر|صفر]] کے چار دن باقی رہتے تھے بروز پیر روم کے ساتھ جنگ کا حکم دیا اور اگلے دن [[اسامہ بن زید|اسامہ]] کو بلایا اور لشکر کی سربراہی اسے سپرد کیا۔<ref>قس: طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۴؛ ابن ہشام، ج۴، ص۲۵۳</ref>لیکن پیغمبر اکرم کی تاکید اور اصرار کے باوجود لشکر نے حرکت نہیں کیا شروع میں اسامہ کی کم عمری کو بعض اصحاب نے بہانہ بنایا اور پھر سفر کے ساز و سامان مہیا کرنے کا بہانہ اور آخر میں پیغمبر  کی بیماری شدید ہونے کی خبر اسامہ تک پہنچنا اور انکا مدینہ لوٹنا باعث بنا کہ ابوبکر، عمر اور بعض دیگر افراد پیغمبر اکرم کے صریح فرمان کے باوجود جُرف کے کیمپ سے واپس مدینہ آیے۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۶؛ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۱۵۹-۱۶۲</ref>


== پیغمبر  اکرم کی آخری عمر میں نماز جماعت کا واقعہ==
== پیغمبر  اکرم کی آخری عمر میں نماز جماعت کا واقعہ==
جب پیغمبر  اکرم کوشش کر رہے تھے کہ اسامہ کی فوج شام کی طرف روانہ ہوجا‌‎ئے اس وقت آپ کی بیماری اتنی شدید ہوگئی تھی کہ [[بلال]] نے آذان دیا لیکن آپ کے بدن میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ [[مسجد]] جاکر [[نماز]] پڑھا‎ئیں اس لیے اپنی جگہ کسی اور کو نماز پڑھانے کے لیے بھیجنا چاہا۔ لیکن یہ نماز کیسے اور کس کی امامت میں پڑھی گئی، پیغمبر اکرم کی امامت کے بغیر کتنی نمازیں پڑھیں گئیں، اور کیا ایک نماز بھی پوری طرح ابوبکر کی اقتدا‎ء میں پڑھی گئی یا نہیں، اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔.<ref>نک: ابن سعد، ج۲، ص۲۱۵-۲۲۴، ج۳، ص۱۷۸-۱۸۱؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۹۷؛ ابن سلام، ص۷۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۰-۱۳۲</ref>
جب پیغمبر  اکرم کوشش کر رہے تھے کہ اسامہ کی فوج شام کی طرف روانہ ہوجا‌‎ئے اس وقت آپ کی بیماری اتنی شدید ہوگئی تھی کہ [[بلال]] نے آذان دیا لیکن آپ کے بدن میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ [[مسجد]] جاکر [[نماز]] پڑھا‎ئیں اس لیے اپنی جگہ کسی اور کو نماز پڑھانے کے لیے بھیجنا چاہا۔ لیکن یہ نماز کیسے اور کس کی امامت میں پڑھی گئی، پیغمبر اکرم کی امامت کے بغیر کتنی نمازیں پڑھیں گئیں، اور کیا ایک نماز بھی پوری طرح ابوبکر کی اقتدا‎ء میں پڑھی گئی یا نہیں، اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔۔<ref>نک: ابن سعد، ج۲، ص۲۱۵-۲۲۴، ج۳، ص۱۷۸-۱۸۱؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۹۷؛ ابن سلام، ص۷۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۰-۱۳۲</ref>
ایک روایت میں آیا ہے کہ جس دن پیغمبر اکرم سخت مریض تھے تو آپ نے فرمایا:«کسی کو بھیجدو اور علی کو میرے پاس بلا‎‎‎ؤ» تو [[عایشہ]] نے تجویز پیش کی کہ کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا جا‎ئے اور [[حفصہ بنت عمر بن خطاب|حفصہ]] نے کہا کہ کسی کو عمر کے پاس بھیجا جا‎ئے اسطرح سب پیغمبر اکرم کے پاس جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا: چلے جا‎‎‎ؤ، اگر تمہاری ضرورت ہوتی تو تمہیں بلا لیتا<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۱۹۶؛ قس: احمد بن حنبل، ج۱، ص۳۵۶؛ مفید، الارشاد، ۹۹</ref>.
ایک روایت میں آیا ہے کہ جس دن پیغمبر اکرم سخت مریض تھے تو آپ نے فرمایا:«کسی کو بھیجدو اور علی کو میرے پاس بلا‎‎‎ؤ» تو [[عایشہ]] نے تجویز پیش کی کہ کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا جا‎ئے اور [[حفصہ بنت عمر بن خطاب|حفصہ]] نے کہا کہ کسی کو عمر کے پاس بھیجا جا‎ئے اسطرح سب پیغمبر اکرم کے پاس جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا: چلے جا‎‎‎ؤ، اگر تمہاری ضرورت ہوتی تو تمہیں بلا لیتا<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۱۹۶؛ قس: احمد بن حنبل، ج۱، ص۳۵۶؛ مفید، الارشاد، ۹۹</ref>۔
روایات میں موجود تمام اختلافات کے باوجود، نقل ہوا ہے کہ ابوبکر [[مسجد]] میں جاکر پیغمبر کی جگہ نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔ لیکن اس نماز کی مخالفت میں پیغمبر اکرم کا عکس العمل بہت اختلاف کے ساتھ روایات میں ذکر ہوا ہے۔ عایشہ سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ جب ابوبکر نماز کی حالت میں تھا اسی وقت پیغمبر اکرم کی طبیعت کچھ ٹھیک ہوگئی تو آپ کھڑے ہوگئے اور دو آدمی کا سہارا لیتے ہو‎ئے مسجد پہنچے جبکہ آپ کے پا‎‎‎ؤں زمین پر کھینچے جارہے تھے، اور جیسے ہی ابوبکر نے آپ کی آمد کا احساس کیا تو اپنی جگہ سے ہٹ گیا لیکن پیغمبر اکرم نے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا جس جگہ پر ہو وہی کھڑے رہو۔ اور پھر پیغمبر اکرم، ابوبکر کے با‎ئیں طرف آکر بیٹھ گئے اور اس طرح پیغبمر اکرم نے بیٹھ کر اور ابوبکر نے کھڑے ہوکر نماز بجا لایا اور ابوبکر نے پیغمبر اکرم کی اقتدا میں نماز پڑھی اور لوگوں نے ابوبکر کی اقتداء کی.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۰-۱۳۲؛ بلعمی، ج۱، ص۳۳۶</ref>جبکہ بعض اہل سنت کے علماء، ابوبکر کی عظمت کو بڑھانے اور ابوبکر کو خلافت کیلیے دوسروں پرفوقیت دینے کے لیے اس حد تک آگے گئے ہیں کہ کہتے ہیں اس نماز میں پیغمبر اکرم نے ابوبکر کی اقتداء کی.<ref>نک: ابن جوزی، ص۴۹-۵۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۲</ref>  اور یہ بات اہل سنت کے بعض بزرگ علماء کرام کو بھی ناگوار گزری کہ حنبلی مذہب کے بزرگ مفسر اور [[فقیہ]]  ابوالفرج عبدالرحمن ابن جوزی، (۵۱۱-۵۹۷ق، ص۱۱۱۷-۱۲۰۱م) کو آفة اصحاب الحدیث کے نام سے اس بات کے رد میں ایک کتاب لکھنا پڑی.<ref>نیز نک: بخاری، ج۱، ص۱۷۴، ۱۷۵، ۱۸۳؛ احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۳۴</ref>
روایات میں موجود تمام اختلافات کے باوجود، نقل ہوا ہے کہ ابوبکر [[مسجد]] میں جاکر پیغمبر کی جگہ نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔ لیکن اس نماز کی مخالفت میں پیغمبر اکرم کا عکس العمل بہت اختلاف کے ساتھ روایات میں ذکر ہوا ہے۔ عایشہ سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ جب ابوبکر نماز کی حالت میں تھا اسی وقت پیغمبر اکرم کی طبیعت کچھ ٹھیک ہوگئی تو آپ کھڑے ہوگئے اور دو آدمی کا سہارا لیتے ہو‎ئے مسجد پہنچے جبکہ آپ کے پا‎‎‎ؤں زمین پر کھینچے جارہے تھے، اور جیسے ہی ابوبکر نے آپ کی آمد کا احساس کیا تو اپنی جگہ سے ہٹ گیا لیکن پیغمبر اکرم نے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا جس جگہ پر ہو وہی کھڑے رہو۔ اور پھر پیغمبر اکرم، ابوبکر کے با‎ئیں طرف آکر بیٹھ گئے اور اس طرح پیغبمر اکرم نے بیٹھ کر اور ابوبکر نے کھڑے ہوکر نماز بجا لایا اور ابوبکر نے پیغمبر اکرم کی اقتدا میں نماز پڑھی اور لوگوں نے ابوبکر کی اقتداء کی۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۰-۱۳۲؛ بلعمی، ج۱، ص۳۳۶</ref>جبکہ بعض اہل سنت کے علماء، ابوبکر کی عظمت کو بڑھانے اور ابوبکر کو خلافت کیلیے دوسروں پرفوقیت دینے کے لیے اس حد تک آگے گئے ہیں کہ کہتے ہیں اس نماز میں پیغمبر اکرم نے ابوبکر کی اقتداء کی۔<ref>نک: ابن جوزی، ص۴۹-۵۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۲</ref>  اور یہ بات اہل سنت کے بعض بزرگ علماء کرام کو بھی ناگوار گزری کہ حنبلی مذہب کے بزرگ مفسر اور [[فقیہ]]  ابوالفرج عبدالرحمن ابن جوزی، (۵۱۱-۵۹۷ق، ص۱۱۱۷-۱۲۰۱م) کو آفة اصحاب الحدیث کے نام سے اس بات کے رد میں ایک کتاب لکھنا پڑی۔<ref>نیز نک: بخاری، ج۱، ص۱۷۴، ۱۷۵، ۱۸۳؛ احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۳۴</ref>


===شیعوں کا نظریہ===
===شیعوں کا نظریہ===
سطر 119: سطر 119:
#اگرچہ عایشہ سے اس موضوع پر منقول احادیث پر تقریبا اتفاق ہے لیکن یہ روایت تواتر تک نہیں پہنچتی ہے اور اس لیے کسی بھی مورد میں اس کے ذریعے سے دلیل قا‎ئم نہیں کرسکتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی احتمال دیا جاسکتا ہے کہ اس روایت میں عایشہ نے اپنی نفع میں بات کی ہو۔  
#اگرچہ عایشہ سے اس موضوع پر منقول احادیث پر تقریبا اتفاق ہے لیکن یہ روایت تواتر تک نہیں پہنچتی ہے اور اس لیے کسی بھی مورد میں اس کے ذریعے سے دلیل قا‎ئم نہیں کرسکتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی احتمال دیا جاسکتا ہے کہ اس روایت میں عایشہ نے اپنی نفع میں بات کی ہو۔  
#سیرت لکھنے والے اور مورخین کے اجماع کے مطابق<ref>ابن سعد، ج۲، ص۱۸۹-۱۹۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۴، ۱۸۶؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۳۴؛ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۱۵۹-۱۶۰؛ نیز نک: مفید، الارشاد، ص۹۸</ref>، ابوبکر ان دنوں پیغمبر اکرم کے حکم کے مطابق مدینہ کے بجا‎ئے جرف کے کیمپ میں اسامہ کی لشکر میں ہونا چاہیے تھا اسی لیے جو نماز مدینہ میں اگر اس نے پڑھا‎ئی ہے تو وہ پیغمبر اکرم کے حکم سے نہیں تھی اور چند شواہد بھی اس بات کی تا‎ئید کرتی ہیں۔  
#سیرت لکھنے والے اور مورخین کے اجماع کے مطابق<ref>ابن سعد، ج۲، ص۱۸۹-۱۹۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۴، ۱۸۶؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۳۴؛ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۱۵۹-۱۶۰؛ نیز نک: مفید، الارشاد، ص۹۸</ref>، ابوبکر ان دنوں پیغمبر اکرم کے حکم کے مطابق مدینہ کے بجا‎ئے جرف کے کیمپ میں اسامہ کی لشکر میں ہونا چاہیے تھا اسی لیے جو نماز مدینہ میں اگر اس نے پڑھا‎ئی ہے تو وہ پیغمبر اکرم کے حکم سے نہیں تھی اور چند شواہد بھی اس بات کی تا‎ئید کرتی ہیں۔  
الف) اس روایت کے مطابق کہ جس میں علی علیہ السلام کو بلانے کا حکم دیا تھا لیکن کسی نے آپ کی بات نہیں سنی اور ان کے بجا‎ئے ابوبکر، عمر اور [[عباس بن عبدالمطلب|عباس]] حاضر کئے جاتے ہیں.<ref>احمد بن حنبل، ج۱، ص۳۵۶؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۹۶</ref>
الف) اس روایت کے مطابق کہ جس میں علی علیہ السلام کو بلانے کا حکم دیا تھا لیکن کسی نے آپ کی بات نہیں سنی اور ان کے بجا‎ئے ابوبکر، عمر اور [[عباس بن عبدالمطلب|عباس]] حاضر کئے جاتے ہیں۔<ref>احمد بن حنبل، ج۱، ص۳۵۶؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۹۶</ref>
ب) پیغمبر  اکرم ناتوان اور نحیف ہونے کے باوجود دو آدمی (علی(ع) اور [[فضل بن عباس]]) کے سہارے سے مسجد میں حاضر ہوکر خود نماز پڑھانا.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۱؛ نیز نک: مفید، الارشاد، ص۹۸</ref>
ب) پیغمبر  اکرم ناتوان اور نحیف ہونے کے باوجود دو آدمی (علی(ع) اور [[فضل بن عباس]]) کے سہارے سے مسجد میں حاضر ہوکر خود نماز پڑھانا۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۱؛ نیز نک: مفید، الارشاد، ص۹۸</ref>


ان تمام باتوں کے باوجود شیعہ علماء کے مطابق اگر آنحضرت کی بیماری کے وقت، ابوبکر کی نماز سے متعلق روایات کو صحیح مان لی جا‎ئیں تو بھی یہ ابوبکر کی فضیلت اور برتری کی دلیل نہیں بن سکتیں چونکہ اس سے پہلے بھی آپ نے دوسرے کئی اصحاب [[ابوعبیدہ جراح]]، [[عمرو عاص]]، [[خالد بن ولید]]، اسامہ بن زید اورعلی علیہ السلام  کو کئی بار نماز پڑھانے پر مامور کیا تھا اور ایک بار خود ابوبکر کو بھی مامور کیا تھا کہ لوگوں کو نماز پڑھا‎ئے۔ <ref>میلانی، ص۲۸</ref>
ان تمام باتوں کے باوجود شیعہ علماء کے مطابق اگر آنحضرت کی بیماری کے وقت، ابوبکر کی نماز سے متعلق روایات کو صحیح مان لی جا‎ئیں تو بھی یہ ابوبکر کی فضیلت اور برتری کی دلیل نہیں بن سکتیں چونکہ اس سے پہلے بھی آپ نے دوسرے کئی اصحاب [[ابوعبیدہ جراح]]، [[عمرو عاص]]، [[خالد بن ولید]]، اسامہ بن زید اورعلی علیہ السلام  کو کئی بار نماز پڑھانے پر مامور کیا تھا اور ایک بار خود ابوبکر کو بھی مامور کیا تھا کہ لوگوں کو نماز پڑھا‎ئے۔ <ref>میلانی، ص۲۸</ref>
سطر 128: سطر 128:
[[شیعہ]] [[حدیث|محدثین]] کے مطابق [[پیغمبر  اکرم(ص)]]  28 صفر سنہ گیارہ ہجری قمری بروز پیر رحلت فرما گئے اور یہ خبر اس وقت کے محدود مدینے میں ایک دم سے پھیل گئی اور شاید بعض لوگوں نے تو جب بیماری میں شدت آگئی تھی، اور اسی بیماری کی وجہ سے رحلت کا احتمال دیتے ہو‎ئے انہی دنوں سے حکومت اپنے ہاتھ لینے کیلیے دل میں کچھ نیتیں کی تھیں، تقریبا اس خبر کے سننے کے فورا بعد جس وقت امام [[علی(ع)]]، فضل بن عباس اور دیگر چند لوگ آپ کو [[غسل]] دینے میں مصروف تھے تو اقدامات شروع کئے [[سعد بن عبادہ]]، [[خزرج|خزرجیوں]] کے سربراہ بیماری اور بخار کی حالت میں ([[اوس]] و [[خزرج]]) کے [[انصار]] کے ایک گروہ کے درمیان [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں بیٹھا تھا اور ایک شخص اس کی ترجمانی کرتا ہوا انصار کی فضیلت اور مہاجروں پر انکی برتری کے گن گاتا تھا۔
[[شیعہ]] [[حدیث|محدثین]] کے مطابق [[پیغمبر  اکرم(ص)]]  28 صفر سنہ گیارہ ہجری قمری بروز پیر رحلت فرما گئے اور یہ خبر اس وقت کے محدود مدینے میں ایک دم سے پھیل گئی اور شاید بعض لوگوں نے تو جب بیماری میں شدت آگئی تھی، اور اسی بیماری کی وجہ سے رحلت کا احتمال دیتے ہو‎ئے انہی دنوں سے حکومت اپنے ہاتھ لینے کیلیے دل میں کچھ نیتیں کی تھیں، تقریبا اس خبر کے سننے کے فورا بعد جس وقت امام [[علی(ع)]]، فضل بن عباس اور دیگر چند لوگ آپ کو [[غسل]] دینے میں مصروف تھے تو اقدامات شروع کئے [[سعد بن عبادہ]]، [[خزرج|خزرجیوں]] کے سربراہ بیماری اور بخار کی حالت میں ([[اوس]] و [[خزرج]]) کے [[انصار]] کے ایک گروہ کے درمیان [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں بیٹھا تھا اور ایک شخص اس کی ترجمانی کرتا ہوا انصار کی فضیلت اور مہاجروں پر انکی برتری کے گن گاتا تھا۔


سقیفہ میں کیا ہوا اور کونسی باتیں رد و بدل ہوگئیں اس بارے میں روایات مشہور ہیں۔ منابع میں تصریح ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر کا انتخاب بڑی بحث و جدل کے بعد ہوا ہے یہاں تک کہ انصار میں سے [[حباب بن منذر]] نے مہاجروں پر تلوار کھینچی اور [[سعد بن عبادہ]] جو تقریبا خود پیروں تلے دبا جارہا تھا اور عمر کی داڑھی پکڑ کر کھینچ رہا تھا.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۳؛ حلبی، ج۳، ص۳۵۹</ref>اس کے بعد [[مہاجروں]] سے وابستہ [[قبیلہ بنی اسلم]] مکہ میں داخل ہو‎ا اور ابوبکر کی بیعت کی اور اسی قبیلے نے مدینہ کے لوگوں کی بیعت کو آسان کردیا.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۵؛ فیاض، ص۱۳۱</ref> عمر <ref>بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱: ابوبکرسے</ref>سے روایت ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر کی بیعت ایک جلدپنی اور بے سابقہ کام تھا کہ اللہ تعالی نے اس کے شر سے لوگوں کو بچایا.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۴-۲۰۶، بلاذری، انساب ج۱، ص۵۸۳، ۵۸۴؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۲۶-۳۲۷؛ قس: نہج‌البلاغہ، خطبہ ۱۳۶</ref>
سقیفہ میں کیا ہوا اور کونسی باتیں رد و بدل ہوگئیں اس بارے میں روایات مشہور ہیں۔ منابع میں تصریح ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر کا انتخاب بڑی بحث و جدل کے بعد ہوا ہے یہاں تک کہ انصار میں سے [[حباب بن منذر]] نے مہاجروں پر تلوار کھینچی اور [[سعد بن عبادہ]] جو تقریبا خود پیروں تلے دبا جارہا تھا اور عمر کی داڑھی پکڑ کر کھینچ رہا تھا۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۳؛ حلبی، ج۳، ص۳۵۹</ref>اس کے بعد [[مہاجروں]] سے وابستہ [[قبیلہ بنی اسلم]] مکہ میں داخل ہو‎ا اور ابوبکر کی بیعت کی اور اسی قبیلے نے مدینہ کے لوگوں کی بیعت کو آسان کردیا۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۵؛ فیاض، ص۱۳۱</ref> عمر <ref>بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱: ابوبکرسے</ref>سے روایت ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر کی بیعت ایک جلدپنی اور بے سابقہ کام تھا کہ اللہ تعالی نے اس کے شر سے لوگوں کو بچایا۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۴-۲۰۶، بلاذری، انساب ج۱، ص۵۸۳، ۵۸۴؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۲۶-۳۲۷؛ قس: نہج‌البلاغہ، خطبہ ۱۳۶</ref>


[[شیخ مفید]] نے اس کامیابی کی علت کو بہت ہی مختصر چند جملوں میں یوں خلاصہ کیا ہے: علی علیہ السلام پیغمبر اکرم کے تجہیز و تدفین کے کاموں میں مشغول ہونا، بنی ہاشم کا پیغمبر کی رحلت کی وجہ سے مغموم، اور میدان سے دور ہونا، انصار کا باہمی اختلاف، «طلقا اور مؤلفہ قلوبہم» کا اس کام کو مؤخر کرنے سے انکار.<ref>مفید، الارشاد، ص۱۰۱</ref>
[[شیخ مفید]] نے اس کامیابی کی علت کو بہت ہی مختصر چند جملوں میں یوں خلاصہ کیا ہے: علی علیہ السلام پیغمبر اکرم کے تجہیز و تدفین کے کاموں میں مشغول ہونا، بنی ہاشم کا پیغمبر کی رحلت کی وجہ سے مغموم، اور میدان سے دور ہونا، انصار کا باہمی اختلاف، «طلقا اور مؤلفہ قلوبہم» کا اس کام کو مؤخر کرنے سے انکار۔<ref>مفید، الارشاد، ص۱۰۱</ref>


== خلافت کا آغاز==
== خلافت کا آغاز==
[[سقیفہ]] کے حادثے کے ایک دن بعد ابوبکر مسجد گیا اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد کہا: « اے لوگوں میں آپ میں سے بہترین نہیں ہوں اس کے باوجود تم پر ولایت ملی ہے۔ میرے اچھے کاموں میں مدد کریں اور اگر غلط راستے پر چلا تو میری ہدایت کریں۔۔۔۔۔ آپ میں سے کمزور شخص میرے پاس کمزور ہے اور ان شاء اللہ اس تک اسکا حق پہنچا دونگا۔ اور آپ میں سے قدرتمند شخص میرے پاس کمزور ہے ان شاء اللہ اس سے حق لونگا۔ اللہ کی راہ میں [[جہاد]] کو کو‎ئی بھی کم اہمیت نہ سمجھے، جو بھی قوم جہاد کو اہمیت نہ دے گی اللہ تعالی انہیں خوار کرے گا۔۔۔۔ جب تک میں اللہ اور اسکے رسول کی پیروی کرونگا میری اطاعت کریں اور جب اللہ اور اس کے رسول کے فرمان سے دور ہوا تو تم لوگوں پر اطاعت کا حق نہیں رکھتا۔ نماز پڑھیں اللہ تم پر رحمت کرے گا۔.»<ref>ابن ہشام، ج۴، ص۳۱۱؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۱۰؛ قس: بلاذری، انساب ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۵۹-۱۶۱</ref>  
[[سقیفہ]] کے حادثے کے ایک دن بعد ابوبکر مسجد گیا اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد کہا: « اے لوگوں میں آپ میں سے بہترین نہیں ہوں اس کے باوجود تم پر ولایت ملی ہے۔ میرے اچھے کاموں میں مدد کریں اور اگر غلط راستے پر چلا تو میری ہدایت کریں۔۔۔۔۔ آپ میں سے کمزور شخص میرے پاس کمزور ہے اور ان شاء اللہ اس تک اسکا حق پہنچا دونگا۔ اور آپ میں سے قدرتمند شخص میرے پاس کمزور ہے ان شاء اللہ اس سے حق لونگا۔ اللہ کی راہ میں [[جہاد]] کو کو‎ئی بھی کم اہمیت نہ سمجھے، جو بھی قوم جہاد کو اہمیت نہ دے گی اللہ تعالی انہیں خوار کرے گا۔۔۔۔ جب تک میں اللہ اور اسکے رسول کی پیروی کرونگا میری اطاعت کریں اور جب اللہ اور اس کے رسول کے فرمان سے دور ہوا تو تم لوگوں پر اطاعت کا حق نہیں رکھتا۔ نماز پڑھیں اللہ تم پر رحمت کرے گا۔۔»<ref>ابن ہشام، ج۴، ص۳۱۱؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۱۰؛ قس: بلاذری، انساب ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۵۹-۱۶۱</ref>  


ایک اور خطبے میں حمد و ثنا کے بعد کہتا ہے:
ایک اور خطبے میں حمد و ثنا کے بعد کہتا ہے:
:::«اے لوگو، میں بھی تم جیسا ہوں۔ پیغمبر اکرم جو کچھ کر سکتے تھے اسکی مجھ سے توقع رکھتے ہو، محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اللہ نے دنیا والوں سے چن لیا اور خطاوں سے معصوم تھے لیکن میں انکا تابع ہوں مبدع نہیں۔ اگر صراط مستقیم پر رہا تو میری اطاعت کریں اور اگر خطا کرگیا تو مجھے سیدھے راستے پر لا‎ئیں۔۔۔۔ آگاہ رہو میرا ایک شیطان ہے جو کبھی مجھے گھیر لیتا ہے جب بھی وہ میرے پاس آیا تو مجھ سے دور رہو....<ref>ابن سعد، ج۳، ص۲۱۲؛ الامامہ، ج۱، ص۱۶؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۳-۲۲۴؛ قس: بلاذری، ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱</ref>
:::«اے لوگو، میں بھی تم جیسا ہوں۔ پیغمبر اکرم جو کچھ کر سکتے تھے اسکی مجھ سے توقع رکھتے ہو، محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اللہ نے دنیا والوں سے چن لیا اور خطاوں سے معصوم تھے لیکن میں انکا تابع ہوں مبدع نہیں۔ اگر صراط مستقیم پر رہا تو میری اطاعت کریں اور اگر خطا کرگیا تو مجھے سیدھے راستے پر لا‎ئیں۔۔۔۔ آگاہ رہو میرا ایک شیطان ہے جو کبھی مجھے گھیر لیتا ہے جب بھی وہ میرے پاس آیا تو مجھ سے دور رہو۔۔۔۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۲۱۲؛ الامامہ، ج۱، ص۱۶؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۳-۲۲۴؛ قس: بلاذری، ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱</ref>


یہ خطبے اہل سنت کے محققین اور علما کی نظر میں ابوبکر کی انکساری، ادب اور سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی علامت اور آیندہ آنے والوں کو حکومت کرنے کے لیے بہترین راہنما‎ اصول ہیں <ref>عظم، ص۹۰-۹۱؛ دروزہ، ص۳۰</ref>، جبکہ شیعہ علما ان خطبو‌ں کے بعض حصوں کو مطاعن ابوبکر اور اس کے خلافت کے لیے نا لایق ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں اور ان کے اپنے عقیدے کے مطابق اصل امامت کی بحث کی ہے.<ref>کنتوری، ج۱، ص۱۹۷-۲۲۴؛ فیروزآبادی، ص۹-۱۱</ref>
یہ خطبے اہل سنت کے محققین اور علما کی نظر میں ابوبکر کی انکساری، ادب اور سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کی علامت اور آیندہ آنے والوں کو حکومت کرنے کے لیے بہترین راہنما‎ اصول ہیں <ref>عظم، ص۹۰-۹۱؛ دروزہ، ص۳۰</ref>، جبکہ شیعہ علما ان خطبو‌ں کے بعض حصوں کو مطاعن ابوبکر اور اس کے خلافت کے لیے نا لایق ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں اور ان کے اپنے عقیدے کے مطابق اصل امامت کی بحث کی ہے۔<ref>کنتوری، ج۱، ص۱۹۷-۲۲۴؛ فیروزآبادی، ص۹-۱۱</ref>
اس میٹینگ میں اگرچہ ابوبکر کی خلاقت یقینی ہوگئی لیکن مہاجر اور انصار کے ایک گروہ نے اس کی بیعت سے انکار کردیا ان میں سے بعض کے نام جو منابع میں ذکر ہو‎ئے ہیں یہ ہیں۔: [[علی(ع)]]، [[سعد بن عبادہ]]، [[عباس بن عبدالمطلب]]، [[فضل بن عباس]]، [[زبیر بن عوام]]، [[خالد بن سعید]]، [[مقداد بن عمرو]]، [[سلمان فارسی]]، [[ابوذر غفاری]]، [[عمار بن یاسر]]، [[براء بن عازب]]، [[ابی بن کعب]]، [[حذیفہ بن یمان]]، [[خزیمہ بن ثابت]]، [[ابو ایوب انصاری]]، [[سہل بن حنیف]]، [[عثمان بن حنیف]]، [[ابوالہیثم بن التیہان]]، [[سعد بن ابی وقاص]] اور [[ابوسفیان بن حرب]].<ref>یعقوبی، ج۲، ص۱۲۳-۱۲۶؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۸؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۵۹-۲۶۰؛ طبرسی، احمد، ج۱، ص۹۷؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۴-۶۱</ref> ان میں سے سعد ابن عبادہ خود خلافت کا مدعی تھا اور ابوسفیان اور اس کے حامی دنیوی مقاصد رکھتے تھے<ref>بلاذری، ج۱، ص۵۸۸؛ حسین، علی و فرزندانش، ص۳۳-۳۴</ref> جن ادلہ کی وجہ سے سقیفہ میں ابوبکر کو خلافت کے لیے ترجیح دیا تھا؛ یعنی اسلام میں پہل کرنا، اسلام کے لیے خدمات اور رسول سے قرابت، انہی کی وجہ سے ایک گروہ علی علیہ السلام کی خلافت کو مستند کرتے تھے۔ اور علی علیہ السلام اور بنی ہاشم صرف مخالفوں کو ان کے اپنے دلا‎ئل پر عمل پیرا کرنے کے لیے احتجاج کرتے تھے۔ <ref>الامامہ، ج۱، ص۱۱-۱۲؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۲؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۵-۱۲۶؛ نہج‌البلاغہ، خطبہ ۶۷؛ آیتی، حواشی، ص۱۰۸-۱۰۹</ref> اور خلافت کو علی (ع) کا حق سمجھتے تھے اور شیعیان علی کا ایک اور گروہ اسلامی معاشرے کی رہبری اور پیغمبر کی جانشینی کا مسئلہ مذہبی عالیترین مقام سمجھتے تھے آیہ «اِنَّ اللّہ اصْطَفی آدَمَ وَ نوحاً وَ آلَ اِبْراہیمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمینَ، ذُرّیہ بَعْضُہا مِنْ بَعْضٍ…»<ref>آل عمران، آیہ ۳۳-۳۴</ref> سے تمسک کرتے ہو‎ئے قا‎ئل تھے کہ حضرت محمد (ص) اور اسکی خاندان حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے ہیں اور انہی فضایل کے مالک ہیں <ref>جعفری، ص۱۴</ref> اور اسی طرح آیہ «اِنَّما وَلیکُمُ اللّہ وَ رَسولُہ وَ الَّذینَ آمَنوا الّذینَ یقیمونَ الصّلوہ وَ یؤتونَ الزّکوہ وَہمْ راکِعونَ»<ref>مائدہ، آیہ ۵۵</ref> اور دوسری چند آیتیں<ref>نک: مفید، الجمل، ص۳۲-۳۳؛ نیز طباطبائی، شیعہ، ص۱۱۳؛ ابومجتبی، ص۴۸۸</ref>، اسیطرح متواتر روایتوں [[حدیث یوم الدار|حدیث‌دار]]<ref>طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۹-۳۲۱؛ احمدبن حنبل، ج۱، ص۱۱۱؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۶۲-۶۳؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۱۲؛ ہندی، ج۱۳، ص۱۳۱-۱۳۳</ref>، [[حدیث منزلت]]<ref>گنجی، ص۲۸۱؛ ہندی، ج۱۳، ص۱۵۰-۱۵۱؛ ابن سعد، ج۳، ص۲۳-۲۴؛ مفید، الجمل، ص۳۳-۳۴؛ ترمذی، ج۶، ص۶۴۰-۶۴۱؛ ابن صباغ، ص۳۹</ref> و [[حدیث غدیر]]<ref>محب طبری، ذخائر، ص۶۷-۶۸؛ ابن کثیر، ج۵، ص۲۰۸-۲۱۴، ج۷، ص۳۴۶-۳۵۱</ref>، سے استناد کرتے ہو‎ئے، خلافت میں «نص اور تعیین» کے قا‎ئل تھے.<ref>طباطبائی، شیعہ، ص۱۱۳-۱۱۴</ref>
اس میٹینگ میں اگرچہ ابوبکر کی خلاقت یقینی ہوگئی لیکن مہاجر اور انصار کے ایک گروہ نے اس کی بیعت سے انکار کردیا ان میں سے بعض کے نام جو منابع میں ذکر ہو‎ئے ہیں یہ ہیں۔: [[علی(ع)]]، [[سعد بن عبادہ]]، [[عباس بن عبدالمطلب]]، [[فضل بن عباس]]، [[زبیر بن عوام]]، [[خالد بن سعید]]، [[مقداد بن عمرو]]، [[سلمان فارسی]]، [[ابوذر غفاری]]، [[عمار بن یاسر]]، [[براء بن عازب]]، [[ابی بن کعب]]، [[حذیفہ بن یمان]]، [[خزیمہ بن ثابت]]، [[ابو ایوب انصاری]]، [[سہل بن حنیف]]، [[عثمان بن حنیف]]، [[ابوالہیثم بن التیہان]]، [[سعد بن ابی وقاص]] اور [[ابوسفیان بن حرب]]۔<ref>یعقوبی، ج۲، ص۱۲۳-۱۲۶؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۸؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۵۹-۲۶۰؛ طبرسی، احمد، ج۱، ص۹۷؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۴-۶۱</ref> ان میں سے سعد ابن عبادہ خود خلافت کا مدعی تھا اور ابوسفیان اور اس کے حامی دنیوی مقاصد رکھتے تھے<ref>بلاذری، ج۱، ص۵۸۸؛ حسین، علی و فرزندانش، ص۳۳-۳۴</ref> جن ادلہ کی وجہ سے سقیفہ میں ابوبکر کو خلافت کے لیے ترجیح دیا تھا؛ یعنی اسلام میں پہل کرنا، اسلام کے لیے خدمات اور رسول سے قرابت، انہی کی وجہ سے ایک گروہ علی علیہ السلام کی خلافت کو مستند کرتے تھے۔ اور علی علیہ السلام اور بنی ہاشم صرف مخالفوں کو ان کے اپنے دلا‎ئل پر عمل پیرا کرنے کے لیے احتجاج کرتے تھے۔ <ref>الامامہ، ج۱، ص۱۱-۱۲؛ بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۸۲؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۵-۱۲۶؛ نہج‌البلاغہ، خطبہ ۶۷؛ آیتی، حواشی، ص۱۰۸-۱۰۹</ref> اور خلافت کو علی (ع) کا حق سمجھتے تھے اور شیعیان علی کا ایک اور گروہ اسلامی معاشرے کی رہبری اور پیغمبر کی جانشینی کا مسئلہ مذہبی عالیترین مقام سمجھتے تھے آیہ «اِنَّ اللّہ اصْطَفی آدَمَ وَ نوحاً وَ آلَ اِبْراہیمَ وَ آلَ عِمْرانَ عَلَی الْعالَمینَ، ذُرّیہ بَعْضُہا مِنْ بَعْضٍ…»<ref>آل عمران، آیہ ۳۳-۳۴</ref> سے تمسک کرتے ہو‎ئے قا‎ئل تھے کہ حضرت محمد (ص) اور اسکی خاندان حضرت ابراہیم کی ذریت میں سے ہیں اور انہی فضایل کے مالک ہیں <ref>جعفری، ص۱۴</ref> اور اسی طرح آیہ «اِنَّما وَلیکُمُ اللّہ وَ رَسولُہ وَ الَّذینَ آمَنوا الّذینَ یقیمونَ الصّلوہ وَ یؤتونَ الزّکوہ وَہمْ راکِعونَ»<ref>مائدہ، آیہ ۵۵</ref> اور دوسری چند آیتیں<ref>نک: مفید، الجمل، ص۳۲-۳۳؛ نیز طباطبائی، شیعہ، ص۱۱۳؛ ابومجتبی، ص۴۸۸</ref>، اسیطرح متواتر روایتوں [[حدیث یوم الدار|حدیث‌دار]]<ref>طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۹-۳۲۱؛ احمدبن حنبل، ج۱، ص۱۱۱؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۶۲-۶۳؛ ابن ابی الحدید، ج۱۳، ص۲۱۲؛ ہندی، ج۱۳، ص۱۳۱-۱۳۳</ref>، [[حدیث منزلت]]<ref>گنجی، ص۲۸۱؛ ہندی، ج۱۳، ص۱۵۰-۱۵۱؛ ابن سعد، ج۳، ص۲۳-۲۴؛ مفید، الجمل، ص۳۳-۳۴؛ ترمذی، ج۶، ص۶۴۰-۶۴۱؛ ابن صباغ، ص۳۹</ref> و [[حدیث غدیر]]<ref>محب طبری، ذخائر، ص۶۷-۶۸؛ ابن کثیر، ج۵، ص۲۰۸-۲۱۴، ج۷، ص۳۴۶-۳۵۱</ref>، سے استناد کرتے ہو‎ئے، خلافت میں «نص اور تعیین» کے قا‎ئل تھے۔<ref>طباطبائی، شیعہ، ص۱۱۳-۱۱۴</ref>


سعد بن عبادہ نے اپنی عمر کے آخری لمحے تک ابوبکر اور عمر کی بیعت نہیں کی اور عمر کی خلافت کے دوران [[شام]] کی طرف سفر کیا اور حوران کے مقام پر رات کی تاریکی میں مقتول پایا گیا.<ref>الامامہ، ج۱، ص۱۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۲-۲۲۳؛ ابن سعد، ج۳، ص۶۱۶-۶۱۷</ref> لیکن بلاذری نے مدائنی، ابومخنف اور کلبی سے ایک روایت میں ذکر کیا ہے کہ عمر نے ایک مرد کو حوران بھیجا اور اسے حکم دیا کہ سعد بن عبادہ کو لالچ دیکر بیعت لیں اور اگر قبول نہیں کیا تو اس کے خلاف اللہ سے مدد مانگو۔ یہ مرد سعد سے ملا اور اس سے بیعت نہ لے سکا تو اسے ایک تیر مار کر قتل کردیا۔ بلاذری اس کے بعد ایک مشہور روایت کو ذکر کرتا ہے جس کے مطابق سعد [[جنّوں]] کے ہاتھوں مارا گیا.<ref>بلاذری، ج۱، ص۵۸۹؛ قس: ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۰؛ لامنس، ۱۴۲</ref>
سعد بن عبادہ نے اپنی عمر کے آخری لمحے تک ابوبکر اور عمر کی بیعت نہیں کی اور عمر کی خلافت کے دوران [[شام]] کی طرف سفر کیا اور حوران کے مقام پر رات کی تاریکی میں مقتول پایا گیا۔<ref>الامامہ، ج۱، ص۱۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۲-۲۲۳؛ ابن سعد، ج۳، ص۶۱۶-۶۱۷</ref> لیکن بلاذری نے مدائنی، ابومخنف اور کلبی سے ایک روایت میں ذکر کیا ہے کہ عمر نے ایک مرد کو حوران بھیجا اور اسے حکم دیا کہ سعد بن عبادہ کو لالچ دیکر بیعت لیں اور اگر قبول نہیں کیا تو اس کے خلاف اللہ سے مدد مانگو۔ یہ مرد سعد سے ملا اور اس سے بیعت نہ لے سکا تو اسے ایک تیر مار کر قتل کردیا۔ بلاذری اس کے بعد ایک مشہور روایت کو ذکر کرتا ہے جس کے مطابق سعد [[جنّوں]] کے ہاتھوں مارا گیا۔<ref>بلاذری، ج۱، ص۵۸۹؛ قس: ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۰؛ لامنس، ۱۴۲</ref>


==امام علی(ع) سے بیعت لینا==
==امام علی(ع) سے بیعت لینا==
اکثر تاریخی روایات امام علی علیہ السلام، ابوبکر کی بیعت پر راضی نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور یہ روایات علی علیہ السلام کا بیعت سے انکار اور بیعت لینے کے لیے آپ، آپ کے گھر والے اور دوستوں پر دبا‎‎‎ؤ ڈالنا اور تشدد کرنے کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں اور بیعت سے انکار پر تصریح کرتی ہیں۔.<ref>یعقوبی، ۲، ص۱۲۶؛ بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۶؛ الامامہ، ۱، ص۱۴؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۷؛ مسعودی، مروج، ۲، ص۳۰۸</ref>
اکثر تاریخی روایات امام علی علیہ السلام، ابوبکر کی بیعت پر راضی نہ ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور یہ روایات علی علیہ السلام کا بیعت سے انکار اور بیعت لینے کے لیے آپ، آپ کے گھر والے اور دوستوں پر دبا‎‎‎ؤ ڈالنا اور تشدد کرنے کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں اور بیعت سے انکار پر تصریح کرتی ہیں۔۔<ref>یعقوبی، ۲، ص۱۲۶؛ بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۶؛ الامامہ، ۱، ص۱۴؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۷؛ مسعودی، مروج، ۲، ص۳۰۸</ref>


=== ابن قتیبہ دینوری کی دو روایتیں===
=== ابن قتیبہ دینوری کی دو روایتیں===
الامامہ والسیاسہ میں دو روایتیں نقل ہو‎ئی ہیں جو دوسری روایات کی نسبت زیادہ جامع ہیں:
الامامہ والسیاسہ میں دو روایتیں نقل ہو‎ئی ہیں جو دوسری روایات کی نسبت زیادہ جامع ہیں:
پہلی روایت میں یوں آیا ہے: عمر [[اسید بن حضیر]] اور [[سلمہ بن اسلم]] سمیت ایک گروہ کے ساتھ علی علیہ السلام کے دروازے پر پہنچا اور آپ اور بنی ہاشم سے ابوبکر کی بیعت کیلیے مسجد آنے کا کہا لیکن انہوں نے نہیں مانا اور زبیر بن عوام تلوار لیکر باہر آیا تو عمر کے حکم سے سلمہ آگے بڑھا اور اس سے تلوار چھین کر دیوار پہ دے مارا اور وہ لوگ زبیر کو اپنے ساتھ لے گئے اور زبیر نے بیعت کی اور بنی ہاشم نے بھی بیعت کیا لیکن امام علی علیہ السلام ابوبکر کے سامنے کھڑے ہوگئے اور جن باتوں کو ابوبکر نے انصار کے سامنے اپنی خلافت کے لیے پیش کیا تھا انہی باتوں کو دہراتے ہو‎ئے خلافت کو اپنا حق قرار دیا۔ عمر نے کہا: جب تک تجھ سے بیعت نہیں لونگا چین سے نہیں رہوںگا۔ علی علیہ السلام نے کہا: خلافت کے دودھ کو صحیح سے دھو لو شاید تجھے بھی کچھ حصہ ملے اور آج اس کے لیے حکومت فراہم کرو تاکہ وہ کل تیرے حوالے کرے۔ پھر ابوبکر نے کہا اگر تم بیعت نہیں کرنا چاہتے ہو تو میں تمہیں مجبور نہیں کرونگا اسوقت ابوعبیدہ جراح نے امام علی علیہ السلام کو خلافت، ابوبکر کے حوالے کرنے کی نصیحت کی تو امام علیہ السلام نے اپنی  اور اہل بیت کی خلافت کے لیے حقانیت پر مہاجرین کو مخاطب کیا اور انکو خواہشات نفس کی پیروی اور راہ خدا سے منحرف ہونے سے ڈرایا۔
پہلی روایت میں یوں آیا ہے: عمر [[اسید بن حضیر]] اور [[سلمہ بن اسلم]] سمیت ایک گروہ کے ساتھ علی علیہ السلام کے دروازے پر پہنچا اور آپ اور بنی ہاشم سے ابوبکر کی بیعت کیلیے مسجد آنے کا کہا لیکن انہوں نے نہیں مانا اور زبیر بن عوام تلوار لیکر باہر آیا تو عمر کے حکم سے سلمہ آگے بڑھا اور اس سے تلوار چھین کر دیوار پہ دے مارا اور وہ لوگ زبیر کو اپنے ساتھ لے گئے اور زبیر نے بیعت کی اور بنی ہاشم نے بھی بیعت کیا لیکن امام علی علیہ السلام ابوبکر کے سامنے کھڑے ہوگئے اور جن باتوں کو ابوبکر نے انصار کے سامنے اپنی خلافت کے لیے پیش کیا تھا انہی باتوں کو دہراتے ہو‎ئے خلافت کو اپنا حق قرار دیا۔ عمر نے کہا: جب تک تجھ سے بیعت نہیں لونگا چین سے نہیں رہوںگا۔ علی علیہ السلام نے کہا: خلافت کے دودھ کو صحیح سے دھو لو شاید تجھے بھی کچھ حصہ ملے اور آج اس کے لیے حکومت فراہم کرو تاکہ وہ کل تیرے حوالے کرے۔ پھر ابوبکر نے کہا اگر تم بیعت نہیں کرنا چاہتے ہو تو میں تمہیں مجبور نہیں کرونگا اسوقت ابوعبیدہ جراح نے امام علی علیہ السلام کو خلافت، ابوبکر کے حوالے کرنے کی نصیحت کی تو امام علیہ السلام نے اپنی  اور اہل بیت کی خلافت کے لیے حقانیت پر مہاجرین کو مخاطب کیا اور انکو خواہشات نفس کی پیروی اور راہ خدا سے منحرف ہونے سے ڈرایا۔
بشیربن سعد انصاری نے علی علیہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر انصار ابوبکر کی بیعت سے پہلے آپ کی یہ باتیں سن لیتے تو دو نفر بھی آپ کے بارے میں شک نہیں کرتے۔ رات کو علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا‎ء کو سواری پر بٹھا کر انصار سے مدد مانگنے چلے گئے لیکن وہ کہتے تھے: اے دختر پیغمبر خدا اگر آپ کے شوہر ابوبکر سے پہلے آکر ہم سے بیعت مانگتے تو ہم ان کو ابوبکر کے برابر نہیں جانتے....<ref>الامامہ، ۱، ص۱۱-۱۲؛ قس: مفید، الاختصاص، ۱۸۴-۱۸۷؛ طبرسی، احمد، ۱، ص۹۵-۹۶</ref>
بشیربن سعد انصاری نے علی علیہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر انصار ابوبکر کی بیعت سے پہلے آپ کی یہ باتیں سن لیتے تو دو نفر بھی آپ کے بارے میں شک نہیں کرتے۔ رات کو علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا‎ء کو سواری پر بٹھا کر انصار سے مدد مانگنے چلے گئے لیکن وہ کہتے تھے: اے دختر پیغمبر خدا اگر آپ کے شوہر ابوبکر سے پہلے آکر ہم سے بیعت مانگتے تو ہم ان کو ابوبکر کے برابر نہیں جانتے۔۔۔۔<ref>الامامہ، ۱، ص۱۱-۱۲؛ قس: مفید، الاختصاص، ۱۸۴-۱۸۷؛ طبرسی، احمد، ۱، ص۹۵-۹۶</ref>


دوسری روایت میں شاید پہلی روایت کا کچھ حصہ آگے پیچھے ہو کر ذکر ہوا ہے۔ جسمیں یوں ذکر ہوا ہے: جن لوگوں نے بیعت سے انکار کر کے علی علیہ السلام کے پاس گئے تھے ابوبکر نے انکے بارے میں سوالات کیا اور عمر کو ان کے پاس بھیجا۔ عمر علی علیہ السلام کے دروازے پر پہنچا اور انکو بلایا لیکن وہ لوگ باہر نہیں آ‎ئے۔ پھر عمر نے لکڑی مانگا<ref>بلاذری کی روایت کے مطابق، انساب، ۱، ص۵۸۶؛ عمر ہاتھ میں آگ کا شعلہ لیے آگے بڑھا</ref>اور کہا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے، اگر باہر نہیں آ‎ئے تو گھر کو افراد سمیت آگ لگا دونگا۔ اسے کہا گیا: اے ابو حفص، اگر فاطمہ اس گھر میں ہو تو کیا کرو گے؟ کہا: اگر وہ موجود ہو تو بھی آگ لگا دونگا۔.<ref>قس: بلاذری، ج۱، ص۵۸۶</ref> پھر علی علیہ السلام کے علاوہ سب باہر آ‎ئے اور بیعت کی....<ref>الامامہ، ۱، ص۱۲</ref> ان مطالب کے بعد، جو کچھ رونما ہوا اس کی تفصیل، یعنی علی علیہ السلام کا پیغام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے غضبناک کلمات، علی سے بیعت لینے کے لیے پے درپے عمر کی طرف سے ابھارے ہو‎ئے گروہوں کو بھیجنا، علی کو مسجد لے جانا، قتل کی دھمکی، علی علیہ السلام کے تند کلمات، حضرت فاطمہ کا آہ و نالہ اور بد دعا، اور آخر کار ابوبکر کا رونا اور بیعت واپس لینے کی درخواست کا ذکر ہوا ہے۔.<ref>الامامہ، ۱، ص۱۳-۱۴؛ قس: ابن عبدربہ، ۴، ص۲۵۹-۲۶۰؛ یعقوبی، ۲، ص۱۲۶؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۲؛ مفید، الارشاد، ۱۸۵-۱۸۷، الجمل، ۵۶-۵۷</ref>
دوسری روایت میں شاید پہلی روایت کا کچھ حصہ آگے پیچھے ہو کر ذکر ہوا ہے۔ جسمیں یوں ذکر ہوا ہے: جن لوگوں نے بیعت سے انکار کر کے علی علیہ السلام کے پاس گئے تھے ابوبکر نے انکے بارے میں سوالات کیا اور عمر کو ان کے پاس بھیجا۔ عمر علی علیہ السلام کے دروازے پر پہنچا اور انکو بلایا لیکن وہ لوگ باہر نہیں آ‎ئے۔ پھر عمر نے لکڑی مانگا<ref>بلاذری کی روایت کے مطابق، انساب، ۱، ص۵۸۶؛ عمر ہاتھ میں آگ کا شعلہ لیے آگے بڑھا</ref>اور کہا: اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے، اگر باہر نہیں آ‎ئے تو گھر کو افراد سمیت آگ لگا دونگا۔ اسے کہا گیا: اے ابو حفص، اگر فاطمہ اس گھر میں ہو تو کیا کرو گے؟ کہا: اگر وہ موجود ہو تو بھی آگ لگا دونگا۔۔<ref>قس: بلاذری، ج۱، ص۵۸۶</ref> پھر علی علیہ السلام کے علاوہ سب باہر آ‎ئے اور بیعت کی۔۔۔۔<ref>الامامہ، ۱، ص۱۲</ref> ان مطالب کے بعد، جو کچھ رونما ہوا اس کی تفصیل، یعنی علی علیہ السلام کا پیغام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے غضبناک کلمات، علی سے بیعت لینے کے لیے پے درپے عمر کی طرف سے ابھارے ہو‎ئے گروہوں کو بھیجنا، علی کو مسجد لے جانا، قتل کی دھمکی، علی علیہ السلام کے تند کلمات، حضرت فاطمہ کا آہ و نالہ اور بد دعا، اور آخر کار ابوبکر کا رونا اور بیعت واپس لینے کی درخواست کا ذکر ہوا ہے۔۔<ref>الامامہ، ۱، ص۱۳-۱۴؛ قس: ابن عبدربہ، ۴، ص۲۵۹-۲۶۰؛ یعقوبی، ۲، ص۱۲۶؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۲؛ مفید، الارشاد، ۱۸۵-۱۸۷، الجمل، ۵۶-۵۷</ref>


امام علی علیہ السلام کے حامیوں نے بیعت کے دوران علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں اپنا عقیدہ اور احساسات کا اظہار کیا۔ سلمان فارسی کے بعض کلمات جو بعض فارسی میں ہیں اور بعض عربی میں جنکو اہل سنت کے منابع میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: کرداذ و ناکرداذ یعنی کیا اور نہیں کیا ہے، اگر علی کی بیعت کرتے تو ہمیشہ فایدے میں تھے۔.<ref>بلاذری، انساب، ۱، ص۵۹۱؛ طبرسی، احمد، ۱، ص۹۹</ref>
امام علی علیہ السلام کے حامیوں نے بیعت کے دوران علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں اپنا عقیدہ اور احساسات کا اظہار کیا۔ سلمان فارسی کے بعض کلمات جو بعض فارسی میں ہیں اور بعض عربی میں جنکو اہل سنت کے منابع میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: کرداذ و ناکرداذ یعنی کیا اور نہیں کیا ہے، اگر علی کی بیعت کرتے تو ہمیشہ فایدے میں تھے۔۔<ref>بلاذری، انساب، ۱، ص۵۹۱؛ طبرسی، احمد، ۱، ص۹۹</ref>


بعض منابع میں کچھ سیاسی یا عقیدتی مصلحتوں کی وجہ سے اس روایت کو کامل بیان کرنے بلکہ اس کی طرف اشارہ کرنے سے بھی گریز کیا ہے۔ لیکن دانستہ یا نادانستہ طور پر ابوبکر کے بیماری کے بسترے پر کہے ہو‎ئے جملے ذکر کر کے ان باتوں کی تا‎ئید کی ہے۔ روایات کے مطابق ابوبکر نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں کہا ہے : ہاں، جو کچھ دنیا میں انجام پایا ہے اس پر افسوس نہیں کرتا ہوں، صرف تین ایسے کام کیا ہوں کاش انکو انجام نہ دیا ہوتا۔۔۔ کاش فاطمہ کے گھر کو اگر جنگ کی قصد سے ہی بند کیا تھا تو بھی اس کو نہ کھولتا....<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۴۳۰-۴۳۱؛ مسعودی، مروج، ۲، ص۳۰۸؛ قس: یعقوبی، ۲، ص۱۳۷؛ ابن عبدربہ، ۴، ص۲۶۸؛ ہندی، ۵، ص۶۳۱-۶۳۲</ref>اسی طرح جب بنی ہاشم نے عبد اللہ بن زبیر کی بیعت سے انکار کیا تو اس نے بھی انکو جلانے کی دھمکی تو اس کے بھا‎ئی عروہ بن زبیر نے اس کام کو توجیہ کرنے کے لیے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملے کا واقعہ سے استناد کیا.<ref>مروج‌الذہب،ج‌۳، ص:۷۷</ref>
بعض منابع میں کچھ سیاسی یا عقیدتی مصلحتوں کی وجہ سے اس روایت کو کامل بیان کرنے بلکہ اس کی طرف اشارہ کرنے سے بھی گریز کیا ہے۔ لیکن دانستہ یا نادانستہ طور پر ابوبکر کے بیماری کے بسترے پر کہے ہو‎ئے جملے ذکر کر کے ان باتوں کی تا‎ئید کی ہے۔ روایات کے مطابق ابوبکر نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں کہا ہے : ہاں، جو کچھ دنیا میں انجام پایا ہے اس پر افسوس نہیں کرتا ہوں، صرف تین ایسے کام کیا ہوں کاش انکو انجام نہ دیا ہوتا۔۔۔ کاش فاطمہ کے گھر کو اگر جنگ کی قصد سے ہی بند کیا تھا تو بھی اس کو نہ کھولتا۔۔۔۔<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۴۳۰-۴۳۱؛ مسعودی، مروج، ۲، ص۳۰۸؛ قس: یعقوبی، ۲، ص۱۳۷؛ ابن عبدربہ، ۴، ص۲۶۸؛ ہندی، ۵، ص۶۳۱-۶۳۲</ref>اسی طرح جب بنی ہاشم نے عبد اللہ بن زبیر کی بیعت سے انکار کیا تو اس نے بھی انکو جلانے کی دھمکی تو اس کے بھا‎ئی عروہ بن زبیر نے اس کام کو توجیہ کرنے کے لیے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملے کا واقعہ سے استناد کیا۔<ref>مروج‌الذہب،ج‌۳، ص:۷۷</ref>
باوجود اس کے کہ عمر ابن خطاب مسجد نبوی کی منبر سے سقیفہ کی گزارش دیتے ہو‎ئے کہتا ہے: «علی، زبیر اور چند دیگر لوگ ہم سے منہ پھیر کر فاطمہ کے گھر پر جمع ہو‎ئے تھے»<ref>ابن ہشام، ۴، ص۳۰۸-۳۱۰؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۴-۲۰۵</ref> اس بات سے وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ علی نے بیعت سے انکار کیا ہے اور ایک گروہ آپ سے ملحق ہو‎ئے ہیں۔ لیکن اہل سنت کے مورخین، صرف بعض کے علاوہ اس بات کو بیان کرنے اور تفصیل ذکر کرنے کی طرف ما‎ئل ہوتے نظر نہیں آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک روایت میں جس کے سلسلہ سند میں سیف کا نام بھی نظر آتا ہے۔<ref>سیف کی روایات مردود ہونے کے بارے میں، نک: عسکری، ۱، ص۶۹-۸۶، ۲، ص۲۹-۳۴</ref>، یوں ذکر ہوا ہے: جب علی نے سنا کہ ابوبکر بیعت لے رہا ہے تو تاخیر کے خوف سے جلدی سےایک قمیص پہن کر ردا اور ازار کے بغیر مسجد پہنچے تاکہ بیعت کرسکے اور جب ابوبکر کی ساتھ بیٹھ گئے تو کسی کو گھر بھیجا تاکہ کپڑوں کو مسجد لاسکے۔.<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۷</ref>
باوجود اس کے کہ عمر ابن خطاب مسجد نبوی کی منبر سے سقیفہ کی گزارش دیتے ہو‎ئے کہتا ہے: «علی، زبیر اور چند دیگر لوگ ہم سے منہ پھیر کر فاطمہ کے گھر پر جمع ہو‎ئے تھے»<ref>ابن ہشام، ۴، ص۳۰۸-۳۱۰؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۴-۲۰۵</ref> اس بات سے وہ خود اعتراف کرتا ہے کہ علی نے بیعت سے انکار کیا ہے اور ایک گروہ آپ سے ملحق ہو‎ئے ہیں۔ لیکن اہل سنت کے مورخین، صرف بعض کے علاوہ اس بات کو بیان کرنے اور تفصیل ذکر کرنے کی طرف ما‎ئل ہوتے نظر نہیں آتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان میں سے ایک روایت میں جس کے سلسلہ سند میں سیف کا نام بھی نظر آتا ہے۔<ref>سیف کی روایات مردود ہونے کے بارے میں، نک: عسکری، ۱، ص۶۹-۸۶، ۲، ص۲۹-۳۴</ref>، یوں ذکر ہوا ہے: جب علی نے سنا کہ ابوبکر بیعت لے رہا ہے تو تاخیر کے خوف سے جلدی سےایک قمیص پہن کر ردا اور ازار کے بغیر مسجد پہنچے تاکہ بیعت کرسکے اور جب ابوبکر کی ساتھ بیٹھ گئے تو کسی کو گھر بھیجا تاکہ کپڑوں کو مسجد لاسکے۔۔<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۷</ref>


=== بیعت کے دوران ===
=== بیعت کے دوران ===
علی علیہ السلام کی [[بیعت]] سے انکار اور ابوبکرکی بیعت کی کیفیت اور زمان کے بارے میں روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض آپس میں متناقض بھی ہیں۔ اور اس حادثہ کی شرح مختلف منابع میں کچھ کچھ ذکر ہوا ہے اور چونکہ ہر روایت کو جدا اور دوسری روایت سے بغیر ارتباط کے درج کیا ہے اور واقعات کی ترتیب معین نہیں ہے اس لیے یہ معلوم نہیں ہوسکتا ہے کہ امام علی اور اپکے چاہنے والوں سے بیعت، سقیفہ کے فورا بعد مسجد میں پہنچ کر مانگا یا عمومی بیعت کے بعد، یا پیغمبر اکرم کے دفن کے بعد.<ref>نک: بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۲؛ یعقوبی، ۲، ص۱۲۴-۱۲۶</ref>
علی علیہ السلام کی [[بیعت]] سے انکار اور ابوبکرکی بیعت کی کیفیت اور زمان کے بارے میں روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض آپس میں متناقض بھی ہیں۔ اور اس حادثہ کی شرح مختلف منابع میں کچھ کچھ ذکر ہوا ہے اور چونکہ ہر روایت کو جدا اور دوسری روایت سے بغیر ارتباط کے درج کیا ہے اور واقعات کی ترتیب معین نہیں ہے اس لیے یہ معلوم نہیں ہوسکتا ہے کہ امام علی اور اپکے چاہنے والوں سے بیعت، سقیفہ کے فورا بعد مسجد میں پہنچ کر مانگا یا عمومی بیعت کے بعد، یا پیغمبر اکرم کے دفن کے بعد۔<ref>نک: بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۲؛ یعقوبی، ۲، ص۱۲۴-۱۲۶</ref>


ان روایات کو دو گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک گروہ مختصر اختلاف کے ساتھ اس بات کی حامل ہیں کہ عمومی بیعت کے بعد علی علیہ السلام نے رضایت سے یا مجبوری سے ابوبکر کی بیعت کی ہے۔<ref>بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۵، ۵۸۷؛ الامامہ، ۱، ص۱۱</ref>بعض تاریخی نقل کے مطابق حضرت علی نے چھ مہینے تک ابوبکر کی بیعت سے اجتناب کیا۔<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۸؛ یعقوبی، ۲، ص۱۲۶؛ بلاذری، ج۱، ص۵۸۶؛ ابن عبدربہ، ۲، ص۲۲، ۴، ص۲۶۰؛ ابن حبان، ۲، ص۱۷۰-۱۷۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ۳، ص۲۲۲-۲۲۳؛ مسعودی، التنبیہ، ۲۵۰</ref> اور بعض روایات میں آیا ہے کہ جب تک امام علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی [[بنی ہاشم]] میں سے کسی ایک نے بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۸</ref>اس سے کچھ پہلے یا کچھ بعد میں یہ لوگ اور امام علی علیہ السلام کے کچھ پیروکاروں جیسے حُذیقہ بن الیمان، خزیمہ بن ثابت، ابوایوب انصاری، سلمان، ابوذر، خالدبن سعید و... نے ابوبکر کی بیعت کی.<ref>بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۸؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۳۸۷؛ جعفری، ۵۱-۵۳؛ طبرسی، احمد، ۱، ص۹۵-۱۰۵</ref>
ان روایات کو دو گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک گروہ مختصر اختلاف کے ساتھ اس بات کی حامل ہیں کہ عمومی بیعت کے بعد علی علیہ السلام نے رضایت سے یا مجبوری سے ابوبکر کی بیعت کی ہے۔<ref>بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۵، ۵۸۷؛ الامامہ، ۱، ص۱۱</ref>بعض تاریخی نقل کے مطابق حضرت علی نے چھ مہینے تک ابوبکر کی بیعت سے اجتناب کیا۔<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۸؛ یعقوبی، ۲، ص۱۲۶؛ بلاذری، ج۱، ص۵۸۶؛ ابن عبدربہ، ۲، ص۲۲، ۴، ص۲۶۰؛ ابن حبان، ۲، ص۱۷۰-۱۷۱؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ۳، ص۲۲۲-۲۲۳؛ مسعودی، التنبیہ، ۲۵۰</ref> اور بعض روایات میں آیا ہے کہ جب تک امام علی علیہ السلام نے بیعت نہیں کی [[بنی ہاشم]] میں سے کسی ایک نے بھی ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۸</ref>اس سے کچھ پہلے یا کچھ بعد میں یہ لوگ اور امام علی علیہ السلام کے کچھ پیروکاروں جیسے حُذیقہ بن الیمان، خزیمہ بن ثابت، ابوایوب انصاری، سلمان، ابوذر، خالدبن سعید و۔۔۔ نے ابوبکر کی بیعت کی۔<ref>بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۸؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۳۸۷؛ جعفری، ۵۱-۵۳؛ طبرسی، احمد، ۱، ص۹۵-۱۰۵</ref>


=== بیعت کی وجہ ===
=== بیعت کی وجہ ===
جس چیز نے علی کو ابوبکر کی بیعت پر مجبور کردیا، ارتداد کی بڑھتی ہو‎ئی شرح، مختلف قبا‎ئل کی نافرمانیاں اور جزیرہ عرب پر جھوٹے پیغمبر  کے دعویدار کا ظہور تھا.<ref>بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۷؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۷</ref>بعض منابع میں سیاسی دبا‎‎‎ؤ اور جان کے خطرے کے احتمال کو بیعت قبول کرنے میں موثر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ روایت ہے کہ ایک دن ابوحنیفہ نے مومن طاق سے پوچھا اگر خلافت علی کی مشروع حق تھی تو اپنا حق لینے کے لیے قیام کیوں نہیں کیا؟ آپ نے جواب دیا: ڈر گئے کہیں [[جنات]] سعد ابن عبادہ کی طرح انکو بھی قتل نہ کردیں!.<ref>طبرسی، احمد، ۲، ص۳۸۱</ref>
جس چیز نے علی کو ابوبکر کی بیعت پر مجبور کردیا، ارتداد کی بڑھتی ہو‎ئی شرح، مختلف قبا‎ئل کی نافرمانیاں اور جزیرہ عرب پر جھوٹے پیغمبر  کے دعویدار کا ظہور تھا۔<ref>بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۷؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۷</ref>بعض منابع میں سیاسی دبا‎‎‎ؤ اور جان کے خطرے کے احتمال کو بیعت قبول کرنے میں موثر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ روایت ہے کہ ایک دن ابوحنیفہ نے مومن طاق سے پوچھا اگر خلافت علی کی مشروع حق تھی تو اپنا حق لینے کے لیے قیام کیوں نہیں کیا؟ آپ نے جواب دیا: ڈر گئے کہیں [[جنات]] سعد ابن عبادہ کی طرح انکو بھی قتل نہ کردیں!۔<ref>طبرسی، احمد، ۲، ص۳۸۱</ref>


==فدک==
==فدک==
{{اصلی| فدک}}
{{اصلی| فدک}}
ابوبکر کے اقدامات میں سے ایک، خلافت کے ابتدا‎ئی دنوں میں [[فدک]]  کو چھیننا تھا.<ref>طریحی، ۳، ص۳۷۱؛ نیز نک: ابن ابی الحدید، ۱۶، ص۲۶۸-۲۶۹</ref>بعض اہل سنت کے منابع نے فدک چھینے، فاطمہ کا اعتراض، اپنی حق کا مطالبہ، ابوبکر کا جواب اور پیغمبر کی بیٹی کا ان پر غضبناک ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref>مثلاً طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۷-۲۰۸</ref> اور بعض نے مختلف روایات کو نقل کر کے اس موضوع کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔.<ref>مثلاً بلاذری، فتوح، ۴۴-۴۶</ref>
ابوبکر کے اقدامات میں سے ایک، خلافت کے ابتدا‎ئی دنوں میں [[فدک]]  کو چھیننا تھا۔<ref>طریحی، ۳، ص۳۷۱؛ نیز نک: ابن ابی الحدید، ۱۶، ص۲۶۸-۲۶۹</ref>بعض اہل سنت کے منابع نے فدک چھینے، فاطمہ کا اعتراض، اپنی حق کا مطالبہ، ابوبکر کا جواب اور پیغمبر کی بیٹی کا ان پر غضبناک ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref>مثلاً طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۷-۲۰۸</ref> اور بعض نے مختلف روایات کو نقل کر کے اس موضوع کو زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔۔<ref>مثلاً بلاذری، فتوح، ۴۴-۴۶</ref>


شیعہ محققین نے اہل سنت کے منابع سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ جب سے ابوبکر کے حکم سے فدک چھینا گیا فاطمہ زہرا نے اپنی مختصر عمر کے آخری ایام تک مدینہ کے لوگوں کے حضور میں بار بار فدک پر اپنا حق ثابت کیا ہے۔ اسی طرف ابوبکر کے گماشتوں کا علی سے بیعت لینے کے لیے فاطمہ کے گھر پر حملہ نے فاطمہ کو اتنا ناراض کرایا کہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ابوبکر سے بات نہیں کی اور ابوبکر اور عایشہ کو اپنے جنازے میں شرکت اور تشییع جنازہ سے بھی منع کیا۔.<ref>محقق کرکی، ۷۸؛ امین، ۱، ص۳۱۴؛ نیز نک: بخاری، ۵، ص۸۲؛ مسلم، ۲، ص۱۳۸۰؛ ابن حجر ہیثمی، ۲۵؛ ابن ابی الحدید، ۱۶، ص۲۱۸</ref>
شیعہ محققین نے اہل سنت کے منابع سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ جب سے ابوبکر کے حکم سے فدک چھینا گیا فاطمہ زہرا نے اپنی مختصر عمر کے آخری ایام تک مدینہ کے لوگوں کے حضور میں بار بار فدک پر اپنا حق ثابت کیا ہے۔ اسی طرف ابوبکر کے گماشتوں کا علی سے بیعت لینے کے لیے فاطمہ کے گھر پر حملہ نے فاطمہ کو اتنا ناراض کرایا کہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ابوبکر سے بات نہیں کی اور ابوبکر اور عایشہ کو اپنے جنازے میں شرکت اور تشییع جنازہ سے بھی منع کیا۔۔<ref>محقق کرکی، ۷۸؛ امین، ۱، ص۳۱۴؛ نیز نک: بخاری، ۵، ص۸۲؛ مسلم، ۲، ص۱۳۸۰؛ ابن حجر ہیثمی، ۲۵؛ ابن ابی الحدید، ۱۶، ص۲۱۸</ref>


کہا جاتا ہے کہ ایک بار ابوبکر حضرت فاطمہ کی دلیلوں کو سننے کے بعد روتا ہو‎ا فدک پر فاطمہ کی ملکیت کی سند تیار کیا لیکن [[عمر بن خطاب|عمر]] کو اس موضوع کی خبر ملی تو ابوبکر پر اعتراض کیا اور سند کو اس سے لیے کر پھاڑ دیا.<ref>حلبی، ۳، ص۳۶۲</ref>
کہا جاتا ہے کہ ایک بار ابوبکر حضرت فاطمہ کی دلیلوں کو سننے کے بعد روتا ہو‎ا فدک پر فاطمہ کی ملکیت کی سند تیار کیا لیکن [[عمر بن خطاب|عمر]] کو اس موضوع کی خبر ملی تو ابوبکر پر اعتراض کیا اور سند کو اس سے لیے کر پھاڑ دیا۔<ref>حلبی، ۳، ص۳۶۲</ref>
اہل سنت کے بعض علما نے فدک چھیننے کو [[اجتہاد]] اور [[خلیفہ]] کے اختیارات میں سے قرار دیا ہے۔ لیکن ابوبکر کے دور میں چھینی ہو‎ئی املاک میں سے صرف یہی فدک تھا جبکہ اس کے مقابلے میں بیت المال سے اپنی خلافت کو مستحکم کرنے کے لیے جو بذل و بخشش کا ذکر ہوا ہے، اسی لیے شیعوں نے اس پر تنقید کی ہے۔ اور فاطمہ کی ناراضگی، پیغمبر اکرم کی ارشادات کے سا‎ئے میں اللہ اور اسکے رسول کو ناراض کرانا ہے، کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور ابوبکر کے عیوب میں سے شمار کیا ہے.<ref>نک: ابن ابی الحدید، ۱، ص۲۲۲؛ مفید، الجمل، ۵۹</ref>
اہل سنت کے بعض علما نے فدک چھیننے کو [[اجتہاد]] اور [[خلیفہ]] کے اختیارات میں سے قرار دیا ہے۔ لیکن ابوبکر کے دور میں چھینی ہو‎ئی املاک میں سے صرف یہی فدک تھا جبکہ اس کے مقابلے میں بیت المال سے اپنی خلافت کو مستحکم کرنے کے لیے جو بذل و بخشش کا ذکر ہوا ہے، اسی لیے شیعوں نے اس پر تنقید کی ہے۔ اور فاطمہ کی ناراضگی، پیغمبر اکرم کی ارشادات کے سا‎ئے میں اللہ اور اسکے رسول کو ناراض کرانا ہے، کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور ابوبکر کے عیوب میں سے شمار کیا ہے۔<ref>نک: ابن ابی الحدید، ۱، ص۲۲۲؛ مفید، الجمل، ۵۹</ref>


==جیش اسامہ کا بھیجنا==
==جیش اسامہ کا بھیجنا==
فدک ضبط کرنے کے بعد ابوبکر کی حکومت کا پہلا یا دوسرا اقدام جیش اسامہ کو تیار کرنا تھا [[جزیرہ العرب]] میں بحران کے باوجود (بعض قبا‎ئل کا مرتد ہونا، جھوٹے نبیوں کے دعویداروں کا ظہور ہونا، یہود اور نصاری کی بغاوتیں اور دوسری افراتفریوں کے باوجود اور اپنے دو مشاور عمر اور ابوعبیدہ کے نظریے کے برخلاف کہ وہ جیش اسامہ کو اس حساس دور میں بھیجنا مناسب نہیں سمجھتے تھے؛ شاید پیغمبر کے احکام کو جاری کرنا ضروری سمجھتا تھا اور مخالفوں کو جواب میں یوں کہا: « اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں ابوبکر کی جان ہے اگر مجھے درندوں کی طرف سے جان کا خوف ہو تب بھی اسامہ کی فوج کو پیغبمر کے حکم کے مطابق روانہ کرونگا۔...».<ref>واقدی. ۲، ص۱۱۲۱؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۲۵-۲۲۶؛ ابن حبّان، ۲، ص۱۶۱؛ عظم، ۲۴-۲۵؛ فیاض، ۱۳۳</ref>
فدک ضبط کرنے کے بعد ابوبکر کی حکومت کا پہلا یا دوسرا اقدام جیش اسامہ کو تیار کرنا تھا [[جزیرہ العرب]] میں بحران کے باوجود (بعض قبا‎ئل کا مرتد ہونا، جھوٹے نبیوں کے دعویداروں کا ظہور ہونا، یہود اور نصاری کی بغاوتیں اور دوسری افراتفریوں کے باوجود اور اپنے دو مشاور عمر اور ابوعبیدہ کے نظریے کے برخلاف کہ وہ جیش اسامہ کو اس حساس دور میں بھیجنا مناسب نہیں سمجھتے تھے؛ شاید پیغمبر کے احکام کو جاری کرنا ضروری سمجھتا تھا اور مخالفوں کو جواب میں یوں کہا: « اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں ابوبکر کی جان ہے اگر مجھے درندوں کی طرف سے جان کا خوف ہو تب بھی اسامہ کی فوج کو پیغبمر کے حکم کے مطابق روانہ کرونگا۔۔۔۔»۔<ref>واقدی۔ ۲، ص۱۱۲۱؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۲۵-۲۲۶؛ ابن حبّان، ۲، ص۱۶۱؛ عظم، ۲۴-۲۵؛ فیاض، ۱۳۳</ref>


<!--
<!--
== جنگوں میں شرکت==
== جنگوں میں شرکت==
ابھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کی خبر پورے جزیرہ عرب میں نہیں پہنچی تھی بہت سارے علاقوں میں مختلف صورتوں میں عکس العمل سامنے آنے شروع ہو‎ئے۔ بعض منابع کے مطابق ابوبکر جن لوگوں کے ساتھ ارتداد کے نام پر لڑے ان میں سے اکثر نمازی تھے؛ یعنی [[توحید]] اور [[نبوت]] پر ایمان رکھتے تھے۔ شاید یہ لوگ ابوبکر کو خلیفہ نہیں مانتے تھے یا اسکو زکات دینے سے انکار کرتے تھے ابن کثیر کے کہنے کے مطابق<ref>ابن کثیر، ج۶، ص۳۱۱</ref> ابن ماجہ کے علاوہ تمام اہل حدیث نے لکھا ہے کہ عمر نے ابوبکر پر اعتراض کیا کہ تم کیسے پیغمبر کی سنت کے برخلاف ایسے لوگ کے ساتھ لڑ رہے ہو جو اللہ کی وحدانیت اور محمد کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں؟ ابوبکر نے جواب میں کہا: ۔۔۔۔۔ خدا کی قسم ان لوگوں کے ساتھ جنگ لڑوں گا جو نماز اور زکات کے درمیان فرق کے قا‎ئل ہیں۔ طبری نے بھی لکھا ہے کہ اعرابیوں کے مختلف گروہ مدینہ آتے تھے جو نماز کو مانتے تھے لیکن زکات دینے سے انکار کرتے تھے۔<ref>ابن کثیر، ج۶، ص۳۱۱</ref>مخالفوں میں کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو ابوبکر کی خلافت پر اعتراض کر کے زکات دینے سے انکار کرتے تھے۔.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۴۶؛ ابن کثیر، ج۶، ص۳۱۱</ref>
ابھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت کی خبر پورے جزیرہ عرب میں نہیں پہنچی تھی بہت سارے علاقوں میں مختلف صورتوں میں عکس العمل سامنے آنے شروع ہو‎ئے۔ بعض منابع کے مطابق ابوبکر جن لوگوں کے ساتھ ارتداد کے نام پر لڑے ان میں سے اکثر نمازی تھے؛ یعنی [[توحید]] اور [[نبوت]] پر ایمان رکھتے تھے۔ شاید یہ لوگ ابوبکر کو خلیفہ نہیں مانتے تھے یا اسکو زکات دینے سے انکار کرتے تھے ابن کثیر کے کہنے کے مطابق<ref>ابن کثیر، ج۶، ص۳۱۱</ref> ابن ماجہ کے علاوہ تمام اہل حدیث نے لکھا ہے کہ عمر نے ابوبکر پر اعتراض کیا کہ تم کیسے پیغمبر کی سنت کے برخلاف ایسے لوگ کے ساتھ لڑ رہے ہو جو اللہ کی وحدانیت اور محمد کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں؟ ابوبکر نے جواب میں کہا: ۔۔۔۔۔ خدا کی قسم ان لوگوں کے ساتھ جنگ لڑوں گا جو نماز اور زکات کے درمیان فرق کے قا‎ئل ہیں۔ طبری نے بھی لکھا ہے کہ اعرابیوں کے مختلف گروہ مدینہ آتے تھے جو نماز کو مانتے تھے لیکن زکات دینے سے انکار کرتے تھے۔<ref>ابن کثیر، ج۶، ص۳۱۱</ref>مخالفوں میں کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو ابوبکر کی خلافت پر اعتراض کر کے زکات دینے سے انکار کرتے تھے۔۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۴۶؛ ابن کثیر، ج۶، ص۳۱۱</ref>
بعض محققین کے مطابق ان دنوں جزیرہ عرب میں ثابت قدم مسلمانوں کے علاوہ تین قسم کے لوگ تھے۔ 1۔ ایک گروہ جو مکمل اسلام سے پلٹ گئے تھے۔ 2۔ ایک گروہ جو صرف زکات دینے سے انکاری تھا۔ لیکن نماز کو مانتے اور قبول کرتے تھے۔ 3۔ اکثریت جو انتظار میں تھے۔.<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۲۴۱؛ فیاض، ص۱۳۳؛ اہل ردہ سے مربوط مسا‎ئل کی تفصیلات جاننے کے لیے، نک‌: طبری، تاریخ، ۳، ص۲۴۱-۳۴۲</ref>
بعض محققین کے مطابق ان دنوں جزیرہ عرب میں ثابت قدم مسلمانوں کے علاوہ تین قسم کے لوگ تھے۔ 1۔ ایک گروہ جو مکمل اسلام سے پلٹ گئے تھے۔ 2۔ ایک گروہ جو صرف زکات دینے سے انکاری تھا۔ لیکن نماز کو مانتے اور قبول کرتے تھے۔ 3۔ اکثریت جو انتظار میں تھے۔۔<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۲۴۱؛ فیاض، ص۱۳۳؛ اہل ردہ سے مربوط مسا‎ئل کی تفصیلات جاننے کے لیے، نک‌: طبری، تاریخ، ۳، ص۲۴۱-۳۴۲</ref>


بعض لوگ ان جنگوں کو، اسی طرح [[خالد بن ولید]] کے ہاتھوں [[مالک ابن نویرہ]] کا قتل اور ابوبکر کی طرف سے خالد کی حمایت کو کتاب اور سنت کے خلاف اور ابوبکر کے مطاعن میں سے شمار کرتے تھے.<ref>سیدمرتضی، ۴، ص۱۶۱-۱۶۷؛ طباطبائی، شیعہ، ۱۱</ref>اہل سنت کے بعض بزرگ جیسے [[ابوقتادہ انصاری]]، [[عبداللہ بن عمر]] یہاں تک کہ خود [[عمر]]  کا نظریہ بھی مالک ابن نویرہ کے قتل میں شیعہ علماء نظریہ کے مطابق ہے.<ref>یعقوبی، ۲، ص۱۳۱-۱۳۲؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۷۸-۲۸۰؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ۴، ص۲۹۵-۲۹۶؛ ابوالفداء، ۲، ص۶۵</ref>
بعض لوگ ان جنگوں کو، اسی طرح [[خالد بن ولید]] کے ہاتھوں [[مالک ابن نویرہ]] کا قتل اور ابوبکر کی طرف سے خالد کی حمایت کو کتاب اور سنت کے خلاف اور ابوبکر کے مطاعن میں سے شمار کرتے تھے۔<ref>سیدمرتضی، ۴، ص۱۶۱-۱۶۷؛ طباطبائی، شیعہ، ۱۱</ref>اہل سنت کے بعض بزرگ جیسے [[ابوقتادہ انصاری]]، [[عبداللہ بن عمر]] یہاں تک کہ خود [[عمر]]  کا نظریہ بھی مالک ابن نویرہ کے قتل میں شیعہ علماء نظریہ کے مطابق ہے۔<ref>یعقوبی، ۲، ص۱۳۱-۱۳۲؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۷۸-۲۸۰؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ۴، ص۲۹۵-۲۹۶؛ ابوالفداء، ۲، ص۶۵</ref>


ابوبکر نے جیسا کہ فوجی سربراہوں کو حکم دیا تھا اور خود بھی اپنی نرمخو‎ئی کے باوجود مخالفوں کو دبانے اور سزا میں بہت مصمم تھا۔ اور روایات کے مطابق فُجائہ سُلَمی (ایاس بن عبد یالیل) کے ساتھ جو سلوک کیا اس بات کی دلیل ہے۔ ایاس نے ابوبکر سے مرتد لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لیے اسلحہ لیا تھا اور لیکن انہی اسلحوں کے زریعے سے مسلمانوں کی لوٹ مار شروع کی۔  اس کی گرفتاری کے بعد ابوبکر نے مدینہ کے مصلی (جہاں نماز پڑھی جاتی ہے۔) میں ایک وسیع آگ جلانے کا حکم دیا اور ایاس کو کپڑے میں لپیٹ کر آگ میں ڈال دیا.<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۲۶۴؛ ابوعلی مسکویہ، ۱، ص۱۶۸؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۳۵۰-۳۵۱ </ref>
ابوبکر نے جیسا کہ فوجی سربراہوں کو حکم دیا تھا اور خود بھی اپنی نرمخو‎ئی کے باوجود مخالفوں کو دبانے اور سزا میں بہت مصمم تھا۔ اور روایات کے مطابق فُجائہ سُلَمی (ایاس بن عبد یالیل) کے ساتھ جو سلوک کیا اس بات کی دلیل ہے۔ ایاس نے ابوبکر سے مرتد لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لیے اسلحہ لیا تھا اور لیکن انہی اسلحوں کے زریعے سے مسلمانوں کی لوٹ مار شروع کی۔  اس کی گرفتاری کے بعد ابوبکر نے مدینہ کے مصلی (جہاں نماز پڑھی جاتی ہے۔) میں ایک وسیع آگ جلانے کا حکم دیا اور ایاس کو کپڑے میں لپیٹ کر آگ میں ڈال دیا۔<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۲۶۴؛ ابوعلی مسکویہ، ۱، ص۱۶۸؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۳۵۰-۳۵۱ </ref>
اسطرح سے ابوبکر نے اسلام کے دشمن اور اپنی حکومت کے مخالفوں کو سرکوب کیا اور مسلمانوں کی مدد سے نزدیکی علاقوں میں کی جانے والی بغاوت کو مختصر وقت، تقریبا دو مہینے کی مدت میں (جمادی‌الاول یا جمادی‌الآخر ۱۱ہ ق سے اسی سال کے آخر تک) اور دور کے علاقوں کی بغاوت اور جعلی پیغمبروں [[اسود عنسی]]، [[طلیحہ بن خویلد]]، [[سجاح]] اور [[مسیلمہ]]  کے فتنوں کو دوسرے سال کے درمیان تک کنٹرول کیا اور صرف ایک سال کی مدت میں جزیرہ عرب کو پیغمبر  اکرم کے دور کی طرح اسلامی پرچم تلے جمع کیا۔ .<ref>ان کامیابیوں کی تفصیلات کے لیے، نک: بلاذری، فتوح، ۸۹-۱۱۵؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۲۷-۳۴۲؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۳۳۶-۳۸۳؛ اوچ اوک، جم؛ دروزہ، ۳۸-۶۵ </ref>
اسطرح سے ابوبکر نے اسلام کے دشمن اور اپنی حکومت کے مخالفوں کو سرکوب کیا اور مسلمانوں کی مدد سے نزدیکی علاقوں میں کی جانے والی بغاوت کو مختصر وقت، تقریبا دو مہینے کی مدت میں (جمادی‌الاول یا جمادی‌الآخر ۱۱ہ ق سے اسی سال کے آخر تک) اور دور کے علاقوں کی بغاوت اور جعلی پیغمبروں [[اسود عنسی]]، [[طلیحہ بن خویلد]]، [[سجاح]] اور [[مسیلمہ]]  کے فتنوں کو دوسرے سال کے درمیان تک کنٹرول کیا اور صرف ایک سال کی مدت میں جزیرہ عرب کو پیغمبر  اکرم کے دور کی طرح اسلامی پرچم تلے جمع کیا۔ ۔<ref>ان کامیابیوں کی تفصیلات کے لیے، نک: بلاذری، فتوح، ۸۹-۱۱۵؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۲۷-۳۴۲؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۳۳۶-۳۸۳؛ اوچ اوک، جم؛ دروزہ، ۳۸-۶۵ </ref>
-->
-->


سطر 195: سطر 195:
===ایران پر حملہ===
===ایران پر حملہ===
{{اصلی|ایران پر قبضہ}}
{{اصلی|ایران پر قبضہ}}
ابوبکر کی خلافت کے دوران داخلی بحران اور مسلسل بادشاہ تبدیل ہونے کی وجہ سے تیسفون میں [[ساسانی حکومت|ساسانیوں]]  کی حکومت کمزور ہو‎ئی تھی اور ختم ہونے کو تیار تھی۔ ایک مسلمان بنام[[مثنی بن حارثہ]] [[مدینہ]] آ‎یا اور خلیفہ سے [[ایران]] پر حملہ کرنے کی درخواست کی۔ ابوبکر نے پہلے خود اسی شخص کو اس کام پر مامور کیا لیکن بعد میں [[خالد بن ولید]] کو حکم دیا کہ [[عراق]] چلا جا‎ئے اور مثنی کو بھی ایک خط کے ذریعے لکھا کہ وہ بھی خالد سے ملے اور اسکی پیروی کرے.<ref>فتوح، ۲۴۲؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۳۴۳، ۳۴۴، ۳۴۶</ref>ان جنگوں میں ساسانی کمانڈروں پر بہت جلدی کامیابی ملی اور ایران کے مختلف علاقے فتح کئے اور [[۱۲ہجری قمری|۱۲]] صفر کے مہینے میں حیرہ نامی شہر پر قبضہ بھی کیا۔<ref>نک: بلاذری، فتوح، ۲۴۳-۲۴۴؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۳۴۴، ۳۴۵، ۳۴۸، ۳۵۱، ۳۵۳، ۳۵۵، ۳۵۸؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۳۸۴-۳۸۹؛ زرین‌کوب، ۳۴۶-۳۵۰</ref>
ابوبکر کی خلافت کے دوران داخلی بحران اور مسلسل بادشاہ تبدیل ہونے کی وجہ سے تیسفون میں [[ساسانی حکومت|ساسانیوں]]  کی حکومت کمزور ہو‎ئی تھی اور ختم ہونے کو تیار تھی۔ ایک مسلمان بنام[[مثنی بن حارثہ]] [[مدینہ]] آ‎یا اور خلیفہ سے [[ایران]] پر حملہ کرنے کی درخواست کی۔ ابوبکر نے پہلے خود اسی شخص کو اس کام پر مامور کیا لیکن بعد میں [[خالد بن ولید]] کو حکم دیا کہ [[عراق]] چلا جا‎ئے اور مثنی کو بھی ایک خط کے ذریعے لکھا کہ وہ بھی خالد سے ملے اور اسکی پیروی کرے۔<ref>فتوح، ۲۴۲؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۳۴۳، ۳۴۴، ۳۴۶</ref>ان جنگوں میں ساسانی کمانڈروں پر بہت جلدی کامیابی ملی اور ایران کے مختلف علاقے فتح کئے اور [[۱۲ہجری قمری|۱۲]] صفر کے مہینے میں حیرہ نامی شہر پر قبضہ بھی کیا۔<ref>نک: بلاذری، فتوح، ۲۴۳-۲۴۴؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۳۴۴، ۳۴۵، ۳۴۸، ۳۵۱، ۳۵۳، ۳۵۵، ۳۵۸؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۳۸۴-۳۸۹؛ زرین‌کوب، ۳۴۶-۳۵۰</ref>


===شام پر حملہ===
===شام پر حملہ===
{{اصلی|شام پر فتح}}
{{اصلی|شام پر فتح}}
[[۱۲ق |۱۲ہجری قمری]] کو ابوبکر نے [[شام]] پر حملہ کرنے کے لیے افراد اور جنگی سازوسامان تیار کرنا شروع کیا<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۳۸۷، قس: ۳، ص۳۸۶</ref> ایک فوج تیار کی۔ اور اس فوج نے شام میں کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی۔.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ۱۱۵-۱۱۶؛ قس: طبری، تاریخ، ۳، ص۴۰۶</ref>ان کامیابیوں کی وجہ سے بیزانس بادشاہ نے ایک بہت بڑی فوج تیارکیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں بھیج دیا اور یرموک کے مقام پر دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو‎ئیں۔ مسلمانوں نے ابوبکر سے مدد مانگی خلیفہ نے [[خالد بن ولید]] کو عراق سے شام جانے کا حکم دیا.<ref>بلاذری، فتوح، ۱۴۰-۱۴۱؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۳۹۲-۳۱۴</ref>روم کے بعض فوجیوں پر صوبہ حوران کے شہر بصری اور اجنادین میں کامیابی کے بعد خالد یرموک پہنچا اور جنگ کی کشمکش میں [[مدینہ]] سے [[عمر بن خطاب|عمر]] کی طرف سے خط لیکر ایک قاصد یرموک پہنچا جسمیں ابوبکر کی موت، عمر کی خلافت اور شام کی جنگی فوج کی سپہ سالاری سے خالد کو عزل کر کے [[ابوعبیدہ جراح|ابوعبیدہ]] منصوب کرنے کی خبر تھی لیکن مسلمانوں کی کامیابی تک اس خبر کو مخفی رکھا۔.<ref> بلاذری، فتوح، ص۱۱۸-۱۲۲؛ طبری، تاریخ ۳، ص۳۹۵، ۴۰۶-۴۰۷، ۴۳۴؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۰۷-۴۱۸ </ref>
[[۱۲ق |۱۲ہجری قمری]] کو ابوبکر نے [[شام]] پر حملہ کرنے کے لیے افراد اور جنگی سازوسامان تیار کرنا شروع کیا<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۳۸۷، قس: ۳، ص۳۸۶</ref> ایک فوج تیار کی۔ اور اس فوج نے شام میں کچھ کامیابیاں بھی حاصل کی۔۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ۱۱۵-۱۱۶؛ قس: طبری، تاریخ، ۳، ص۴۰۶</ref>ان کامیابیوں کی وجہ سے بیزانس بادشاہ نے ایک بہت بڑی فوج تیارکیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں بھیج دیا اور یرموک کے مقام پر دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو‎ئیں۔ مسلمانوں نے ابوبکر سے مدد مانگی خلیفہ نے [[خالد بن ولید]] کو عراق سے شام جانے کا حکم دیا۔<ref>بلاذری، فتوح، ۱۴۰-۱۴۱؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۳۹۲-۳۱۴</ref>روم کے بعض فوجیوں پر صوبہ حوران کے شہر بصری اور اجنادین میں کامیابی کے بعد خالد یرموک پہنچا اور جنگ کی کشمکش میں [[مدینہ]] سے [[عمر بن خطاب|عمر]] کی طرف سے خط لیکر ایک قاصد یرموک پہنچا جسمیں ابوبکر کی موت، عمر کی خلافت اور شام کی جنگی فوج کی سپہ سالاری سے خالد کو عزل کر کے [[ابوعبیدہ جراح|ابوعبیدہ]] منصوب کرنے کی خبر تھی لیکن مسلمانوں کی کامیابی تک اس خبر کو مخفی رکھا۔۔<ref> بلاذری، فتوح، ص۱۱۸-۱۲۲؛ طبری، تاریخ ۳، ص۳۹۵، ۴۰۶-۴۰۷، ۴۳۴؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۰۷-۴۱۸ </ref>
==قرآن کی جمع‌آوری ==
==قرآن کی جمع‌آوری ==
{{اصلی|قرآن}}
{{اصلی|قرآن}}
پیغمبر اکرم کی رحلت اور مختلف حوادث جیسے ([[۱۱ق |۱۱ ہجری قمری]]) کو [[یمامہ کے واقعہ]] کی وجہ سے بہت سارے صحابی اور قاری [[قرآن]] قتل ہونے کے بعد، مسلمانوں نے قرآن کی جمع آوری کا شدت سے احساس کیا۔ اس بارے میں مختلف روایات کی روشنی میں، صحیح اطلاعات تک پہنچنا بہت دشوار ہے یہاں تک کہ اس بارے میں ابوبکر کے کردار کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ بخاری میں [[زید بن ثابت]] سے نقل ہوا ہے: یمامہ میں قتل و کشتار کے بعد ابوبکر، عمر کے مشورے سے زید کو بلاتا ہے۔ اور قرآن کی جمع آوری اس کے ذمے لگاتا ہے اور زید کچھ عرصہ سوچنے کے بعد اس کام کو شروع کرتا ہے اور آیات اور سورتوں کو ہر جگہ سے جمع کرتا ہے۔ جن میں سے بعض سورتیں اور آیتیں خرما کے پتوں اور سفید پتھر پر درج تھے جبکہ بعض، لوگوں کے سینوں میں تھے۔ مثلا سورہ توبہ کی آخری دو آیتوں کو [[خزیمہ بن ثابت]] (ذوشہادتین) کے پاس پاتا ہے.<ref>بخاری، ج۶، ص۹۸</ref>اسی لیے اس صحف کی روایت ابوبکر کے پاس تھی پھر اسکے بعد عمر کے پاس پہنچی اس کے مرنے کے بعد عمر کی بیٹی، [[حفصہ بنت عمر|حفصہ]] کے پاس پہنچی. <ref>بخاری، ج۶، ص۹۸-۹۹؛ رامیار، ۳۰۴ بہ بعد</ref>دوسری روایات کے مطالعے سے زید کے مصحف کے بارے میں، اسکی جمع آوری کی کیفیت، زید کے مشاور اور دوستوں، اور نیز کن صحیفوں سے اس نے استفادہ کیا ہے اور۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے۔ اسی روایات کی وجہ سے[[عثمان بن عفان|عثمان]] نے اس مصحف کو حفصہ سے امانت لیا اور دوسرے مصحفوں کے جلانے کے باوجود یہ مصحف حفصہ کو واپس کردیا۔ [[معاویہ بن ابوسفیان|معاویہ]] کے دور خلافت میں، [[مروان بن حکم]] (حک ۶۴-۶۵ق، ص۶۸۳-۶۸۴م) جب [[مدینہ]] کا گورنر تھا اس نے حفصہ سے یہ نسخہ مانگا لیکن اس نے دینے سے انکار کردیا حفصہ(۴۵ق، ص۶۶۵م)  مرنے کے بعد یہ نسخہ [[عبداللہ بن عمر]] کو ملا اورمروان نے پھر کسی کو بھیجا اور عبد اللہ سے لانے کے بعد اسکو جلانے کا حکم دیا تاکہ عثمانی مصحفوں میں کسی قسم کا شبہہ ایجاد نہ ہوجا‎ئے.<ref>رامیار، ۳۰۴ کے بعد</ref>
پیغمبر اکرم کی رحلت اور مختلف حوادث جیسے ([[۱۱ق |۱۱ ہجری قمری]]) کو [[یمامہ کے واقعہ]] کی وجہ سے بہت سارے صحابی اور قاری [[قرآن]] قتل ہونے کے بعد، مسلمانوں نے قرآن کی جمع آوری کا شدت سے احساس کیا۔ اس بارے میں مختلف روایات کی روشنی میں، صحیح اطلاعات تک پہنچنا بہت دشوار ہے یہاں تک کہ اس بارے میں ابوبکر کے کردار کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ بخاری میں [[زید بن ثابت]] سے نقل ہوا ہے: یمامہ میں قتل و کشتار کے بعد ابوبکر، عمر کے مشورے سے زید کو بلاتا ہے۔ اور قرآن کی جمع آوری اس کے ذمے لگاتا ہے اور زید کچھ عرصہ سوچنے کے بعد اس کام کو شروع کرتا ہے اور آیات اور سورتوں کو ہر جگہ سے جمع کرتا ہے۔ جن میں سے بعض سورتیں اور آیتیں خرما کے پتوں اور سفید پتھر پر درج تھے جبکہ بعض، لوگوں کے سینوں میں تھے۔ مثلا سورہ توبہ کی آخری دو آیتوں کو [[خزیمہ بن ثابت]] (ذوشہادتین) کے پاس پاتا ہے۔<ref>بخاری، ج۶، ص۹۸</ref>اسی لیے اس صحف کی روایت ابوبکر کے پاس تھی پھر اسکے بعد عمر کے پاس پہنچی اس کے مرنے کے بعد عمر کی بیٹی، [[حفصہ بنت عمر|حفصہ]] کے پاس پہنچی۔ <ref>بخاری، ج۶، ص۹۸-۹۹؛ رامیار، ۳۰۴ بہ بعد</ref>دوسری روایات کے مطالعے سے زید کے مصحف کے بارے میں، اسکی جمع آوری کی کیفیت، زید کے مشاور اور دوستوں، اور نیز کن صحیفوں سے اس نے استفادہ کیا ہے اور۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے۔ اسی روایات کی وجہ سے[[عثمان بن عفان|عثمان]] نے اس مصحف کو حفصہ سے امانت لیا اور دوسرے مصحفوں کے جلانے کے باوجود یہ مصحف حفصہ کو واپس کردیا۔ [[معاویہ بن ابوسفیان|معاویہ]] کے دور خلافت میں، [[مروان بن حکم]] (حک ۶۴-۶۵ق، ص۶۸۳-۶۸۴م) جب [[مدینہ]] کا گورنر تھا اس نے حفصہ سے یہ نسخہ مانگا لیکن اس نے دینے سے انکار کردیا حفصہ(۴۵ق، ص۶۶۵م)  مرنے کے بعد یہ نسخہ [[عبداللہ بن عمر]] کو ملا اورمروان نے پھر کسی کو بھیجا اور عبد اللہ سے لانے کے بعد اسکو جلانے کا حکم دیا تاکہ عثمانی مصحفوں میں کسی قسم کا شبہہ ایجاد نہ ہوجا‎ئے۔<ref>رامیار، ۳۰۴ کے بعد</ref>


==حکومت کرنے کا طریقہ==
==حکومت کرنے کا طریقہ==
ابوبکر نے اپنے اس مختصر دور خلافت میں کو‎ئی اہم کام نہیں کیا اور کسی نظام کی بنیاد نہیں رکھ سکا بلکہ خلافت کا بیشتر وقت جنگوں میں گزرا.<ref>نک: EI۱</ref>وہ اپنی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا تھآ کہ وہ قرآن اور پیغمبر اکرم کی سنت کی پیروی کرتا ہے۔ بعض اقدامات جیسے جیش [[اسامہ بن زید|اسامہ]] کو اکثر صحابیوں کی مخالفت کے باوجود بھیج دینا اس بات پر گواہ ہے۔ لیکن حکومت کی مصلحت اقتضا کرتی تو اجتہاد بالرای سے مشکلات کو حل کرتا تھا۔ ابن سعد ابن سیرین سے نقل کرتے ہو‎ئے لکھتا ہے۔ پیغمبر اکرم کے بعد اجتہاد بالرای کرنے میں ابوبکر سب سے زیادہ دلیر تھے۔ ابوبکر کہتا تھا کہ میں اپنی رای میں اجتہاد کرتا ہوں اگر یہ رای حق کے مطابق ہو تو خدا کی طرف سے ہے اور خطا ہو تو میری طرف سے ہے اور اس سے معافی مانگتا ہوں.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۷-۱۷۸</ref>
ابوبکر نے اپنے اس مختصر دور خلافت میں کو‎ئی اہم کام نہیں کیا اور کسی نظام کی بنیاد نہیں رکھ سکا بلکہ خلافت کا بیشتر وقت جنگوں میں گزرا۔<ref>نک: EI۱</ref>وہ اپنی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا تھآ کہ وہ قرآن اور پیغمبر اکرم کی سنت کی پیروی کرتا ہے۔ بعض اقدامات جیسے جیش [[اسامہ بن زید|اسامہ]] کو اکثر صحابیوں کی مخالفت کے باوجود بھیج دینا اس بات پر گواہ ہے۔ لیکن حکومت کی مصلحت اقتضا کرتی تو اجتہاد بالرای سے مشکلات کو حل کرتا تھا۔ ابن سعد ابن سیرین سے نقل کرتے ہو‎ئے لکھتا ہے۔ پیغمبر اکرم کے بعد اجتہاد بالرای کرنے میں ابوبکر سب سے زیادہ دلیر تھے۔ ابوبکر کہتا تھا کہ میں اپنی رای میں اجتہاد کرتا ہوں اگر یہ رای حق کے مطابق ہو تو خدا کی طرف سے ہے اور خطا ہو تو میری طرف سے ہے اور اس سے معافی مانگتا ہوں۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۷-۱۷۸</ref>
اگر چہ مشہور ہے کہ دیوان عطا پہلی بار عمر کی خلافت میں تاسیس ہوا<ref>ابوعبید، ۲۳۱-۲۳۱؛ ماوردی، ۲۴۹</ref>لیکن منابع میں جو آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر کے دور میں ایک طرح کا دیوان عطا موجود تھا۔ اور ابن سعد <ref>ابن سعد، ج۳، ص۲۱۳</ref> اور ابن اثیر<ref>ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۲</ref> کے کہنے کے مطابق ابوبکر مدینہ منتقل ہونے تک بیت المال سنح میں تھا اور اس پر کو‎ئی چوکیدار بھی نہیں تھا چونکہ جو کچھ بیت المال پہنچتا تھا اسی وقت مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوتا تھا اور کچھ باقی نہیں رہتا تھا۔ اور مدینہ منتقل ہونے کے بعد بیت المال اپنے گھر پر بنادیا۔ ابویوسف کے بیان کے مطابق ابوبکر کی خلافت کے پہلے سال [[بحرین]] سے کچھ رقم بیت المال پہنچی تو اس سے کچھ مقدار ان لوگوں میں تقسیم کیا جن کو پیغمبر  اکرم نے کچھ دینے کا وعدہ دیا تھا۔ اور باقی رقم کو چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام اور مرد، عورت میں برابر تقسیم کردیا جو ہر شخص کو سات درہم اور ایک درہم کا ایک تہا‎ئی حصہ ملا۔ اگلے سال زیادہ مال پہنچا تو ہر ایک کو 20 درہم مل گئے۔ اس کام میں بھی ابوبکر نے [[پیغمبر (ص)]] کی سنت پر عمل کیا تھا۔ اور شرافت اور ماضی کو مدنظر رکھ کر تقسیم کرنے کی تجاویز کو قبول نہیں کیا۔ ابن سعد کہتا ہے.<ref>ص ۴۲</ref> ابوبکر مرنے کے بعد عمر نے بزرگوں اور معتمد شخصیات کی موجودگی میں بیت المال کو کھولا تو ایک تھیلی سے گری ہو‎ئی ایک دینار کے سوا کچھ نہیں پایا. <ref>ابن سعد، ج۳، ۲ ۲۱۳؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۴۲۲؛ یعقوبی، ۲، ص۱۳۴، ۱۵۴</ref>
اگر چہ مشہور ہے کہ دیوان عطا پہلی بار عمر کی خلافت میں تاسیس ہوا<ref>ابوعبید، ۲۳۱-۲۳۱؛ ماوردی، ۲۴۹</ref>لیکن منابع میں جو آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر کے دور میں ایک طرح کا دیوان عطا موجود تھا۔ اور ابن سعد <ref>ابن سعد، ج۳، ص۲۱۳</ref> اور ابن اثیر<ref>ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۲</ref> کے کہنے کے مطابق ابوبکر مدینہ منتقل ہونے تک بیت المال سنح میں تھا اور اس پر کو‎ئی چوکیدار بھی نہیں تھا چونکہ جو کچھ بیت المال پہنچتا تھا اسی وقت مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوتا تھا اور کچھ باقی نہیں رہتا تھا۔ اور مدینہ منتقل ہونے کے بعد بیت المال اپنے گھر پر بنادیا۔ ابویوسف کے بیان کے مطابق ابوبکر کی خلافت کے پہلے سال [[بحرین]] سے کچھ رقم بیت المال پہنچی تو اس سے کچھ مقدار ان لوگوں میں تقسیم کیا جن کو پیغمبر  اکرم نے کچھ دینے کا وعدہ دیا تھا۔ اور باقی رقم کو چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام اور مرد، عورت میں برابر تقسیم کردیا جو ہر شخص کو سات درہم اور ایک درہم کا ایک تہا‎ئی حصہ ملا۔ اگلے سال زیادہ مال پہنچا تو ہر ایک کو 20 درہم مل گئے۔ اس کام میں بھی ابوبکر نے [[پیغمبر (ص)]] کی سنت پر عمل کیا تھا۔ اور شرافت اور ماضی کو مدنظر رکھ کر تقسیم کرنے کی تجاویز کو قبول نہیں کیا۔ ابن سعد کہتا ہے۔<ref>ص ۴۲</ref> ابوبکر مرنے کے بعد عمر نے بزرگوں اور معتمد شخصیات کی موجودگی میں بیت المال کو کھولا تو ایک تھیلی سے گری ہو‎ئی ایک دینار کے سوا کچھ نہیں پایا۔ <ref>ابن سعد، ج۳، ۲ ۲۱۳؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۴۲۲؛ یعقوبی، ۲، ص۱۳۴، ۱۵۴</ref>


==حکومتی عہدے دار==
==حکومتی عہدے دار==
ابوبکر کی خلافت کے دو سال اور کچھ مہینے جنگ میں گزر گئے جبکہ [[ایران]] اور [[شام]] کے ساتھ جنگ جاری تھی اور ابوبکر مرگیا۔ اسی لیے اس کی حکومت کے اکثر ذمہ داران فوجی سپہ سالار تھے۔ کتابوں میں اس کی حکومت کے ذمہ داروں کو یوں بیان کیا ہے۔ [[عمر بن خطاب]] کو عدلیہ کا عہدہ؛ [[ابوعبیدہ]] کو [[بیت المال]] کا انچارج [[عتاب بن اسید|عتّاب بن اسید]] [[مکہ]] کا عامل؛ [[عثمان بن ابی‌العاص]] کو [[طائف]] کا عامل اور.... [[زید بن ثابت]] اور [[عثمان بن عفان]] کتابت کے امور کو نبھاتے تھے.<ref>ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۰-۴۲۱</ref> طبری کے مطابق، زید اور عثمان صرف خبروں کو لکھتے تھے.<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۶؛ دوسرے ناموں کے لیے، نک: طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۷؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۰-۴۲۱؛ ابن حبان، ۲، ص۱۹۵؛ یعقوبی، ۲، ص۱۳۸</ref> جب بھی ابوبکر [[مدینہ]] میں نہیں ہوتے تھے تو [[نماز]] پڑھانے کی ذمہ داری عمر کو دی جاتی تھی، عثمان اور اسامہ میں سے کسی کو مدینہ میں اپنا جانشین بناتا تھا.<ref>ابن حبان، ۲، ص۱۸۲، ۱۹۱؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۴۱، ۲۴۷</ref>  یعقوبی نے ابوبکر کے دور کے فقہاء کے نام کو یوں بیان کیا ہے: [[علی(ع)]]، عمر بن خطاب، [[معاذ بن جبل]]، [[ابی بن کعب|اُبّی بن کعب]]، زید بن ثابت اور [[عبداللہ بن مسعود]].<ref>یعقوبی، ج۲، ص۱۳۸</ref>
ابوبکر کی خلافت کے دو سال اور کچھ مہینے جنگ میں گزر گئے جبکہ [[ایران]] اور [[شام]] کے ساتھ جنگ جاری تھی اور ابوبکر مرگیا۔ اسی لیے اس کی حکومت کے اکثر ذمہ داران فوجی سپہ سالار تھے۔ کتابوں میں اس کی حکومت کے ذمہ داروں کو یوں بیان کیا ہے۔ [[عمر بن خطاب]] کو عدلیہ کا عہدہ؛ [[ابوعبیدہ]] کو [[بیت المال]] کا انچارج [[عتاب بن اسید|عتّاب بن اسید]] [[مکہ]] کا عامل؛ [[عثمان بن ابی‌العاص]] کو [[طائف]] کا عامل اور۔۔۔۔ [[زید بن ثابت]] اور [[عثمان بن عفان]] کتابت کے امور کو نبھاتے تھے۔<ref>ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۰-۴۲۱</ref> طبری کے مطابق، زید اور عثمان صرف خبروں کو لکھتے تھے۔<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۶؛ دوسرے ناموں کے لیے، نک: طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۷؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۰-۴۲۱؛ ابن حبان، ۲، ص۱۹۵؛ یعقوبی، ۲، ص۱۳۸</ref> جب بھی ابوبکر [[مدینہ]] میں نہیں ہوتے تھے تو [[نماز]] پڑھانے کی ذمہ داری عمر کو دی جاتی تھی، عثمان اور اسامہ میں سے کسی کو مدینہ میں اپنا جانشین بناتا تھا۔<ref>ابن حبان، ۲، ص۱۸۲، ۱۹۱؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۴۱، ۲۴۷</ref>  یعقوبی نے ابوبکر کے دور کے فقہاء کے نام کو یوں بیان کیا ہے: [[علی(ع)]]، عمر بن خطاب، [[معاذ بن جبل]]، [[ابی بن کعب|اُبّی بن کعب]]، زید بن ثابت اور [[عبداللہ بن مسعود]]۔<ref>یعقوبی، ج۲، ص۱۳۸</ref>


==جانشین معین کرنا==
==جانشین معین کرنا==
عمر کو جانشین منتخب کرنے کی گزارش اس وقت کی دوسری گزارشات کی طرح مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر روایات میں یہ بات نقل ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر نے بعض اصحاب جیسے [[عبدالرحمن بن عوف]] اور [[سعد بن ابی وقاص]] اور دوسرے بعض اصحاب، بیوی، بیٹی [[عایشہ]]  اور بیٹوں سے مشورت کیا ہے اور ان تمام روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابوبکر، عمر کو اپنا جانشین بنانے میں مصمم تھے کیونکہ عمر کی جانشینی کی مخالفت کرنے والے ہر مشاور کی بات کو رد کرتے تھے.<ref>ابن حبان، ۲، ص۱۹۱-۱۹۲؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۸؛ الامامہ، ۱، ص۱۹؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۵</ref> اس کے علاوہ دیگر کچھ شواہد بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر پہلے ہی سے یہ نیت کرچکے تھے اس کہ مثالوں میں؛ [[سقیفہ]] میں عمر کو خلافت کی تجویز دینا؛ نماز کی امامت اور عدلیہ کو عمر کے سپرد کرنا انکی نظر میں عمر کی دوسروں پر برتری کی بہت اہم دلیل ہے اور معاشرے کی امامت کے برابر ہے؛ عمر کو مدینہ میں خلیفہ کا مددگار اور یاور کے عنوان سے مدینہ میں رکھنے کے لیے [[اسامہ بن زید|اسامہ]] سے اجازت لینا
عمر کو جانشین منتخب کرنے کی گزارش اس وقت کی دوسری گزارشات کی طرح مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر روایات میں یہ بات نقل ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر نے بعض اصحاب جیسے [[عبدالرحمن بن عوف]] اور [[سعد بن ابی وقاص]] اور دوسرے بعض اصحاب، بیوی، بیٹی [[عایشہ]]  اور بیٹوں سے مشورت کیا ہے اور ان تمام روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ابوبکر، عمر کو اپنا جانشین بنانے میں مصمم تھے کیونکہ عمر کی جانشینی کی مخالفت کرنے والے ہر مشاور کی بات کو رد کرتے تھے۔<ref>ابن حبان، ۲، ص۱۹۱-۱۹۲؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۸؛ الامامہ، ۱، ص۱۹؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۵</ref> اس کے علاوہ دیگر کچھ شواہد بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر پہلے ہی سے یہ نیت کرچکے تھے اس کہ مثالوں میں؛ [[سقیفہ]] میں عمر کو خلافت کی تجویز دینا؛ نماز کی امامت اور عدلیہ کو عمر کے سپرد کرنا انکی نظر میں عمر کی دوسروں پر برتری کی بہت اہم دلیل ہے اور معاشرے کی امامت کے برابر ہے؛ عمر کو مدینہ میں خلیفہ کا مددگار اور یاور کے عنوان سے مدینہ میں رکھنے کے لیے [[اسامہ بن زید|اسامہ]] سے اجازت لینا


طبری <ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۹</ref> اور ابن حبان<ref>۲، ص۱۹۲</ref> کی گزارش کے مطابق ابوبکر نے عثمان کو تنہا‎ئی میں بلایا اور کہا: «لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم. یہ ابوبکر بن ابی قحافہ کا مسلمانوں سے وعدہ ہے، اما بعد...». ابوبکر یہی پر اسی حالت میں بےہوش ہوگیا اور عثمان نے اپنی طرف سے لکھا: «اما بعد، میں نے عمر بن خطاب تم پر اپنا جانشین معین کیا ہے اور تم لوگوں کے ساتھ اچھا‎ئی کرنے میں کو‎ئی کسر باقی نہیں رکھا ہے». جب ابوبکر کو ہوش آیا اور کہا: پڑھو کیا لکھا ہے. عثمان نے جو کچھ لکھا تھا پڑھ لیا اور ابوبکر نے جب عمر کا نام سنا تو زبان پر تکبیر جاری کیا اور کہا: کیا تمہیں اس بات کا خوف تھا کہ اگر میں ہوش میں نہ آتا تو لوگوں میں اختلاف ہوجاتا؟ عثمان نے کہا: جی ہاں۔ یعقوبی <ref> یعقوبی، ج۲، ص۱۳۶، ۱۳۷</ref> اور ابن قتیبہ<ref>الامامہ، ج۱، ص۱۹</ref> کی روایت میں ابوبکر بیہوش ہونے کا کو‎ئی ذکر نہیں ہے اور دونوں روایات میں عہد نامہ کا متن دوسرے منابع سے مختلف ہے اور آپس میں بھی بہت اختلاف ہے۔ ابن قتیبہ کی روایت میں یہ متن مفصل اور اس نکتے پر حامل ہے کہ: میرے پاس علم غیب نہیں لیکن میرا گمان یہ ہے کہ وہ عادل شخص ہے اور اگر اس کے برخلاف ہو تو خدا جانتا ہے کہ میرا قصد خیر.<ref>الامامہ، ج۱، ص۱۹؛ نیز نک: مبرد، ۱، ص۱۷، اسی سے ملا جلا مضمون</ref> ابن حبان نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے کہ عثمان کی زبان سے عہدنامہ کا متن سننے کے بعد ابوبکر نے عثمان کے لیے دعا کیا اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہا: خدایا، پیغمبر کی طرف سے کو‎ئی حکم کے بغیر اسکو ولایت دیا ہوں اور اس کام میں لوگوں کی صلاح اور فتنہ سے بچانے کے سوا اور کو‎ئی غرض نہیں ہے۔۔۔۔۔ اجتہاد بالرای سے بہترین اور طاقتور ترین شخص کو ان پر مسلط کیا ہے اور عمر کی طرفداری کا بالکل بھی قصد نہیں تھا .<ref>۲، ص۱۹۲-۱۹۳</ref> الامامہ کی روایت میں ابوبکر کی باتوں میں ایک اور عبارت بھی ذکر ہو‎ئی ہے اس نے لوگوں کو مخاطب ہوکر کہا: اگر تم لوگ چاہتے ہو تو تم لوگ آپس میں بیٹھ کر صلح مشورے سے جس کو چاہتے ہو ولایت دے دو لیکن اگر اجازت ہو تو میں اپنی اجتہاد سے کسی کو معین کرونگا۔۔۔۔۔ پھر رونے لگا اور لوگوں نے بھی روتے ہو‌ۓ کہا: اے پیغمبر خدا کے جانشین، آپ ہم سے بہتر اور عاقل ہو۔۔۔۔ پھر عمر کو بلایا اور اپنا خط اسے دیا اور لوگوں کے لیے پڑھنے کا کہا۔ اس وقت کسی نے کہا اے ابوحفص، اس خط میں کیا لکھا ہے؟ جواب میں کہا مجھے نہیں معلوم، لیکن جو کچھ بھی ہو میں پہلا وہ شخص ہونگا جو اس کو سن لونگا اور اطاعت کرونگا۔ تو اس شخص نے کہا خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ اس خط میں کیا لکھا ہے۔ پہلے سال تم نے اسے امیر بنا دیا اور اب وہ تجھے امیر بنا چکا ہے.<ref>الامامہ، ج۱، ص۱۹-۲۰؛ قس: ابن سعد، ۳، ص۱۹۹-۲۰۰؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۸-۴۳۰؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۵-۴۲۷</ref>
طبری <ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۹</ref> اور ابن حبان<ref>۲، ص۱۹۲</ref> کی گزارش کے مطابق ابوبکر نے عثمان کو تنہا‎ئی میں بلایا اور کہا: «لکھو: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ ابوبکر بن ابی قحافہ کا مسلمانوں سے وعدہ ہے، اما بعد۔۔۔»۔ ابوبکر یہی پر اسی حالت میں بےہوش ہوگیا اور عثمان نے اپنی طرف سے لکھا: «اما بعد، میں نے عمر بن خطاب تم پر اپنا جانشین معین کیا ہے اور تم لوگوں کے ساتھ اچھا‎ئی کرنے میں کو‎ئی کسر باقی نہیں رکھا ہے»۔ جب ابوبکر کو ہوش آیا اور کہا: پڑھو کیا لکھا ہے۔ عثمان نے جو کچھ لکھا تھا پڑھ لیا اور ابوبکر نے جب عمر کا نام سنا تو زبان پر تکبیر جاری کیا اور کہا: کیا تمہیں اس بات کا خوف تھا کہ اگر میں ہوش میں نہ آتا تو لوگوں میں اختلاف ہوجاتا؟ عثمان نے کہا: جی ہاں۔ یعقوبی <ref> یعقوبی، ج۲، ص۱۳۶، ۱۳۷</ref> اور ابن قتیبہ<ref>الامامہ، ج۱، ص۱۹</ref> کی روایت میں ابوبکر بیہوش ہونے کا کو‎ئی ذکر نہیں ہے اور دونوں روایات میں عہد نامہ کا متن دوسرے منابع سے مختلف ہے اور آپس میں بھی بہت اختلاف ہے۔ ابن قتیبہ کی روایت میں یہ متن مفصل اور اس نکتے پر حامل ہے کہ: میرے پاس علم غیب نہیں لیکن میرا گمان یہ ہے کہ وہ عادل شخص ہے اور اگر اس کے برخلاف ہو تو خدا جانتا ہے کہ میرا قصد خیر۔<ref>الامامہ، ج۱، ص۱۹؛ نیز نک: مبرد، ۱، ص۱۷، اسی سے ملا جلا مضمون</ref> ابن حبان نے اپنی روایت میں ذکر کیا ہے کہ عثمان کی زبان سے عہدنامہ کا متن سننے کے بعد ابوبکر نے عثمان کے لیے دعا کیا اور اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف بلند کر کے کہا: خدایا، پیغمبر کی طرف سے کو‎ئی حکم کے بغیر اسکو ولایت دیا ہوں اور اس کام میں لوگوں کی صلاح اور فتنہ سے بچانے کے سوا اور کو‎ئی غرض نہیں ہے۔۔۔۔۔ اجتہاد بالرای سے بہترین اور طاقتور ترین شخص کو ان پر مسلط کیا ہے اور عمر کی طرفداری کا بالکل بھی قصد نہیں تھا ۔<ref>۲، ص۱۹۲-۱۹۳</ref> الامامہ کی روایت میں ابوبکر کی باتوں میں ایک اور عبارت بھی ذکر ہو‎ئی ہے اس نے لوگوں کو مخاطب ہوکر کہا: اگر تم لوگ چاہتے ہو تو تم لوگ آپس میں بیٹھ کر صلح مشورے سے جس کو چاہتے ہو ولایت دے دو لیکن اگر اجازت ہو تو میں اپنی اجتہاد سے کسی کو معین کرونگا۔۔۔۔۔ پھر رونے لگا اور لوگوں نے بھی روتے ہو‌ۓ کہا: اے پیغمبر خدا کے جانشین، آپ ہم سے بہتر اور عاقل ہو۔۔۔۔ پھر عمر کو بلایا اور اپنا خط اسے دیا اور لوگوں کے لیے پڑھنے کا کہا۔ اس وقت کسی نے کہا اے ابوحفص، اس خط میں کیا لکھا ہے؟ جواب میں کہا مجھے نہیں معلوم، لیکن جو کچھ بھی ہو میں پہلا وہ شخص ہونگا جو اس کو سن لونگا اور اطاعت کرونگا۔ تو اس شخص نے کہا خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ اس خط میں کیا لکھا ہے۔ پہلے سال تم نے اسے امیر بنا دیا اور اب وہ تجھے امیر بنا چکا ہے۔<ref>الامامہ، ج۱، ص۱۹-۲۰؛ قس: ابن سعد، ۳، ص۱۹۹-۲۰۰؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۴۲۸-۴۳۰؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۵-۴۲۷</ref>


==طرز زندگی، شخصیت اور شکل صورت==
==طرز زندگی، شخصیت اور شکل صورت==
ابوبکر کا قد لمبا، جسم کمزور، چہرہ سفید تھا انکی پیشانی چوڑی، انکھیں اندر کی طرف دھنسی ہو‎ئی، رخسار پر گوشت کم تھا، مختصر داڑھی جسکو ہمیشہ مہندی یا وسمہ کے ذریعے سے خضاب کرتا تھا اور بعض دفعہ تو زنگ زیادہ کر کے سرخ لگتی تھی.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۸۸-۱۹۱؛ ابن قتیبہ، ص۱۷۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۴</ref>
ابوبکر کا قد لمبا، جسم کمزور، چہرہ سفید تھا انکی پیشانی چوڑی، انکھیں اندر کی طرف دھنسی ہو‎ئی، رخسار پر گوشت کم تھا، مختصر داڑھی جسکو ہمیشہ مہندی یا وسمہ کے ذریعے سے خضاب کرتا تھا اور بعض دفعہ تو زنگ زیادہ کر کے سرخ لگتی تھی۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۸۸-۱۹۱؛ ابن قتیبہ، ص۱۷۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۴</ref>
ابوبکر کو نرم مزاج، چاہا جانے والا اور خوش اخلاق کہا گیا ہے۔ <ref>واقدی، ج۱، ص۱۰۸، ۱۰۹؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۷؛ ابن عبدربہ، ج۳، ص۲۸۴</ref> اور بعض تاریخی کتابوں کے مطابق بہت کمزور دل والا اور زیادہ رونے والا شخص تھا.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ۱۸۰؛ الامامہ، ج۱، ص۱۳-۱۵</ref> بول نے بھی لکھا ہے کہ سواے چند ایک موارد کے علاوہ اس سے تشدد آمیز حرکات نہیں دیکھی گئی ہیں اور مرتدوں کے ساتھ اس کی نرم خو‎ئی اورمفاہمت والے سلوک کو جزیرہ عرب میں دوبارہ امن قا‎ئم کرنے کا سبب سمجھتا ہے۔.<ref>EI۱</ref>
ابوبکر کو نرم مزاج، چاہا جانے والا اور خوش اخلاق کہا گیا ہے۔ <ref>واقدی، ج۱، ص۱۰۸، ۱۰۹؛ طبری، تاریخ، ج۲، ص۳۱۷؛ ابن عبدربہ، ج۳، ص۲۸۴</ref> اور بعض تاریخی کتابوں کے مطابق بہت کمزور دل والا اور زیادہ رونے والا شخص تھا۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ۱۸۰؛ الامامہ، ج۱، ص۱۳-۱۵</ref> بول نے بھی لکھا ہے کہ سواے چند ایک موارد کے علاوہ اس سے تشدد آمیز حرکات نہیں دیکھی گئی ہیں اور مرتدوں کے ساتھ اس کی نرم خو‎ئی اورمفاہمت والے سلوک کو جزیرہ عرب میں دوبارہ امن قا‎ئم کرنے کا سبب سمجھتا ہے۔۔<ref>EI۱</ref>


اس نظریے کے مقابلے میں لامنس اہل سنت کے منابع کی روشنی میں ابوبکر کے بارے میں ایک بہت ہی مختلف نظریے کے قا‎ئل ہے۔
اس نظریے کے مقابلے میں لامنس اہل سنت کے منابع کی روشنی میں ابوبکر کے بارے میں ایک بہت ہی مختلف نظریے کے قا‎ئل ہے۔
وہ لکھتا ہے: ابوبکر روایات میں ایک سادہ مومن، اچھے انسان اور حساس شخص معرفی ہوا ہے جس کی آنکھوں سے جلدی آنسو گرتے تھے، لیکن حقیقت میں وہ ایک طاقتور، قاطع، سخت اور غصہ والا تھا اور بعض دفعہ تو عمر سے بھی زیادہ غصہ کرتا تھا وہ بلاذری<ref>انساب، ج۱، ص۴۱۵</ref>  کی روایت سے مستند کرتے ہو‎ئے لکھتا ہے کہ پیغمبر اکرم بھی ابوبکر کی نسبت یہی نظر رکھتے تھے کیونکہ عایشہ کو غصہ کی حالت میں اسکے اپنے باپ کی واقعی بیٹی کہتے تھے۔ لامنس کے مطابق ابوبکر نہ فقط عمر میں عمر سے بڑا تھا بلکہ ظاہری طور پر بھی ایک خاموش طبع کا مالک نرم مزاجی دور اندیشی اور صبر تحمل کی وجہ سے عمر پر مسلط تھا<ref>قس: یعقوبی، ج۲، ص۱۳۸، کا نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے</ref> اور [[سقیفہ]] میں طفل مکتب کی طرح اس پر قابو کیا اور مرتد لوگوں کی بغاوت کو سرکوب کرنے کے لیے بزرگ صحابوں کی مخالفت کے باوجود اقدام کیا اور مدینہ پر باغیوں کے حملے  کی بھی پرواہ نہیں کیا.<ref>نک: ص۱۲۵-۱۲۷</ref>
وہ لکھتا ہے: ابوبکر روایات میں ایک سادہ مومن، اچھے انسان اور حساس شخص معرفی ہوا ہے جس کی آنکھوں سے جلدی آنسو گرتے تھے، لیکن حقیقت میں وہ ایک طاقتور، قاطع، سخت اور غصہ والا تھا اور بعض دفعہ تو عمر سے بھی زیادہ غصہ کرتا تھا وہ بلاذری<ref>انساب، ج۱، ص۴۱۵</ref>  کی روایت سے مستند کرتے ہو‎ئے لکھتا ہے کہ پیغمبر اکرم بھی ابوبکر کی نسبت یہی نظر رکھتے تھے کیونکہ عایشہ کو غصہ کی حالت میں اسکے اپنے باپ کی واقعی بیٹی کہتے تھے۔ لامنس کے مطابق ابوبکر نہ فقط عمر میں عمر سے بڑا تھا بلکہ ظاہری طور پر بھی ایک خاموش طبع کا مالک نرم مزاجی دور اندیشی اور صبر تحمل کی وجہ سے عمر پر مسلط تھا<ref>قس: یعقوبی، ج۲، ص۱۳۸، کا نظریہ اس کے بالکل برعکس ہے</ref> اور [[سقیفہ]] میں طفل مکتب کی طرح اس پر قابو کیا اور مرتد لوگوں کی بغاوت کو سرکوب کرنے کے لیے بزرگ صحابوں کی مخالفت کے باوجود اقدام کیا اور مدینہ پر باغیوں کے حملے  کی بھی پرواہ نہیں کیا۔<ref>نک: ص۱۲۵-۱۲۷</ref>


واقدی نے جو روایت ابوبکر کی بیٹی اسماء اور آل نَضْاء سے نقل کیا ہے وہ ابوبکر کی تند مزاجی کی تا‎ئید کرتی ہے۔ اس خبر کے مطابق ابوبکر نے پیغمبر اکرم کے حضور احرام کی حالت میں اپنے غلام کو اونٹ، اور زاد سفر گمانے کے جرم میں خوب مارا.<ref>۲، ص۱۰۹۴</ref> لامنس کے مطابق پیغمبر کے پہلے جانشین کی شخصیت جو اسلامی روایات میں پیش کی گئی ہے وہ مختلف عوامل کی وجہ سے بن گئی ہے؛ مختلف دینی، سیاسی، گھریلو، اور قبا‎ئلی و قومی وسا‎ئل کو اس شخصیت کو جلدی سے پھیلانے میں بروے کار لایا گیا ہے۔ اور یہی تصویر انہی منابع کے ذریعے اسلامی مورخین اور مشرق شناس محققین پر بھی تحمیل کی گئی ہے اور یہ تصویر کسی بھی صورت میں ابوبکر کے حقیقی چہرے کی عکاسی نہیں کرتی ہے۔ وہ لکھتا ہے عقیدے کے حوالے سے ابوبکر بہترین اور کامل ترین مسلمان ہونا چاہیے۔ اسی لیے مدینہ کی طاقتور مکتب اور (ابوبکر کے رشتہ دار)آل زبیر کے موثر لکھنے والوں نے اس چہرے کو پیش کرنے میں قدم بڑھایا اور اس کے نتیجے میں ابوبکر کا نام «فضایل» اور «کمالات» کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب ہو‎گئے.<ref>ص ۱۱۴-۱۱۵</ref>
واقدی نے جو روایت ابوبکر کی بیٹی اسماء اور آل نَضْاء سے نقل کیا ہے وہ ابوبکر کی تند مزاجی کی تا‎ئید کرتی ہے۔ اس خبر کے مطابق ابوبکر نے پیغمبر اکرم کے حضور احرام کی حالت میں اپنے غلام کو اونٹ، اور زاد سفر گمانے کے جرم میں خوب مارا۔<ref>۲، ص۱۰۹۴</ref> لامنس کے مطابق پیغمبر کے پہلے جانشین کی شخصیت جو اسلامی روایات میں پیش کی گئی ہے وہ مختلف عوامل کی وجہ سے بن گئی ہے؛ مختلف دینی، سیاسی، گھریلو، اور قبا‎ئلی و قومی وسا‎ئل کو اس شخصیت کو جلدی سے پھیلانے میں بروے کار لایا گیا ہے۔ اور یہی تصویر انہی منابع کے ذریعے اسلامی مورخین اور مشرق شناس محققین پر بھی تحمیل کی گئی ہے اور یہ تصویر کسی بھی صورت میں ابوبکر کے حقیقی چہرے کی عکاسی نہیں کرتی ہے۔ وہ لکھتا ہے عقیدے کے حوالے سے ابوبکر بہترین اور کامل ترین مسلمان ہونا چاہیے۔ اسی لیے مدینہ کی طاقتور مکتب اور (ابوبکر کے رشتہ دار)آل زبیر کے موثر لکھنے والوں نے اس چہرے کو پیش کرنے میں قدم بڑھایا اور اس کے نتیجے میں ابوبکر کا نام «فضایل» اور «کمالات» کے ساتھ پیش کرنے میں کامیاب ہو‎گئے۔<ref>ص ۱۱۴-۱۱۵</ref>
اہل سنت کے علم تاریخ، علم تراجم اور سیرت، کے منابع میں بعض فصل یا حصہ ابوبکر کی فضیلت اور مناقب بیان کرنے کے ساتھ مختص ہو‎ئے ہیں اور قرآن کی بعض آیات جو انکے گمان میں ابوبکر کی شان میں نازل ہو‎ئی ہیں یا پیغمبر اکرم کی کچھ احادیث جو اس کی فضیلت میں بیان ہو‎ئی ہیں، کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے آیہ شریفہ: اِنَّ اللّہ اشْتَری مِنَ المُؤْمِنینَ اَنْفُسَہمْ وَ اَمْوالَہمْ بِاَنَّ الْجَنَّہ<ref>توبہ، ص۹، ص۱۱۱</ref>؛ فَاَمّا مَنْ اَعْطی وَاتَّقی<ref>لیل، ص۹۲، ص۵</ref>؛ ثانی اثْنَینِ... فَاَنْزِلَ اللّہ سَکینَتَہ عَلَیہ<ref>توبہ، ص۹، ص۴۰</ref> و...<ref>عظم، ص۱۴-۱۵؛ نیز نک: ابن حجر ہیتمی، ص۹۸-۱۰۲</ref> اور یہ احادیث: لوکنت متخذاً من امتی خلیلاً لاتخذت ابابکر و لکن اخی وصاحبی<ref>بخاری، ج۴، ص۱۹۱</ref>؛ مَثَل ابوبکر کمثل میکائیل ینزل برضاءاللّہ...<ref>واقدی، ۱، ص۱۰۹</ref> اور بہت ساری احادیث.<ref>مثلاً، نک: ابن ماجہ، ج۱، ص۳۶-۳۸؛ بخاری، ج۴، ص۱۸۹-۱۹۸؛ نیز نک: ابن سعد، ج۳، ص۱۷۵-۱۷۸؛ سیوطی، تاریخ، ص۳۸-۶۸</ref> [[علامہ امینی]] نے کتاب [[الغدیر]] کی ساتویں جلد کا زیادہ حصہ ان روایات کو نقد کرنے سے مختص کیا ہے جو ابوبکر کی فضیلت میں بیان کی گئی ہیں.<ref>۷، ص۸۷-۳۱۲</ref>
اہل سنت کے علم تاریخ، علم تراجم اور سیرت، کے منابع میں بعض فصل یا حصہ ابوبکر کی فضیلت اور مناقب بیان کرنے کے ساتھ مختص ہو‎ئے ہیں اور قرآن کی بعض آیات جو انکے گمان میں ابوبکر کی شان میں نازل ہو‎ئی ہیں یا پیغمبر اکرم کی کچھ احادیث جو اس کی فضیلت میں بیان ہو‎ئی ہیں، کو بیان کیا ہے۔ ان میں سے آیہ شریفہ: اِنَّ اللّہ اشْتَری مِنَ المُؤْمِنینَ اَنْفُسَہمْ وَ اَمْوالَہمْ بِاَنَّ الْجَنَّہ<ref>توبہ، ص۹، ص۱۱۱</ref>؛ فَاَمّا مَنْ اَعْطی وَاتَّقی<ref>لیل، ص۹۲، ص۵</ref>؛ ثانی اثْنَینِ۔۔۔ فَاَنْزِلَ اللّہ سَکینَتَہ عَلَیہ<ref>توبہ، ص۹، ص۴۰</ref> و۔۔۔<ref>عظم، ص۱۴-۱۵؛ نیز نک: ابن حجر ہیتمی، ص۹۸-۱۰۲</ref> اور یہ احادیث: لوکنت متخذاً من امتی خلیلاً لاتخذت ابابکر و لکن اخی وصاحبی<ref>بخاری، ج۴، ص۱۹۱</ref>؛ مَثَل ابوبکر کمثل میکائیل ینزل برضاءاللّہ۔۔۔<ref>واقدی، ۱، ص۱۰۹</ref> اور بہت ساری احادیث۔<ref>مثلاً، نک: ابن ماجہ، ج۱، ص۳۶-۳۸؛ بخاری، ج۴، ص۱۸۹-۱۹۸؛ نیز نک: ابن سعد، ج۳، ص۱۷۵-۱۷۸؛ سیوطی، تاریخ، ص۳۸-۶۸</ref> [[علامہ امینی]] نے کتاب [[الغدیر]] کی ساتویں جلد کا زیادہ حصہ ان روایات کو نقد کرنے سے مختص کیا ہے جو ابوبکر کی فضیلت میں بیان کی گئی ہیں۔<ref>۷، ص۸۷-۳۱۲</ref>


بعض روایات میں حکایت ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر خوابوں کی تعبیر بھی کرتا تھا اور بعض لوگوں، جن میں پیغمبر اکرم بھی شامل ہیں، کے خوابوں کی تعبیر کیا ہے.<ref>واقدی، ج۱، ص۵۰۷، ۵۴۳-۵۴۴، ج۲، ص۷۴۷، ۹۳۶؛ ابن سعد، ج۳، ص۱۷۷</ref> واقدی نے ایک روایت میں اس کی شعرشناسی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے.<ref>۱، ص۸۰۷</ref> ابن اثیر نے بعض اصحاب جیسے عمر، عثمان، علی (ع)، [[عبدالرحمن بن عوف]]، [[ابن مسعود]] اور... کو ابوبکر کے راویوں میں سے شمار کیا ہے.<ref>اسدالغابہ، ج۳، ص۲۰۵</ref> اور ابوبکر ان لوگوں میں سے تھا جو پیغمبر اکرم کی صحبت میں زیادہ رہا کرتا تھا، اس کے باوجود ان سے صرف 142 احادیث نقل ہو‎ئی ہیں۔
بعض روایات میں حکایت ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر خوابوں کی تعبیر بھی کرتا تھا اور بعض لوگوں، جن میں پیغمبر اکرم بھی شامل ہیں، کے خوابوں کی تعبیر کیا ہے۔<ref>واقدی، ج۱، ص۵۰۷، ۵۴۳-۵۴۴، ج۲، ص۷۴۷، ۹۳۶؛ ابن سعد، ج۳، ص۱۷۷</ref> واقدی نے ایک روایت میں اس کی شعرشناسی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔<ref>۱، ص۸۰۷</ref> ابن اثیر نے بعض اصحاب جیسے عمر، عثمان، علی (ع)، [[عبدالرحمن بن عوف]]، [[ابن مسعود]] اور۔۔۔ کو ابوبکر کے راویوں میں سے شمار کیا ہے۔<ref>اسدالغابہ، ج۳، ص۲۰۵</ref> اور ابوبکر ان لوگوں میں سے تھا جو پیغمبر اکرم کی صحبت میں زیادہ رہا کرتا تھا، اس کے باوجود ان سے صرف 142 احادیث نقل ہو‎ئی ہیں۔


ابوبکر سنح میں اپنی بیوی حبیبہ بنت خارجہ کے ساتھ خرما کی خشک شاخوں سے بنے ہو‎ئے ایک کمرے میں رہتے تھے اور بیعت کے 6 یا 7 مہینے گزرنے کے بعد مدینہ آنے تک کو‎ئی چیز اس کی آمدن میں اضافہ نہیں ہو‎ئی، کبھی پیدل اور کبھی گھوڑے پر سوار ہوکر مدینہ آتا تھا اور نماز عشاء کے بعد گھر واپس جاتا تھا۔ سنح میں ہمسایوں کے لیے دودھ دھو لیتا تھا اور انکی بکریاں چراتا تھا اور بیعت کے بعد بھی کافی مدت تک اس کام کو انجام دیتا تھا.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۳۲؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۱۹؛ عظم، ص۸۹، ابن عساکر کی نقل کے مطابق</ref> اور اسی طرح اسی روایت کے مطابق خلافت کے بعد بھی وہ سویرے کاندھے پر کچھ کپڑا رکھ کر روزی کسب کرنے بازار جاتا تھا اور یہ حالت بیت المال کے ذمہ دار، ابوعبیدہ کی طرف سے تنخواہ معین ہونے تک جاری تھی.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۸۴-۱۸۵</ref> ابوبکر کی تنخواہ کی مقدار میں اختلاف ہے: کہا گیا ہے کہ ایک مہاجر کے برابر اس کی تنخواہ معین ہو‎ئی تھی: ہر روز ایک گوسفند یا نصف یا کچھ حصہ روزانہ کی غذا کیلیے سرد اور گرم کپڑے اور اسیطرح سے ہر سال 2500 یا 6000 درہم تک کی بات ذکر ہو‎ئی ہے.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۸۴-۱۸۵؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۳۲</ref>
ابوبکر سنح میں اپنی بیوی حبیبہ بنت خارجہ کے ساتھ خرما کی خشک شاخوں سے بنے ہو‎ئے ایک کمرے میں رہتے تھے اور بیعت کے 6 یا 7 مہینے گزرنے کے بعد مدینہ آنے تک کو‎ئی چیز اس کی آمدن میں اضافہ نہیں ہو‎ئی، کبھی پیدل اور کبھی گھوڑے پر سوار ہوکر مدینہ آتا تھا اور نماز عشاء کے بعد گھر واپس جاتا تھا۔ سنح میں ہمسایوں کے لیے دودھ دھو لیتا تھا اور انکی بکریاں چراتا تھا اور بیعت کے بعد بھی کافی مدت تک اس کام کو انجام دیتا تھا۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۳۲؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۱۹؛ عظم، ص۸۹، ابن عساکر کی نقل کے مطابق</ref> اور اسی طرح اسی روایت کے مطابق خلافت کے بعد بھی وہ سویرے کاندھے پر کچھ کپڑا رکھ کر روزی کسب کرنے بازار جاتا تھا اور یہ حالت بیت المال کے ذمہ دار، ابوعبیدہ کی طرف سے تنخواہ معین ہونے تک جاری تھی۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۸۴-۱۸۵</ref> ابوبکر کی تنخواہ کی مقدار میں اختلاف ہے: کہا گیا ہے کہ ایک مہاجر کے برابر اس کی تنخواہ معین ہو‎ئی تھی: ہر روز ایک گوسفند یا نصف یا کچھ حصہ روزانہ کی غذا کیلیے سرد اور گرم کپڑے اور اسیطرح سے ہر سال 2500 یا 6000 درہم تک کی بات ذکر ہو‎ئی ہے۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۸۴-۱۸۵؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۳۲</ref>


==وفات==
==وفات==
ابوبکر نے [[۷ جمادی‌الثانی]] [[۱۳ ہجری قمری|سال ۱۳ ہجری]] بروز پیر کو ایک ٹھنڈے دن میں غسل کیا اور اسی وجہ سے بخار ہو‎ئی اور لوگوں کو نماز بھی نہ پڑھا سکے اور 15 دن یہ بیماری طول پکڑ گئی۔ اس کی جگہ عمر نماز پڑھاتا تھا لوگ گھر پر انکی عیادت کرنے آتے تھے اور آخر کار 22 جمادی ثانی کو 62 سال کی عمر میں دو سال 3مہینے اور 22 دن خلافت کرنے کے بعد منگل کی شام کو وفات ہوا.<ref>یعقوبی، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۱۹-۴۲۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱، ۱۹۴</ref> ابوبکر کی وصیت کے مطابق انکی بیوی [[اسما بنت عمیس|اسماء]] نے اس کے جنازے کو غسل دیا اور اسی رات کو عمر نے مسجد نبوی میں جنازے پر [[نماز میت|نماز]] پڑھا‎ئی اور عایشہ کو کی گئی وصیت کے مطابق عثمان، طلحہ اور ۔۔۔۔ کی مدد سے پیغمبر اکرم کے جوار میں دفن کیا گیا.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۲۰۳، ۲۰۸، ۲۰۹؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۱-۴۲۲؛ ابن حیان، ج۲، ص۱۹۳، ۱۹۵</ref>
ابوبکر نے [[۷ جمادی‌الثانی]] [[۱۳ ہجری قمری|سال ۱۳ ہجری]] بروز پیر کو ایک ٹھنڈے دن میں غسل کیا اور اسی وجہ سے بخار ہو‎ئی اور لوگوں کو نماز بھی نہ پڑھا سکے اور 15 دن یہ بیماری طول پکڑ گئی۔ اس کی جگہ عمر نماز پڑھاتا تھا لوگ گھر پر انکی عیادت کرنے آتے تھے اور آخر کار 22 جمادی ثانی کو 62 سال کی عمر میں دو سال 3مہینے اور 22 دن خلافت کرنے کے بعد منگل کی شام کو وفات ہوا۔<ref>یعقوبی، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۱۹-۴۲۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱، ۱۹۴</ref> ابوبکر کی وصیت کے مطابق انکی بیوی [[اسما بنت عمیس|اسماء]] نے اس کے جنازے کو غسل دیا اور اسی رات کو عمر نے مسجد نبوی میں جنازے پر [[نماز میت|نماز]] پڑھا‎ئی اور عایشہ کو کی گئی وصیت کے مطابق عثمان، طلحہ اور ۔۔۔۔ کی مدد سے پیغمبر اکرم کے جوار میں دفن کیا گیا۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۲۰۳، ۲۰۸، ۲۰۹؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۱-۴۲۲؛ ابن حیان، ج۲، ص۱۹۳، ۱۹۵</ref>


===آخری عمرمیں کف افسوس مَلنا===
===آخری عمرمیں کف افسوس مَلنا===
بیماری کے بسترے میں ابوبکر سے وصیت کے عنوان سے کچھ باتیں نقل ہو‎ئی ہیں جن میں کچھ باتیں [[عمر]] کی جانشینی اور اس پر کئے جانے والے اعتراضات کے بارے میں ہیں اور بعض باتیں اس کی شخصی زندگی، بیت المال کا حساب کتاب اور اسکے ترکہ کے بارے میں ہیں.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۹۲-۲۰۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۸-۴۳۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱-۱۹۴</ref> ان باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات بھی الفاظ اور معانی میں مختصر اختلاف کے ساتھ منابع میں ذکر ہو‎ئی ہیں جو اس کی آخری عمر میں اندرونی شخصیت کی پہچان اور تاریخ اسلام کے بعض حادثات کی حقیقت کے بارے میں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ باتیں اس نے عبدالرحمن کی باتوں کے جواب میں کہا تھا۔ عبد الرحمن نے کہا: «۔۔۔۔ آپ ہمیشہ مصلح اور صالح تھے اور دنیا کی کسی بات پر مغموم نہ ہوجا‎ئیے» تو ابوبکر نے جواب میں کہا:« جی ہاں، تین کاموں کے علاوہ دنیا کی کسی چیز کی وجہ سے مجھے افسوس نہیں، کاش وہ تین کام انجام نہ دیا ہوتا اور تین کام انجام نہیں دیا کاش انکو انجام دیا ہوتا! اور ان تین کاموں کے بارے میں افسوس ہے جنکا جواب پیغمبر اکرم سے پوچھا تھا۔ جن کاموں کو نہیں کرنا چاہتا تھا اور انجام پایا ان میں سے ایک، [[فاطمہ]] کے گھر کا دروازہ اگرچہ میرے ساتھ جنگ کی قصد سے ہی بند کیا ہو، کاش اسے نہ کھولتا، دوسرا یہ کہ کاش فجا‌‎ئہ سلمی کو جلانے کے بجا‎ئے قتل کرتا یا اسے آزاد کرتا اور تیسرا کام [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں خلافت کو ان دونوں عمر اور [[ابو عبیدہ جراح|ابو عبیدہ]] کی گردن میں ڈال دیتا اور ان میں سے ایک امیر ہوتا اور میں اسکا وزیر بنتا؛...<ref> لیکن وہ تین کام جن کو کرنا چاہیے تھا اور نہیں کیا ان میں سے ایک یہ تھا کہ جب [[اشعث بن قیس]] کو گرفتار کر کے میرے پاس لایا گیا اس وقت کاش اس کی گردن اڑا دیتا چونکہ میرے خیال سے جہاں پر بھی کو‎ئی شرارت ہوتی وہ وہاں پر مددگار تھا۔ دوسرا یہ کہ جب [[خالد بن ولید]] کو مرتدوں کے خلاف جنگ کے لیے بھیجا تو کاش میں خود ذو القصہ میں ٹھہرتا اور جنگ کیلیے تیار اور مدد کرنے کیلیے آمادہ رہتا۔ تیسرا کام یہ تھا کہ جب خالد کو شام بھیجا تھا تو اس وقت عمر کو بھی عراق بھیجتا تاکہ اسطرح سے اپنے دونوں بازووں کو اللہ کی راہ میں پھیلا چکا ہوتا» پھر اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور کہا: «</ref>کاش پیغمبر خدا سے پوچھا ہوتا کہ خلافت کس کا حق ہے تاکہ ہر کو‎ئی اس کے حصول میں جنگ کے لیے تیار نہ ہوسکے، کاش پوچھا ہوتا ہے بھتیجی اور پھوپھی کو ارث ملتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس بارے میں مطمئن نہیں ہوں ».<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۹-۴۳۱؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۳۷؛ الامامہ، ج۱، ص۱۸-۱۹؛ مسعودی، مروج، ج۲، ص۳۰۸-۳۰۹؛ مبرد، ج۱، ص۱۱؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۸- ۲۶۹؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۶-۴۷</ref>
بیماری کے بسترے میں ابوبکر سے وصیت کے عنوان سے کچھ باتیں نقل ہو‎ئی ہیں جن میں کچھ باتیں [[عمر]] کی جانشینی اور اس پر کئے جانے والے اعتراضات کے بارے میں ہیں اور بعض باتیں اس کی شخصی زندگی، بیت المال کا حساب کتاب اور اسکے ترکہ کے بارے میں ہیں۔<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۹۲-۲۰۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۸-۴۳۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱-۱۹۴</ref> ان باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات بھی الفاظ اور معانی میں مختصر اختلاف کے ساتھ منابع میں ذکر ہو‎ئی ہیں جو اس کی آخری عمر میں اندرونی شخصیت کی پہچان اور تاریخ اسلام کے بعض حادثات کی حقیقت کے بارے میں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ باتیں اس نے عبدالرحمن کی باتوں کے جواب میں کہا تھا۔ عبد الرحمن نے کہا: «۔۔۔۔ آپ ہمیشہ مصلح اور صالح تھے اور دنیا کی کسی بات پر مغموم نہ ہوجا‎ئیے» تو ابوبکر نے جواب میں کہا:« جی ہاں، تین کاموں کے علاوہ دنیا کی کسی چیز کی وجہ سے مجھے افسوس نہیں، کاش وہ تین کام انجام نہ دیا ہوتا اور تین کام انجام نہیں دیا کاش انکو انجام دیا ہوتا! اور ان تین کاموں کے بارے میں افسوس ہے جنکا جواب پیغمبر اکرم سے پوچھا تھا۔ جن کاموں کو نہیں کرنا چاہتا تھا اور انجام پایا ان میں سے ایک، [[فاطمہ]] کے گھر کا دروازہ اگرچہ میرے ساتھ جنگ کی قصد سے ہی بند کیا ہو، کاش اسے نہ کھولتا، دوسرا یہ کہ کاش فجا‌‎ئہ سلمی کو جلانے کے بجا‎ئے قتل کرتا یا اسے آزاد کرتا اور تیسرا کام [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں خلافت کو ان دونوں عمر اور [[ابو عبیدہ جراح|ابو عبیدہ]] کی گردن میں ڈال دیتا اور ان میں سے ایک امیر ہوتا اور میں اسکا وزیر بنتا؛۔۔۔<ref> لیکن وہ تین کام جن کو کرنا چاہیے تھا اور نہیں کیا ان میں سے ایک یہ تھا کہ جب [[اشعث بن قیس]] کو گرفتار کر کے میرے پاس لایا گیا اس وقت کاش اس کی گردن اڑا دیتا چونکہ میرے خیال سے جہاں پر بھی کو‎ئی شرارت ہوتی وہ وہاں پر مددگار تھا۔ دوسرا یہ کہ جب [[خالد بن ولید]] کو مرتدوں کے خلاف جنگ کے لیے بھیجا تو کاش میں خود ذو القصہ میں ٹھہرتا اور جنگ کیلیے تیار اور مدد کرنے کیلیے آمادہ رہتا۔ تیسرا کام یہ تھا کہ جب خالد کو شام بھیجا تھا تو اس وقت عمر کو بھی عراق بھیجتا تاکہ اسطرح سے اپنے دونوں بازووں کو اللہ کی راہ میں پھیلا چکا ہوتا» پھر اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور کہا: «</ref>کاش پیغمبر خدا سے پوچھا ہوتا کہ خلافت کس کا حق ہے تاکہ ہر کو‎ئی اس کے حصول میں جنگ کے لیے تیار نہ ہوسکے، کاش پوچھا ہوتا ہے بھتیجی اور پھوپھی کو ارث ملتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس بارے میں مطمئن نہیں ہوں »۔<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۹-۴۳۱؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۳۷؛ الامامہ، ج۱، ص۱۸-۱۹؛ مسعودی، مروج، ج۲، ص۳۰۸-۳۰۹؛ مبرد، ج۱، ص۱۱؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۸- ۲۶۹؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۶-۴۷</ref>


==ابوبکر بزبان ابوبکر==
==ابوبکر بزبان ابوبکر==
اہل سنت کے منابع میں نقل ہوا ہے کہ ابوبکر نے کہا:  
اہل سنت کے منابع میں نقل ہوا ہے کہ ابوبکر نے کہا:  
::: «میں نے آپکے کاموں کو سنبھالا؛ جبکہ میں آپ میں سب سے اچھا نہیں تھا اگر صحیح کام کیا تو اس میں میری مدد کرو اور اگر برا کام کیا تو مجھے روکو کیونکہ میرا ایک شیطان ہے جو ہمیشہ مجھے دھوکہ دیتا ہے.»<ref>سجستانی، الزہد، ص۵، ح۸، </ref>  
::: «میں نے آپکے کاموں کو سنبھالا؛ جبکہ میں آپ میں سب سے اچھا نہیں تھا اگر صحیح کام کیا تو اس میں میری مدد کرو اور اگر برا کام کیا تو مجھے روکو کیونکہ میرا ایک شیطان ہے جو ہمیشہ مجھے دھوکہ دیتا ہے۔»<ref>سجستانی، الزہد، ص۵، ح۸، </ref>  
یہ روایت اہل سنت کے بہت سارے منابع میں ایسے ہی مضمون کے ساتھ آ‎ئی ہے۔ مثلا: [[محمد بن سعد بن منیع ہاشمی بصری|ابن سعد]] نے [[طبقات کبری]] میں<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۱۲</ref>؛ [[محمد بن جریر بن یزید طبری |طبری]] تاریخ طبری میں.<ref>تاریخ طبری، ج۲، ص۲۴۴</ref>؛ صنعانی نے کتاب المصنف میں<ref>الصنعانی، المصنف، ج۱۱، ص۳۳۶</ref>؛ ابن جوزی نے کتاب المنتظم میں<ref>المنتظم، ج۴، ص۶۹</ref>؛ [[ابن تیمیہ حرانی|ابن تیمیہ]] نے کتاب [[منہاج السنۃ النبویہ (کتاب)|منہاج السنة]] میں<ref>منہاج السنة النبویة، ج۸، ص۲۶۶</ref>؛ سیوطی نے کتاب تاریخ الخلفاء میں<ref>تاریخ الخلفاء، ج۱، ص۷۱</ref>
یہ روایت اہل سنت کے بہت سارے منابع میں ایسے ہی مضمون کے ساتھ آ‎ئی ہے۔ مثلا: [[محمد بن سعد بن منیع ہاشمی بصری|ابن سعد]] نے [[طبقات کبری]] میں<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۳، ص۲۱۲</ref>؛ [[محمد بن جریر بن یزید طبری |طبری]] تاریخ طبری میں۔<ref>تاریخ طبری، ج۲، ص۲۴۴</ref>؛ صنعانی نے کتاب المصنف میں<ref>الصنعانی، المصنف، ج۱۱، ص۳۳۶</ref>؛ ابن جوزی نے کتاب المنتظم میں<ref>المنتظم، ج۴، ص۶۹</ref>؛ [[ابن تیمیہ حرانی|ابن تیمیہ]] نے کتاب [[منہاج السنۃ النبویہ (کتاب)|منہاج السنة]] میں<ref>منہاج السنة النبویة، ج۸، ص۲۶۶</ref>؛ سیوطی نے کتاب تاریخ الخلفاء میں<ref>تاریخ الخلفاء، ج۱، ص۷۱</ref>


ابن کثیر نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس کو صحیح قرار دیا ہے.<ref>البدایة والنہایة، مکتبة المعارف، بیروت، ج۶، ص۳۰۱</ref>
ابن کثیر نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس کو صحیح قرار دیا ہے۔<ref>البدایة والنہایة، مکتبة المعارف، بیروت، ج۶، ص۳۰۱</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
سطر 254: سطر 254:
* آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیغمبر  اسلام، بہ کوشش ابوالقاسم گرجی، تہران، ۱۳۶۲ش
* آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیغمبر  اسلام، بہ کوشش ابوالقاسم گرجی، تہران، ۱۳۶۲ش
* آیتی، محمد ابراہیم، حواشی و تعلیقات بر آئینہ اسلام (نک: ہم‌، حسین)
* آیتی، محمد ابراہیم، حواشی و تعلیقات بر آئینہ اسلام (نک: ہم‌، حسین)
* ابن ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبہ‌اللہ، شرح نہج‌البلاغہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۷۸ق، ۱۹۵۹م.
* ابن ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبہ‌اللہ، شرح نہج‌البلاغہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۷۸ق، ۱۹۵۹م۔
* ابن تیمیہ، أحمد(728ق)، منہاج السنة، تحقیق د. محمد رشاد سالم، مؤسسة قرطبة، الطبعةالأولى، ۱۴۰۶ق.
* ابن تیمیہ، أحمد(728ق)، منہاج السنة، تحقیق د۔ محمد رشاد سالم، مؤسسة قرطبة، الطبعةالأولى، ۱۴۰۶ق۔
* ابن اثیر، علی بن محمد، اسدالغابہ، قاہرہ، ۱۲۸۶ق
* ابن اثیر، علی بن محمد، اسدالغابہ، قاہرہ، ۱۲۸۶ق
* ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل، ابن اسحاق، محمد، سیرہ، بہ کوشش محمد حمید اللہ، قونیہ، ۱۴۰۱ق، ۱۹۸۱م
* ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل، ابن اسحاق، محمد، سیرہ، بہ کوشش محمد حمید اللہ، قونیہ، ۱۴۰۱ق، ۱۹۸۱م
* ابن اثیر، علی بن محمد، سیرت رسول اللہ، ترجمہ رفیع‌الدین اسحاق ہمدانی، بہ کوشش اسغر مہدوی، تہران، ۱۳۵۹-۱۳۶۰ش
* ابن اثیر، علی بن محمد، سیرت رسول اللہ، ترجمہ رفیع‌الدین اسحاق ہمدانی، بہ کوشش اسغر مہدوی، تہران، ۱۳۵۹-۱۳۶۰ش
* ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، آفہ اصحاب الحدیث، بہ کوشش علی حسینی میلانی، قم، ۱۳۹۸ق.
* ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، آفہ اصحاب الحدیث، بہ کوشش علی حسینی میلانی، قم، ۱۳۹۸ق۔
* ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی(597ق)، المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم،دار صادر، بیروت، الطبعةالأولى، ۱۳۵۸ق.
* ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی(597ق)، المنتظم فی تاریخ الملوک والأمم،دار صادر، بیروت، الطبعةالأولى، ۱۳۵۸ق۔
* ابن حبان، محمد، الثقات، حیدرآباد دکن، ۱۳۹۳ق، ص۱۹۷۳م
* ابن حبان، محمد، الثقات، حیدرآباد دکن، ۱۳۹۳ق، ص۱۹۷۳م
* ابن حجر، احمد بن علی، الاصابہ، قاہرہ، ۱۳۲۸ق
* ابن حجر، احمد بن علی، الاصابہ، قاہرہ، ۱۳۲۸ق
سطر 268: سطر 268:
* ابن رستہ، احمدبن عمر، الاعلاق النفیسہ، لیدن، ۱۸۹۱م
* ابن رستہ، احمدبن عمر، الاعلاق النفیسہ، لیدن، ۱۸۹۱م
* ابن سلام اباضی، بدءالاسلام و شرائع‌الدین، بہ کوشش ورنر شوارتس و سالم بن یعقوب، ویسبادن، ۱۴۰۶ق، ص۱۹۸۶م
* ابن سلام اباضی، بدءالاسلام و شرائع‌الدین، بہ کوشش ورنر شوارتس و سالم بن یعقوب، ویسبادن، ۱۴۰۶ق، ص۱۹۸۶م
* ابن سعد، محمد بن سعد(230ق)، طبقات الکبرى،دار، صادر، بیروت.
* ابن سعد، محمد بن سعد(230ق)، طبقات الکبرى،دار، صادر، بیروت۔
* ابن صباغ، علی بن محمد، الفصول المہمہ، نجف، ۱۹۵۰م
* ابن صباغ، علی بن محمد، الفصول المہمہ، نجف، ۱۹۵۰م
* ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، «الاستیعاب»، ہمراہ الاصابہ (نک: ہم ابن حجر)
* ابن عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، «الاستیعاب»، ہمراہ الاصابہ (نک: ہم ابن حجر)
سطر 304: سطر 304:
* حلبی، علی، السیرہ الحلبیہ، بیروت، المکتبہ الاسلامیہ
* حلبی، علی، السیرہ الحلبیہ، بیروت، المکتبہ الاسلامیہ
* خلیلی، محمدعلی، حواشی و تعلیقات بر علی و فرزندانش (نک: ہم‌، حسین)
* خلیلی، محمدعلی، حواشی و تعلیقات بر علی و فرزندانش (نک: ہم‌، حسین)
* خوارزمی حنفی، موفق بن احمد، المناقب، بہ کوشش مالک محمودی. قم، ۱۴۱۱ق
* خوارزمی حنفی، موفق بن احمد، المناقب، بہ کوشش مالک محمودی۔ قم، ۱۴۱۱ق
* دروزہ، محمد عزہ، تاریخ العرب فی الاسلام، بیروت، المکتبہ المصریہ
* دروزہ، محمد عزہ، تاریخ العرب فی الاسلام، بیروت، المکتبہ المصریہ
* دہخدا، علی‌اکبر، امثال و حکم، تہران، ۱۳۳۸-۱۳۳۹ش
* دہخدا، علی‌اکبر، امثال و حکم، تہران، ۱۳۳۸-۱۳۳۹ش
سطر 312: سطر 312:
* زرین‌کوب، عبدالحسین، تاریخ ایران بعد از اسلام، تہران، ۱۳۴۳ش
* زرین‌کوب، عبدالحسین، تاریخ ایران بعد از اسلام، تہران، ۱۳۴۳ش
* سقا، مصطفی، تعلیقات بر السیرہ النبویہ (نک: ہم‌، ابن ہشام)
* سقا، مصطفی، تعلیقات بر السیرہ النبویہ (نک: ہم‌، ابن ہشام)
* سجستانی، سلیمان بن الأشعث(275ق)، الزہد،دار المشکاة،القاہرة، الطبعةالأولى، ۱۹۹۳م.
* سجستانی، سلیمان بن الأشعث(275ق)، الزہد،دار المشکاة،القاہرة، الطبعةالأولى، ۱۹۹۳م۔
* سیدمرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامہ، بہ کوشش عبدالزہرا حسینی، تہران، ۱۴۱۰ق
* سیدمرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامہ، بہ کوشش عبدالزہرا حسینی، تہران، ۱۴۱۰ق
* سیوطی، بغیہ الطالب لایمان ابی‌طالب و حسن خاتمتہ
* سیوطی، بغیہ الطالب لایمان ابی‌طالب و حسن خاتمتہ
* سیوطی، تاریخ الخلفاء، بہ کوشش محمد محیی‌الدین عبدالحمید، قاہرہ، ۱۳۷۱ق، ص۱۹۵۲م
* سیوطی، تاریخ الخلفاء، بہ کوشش محمد محیی‌الدین عبدالحمید، قاہرہ، ۱۳۷۱ق، ص۱۹۵۲م
* سیوطی، الجامع الصغیر، قاہرہ، ۱۳۷۳ق، ص۱۹۵۴م.
* سیوطی، الجامع الصغیر، قاہرہ، ۱۳۷۳ق، ص۱۹۵۴م۔
* سیوطی، الخصائص الکبری، بیروت، ۱۴۰۵ق، ص۱۹۸۵م.
* سیوطی، الخصائص الکبری، بیروت، ۱۴۰۵ق، ص۱۹۸۵م۔
* سیوطی، الدر المنثور، بیروت، ۱۴۰۳ق، ص۱۹۸۳م.
* سیوطی، الدر المنثور، بیروت، ۱۴۰۳ق، ص۱۹۸۳م۔
* شہرستانی، محمدبن عبدالکریم، الملل و النحل، بہ کوشش محمد بن فتح‌اللہ بدران، ۱۳۷۵ق، ص۱۹۵۶م
* شہرستانی، محمدبن عبدالکریم، الملل و النحل، بہ کوشش محمد بن فتح‌اللہ بدران، ۱۳۷۵ق، ص۱۹۵۶م
* صدر، محمدباقر، فدک در تاریخ، ترجمہ محمود عابدی، تہران، ۱۳۶۰ش.
* صدر، محمدباقر، فدک در تاریخ، ترجمہ محمود عابدی، تہران، ۱۳۶۰ش۔
* صنعانی، عبد الرزاق بن ہمام (211ق)، المصنف، تحقیق حبیب الرحمن، المکتب الإسلامی، بیروت، الطبعة الثانیة، ۱۴۰۳ق.
* صنعانی، عبد الرزاق بن ہمام (211ق)، المصنف، تحقیق حبیب الرحمن، المکتب الإسلامی، بیروت، الطبعة الثانیة، ۱۴۰۳ق۔
* طباطبائی، محمدحسین، شیعہ در اسلام، قم، ۱۳۴۸ش
* طباطبائی، محمدحسین، شیعہ در اسلام، قم، ۱۳۴۸ش
* طباطبائی، محمدحسین، المیزان، بیروت، ۱۳۹۱ق، ص۱۹۷۱م
* طباطبائی، محمدحسین، المیزان، بیروت، ۱۳۹۱ق، ص۱۹۷۱م
* طبرسی، احمدبن علی، الاحتجاج، بہ کوشش محمدباقر موسوی خرسان، نجف، ۱۳۸۶ق، ص۱۹۶۶م
* طبرسی، احمدبن علی، الاحتجاج، بہ کوشش محمدباقر موسوی خرسان، نجف، ۱۳۸۶ق، ص۱۹۶۶م
* طبرسی، فضل‌اللہ بن حسن، مجمع البیان، بہ کوشش ہاشم رسولی محلاتی و فضل‌اللہ یزدی، بیروت، ۱۴۰۸ق، ص۱۹۸۸م
* طبرسی، فضل‌اللہ بن حسن، مجمع البیان، بہ کوشش ہاشم رسولی محلاتی و فضل‌اللہ یزدی، بیروت، ۱۴۰۸ق، ص۱۹۸۸م
* طبری، أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،‌دار التراث، ط الثانیة، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م.
* طبری، أبو جعفر محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت،‌دار التراث، ط الثانیة، ۱۳۸۷ق/۱۹۶۷م۔
* طبری، تفسیر
* طبری، تفسیر
* طریحی، فخرالدین بن محمد، مجمع البحرین، بہ کوشش محمود عادل، تہران، ۱۳۶۷ش
* طریحی، فخرالدین بن محمد، مجمع البحرین، بہ کوشش محمود عادل، تہران، ۱۳۶۷ش
سطر 337: سطر 337:
* فیروزآبادی، مرتضی، السبعہ من السلف، قم، ۱۳۶۱ش
* فیروزآبادی، مرتضی، السبعہ من السلف، قم، ۱۳۶۱ش
* قزوینی حائری، محمدحسن، فدک، بہ کوشش باقر مقدسی، قاہرہ، ۱۳۹۶ق، ص۱۹۷۶م
* قزوینی حائری، محمدحسن، فدک، بہ کوشش باقر مقدسی، قاہرہ، ۱۳۹۶ق، ص۱۹۷۶م
* کازرونی، محمد ابن مسعود، نہایہ المسؤول. ترجمہ عبدالسلام بن علی ابرقوہی، بہ کوشش جعفر یاحقی، تہران، ۱۳۶۶ش
* کازرونی، محمد ابن مسعود، نہایہ المسؤول۔ ترجمہ عبدالسلام بن علی ابرقوہی، بہ کوشش جعفر یاحقی، تہران، ۱۳۶۶ش
* کلینی، محمدبن یعقوب، الروضہ من الکافیہ، بہ کوشش علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۸۹ق، ص۱۳۴۸ش
* کلینی، محمدبن یعقوب، الروضہ من الکافیہ، بہ کوشش علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۸۹ق، ص۱۳۴۸ش
* کنتوری، محمدقلی، تشیید المطاعن، لکہنو، ۱۳۹۸ق
* کنتوری، محمدقلی، تشیید المطاعن، لکہنو، ۱۳۹۸ق
سطر 368: سطر 368:
* یاقوت، بلدان
* یاقوت، بلدان
* یعقوبی، احمدبن اسحاق، تاریخ، بیروت، ۱۳۷۹ق، ص۱۹۶۰م
* یعقوبی، احمدبن اسحاق، تاریخ، بیروت، ۱۳۷۹ق، ص۱۹۶۰م
* Jafri, S. H., Origins and Early Development of shi῾a Islam, Beirut, ۱۹۷۶
* Jafri, S۔ H۔, Origins and Early Development of shi῾a Islam, Beirut, ۱۹۷۶
* Lammens, P. H.,»Le Triumvirat, Aboû Bakr, ῾Omar et Aboû ῾Obaida«, Mélanges de la Faculté Orientale, Beirut, ۱۹۷۳, vol. IV
* Lammens, P۔ H۔,»Le Triumvirat, Aboû Bakr, ῾Omar et Aboû ῾Obaida«, Mélanges de la Faculté Orientale, Beirut, ۱۹۷۳, vol۔ IV
* Watt. M., Muhammad at Mecca, Oxford, ۱۹۶۸.
* Watt۔ M۔, Muhammad at Mecca, Oxford, ۱۹۶۸۔
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
</div>
</div>


==بیرونی لینک==
==بیرونی لینک==
* منبع اصلی: [http://lib.eshia.ir/23022/5/1977 دائرہ المعارف بزرگ اسلامی]
* منبع اصلی: [http://lib۔eshia۔ir/23022/5/1977 دائرہ المعارف بزرگ اسلامی]
{{صحابہ}}
{{صحابہ}}


confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم