مندرجات کا رخ کریں

"ابو بکر بن ابی قحافہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''اَبوبَکْر ابن ابی قُحافہ''' (متوفی [[سال ۱۳ ہجری قمری|۱۳ہ ق]]) ، [[اصحاب]] پیامبر میں سے تھا. [[رسول خدا]] صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد بعض دیگر اصحاب کے ساتھ [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں جمع ہوگئے اور رسول خدا کی [[علی(ع)]] کی خلافت کے بارے میں وصیت ہونے کے باوجود مسلمانوں کے لیے خلیفہ انتخاب کرنے لگے۔ سقیفہ بنی سعدہ میں موجود افراد نے آخرکار رسول خدا (صلی اللہ علیہ او آلہ وسلم) کے [[خلافت|خلیفہ]] کے عنوان سے ابوبکر کی [[بیعت]] کی۔ وہ [[اہل سنت]] کی نظر میں [[خلفائے راشدین]] میں سے پہلا خلیفہ ہے۔ آپ ظہور اسلام کے ابتدا‎ئی سالوں میں، مکہ میں، مسلمان ہو‎ئے۔ اور اسلامی مؤرخین کے مشہور نظریے کے مطابق [[پیغمبر اکرم]] کی [[مدینہ]] کی طرف [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] کے دوران آنحضرت کے ساتھ ہمسفر تھا اور آپ کے ساتھ [[غار ثور]] میں مخفی تھے۔ انکی مختصر حکومت کے دوران تاریخ اسلامی کے متنازعہ حادثات رونما ہو‎ئے جن میں سے [[حضرت زہرا(س)]] سے [[فدک]] کا چھیننا [[حروب الردہ|ردّہ کی جنگیں]] اور [[فتوحات]] کا آغاز ہیں۔
'''اَبوبَکْر ابن ابی قُحافہ''' (متوفی [[سال ۱۳ ہجری قمری|۱۳ہ ق]]) ، [[اصحاب]] پیغمبر  میں سے تھا. [[رسول خدا]] صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد بعض دیگر اصحاب کے ساتھ [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں جمع ہوگئے اور رسول خدا کی [[علی(ع)]] کی خلافت کے بارے میں وصیت ہونے کے باوجود مسلمانوں کے لیے خلیفہ انتخاب کرنے لگے۔ سقیفہ بنی سعدہ میں موجود افراد نے آخرکار رسول خدا (صلی اللہ علیہ او آلہ وسلم) کے [[خلافت|خلیفہ]] کے عنوان سے ابوبکر کی [[بیعت]] کی۔ وہ [[اہل سنت]] کی نظر میں [[خلفائے راشدین]] میں سے پہلا خلیفہ ہے۔ آپ ظہور اسلام کے ابتدا‎ئی سالوں میں، مکہ میں، مسلمان ہو‎ئے۔ اور اسلامی مؤرخین کے مشہور نظریے کے مطابق [[پیغمبر اکرم]] کی [[مدینہ]] کی طرف [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] کے دوران آنحضرت کے ساتھ ہمسفر تھا اور آپ کے ساتھ [[غار ثور]] میں مخفی تھے۔ انکی مختصر حکومت کے دوران تاریخ اسلامی کے متنازعہ حادثات رونما ہو‎ئے جن میں سے [[حضرت زہرا(س)]] سے [[فدک]] کا چھیننا [[حروب الردہ|ردّہ کی جنگیں]] اور [[فتوحات]] کا آغاز ہیں۔


== ولادت، نسب، کنیہ اور القاب ==
== ولادت، نسب، کنیہ اور القاب ==
سطر 45: سطر 45:
[[آیت غار]] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ابوبکر کی غار میں سکونت کے ماجرا کی طرف اشارہ ہے اور اہل سنت کے علماء اس آیہ کو ابوبکر کی فضیلت پر دلیل سمجھتے ہیں لیکن وہ اور پیغمبر اکرم کے غار ثور کے بارے میں آیہ کی تفسیر میں اختلاف ہے.<ref>ر.ک بہ مدخل [[آیت لا تحزن]]</ref>
[[آیت غار]] پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ابوبکر کی غار میں سکونت کے ماجرا کی طرف اشارہ ہے اور اہل سنت کے علماء اس آیہ کو ابوبکر کی فضیلت پر دلیل سمجھتے ہیں لیکن وہ اور پیغمبر اکرم کے غار ثور کے بارے میں آیہ کی تفسیر میں اختلاف ہے.<ref>ر.ک بہ مدخل [[آیت لا تحزن]]</ref>
ابوبکر، پیغمبر اکرم(ص) کے ہمراہ کیسے آیا؟ یہ مشخص نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ابوبکر کو اچانک راستے میں دیکھا اور اپنے ساتھ لے گیے۔<ref>طبری، تاریخ، ج۲، ص ۳۷۴</ref>اسیطرح سے ایک اور نقل کے مطابق مشرکوں کے حملے کی رات پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ابوبکر کے گھر گئے اور وہیں سے ابوبکر کے ساتھ غار ثور چلے گئے.<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص ۲۶۰</ref>تیسرے قول کے مطابق ابوبکر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تلاش میں آیا اور علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم کے چھپنے کی جگہ دکھا‎ئی۔.<ref>ابن کثیر،‌ البدایہ و النہایہ، ج۳،‌ ص ۱۷۹</ref>
ابوبکر، پیغمبر اکرم(ص) کے ہمراہ کیسے آیا؟ یہ مشخص نہیں ہے اور بعض نے کہا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے ابوبکر کو اچانک راستے میں دیکھا اور اپنے ساتھ لے گیے۔<ref>طبری، تاریخ، ج۲، ص ۳۷۴</ref>اسیطرح سے ایک اور نقل کے مطابق مشرکوں کے حملے کی رات پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ابوبکر کے گھر گئے اور وہیں سے ابوبکر کے ساتھ غار ثور چلے گئے.<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص ۲۶۰</ref>تیسرے قول کے مطابق ابوبکر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تلاش میں آیا اور علی علیہ السلام نے پیغمبر اکرم کے چھپنے کی جگہ دکھا‎ئی۔.<ref>ابن کثیر،‌ البدایہ و النہایہ، ج۳،‌ ص ۱۷۹</ref>
مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ابوبکر مدینہ کے مضافات میں مدینہ سے ایک میل کے فاصلے پر سُنْخ محلے میں خبیب بن اِساف (حبیب ابن یساف) یا خارجہ ابن زید ابن ابی زہیر (قبیلہ بنی الحارث بن الخزرج) کے گھر ساکن ہوا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۳-۱۷۴؛ ابن ہشام، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ یاقوت، ج۳، ص۱۶۳</ref>.بعض منابع کے مطابق ابوبکر مدینہ میں ہمیشہ [[پیامبر(ص)]] کے ساتھ ساتھ رہا اور 8 مہینے کے بعد جب آنحضرت نے مہاجر اور انصار کے درمیان برادری کا پیمان باندھا تو انکو عمر کا بھا‎ئی بنادیا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۴</ref>لیکن سیرہ ابن اسحاق کا فارسی ترجمہ رفیع الدین ہمدانی میں لکھا ہے کہ « ابوبکر۔۔۔۔ خارجہ بن (زید بن ابی) زہیر (جو کہ انصار تھے) سے برادری کا عقد باندھا».<ref>ابن اثیر، سیرت رسول اللہ، ص۴۸۵</ref>
مدینہ ہجرت کرنے کے بعد ابوبکر مدینہ کے مضافات میں مدینہ سے ایک میل کے فاصلے پر سُنْخ محلے میں خبیب بن اِساف (حبیب ابن یساف) یا خارجہ ابن زید ابن ابی زہیر (قبیلہ بنی الحارث بن الخزرج) کے گھر ساکن ہوا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۳-۱۷۴؛ ابن ہشام، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ یاقوت، ج۳، ص۱۶۳</ref>.بعض منابع کے مطابق ابوبکر مدینہ میں ہمیشہ [[پیغمبر (ص)]] کے ساتھ ساتھ رہا اور 8 مہینے کے بعد جب آنحضرت نے مہاجر اور انصار کے درمیان برادری کا پیمان باندھا تو انکو عمر کا بھا‎ئی بنادیا<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۴</ref>لیکن سیرہ ابن اسحاق کا فارسی ترجمہ رفیع الدین ہمدانی میں لکھا ہے کہ « ابوبکر۔۔۔۔ خارجہ بن (زید بن ابی) زہیر (جو کہ انصار تھے) سے برادری کا عقد باندھا».<ref>ابن اثیر، سیرت رسول اللہ، ص۴۸۵</ref>
ابوبکر مدینہ میں ہر دوسرے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملتا تھا<ref>EI۱</ref> اور بعض روایات کے مطابق تمام [[غزوہ|غزوات]] میں آپ کے ساتھ تھا.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۵؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۱۲</ref>
ابوبکر مدینہ میں ہر دوسرے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملتا تھا<ref>EI۱</ref> اور بعض روایات کے مطابق تمام [[غزوہ|غزوات]] میں آپ کے ساتھ تھا.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۵؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، ج۳، ص۲۱۲</ref>


سطر 52: سطر 52:


[[ابن ابی الحدید]] کی اپنے استاد ابوجعفر اسکافی کے نقل کے مطابق «ابوبکر نے نہ تو تیر چلایا ہے اور نہ تلوار کھینچا ہے اور نہ ہی خونریزی کی ہے.»<ref>إبن أبی الحدید المدائنی المعتزلی، أبو حامد عز الدین بن ہبة اللہ بن محمد بن محمد (متوفای۶۵۵ ق) ، شرح نہج البلاغة، ج۱۳، ص۱۷۰، تحقیق محمد عبد الکریم النمری، ناشر:‌ دار الکتب العلمیة - بیروت / لبنان، الطبعة الأولی، ۱۴۱۸ہـ - ۱۹۹۸م./الجاحظ، أبی عثمان عمرو بن بحر (متوفای۲۵۵ہـ)، العثمانیة، ص۲۳۰، ناشر:‌دار الکتب العربی ـ مصر</ref>
[[ابن ابی الحدید]] کی اپنے استاد ابوجعفر اسکافی کے نقل کے مطابق «ابوبکر نے نہ تو تیر چلایا ہے اور نہ تلوار کھینچا ہے اور نہ ہی خونریزی کی ہے.»<ref>إبن أبی الحدید المدائنی المعتزلی، أبو حامد عز الدین بن ہبة اللہ بن محمد بن محمد (متوفای۶۵۵ ق) ، شرح نہج البلاغة، ج۱۳، ص۱۷۰، تحقیق محمد عبد الکریم النمری، ناشر:‌ دار الکتب العلمیة - بیروت / لبنان، الطبعة الأولی، ۱۴۱۸ہـ - ۱۹۹۸م./الجاحظ، أبی عثمان عمرو بن بحر (متوفای۲۵۵ہـ)، العثمانیة، ص۲۳۰، ناشر:‌دار الکتب العربی ـ مصر</ref>
پیامبر (ص) نے [[جنگ خیبر]] میں ابوبکر و اسی طرح [[عمر بن خطاب]] کو خیبر فتح کرنے کے لیے بھیجا لیکن قلعہ خیبر فتح کرنے میں ناکام رہے پھر رسول خدا نے فرمایا: کل میں پرچم کو ایسے شخص کے ہاتھ دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اسکے رسول ان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے ہاتھوں خیبر فتح ہوگا۔ پھر امام علی علیہ السلام کو بلایا اور عَلم آپ کے ہاتھوں تھما دیا اور امام علی علیہ السلام نے خیبر کا قلعہ فتح کیا.<ref>الذہبی، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفای۷۴۸ہـ)، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام، ج۲، ص۴۱۲، تحقیق د. عمر عبد السلام تدمری، بیروت،‌دار الکتاب العربی، الطبعہ الأولی، ۱۴۰۷ہـ - ۱۹۸۷م اور اسی طرح إبن أبی شیبہ الکوفی، أبو بکر عبد اللہ بن محمد (متوفای۲۳۵ ہـ)، الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، ج۶، ص۳۶۷، ح ۳۲۰۸۰، تحقیق کمال یوسف الحوت، ریاض، مکتبہ الرشد، الطبعہ الأولی، ۱۴۰۹ہ؛ و النیسابوری، محمد بن عبداللہ أبو عبداللہ الحاکم (متوفای۴۰۵ ہـ)، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۳۹، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا، بیروت،‌دار الکتب العلمیہ، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۱ہ - ۱۹۹۰م؛ الإیجی، عضد الدین (متوفای۷۵۶ہـ)، کتاب المواقف، ج۳، ص۶۳۴، تحقیق عبد الرحمن عمیرہ، بیروت،‌دار الجیل، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۷ہـ، ۱۹۹۷م.</ref>
پیغمبر  (ص) نے [[جنگ خیبر]] میں ابوبکر و اسی طرح [[عمر بن خطاب]] کو خیبر فتح کرنے کے لیے بھیجا لیکن قلعہ خیبر فتح کرنے میں ناکام رہے پھر رسول خدا نے فرمایا: کل میں پرچم کو ایسے شخص کے ہاتھ دوں گا جو اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اسکے رسول ان سے محبت کرتے ہیں اور اس کے ہاتھوں خیبر فتح ہوگا۔ پھر امام علی علیہ السلام کو بلایا اور عَلم آپ کے ہاتھوں تھما دیا اور امام علی علیہ السلام نے خیبر کا قلعہ فتح کیا.<ref>الذہبی، شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفای۷۴۸ہـ)، تاریخ الإسلام ووفیات المشاہیر والأعلام، ج۲، ص۴۱۲، تحقیق د. عمر عبد السلام تدمری، بیروت،‌دار الکتاب العربی، الطبعہ الأولی، ۱۴۰۷ہـ - ۱۹۸۷م اور اسی طرح إبن أبی شیبہ الکوفی، أبو بکر عبد اللہ بن محمد (متوفای۲۳۵ ہـ)، الکتاب المصنف فی الأحادیث والآثار، ج۶، ص۳۶۷، ح ۳۲۰۸۰، تحقیق کمال یوسف الحوت، ریاض، مکتبہ الرشد، الطبعہ الأولی، ۱۴۰۹ہ؛ و النیسابوری، محمد بن عبداللہ أبو عبداللہ الحاکم (متوفای۴۰۵ ہـ)، المستدرک علی الصحیحین، ج۳، ص۳۹، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا، بیروت،‌دار الکتب العلمیہ، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۱ہ - ۱۹۹۰م؛ الإیجی، عضد الدین (متوفای۷۵۶ہـ)، کتاب المواقف، ج۳، ص۶۳۴، تحقیق عبد الرحمن عمیرہ، بیروت،‌دار الجیل، الطبعہ الأولی، ۱۴۱۷ہـ، ۱۹۹۷م.</ref>
پیغمبر اکرم نے اپنی عمر کے آخری ایام میں [[روم|رومیوں]] کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے ایک فوج تیار کی جس میں ابوبکر کی طرح جانی پہچانی شخصیات موجود ہونے کے باوجود فوج کی کمانڈ [[اسامہ بن زید]] کے حوالے کیا.<ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۱۳</ref>
پیغمبر اکرم نے اپنی عمر کے آخری ایام میں [[روم|رومیوں]] کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے ایک فوج تیار کی جس میں ابوبکر کی طرح جانی پہچانی شخصیات موجود ہونے کے باوجود فوج کی کمانڈ [[اسامہ بن زید]] کے حوالے کیا.<ref>تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۱۳</ref>


سطر 59: سطر 59:


==جیش اسامہ کا واقعہ==
==جیش اسامہ کا واقعہ==
ابوبکر، عمر، [[ابوعبیدہ جراح|ابوعُبَیدہ جَرّاح]] و بعض دیگر جلیل القدر اصحاب کو پیغمبر اکرم کی حیات مبارک کے میں آخری [[جیش اسامہ|سپاہ اسامہ]] میں شرکت اور مؤتہ شام کی طرف جانے کی ذمہ داری دی گئی تھی.<ref>ابن حجر، فنح، ج۸، ص۱۲۴</ref> واقدی <ref>۲، ص۱۱۱۷</ref> اور ابن سعد<ref>۲، ص۱۸۹-۱۹۰</ref>کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے [[حجة الوداع]] کے بعد ابھی [[صفر المظفر|صفر]] کے چار دن باقی رہتے تھے بروز پیر روم کے ساتھ جنگ کا حکم دیا اور اگلے دن [[اسامہ بن زید|اسامہ]] کو بلایا اور لشکر کی سربراہی اسے سپرد کیا۔<ref>قس: طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۴؛ ابن ہشام، ج۴، ص۲۵۳</ref>لیکن پیغمبر اکرم کی تاکید اور اصرار کے باوجود لشکر نے حرکت نہیں کیا شروع میں اسامہ کی کم عمری کو بعض اصحاب نے بہانہ بنایا اور پھر سفر کے ساز و سامان مہیا کرنے کا بہانہ اور آخر میں پیامبر کی بیماری شدید ہونے کی خبر اسامہ تک پہنچنا اور انکا مدینہ لوٹنا باعث بنا کہ ابوبکر، عمر اور بعض دیگر افراد پیغمبر اکرم کے صریح فرمان کے باوجود جُرف کے کیمپ سے واپس مدینہ آیے.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۶؛ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۱۵۹-۱۶۲</ref>
ابوبکر، عمر، [[ابوعبیدہ جراح|ابوعُبَیدہ جَرّاح]] و بعض دیگر جلیل القدر اصحاب کو پیغمبر اکرم کی حیات مبارک کے میں آخری [[جیش اسامہ|سپاہ اسامہ]] میں شرکت اور مؤتہ شام کی طرف جانے کی ذمہ داری دی گئی تھی.<ref>ابن حجر، فنح، ج۸، ص۱۲۴</ref> واقدی <ref>۲، ص۱۱۱۷</ref> اور ابن سعد<ref>۲، ص۱۸۹-۱۹۰</ref>کی روایت کے مطابق پیغمبر اکرم نے [[حجة الوداع]] کے بعد ابھی [[صفر المظفر|صفر]] کے چار دن باقی رہتے تھے بروز پیر روم کے ساتھ جنگ کا حکم دیا اور اگلے دن [[اسامہ بن زید|اسامہ]] کو بلایا اور لشکر کی سربراہی اسے سپرد کیا۔<ref>قس: طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۴؛ ابن ہشام، ج۴، ص۲۵۳</ref>لیکن پیغمبر اکرم کی تاکید اور اصرار کے باوجود لشکر نے حرکت نہیں کیا شروع میں اسامہ کی کم عمری کو بعض اصحاب نے بہانہ بنایا اور پھر سفر کے ساز و سامان مہیا کرنے کا بہانہ اور آخر میں پیغمبر  کی بیماری شدید ہونے کی خبر اسامہ تک پہنچنا اور انکا مدینہ لوٹنا باعث بنا کہ ابوبکر، عمر اور بعض دیگر افراد پیغمبر اکرم کے صریح فرمان کے باوجود جُرف کے کیمپ سے واپس مدینہ آیے.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۶؛ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۱۵۹-۱۶۲</ref>


== پیامبر اکرم کی آخری عمر میں نماز جماعت کا واقعہ==
== پیغمبر  اکرم کی آخری عمر میں نماز جماعت کا واقعہ==
جب پیامبر اکرم کوشش کر رہے تھے کہ اسامہ کی فوج شام کی طرف روانہ ہوجا‌‎ئے اس وقت آپ کی بیماری اتنی شدید ہوگئی تھی کہ [[بلال]] نے آذان دیا لیکن آپ کے بدن میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ [[مسجد]] جاکر [[نماز]] پڑھا‎ئیں اس لیے اپنی جگہ کسی اور کو نماز پڑھانے کے لیے بھیجنا چاہا۔ لیکن یہ نماز کیسے اور کس کی امامت میں پڑھی گئی، پیغمبر اکرم کی امامت کے بغیر کتنی نمازیں پڑھیں گئیں، اور کیا ایک نماز بھی پوری طرح ابوبکر کی اقتدا‎ء میں پڑھی گئی یا نہیں، اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔.<ref>نک: ابن سعد، ج۲، ص۲۱۵-۲۲۴، ج۳، ص۱۷۸-۱۸۱؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۹۷؛ ابن سلام، ص۷۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۰-۱۳۲</ref>
جب پیغمبر  اکرم کوشش کر رہے تھے کہ اسامہ کی فوج شام کی طرف روانہ ہوجا‌‎ئے اس وقت آپ کی بیماری اتنی شدید ہوگئی تھی کہ [[بلال]] نے آذان دیا لیکن آپ کے بدن میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ [[مسجد]] جاکر [[نماز]] پڑھا‎ئیں اس لیے اپنی جگہ کسی اور کو نماز پڑھانے کے لیے بھیجنا چاہا۔ لیکن یہ نماز کیسے اور کس کی امامت میں پڑھی گئی، پیغمبر اکرم کی امامت کے بغیر کتنی نمازیں پڑھیں گئیں، اور کیا ایک نماز بھی پوری طرح ابوبکر کی اقتدا‎ء میں پڑھی گئی یا نہیں، اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔.<ref>نک: ابن سعد، ج۲، ص۲۱۵-۲۲۴، ج۳، ص۱۷۸-۱۸۱؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۹۷؛ ابن سلام، ص۷۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۰-۱۳۲</ref>
ایک روایت میں آیا ہے کہ جس دن پیغمبر اکرم سخت مریض تھے تو آپ نے فرمایا:«کسی کو بھیجدو اور علی کو میرے پاس بلا‎‎‎ؤ» تو [[عایشہ]] نے تجویز پیش کی کہ کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا جا‎ئے اور [[حفصہ بنت عمر بن خطاب|حفصہ]] نے کہا کہ کسی کو عمر کے پاس بھیجا جا‎ئے اسطرح سب پیغمبر اکرم کے پاس جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا: چلے جا‎‎‎ؤ، اگر تمہاری ضرورت ہوتی تو تمہیں بلا لیتا<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۱۹۶؛ قس: احمد بن حنبل، ج۱، ص۳۵۶؛ مفید، الارشاد، ۹۹</ref>.
ایک روایت میں آیا ہے کہ جس دن پیغمبر اکرم سخت مریض تھے تو آپ نے فرمایا:«کسی کو بھیجدو اور علی کو میرے پاس بلا‎‎‎ؤ» تو [[عایشہ]] نے تجویز پیش کی کہ کسی کو ابوبکر کے پاس بھیجا جا‎ئے اور [[حفصہ بنت عمر بن خطاب|حفصہ]] نے کہا کہ کسی کو عمر کے پاس بھیجا جا‎ئے اسطرح سب پیغمبر اکرم کے پاس جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا: چلے جا‎‎‎ؤ، اگر تمہاری ضرورت ہوتی تو تمہیں بلا لیتا<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۱۹۶؛ قس: احمد بن حنبل، ج۱، ص۳۵۶؛ مفید، الارشاد، ۹۹</ref>.
روایات میں موجود تمام اختلافات کے باوجود، نقل ہوا ہے کہ ابوبکر [[مسجد]] میں جاکر پیغمبر کی جگہ نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔ لیکن اس نماز کی مخالفت میں پیغمبر اکرم کا عکس العمل بہت اختلاف کے ساتھ روایات میں ذکر ہوا ہے۔ عایشہ سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ جب ابوبکر نماز کی حالت میں تھا اسی وقت پیغمبر اکرم کی طبیعت کچھ ٹھیک ہوگئی تو آپ کھڑے ہوگئے اور دو آدمی کا سہارا لیتے ہو‎ئے مسجد پہنچے جبکہ آپ کے پا‎‎‎ؤں زمین پر کھینچے جارہے تھے، اور جیسے ہی ابوبکر نے آپ کی آمد کا احساس کیا تو اپنی جگہ سے ہٹ گیا لیکن پیغمبر اکرم نے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا جس جگہ پر ہو وہی کھڑے رہو۔ اور پھر پیغمبر اکرم، ابوبکر کے با‎ئیں طرف آکر بیٹھ گئے اور اس طرح پیغبمر اکرم نے بیٹھ کر اور ابوبکر نے کھڑے ہوکر نماز بجا لایا اور ابوبکر نے پیغمبر اکرم کی اقتدا میں نماز پڑھی اور لوگوں نے ابوبکر کی اقتداء کی.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۰-۱۳۲؛ بلعمی، ج۱، ص۳۳۶</ref>جبکہ بعض اہل سنت کے علماء، ابوبکر کی عظمت کو بڑھانے اور ابوبکر کو خلافت کیلیے دوسروں پرفوقیت دینے کے لیے اس حد تک آگے گئے ہیں کہ کہتے ہیں اس نماز میں پیغمبر اکرم نے ابوبکر کی اقتداء کی.<ref>نک: ابن جوزی، ص۴۹-۵۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۲</ref>  اور یہ بات اہل سنت کے بعض بزرگ علماء کرام کو بھی ناگوار گزری کہ حنبلی مذہب کے بزرگ مفسر اور [[فقیہ]]  ابوالفرج عبدالرحمن ابن جوزی، (۵۱۱-۵۹۷ق، ص۱۱۱۷-۱۲۰۱م) کو آفة اصحاب الحدیث کے نام سے اس بات کے رد میں ایک کتاب لکھنا پڑی.<ref>نیز نک: بخاری، ج۱، ص۱۷۴، ۱۷۵، ۱۸۳؛ احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۳۴</ref>
روایات میں موجود تمام اختلافات کے باوجود، نقل ہوا ہے کہ ابوبکر [[مسجد]] میں جاکر پیغمبر کی جگہ نماز کے لیے کھڑا ہوگیا۔ لیکن اس نماز کی مخالفت میں پیغمبر اکرم کا عکس العمل بہت اختلاف کے ساتھ روایات میں ذکر ہوا ہے۔ عایشہ سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ جب ابوبکر نماز کی حالت میں تھا اسی وقت پیغمبر اکرم کی طبیعت کچھ ٹھیک ہوگئی تو آپ کھڑے ہوگئے اور دو آدمی کا سہارا لیتے ہو‎ئے مسجد پہنچے جبکہ آپ کے پا‎‎‎ؤں زمین پر کھینچے جارہے تھے، اور جیسے ہی ابوبکر نے آپ کی آمد کا احساس کیا تو اپنی جگہ سے ہٹ گیا لیکن پیغمبر اکرم نے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا جس جگہ پر ہو وہی کھڑے رہو۔ اور پھر پیغمبر اکرم، ابوبکر کے با‎ئیں طرف آکر بیٹھ گئے اور اس طرح پیغبمر اکرم نے بیٹھ کر اور ابوبکر نے کھڑے ہوکر نماز بجا لایا اور ابوبکر نے پیغمبر اکرم کی اقتدا میں نماز پڑھی اور لوگوں نے ابوبکر کی اقتداء کی.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۰-۱۳۲؛ بلعمی، ج۱، ص۳۳۶</ref>جبکہ بعض اہل سنت کے علماء، ابوبکر کی عظمت کو بڑھانے اور ابوبکر کو خلافت کیلیے دوسروں پرفوقیت دینے کے لیے اس حد تک آگے گئے ہیں کہ کہتے ہیں اس نماز میں پیغمبر اکرم نے ابوبکر کی اقتداء کی.<ref>نک: ابن جوزی، ص۴۹-۵۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۲</ref>  اور یہ بات اہل سنت کے بعض بزرگ علماء کرام کو بھی ناگوار گزری کہ حنبلی مذہب کے بزرگ مفسر اور [[فقیہ]]  ابوالفرج عبدالرحمن ابن جوزی، (۵۱۱-۵۹۷ق، ص۱۱۱۷-۱۲۰۱م) کو آفة اصحاب الحدیث کے نام سے اس بات کے رد میں ایک کتاب لکھنا پڑی.<ref>نیز نک: بخاری، ج۱، ص۱۷۴، ۱۷۵، ۱۸۳؛ احمد بن حنبل، ج۶، ص۲۳۴</ref>


===شیعوں کا نظریہ===
===شیعوں کا نظریہ===
شیعہ علماء کرام نے پیامبر اکرم کی بیماری کے دوران ابوبکر کی نماز پر کئی جہات سے اعتراض کیا ہے۔  
شیعہ علماء کرام نے پیغمبر  اکرم کی بیماری کے دوران ابوبکر کی نماز پر کئی جہات سے اعتراض کیا ہے۔  
#اگرچہ عایشہ سے اس موضوع پر منقول احادیث پر تقریبا اتفاق ہے لیکن یہ روایت تواتر تک نہیں پہنچتی ہے اور اس لیے کسی بھی مورد میں اس کے ذریعے سے دلیل قا‎ئم نہیں کرسکتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی احتمال دیا جاسکتا ہے کہ اس روایت میں عایشہ نے اپنی نفع میں بات کی ہو۔  
#اگرچہ عایشہ سے اس موضوع پر منقول احادیث پر تقریبا اتفاق ہے لیکن یہ روایت تواتر تک نہیں پہنچتی ہے اور اس لیے کسی بھی مورد میں اس کے ذریعے سے دلیل قا‎ئم نہیں کرسکتے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی احتمال دیا جاسکتا ہے کہ اس روایت میں عایشہ نے اپنی نفع میں بات کی ہو۔  
#سیرت لکھنے والے اور مورخین کے اجماع کے مطابق<ref>ابن سعد، ج۲، ص۱۸۹-۱۹۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۴، ۱۸۶؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۳۴؛ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۱۵۹-۱۶۰؛ نیز نک: مفید، الارشاد، ص۹۸</ref>، ابوبکر ان دنوں پیغمبر اکرم کے حکم کے مطابق مدینہ کے بجا‎ئے جرف کے کیمپ میں اسامہ کی لشکر میں ہونا چاہیے تھا اسی لیے جو نماز مدینہ میں اگر اس نے پڑھا‎ئی ہے تو وہ پیغمبر اکرم کے حکم سے نہیں تھی اور چند شواہد بھی اس بات کی تا‎ئید کرتی ہیں۔  
#سیرت لکھنے والے اور مورخین کے اجماع کے مطابق<ref>ابن سعد، ج۲، ص۱۸۹-۱۹۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۸۴، ۱۸۶؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۳۴؛ ابن ابی الحدید، ج۱، ص۱۵۹-۱۶۰؛ نیز نک: مفید، الارشاد، ص۹۸</ref>، ابوبکر ان دنوں پیغمبر اکرم کے حکم کے مطابق مدینہ کے بجا‎ئے جرف کے کیمپ میں اسامہ کی لشکر میں ہونا چاہیے تھا اسی لیے جو نماز مدینہ میں اگر اس نے پڑھا‎ئی ہے تو وہ پیغمبر اکرم کے حکم سے نہیں تھی اور چند شواہد بھی اس بات کی تا‎ئید کرتی ہیں۔  
الف) اس روایت کے مطابق کہ جس میں علی علیہ السلام کو بلانے کا حکم دیا تھا لیکن کسی نے آپ کی بات نہیں سنی اور ان کے بجا‎ئے ابوبکر، عمر اور [[عباس بن عبدالمطلب|عباس]] حاضر کئے جاتے ہیں.<ref>احمد بن حنبل، ج۱، ص۳۵۶؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۹۶</ref>
الف) اس روایت کے مطابق کہ جس میں علی علیہ السلام کو بلانے کا حکم دیا تھا لیکن کسی نے آپ کی بات نہیں سنی اور ان کے بجا‎ئے ابوبکر، عمر اور [[عباس بن عبدالمطلب|عباس]] حاضر کئے جاتے ہیں.<ref>احمد بن حنبل، ج۱، ص۳۵۶؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۱۹۶</ref>
ب) پیامبر اکرم ناتوان اور نحیف ہونے کے باوجود دو آدمی (علی(ع) اور [[فضل بن عباس]]) کے سہارے سے مسجد میں حاضر ہوکر خود نماز پڑھانا.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۱؛ نیز نک: مفید، الارشاد، ص۹۸</ref>
ب) پیغمبر  اکرم ناتوان اور نحیف ہونے کے باوجود دو آدمی (علی(ع) اور [[فضل بن عباس]]) کے سہارے سے مسجد میں حاضر ہوکر خود نماز پڑھانا.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۹؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۳۱؛ نیز نک: مفید، الارشاد، ص۹۸</ref>


ان تمام باتوں کے باوجود شیعہ علماء کے مطابق اگر آنحضرت کی بیماری کے وقت، ابوبکر کی نماز سے متعلق روایات کو صحیح مان لی جا‎ئیں تو بھی یہ ابوبکر کی فضیلت اور برتری کی دلیل نہیں بن سکتیں چونکہ اس سے پہلے بھی آپ نے دوسرے کئی اصحاب [[ابوعبیدہ جراح]]، [[عمرو عاص]]، [[خالد بن ولید]]، اسامہ بن زید اورعلی علیہ السلام  کو کئی بار نماز پڑھانے پر مامور کیا تھا اور ایک بار خود ابوبکر کو بھی مامور کیا تھا کہ لوگوں کو نماز پڑھا‎ئے۔ <ref>میلانی، ص۲۸</ref>
ان تمام باتوں کے باوجود شیعہ علماء کے مطابق اگر آنحضرت کی بیماری کے وقت، ابوبکر کی نماز سے متعلق روایات کو صحیح مان لی جا‎ئیں تو بھی یہ ابوبکر کی فضیلت اور برتری کی دلیل نہیں بن سکتیں چونکہ اس سے پہلے بھی آپ نے دوسرے کئی اصحاب [[ابوعبیدہ جراح]]، [[عمرو عاص]]، [[خالد بن ولید]]، اسامہ بن زید اورعلی علیہ السلام  کو کئی بار نماز پڑھانے پر مامور کیا تھا اور ایک بار خود ابوبکر کو بھی مامور کیا تھا کہ لوگوں کو نماز پڑھا‎ئے۔ <ref>میلانی، ص۲۸</ref>
سطر 77: سطر 77:
==سقیفہ==
==سقیفہ==
{{اصلی|واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ}}  
{{اصلی|واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ}}  
[[شیعہ]] [[حدیث|محدثین]] کے مطابق [[پیامبر اکرم(ص)]]  28 صفر سنہ گیارہ ہجری قمری بروز پیر رحلت فرما گئے اور یہ خبر اس وقت کے محدود مدینے میں ایک دم سے پھیل گئی اور شاید بعض لوگوں نے تو جب بیماری میں شدت آگئی تھی، اور اسی بیماری کی وجہ سے رحلت کا احتمال دیتے ہو‎ئے انہی دنوں سے حکومت اپنے ہاتھ لینے کیلیے دل میں کچھ نیتیں کی تھیں، تقریبا اس خبر کے سننے کے فورا بعد جس وقت امام [[علی(ع)]]، فضل بن عباس اور دیگر چند لوگ آپ کو [[غسل]] دینے میں مصروف تھے تو اقدامات شروع کئے [[سعد بن عبادہ]]، [[خزرج|خزرجیوں]] کے سربراہ بیماری اور بخار کی حالت میں ([[اوس]] و [[خزرج]]) کے [[انصار]] کے ایک گروہ کے درمیان [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں بیٹھا تھا اور ایک شخص اس کی ترجمانی کرتا ہوا انصار کی فضیلت اور مہاجروں پر انکی برتری کے گن گاتا تھا۔
[[شیعہ]] [[حدیث|محدثین]] کے مطابق [[پیغمبر  اکرم(ص)]]  28 صفر سنہ گیارہ ہجری قمری بروز پیر رحلت فرما گئے اور یہ خبر اس وقت کے محدود مدینے میں ایک دم سے پھیل گئی اور شاید بعض لوگوں نے تو جب بیماری میں شدت آگئی تھی، اور اسی بیماری کی وجہ سے رحلت کا احتمال دیتے ہو‎ئے انہی دنوں سے حکومت اپنے ہاتھ لینے کیلیے دل میں کچھ نیتیں کی تھیں، تقریبا اس خبر کے سننے کے فورا بعد جس وقت امام [[علی(ع)]]، فضل بن عباس اور دیگر چند لوگ آپ کو [[غسل]] دینے میں مصروف تھے تو اقدامات شروع کئے [[سعد بن عبادہ]]، [[خزرج|خزرجیوں]] کے سربراہ بیماری اور بخار کی حالت میں ([[اوس]] و [[خزرج]]) کے [[انصار]] کے ایک گروہ کے درمیان [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں بیٹھا تھا اور ایک شخص اس کی ترجمانی کرتا ہوا انصار کی فضیلت اور مہاجروں پر انکی برتری کے گن گاتا تھا۔


سقیفہ میں کیا ہوا اور کونسی باتیں رد و بدل ہوگئیں اس بارے میں روایات مشہور ہیں۔ منابع میں تصریح ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر کا انتخاب بڑی بحث و جدل کے بعد ہوا ہے یہاں تک کہ انصار میں سے [[حباب بن منذر]] نے مہاجروں پر تلوار کھینچی اور [[سعد بن عبادہ]] جو تقریبا خود پیروں تلے دبا جارہا تھا اور عمر کی داڑھی پکڑ کر کھینچ رہا تھا.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۳؛ حلبی، ج۳، ص۳۵۹</ref>اس کے بعد [[مہاجروں]] سے وابستہ [[قبیلہ بنی اسلم]] مکہ میں داخل ہو‎ا اور ابوبکر کی بیعت کی اور اسی قبیلے نے مدینہ کے لوگوں کی بیعت کو آسان کردیا.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۵؛ فیاض، ص۱۳۱</ref> عمر <ref>بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱: ابوبکرسے</ref>سے روایت ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر کی بیعت ایک جلدپنی اور بے سابقہ کام تھا کہ اللہ تعالی نے اس کے شر سے لوگوں کو بچایا.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۴-۲۰۶، بلاذری، انساب ج۱، ص۵۸۳، ۵۸۴؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۲۶-۳۲۷؛ قس: نہج‌البلاغہ، خطبہ ۱۳۶</ref>
سقیفہ میں کیا ہوا اور کونسی باتیں رد و بدل ہوگئیں اس بارے میں روایات مشہور ہیں۔ منابع میں تصریح ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر کا انتخاب بڑی بحث و جدل کے بعد ہوا ہے یہاں تک کہ انصار میں سے [[حباب بن منذر]] نے مہاجروں پر تلوار کھینچی اور [[سعد بن عبادہ]] جو تقریبا خود پیروں تلے دبا جارہا تھا اور عمر کی داڑھی پکڑ کر کھینچ رہا تھا.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۲۰-۲۲۳؛ حلبی، ج۳، ص۳۵۹</ref>اس کے بعد [[مہاجروں]] سے وابستہ [[قبیلہ بنی اسلم]] مکہ میں داخل ہو‎ا اور ابوبکر کی بیعت کی اور اسی قبیلے نے مدینہ کے لوگوں کی بیعت کو آسان کردیا.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۵؛ فیاض، ص۱۳۱</ref> عمر <ref>بلاذری، انساب، ج۱، ص۵۹۰-۵۹۱: ابوبکرسے</ref>سے روایت ہو‎ئی ہے کہ ابوبکر کی بیعت ایک جلدپنی اور بے سابقہ کام تھا کہ اللہ تعالی نے اس کے شر سے لوگوں کو بچایا.<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۲۰۴-۲۰۶، بلاذری، انساب ج۱، ص۵۸۳، ۵۸۴؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۳۲۶-۳۲۷؛ قس: نہج‌البلاغہ، خطبہ ۱۳۶</ref>
سطر 115: سطر 115:


=== بیعت کی وجہ ===
=== بیعت کی وجہ ===
جس چیز نے علی کو ابوبکر کی بیعت پر مجبور کردیا، ارتداد کی بڑھتی ہو‎ئی شرح، مختلف قبا‎ئل کی نافرمانیاں اور جزیرہ عرب پر جھوٹے پیامبر کے دعویدار کا ظہور تھا.<ref>بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۷؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۷</ref>بعض منابع میں سیاسی دبا‎‎‎ؤ اور جان کے خطرے کے احتمال کو بیعت قبول کرنے میں موثر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ روایت ہے کہ ایک دن ابوحنیفہ نے مومن طاق سے پوچھا اگر خلافت علی کی مشروع حق تھی تو اپنا حق لینے کے لیے قیام کیوں نہیں کیا؟ آپ نے جواب دیا: ڈر گئے کہیں [[جنات]] سعد ابن عبادہ کی طرح انکو بھی قتل نہ کردیں!.<ref>طبرسی، احمد، ۲، ص۳۸۱</ref>
جس چیز نے علی کو ابوبکر کی بیعت پر مجبور کردیا، ارتداد کی بڑھتی ہو‎ئی شرح، مختلف قبا‎ئل کی نافرمانیاں اور جزیرہ عرب پر جھوٹے پیغمبر  کے دعویدار کا ظہور تھا.<ref>بلاذری، انساب، ۱، ص۵۸۷؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۰۷</ref>بعض منابع میں سیاسی دبا‎‎‎ؤ اور جان کے خطرے کے احتمال کو بیعت قبول کرنے میں موثر قرار دیا گیا ہے۔ کیونکہ روایت ہے کہ ایک دن ابوحنیفہ نے مومن طاق سے پوچھا اگر خلافت علی کی مشروع حق تھی تو اپنا حق لینے کے لیے قیام کیوں نہیں کیا؟ آپ نے جواب دیا: ڈر گئے کہیں [[جنات]] سعد ابن عبادہ کی طرح انکو بھی قتل نہ کردیں!.<ref>طبرسی، احمد، ۲، ص۳۸۱</ref>


==فدک==
==فدک==
سطر 137: سطر 137:


ابوبکر نے جیسا کہ فوجی سربراہوں کو حکم دیا تھا اور خود بھی اپنی نرمخو‎ئی کے باوجود مخالفوں کو دبانے اور سزا میں بہت مصمم تھا۔ اور روایات کے مطابق فُجائہ سُلَمی (ایاس بن عبد یالیل) کے ساتھ جو سلوک کیا اس بات کی دلیل ہے۔ ایاس نے ابوبکر سے مرتد لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لیے اسلحہ لیا تھا اور لیکن انہی اسلحوں کے زریعے سے مسلمانوں کی لوٹ مار شروع کی۔  اس کی گرفتاری کے بعد ابوبکر نے مدینہ کے مصلی (جہاں نماز پڑھی جاتی ہے۔) میں ایک وسیع آگ جلانے کا حکم دیا اور ایاس کو کپڑے میں لپیٹ کر آگ میں ڈال دیا.<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۲۶۴؛ ابوعلی مسکویہ، ۱، ص۱۶۸؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۳۵۰-۳۵۱ </ref>
ابوبکر نے جیسا کہ فوجی سربراہوں کو حکم دیا تھا اور خود بھی اپنی نرمخو‎ئی کے باوجود مخالفوں کو دبانے اور سزا میں بہت مصمم تھا۔ اور روایات کے مطابق فُجائہ سُلَمی (ایاس بن عبد یالیل) کے ساتھ جو سلوک کیا اس بات کی دلیل ہے۔ ایاس نے ابوبکر سے مرتد لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لیے اسلحہ لیا تھا اور لیکن انہی اسلحوں کے زریعے سے مسلمانوں کی لوٹ مار شروع کی۔  اس کی گرفتاری کے بعد ابوبکر نے مدینہ کے مصلی (جہاں نماز پڑھی جاتی ہے۔) میں ایک وسیع آگ جلانے کا حکم دیا اور ایاس کو کپڑے میں لپیٹ کر آگ میں ڈال دیا.<ref>طبری، تاریخ، ۳، ص۲۶۴؛ ابوعلی مسکویہ، ۱، ص۱۶۸؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۳۵۰-۳۵۱ </ref>
اسطرح سے ابوبکر نے اسلام کے دشمن اور اپنی حکومت کے مخالفوں کو سرکوب کیا اور مسلمانوں کی مدد سے نزدیکی علاقوں میں کی جانے والی بغاوت کو مختصر وقت، تقریبا دو مہینے کی مدت میں (جمادی‌الاول یا جمادی‌الآخر ۱۱ہ ق سے اسی سال کے آخر تک) اور دور کے علاقوں کی بغاوت اور جعلی پیغمبروں [[اسود عنسی]]، [[طلیحہ بن خویلد]]، [[سجاح]] اور [[مسیلمہ]]  کے فتنوں کو دوسرے سال کے درمیان تک کنٹرول کیا اور صرف ایک سال کی مدت میں جزیرہ عرب کو پیامبر اکرم کے دور کی طرح اسلامی پرچم تلے جمع کیا۔ .<ref>ان کامیابیوں کی تفصیلات کے لیے، نک: بلاذری، فتوح، ۸۹-۱۱۵؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۲۷-۳۴۲؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۳۳۶-۳۸۳؛ اوچ اوک، جم؛ دروزہ، ۳۸-۶۵ </ref>
اسطرح سے ابوبکر نے اسلام کے دشمن اور اپنی حکومت کے مخالفوں کو سرکوب کیا اور مسلمانوں کی مدد سے نزدیکی علاقوں میں کی جانے والی بغاوت کو مختصر وقت، تقریبا دو مہینے کی مدت میں (جمادی‌الاول یا جمادی‌الآخر ۱۱ہ ق سے اسی سال کے آخر تک) اور دور کے علاقوں کی بغاوت اور جعلی پیغمبروں [[اسود عنسی]]، [[طلیحہ بن خویلد]]، [[سجاح]] اور [[مسیلمہ]]  کے فتنوں کو دوسرے سال کے درمیان تک کنٹرول کیا اور صرف ایک سال کی مدت میں جزیرہ عرب کو پیغمبر  اکرم کے دور کی طرح اسلامی پرچم تلے جمع کیا۔ .<ref>ان کامیابیوں کی تفصیلات کے لیے، نک: بلاذری، فتوح، ۸۹-۱۱۵؛ طبری، تاریخ، ۳، ص۲۲۷-۳۴۲؛ ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۳۳۶-۳۸۳؛ اوچ اوک، جم؛ دروزہ، ۳۸-۶۵ </ref>
-->
-->


سطر 157: سطر 157:
==حکومت کرنے کا طریقہ==
==حکومت کرنے کا طریقہ==
ابوبکر نے اپنے اس مختصر دور خلافت میں کو‎ئی اہم کام نہیں کیا اور کسی نظام کی بنیاد نہیں رکھ سکا بلکہ خلافت کا بیشتر وقت جنگوں میں گزرا.<ref>نک: EI۱</ref>وہ اپنی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا تھآ کہ وہ قرآن اور پیغمبر اکرم کی سنت کی پیروی کرتا ہے۔ بعض اقدامات جیسے جیش [[اسامہ بن زید|اسامہ]] کو اکثر صحابیوں کی مخالفت کے باوجود بھیج دینا اس بات پر گواہ ہے۔ لیکن حکومت کی مصلحت اقتضا کرتی تو اجتہاد بالرای سے مشکلات کو حل کرتا تھا۔ ابن سعد ابن سیرین سے نقل کرتے ہو‎ئے لکھتا ہے۔ پیغمبر اکرم کے بعد اجتہاد بالرای کرنے میں ابوبکر سب سے زیادہ دلیر تھے۔ ابوبکر کہتا تھا کہ میں اپنی رای میں اجتہاد کرتا ہوں اگر یہ رای حق کے مطابق ہو تو خدا کی طرف سے ہے اور خطا ہو تو میری طرف سے ہے اور اس سے معافی مانگتا ہوں.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۷-۱۷۸</ref>
ابوبکر نے اپنے اس مختصر دور خلافت میں کو‎ئی اہم کام نہیں کیا اور کسی نظام کی بنیاد نہیں رکھ سکا بلکہ خلافت کا بیشتر وقت جنگوں میں گزرا.<ref>نک: EI۱</ref>وہ اپنی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ظاہر کرنے کی کوشش کرتا تھآ کہ وہ قرآن اور پیغمبر اکرم کی سنت کی پیروی کرتا ہے۔ بعض اقدامات جیسے جیش [[اسامہ بن زید|اسامہ]] کو اکثر صحابیوں کی مخالفت کے باوجود بھیج دینا اس بات پر گواہ ہے۔ لیکن حکومت کی مصلحت اقتضا کرتی تو اجتہاد بالرای سے مشکلات کو حل کرتا تھا۔ ابن سعد ابن سیرین سے نقل کرتے ہو‎ئے لکھتا ہے۔ پیغمبر اکرم کے بعد اجتہاد بالرای کرنے میں ابوبکر سب سے زیادہ دلیر تھے۔ ابوبکر کہتا تھا کہ میں اپنی رای میں اجتہاد کرتا ہوں اگر یہ رای حق کے مطابق ہو تو خدا کی طرف سے ہے اور خطا ہو تو میری طرف سے ہے اور اس سے معافی مانگتا ہوں.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۷۷-۱۷۸</ref>
اگر چہ مشہور ہے کہ دیوان عطا پہلی بار عمر کی خلافت میں تاسیس ہوا<ref>ابوعبید، ۲۳۱-۲۳۱؛ ماوردی، ۲۴۹</ref>لیکن منابع میں جو آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر کے دور میں ایک طرح کا دیوان عطا موجود تھا۔ اور ابن سعد <ref>ابن سعد، ج۳، ص۲۱۳</ref> اور ابن اثیر<ref>ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۲</ref> کے کہنے کے مطابق ابوبکر مدینہ منتقل ہونے تک بیت المال سنح میں تھا اور اس پر کو‎ئی چوکیدار بھی نہیں تھا چونکہ جو کچھ بیت المال پہنچتا تھا اسی وقت مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوتا تھا اور کچھ باقی نہیں رہتا تھا۔ اور مدینہ منتقل ہونے کے بعد بیت المال اپنے گھر پر بنادیا۔ ابویوسف کے بیان کے مطابق ابوبکر کی خلافت کے پہلے سال [[بحرین]] سے کچھ رقم بیت المال پہنچی تو اس سے کچھ مقدار ان لوگوں میں تقسیم کیا جن کو پیامبر اکرم نے کچھ دینے کا وعدہ دیا تھا۔ اور باقی رقم کو چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام اور مرد، عورت میں برابر تقسیم کردیا جو ہر شخص کو سات درہم اور ایک درہم کا ایک تہا‎ئی حصہ ملا۔ اگلے سال زیادہ مال پہنچا تو ہر ایک کو 20 درہم مل گئے۔ اس کام میں بھی ابوبکر نے [[پیامبر(ص)]] کی سنت پر عمل کیا تھا۔ اور شرافت اور ماضی کو مدنظر رکھ کر تقسیم کرنے کی تجاویز کو قبول نہیں کیا۔ ابن سعد کہتا ہے.<ref>ص ۴۲</ref> ابوبکر مرنے کے بعد عمر نے بزرگوں اور معتمد شخصیات کی موجودگی میں بیت المال کو کھولا تو ایک تھیلی سے گری ہو‎ئی ایک دینار کے سوا کچھ نہیں پایا. <ref>ابن سعد، ج۳، ۲ ۲۱۳؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۴۲۲؛ یعقوبی، ۲، ص۱۳۴، ۱۵۴</ref>
اگر چہ مشہور ہے کہ دیوان عطا پہلی بار عمر کی خلافت میں تاسیس ہوا<ref>ابوعبید، ۲۳۱-۲۳۱؛ ماوردی، ۲۴۹</ref>لیکن منابع میں جو آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوبکر کے دور میں ایک طرح کا دیوان عطا موجود تھا۔ اور ابن سعد <ref>ابن سعد، ج۳، ص۲۱۳</ref> اور ابن اثیر<ref>ابن اثیر، الکامل، ۲، ص۴۲۲</ref> کے کہنے کے مطابق ابوبکر مدینہ منتقل ہونے تک بیت المال سنح میں تھا اور اس پر کو‎ئی چوکیدار بھی نہیں تھا چونکہ جو کچھ بیت المال پہنچتا تھا اسی وقت مسلمانوں کے درمیان تقسیم ہوتا تھا اور کچھ باقی نہیں رہتا تھا۔ اور مدینہ منتقل ہونے کے بعد بیت المال اپنے گھر پر بنادیا۔ ابویوسف کے بیان کے مطابق ابوبکر کی خلافت کے پہلے سال [[بحرین]] سے کچھ رقم بیت المال پہنچی تو اس سے کچھ مقدار ان لوگوں میں تقسیم کیا جن کو پیغمبر  اکرم نے کچھ دینے کا وعدہ دیا تھا۔ اور باقی رقم کو چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام اور مرد، عورت میں برابر تقسیم کردیا جو ہر شخص کو سات درہم اور ایک درہم کا ایک تہا‎ئی حصہ ملا۔ اگلے سال زیادہ مال پہنچا تو ہر ایک کو 20 درہم مل گئے۔ اس کام میں بھی ابوبکر نے [[پیغمبر (ص)]] کی سنت پر عمل کیا تھا۔ اور شرافت اور ماضی کو مدنظر رکھ کر تقسیم کرنے کی تجاویز کو قبول نہیں کیا۔ ابن سعد کہتا ہے.<ref>ص ۴۲</ref> ابوبکر مرنے کے بعد عمر نے بزرگوں اور معتمد شخصیات کی موجودگی میں بیت المال کو کھولا تو ایک تھیلی سے گری ہو‎ئی ایک دینار کے سوا کچھ نہیں پایا. <ref>ابن سعد، ج۳، ۲ ۲۱۳؛ ابن اثیر، الکامل، ج۲، ص۴۲۲؛ یعقوبی، ۲، ص۱۳۴، ۱۵۴</ref>


==حکومتی عہدے دار==
==حکومتی عہدے دار==
سطر 203: سطر 203:
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
* آقابزرگ، الذریعہ
* آقابزرگ، الذریعہ
* آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیامبر اسلام، بہ کوشش ابوالقاسم گرجی، تہران، ۱۳۶۲ش
* آیتی، محمد ابراہیم، تاریخ پیغمبر  اسلام، بہ کوشش ابوالقاسم گرجی، تہران، ۱۳۶۲ش
* آیتی، محمد ابراہیم، حواشی و تعلیقات بر آئینہ اسلام (نک: ہم‌، حسین)
* آیتی، محمد ابراہیم، حواشی و تعلیقات بر آئینہ اسلام (نک: ہم‌، حسین)
* ابن ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبہ‌اللہ، شرح نہج‌البلاغہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۷۸ق، ۱۹۵۹م.
* ابن ابی‌الحدید، عبدالحمید بن ہبہ‌اللہ، شرح نہج‌البلاغہ، بہ کوشش محمد ابوالفضل ابراہیم، قاہرہ، ۱۳۷۸ق، ۱۹۵۹م.
سطر 238: سطر 238:
* امین، محسن، اعیان الشیعہ، بہ کوشش حسن امین، بیروت، ۱۴۰۳ق، ص۱۹۸۳م
* امین، محسن، اعیان الشیعہ، بہ کوشش حسن امین، بیروت، ۱۴۰۳ق، ص۱۹۸۳م
* امینی، عبدالحسین، الغدیر، بیروت، ۱۴۰۳ق، ص۱۹۸۳م
* امینی، عبدالحسین، الغدیر، بیروت، ۱۴۰۳ق، ص۱۹۸۳م
* اوچ اوک، بحریہ، تاریخ پیامبران دروغین در صدر اسلام، ترجمہ وہاب ولی، تہران، ۱۳۶۴ش
* اوچ اوک، بحریہ، تاریخ پیغمبر ان دروغین در صدر اسلام، ترجمہ وہاب ولی، تہران، ۱۳۶۴ش
* بخاری، محمدبن اسماعیل، صحیح، قاہرہ، ۱۳۱۵ق
* بخاری، محمدبن اسماعیل، صحیح، قاہرہ، ۱۳۱۵ق
* بلاذری، احمدبن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، بہ کوشش محمد حمیداللہ، قاہرہ، ۱۹۵۹م
* بلاذری، احمدبن یحیی، انساب الاشراف، ج۱، بہ کوشش محمد حمیداللہ، قاہرہ، ۱۹۵۹م
confirmed، templateeditor
8,972

ترامیم