"ابو بکر بن ابی قحافہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←آخری عمرمیں کف افسوس ملنا
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←فدک) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 183: | سطر 183: | ||
ابوبکر نے [[۷ جمادیالثانی]] [[۱۳ ہجری قمری|سال ۱۳ ہجری]] بروز پیر کو ایک ٹھنڈے دن میں غسل کیا اور اسی وجہ سے بخار ہوئی اور لوگوں کو نماز بھی نہ پڑھا سکے اور 15 دن یہ بیماری طول پکڑ گئی۔ اس کی جگہ عمر نماز پڑھاتا تھا لوگ گھر پر انکی عیادت کرنے آتے تھے اور آخر کار 22 جمادی ثانی کو 62 سال کی عمر میں دو سال 3مہینے اور 22 دن خلافت کرنے کے بعد منگل کی شام کو وفات ہوا.<ref>یعقوبی، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۱۹-۴۲۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱، ۱۹۴</ref> ابوبکر کی وصیت کے مطابق انکی بیوی [[اسما بنت عمیس|اسماء]] نے اس کے جنازے کو غسل دیا اور اسی رات کو عمر نے مسجد نبوی میں جنازے پر [[نماز میت|نماز]] پڑھائی اور عایشہ کو کی گئی وصیت کے مطابق عثمان، طلحہ اور ۔۔۔۔ کی مدد سے پیغمبر اکرم کے جوار میں دفن کیا گیا.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۲۰۳، ۲۰۸، ۲۰۹؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۱-۴۲۲؛ ابن حیان، ج۲، ص۱۹۳، ۱۹۵</ref> | ابوبکر نے [[۷ جمادیالثانی]] [[۱۳ ہجری قمری|سال ۱۳ ہجری]] بروز پیر کو ایک ٹھنڈے دن میں غسل کیا اور اسی وجہ سے بخار ہوئی اور لوگوں کو نماز بھی نہ پڑھا سکے اور 15 دن یہ بیماری طول پکڑ گئی۔ اس کی جگہ عمر نماز پڑھاتا تھا لوگ گھر پر انکی عیادت کرنے آتے تھے اور آخر کار 22 جمادی ثانی کو 62 سال کی عمر میں دو سال 3مہینے اور 22 دن خلافت کرنے کے بعد منگل کی شام کو وفات ہوا.<ref>یعقوبی، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۱۹-۴۲۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱، ۱۹۴</ref> ابوبکر کی وصیت کے مطابق انکی بیوی [[اسما بنت عمیس|اسماء]] نے اس کے جنازے کو غسل دیا اور اسی رات کو عمر نے مسجد نبوی میں جنازے پر [[نماز میت|نماز]] پڑھائی اور عایشہ کو کی گئی وصیت کے مطابق عثمان، طلحہ اور ۔۔۔۔ کی مدد سے پیغمبر اکرم کے جوار میں دفن کیا گیا.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۲۰۳، ۲۰۸، ۲۰۹؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۱-۴۲۲؛ ابن حیان، ج۲، ص۱۹۳، ۱۹۵</ref> | ||
===آخری عمرمیں کف افسوس | ===آخری عمرمیں کف افسوس مَلنا=== | ||
بیماری کے بسترے میں ابوبکر سے وصیت کے عنوان سے کچھ باتیں نقل ہوئی ہیں جن میں کچھ باتیں [[عمر]] کی جانشینی اور اس پر کئے جانے والے اعتراضات کے بارے میں ہیں اور بعض باتیں اس کی شخصی زندگی، بیت المال کا حساب کتاب اور اسکے ترکہ کے بارے میں ہیں.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۹۲-۲۰۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۸-۴۳۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱-۱۹۴</ref> ان باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات بھی الفاظ اور معانی میں مختصر اختلاف کے ساتھ منابع میں ذکر ہوئی ہیں جو اس کی آخری عمر میں اندرونی شخصیت کی پہچان اور تاریخ اسلام کے بعض حادثات کی حقیقت کے بارے میں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ باتیں اس نے عبدالرحمن کی باتوں کے جواب میں کہا تھا۔ عبد الرحمن نے کہا: «۔۔۔۔ آپ ہمیشہ مصلح اور صالح تھے اور دنیا کی کسی بات پر مغموم نہ ہوجائیے» تو ابوبکر نے جواب میں کہا:« جی ہاں، تین کاموں کے علاوہ دنیا کی کسی چیز کی وجہ سے مجھے افسوس نہیں، کاش وہ تین کام انجام نہ دیا ہوتا اور تین کام انجام نہیں دیا کاش انکو انجام دیا ہوتا! اور ان تین کاموں کے بارے میں افسوس ہے جنکا جواب پیغمبر اکرم سے پوچھا تھا۔ جن کاموں کو نہیں کرنا چاہتا تھا اور انجام پایا ان میں سے ایک، [[فاطمہ]] کے گھر کا دروازہ اگرچہ میرے ساتھ جنگ کی قصد سے ہی بند کیا ہو، کاش اسے نہ کھولتا، دوسرا یہ کہ کاش فجائہ سلمی کو جلانے کے بجائے قتل کرتا یا اسے آزاد کرتا اور تیسرا کام [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں خلافت کو ان دونوں عمر اور [[ابو عبیدہ جراح|ابو عبیدہ]] کی گردن میں ڈال دیتا اور ان میں سے ایک امیر ہوتا اور میں اسکا وزیر بنتا؛...<ref> لیکن وہ تین کام جن کو کرنا چاہیے تھا اور نہیں کیا ان میں سے ایک یہ تھا کہ جب [[اشعث بن قیس]] کو گرفتار کر کے میرے پاس لایا گیا اس وقت کاش اس کی گردن اڑا دیتا چونکہ میرے خیال سے جہاں پر بھی کوئی شرارت ہوتی وہ وہاں پر مددگار تھا۔ دوسرا یہ کہ جب [[خالد بن ولید]] کو مرتدوں کے خلاف جنگ کے لیے بھیجا تو کاش میں خود ذو القصہ میں ٹھہرتا اور جنگ کیلیے تیار اور مدد کرنے کیلیے آمادہ رہتا۔ تیسرا کام یہ تھا کہ جب خالد کو شام بھیجا تھا تو اس وقت عمر کو بھی عراق بھیجتا تاکہ اسطرح سے اپنے دونوں بازووں کو اللہ کی راہ میں پھیلا چکا ہوتا» پھر اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور کہا: «</ref>کاش پیغمبر خدا سے پوچھا ہوتا کہ خلافت کس کا حق ہے تاکہ ہر کوئی اس کے حصول میں جنگ کے لیے تیار نہ ہوسکے، کاش پوچھا ہوتا ہے بھتیجی اور پھوپھی کو ارث ملتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس بارے میں مطمئن نہیں ہوں ».<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۹-۴۳۱؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۳۷؛ الامامہ، ج۱، ص۱۸-۱۹؛ مسعودی، مروج، ج۲، ص۳۰۸-۳۰۹؛ مبرد، ج۱، ص۱۱؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۸- ۲۶۹؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۶-۴۷</ref> | بیماری کے بسترے میں ابوبکر سے وصیت کے عنوان سے کچھ باتیں نقل ہوئی ہیں جن میں کچھ باتیں [[عمر]] کی جانشینی اور اس پر کئے جانے والے اعتراضات کے بارے میں ہیں اور بعض باتیں اس کی شخصی زندگی، بیت المال کا حساب کتاب اور اسکے ترکہ کے بارے میں ہیں.<ref>ابن سعد، ج۳، ص۱۹۲-۲۰۰؛ طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۸-۴۳۰؛ ابن حبان، ج۲، ص۱۹۱-۱۹۴</ref> ان باتوں کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات بھی الفاظ اور معانی میں مختصر اختلاف کے ساتھ منابع میں ذکر ہوئی ہیں جو اس کی آخری عمر میں اندرونی شخصیت کی پہچان اور تاریخ اسلام کے بعض حادثات کی حقیقت کے بارے میں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ باتیں اس نے عبدالرحمن کی باتوں کے جواب میں کہا تھا۔ عبد الرحمن نے کہا: «۔۔۔۔ آپ ہمیشہ مصلح اور صالح تھے اور دنیا کی کسی بات پر مغموم نہ ہوجائیے» تو ابوبکر نے جواب میں کہا:« جی ہاں، تین کاموں کے علاوہ دنیا کی کسی چیز کی وجہ سے مجھے افسوس نہیں، کاش وہ تین کام انجام نہ دیا ہوتا اور تین کام انجام نہیں دیا کاش انکو انجام دیا ہوتا! اور ان تین کاموں کے بارے میں افسوس ہے جنکا جواب پیغمبر اکرم سے پوچھا تھا۔ جن کاموں کو نہیں کرنا چاہتا تھا اور انجام پایا ان میں سے ایک، [[فاطمہ]] کے گھر کا دروازہ اگرچہ میرے ساتھ جنگ کی قصد سے ہی بند کیا ہو، کاش اسے نہ کھولتا، دوسرا یہ کہ کاش فجائہ سلمی کو جلانے کے بجائے قتل کرتا یا اسے آزاد کرتا اور تیسرا کام [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں خلافت کو ان دونوں عمر اور [[ابو عبیدہ جراح|ابو عبیدہ]] کی گردن میں ڈال دیتا اور ان میں سے ایک امیر ہوتا اور میں اسکا وزیر بنتا؛...<ref> لیکن وہ تین کام جن کو کرنا چاہیے تھا اور نہیں کیا ان میں سے ایک یہ تھا کہ جب [[اشعث بن قیس]] کو گرفتار کر کے میرے پاس لایا گیا اس وقت کاش اس کی گردن اڑا دیتا چونکہ میرے خیال سے جہاں پر بھی کوئی شرارت ہوتی وہ وہاں پر مددگار تھا۔ دوسرا یہ کہ جب [[خالد بن ولید]] کو مرتدوں کے خلاف جنگ کے لیے بھیجا تو کاش میں خود ذو القصہ میں ٹھہرتا اور جنگ کیلیے تیار اور مدد کرنے کیلیے آمادہ رہتا۔ تیسرا کام یہ تھا کہ جب خالد کو شام بھیجا تھا تو اس وقت عمر کو بھی عراق بھیجتا تاکہ اسطرح سے اپنے دونوں بازووں کو اللہ کی راہ میں پھیلا چکا ہوتا» پھر اپنے ہاتھوں کو پھیلایا اور کہا: «</ref>کاش پیغمبر خدا سے پوچھا ہوتا کہ خلافت کس کا حق ہے تاکہ ہر کوئی اس کے حصول میں جنگ کے لیے تیار نہ ہوسکے، کاش پوچھا ہوتا ہے بھتیجی اور پھوپھی کو ارث ملتا ہے یا نہیں؟ کیونکہ اس بارے میں مطمئن نہیں ہوں ».<ref>طبری، تاریخ، ج۳، ص۴۲۹-۴۳۱؛ یعقوبی، ج۲، ص۱۳۷؛ الامامہ، ج۱، ص۱۸-۱۹؛ مسعودی، مروج، ج۲، ص۳۰۸-۳۰۹؛ مبرد، ج۱، ص۱۱؛ ابن عبدربہ، ج۴، ص۲۶۸- ۲۶۹؛ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۴۶-۴۷</ref> | ||