مندرجات کا رخ کریں

"مصحف امام علی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 40: سطر 40:
تاریخ قرآن  کا مصنف اپنی تحقیقات میں کہتا ہے :
تاریخ قرآن  کا مصنف اپنی تحقیقات میں کہتا ہے :
یعقوبی مصحف امام علی کی سورتوں کی ترتیب کے متعلق لکھتا ہے : مصحف علی کی سورتوں کی جو ترتیب (سات اجزا میں بیان کرنا)یعقوبی نے بیان کی ہے یہ عجیب اور منفرد ہے .تمام مؤرخین اور راویوں نے مصحف امام علی ترتیب کے بارے میں کہا ہے کہ اسکی  ترتیب شان نزول کے مطابق تھی اور اس مصحف میں قرآن کے بہت سے ابہامات کی توضیح تھی۔اگر یعقوبی کی بات کو قبول کر لیا جائے تو تمام مؤرخین اور راویوں کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ہے ۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۰-۳۷۱.</ref>
یعقوبی مصحف امام علی کی سورتوں کی ترتیب کے متعلق لکھتا ہے : مصحف علی کی سورتوں کی جو ترتیب (سات اجزا میں بیان کرنا)یعقوبی نے بیان کی ہے یہ عجیب اور منفرد ہے .تمام مؤرخین اور راویوں نے مصحف امام علی ترتیب کے بارے میں کہا ہے کہ اسکی  ترتیب شان نزول کے مطابق تھی اور اس مصحف میں قرآن کے بہت سے ابہامات کی توضیح تھی۔اگر یعقوبی کی بات کو قبول کر لیا جائے تو تمام مؤرخین اور راویوں کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ہے ۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۰-۳۷۱.</ref>
== ویژگی‌های مصحف ==
== خصوصیات ==
<!--
اکثر روایات بیان کرتی ہیں کہ مصحف امام علی قرآن کے نازل ہونے کی ترتیب کے مطابق اکٹھا کیا گیا مثلاً پہلے [[سورہ علق|سوره اقرأ]] پھر  [[سوره مدثر|المدثر]] پھر اسکے بعد [[سورہ قلم|نون و القلم]] اور پھر [[سورہ مزمل|مزمل]]... آخر تک۔ اس میں کیا کچھ ذکر یا گیا صرف متن قرآن تھا یا [[شأن نزول]] اور [[ناسخ و منسوخ]] کو بھی شامل تھا،اس کے متعلق مختلف اقوال مذکور ہیں .<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۰-۳۷۱.</ref>
اکثر روایات بیان کرتی ہیں کہ مصحف امام علی قرآن کے نازل ہونے کی ترتیب کے مطابق اکٹھا کیا گیا مثلاً پہلے [[سورہ علق|سوره اقرأ]] پھر  [[سوره مدثر|المدثر]] پھر اسکے بعد [[سورہ قلم|نون و القلم]] اور پھر [[سورہ مزمل|مزمل]]... آخر تک۔ اس میں کیا کچھ ذکر یا گیا صرف متن قرآن تھا یا [[شأن نزول]] اور [[ناسخ و منسوخ]] کو بھی شامل تھا،اس کے متعلق مختلف اقوال مذکور ہیں .<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۰-۳۷۱.</ref>


[[امام باقر]](ع) نے فرمایا:
[[امام باقر]](ع) نے فرمایا:
:جو شخص بھی یہ کہے کہ میں نے قرآن کو اسی طرح جمع کیا ہے جسطرح وہ نازل ہوا ہے ،اس نے جھوٹ کہا ہے ۔قرآن کو صرف [[حضرت علی]] ترتیب نزولی کے مطابق جمع کیا تھا۔<ref>بحار، ۸۸:۹۲؛ وافی ۲: ب۱۳۰/۷۲، به نقل رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۱.</ref>
:جو شخص بھی یہ کہے کہ میں نے قرآن کو اسی طرح جمع کیا ہے جسطرح وہ نازل ہوا ہے ،اس نے جھوٹ کہا ہے ۔قرآن کو صرف [[حضرت علی]] ترتیب نزولی کے مطابق جمع کیا تھا۔<ref>بحار، ۸۸:۹۲؛ وافی ۲: ب۱۳۰/۷۲، بحوالۂ رامیار، تاریخ قرآن، ص ۳۷۱.</ref>


شہرستانی نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ امام علی کا قرآن متن اور حاشیے پر مشتمل تھا<ref>شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص۵آ؛ نیز ر.ک: تفسیر شہرستانی، تحقیق آذرشب، ج۱، ص۱۲۰، به نقل خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۸.</ref> شیخ مفید اور دیگر محققین کے نزدیک اسکی دیگر خصوصیات میں سے یہ ہے کہ اس میں آیات کی تاویل مذکور تھیں۔<ref>اوائل المقالات، ص۹۴، بحوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۹-۴۶۸.</ref> دیگر یہ کہ [[ناسخ و منسوخ]] میں سے منسوخ ناسخ پر مقدم تھیں۔<ref>زنجانی، تاریخ قرآن، ص۵۴، بحوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.</ref> نیز کہا گیا ہے کہ اس کے حاشیے میں منافقان کے اسما جیسی مبہم چیزوں کو ذکر کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے قبول نہیں کیا گیا اور امام علی نے [[مصحف عثمان]] کی تائید کرتے ہوئے اسے مہمیشہ کیلئے مخفی کر دیا۔<ref>خرمشاہی، قرآن‎پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.</ref>
شہرستانی نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ امام علی کا قرآن متن اور حاشیے پر مشتمل تھا<ref>شہرستانی، مفاتیح الاسرار و مصابیح الابرار، ج۱، ص۵آ؛ نیز ر.ک: تفسیر شہرستانی، تحقیق آذرشب، ج۱، ص۱۲۰، به نقل خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۸.</ref> شیخ مفید اور دیگر محققین کے نزدیک اسکی دیگر خصوصیات میں سے یہ ہے کہ اس میں آیات کی تاویل مذکور تھیں۔<ref>اوائل المقالات، ص۹۴، بحوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۹-۴۶۸.</ref> دیگر یہ کہ [[ناسخ و منسوخ]] میں سے منسوخ ناسخ پر مقدم تھیں۔<ref>زنجانی، تاریخ قرآن، ص۵۴، بحوالۂ خرمشاہی، قرآن پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.</ref> نیز کہا گیا ہے کہ اس کے حاشیے میں منافقان کے اسما جیسی مبہم چیزوں کو ذکر کیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے قبول نہیں کیا گیا اور امام علی نے [[مصحف عثمان]] کی تائید کرتے ہوئے اسے مہمیشہ کیلئے مخفی کر دیا۔<ref>خرمشاہی، قرآن‎پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.</ref>


احادیث منابع سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مصحف مسلسل ارث کے طور پر [[ائمه (ع)]] کے پاس موجود رہا اور اب  [[امام مہدی عجل الله تعالی فرجه|حضرت ولی عصر (عج)]] کے پاس موجود ہے۔<ref>حقائق ہامہ، ص۱۶۰، به نقل خرمشاہی، قرآن‎پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.</ref>
احادیث منابع سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مصحف مسلسل ارث کے طور پر [[ائمه (ع)]] کے پاس موجود رہا اور اب  [[امام مہدی عجل الله تعالی فرجه|حضرت ولی عصر (عج)]] کے پاس موجود ہے۔<ref>حقائق ہامہ، ص۱۶۰، بحوالۂ نقل خرمشاہی، قرآن‎پژوہی (۲)، ص ۴۶۹.</ref>


مجموعی طور پر اس مصحف کی درج ذیل خصوصیات تھیں:
مجموعی طور پر اس مصحف کی درج ذیل خصوصیات تھیں:
سطر 55: سطر 54:
# حضرت امام علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔
# حضرت امام علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا۔
# اس کی جمع آوری  بدیع، ابتکاری ، انحصاری اور انفرادی تھی کہ اس کی مانند کسی نے اسکی حفاظت اور جمع نہیں کیا تھا اور نزول کی شرائط کے لحاظ سے یہ ایک بے نظیر کام تھا۔<ref>ایازی، مصحف امام علی(ع)، صص۱۷۷-۱۷۸.</ref>
# اس کی جمع آوری  بدیع، ابتکاری ، انحصاری اور انفرادی تھی کہ اس کی مانند کسی نے اسکی حفاظت اور جمع نہیں کیا تھا اور نزول کی شرائط کے لحاظ سے یہ ایک بے نظیر کام تھا۔<ref>ایازی، مصحف امام علی(ع)، صص۱۷۷-۱۷۸.</ref>
==حوالہ جات ==
{{حوالہ جات|2}}
==مآخذ==
گمنام صارف