مندرجات کا رخ کریں

"آیت" کے نسخوں کے درمیان فرق

24 بائٹ کا ازالہ ،  12 دسمبر 2016ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:
اسی طرح آیت ایک اور معنا میں بھی استعمال ہوا ہے :ہر موجود کہ جو [[خدا]] کے وجود یا صفات [[خدا]] کی علامت ہو اسے آیت کہتے ہیں۔اسی سے انبیا کی طرف سے پیش کئے گئے معجزات کو آیت کہا جاتا ہے ۔اس معنا کے لحاظ سے [[قرآن]] کریم آیات اور علامات [[خدا]] کو آفاقی اور انفسی میں تقسیم کرتا ہے ۔پہلی قسم وجود انسان سے باہر کی علامات کے معنا میں ہے ۔ دوسری قسم میں وجود انسان سے باہر کی وہ علامات  ہیں جو انسان کو [[خدا]] کی طرف راہنمائی کرتی  ہیں۔
اسی طرح آیت ایک اور معنا میں بھی استعمال ہوا ہے :ہر موجود کہ جو [[خدا]] کے وجود یا صفات [[خدا]] کی علامت ہو اسے آیت کہتے ہیں۔اسی سے انبیا کی طرف سے پیش کئے گئے معجزات کو آیت کہا جاتا ہے ۔اس معنا کے لحاظ سے [[قرآن]] کریم آیات اور علامات [[خدا]] کو آفاقی اور انفسی میں تقسیم کرتا ہے ۔پہلی قسم وجود انسان سے باہر کی علامات کے معنا میں ہے ۔ دوسری قسم میں وجود انسان سے باہر کی وہ علامات  ہیں جو انسان کو [[خدا]] کی طرف راہنمائی کرتی  ہیں۔
== لغوی و اصطلاحی معنا==
== لغوی و اصطلاحی معنا==
آیت علامت <ref>[[البرہان]] فی علوم القرآن]]، ج۱، ص۳۶۳</ref>  یاواضح اور روشن کے معنا میں ہے۔<ref>راغب اصفهانی، معجم مفردات الفاظ ال[[قرآن]]، ص ۳۴.</ref>
آیت علامت <ref>البرہان فی علوم القرآن]]، ج۱، ص۳۶۳</ref>  یاواضح اور روشن کے معنا میں ہے۔<ref>راغب اصفہانی، معجم مفردات الفاظ القرآن، ص ۳۴.</ref>


اصطلاحی معنا میں آیت [[قرآن]] :[[قرآن]] کا ایک ایسا قطعہ جس کا شروع اور آخر ہو اور وہ  [[سورت]] میں واقع ہو  یا چند جملوں پر  یا کچھ ظاہری اور تقدیری کلمات پر مشتمل مجموعہ ہے۔<ref>سیوطی، الاتقان، ج ۱، ص ۱۴۵</ref>
اصطلاحی معنا میں آیت [[قرآن]] :[[قرآن]] کا ایک ایسا قطعہ جس کا شروع اور آخر ہو اور وہ  [[سورت]] میں واقع ہو  یا چند جملوں پر  یا کچھ ظاہری اور تقدیری کلمات پر مشتمل مجموعہ ہے۔<ref>سیوطی، الاتقان، ج ۱، ص ۱۴۵</ref>
سطر 13: سطر 13:


==آیتِ قرآن==
==آیتِ قرآن==
آیت کا لفظ [[قرآن]] پاک میں مفرد،تثنیہ اور جمع کی صورت میں کل 383 مرتبہ آیا ہے<ref>عبدالباقی،  المعجم [[المفہرس]]، صص ۱۰۳- ۱۰۸</ref> کہ جہاں اس کا معنائے  اصلی علامت اور نشان ہے اور کبھی ان معانی: علامت (بقره:۲۴۸)، عبرت (یونس:۹۲)، معجزه (بقره:۱۲)، عجیب و عجیب  امر (مؤمنون:۵۰)، برہان و دلیل (روم:۲۲)، میں استعمال ہوا ہے ۔<ref>المعجم الوسیط، ج۱، ص۲۵؛[[ مناہل]] العرفان فی علوم القرآن]]، ج۱، ص۳۳۸؛ [[البرہان]] فی علوم القرآن]]، ج۱، ص۲۶۶</ref>
آیت کا لفظ [[قرآن]] پاک میں مفرد،تثنیہ اور جمع کی صورت میں کل 383 مرتبہ آیا ہے<ref>عبدالباقی،  المعجم المفہرس، صص ۱۰۳- ۱۰۸</ref> کہ جہاں اس کا معنائے  اصلی علامت اور نشان ہے اور کبھی ان معانی: علامت (بقره:۲۴۸)، عبرت (یونس:۹۲)، معجزه (بقره:۱۲)، عجیب و عجیب  امر (مؤمنون:۵۰)، برہان و دلیل (روم:۲۲)، میں استعمال ہوا ہے ۔<ref>المعجم الوسیط، ج۱، ص۲۵؛[[ مناہل]] العرفان فی علوم القرآن]]، ج۱، ص۳۳۸؛ [[البرہان]] فی علوم القرآن]]، ج۱، ص۲۶۶</ref>
[[قرآنی]] آیات کی شناخت توقیفی ہے<ref>غرائب القرآن]] ورغائب الفرقان، ج۱، ص۶۶</ref> اور ان کی شناخت علم الہی کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ بعض حروف اور کلمات جیسے <font color=green>{{حدیث|'''المص‌'''}}</font> آیت ہیں لیکن دوسرے بعض الفاظ جیسے <font color=green>{{حدیث|'''المر‌'''}}</font> آیت نہیں ہیں۔<ref>مناہل العرفان، ج۱، ص۳۳۹</ref>
[[قرآنی]] آیات کی شناخت توقیفی ہے<ref>غرائب القرآن]] ورغائب الفرقان، ج۱، ص۶۶</ref> اور ان کی شناخت علم الہی کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ بعض حروف اور کلمات جیسے <font color=green>{{حدیث|'''المص‌'''}}</font> آیت ہیں لیکن دوسرے بعض الفاظ جیسے <font color=green>{{حدیث|'''المر‌'''}}</font> آیت نہیں ہیں۔<ref>مناہل العرفان، ج۱، ص۳۳۹</ref>


سطر 44: سطر 44:
[[علامہ طباطبائی]] کے مطابق اسی آیت کی بنا پر متشابہ آیات کی بازگشت آیات محکمات کی طرف ہوتی ہے۔ روایات سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ متشابہ آیات اپنے مدلول معنا کو بیان کرنے میں مستقل نہیں بلکہ محکمات کی طرف سے لوٹانے سے ان کا معنی واضح ہوجاتا ہے ۔اس بیان کی روشنی میں کوئی ایسی آیت موجود نہیں ہے کہ جس سے مقصود  معنا کو سمجھنا ممکن نہ ہو۔<ref>طباطبائی، [[قرآن]] در اسلام، ص ۳۷</ref>
[[علامہ طباطبائی]] کے مطابق اسی آیت کی بنا پر متشابہ آیات کی بازگشت آیات محکمات کی طرف ہوتی ہے۔ روایات سے بھی یہی سمجھا جاتا ہے کہ متشابہ آیات اپنے مدلول معنا کو بیان کرنے میں مستقل نہیں بلکہ محکمات کی طرف سے لوٹانے سے ان کا معنی واضح ہوجاتا ہے ۔اس بیان کی روشنی میں کوئی ایسی آیت موجود نہیں ہے کہ جس سے مقصود  معنا کو سمجھنا ممکن نہ ہو۔<ref>طباطبائی، [[قرآن]] در اسلام، ص ۳۷</ref>


اکثر متشابہ آیات [[خدا]] کی صفات اور افعال سے متعلق ہیں کہ جنہیں  آیات محکمات کی طرف لوٹایا جائے تو  وہ متشابہات محکمات کا حصہ بن جاتی ہیں۔ متشابہ آیات کی تعداد 200 سے زیادہ تجاوز نہیں کرتی ہے <ref>التمهید، ج۳، ص۱۴</ref>
اکثر متشابہ آیات [[خدا]] کی صفات اور افعال سے متعلق ہیں کہ جنہیں  آیات محکمات کی طرف لوٹایا جائے تو  وہ متشابہات محکمات کا حصہ بن جاتی ہیں۔ متشابہ آیات کی تعداد 200 سے زیادہ تجاوز نہیں کرتی ہے <ref>تمہید، ج۳، ص۱۴</ref>


=== دوسری تقسیمات  ===
=== دوسری تقسیمات  ===
سطر 97: سطر 97:


== تناسب آیات ==
== تناسب آیات ==
تناسب آیات ایک سورے  کی آیات کے ایک مجموعے کے درمیان تناسب یا  سیاق کی وحدت کے معنا میں ہے کہ جس پر  مفسروں کا اتفاق ہوتا ہے  یا ایک [[سورت]] کی آیات کے مجموعے کا ایک ہدف کی طرف یا متعدد اہداف کی طرف راہنمائی کرنا تناسب سے مقصود ہے  اور ان تک پہنچنے کے بعد سورہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے ۔سورے کا چھوٹا ہونا اور طویل ہونا اسی سبب کی طرف لوٹتا ہے۔ <ref>التمهید، ج۵، ص۲۳۹</ref>
تناسب آیات ایک سورے  کی آیات کے ایک مجموعے کے درمیان تناسب یا  سیاق کی وحدت کے معنا میں ہے کہ جس پر  مفسروں کا اتفاق ہوتا ہے  یا ایک [[سورت]] کی آیات کے مجموعے کا ایک ہدف کی طرف یا متعدد اہداف کی طرف راہنمائی کرنا تناسب سے مقصود ہے  اور ان تک پہنچنے کے بعد سورہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے ۔سورے کا چھوٹا ہونا اور طویل ہونا اسی سبب کی طرف لوٹتا ہے۔ <ref>تمہید، ج۵، ص۲۳۹</ref>


آیات کی ترتیب کو توقیفی سمجھنے والے اس مناسبت کے کشف کی بہت زیادہ تاکید کرتے ہیں۔مسلمان مفسروں میں آیات اور سوروں کے درمیان ربط و مناسبت پر زیادہ توجہ کرنے والے [[فضل بن حسن طبرسی]] (د ۵۴۸ق /۱۱۵۳م) ہیں کہ جو ہر [[سورہ]] کے آغاز میں اس کے پہلے سورے سے ربط کو بیان کرتے ہیں اور تفسیر میں نظم کے عنوان سے ہر آیت کی پہلی اور بعد کی  آیات سے مناسبت بیان کرتے ہیں ۔دیگر مفسروں نے اس امر کی جانب کم توجہ کی ہے ۔ ان میں سے [[زمخشری]] کی [[الکشّاف]]، [[فخررازی]] کی [[التفسیر الکبیر]]، [[آلوسی]] کی [[روح المعانی]]، [[محمد رشید رضا|محمّدرشیدرضا]]  کی [[تفسیر المنار]] اور [[شیخ محمود شلتوت]] کی [[تفسیر القرآن الکریم]] کا نام لیا جا سکتا ہے ۔
آیات کی ترتیب کو توقیفی سمجھنے والے اس مناسبت کے کشف کی بہت زیادہ تاکید کرتے ہیں۔مسلمان مفسروں میں آیات اور سوروں کے درمیان ربط و مناسبت پر زیادہ توجہ کرنے والے [[فضل بن حسن طبرسی]] (د ۵۴۸ق /۱۱۵۳م) ہیں کہ جو ہر [[سورہ]] کے آغاز میں اس کے پہلے سورے سے ربط کو بیان کرتے ہیں اور تفسیر میں نظم کے عنوان سے ہر آیت کی پہلی اور بعد کی  آیات سے مناسبت بیان کرتے ہیں ۔دیگر مفسروں نے اس امر کی جانب کم توجہ کی ہے ۔ ان میں سے [[زمخشری]] کی [[الکشّاف]]، [[فخررازی]] کی [[التفسیر الکبیر]]، [[آلوسی]] کی [[روح المعانی]]، [[محمد رشید رضا|محمّدرشیدرضا]]  کی [[تفسیر المنار]] اور [[شیخ محمود شلتوت]] کی [[تفسیر القرآن الکریم]] کا نام لیا جا سکتا ہے ۔
سطر 172: سطر 172:
* مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن المجید، تہران، ۱۳۶۰ش، ج۱، ص۱۷۲-۱۷۴.
* مصطفوی، حسن، التحقیق فی کلمات القرآن المجید، تہران، ۱۳۶۰ش، ج۱، ص۱۷۲-۱۷۴.
* تفسیر التحریروالتنویر.
* تفسیر التحریروالتنویر.
* التمہید فی علوم القرآن.
* تمہید فی علوم القرآن.
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
{{قرآن}}
{{قرآن}}
گمنام صارف