گمنام صارف
"آیت" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←ترتیب آیات
imported>Mabbassi م (←ترتیب آیات) |
imported>Mabbassi م (←ترتیب آیات) |
||
سطر 79: | سطر 79: | ||
::<font color=green>{{حدیث|وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ }}</font> | ::<font color=green>{{حدیث|وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ }}</font> | ||
== | == ترتیبِ آیات == | ||
قرآن کی آیات کی ترتیب و نظم میں قرآن کے محققین کے درمیان دو قول موجود ہیں۔اکثر[[اہل سنت]] اور [[شیعہ]] کی رائے یہ ہے کہ جبرائیل کے توسط سے رسول اللہ کو ہدایت کی جاتی اور آپ کے دستور سے سورتوں کا مقام معین اور مشخص ہوتا تھا۔ اس بنا پر موجودہ ترتیب | قرآن کی آیات کی ترتیب و نظم میں قرآن کے محققین کے درمیان دو قول موجود ہیں۔اکثر[[اہل سنت]] اور [[شیعہ]] کی رائے یہ ہے کہ جبرائیل کے توسط سے رسول اللہ کو ہدایت کی جاتی اور آپ کے دستور سے سورتوں میں آیات کا مقام معین اور مشخص ہوتا تھا۔ اس بنا پر موجودہ ترتیب ''' توقیفی''' ہے یعنی اس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل جائز نہیں ہے۔<ref>الاتقان، ج۱، ص۱۳۲</ref> | ||
اس کے برعکس دوسرا گروہ اس کا معتقد ہے کہ ممکن ہے کہ قرآن میں آیات کی ترتیب رسول اللہ کے زمانے میں مرتب ہوئی ہو لیکن ان کے بعد نظم و ترتیب میں اصحاب کا اجتہاد ،ذوق اور سلیقے کا کردار ہے۔ [[علامہ طباطبائی]] کے مطابق حضرت ابو بکر کے زمانے میں قرآن کی جمع آوری کو بیان کرنے والی روایات اسی کی تائید کرتی ہیں کہ اصحاب کا اجتہاد آیات کی ترتیب میں دخالت رکھتا ہے ۔اگر اسے قبول کر لیں کہ تمام آیات دستور رسول خدا سے مرتب ہوئیں تو اس کا یہ معنا نہیں ہے کہ جو کچھ اصحاب نے ترتیب دیا یہ وہی رسول اللہ کے زمانے میں ترتیب دیا گیا تھا... اور موجودہ ترتیب اور رسول اللہ کے زمانے کی ترتیب کے ایک ہونے پر جو [[اجماع]] کا ادعا کیا گیا ہے وہ [[اجماع|اجماع منقول]] ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ہے ۔<ref>طباطبائی، المیزان، ج ۱۲، ص ۱۲۷ـ۱۲۹</ref> | |||
== تعدادِ آیات == | |||
<!-- | <!-- | ||
در | در شمار آیات قرآن اختلاف است. یکی از عوامل این اختلاف آن است که پیامبر(ص) هنگام تلاوت، در انتهای هر آیه وقف میکرد و روشن میشد که آن جا پایان آیه است؛ سپس برای تکمیل و ارتباط سخن، آن را به آیه بعد وصل میکرد و شنونده گاهی میپنداشت که در آن جا فاصله و وقفی نیست و دو آیه را یکی میشمرد؛ بنابراین، اختلاف روایات در موارد وصل و وقف، سبب اختلاف در شمار آیات شد و در پی آن، مکتبهای گوناگونی در این باره پدید آمد که عبارتند از: | ||
*مکتب کوفی: ۶۲۳۶ آیه | |||
*مدنی: (دو عدد دارد) ۶۰۰۰ و ۶۲۱۴ آیه | |||
*بصری: ۶۲۰۴ آیه، | |||
*شامی: ۶۲۲۵ آیه. | |||
عدد کوفی چون به علی(ع) منسوب است، نزد دانشمندان علوم قرآن و تفسیر به واقعیت نزدیکتر و از اعتبار ویژهای برخوردار است. عدد آیات در مصحف شریف براساس مکتب کوفی است. | |||
به نظر علاّمه طباطبایی، عددهایی که گفتهاند، نصّ متواتر یا خبر واحد معتبری که بتوان بر آن تکیه کرد، ندارد؛ بنابراین، اعتقاد به هیچ کدام لازم نیست؛ بلکه میتوان هر کدام را با تحقیق پذیرفت یا رد کرد.<ref>طباطبائی، المیزان، ج ۱۳، ص ۲۳۲</ref> | |||
> | > | ||