مندرجات کا رخ کریں

"نہج البلاغہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

40,407 بائٹ کا اضافہ ،  27 جولائی 2021ء
Sajjadsafavi (تبادلۂ خیال) کی جانب سے کی گئی 178727ویں ترمیم رد کر دی گئی ہے۔
imported>Sajjadsafavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Sajjadsafavi
(Sajjadsafavi (تبادلۂ خیال) کی جانب سے کی گئی 178727ویں ترمیم رد کر دی گئی ہے۔)
سطر 1: سطر 1:
توقیعات امام مہدی (عج)
{{خانہ معلومات کتاب
یہ مقالہ بارہویں امام کی توقیعات کے بارے میں ہے۔ توقیع کے مفہوم سے واقفیت کے لئے، [[ توقیع]] کے عنوان سے مقالہ ملاحظہ کیجئے۔
| عنوان           =
'''توقیعات امام مہدی (عج) '''سے مراد شیعوں کے [[ بارہویں امام]]  کے مکاتیب اور وہ تحریریں ہیں جو آپ نے [[غیبت صغریٰ]] میں اپنے شیعوں کے سوالات کے جواب میں تحریر فرمائی ہیں۔
| تصویر            =
کتب احادیث میں مختلف فقہی،عقائدی اور دوسرے موضاعات سے متعلق امام مہدی(عج)کی تقریبا ۱۰۰ توقیعات |توقیع کا ذکر ہوا ہے۔ یہ توقیعات امام مہدی(عج) کے ہاتھ سے تحریر کی گئی یا آپ نے [[نواب اربعہ]] کے ذریعہ لکھوائی ہیں۔ [[شیعہ فقہ]] نے  [[شرعی احکام]]  کے استنباط کے لئے بھی ان توقیعات کو بطور دلیل استعمال کیا ہے۔
[[ملف:نہج البلاغہ.jpg|260px|تصغیر| ]]
[[شیخ طوسی]]  کی [[کتاب الغیبہ]] اور  [[شیخ صدوق]]  کی کتاب [[کمال الدین]] میں ان توقیعات کو ایک جداگانہ باب میں پیش کیا گیا ہے۔ نیز توقیعات امام زمانہ کے نام سے مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔
| توضیح تصویر      =  
==توقیع کے معنی ==
| اندازہ تصویر    =
{{ نقل قول| عنوان = شلمغانی کی لعنت کے سلسلے میں حسین ابن روح کو امام مہدی(عج) کی توقیع ]]:|: ’’ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ ہم شلمغانی سے دور رہتے ہیں، جیسا کہ اس سے پہلے بھی شریعی، نمیری، ہلالی اور بلالی جیسے افراد سے دور رہا کرتے تھے۔‘‘ |تاریخ بایگانی|| ماخذ = طبرسی، الاحتجاج، ج۲، ص۲۹۰۔| تراز = چپ| عرض = ۲۳۰px| رنگ پس‌زمینه =#ffeebb| اندازه خط = ۱۲px| گیومه نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}
| مؤلف            = [[سید رضی]] (متوفی 406 ہجری)
{{اصلی مضمون|توقیع}}
| زبان            =عربی
شیعوں کے ائمہ کے خطوط اور تحریروں کو توقیع کہا جاتا ہے۔<ref> محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۱۵۔</ref>غیبت صغریٰ میں امام مہدی(عج)کے نام شیعوں کے خطوط اور امام کی طرف سے ان کے جوابات نواب اربعہ کے ذریعہ در و بدل ہوا کرتے تھے۔<ref>دیکھیے: طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ھ، ص۳۵۶۔ </ref>
| موضوع            =
امام مہدی(عج) کی توقیعات کبھی خود امام کے ہاتھ سے لکھی ہوتی تھیں اور کبھی امام املا فرماتے تھے اور نواب اربعہ لکھا کرتے تھے۔ تاریخی حوالوں کے مطابق امام مہدی(عج) کی بعض توقیعات میں آپ مہر بھی ہوا کرتی تھی۔<ref> بطور نمونہ دیکھیے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۷، ص۱۶۳۔</ref> بعض خطوط میں ایسا بھی ملتا ہے کہ امام(عج)نے اس بات کی تصریح کی ہے یہ تحریر انہی کی ہے۔<ref>بطور نمونہ دیکھئے: کشی، رجال‌الکشی، ۱۴۰۹ھ، ص۵۱۳، ۵۵۱۔</ref> عبداللہ ابن جعفر حمیری لکھتے ہیں:
| مترجم            =مفتی جعفر حسین
جب ابو عمرو(امام مہدی(عج) کے پہلے نائب)کی وفات ہوگئی تو ہمیں ابوجعفر(امام مہدی(عج)کے دوسرے نائب) کی جانشنیی کے سلسلے میں کچھ خطوط موصول ہوئے،جو اسی دستخط کے ساتھ لکھے گئئے تھے جس میں ہم پہلے خط و کتابت کیا کرتے تھے۔ <ref>طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ھ، ص۳۶۲۔</ref>
| تعداد مجلد      =1
نیز امام مہدی (عج) کی ایک توقیع ایسی بھی ملتی ہے جو احمد ابن ابراہیم نوبختی کے دستخط سے لکھا گیا ہے ،جسے حسین ابن روح (امام مہدی(عج)کے تیسرے نائب) نے لکھوایا ہے۔<ref> صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۵۰۸-۵۰۹۔</ref>
| اشاعت            =
===دیگر استعمالات===
| ناشر            =مرکز افکار اسلامی
}}
{{Quote box
|class = <!-- Advanced users only.  See the "Custom classes" section below. -->
|title =
|quote ='''امیرالمؤمنینؑ''':


لفظ توقیع کا استعمال بارہویں امام کی غیرمکتوب احادیث کے بارے میں بھی کیا جاتا ہے؛<ref>شبیری، «توقیع»، ص۵۷۷۔</ref>جیسا کہ شیخ صدوق امام مہدی (عج) کی بہت سی احادیث کو توقیعات کے حصے میں لائے ہیں۔<ref> صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۵۰۵۔</ref>
<font color=blue>{{حدیث|إِنَّ أَََمْرَنَا صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ، لاَ يَحْمِلُہُ إِلا عَبْدٌ مُؤْمِنٌ امْتَحَنَ اللَّہُ قَلْبَہُ لِلْإِيمَانِ، وَلاَ يَعِي حَدِيثَنَا إِلا صُدُورٌ أَمِينَة وَأَحْلاَمٌ رَزِينَة}}</font>
اسی طرح نواب اربعہ کی بعض باتیں جیسے [[عالم غیب]] سے متعلق ان کی باتیں اور دینی مسائل کے تئیں ان کے خیالات کو بھی توقیعات کے ضمن میں ذکر کیا گیا ہے۔<ref> صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۵۰۲-۵۰۴؛ طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ھ، ص۲۹۴، ۲۹۸، ۳۰۷،۳۰۸،۳۲۱۔</ref> اس کی وجہ شاید [[حسین ابن روح نوبختی]] کا اپنے بارے میں <ref>شبیری، «توقیع»، ص۵۷۷۔</ref> یہ کہنا ہو: ’’دین کے سلسلے میں خود سے کچھ نہیں کہتا بلکہ جو بھی کہتا ہوں وہ اصلی سرچشمہ امام مہدی(عج)  سے سن کر کہتا ہوں۔‘‘<ref> صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۵۰۸-۵۰۹۔</ref>
چوتھے نائب کو امام مہدی (عج) کی آخری توقیع


صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۵۱۶۔
ترجمہ: ہمارا امر بہت سخت و دشوار ہے اور اسے برداشت کرنا ممکن نہیں ہے سوائے صاحب ایمان بندہ جس کا قلب خدا نے ایمان کے لئے آزما لیا ہے اور ہماری حدیث کو کوئی بھی نہ سیکھے گا سوائے امانتدار سینوں اور بردبار عقول کے۔
==توقیعات کی تعداد==
|source = <small>نہج البلاغہ، خطبہ 189۔</small>
{{ نقل قول| عنوان = چوتھے نائب کے نام امام مہدی (عج) کی آخری توقیع
|align = left
]]:| ’’تم چھ دن کے بعد اس دنیا سے چل بسو گے، اس لئے خود کو تیار کر لو اور اپنے بعد کسی کی جانشینی کی وصیت نہ کرنا کیونکہ دوسری غیبت( [[غیبت کبریٰ]] ) کا آغاز ہو چکا ہے اور میں خدا کے اذن کے بغیر ظہور نہیں کروں گا۔ میرا ظہور ایک طولانی وقت کے بعد ہوگا جب دل سخت ہو چکے ہوں گے اور زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ جلد ہی میرے کچھ شیعہ ظاہر ہوں گے جو مجھ سے ملاقات کا دعویٰ کریں گے۔جان لو جو بھی [[سفیانی]] کے خروج اور [[نفخ صور]] جانے سے پہلے مجھ سے ملاقات کا دعوا کرے وہ جھوٹا اور بہتان تراش ہے۔‘‘|تاریخ بایگانی|| ماخذ = صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۵۱۶۔| تراز = چپ| عرض = ۲۳۰px| رنگ پس‌زمینه =#ffeebb| اندازه خط = ۱۲px| گیومه نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}
|width = 250px
کتب حدیث میں امام مہدی(عج) کی تقریبا سو توقیعات موجود ہیں۔<ref>محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۱۷۔</ref> ان میں سے اکثر کا تعلق غیبت صغریٰ سے ہے۔ شیخ صدوق نے کمال الدین میں اور شیخ طوسی نے الغیبۃ میں انہیں نقل کیا ہے۔ کمال الدین میں توقیعات سے متعلق باب میں ۴۹ توقیعات اور ایک [[دعا]] نقل کی گئی ہے اور الغیبۃ میں ۴۳ توقیعات اور [[روایات]] آئی ہیں جن میں بارہ کو شیخ صدوق کی کمال الدین سے نقل کیا گیا ہے۔<ref>محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مهدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۱۷، حوالہ جات۔</ref>
|border =
نیز (چھٹی صدی ہجری میں لکھی گئی) [[الاحتجاج]] میں [[شیخ مفید]] (متوفی ۴۱۳ھ)کے نام امام مہدی(عج) کی دو توقیعات نقل ہوئی ہیں جن کا تعلق غیبت کبریٰ سے ہے۔<ref>طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ھ، ج۲، ص۴۹۷-۵۰۰۔</ref> [[آیت اللہ خوئی]] نے ان دو توقیعات کے اعتبار پر شک کا اظہار کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ شیخ مفید سے جس واسطے سے توقیع کا ذکر ہوا ہے اور خود [[طبرسی]] کا شیخ مفید تک واسطہ دونوں نامعلوم ہیں۔<ref>خوئی، معجم رجال الحدیث، ۱۳۷۲ش، ج۱۸، ص۲۲۰۔</ref>
|fontsize = 14px
ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ شیخ مفید کی تحریروں اور شیخ مفید کے شاگرد شیخ طوسی کی کتاب الغیبۃ میں اس کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں ملتا۔نیز الاحتجاج جو شیخ مفید کی وفات کے ایک صدی بعد لکھی گئی ہے،اس میں بھی ان دو توقیعات کی سند کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا گیا ہے۔<ref> محمدی ری ‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۴۴۵۔</ref> البتہ توقیع کے آخری جملے ’’اسے سب سے چھپا کر رکھنا‘‘<ref>طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ھ، ج۲، ص۴۹۹۔</ref>کی بنیاد یہ احتمال بیان کیا جاتا ہے کہ شیخ مفید نے اسے مخفی رکھا، اسی لئے شیخ طوسی تک بھی نہیں پہنچ سکی۔<ref> محمدی ری ‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۴۴۵۔</ref>
|bgcolor =#ffeebb
==توقیعات کے موضوعات==
|style =
امام مہدی (عج) سے جو توقیعات صادر ہوئی ہیں ان میں مختلف عقائدی اور فقہی موضاعات کے علاوہ، امام کے وکلا کو منصوب اور معزول کرنا، [[رقوم شرعیہ]] کے دریافت کرنے کا ذکر،نیابت کے جھوٹے دعویداروں کے تکذیب اور شیعوں کی ذاتی درخواستوں پر مشتمل خطوط کے جوابات ہیں۔<ref>شبیری، «توقیع»، ص۵۸۲۔</ref> دانشنامہ امام مہدی(عج) میں توقیعات کو چہار عناوین توقیع‌هایی که از سوی امام مهدی صادر شده است در موضوعات مختلف اعتقادی، فقهی، عزل و نصب وکیلان، دریاف؛ اعتقادی مسائل، فقہی احکام، کرامات اور دعائیں ،نیز پراکندہ موضوعات میں تقسیم کیا گیا ہے۔<ref>محمدی ری ‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۱۷-۱۲۰۔</ref>
|title_bg =
• {{ نقل قول| عنوان =:|:
|title_fnt =
• اسحاق ابن یعقوب کے نام امام مہدی(عج) کی توقیع کا ایک حصہ:
|tstyle =
• ’’وَ أَمَّا الْحَوَادِثُ‌ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِيهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِيثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم؛
|qalign =
تمہارے سامنے جو بھی نئے مسائل پیش آتے ہیں ان میں ہماری حدیثوں کے راویوں کی طرف رجوع کرو؛ جان لو کہ وہ میری طرف سے تمہارے لئے حجت ہیں اور میں ان پر خدا کی حجت ہوں۔ ‘‘تاریخ بایگانی|| ماخذ = صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۴۸۴۔| تراز = چپ| عرض = ۲۳۰px| رنگ پس‌زمینه =#ffeebb| اندازه خط = ۱۲px| گیومه نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}
|qstyle =
صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ق، ج۲، ص۴۸۴۔
|quoted =
|salign = left
|sstyle =
}}
{{Quote box
|class = <!-- Advanced users only.  See the "Custom classes" section below. -->
|title =
|quote ='''امیرالمؤمنینؑ''':
 
<font color=blue>{{حدیث|اتَّقُوا اللَّہَ فِي عِبَادِہِ وَبِلاَدِہِ فَإِنَّكُمْ مَسْئُولُونَ حَتَّى عَنِ الْبِقَاعِ وَالْبَہَائِمِ}}</font>
 
ترجمہ: اللہ کا خوف کرو خدا کے بندوں اور حتی کہ شہروں، زمینوں اور چوپایوں کے حق میں۔
|source = <small>نہج البلاغہ، خطبہ 167۔</small>
|align = left
|width = 250px
|border =
|fontsize = 14px
|bgcolor =#ffeebb
|style =
|title_bg =
|title_fnt =
|tstyle =
|qalign =
|qstyle =
|quoted =
|salign = left
|sstyle =
}}
'''نہج البلاغہ'''، [[امیر المومنین امام علی علیہ السلام]] کے منتخب حکیمانہ خطبات، خطوط اور اقوال کا مجموعہ ہے۔ جسے چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں [[سید رضی]] نے جمع و تدوین کیا ہے۔ ادبی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے بعض علماء نے نہج البلاغہ کو اخ القرآن کا نام دیا ہے۔ ادبائے عرب نے اس کی فصاحت و بلاغت کا اعتراف کیا ہے۔ یہ کتاب خطبات، خطوط اور کلمات قصار کا مجموعہ ہے۔ امام (ع) نے بہت سے خطبوں میں عوام کو انجام احکام الہی اور ترک محرمات کی دعوت دی ہے اور بعض خطوط جو آپ نے اپنے گورنروں کو تحریر کئے ہیں، ان میں انہیں عوام کے حقوق کی رعایت تلقین کی ہے۔
 
بعض نے حضرت علی (ع) سے اس کتاب کے انتساب میں شک کا اظہار کیا ہے۔ البتہ اس کے مقابلہ میں بہت سے [[شیعہ]] علماء اور بعض [[اہل سنت]] علماء جیسے [[ابن ابی الحدید معتزلی]] نے امیرالمومنین علی (ع) سے اس کی نسبت کو صحیح قرار دیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ سید رضی نے فقط اس کی جمع آوری کی ہے۔ بعض شیعہ علماء نے نہج البلاغہ کے اقوال و کلمات کے صحیح ہونے کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ جس میں انہوں نے سند اور ثبوت پیش کئے ہیں۔
 
نہج البلاغہ کا ترجمہ 18 زبانوں میں ہو چکا ہے اور مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے کی تعداد 100 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ اس کی متعدد شرحیں اور تکملے بھی لکھی گئی ہیں۔ بعض نے ان کی تعداد 300 سے زیادہ ذکر کی ہیں۔
 
نہج البلاغہ عصر حاضر میں خاص طور پر [[انقلاب اسلامی]] کے بعد مورد توجہ قرار پائی اور اس کے بارے میں متعدد کتابیں، مقالات اور تھیسیز لکھی گئیں۔ بعض نے دعوی کیا ہے کہ دور معاصر میں نہج البلاغہ کا شمار ان کتابوں میں ہے جو [[شیعوں]] کے گھروں میں [[قرآن کریم]] کے ساتھ ہمیشہ پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح سے گزشتہ برسوں میں نہج البلاغہ کے سلسلہ میں بہت سی کانفرنسیں اور سیمینار، مختلف اداروں و انجمنوں کی طرف سے منعقد کی گئی ہیں۔ ان سب کے علاوہ نہج البلاغہ کے عنوان سے ایک مضمون ایم اے کے نصاب تعلیم کے لئے تدوین کیا گیا ہے اور اس کتاب کے مفاہیم کی ترویج کے لئے بڑی تعداد میں مربی و معلم نہج البلاغہ تربیت کئے گئے ہیں۔
 
==تاریخ، سبب تألیف اور وجہ تسمیہ==
*'''تاریخ تألیف'''
[[آقا بزرگ تہرانی]] کے مطابق [[سید رضی]] نے [[سنہ 400 ہجری]] میں اس کی تالیف مکمل کی۔<ref> تہرانی، الذریعہ، ۱۳۹۸ق، ج۲۴، ص۴۱۳</ref>
 
*'''سبب تألیف'''
سید رضی نہج‌ البلاغہ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
:: میں نے عالم شباب کے دوران ایام طراوت اور شجر حیات کی تازگی کے دنوں میں کتاب [[خصائص الائمہ]] کی تالیف کا اہتمام کیا جو [[ائمہ معصومین علیہم السلام|ائمہؑ]] کی [[اخلاق|اخلاقی خصوصیات]] اور صفات پر مشتمل اور ان سے منقولہ محاسن اخبار اور جواہر کلام پر مبنی تھی .... کتاب کے آخر میں [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کے مواعظ، حکمتوں اور امثال و آداب پر مشتمل  مختصر، نہایت عمدہ اور فصیح و بلیغ فصل تھی لیکن یہ ان کے تفصیلی خطبوں اور خطوط پر مشتمل نہیں تھی۔ بعض احباب اور برادران نے اس فصل کے مضامین کو پسند کیا اور انہیں تحسین کی نگاہ سے دیکھا جبکہ وہ سب اس قدر بدیع الفاظ اور بلند و تابندہ معانی سے حیرت زدہ تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ ایک کتاب کی تالیف کا آغاز کردوں جو آپؐ کے منتخب کلام کی تمام اقسام خطبات، مکتوبات اور مواعظ  حسنہ پر مشتمل ہو۔ لہذا میں نے ان کی اس خواہش کا جواب نہج البلاغہ کی صورت میں دیا۔<ref> نہج البلاغہ، محقق عطاردی قوچانی، مقدمہ سید رضی، ص۱.</ref>
 
*'''وجہ تسمیہ'''
لفظ '''نَہج''' (نون پر فتح اور ہا پر سکون) کا معنا "واضح اور آشکار راستہ" ہے۔<ref> دہخدا، لغت نامہ، ذیل واژہ «نہج»</ref> لہذا نہج البلاغہ بلاغت کے واضح راستے کے معنا میں ہے۔
 
[[سید رضی]] کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
:: میں نے اسے نہج البلاغہ کا نام دیا کیونکہ یہ بلاغت کے دروازے ہر اس شخص پر کھول دیتی ہے جو اس میں نظر کرنا چاہتا ہے اور طالبان بلاغت کو اس کی جانب بلاتی ہے؛ دانشور بھی اس کے محتاج ہیں، طالبان دانش کو بھی اس کی ضرورت ہے، یہ اہل بلاغت کے لئے بھی مطلوب اور پسندیدہ ہے اور اہل زہد و پارسائی کے نزدیک بھی منظور نظر۔ اس کے ضمن میں [[توحید]]، [[عدل]] اور مخلوقات سے مشابہت سے باری تعالی کی تنزیہ پر مبنی عمدہ اور حیرت انگیز اقوال ہیں ان عبارات کے زمرے میں، جو تشنہ لبوں کو سیراب کرتے ہیں، بیماروں کو شفا دیتے ہیں اور ہر شک و شبہہ کو دلوں سے زائل کر دیتے ہیں۔<ref> نہج البلاغہ، محقق عطاردی قوچانی، مقدمہ سید رضی، ص۴.</ref>
 
[[مصر]] کے سابق مفتی اور نہج البلاغہ کے [[اہل سنت]] شارح [[شیخ محمد عبدہ]] اپنی شرح کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
:: میں کسی بھی ایسے نام سے واقف نہیں ہوں جو اپنے معنی پر دلالت کرنے کے حوالے سے اس سے زیادہ مناسب ہو۔ یہ میرے بس کی بات نہيں ہے کہ اس کتاب کی اس طرح سے توصیف کروں جس طرح کہ یہ نام اس پر دلالت کرتا اور اس کا تعارف کرواتا ہے ... <ref> عبدہ، شرح‏ نہج‏ البلاغۃ، ص10</ref>
 
== مضامین==
{{اہم کتب حدیث}}
[[سید رضی]] نے نہج البلاغہ میں امام علیؑ کے کلام کو درج ذیل تین حصوں میں مرتب کیا:
{{ستون آ|3}}
*خطبات و احکامات، وغیرہ
*مکتوبات و رسائل وغیرہ
*کلمات قصار (حِکَم و مواعظ)
{{ستون خ}}
نہج البلاغہ کے مختلف قلمی نسخوں میں اختلاف کے پیش نظر نہج البلاغہ کے خطبوں، خطوط اور مواعظ کی ترتیب اور نمبروں میں معمولی اختلاف پایا جاتا ہے۔ کتاب {{حدیث|المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ}} کے مطابق خطبات 241، مکاتیب 79 اور کلمات قصار 480 کی تعداد میں ہیں۔<ref> رجوع کریں: محمدی، سید کاظم اور دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: مطبعہ نشر امام علیؑ، 1369۔</ref> اسی طرح کتاب کے مقدمے میں مذکور ہے کہ مختلف فصول کے درمیان عدم یکسانیت کا لحاظ کئے بغیر ترتیب دیا گیا ہے۔ کلام امیر المومنین میں صرف موجود بلاغت اور پسندیدگی کی بنا پر اسے جمع کیا گیا ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ فصول کے درمیان عدم یکسانیت یا نظم نہیں پایا جاتا ہے۔ اسی طرح بعض کلمات میں شک و تردید کی وجہ سے انہیں مختلف عناوین کے تحت ذکر کیا گیا ہے۔<ref> نہج البلاغہ، محقق عطاردی قوچانی، مقدمہ سید رضی، ص۳.</ref>
 
{{Quote box
|class = <!-- Advanced users only.  See the "Custom classes" section below. -->
|title =
|quote ='''امام علی علیہ السلام''':
 
<font color=blue>{{حدیث|النَّاسُ أَعْدَاءُ مَا جَہِلُوا }}</font>
 
ترجمہ: لوگ دشمن ہیں ان چیزوں کے جنہیں وہ نہیں جانتے۔
|source = <small>نہج البلاغہ، کلمات قصار، حکمت نمبر 172۔</small>
|align = left
|width = 250px
|border =
|fontsize = 14px
|bgcolor =#ffeebb
|style =
|title_bg =
|title_fnt =
|tstyle =
|qalign =
|qstyle =
|quoted =
|salign = left
|sstyle =
}}
 
=== خطبات ===
نہج البلاغہ اسلامی ثقافت اور تعلیمات کا ایک ایسا اسلامی دائرۃ المعارف ہے جو خدا شناسی [[توحید]]، [[ملائکہ|ملائکہ کی دنیا]]، [[خلقت کائنات]]، [[انسانی فطرت]]، امتوں، نیکوکار اور ستمگر حکومتوں پر بحث کرتا ہے تاہم اصل نکتہ یہ کہ اس پورے کلام سے [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین علیہ السلام]] کا مقصد طبیعیات، حیوانیات، فلسفی یا تاریخی نقاط کی تفہیم اور تدریس مقصود نہیں تھا۔<ref> شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، ص: ی د۔</ref>
 
کلام امیر المومنین اس طرح کے موضوعات بیان کرنے میں [[قرآن کریم]] کی مانند ہے جس طرح [[قرآن پاک]] ان موضوعات کو موعظہ و نصیحت کی زبان میں محسوس یا معقول بیان کے ساتھ روشن اور  قابل ادراک نمونوں کی صورت میں پڑھنے والے کے سامنے پیش کرتا ہے اور پھر قدم بقدم اگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ اس منزل یعنی [[اللہ]] کی درگاہ کی جانب آستان [[پروردگار]] یکتا کی جانب لے جاتا ہے جہاں اسے پہنچنا چاہئے۔
 
جہاں آسمان، زمین و آفتاب اور چاند، تاروں اور پہاڑوں کی خلقت کی بات آتی ہے، آپؑ نصیحت کی زبان میں سکھا دیتے ہیں کہ جو کچھ خالق نے مخلوقات کو عطا کیا ہے، خیر ہی خیر ہے لیکن ناشکرا انسان اتنی ساری نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا اور راہ خدا کو چھوڑ کر راہ شیطان کی طرف بھاگتا ہے اور اللہ کی بخشش و عطاء کو شرانگیزیوں و فتنہ انگیزیوں میں صرف کر دیتا ہے اور چونکہ اس میں گذشتہ قوام و امم کی داستانوں کا تذکرہ ہے، چنانچہ آپ ان کے توسط سے حاضرین کو تعلیم دیتے ہیں کہ زمانہ آئینۂ عبرت ہے جس میں ماضی کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے؛ لیکن سوال یہ ہے کہ عبرت حاصل کرنے والا کون ہے؟ دیکھو دنیا سے گذرنے والی اور زیر خاک سوجانے والی امتوں کو، کیا دیکھا انھوں نے اور کیا کیا انھوں نے، ان کے نیک کاموں کی [[تقلید]] کرو اور ان بھونڈے افعال سے پرہیز کرو جو ان کی نابودی کا سبب ہوئے۔<ref> وہی ماخذ۔</ref>
 
ان نصائح کے ضمن میں کبھی اپنے [[اصحاب]] پر نظر ڈالتے ہیں اور ان کے حال اور کردار کے بارے میں متفکر ہو جاتے ہیں؛ اچانک غم و اندوہ اور افسوس کا بھاری بھرکم پہاڑ آ گرتا ہے اور یہ وہ موقع ہے جب آپ اپنی حقیقت بین نگاہیں اپنے منبر تلے بیٹھے سامعین پر سے پلٹا کر دور کے افق پر جما لیتے ہیں، عصر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمدیؐ]] کے افق پر، جہاں آپؐ کے پاک دل اصحاب خدا اور روز [[قیامت]] پر یقین کی بنا پر نصرت دین کو اپنے دنیاوی مفادات پر مقدم رکھتے تھے، ایک بار حاضرین و سامعین کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے اور دیکھتے تھے کہ اس دور سے اب تک 30 سال سے زیادہ مدت نہیں گذری ہے، یہ اچانک کیا ہوا کہ اس مختصر سی مدت میں نام کے [[مسلمان]] حقیقی مسلمانوں کے مسند پر براجماں ہوئے ہیں؟ وہ لوگ، جنہوں نے دنیا کو بانہیں اپنی جانب پھیلا کر مسکراتے ہوئے دیکھا تو خدا کو فراموش کرکے اپنے امام کی نافرمانی کر بیٹھے! وہ لوگ ـ جو سر اٹھا کر فخر کرتے اور کہا کرتے تھے کہ "ہم نے خدا کی راہ میں [[شہید|شہیدوں]] کی قربانی دی ہے اور ہم بھی [[شہادت]] کے آرزومند ہیں"، ـ کہاں چلے گئے؟ یہ میرے گرد جمع ہونے والے تن آسانی اور راحت طلبی کو راہ خدا میں مارے جانے پر ترجیح کیوں دینے لگے ہیں؟ اور وہ یہ دینی فریضہ دوسروں پر عائد کرنے کی کوششیں کیوں کرنے لگے ہیں؟ [یہ دیکھ کر] آپ صدر اول کے مسلمانوں کے ایثار اور مساوات [و مواسات] کے مناظر کی جانب پلٹتے ہیں جو دوسروں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے تھے اور مال دنیا کی آلودگیوں پاک رہنے کی تدبیروں میں مگن نظر آتے تھے؛ [اور اپنے آپ سے پوچھتے تھے کہ] یہ سب اس قدر مال اندوز اور دنیا پرست کیوں ہوئے ہیں؟ یہ نمونے اور دسوں دوسرے نمونے [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کے خطبات کے مضامین و محتویات کو تشکیل دیتے ہیں۔<ref> شہیدی، وہی ماخذ،  صص: ی د، ی ہ‍۔</ref>
 
=== مکتوبات ===
 
 
{{Quote box
|class = <!-- Advanced users only.  See the "Custom classes" section below. -->
|title =
|quote ='''امیرالمؤمنینؑ''':
 
<font color=blue>{{حدیث|رَأْيُ الشَّيْخِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ جَلَدِ الْغُلَامِ }}</font>
 
ترجمہ: بوڑھے کی رائے مجھے جوان کی ہمت اور دلیری سے زیادہ پسند ہے۔
|source = <small>نہج البلاغہ، کلمات قصار، حکمت نمبر 86۔</small>
|align = left
|width = 250px
|border =
|fontsize = 14px
|bgcolor =#ffeebb
|style =
|title_bg =
|title_fnt =
|tstyle =
|qalign =
|qstyle =
|quoted =
|salign = left
|sstyle =
}}
مکتوبات یا خطوط و مراسلات کا مجموعہ زیادہ تر حکام کا دستور العمل ہے کہ وہ عوام کے مختلف طبقوں کے ساتھ کیسا رویہ رکھیں، قومی خزانے کا کیونکر تحفظ کریں، اخراجات اٹھاتے ہوئے معاشرے کی خیر و صلاح کو کس طرح مد نظر رکھیں؛ تاہم مکتوبات کا مضمون و مواد اس زمانے کی نصف قابل سکونت دنیا کے فرمانروا کا حکم نہیں ہے جو وہ اپنے ماتحت عاملین کو دے رہا ہے بلکہ ایک مہربان، عمر رسیدہ اور زمانے کا تلخ و شیریں چشیدہ باپ کا نوشتہ ہے جو اپنے نورس فرزندوں کو پڑھا رہا ہے کہ وہ زندگی کی جنگ میں مشکلات کا کس انداز سے سامنا کریں۔<ref>شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، ص: ی ہ ‍۔</ref>
 
=== کلمات قصار ===
اس حصے میں [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کے منتخب حکمت آمیز اقوال و نصائح، سوالات کے جوابات اور مختصر خطبے نقل ہوئے ہیں۔<ref>شہیدی، نہج البلاغہ، ص361.</ref>
 
== تراجم ==
===اردو===
دیگر زبانوں کی طرح مختلف زمانوں میں نہج البلاغہ کے اردو زبان میں کئی ترجمے ہوئے۔ ان میں سے چند ایک کے نام ذکر کئے جاتے ہیں:
 
ہم یہاں پر اب تک اردو میں ہوے ترجموں کا مختصر تعارف بیان کر تے ہیں:
 
====غیر موجود تراجم====
{| class="wikitable"
|-
!نمبر شمار|| نام !! مترجم !! خصوصیات
|-
|1|| نہج البلاغہ (الاشاعۃ) || سید اولاد حسن بن محمد حسن سلیم ہندی امروہوی ||معاصر [[سید علی نقی نقوی]]۔ تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان میں ان کا تذکرہ ہوا ہے۔<ref> الذریعہ ج۴،ص۱۴۴وج۱۴ص۱۱۶</ref>
|-
|2||سلسبیل فصاحت (نہج البلاغہ) || سید ظفر مہدی گوہر بن سید وارث حسین جائسی || مدیر تحریر مجلہ”سہیل یمن“ ان کی ایک دوسری کتاب بھی ہے جو اللہ اللہ کے نام سے موسوم ہے یہ کتاب انہوں نے اہل سنت کے جواب میں لکھی ہے اور ہندوستان میں دو جلدوں میں شایع ہوئی ہے۔<ref> الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۳۰</ref>
|-
|3|| نہج البلاغہ || سید علی اظہر کھجوی ہندی متوفی 1352 ھ || اس کا ترجمہ سطروں کے درمیان لکھا اور چھپا ہے۔<ref> الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۴۱۔</ref> استاد سید عبد العزیر طباطبایی الذریعہ کے تعلیقہ موسوم بہ اضواء علی الذریعہ میں کہتے ہیں: اس کتاب کے مترجم کے متعلق میں نے علامہ سعید اختر رضوی سے پاکستان میں ایک خط لکھ کر معلوم کیا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ ترجمہ سید علی اظہر کا نہیں ہے بلکہ ان کے بیٹے سید علی حیدر کا ہے (1303۔1380ھ) اور غلطی سے ان کے والد کی طرف نسبت دیدی گئی۔<ref> مجلہ تراثنا، ش۴، سال ۷،شوار۱۴۱۲ھ</ref>
|-
|4|| نہج البلاغہ|| سید یوسف حسین ہندی امروہوی، متوفی 1352 ھ || یہ ترجمہ 1926 ء میں ہندوستان کے بہترین پریسوں میں چھپ کر منظر عام پر آیا تھا۔<ref> مجلہ تراثنا ،ش۴،سال ۷،شوار۱۴۱۲ھ۔</ref>
|-
|5|| نہج البلاغہ|| یوسف حسین بن نادر حسین صدر الافاضل لکھنوی||آپ کی تالیفات کا تذکرہ کرتے ہوئے نہج البلاغہ کے ترجمہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔<ref> تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان صفحہ نمبر ۳۹۳۔ ۳۹۶۔ آثار الشیعہ ص۱۰۱ بہ نقل تراثنا۔</ref>
|-
|6|| نہج البلاغہ|| سید محمد صادق|| خلیق احمد نظامی نے نہج البلاغہ سے متعلق ایک مقالہ لکھا ہے جس میں اس کے متعلق بیان کیا ہے اور اس ترجمہ کو اپنے مجلہ ”المجمع العلمی الہندی“ کے پہلے شمارہ میں چھاپا ہے۔<ref> مجلہ تراثنا، شمارہ ۴۷، سال ۷ص۷۳۔</ref>
|-
|7||نہج البلاغہ|| حسن عسکری ہندی حیدر آبادی||یہ ترجمہ 1966 ء میں حیدر آباد دکن میں شائع ہوا۔<ref> مجلہ تراثنا، شمارہ ۴۷، سال ۷ص۷۳۔</ref>
|-
|8||نہج البلاغہ||سید سبط حسن رضوی پاکستانی ہنسوی|| ان کی سوانح حیات کی تفصیل کتاب ”مطلع الانوار“ کے صفحہ 250 پر بیان ہوئی ہے۔<ref> مجلہ تراثنا، شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳۔</ref>
|-
|9|| نیرنگ فصاحت (نہج البلاغہ)|| سید ذاکر حسین اختر بن سید فرزند علی ہندی دہلوی واسطی (1315۔1372ھ)|| آپ کی سوانح حیات تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔<ref> الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۶۶و ج ۲۴،ص۴۳۵</ref>
|-
|10||نہج البلاغہ||صدر الافاضل [[سید مرتضی حسین لکھنوی]]|| موصوف لاہور کے مشہور عالم گزرے ہیں۔(1341۔1407ھ)
|-
|11|| نہج البلاغہ|| یوسف حسین و محمد زکی سرود|| یہ ترجمہ دو لوگوں نے مل کر انجام دیا جیسے خطبوں کا ترجمہ: میرزا یوسف حسین، خطوط اور کلمات قصار کا ترجمہ: غلام محمد زکی سرود کوئی، یہ ترجمہ ”حمایت اہل بیت“ کی طرف سے 1394ھ میں شائع ہوا۔ اس ترجمہ پر بہت سے علماء نے مقدمے لکھے جیسے [[سید علی نقی نقوی]]، سید محمد صادق لکھنوی، محمد بشیر، ظفر حسن، مرتضی حسین اور ظل حسنین۔
|-
|12|| نہج البلاغہ || گروہی ترجمہ||اس ترجمہ کو چند حضرات: سید رئیس احمد جعفری، نائب حسین نقوی، عبد الرزاق ملیح آبادی اور مرتضی حسین میں سے ہرایک نے ایک ایک حصہ کے ترجمہ کی ذمہ داری قبول کر رکھی تھی اور یہ ترجمہ پاکستان میں شائع ہوا ہے۔<ref> الذریعہ ج۴ص۱۴۴وج۱۴ص۱۶۶و ج ۲۴،ص۴۳۵</ref>
|}
مذکورہ تراجم کے موجود نہ رہنے کی وجوہات شاید یہ رہی ہوں: کسی میں اغلاط بہت زیادہ تھے اور کسی میں عبارت آرائی نے ترجمہ کے حدود کو باقی نہیں رکھا نیز حواشی میں کبھی خالص مناظرانہ انداز کی بہتات ہوگئی اور کبھی اختصار کی شدت نے ضروری مطالب نظر انداز کر دیئے۔
 
====موجود تراجم====
{| class="wikitable"
|-
! نام !! مترجم !! خصوصیات
|-
| نہج البلاغہ || مفتی جعفر حسین لاہوری || یہ ترجمہ [[18 رجب]] 1375 ھ مطابق 1956ء کو مکمل ہوا۔ برصغیر پاک و ہند میں بہت زیادہ مشہور اور رائج ہے۔ اس کے کئی اچھے ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ لاہور کے کتب خانہ مغل حویلی سے بڑے ایڈیشن میں اس کے ایک صفحہ پر عربی متن اور دوسرے صفحہ پر اردو ترجمہ طبع ہوا اور دوسرا ایڈیشن امامیہ پبلیکشنز پاکستان سے 1985ء میں چھپا۔<ref> مجلہ تراثنا، شمارہ ۴۷،سال ۷ص۷۳</ref> اکثر خطبات اور مکتوبات میں ضروری حواشی کے طور پر مخالفین کے اعتراضات اور جوابات نیز کلمات قصار میں بھی ضروری اور مختصر وضاحت جیسی خصوصیات کی بنا پر اردو ترجموں میں سب سے اچھا ترجمہ شمار کیا جا سکتا ہے۔
|-
|نہج البلاغہ || سید ذیشان حیدر جوادی || مترجم اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: اس کتاب میں ایک طرف الفاظ کا مفہوم درج کیا گیا اور دوسری طرف خطبات و کلمات کے مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔<ref> اقتباس از گفتار مترجم علامہ سید ذیشان حیدر جوادی</ref>
|}
 
===فارسی===
مختلف زبانوں کی طرح فارسی زبان میں بھی نہج البلاغہ کے کئی ترجمے ہو چکے ہیں۔ بعض کے اسما درج ذیل ہیں:
{| class="wikitable"
|-
! نام !! مترجم !! وضاحت
|-
|نہج البلاغہ|| عزیز اللہ جوینی||پانچویں اور چھٹی صدی ہجری کا فارسی ترجمہ جس میں اصطلاحات کی وضاحت، متن کی درستگی اور تقابلی جائزہ شامل ہے۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/ff1i5590| ترجمہ عزیزاللہ جوینی]۔</ref>
|-
|شرح نہج البلاغہ|| غلام رضا لائقی||[[ابن ابی الحدید معتزلی]] (656ھ) کی شرح نہج البلاغہ کا ترجمہ ہے۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/1512746|شرح نہج البلاغہ، بن ابی الحدید، کا ترجمہ]۔</ref>
|-
| شرح نہج البلاغہ || قربان علی محمدی مقدم، علی اصغر نوائی یحیی زادہ|| یہ [[ابن میثم بحرانی|کمال الدین میثم علی بن میثم بحرانی]] کی شرح کا ترجمہ ہے <ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/976684| شرح نہج البلاغہ ابن میثم بحرانی کا ترجمہ]۔</ref>
|-
|نہج البلاغہ|| سید جعفر شہیدی<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/1828261| ترجمہ سید جعفر شہیدی]</ref> ||
|-
|نہج البلاغہ امیر المومنین علی علیہ‌السلام|| عبد المحمد آیتی۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/1207008| ت‍رج‍مہ عبدالمحمد آیتی]</ref>||
|-
|ترجمہ و شرح نہج البلاغہ||علی نقی فیض الاسلام۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/675567| ترجمہ فیض الاسلام]</ref>||
|-
|نہج البلاغہ امام علی علیہ‌السلام‏|| محمد مہدی فولاد وند<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/1582020| ترجمہ محمد مہدی فولاد وند </ref>||
|-
|نہج البلاغہ مولا علی بن ابی طالب امیر المومنین ؑ||اسد اللہ مبشری۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/575562| ترجمہ اسد اللہ مبشری]</ref>||
|}
 
== شرحیں ==
نہج البلاغہ پر کثیر شرحیں لکھی گئی ہیں جن میں سے کئی شرحیں آج کے زمانے میں نایاب ہیں۔ فہرست نگاروں نے بہت سی شرحوں کے نام ذکر کئے ہیں۔ "کتابنامہ نہج البلاغہ" میں نہج البلاغہ کو موضوع بنا کر تالیف کردہ آثار اور کاوشوں کی تعداد 300 بتائی گئی ہے جبکہ راقم کے نزدیک یہ فہرست جامع نہیں ہے [اور پورے آثار کا احاطہ نہیں کرسکی ہے]۔<ref>استادی، رضا، کتابنامہ نہج البلاغہ، صص3-4.</ref> ذیل میں نہج البلاغہ کی بعض عربی اور فارسی شرحوں کا حوالہ دیا گيا ہے جو آج بھی دستیاب ہیں:
 
* فارسی
{| class="wikitable"
|-
! نام !! شارح !!وضاحت
|-
|پیام امام امیر المومنین (ع)||[[آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی]]||نئی اور جامع شرح شمار ہوتی ہے
|-
|ترجمہ و تفسیر نہج البلاغہ || محمد تقی جعفری|| یہ ایک مبسوط شرح ہے جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے
|-
|ترجمہ و شرح نہج البلاغہ|| ملا محمد صالح قزوینی
|-
|شرح نہج البلاغ||مرزا محمد باقر نواب لاہیجی
|}
* عربی
 
{| class="wikitable"
|-
!نمبر شمار!! نام !! مؤلف !! وضاحت
|-
|1||معارج نہج البلاغہ|| ظہیر الدین علی بن زید بیہقی (متوفی 565 ھ)|| اس کی تحقیق و تقدیم کا کام محمد تقی دانش پژوہ نے انجام دیا۔ <ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/545488| معارج نہج البلاغہ، ظہیر الدین البیہقی، تحقیق: محمد تقی دانش پژوہ]۔</ref>
|-
|2|| منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ || [[قطب راوندی|قطب الدین راوندی]] (متوفی 573 ھ)||تحقیق: عزیز اللہ العطاردی۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/2965984| منہاج البراعۃ، قطب راوندی]۔</ref>
|-
| 3||حدائق الحقائق فی شرح نہج البلاغہ || ‏‫قطب الدین  کیذری  بیہقی  ||‏‫تحقیق عزیز اللہ العطاردی۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/2975819| حدائق الحقائق، الکیذری البیہقی]۔</ref> اس شرح کی تحریر کا کام سنہ 576 ہجری میں مکمل ہوا ہے۔<ref> حسینی خطیب، مصادر نہج البلاغۃ وأسانیدہ، ج1، ص226.</ref> 
|-
|4|| اعلام نہج البلاغہ || علی بن ناصر  سرخسی (قرن 6 ھ) || عزیز اللہ العطاردی نے متن کی تحقیق اور ضبط کا کام انجام دیا۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/2965983| اعلام نہج البلاغۃ، السرخسی]۔</ref>
|-
|5|| شرح نہج البلاغہ || [[ابن ابی الحدید]] || محمد ابو الفضل ابراہیم نے اس کی تحقیق کی ہے۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/506593| شرح النہج، ابن ابی الحدید المعتزلی]۔</ref> [[اہل سنت]] کے [[معتزلہ|معتزلی]] عالم کی ایک نہایت مبسوط شرح ہے۔ [[شیعہ]] حضرات کے نزدیک اس شرح نے بہت شہرت حاصل کی۔
|-
| 6||شرح نہج البلاغہ || کمال الدین میثم بن علی میثم بحرانی۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/928760| شرح کمال الدین میثم البحرانی]۔</ref>|| چار جلدوں پر مشتمل مختصر اور مفید شرح کہا جا سکتا ہے۔
|-
|7||اختیار مصباح السالکین من کلام مولانا و امامنا امیر المومنین علی بن ابی طالبؑ (شرح نہج البلاغہ الوسیط) || میثم بن علی بن میثم البحرانی|| محمد ہادی امینی نے اسکی تحقیق کی اور اس پر تعلیقے لگائے۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/560089| شرح ۔۔۔ الوسیط، میثم البحرانی؛ تحقیق: ہادی الامینی]</ref>
|-
|8|| منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ || [[حبیب اللہ  ہاشمی  خوئی]] (1268-1324 ش)۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/2428468| منہاج البراعۃ حبیب اللہ الہاشمی الخوئی]۔</ref>||چند جلدوں پر مشتمل ہے۔
|-
|9|| بہج الصباغہ فی شرح نہج البلاغہ|| [[محمد تقی تستری]] (1374-1282 ش)۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/569381| بہج الصباغہ، محمد تقی التستری]۔</ref>||
|-
|10|| نخبہ الشرحین فی شرح نہج البلاغہ || [[سید عبد اللہ شبر]] (1826-1774 ء)|| ابن میثم اور ابن ابی الحدید کی شرحوں سے انتخاب ہے۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/748217| نخبۃ الشرحین، عبد اللہ شبر]۔</ref>
|-
|11|| نہج البلاغہ|| شرح محمد عبده (1849-1905 ء)|| عبد العزیز سید اہل نے تحقیق کے بعد اسے طبع کروایا۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/1925260| شرح محمد عبدہ]۔</ref>
|}
 
==  اسناد ==
 
[[اہل سنت]] کے بعض علماء نے نہج البلاغہ کی سند میں شک و شبہہ کا اظہار کیا ہے۔ ابن خلکان (متوفٰی 681 ہجری) ان ہی علماء میں سے ہیں۔ ابن خلکان کا کہنا ہے:
:::"لوگوں کے درمیان [[امام علی علیہ السلام|امام علی بن ابی طالب]] رضی اللہ عنہ کے اقوال و کلمات سے تالیف شدہ کتاب "نہج البلاغہ" کے بارے میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ کیا اس کے مؤلف [[سید مرتضی علم الہدی|سید مرتضی]] ہیں یا ان کے بھائی [[سید رضی]]؟ اور ان لوگوں نے کہا ہے کہ یہ کلام [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]] کا نہیں ہے؛ اور جس نے یہ کلام اکٹھا کیا ہے اس کے تخلیق کار بھی وہی ہیں! واللہ الاعلم"۔<ref> ابن خلکان، وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان، ج3، ص313.</ref>
 
ان کے بعد [[ذہبی]] (متوفٰی 748 ہجری) نے یقین کے ساتھ کہا ہے:
::: [[سید مرتضی علم الہدی|سید مرتضی]] نہج البلاغہ کے مؤلف ہیں، جس کے الفاظ کو [[امام علی علیہ السلام|امام علی]] رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا گیا ہے اور اس نسبت کے لئے کوئی سند موجود نہیں ہے؛ اور ان اقوال و کلمات میں سے بعض باطل ہیں اور بعض صحیح ہیں۔ تاہم اس میں بعض اقوال وہ ہیں کہ دور ہوں امام، انہیں زبان پر لانے سے ۔۔۔؛ اور کہا گیا ہے کہ یہ مجموعہ ان کے بھائی [[سید رضی]] نے اکٹھا کیا ہے۔<ref> الذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج17، ص589۔</ref>
[[ملف:تصویر نسخه قرن6 نهج البلاغه.gif|تصغیر|544 ہجری کے قلمی نہج البلاغہ کا ایک صفحہ]]
جس طرح کہ ابن خلکان نے "لوگوں کے شک و تردد" کا ذکر کیا ہے ابن ابی الحدید (متوفا 656 ہجری) بھی اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ میں [[خطبۂ شقشقیہ]]، کی شرح کے بعد ایک حکایت نقل کرتے ہیں جو عوام کے درمیان نہج البلاغہ کے سلسلے میں شک و تردد پر مبنی ہے؛ تاہم وہ خود اس شک و تردد کا نہایت فیصلہ کن انداز سے جواب دیتے ہیں اور کہتے ہیں:
:::میں نے سنہ 603 ہجری میں اپنے شیخ (استاد) مصدق بن شبیب واسطی سے سنا جو کہہ رہے تھے: "میں نے یہ خطبہ (یعنی [[خطبۂ شقشقیہ]]) عبداللہ بن احمد المعروف ابن خشاب کو پڑھ کر سنایا ... اور ان سے کہا: کیا آپ اس خطبے کی [[امام علی علیہ السلام|امام علی]] سے نسبت کو جعلی سمجھتے ہیں؟ انھوں نے کہا: [[اللہ]] کی قسم! میں جانتا ہوں کہ یہ [[امام علی علیہ السلام|امام علی]] کا کلام ہے جیسا کہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ بھی اس کے مصدق ہیں (یعنی اس کی تصدیق کرنے والے ہیں)۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا: بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خطبہ [[سید رضی]] رحمہ اللہ تعالی، کا ہے۔ تو انھوں نے کہا: "رضی کہاں اور رضی جیسے دوسرے کہاں اور یہ اسلوب کلام کہاں!؟" بے شک ہم رضی کے رسائل سے واقف ہیں اور نثری کلام میں ان کا طریقہ اور فن جانتے ہیں، رضی نے اس میں کسی اچھے یا برے کا اضافہ نہيں کیا ہے۔ انھوں نے کہا: خدا کی قسم! میں نے یہ خطبات ان کتابوں میں بھی دیکھے ہیں جو سید رضی کی ولادت کے 200 سال قبل لکھی گئی ہیں؛ میں نے ان خطبات کو ایسے خط میں لکھا ہوا پایا جنہیں میں جانتا ہوں اور جانتا ہوں کہ کن علماء اور ادباء نے یہ خطبات مسطور کئے ہیں قبل اس کے سید رضی کے والد نقیب ابو احمد دنیا میں آ جائیں"۔<ref> ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج1، ص205۔</ref>
 
ابن ابی الحدید کہتے ہیں:
::: میں نے اس خطبے کا بڑا حصہ اپنے استاد اور [[بغداد]] کے [[معتزلہ]] کے امام ابو القاسم بلخی کی تصانیف میں لکھا ہوا پایا جو رضی کی ولادت سے بہت عرصہ قبل (عباسی بادشاہ) [[مقتدر عباسی]] کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیز ان میں سے بہت سے خطبات کو میں نے [[امامیہ]] کے [[متکلم]] [[ابن قبہ رازی|ابو جعفر بن قبہ]] کی کتاب [[الانصاف]] میں دیکھا ہے۔ اور یہ ابو جعفر ہمارے استاد شیخ ابو القاسم بلخی کے شاگردوں میں سے تھے اور اسی دور میں وفات پا چکے ہیں جبکہ ابھی رضی رحمۃ اللہ تعالی علیہ موجود نہ تھے۔<ref>ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج1، صص205-206۔</ref>
 
نہج البلاغہ کی شرحوں کے ضمن میں ابن ابی الحدید سمیت بہت سے محققین نے اس کتاب کے تمام اقوال و کلمات کی اسناد کے سلسلے میں مستقبل کتب تالیف کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کتب میں [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کا کلام [[سید رضی]] سے قبل، ان کے ہم عصر نیز ان کے بعد کی ان کتب سے مستند کیا گیا ہے اور ان اقوال کو [[سید رضی]] اور [[سید مرتضی]] کے بغیر دوسرے علماء سے نقل کیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ کلام [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]] کی سند میں شک و تردد بالکل بےجا ہے؛ اور اس حقیقت میں بھی شک و شبہہ بے جا ہے کہ یہ کتاب سید رضی نے تالیف کی ہے نہ کہ ان کے بھائی [[سید مرتضی علم الہدی|سید مرتضی]] نے۔ ذیل میں نہج البلاغہ کے اسناد اکٹھا کرنے والے بعض منابع کا حوالہ دیا جاتا ہے:
#استناد نہج البلاغہ، تالیف امتیاز علی خان عرشی؛ ترجمہ، تعلیقات اور حواشی از مرتضی آیت اللہ زادہ شیرازی۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/526351|استناد نہج البلاغہ، امتیاز علی خان عرشی]۔</ref>
#مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ، سید عبد الزہراء الحسینی الخطیب۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/885620|مصادر نہج البلاغہ عبد الزہرا الخطیب]۔</ref>
 
== مستدرکات ==
 
'''نہج البلاغہ''' اگرچہ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کا منتخب کلام ہے لیکن یہ اسلامی منابع میں منقول پورے کلام [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]] پر مشتمل نہيں ہے لہذا بعض محققین نے آپ کے دیگر اقوال کو جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ ان تالیفات میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
 
*تمام نہج البلاغہ مما اوردہ الشریف الرضی اثر مولانا الامام امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام: تحقیق و تتمیم و تنسیق صادق موسوی؛ توثیق کتاب: محمد عساف؛ مراجعہ و تصحیح نصوص: فرید السید۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/619025|تمام نہج البلاغہ، تحقیق صادق الموسوی، توثیق: عساف، تصحیح: فرید السید]۔</ref>
*نہج السعادہ فی مستدرک نہج البلاغہ، باب الکتب والرسائل: تالیف محمد باقر محمودی؛ تصحیح عزیز آل طالب۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/488844| المحمودی، نہج السعادہ، باب الکتب والرسائل]۔</ref>
* نہج السعادہ فی مستدرک نہج البلاغہ، باب الخطب والکلم، تالیف محمد باقر محمودی، تصحیح عزیز آل طالب۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/2964112| المحمودی نہج السعادہ، باب الخطب والکلم]۔</ref>
* مستدرک نہج البلاغہ ...، ہادی کاشف الغطاء۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/928193| مستدرک ۔۔۔ کاشف الغطاء]۔</ref>
 
== عربی ادب پر کلام علیؑ کے اثرات ==
 
عرب خطیب اور مترسلین (نامہ نگار و مراسلہ نویس) پہلی صدی ہجری ہی سے کلام کی پختگی اور بات کی حسن و جمال سے آراستگی اور بےجا اصطلاحات سے پاکیزگی اور لفظ کی متانت و سنجیدگی کی خاطر بارہا و بارہا کلامِ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کا مطالعہ کرتے تھے اور اس کے فقروں کو بروئے کار لاتے تھے تا کہ ان کے قول یا ان کی خطابت یا کتابت میں بلاغت کی قوت حاصل ہو اور ان کا کلام سب کے نزدیک مقبول واقع ہو۔<ref> شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، صص: ز، ح.</ref> ہر گاہ ایک محقق عرب ادیبوں کے کسی خطبے یا رسالے یا حتی کہ طلوع [[اسلام]] کے بعد کے عرب شعراء کے کلام کا جائزہ لیتا ہے، دیکھ لیتا ہے کہ کم ہی کوئی شاعر و ادیب ہوگا جس نے کوئی ایک معنی کلام [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]] سے اخذ نہ کیا ہو یا آپ کا کوئی قول اپنے مکتوب یا قول و کلام یا شاعری میں تضمین نہ کیا ہو۔<ref> شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، ص: ح. مزید اطلاع کے لئے رجوع کریں: محمد ہادی اللامینی کے مقالے "نہج البلاغۃ وأثرہ علی الادب العربي ص119"۔</ref>
 
=== عبدالحمید ===
 
عبد الحمید بن یحیی عامری (متوفی 132ھ)، آخری اموی/مروانی حکمران [[مروان حمار|مروان بن محمد]] کا کاتب ہے۔ کہا گیا ہے کہ فن کتابت کا آغاز عبد الحمید سے شروع ہوا ہے۔ عبد الحمید خود کہتا ہے:
:::میں نے "اصلع"<ref>اصلع، اس فرد کو کہا جاتا جس کے سر کے اگلے حصے پر بال نہ ہوں اور یہاں مروانیوں کے کاتب کی مراد [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین علیہ السلام]] ہیں۔</ref> کے ستر خطبے ازبر کئے اور یہ خطبے میرے ذہن میں پے در پے (چشمے کی مانند) پھوٹے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج1، ص24؛ شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، صح.</ref>
 
=== جاحظ ===
{{Quote box
|class = <!-- Advanced users only.  See the "Custom classes" section below. -->
|title =
|quote =[[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]]: <br/>{{حدیث| "‌'''قِیمَةُ كُلُّ امرءٍ مَا یُحسِنُهُ'''"}}<br/> ترجمہ: ہر شخص کی قیمت وہ ہنر ہے جس میں وہ خوب مہارت رکھتا ہے۔ <br/> سید رضی: یہ ایسا انمول جملہ ہے کہ نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہے اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہو سکتا ہے۔
|source = <small>نہج البلاغہ، کلمات قصار، حکمت نمبر 81۔</small>
|align = left
|width = 250px
|border =
|fontsize = 14px
|bgcolor =#ffeebb
|style =
|title_bg =
|title_fnt =
|tstyle =
|qalign =
|qstyle =
|quoted =
|salign = left
|sstyle =
}}
ابو عثمان جاحظ (متوفٰی 255 ہجری)، جنہیں عربی ادب کا امام کہا گیا ہے اور [[مسعودی]] انہیں سلف کا فصحیح ترین قلمکار سمجھتے ہیں، [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کا فقرہ <font color=blue>{{حدیث|قِيمَةُ كُلِّ امْرِئٍ مَا يُحْسِنُهُ}}<ref> نہج البلاغہ، کلمات قصار، حکمت 81۔</ref> </font> نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
:::اگر اس کتاب (بظاہر ان کی اپنی کتاب "البیان والتبیین" مقصود ہے) میں اسی ایک فقرے کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا تو بھی ہم اس کتاب کو کافی و شافی، مکتفی اور بے نیاز کر دینی والی کتاب پاتے۔ بلکہ ہم اسے کفایت کی حد سے بھی بڑھ کر غایت و مراد پر منتج ہونے والی پاتے ہیں اور سب سے احسن کلام وہ ہے جس کا اختصار تجھے کثرت و تفصیل سے بے نیاز کردے اور اس کے معنا اس کے ظاہری لفظ میں ہوں۔<ref> جاحظ، البیان و التبیین، تصحیح عبدالسلام ہارون، ج1، ص83؛ بحوالہ: شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، ص: ح۔</ref>
 
انھوں نے "‌البیان والتبیین" میں [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کے کئی خطبے نقل کئے ہیں۔<ref> الجاحظ، البیان والتبیین، (عالمی اہل بیتؑ اسمبلی کے لائبریری سافٹ ویئر، نسخۂ دوئم میں موجود نسخہ) صص240-237، 312۔</ref>
 
جاحظ نے [[سید رضی]] سے پہلے [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کے 100 اقوال منتخب کئے ہیں جن پر رشید وطواط، [[ابن میثم بحرانی]] اور دیگر نے شرحیں لکھی ہیں۔ وہ ان اقوال کے بارے میں لکھتے ہیں:
:::ان میں سے ہر قول ایک ہزار عمدہ عرب اقوال و کلمات کے برابر ہے۔<ref> شرح ابن میثم علی المائۃ کلمۃ لامیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ‌السلام، المصحح: میر جلال الدین الحسینی الارموی المحدّث، تہران: سازمان چاپ دانشگاہ تہران، 1349 شمسی، ص2. نیز یہی جلد: رجوع کریں: وطواط، رشید، مطلوب کل طالب من کلام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، مصحح: میر جلال الدین حسینی ارموی محدّث، تہران: چاپخانہ دانشگاہ تہران، 1342 شمسی، ص2۔</ref> جاحظ کی تالیفات میں ایک کتاب کا عنوان "‌مائۃ من امثال عليؑ"<ref>[http://www.encyclopaediaislamica.com/madkhal2.php?sid=4311 ر.ک: دانشنامہ جہان اسلام، مدخل «‌جاحظ، ابو عثمان عمروبن بحر ».]</ref> بھی ہے جو بظاہر یہی کتاب ہے۔
 
=== ابن نباتہ ===
[[سیف الدولہ]] کے دور میں  حلب میں خطابت کے منصب  پر فائز اور دنیائے عرب کے مشہور  خطیب ابن نباتہ کے نام سے معروف عبد الرحمن بن محمد بن اسمعیل معروف (متوفا سنہ 374 ہجری) کہتے ہیں:
:::تقاریر کا ایک خزانہ ازبر کر لیا کہ اس میں سے جتنا بھی اٹھاؤں اس میں کمی نہیں بلکہ اضافت آئے گی، اور جو کچھ زیادہ تر ازبر کیا وہ [[امام علی علیہ السلام|علی بن ابی طالب]] کے مواعظ کی ایک سو فصلیں ہیں۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج1، ص24؛ شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، صح.</ref>
 
=== ابو اسحاق صابی ===
 
زکی مبارک اپنی کتاب "‌النّثر الفنّی" (فنی نثری) میں ـ جہاں ابو اسحٰق صابی (متوفٰی 380 ہجری) کے اسلوب کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں ـ [[ابو اسحٰق صابی]] کا ایک فقرہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
:::اگر ہم اس عبارت کا موازنہ ان عبارتوں سے کریں جو [[سید رضی|شریف رضی]] نے کلام [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]] کو جمع کرتے ہوئے لکھی ہیں تو دیکھیں گے کہ صابی اور شریف رضی ایک ہی گھاٹ سے سیراب ہوئے ہیں۔<ref> النثر الفنی، ج2، ص296؛ بہ نقل شہیدی، مقدمہ نہج البلاغہ، صح.</ref>
 
=== ابن ابی الحدید ===
 
ابن ابی الحدید [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کی فصاحت کے بارے میں کہتے ہیں:
 
::: {{حدیث|... فہو عليہ السلام إمام الفصحاء، وسيد البلغاء، وفي كلامه قيل: دون كلام الخالق و فوق كلام المخلوقين و منه تعلم الناس الخطابة والكتابة۔}}  <br/> ترجمہ: [[امام علی علیہ السلام|آپ علیہ السلام]] فصحاء کے امام اور بلغاء کے سردار ہیں، اور [[امام علی علیہ السلام|آپؑ]] کے کلام کے بارے میں کہا گیا: کلام خالق کے بعد اور مخلوقات کے کلام سے بالاتر ہے۔ لوگوں نے خطابت و کتابت آپؑ سے سیکھی ہے۔<ref> ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج1، ص24۔</ref>
 
== فارسی ادب پر اثرات ==
پورے اطمینان کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ [[ایران|ایرانی]] ادیبوں، خطیبوں اور مؤلفین و مصنفین نے [[قرآن کریم]] کے بعد کسی بھی کلام سے اتنا استفادہ نہیں کیا، جتنا [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]] کے کلام سے کیا ہے۔ وہ اس کے علاوہ اس  قدر عمدہ کلام اور بیش بہا زیور سخن نہیں پا سکے کہ جسے وہ اپنے کلام اور مکتوبات کا معیار اور پیمانہ قرار دے سکیں۔ کسی بھی تعصب کے بغیر اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین علیہ السلام]] کے مکاتیب اور اقوال [[قرآن کریم]] کے بعد نثر مصنوع کا عالی ترین نمونہ ہیں۔ فصحا اور بلغا ایک ہزار سال سے زیادہ ہو گیا کہ وہ نہج البلاغہ کا اقرار کرتے آئے ہیں۔<ref> شہیدی، بہرہ ادبیات از سخنان علی علیہ‌السلام، ص202۔</ref> اسی طرح دری زبان کے فروغ کے بعد ہم کم ہی کوئی دیوان یا کتاب دیکھ سکتے ہیں جس کے شاعر و مؤلف نے اپنے دیوان و کتاب کو [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]] کے کسی فقرے یا متعدد فقروں سے مزین نہ کیا ہو۔<ref> شہیدی، بہرہ ادبیات از سخنان علی علیہ‌السلام، ص205۔</ref>
 
فارسی شاعری کے اکابرین میں سے ایک  فردوسی ہیں<ref> رجوع کریں: شہیدی، بہرہ ادبیات از سخنان علی علیہ‌السلام، صص206-209.</ref> جنہوں نے شاہنامہ میں [[امام علی علیہ السلام|امیر الکلام حضرت علیؑ]] کے کلام سے استفادہ کیا ہے۔ ناصر خسرو قبادیانی (متولد 394 متوفا 481 ہجری) [[اسماعیلیہ]] مذہب کے بزرگ [[متکلم]]، شاعر اور مؤلف تھے اور [[اہل بیت علیہم السلام|خاندان رسالت]] سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ ان کے دیوان میں ایسے بہت سے مضامین اور نصائح دیکھے جا سکتے ہیں جو [[امام علی علیہ السلام|مولا امیر المؤمنین علیہ السلام]] کے کلام کا ترجمہ یا اس کلام سے ماخوذ ہیں۔<ref> شہیدی، بہرہ ادبیات از سخنان علی علیہ‌السلام، ص209۔</ref> ڈاکٹر سید جعفر شہیدی کہتے ہیں: جہاں تک میں نے ناصر خسرو قبادیانی کے دیوان کا غائرانہ مطالعہ کیا ہے، انھوں نے اپنے پورے دیوان میں 60 سے زائد مقامات پر [[امام علی علیہ السلام|امیر المؤمنینؑ]] کا کلام بعینہ شاعری کے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ سنائی غزنوی، عطار نیشابوری اور مولانا جلال الدین بلخی (مولانا روم) جیسے عرفانی شعراء کا حال بھی مختلف نہيں ہے۔<ref> شہیدی، سیدجعفر، بہرہ ‏گیری ادبیات فارسی از نہج البلاغہ، ص185۔</ref> بہرام شاہ غزنوی کے منشی خواجہ نصر اللہ بن محمد بن عبد الحمید کی تحریر اور "کلیلۂ و دمنۂ بہرام شاہی" کے نام سے مشہور کلیلہ و دمنہ جو حقیقت میں عربی کلیلہ و دمنہ کا ترجمہ ہے۔ یہ کتاب سنہ 538 تا 540 ہجری میں لکھی گئی ہے۔ اس میں کئی مقام پر نہج البلاغہ و قرآن کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔
<ref> شہیدی، بہرہ ادبیات از سخنان [[امام علی علیہ السلام|علی علیہ‌السلام]]، ص210.</ref>
 
== سافٹ ویئرز==
*'''دانشنامۂ جامع نہج البلاغہ''': تہران: کمپیوٹرائز ریسرچ سنٹر، حوزہ علمیہ اصفہان۔‏
 
:''' خصوصیات''': 1۔ یہ سافٹ وئر آڈیو اور ویڈیو کی صورت میں رہنمائی۔ 2۔ نہج البلاغہ کی سینکڑوں مجلد شرحیں اور دنیا بھر کی زندہ زبانوں کے تراجم کی عربی متن کے ساتھ تطبیق۔ 3۔ ہزاروں موضوعات کو درخت کی شکل میں رسائی۔ 4۔ متن کے اندر ہی ایک فعال (Active) لغت نامہ (Dictionary) موجود ہے جس میں فعال صورت میں مصادر و امثال کی نمائش ممکن بنائی گئی ہے۔ 5۔ قلمی نسخے کی نمائش بھی ہوتی ہے۔ 6۔... <ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/1890310| نہج البلاغہ کا جامع دانشنامہ [برقی مآخذ]۔</ref>
*'''منہج النور''': دانشنامۂ علوی، قم: تحقیقاتی کمپیوٹر مرکز برائے اسلامی علوم۔
 
:'''خصوصیات''' 1 سافٹ وئر میں پانچ نسخوں کے مطابق نہج البلاغہ کی نمائش اور تقابلی نمائش کا امکان۔ 2۔ مشکل الفاظ، صریح اور مضمر ناموں، کی وضاحت۔ 3۔ عربی اور فارسی میں ضرب الامثال اور نہج البلاغہ کے مصادر کی نمائش، فہرست آیات، اشعار، دعاؤں، امثال، اعلام و مصادر کی فہرست۔ 4۔ نہج البلاغہ کے بارے میں 281 جلدوں پر مشتمل 110 کتب کے کتب خانے ... نیز پروگرام سے متعلق متنوع بازیابیوں (Reoveries) کے قابل تفصیلی کتب خانے پر مشتمل ہے۔ <ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/1983833| دانشنامہ علوی]۔</ref>
 
== متعلقہ مآخذ ==
{{ستون آ|3}}
*[[امام علی علیہ السلام]]
*[[سید رضی]]
*[[خطبۂ شقشقیہ]]
*[[خطبہ قاصعہ]]
*[[خطبہ متقین]]
*[[امام علی کا امام حسن کے نام خط]]
*[[عہد نامہ مالک اشتر]]
*[[خصائص الائمہ]]
{{ستون خ}}
 
== مزید مطالعہ==
*نہج البلاغہ، ترجمہ مفتی جعفر حسین۔[https://www.al-islam.org/urdu/khutbaat/]


===اعتقادی توقیعات===
امام مہدی (عج) سے صادر ہونے والی بہت سی توقیعات اعتقادی سوالوں کے جواب ہیں جیسے [[صفات خدا]] ، [[نبوت]] اور [[امامت]] سے متعلق سوالات۔ امام مہدی (عج) نے امامت سے متعلق سوالات کے جواب میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوسکتی اور یہ سنت الٰہی [[قیامت]] تک جاری ہے۔ آپ نے امامت کی ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہوئے اشارہ کیا ہے کہ امامؑ کی ایک ذمہ داری اپنے بعد والے امامؑ کو معین اور متعارف کروانا ہے اور آپ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ [[امام حسن عسکریؑ]] نے آپ کو اپنے بعد امام (عج) کے عنوان سے متعارف کروایا ہے۔ امام مہدی(عج)نے اصل امامت کا اور [[جعفر کذاب]] کے مقابل اپنی امامت کا دفاع کیا ہے اور شیعوں کو [[ظہور]] کا وقت متعین کرنے، امامؑ کی ذات کے تعارف، امامؑ کا کہاں رہتے ہیں یہ بتانے اور امامؑ کی جستجو سے منع فرمایا ہے۔<ref>ان توقیعات کو دیکھنے کے لئے ملاحظہ کیجئے: محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۳۰-۱۶۵۔</ref>
'''جھوٹے دعویداروں کو جھٹلانا'''
امام مہدی (عج) کی توقیعات کا ایک حصہ آپ کی نیابت کا جھوٹا دعوا کرنے والوں کے جھٹلانے یا ان پر لعنت سے متعلق ہے۔ان میں ایک توقیع وہ ہے جس میں غیبت صغریٰ میں امام (عج) سے رابطہ کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے ایک شخص [[ابو محمد حسن شریعی]] پر لعنت کی گئی ہے۔<ref>طوسی، الغیبہ، ج۱، ص۳۹۷۔</ref>
===فقہی توقیعات===
توقیعات کا ایک حصہ فقہی سوالوں کے جوابات پر مشتمل ہے۔ان توقیعات میں [[طہارت]]، [[نماز]]، [[روزه]]، [[حج]]، [[شہادت]]، [[قضاوت]]، [[وقف]]، [[معاملات]]، [[خمس]]، [[صدقہ]]، [[نکاح]]، [[منشیات]]، [[زیارت قبور]] ائمہ(ع)  وغیرہ کے سلسلے میں شیعوں کے سوالات کے جواب  دئے گئے ہیں۔<ref>ان توقیعات کو دیکھنے کے لئے ملاحظہ کیجئے: محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۸۰-۲۳۹۔</ref>
===کرامات اور دعائیں===
کچھ توقیعات میں امام مہدی (عج) کی کرامات کو  پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح شیعوں کی درخواست پر امام کی طرف سے کچھ جن دعاؤوں کی تعلیم دی گئی ہے وہ بھی ان توقیعات میں شامل ہیں۔ نیز کچھ خفیہ مالی معاملات اور دیگر خفیہ امور کا بھی ان توقیعات میں تذکرہ ملتا ہے۔<ref>ان توقیعات کو دیکھنے کے لئے ملاحظہ کیجئے: محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۳۲۲-۴۲۵۔</ref>توقیعات کے اس حصے سے امام مہدی (عج) کی حقانیت اور امامت بھی ثابت ہوتی ہے۔ <ref> محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۱۹۔</ref>
==توقیعات امام زمانہ(عج)کا اعتبار==
شیعہ فقہا نے کئی مقامات پر شرعی احکام کے استنباط کے لئے ان توقیعات کو بطور سند اور دلیل استعمال کیا ہے۔۔<ref>ان توقیعات کو دیکھنے کے لئے ملاحظہ کیجئے: محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۲۵۵-۳۲۰۔</ref> بطور مثال محمد ابن عبداللہ حمیری کے ائمہ کی قبر کے پاس نماز پڑھنے کے سلسلے میں سوال کے جواب میں جو توقیع لکھی اس سے فقہا نے قبروں سے آگے ہوکر نماز پڑھنے (اس طرح سے نمازی کی پیٹھ قبر کی طرف ہو) کے مکروہ یا حرام ہونے کا فتوا دیا ہے۔<ref>عاملی، مفتاح الکرامہ، ۱۴۱۹ھ، ج۶، ص۲۱۲-۲۱۴۔ </ref>
امام مہدی (عج) کی ایک توقیع جس میں امام نے ہر زمانے میں پیش آنے والے نئے مسائل میں راویان حدیث کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا  ہے،<ref>صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۴۸۴۔</ref>اس سے [[ولایت فقیہ]] کو ثابت کرنے کے لئے بھی بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ اسی توقیع کی بنیاد پر [[امام خمینی]]  کا ماننا ہے کہ زمانۂ غیبت میں اسلامی سماج کے تمام امور فقہا کے ہاتھ میں ہونا چاہئیں۔<ref>دیکھیے: امام خمینی، کتاب البیع، ۱۴۲۱ھ، ج۲، ص ۶۳۵؛ امام خمینی، ولایت فقیہ، ۱۳۷۴ش، ص۷۸-۸۲۔</ref>
• {{ نقل قول| عنوان = [[حسین بن روح]] کی تائید میں امام کا خط
|:’’ ہم اسے(حسین ابن روح) کو جانتے ہیں، خدا انہیں تمام خوبیاں اور خوشیاں عنایت فرمائے اور اپنی عنایات سے بہرہ مند فرمائے۔ ان کا خط موصول ہوا۔ ہمیں ان پر پورا اطمینان ہے۔ ہماری نظر میں ان کا وہ مقام و مرتبہ ہے کہ انہیں جان کر خوشی ہوگی۔خداوند ان پر اپنے احسانات میں اضافہ فرمائے۔‘‘|تاریخ بایگانی|| ماخذ =طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ھ، ص۳۷۲۔| تراز = چپ| عرض = ۲۳۰px| رنگ پس‌زمینه =#ffeebb| اندازه خط = ۱۲px| گیومه نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}
==توقیات کے مآخذ==
[[دانشنامہ امام مہدی]] میں آیا ہے کہ امام مہدی(عج) کی توقیعات کے اہم ترین مآخذ
شیخ صدوق کی کتاب کمال‌الدین  اور شیخ طوسی کی کتاب الغیبۃ ہیں۔<ref>محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۲۴۔</ref>ان دونوں بزرگوں نےاپنی کتابوں میں توقیعات کے لئے الگ باب قائم کیا ہے۔<ref>صدوق، کمال‌الدین، ۱۳۹۵ھ، ج۲، ص۴۸۲-۵۳۲؛ طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۱ به بعد۔</ref>
البتہ بعض دوسرے مآخذ  میں بھی کچھ توقیعات پراکندہ طور  نقل کی گئی ہیں؛جیسے [[الکافی]]، [[الاحتجاج]]، [[معادن الحکمۃ]]، [[بحارالانوار ]] اور [[مکاتیب الائمۃ]]۔ <ref>محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۲۴۔</ref> اسی طرح امام مہدی(عج) کے وکلا  اور نواب اربعہ کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں جیسے احمد ابن محمد عیاش(متوفی ۴۰۱ھ) کی کتاب وکلاء الاربعہ جیسی کتابوں میں بھی توقیعات کے بارے میں لکھا گیا ہے۔<ref>محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۲۳۔</ref>
امام مہدی (عج)  کی توقیعات کے بارے میں مستقل طور پر بھی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ جن میں توقیعات کی تدوین اور تجمیع کے بارے میں لکھا گیا ہے جیسے:
*  تیسری صدی ہجری کے نصف دوم میں قم کی ایک عظیم شخصیت [[عبداللہ بن جعفر حمیری]]  کی کتاب  [[قرب الاسناد الی صاحب الامر]]
* [[جعفر وجدانی]] کی توقیعات مقدسه 
*خادمی شیرازی  کی کتاب مجموعہ سخنان و توقیع‌ہا و ادعیہ حضرت بقیۃاللہ، <ref>محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی، ۱۳۹۳ش، ج۴، ص۱۲۲-۱۲۴۔</ref>
*محمدتقی اکبرنژاد کی موسوعۃ توقیعات الامام المہدی
*علامہ مجلسی کی توقیعات ناحیہ مقدسہ
==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات}}
{{طومار}}
==مآخذ==
{{حوالہ جات|3}}
*امام خمینی، سید روح‌اللہ، کتاب‌البیع، قم، انتشارات اسماعیلیان، ۱۳۶۳ش۔
{{خاتمہ}}
*امام خمینی، سید روح‌اللہ، ولایت فقیہ، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۳ش۔
*خوئی، سیدابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، قم، مرکز نشر الثاقۃ الاسلامیۃ فی العالم، ۱۳۷۲۔
*شبیری، محمدجواد، [https://rch۔ac۔ir/article/Details/10629? «توقیع»]، دانشنامہ جہان اسلام(ج۸)، تہران، ۱۳۸۳ش۔
*شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال‌الدین و تمام النعمہ، تصحیح علی‌اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ق۔
*طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، تصحیح محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، ۱۴۰۳ھ۔
*طوسی، محمد بن حسن، کتاب الغیبہ، قم، تصحیح عباداللہ تہرانی و علی احمد ناصح، قم، دار المعارف الاسلامیہ، ۱۴۱۱ھ۔
*عاملی، سیدجواد بن محمد، مفتاح الکرامہ فی شرح القواعد العلامہ، تصحیح محمدباقر خالصی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته بہ جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، ۱۴۱۹ھ۔
*کشی، محمد بن عمر، رجال‌الکشی (اختیار معرفۃ الرجال)، تصحیح محمد بن حسن طوسی، تصحیح حسن مصطفوی، مشہد، مؤسسہ نشر دانشگاه مشہد، ۱۴۰۹ھ۔
*محمدی ری‌شہری، محمد، دانشنامہ امام مہدی(عج)، قم، دار الحدیث، ۱۳۹۳ش۔


{{مہدویت}}


[[زمرہ:امام مہدی]]
== مآخذ ==
[[زمرہ:مہدویت]]
{{طومار}}
{{ستون آ|2}}
*نہج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، تہران: علمی و فرہنگی، 1377 ہجری شمسی۔
*نہج البلاغۃ، ترجمہ عبد المحمد آیتی، بی‌جا: دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1377 ہجری شمسی۔ (کتب خانہ اہل بیتؑ برقی کتب خانے کی دوسری ایڈیشن میں موجودہ نسخہ)۔
*ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج1، تحقیق: محمد أبو الفضل إبراہیم، دار إحیاء الکتب العربیۃ - عیسی البابی الحلبی و شرکاہ، 1378 ہجری/1959 عیسوی۔
*استادی، رضا، کتابنامہ نہج البلاغہ، تہران: بنیاد نہج البلاغہ، 1359 ہجری شمسی۔
*الحسینی الخطیب، السید عبد الزہراء، مصادر نہج البلاغۃ و أسانیدہ، ج1، بیروت: دار الزہراء، 1409 ہجری۔ 1988 عیسوی۔
*ابن خلکان، وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان، ج3، تحقیق: إحسان عباس، لبنان: دار الثقافۃ، بی‌تا.
*الذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج17، تحقیق و تخریج وتعلیق: شعیب الأرنؤوط، محمد نعیم العرقسوسی، بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ، 1406ہجری/1986عیسوی۔
*شہیدی، سید جعفر، بہرہ ادبیات از سخنان امام علی علیہ السلام|علی علیہ‌السلام، در یادنامہ ‏کنگرہ ‏ہزارہ نہج‏ البلاغہ، بی‌جا: بنیاد نہج البلاغہ، 1360 ہجری شمسی۔
*شہیدی، سید جعفر، بہرہ ‏گیری ادبیات فارسی از نہج البلاغہ، در یادنامہ ‏دومین‏ کنگرہ ‏نہج ‏البلاغہ، تہران: وزارت ارشاد اسلامی و بنیاد نہج البلاغہ، 1363 ہجری شمسی۔
*الجاحظ، البیان والتبیین، مصر: المکتبۃ التجاریۃ الکبری لصاحبہا مصطفی محمد، 1345 ہجری۔/1926 ہجری۔ (کتب خانہ اہل بیتؑ برقی کتب خانے کی دوسری ایڈیشن میں موجودہ نسخہ)۔
*عبدہ، محمد، شرح نہج البلاغۃ، تصحیح: محمد محیی الدین عبد الحمید، قاہرہ: مطبعۃ الاستقامہ‍. (دانشنامۂ علوی کے سافٹ ویئر دانشنامۂ علوی "منہج النور"، میں موجودہ نسخہ)۔
*محمدی، سید کاظم، دشتی، محمد، المعجم المفہرس لالفاظ نہج البلاغہ، قم: نشر امام علیؑ، 1369 ہجری شمسی۔
{{ستون خ}}
{{خاتمہ}}
{{کتابیات امام علی}}
{{نہج البلاغہ}}


[[زمرہ:نہج البلاغہ]]
[[زمرہ:نہج البلاغہ]]
گمنام صارف