مندرجات کا رخ کریں

"ائمہ معصومین علیہم السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 76: سطر 76:
===امام اول===
===امام اول===
{{اصلی|امام علی علیہ السلام}}
{{اصلی|امام علی علیہ السلام}}
علی بن ابی‌طالب امام علیؑ اور [[امیرالمؤمنین (لقب)|امیرالمؤمنینؑ]] کے نام سے مشہور شیعوں کے پہلے امام ہیں۔ آپ [[ابوطالب]] اور [[فاطمہ بنت اسد]] کے فرزند ہیں۔ [[13 رجب]] سنہ 30 [[عام الفیل]] کو [[کعبہ]] میں آپ کی ولادت ہوئی۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۵؛‌ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۵۳.</ref> آپ نے سب سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر [[ایمان]] لایا<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۶۔</ref> اور پوری زندگی ہمیشہ آپؐ کے ساتھ رہے اور پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہ(س)]] سے آپ نے [[شادی]] کی۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۰.</ref>
علی بن ابی‌طالب امام علیؑ اور [[امیرالمؤمنین (لقب)|امیرالمؤمنینؑ]] کے نام سے مشہور شیعوں کے پہلے امام ہیں۔ آپ [[ابوطالب]] اور [[فاطمہ بنت اسد]] کے فرزند ہیں۔ [[13 رجب]] سنہ 30 [[عام الفیل]] کو [[کعبہ]] میں آپ کی ولادت ہوئی۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۵؛‌ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۵۳۔</ref> آپ نے سب سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر [[ایمان]] لایا<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۶۔</ref> اور پوری زندگی ہمیشہ آپؐ کے ساتھ رہے اور پیغمبر اکرمؐ کی اکلوتی بیٹی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت فاطمہ(س)]] سے آپ نے [[شادی]] کی۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۰۔</ref>


باوجود اینکہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی زندگی میں کئی بار من جملہ [[عید غدیر|غدیر کے دن]] آپ کو اپنا جانشین اور مسلمانوں کا بلا فصل خلیفہ مقرر کیا تھا،<ref>محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۷-۴۳۶.</ref> لیکن پبغمبر اکرمؐ کی رحلت کے فورا بعد [[سقیفہ بنی‌ ساعدہ کے واقعے]] میں [[ابوبکر بن ابی‌ قحافہ]] کی بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی گئی۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۳۸و۱۳۹.</ref> [[خلفائے ثلاثہ]] کے دور میں آپ نے اسلام کی مصلحت اور اسلامی معاشرے میں اتحاد کو فروغ دینے کی خاطر 25 سال سکوت اختیار کی اور آخر کار [[سنہ 35 ہجری|35ھ]] میں لوگوں نے آپ کی [[بیعت]] کر کے مسلمانوں کا چھوتھا خلیفہ منتخب کیا۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۱.</ref> آپ کی [[خلافت امام علی|خلافت]] جو تقریبا 4 سال 9 مہینے قائم رہی 3 جنگیں؛ [[جنگ جمل]]، [[جنگ صفین]] اور [[جنگ نہروان]] رونما ہوئیں۔ جس کی بنا پر آپ کی خلافت کا اکثر حصہ مسلمانوں کے داخلی اختلافات میں گذر گئے۔<ref>طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۱-۲۰۲.</ref>
باوجود اینکہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی زندگی میں کئی بار من جملہ [[عید غدیر|غدیر کے دن]] آپ کو اپنا جانشین اور مسلمانوں کا بلا فصل خلیفہ مقرر کیا تھا،<ref>محمدی، شرح کشف المراد، ۱۳۷۸ش، ص۴۲۷-۴۳۶۔</ref> لیکن پبغمبر اکرمؐ کی رحلت کے فورا بعد [[سقیفہ بنی‌ ساعدہ کے واقعے]] میں [[ابوبکر بن ابی‌ قحافہ]] کی بعنوان خلیفہ مسلمین بیعت کی گئی۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۳۸و۱۳۹۔</ref> [[خلفائے ثلاثہ]] کے دور میں آپ نے اسلام کی مصلحت اور اسلامی معاشرے میں اتحاد کو فروغ دینے کی خاطر 25 سال سکوت اختیار کی اور آخر کار [[سنہ 35 ہجری|35ھ]] میں لوگوں نے آپ کی [[بیعت]] کر کے مسلمانوں کا چھوتھا خلیفہ منتخب کیا۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۱۔</ref> آپ کی [[خلافت امام علی|خلافت]] جو تقریبا 4 سال 9 مہینے قائم رہی 3 جنگیں؛ [[جنگ جمل]]، [[جنگ صفین]] اور [[جنگ نہروان]] رونما ہوئیں۔ جس کی بنا پر آپ کی خلافت کا اکثر حصہ مسلمانوں کے داخلی اختلافات میں گذر گئے۔<ref>طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۳ش، ص۲۰۱-۲۰۲۔</ref>


امام علیؑ [[19 رمضان]] [[سنہ 40 ہجری|40ھ]] کو [[مسجد کوفہ]] کے محراب میں [[نماز]] کی حالت میں [[ابن ملجم مرادی]] کے ہاتھوں آپ زخمی ہوئے اور [[21 رمضان]] کو آپ جام [[شہادت]] نوش کر گئے اور [[نجف]] میں آپ کو سپرد خاک کئے گئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۹؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۵۴.</ref>  
امام علیؑ [[19 رمضان]] [[سنہ 40 ہجری|40ھ]] کو [[مسجد کوفہ]] کے محراب میں [[نماز]] کی حالت میں [[ابن ملجم مرادی]] کے ہاتھوں آپ زخمی ہوئے اور [[21 رمضان]] کو آپ جام [[شہادت]] نوش کر گئے اور [[نجف]] میں آپ کو سپرد خاک کئے گئے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۹؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۵۴۔</ref>  
آپ بیشمار [[فضایل امام علی(ع)|فضیلتوں]] کے حامل تھے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۹-۶۶؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۸۲؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۱-۳۱.</ref> [[عبد اللہ بن عباس|ابن‌ عباس]] سے منقول ہے کہ آپ کی شان میں تقریبا 300 [[آیت|آیتیں]] نازل ہوئی ہیں۔<ref>قندوزی، ینابیع المودة، دارالاسوة، ج۱، ص۳۳۷.</ref> اسی طرح ان سے منقول ہے کہ [[خدا]] نے کسی آیت کو نازل نہیں کیا جس میں {{قرآن کا متن|«یا أیها الذین آمنوا»}} ہو مگر یہ کہ آپؑ مومنین میں سر فہرست اور ان کے امیر ہیں۔<ref>حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۶۳-۷۱.</ref>
آپ بیشمار [[فضایل امام علی(ع)|فضیلتوں]] کے حامل تھے۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۹-۶۶؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۳۹۰ق، ص۱۸۲؛ حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۲۱-۳۱۔</ref> [[عبد اللہ بن عباس|ابن‌ عباس]] سے منقول ہے کہ آپ کی شان میں تقریبا 300 [[آیت|آیتیں]] نازل ہوئی ہیں۔<ref>قندوزی، ینابیع المودۃ، دارالاسوۃ، ج۱، ص۳۳۷۔</ref> اسی طرح ان سے منقول ہے کہ [[خدا]] نے کسی آیت کو نازل نہیں کیا جس میں {{قرآن کا متن|«یا أیہا الذین آمنوا»}} ہو مگر یہ کہ آپؑ مومنین میں سر فہرست اور ان کے امیر ہیں۔<ref>حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۶۳-۷۱۔</ref>
====پیغمبرؐ کے زمانے میں====
[[امیرالمؤمنین|امیرالمؤمنین علیؑ]] شیخ [[بنو ہاشم|بنی ہاشم]] عمِّ [[رسول اللہ|رسول]]ؐ حضرت [[ابو طالب]] کے فرزند تھے۔ [[ابو طالب علیہ السلام]] نے [[رسول اللہ|پیغمبر اسلامؐ]] کی سرپرستی کی، اپنے گھر میں رکھا اور آپؐ کو پروان چڑھایا اور [[بعثت]] کے بعد ـ جب تک بقید حیات تھے ـ آنحضرتؐ کی حمایت اور پشت پناہی کی اور عرب [[کافر|کفار]] بالخصوص کفار قریش کا شر آپؐ سے دفع کیا۔<ref>طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص199۔</ref>
 
قول مشہور کے مطابق [[امام علی علیہ السلام|علی علیہ السلام]] [[بعثت]] سے 10 سال قبل پیدا ہوئے اور چھ سال کے تھے جب [[مکہ]] اور اس کے نواح میں قحط پڑا اور آپؑ [[رسول اللہ]]ؐ کی درخواست پر آپؐ کے چچا کے گھر سے آپؐ کے گھر میں منتقل ہوئے اور [[رسول اللہ|پیغمبر اسلامؐ]] کی بلاواسطہ سرپرستی میں آکر براہ راست آپ کی تعلیم و تربیت سے مستفید ہوئے۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص199۔</ref>
 
چند سال بعد ـ جب [[رسول اللہ|پیغمبرؐ]] [[نبوت]] کے عہدے پر فائز ہوئے اور پہلی بار [[غار حرا]] میں آسمانی [[وحی]] آپؐ کو ملی جب غار حرا سے اپنے شہر اور گھر کی طرف روانہ ہوئے، اور ماجرا کہہ سنایا تو [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] آپؐ پر ایمان لائے اور پھر جب [[حدیث یوم الدار|دعوت ذوالعشیرہ]] میں آپؐ نے اہل خاندان کو اکٹھا کرکے [[دین]] کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: "تم میں سے جو بھی سب سے پہلے میری یہ دعوت قبول کرے وہ میرا خلیفہ، وصی اور وزیر ہوگا"، تو جس نے سب پہلے اٹھ کر [[ایمان]] لانے کا اعلان کیا وہ [[امیرالمؤمنین|علی]]ؑ تھے؛ [[رسول اللہ|پیغمبرؐ]] نے آپؑ کا ایمان قبول کیا اور اپنے دیئے ہوئے وعدوں کی تائید فرمائی۔ اس لحاظ سے [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] سب سے پہلے فرد تھے جنہوں نے [[اسلام]] میں، ایمان قبول کیا اور سب سے پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے لمحہ بھر بھی غیر اللہ کی بندگی نہیں کی۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، صص199-200۔</ref>
 
[[امیرالمؤمنین|علیؑ]] ہر وقت [[رسول اللہ|پیغمبرؐ]] کے ساتھ رہتے تھے یہاں تک کہ آنحضرتؐ نے [[مکہ]] سے [[مدینہ]] [[ہجرت]] فرمائی اور شب [[ہجرت]] بھی ـ جب [[کافر|کفار]] [[مکہ]] نے آپؐ کے گھر کے گرد گھیرا ڈالا تھا اور رات کی تاریکی میں گھر پر ہلہ بول کر آپؐ کو اپنے بستر پر کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ـ [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] آپؐ کے بستر پر لیٹ گئے اور یوں [[رسول اللہ|آنحضرتؐ]] [[مکہ]] روانہ ہوئے؛ اور [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] نے [[ہجرت]] کے بعد ـ آپؐ کی [[وصیت]] کے مطابق لوگوں کو ان کی امانتیں لوٹا دیں، اور پھر [[حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا|اپنی والدہ]]، [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|دختر رسولؐ]] اور دو دیگر خواتین کو لے کر [[مدینہ]] کی طرف روانہ ہوئے۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص200۔</ref>
 
[[امیرالمؤمنین|امام علیؑ]] [[مدینہ]] میں ہمہ وقت [[رسول اللہ|حضرت رسولؐ]] کے ساتھ رہتے تھے اور آپؐ نے کسی بھی خلوت و جلوت میں آپؑ کو اپنے آپ سے دور نہیں کیا اور اپنی واحد مکرمہ و معظمہ بیٹی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا|دختر رسولؐ]] کی شادی آپؑ سے کرائی، اور جس وقت آپؐ اپنے اصحاب کے درمیان اخوت ([[مواخات]]) منعقد کر رہے تھے، [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] کو اپنا بھائی قرار دیا۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، صص200-201۔</ref>
 
[[امیرالمؤمنین|علیؑ]] تمام [[غزوہ|رسول اللہؐ کی تمام جنگوں]] میں شریک ہوئے سوائے [[غزوہ تبوک|جنگ تبوک]] کے، جب [[رسول اللہ|پیغمبر اسلامؐ]] نے آپؑ کو [[مدینہ]] میں اپنا جانشین بنایا۔ آپؑ نے کسی جنگ میں قدم پیچھے نہیں ہٹایا، کبھی بھی آپؐ کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کی حتی کہ آپؐ نے فرمایا: "[[امیرالمؤمنین|علی]] ہرگز حق سے اور حق ہرگز علی سے، جدا نہیں ہوتا"۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص201۔</ref>
 
====پیغمبرؐ کے بعد====
{{ائمۂ معصومین اور خلفاء}}
[[رسول اکرمؐ]] کے وصال کے دن [[علیؑ]] کی عمر 33 سال تھی اور باوجود اس کے، کہ تمام دینی فضائل میں سرآمد روزگار اور تمام [[صحابہ|اصحاب]] [[رسول اللہ|رسول]]ؐ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے، صرف اس بہانے کہ آپ ابھی نوجوان ہیں اور لوگ [[رسول اللہ|پیغمبر]]ؐ کی جنگوں میں آپؑ کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کی وجہ سے آپؑ کے دشمن ہیں!، آپؑ کو [[خلافت]] سے دور رکھا گیا اور اس طرح عمومی مسائل و معاملات سے مکمل طور پر الگ تھلگ ہوگئے؛ چنانچہ آپؑ نے گھر کے گوشے میں بیٹھ کر افراد کی تربیت کا اہتمام کیا، [[رسول اللہؐ]] کے بعد [[خلفائے ثلاثہ]] کی 25 سالہ حکومت کا عرصہ خانہ نشینی میں بسر کیا یہاں تک کہ [[عثمان بن عفان|خلیفۂ ثالث]] کے قتل کے بعد لوگوں نے آپؑ کے ہاتھ پر [[بیعت]] کی اور آپؑ کو خلیفہ کے طور پر منتخب کیا۔<ref>طباطبائی، شیعہ در اسلام، ص201۔</ref>
 
[[امیرالمؤمنین]]ؑ نے 4 سال 9 مہینے حکومت کی؛ سیرت [[رسول اللہ|نبوی]] پر کاربند رہے، اپنی [[خلافت]] کو انقلاب کی صورت دی اور مختلف شعبوں میں اصلاحات کے لئے اقدامات کئے۔ آپؑ کی یہ اصلاحات بعض منافع خوروں کے نقصان پر منتج ہو رہی تھیں چنانچہ بعض [[صحابہ]] ـ جن میں [[عائشہ بنت ابی بکر|ام المؤمنین عائشہ]]، [[طلحہ بن عبیداللہ|طلحہ]] اور [[زبیر بن عوام|زبیر]] پیش پیش تھے ـ نے خلیفہ ثالث کے خون کو دستاویز بنا کر مخالفت کا آغاز کیا اور بغاوت اور بلؤوں کا آغاز کیا۔ [[امیرالمؤمنین]]ؑ نے [[بصرہ]] کے قریب ایک مقام پر [[عائشہ بنت ابی بکر|عائشہ]]، [[طلحہ بن عبیداللہ|طلحہ]] اور [[زبیر بن عوام|زبیر]] کے خلاف ایک جنگ لڑی جو [[جنگ جمل]] کے عنوان سے مشہور ہوئی اور ایک جنگ [[عراق]] اور [[شام]] کی سرحد پر [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] کے خلاف لڑی جو [[جنگ صفین]] کے عنوان سے مشہور ہوئی۔ یہ جنگ ڈیڑھ سال تک جاری رہی اور تیسری جنگ [[نہروان]] کے مقام پر [[خوارج]] کے خلاف لڑی جو [[جنگ نہروان]] کے نام سے مشہور ہوئی۔ اور یوں [[خلافت]] کے ان ایام میں آپؐ کے مساعی اور اندرونی اختلافات کے خاتمے میں صرف ہوئیں؛ اور مختصر سے عرصے کے بعد 19 [[رمضان المبارک|ماہ رمضان]] [[سنہ 40 ہجری]] کی صبح کو [[مسجد کوفہ]] میں اور حالت نماز میں بعض [[خوارج|خارجیوں]] کے ہاتھوں زخمی ہوئے اور دو روز بعد 21 [[رمضان المبارک|رمضان]] کو شہید ہوئے۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص201-202۔</ref>
 
====خصوصیات====
تاریخ کی گواہی اور دوستوں کی تصدیق اور دشمنوں کے اعتراف کے مطابق [[امیرالمؤمنین]]ؑ انسانی کمالات کے حوالے سے بےنقص تھے اور اسلامی فضائل میں [[رسول اللہ|پیغمبر اکرم]]ؐ کی تربیت کا نمونۂ اتمّ تھے۔ جو مباحث آپؑ کی شخصیت کے حوالے سے ہوئے ہیں اور جو کتابیں [[شیعہ]]، [[سنی]] اور دیگر متجسس اور آگاہ قلمکاروں کے توسط سے اس موضوع پر لکھی گئی ہیں، تاریخ کی کسی بھی شخصیت کے بارے میں نہیں لکھی گئیں۔<ref>طباطبائی، شیعه در اسلام، ص202۔</ref>
 
'''علم و دانش''':
 
[[امیرالمؤمنین]]ؑ '''علم و دانش''' کے لحاظ سے [[رسول اللہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے [[صحابہ]] اور تمام اہل اسلام کے درمیان اپنی مثال آپ تھے اور [[اسلام]] کی پہلی شخصیت تھے جنہوں نے علمی بیانات میں استدلال اور برہان کے دروازے کھول دیئے اور معارف الہیہ میں فلسفیانہ روش سے بحث کی اور باطن [[قرآن]] کے بارے میں اظہار خیال کیا اور اپنے لفظ کے تحفظ کے لئے عربی کے قواعد وضع کئے اور خطابت میں قوی ترین عرب تھے۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، صص202-203۔</ref> (دیکھیں: '''[[نہج البلاغہ]]''')
 
''' شجاعت اور جسمانی طاقت''':
 
[[امیرالمؤمنین|علیؑ]] '''شجاعت''' میں ضرب المثل تھے اور تمام جنگوں میں ـ جن میں آپؑ نے ـ خواہ [[رسول اللہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے زمانے میں، خواہ آپؐ کے بعد ـ شرکت کی ـ کبھی خوف و دہشت کا شکار نہیں ہوئے۔ اور اس کے باوجود کہ مختلف واقعات و حوادث میں ـ منجملہ [[غزوہ احد|جنگ احد]]، [[غزوہ حنین|جنگ حنین]]، [[غزوہ خندق|جنگ خندق]] اور [[غزوہ خیبر|جنگ خیبر]]، [[صحابہ|اصحاب رسولؐ]] اور اسلام پر کپکپیاں طاری ہوئیں، یا منتشر ہوکر فرار ہوئے ـ کبھی بھی دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائی اور تاریخ ایسی کوئی مثال لانے سے عاجز ہے کہ طاقتور پہلوان اور جنگجو افراد آپؑ کے سامنے آئے ہوں اور پھر زندہ بچ نکلے ہوں؛ اور اسی حال میں آپؑ طاقت اور شجاعت کی انتہاؤں پر ہوتے ہوئے بھی کسی کمزور شخص کو ہلاک نہیں کرتے تھے اور بھاگنے والے کا تعاقب نہیں کرتے تھے، کسی پر شبخون نہیں مارتے تھے اور دشمن پر پانی بند نہیں کرتے تھے۔ یہ تاریخ اسلام کے مسلّمات میں سے ہے کہ [[غزوہ خیبر|جنگ خیبر]] میں آپؑ نے اپنا ہاتھ قلعۂ خیبر کے دروازے کے حلقے تک پہنچایا اور ایک جھٹکے سے دروازے کو اکھاڑ کر پھینک دیا۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص203۔</ref> نیز [[فتح مکہ]] کے دن [[رسول اللہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے بتوں کے توڑ دینے کا حکم دیا۔ بت ہُبَل [[مکہ]] کا سب سے بڑا بت اور عظیم الجثہ سنگی مجسمہ تھا ـ جو [[کعبہ]] کے اوپر نصب کیا گیا تھا۔ [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] نے [[رسول اللہ|پیغمبر اکرمؐ]] کے حکم پر اپنے قدم آپؐ کے دوش پر رکھے اور [[کعبہ]] کے اوپر پہنچ گئے، بت ہُبَل کو اکھاڑا اور نیچے گرا دیا۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص203-204۔</ref>
 
'''تقوٰی اور عبادت''':
 
[[امیرالمؤمنین]]ؑ '''تقوٰی اور عبادت''' الہی میں بھی یگانۂ روزگار تھے۔ کچھ لوگ [[رسول اللہ]]ؐ کی خدمت میں آئے اور [[امیرالمؤمنین]]ؑ کی تلخیِ طبیعت کا شکوہ کیا تو آپؐ نے فرمایا: "[[امیرالمؤمنین|علی]] پر ملامت نہ کرو، وہ اللہ کے عاشق و شیدائی ہیں"۔ [[صحابہ|صحابی رسولؐ]] [[ابو دردا]] نے [[مدینہ]] کے نخلستان میں دیکھا کہ [[امیرالمؤمنین|علیؑ]] خشکیدہ لکڑی کی مانند زمین پر گرے پڑے ہیں، اطلاع دینے کے لئے آپؑ کے گھر آیا اور آپؑ کی زوجہ مکرمہ کو ـ دختر [[رسول اللہ|رسولؐ]] کو تعزیت پیش کی تو [[حضرت فاطمہ|آپ(س)]] نے فرمایا: "میرے عموزادہ نہیں مرے بلکہ عبادت کی حالت میں خوف خدا کی وجہ سے غش کرگئے ہیں اور یہ کیفیت آپؑ پر بارہا طاری ہوتی ہے"۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص204۔</ref>
 
'''رأفت و شفقت''':
 
[[امیرالمؤمنین]]ؑ ماتحتوں پر '''رأفت و شفقت'''، بےنواؤں اور مسکینوں کے ساتھ ہمدردی اور غرباء اور محتاجوں کی نسبت کرم و سخا کے لحاظ سے بھی منفرد تھے اور ان حوالوں سے متعدد روایتیں اور حکایتیں [مآخذ میں] میں منقول ہیں۔ آپؐ جو کچھ بھی حاصل کرتے تھے راہ خدا میں محتاجوں اور مساکین و غرباء میں تقسیم کرتے تھے اور خود بہت سختی اور سادگی میں زندگی بسر کرتے تھے۔ آپؑ زراعت کو بہت پسند کرتے تھے اور عام طور پر کاریزیں کھودتے تھے، شجرکاری اور بنجر زمینوں کی آبادی میں مصروف رہتے تھے، لیکن جو کاریز آپؑ آپ کھود کر انجام کو پہنچاتے تھے یا جو زمین آباد کرتے تھے، غرباء کی مدد کے لئے وقف کردیا کرتے تھے اور آپؑ کے اوقاف ـ جو "صدقۂ علی" کے عنوان سے مشہور تھے ـ سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدنی آپؐ کے دور خلافت کے آخری دنوں میں بہت قابل توجہ مبلغ (یعنی 24000 طلائی دینار) تک پہنچ گئی تھی۔<ref>طباطبائی، وہی ماخذ، ص204-205۔</ref>


===دوسرے امام===
===دوسرے امام===
confirmed، templateeditor
9,028

ترامیم