مندرجات کا رخ کریں

"حضرت عباس علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 59: سطر 59:
===ولادت===
===ولادت===
حضرت عباس کی ولادت کے سال کے بارے میں اختلاف ہے۔ <ref>الاوردبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۱. محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱.</ref> یہ اختلافات امام علیؑ کی [[شہادت]] کے وقت عباسؑ کی عمر کے بارے میں موجود اختلافات کی بنا پر ہیں۔ بعض نے 16 سے 18 سال تک کی عمر کا کہا ہے۔<ref>محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱ و ۵۰.</ref> جبکہ دوسرے بعض نے اس وقت آپ کی عمر کو 14 سال اور [[بلوغ|نابالغی]] کا دور قرار دیا ہے۔<ref>الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۲؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق، ص۲۴۲</ref>
حضرت عباس کی ولادت کے سال کے بارے میں اختلاف ہے۔ <ref>الاوردبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۱. محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱.</ref> یہ اختلافات امام علیؑ کی [[شہادت]] کے وقت عباسؑ کی عمر کے بارے میں موجود اختلافات کی بنا پر ہیں۔ بعض نے 16 سے 18 سال تک کی عمر کا کہا ہے۔<ref>محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱ و ۵۰.</ref> جبکہ دوسرے بعض نے اس وقت آپ کی عمر کو 14 سال اور [[بلوغ|نابالغی]] کا دور قرار دیا ہے۔<ref>الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۲؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق، ص۲۴۲</ref>
مشہور قول کے مطابق آپ  [[سنہ ۲۶ ہجری قمری|۲۶ھ]] کو [[مدینہ]]  میں پیدا ہوئے۔ .<ref>زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۸۹-۹۰؛ ابن نما حلی، مثیر الاحزان، ۱۳۸۰ش، ص۲۵۴؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹.</ref>   اردوبادی کے کہنے کے مطابق قدیمی منابع میں آپ کی ولادت کے مہینے اور دن کے بارے میں بھی کچھ نہیں ملتا ہے اور صرف تیرہویں صدی ہجری میں لکھی گئی  انیس الشیعہ نامی کتاب میں اپ کی تولد کو [[۴ شعبان]]  قرار دیا ہے۔.<ref>الاوردبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۴</ref>  [[روایات]] کے مطابق، جب آپ پیدا ہوئے تو [[امام علیؑ]] نے اپنی گود میں لیا اور اسے عباس نام دیا اور ان کے کانوں میں [[اذان]] اور [[اقامت]] پڑھی پھر اس کے بازوؤں کا بوسہ لیا اور رونے لگا تو اما البنین نے رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا تمہارے بیٹے کے دونوں بازو [[حسینؑ]] کی مدد میں تن سے جدا ہونگے اور [[اللہ تعالی]] ان کے کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلے اسے [[آخرت]] میں دو پر عطا کرے گا۔.<ref>کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۴۰۸ق، ص۱۱۹-۱۲۰.</ref> عباس کے دونوں بازوؤں کے کاٹنے پر گریہ کرنے کا ذکر دوسری بعض روایات میں بھی ذکر ہوا ہے۔ <ref>دیکھیں: ناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ق، ص۶۱-۶۲؛ خصائص العباسیہ، ص۱۱۹-۱۲۰؛ خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۷۸ش، ص۱۴۰.</ref>
مشہور قول کے مطابق آپ  [[سنہ ۲۶ ہجری قمری|۲۶ھ]] کو [[مدینہ]]  میں پیدا ہوئے۔ .<ref>زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۸۹-۹۰؛ ابن نما حلی، مثیر الاحزان، ۱۳۸۰ش، ص۲۵۴؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹.</ref> اردوبادی کے کہنے کے مطابق قدیمی منابع میں آپ کی ولادت کے مہینے اور دن کے بارے میں بھی کچھ نہیں ملتا ہے اور صرف تیرہویں صدی ہجری میں لکھی گئی  انیس الشیعہ نامی کتاب میں اپ کی تولد کو [[4 شعبان]]  قرار دیا ہے۔.<ref>الاوردبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۴</ref>  [[روایات]] کے مطابق، جب آپ پیدا ہوئے تو [[امام علیؑ]] نے اپنی گود میں لیا اور اسے عباس نام دیا اور ان کے کانوں میں [[اذان]] اور [[اقامت]] پڑھی پھر اس کے بازوؤں کا بوسہ لیا اور رونے لگا تو اما البنین نے رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا تمہارے بیٹے کے دونوں بازو [[حسینؑ]] کی مدد میں تن سے جدا ہونگے اور [[اللہ تعالی]] ان کے کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلے اسے [[آخرت]] میں دو پر عطا کرے گا۔.<ref>کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۴۰۸ق، ص۱۱۹-۱۲۰.</ref> عباس کے دونوں بازوؤں کے کاٹنے پر گریہ کرنے کا ذکر دوسری بعض روایات میں بھی ذکر ہوا ہے۔ <ref>دیکھیں: ناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ق، ص۶۱-۶۲؛ خصائص العباسیہ، ص۱۱۹-۱۲۰؛ خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۷۸ش، ص۱۴۰.</ref>


=== ازواج اور اولاد ===
=== ازواج اور اولاد ===
عباسؑ [[لبابہ]] بنت [[عبید اللہ بن عباس]] بن [[عبدالمطلب]] کے ساتھ 40 سے 45 ہجری قمری کے درمیان رشتۂ [[ازدواج]] میں منسلک ہوئے<ref>الزبیری، نسب قریش، ۱۹۵۳م، ج۱، ص۷۹؛ زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۹۸. </ref>  جس کا ثمرہ دو بیٹے "[[فضل بن عباس بن علی|فضل]] اور [[عبید اللہ بن عباس بن علی|عبید اللہ]]" تھے۔<ref>الحائری الشیرازی، ذخیرۃ الدارین، ۱۳۴۵ق، ج۱، ص۱۴۵</ref> فرزندش عبیداللہ با دختر امام سجاد ازدواج کرد.<ref> آپ کے بیٹے عبیداللہ نے [[امام سجاد]] کی بیٹی سے شادی کی۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق،  ج۳، ص۴۲۹.</ref> بعض مولفین نے حسن، قاسم، محمد نام کے بیٹے اور ایک بیٹی کا نام ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ قاسم اور محمد روز [[عاشورا]] اپنے والد کی شہادت کے بعد وہ بھی [[شہید]] ہوئے ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۲۳</ref>  
عباسؑ [[لبابہ]] بنت [[عبید اللہ بن عباس]] بن [[عبدالمطلب]] کے ساتھ 40 سے 45 ہجری قمری کے درمیان رشتۂ [[ازدواج]] میں منسلک ہوئے<ref>الزبیری، نسب قریش، ۱۹۵۳م، ج۱، ص۷۹؛ زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۹۸. </ref>  جس کا ثمرہ دو بیٹے "[[فضل بن عباس بن علی|فضل]] اور [[عبید اللہ بن عباس بن علی|عبید اللہ]]" تھے۔<ref>الحائری الشیرازی، ذخیرۃ الدارین، ۱۳۴۵ق، ج۱، ص۱۴۵</ref> فرزندش عبیداللہ با دختر امام سجاد ازدواج کرد.<ref> آپ کے بیٹے عبیداللہ نے [[امام سجاد]] کی بیٹی سے شادی کی۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق،  ج۳، ص۴۲۹.</ref> بعض مولفین نے حسن، قاسم، محمد نام کے بیٹے اور ایک بیٹی کا نام ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ قاسم اور محمد روز [[عاشورا]] اپنے والد کی شہادت کے بعد وہ بھی [[شہید]] ہوئے ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۲۳</ref>  
بہر صورت حضرت عباسؑ کی نسل '''عبید اللہ''' اور اس کے بیٹے حسن سے چلی۔ حضرت عباس کے بیٹے مشہور علویوں میں سے تھے اور ان میں سے بہت سارے عالم، شاعر، قاضی اور حاکم تھے۔ .<ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۱۸؛ محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۸۹.</ref>  مثلا حسن کا ایک بیٹا عبیداللہ اور اس کا بیٹآ عبداللہ مدینہ اور مکہ میں قاضی تھے۔ <ref>ہادی‌منش، «فرزندان و نوادگان حضرت عباس»</ref> حضرت عباس کی نسل افریقہ اور ایران تک پھیل گئی ہے۔<ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۱۸</ref> بعض نے پھیلنے کی وجہ کو ظالم حکومتوں کی وجہ سے حضرت عباس کی نسل کا مہاجرت کرنا بتایا ہے۔<ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۲۶</ref>
بہر صورت حضرت عباسؑ کی نسل '''عبید اللہ''' اور اس کے بیٹے حسن سے چلی۔ حضرت عباس کے بیٹے مشہور علویوں میں سے تھے اور ان میں سے بہت سارے عالم، شاعر، قاضی اور حاکم تھے۔ .<ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۱۸؛ محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۸۹.</ref>  مثلا حسن کا ایک بیٹا عبیداللہ اور اس کا بیٹآ عبداللہ مدینہ اور مکہ میں قاضی تھے۔<ref>ہادی‌منش، «فرزندان و نوادگان حضرت عباس»</ref> حضرت عباس کی نسل [[افریقہ]] اور [[ایران]] تک پھیل گئی ہے۔<ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۱۸</ref> بعض کا کہنا ہے کہ ظالم حکومتوں کی وجہ سے حضرت عباس کی نسل کا مہاجرت کرنے کو یہ نسل پھیلنے کی وجہ بتایا ہے۔<ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۲۶</ref>


===جنگ صفین ===
===جنگ صفین ===
بعض کتابوں کے مطابق [[جنگ صفین|صفین]] میں حضرت عباس ان افراد میں سے تھے جنہوں نے [[مالک اشتر]] کی سپہ سالاری میں [[فرات]] پر حملہ کیا اور امام علیؑ کی فوج کو پانی لے آیا۔<ref>حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۴۳۷؛ الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref>جنگ صفین میں [[شام]] کے ابن شعثاء اور اس کے سات بیٹوں کا حضرت عباس کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر بھی ہوا ہے۔ <ref>الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref>  شام کے لوگ ابن شعثاء کو ہزار آدمی کے برابر سمجھتے تھے۔ <ref>الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref> آپ کی جنگ صفین کے بعد سے واقعہ کربلا تک کے درمیانی عرصے کی زندگی کے بارے میں تاریخی منابع میں کچھ ذکر نہیں ہوا ہے۔
بعض کتابوں کے مطابق [[جنگ صفین|صفین]] میں حضرت عباس ان افراد میں سے تھے جنہوں نے [[مالک اشتر]] کی سپہ سالاری میں [[فرات]] پر حملہ کیا اور امام علیؑ کی فوج کو پانی لے آیا۔<ref>حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۴۳۷؛ الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref>جنگ صفین میں [[شام]] کے ابن شعثاء اور اس کے سات بیٹوں کا حضرت عباس کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر بھی ہوا ہے۔ <ref>الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref>  شام کے لوگ ابن شعثاء کو ہزار آدمی کے برابر سمجھتے تھے۔ <ref>الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref> آپ کی جنگ صفین کے بعد سے [[واقعہ کربلا]] تک کے درمیانی عرصے کی زندگی کے بارے میں تاریخی منابع میں کچھ ذکر نہیں ہوا ہے۔


اردوبادی کہتا ہے کہ حضرت علیؑ کی [[امام حسین]] کے بارے میں کی جانے والی وصیت کے بارے میں سنا تو بہت ہے لیکن ابھی تک اس کے لیے کوئی مستند نہیں ملی ہے۔ <ref>اوردبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ص۵۵</ref>
اردوبادی کہتا ہے کہ حضرت علیؑ کی [[امام حسین]] کے بارے میں کی جانے والی وصیت کے بارے میں سنا تو بہت ہے لیکن ابھی تک اس کے لیے کوئی مستند نہیں ملی ہے۔ <ref>اوردبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ص۵۵</ref>
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم