مندرجات کا رخ کریں

"حضرت عباس علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{نستعلیق متن}}
{{نستعلیق متن}}
{{خانۂ معلومات امام زاده
{{خانۂ معلومات امام زادہ
| تصویر = حرم حضرت عباس.jpg
| تصویر = حرم حضرت عباس.jpg
| نام = عباس بن علی بن ابی طالبؑ
| نام = عباس بن علی بن ابی طالبؑ
سطر 24: سطر 24:


==  تحقیقی مآخذوں کا فقدان ==
==  تحقیقی مآخذوں کا فقدان ==
بعض محققین کا کہنا ہے کہ عباسؑ کی [[واقعہ کربلا]] سے پہلے کی زندگی کے بارے میں تاریخ میں کوئی خاص تذکرہ نہیں ملتا اسی وجہ سے ان کی زندگی اور ولادت کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ محمودی، ماه بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۸.</ref> آپ کے بارے میں لکھی جانے والی اکثر کتابیں 14 اور 15 صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں [[عبدالواحد مظفر]] [[موسوعة بطل العلقمی (کتاب)|بطل العلقمی]] کے مصنف 1310ھ میں وفات پائی، قمر بنی ہاشم العباس کے مصنف [[سید عبدالرزاق موسوی مقرم|موسوی مُقَرَّم]] 1391ھ میں وفات پائی، حیاة ابی‌الفضل العباس کے مصنف 1380ش میں وفات پائی اور [[چہره درخشان قمر بنی‌ ہاشم ابوالفضل العباس (کتاب)|چہره درخشان قمر بنی‌ ہاشم]] کے مصنف [[علی ربانی خلخالی|ربانی خلخالی]] 1379ش میں وفات پائی۔ اور حضرت عباس کے بارے میں سب سے زیادہ اطلاعات ان ہی کتابوں میں جمع کی گئی ہیں۔
بعض محققین کا کہنا ہے کہ عباسؑ کی [[واقعہ کربلا]] سے پہلے کی زندگی کے بارے میں تاریخ میں کوئی خاص تذکرہ نہیں ہملتا اسی وجہ سے ان کی زندگی اور ولادت کے بارے میں بہت اختلاف ہے۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۸.</ref> آپ کے بارے میں لکھی جانے والی اکثر کتابیں 14 اور 15 صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں [[عبدالواحد مظفر]] [[موسوعۃ بطل العلقمی (کتاب)|بطل العلقمی]] کے مصنف 1310ھ میں وفات پائی، قمر بنی ہاشم العباس کے مصنف [[سید عبدالرزاق موسوی مقرم|موسوی مُقَرَّم]] 1391ھ میں وفات پائی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس کے مصنف 1380ش میں وفات پائی اور [[چہرہ درخشان قمر بنی‌ ہاشم ابوالفضل العباس (کتاب)|چہرہ درخشان قمر بنی‌ ہاشم]] کے مصنف [[علی ربانی خلخالی|ربانی خلخالی]] 1379ش میں وفات پائی۔ اور حضرت عباس کے بارے میں سب سے زیادہ اطلاعات ان ہی کتابوں میں جمع کی گئی ہیں۔


==نام و نسب ==
==نام و نسب ==
عباس بن علی بن ابی‌طالب کی سب سے مشہور کنیت ابوالفضل ہے۔ آپ امام علیؑ کے پانچویں بیٹے اور ام البنین (فاطمہ بنت حزام) کے ساتھ شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔<ref>امین، اعیان الشیعه، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹؛ قمی، نفس المهموم، ۱۳۷۶ش، ص۲۸۵.</ref>   
عباس بن علی بن ابی‌طالب کی سب سے مشہور کنیت ابوالفضل ہے۔ آپ امام علیؑ کے پانچویں بیٹے اور ام البنین (فاطمہ بنت حزام) کے ساتھ شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔<ref>امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹؛ قمی، نفس المہموم، ۱۳۷۶ش، ص۲۸۵.</ref>   
===والدہ===
===والدہ===
[[فائل:نیاکان مادری حضرت عباس(ع).jpeg|left|تصغیر|350px|حضرت عباس کے ننھیال کا شجرہ نسب<ref> خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۵.</ref>.]]
[[فائل:نیاکان مادری حضرت عباس(ع).jpeg|left|تصغیر|350px|حضرت عباس کے ننھیال کا شجرہ نسب<ref> خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۵.</ref>.]]
امام علیؑ نے اپنے بھائی [[عقیل بن ابی‌طالب|عقیل]] سے درخواست کی تھی کہ انہیں ایسی ہمسر کی تلاش کریں جس سے بہادر اور دلیر بیٹے پیدا ہوجائیں تو عقیل جو کہ نسب شناس تھے، نے عباس کی ماں فاطمہ بنت حزام کو آپ کے لئے معرفی کیا تھا<ref>ابن عنبه، عمدة الطالب، ۱۳۸۱ق، ص۳۵۷؛ المظفر، موسوعة بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۱۰۵.</ref>منقول ہے کہ شب [[عاشورا]] جب [[زہیر بن قین]] کو پتہ چلا کہ [[شمر]] نے عباسؑ کو امان نامہ بھیجا ہے تو کہا: اے فرزند [[امام علی علیه السلام|امیرالمومنین]]، جب تمہارے والد نے شادی کرنا چاہا تو تمہارے چچا عقیل سے کہا کہ ان کے لئے ایسی خاتون تلاش کریں جس کے حسب و نسب میں شجاعت و بہادری ہو تاکہ ان سے دلیر اور بہادر پیدا ہوں، ایسا بیٹا جو [[کربلا]] میں [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کا مددگار بنے۔<ref> الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليه السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۷۷؛الاوردبادی، موسوعة العلامه الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۶.</ref> اردوبادی کہتا ہے کہ زہیر اور عباس کی گفتگو کو[[اسرار الشہادۃ (کتاب)|اسرار الشہادۃ]] نامی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا۔<ref> الاوردبادی، موسوعة العلامه الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳.</ref>
امام علیؑ نے اپنے بھائی [[عقیل بن ابی‌طالب|عقیل]] سے درخواست کی تھی کہ انہیں ایسی ہمسر کی تلاش کریں جس سے بہادر اور دلیر بیٹے پیدا ہوجائیں تو عقیل جو کہ نسب شناس تھے، نے عباس کی ماں فاطمہ بنت حزام کو آپ کے لئے معرفی کیا تھا<ref>ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ۱۳۸۱ق، ص۳۵۷؛ المظفر، موسوعۃ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۱۰۵.</ref>منقول ہے کہ شب [[عاشورا]] جب [[زہیر بن قین]] کو پتہ چلا کہ [[شمر]] نے عباسؑ کو امان نامہ بھیجا ہے تو کہا: اے فرزند [[امام علی علیہ السلام|امیرالمومنین]]، جب تمہارے والد نے شادی کرنا چاہا تو تمہارے چچا عقیل سے کہا کہ ان کے لئے ایسی خاتون تلاش کریں جس کے حسب و نسب میں شجاعت و بہادری ہو تاکہ ان سے دلیر اور بہادر پیدا ہوں، ایسا بیٹا جو [[کربلا]] میں [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کا مددگار بنے۔<ref> الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۷۷؛الاوردبادی، موسوعۃ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۶.</ref> اردوبادی کہتا ہے کہ زہیر اور عباس کی گفتگو کو[[اسرار الشہادۃ (کتاب)|اسرار الشہادۃ]] نامی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا۔<ref> الاوردبادی، موسوعۃ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳.</ref>


===کنیت===
===کنیت===


*«ابوالفضل» حضرت عباسؑ کی مشہور ترین کنیت ہے۔<ref>المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲؛ ابن نما حلی، مثیر الاحزان، ۱۳۸۰ش، ص۲۵۴؛ ابوالفرج الاصفهانی، مقاتل الطالبین، ۱۴۰۸ق، ص۸۹.</ref>بعض نے کہا ہے کہ [[بنی‌ہاشم|بنی ہاشم]] کی خاندان میں جس کا بھی نام عباس ہوتا تھا اسے ابوالفضل کہا جاتا تھا اسی لیے عباسؑ کو بچپنے میں بھی ابوالفضل کہا جاتا تھا۔<ref>المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲. </ref>  کہا جاتا ہے کہ حضرت عباسؑ کے فضائل کی کثرت کی وجہ سے انہیں اس کنیت سے جانا جاتا تھا۔<ref> عمدۃ الطالب، ص‏280 </ref> اسی کنیت ہی کے ناطے آپ کو '''ابو فاضل''' اور '''ابو فضائل''' بھی کہا جاتا ہے۔
*«ابوالفضل» حضرت عباسؑ کی مشہور ترین کنیت ہے۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲؛ ابن نما حلی، مثیر الاحزان، ۱۳۸۰ش، ص۲۵۴؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبین، ۱۴۰۸ق، ص۸۹.</ref>بعض نے کہا ہے کہ [[بنی‌ہاشم|بنی ہاشم]] کی خاندان میں جس کا بھی نام عباس ہوتا تھا اسے ابوالفضل کہا جاتا تھا اسی لیے عباسؑ کو بچپنے میں بھی ابوالفضل کہا جاتا تھا۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲. </ref>  کہا جاتا ہے کہ حضرت عباسؑ کے فضائل کی کثرت کی وجہ سے انہیں اس کنیت سے جانا جاتا تھا۔<ref> عمدۃ الطالب، ص‏280 </ref> اسی کنیت ہی کے ناطے آپ کو '''ابو فاضل''' اور '''ابو فضائل''' بھی کہا جاتا ہے۔
*«ابوالقاسم»: آپ کے ایک بیٹے کا نام قاسم تھا اور اسی وجہ سے آپ کو ابوالقاسم کہا گیا آپ کی یہ کنیت [[زیارت اربعین]] میں بھی ذکر ہوئی ہے۔<ref>بهشتی، قهرمان علقمه، ۱۳۷۴ش، ص۴۳؛ المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲.</ref> جہاں [[جابر بن عبداللہ انصاری|جابر انصاری]] آپ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
*«ابوالقاسم»: آپ کے ایک بیٹے کا نام قاسم تھا اور اسی وجہ سے آپ کو ابوالقاسم کہا گیا آپ کی یہ کنیت [[زیارت اربعین]] میں بھی ذکر ہوئی ہے۔<ref>بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۴۳؛ المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲.</ref> جہاں [[جابر بن عبداللہ انصاری|جابر انصاری]] آپ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
: <font color = green>{{حدیث|'''"اَلسَّلامُ عَلَيْكَ  يا أبَا الْقاسِمِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ  يا عَبّاس بنَ عَلِيٍ"۔'''}}</font color = green> (ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے قاسم کے باپ سلام ہو آپ پر اے عباس فرزند [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]]۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، ج 101، ص 330 </ref>
: <font color = green>{{حدیث|'''"اَلسَّلامُ عَلَيْكَ  يا أبَا الْقاسِمِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ  يا عَبّاس بنَ عَلِيٍ"۔'''}}</font color = green> (ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے قاسم کے باپ سلام ہو آپ پر اے عباس فرزند [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]]۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، ج 101، ص 330 </ref>
*{{حدیث|ابوالقِربَة}} قربہ کا معنا پانی کی مشک ہے۔<ref>دہخدا، لغت‌نامہ دہخدا، ۱۳۷۷ش، ج ۱۱، ص۱۷۴۹۷.</ref>. بعض معتقد ہیں کہ  [[واقعہ کربلا]] میں چند مرتبہ پانی لانے کی وجہ سے آپکو اس کنیت سے پکارا جاتا ہے۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۴ق، ج۲، ص۱۹۱؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الهدی، ۱۳۹۰ق، ص۲۰۳؛ ابوالفرج الاصفهانی، مقاتل الطالبین، ۱۳۵۸ق، ص۵۵؛بهشتی، قهرمان علقمه، ۱۳۷۴ش، ص۴۳</ref>
*{{حدیث|ابوالقِربَۃ}} قربہ کا معنا پانی کی مشک ہے۔<ref>دہخدا، لغت‌نامہ دہخدا، ۱۳۷۷ش، ج ۱۱، ص۱۷۴۹۷.</ref>. بعض معتقد ہیں کہ  [[واقعہ کربلا]] میں چند مرتبہ پانی لانے کی وجہ سے آپکو اس کنیت سے پکارا جاتا ہے۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۴ق، ج۲، ص۱۹۱؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ۱۳۹۰ق، ص۲۰۳؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبین، ۱۳۵۸ق، ص۵۵؛بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۴۳</ref>
*{{حدیث|ابوالفَرجَة}} فرجہ، غم دور کرنے  اور راہ حل دینے کے معنی میں ہے۔<ref>دهخدا، لغت‌نامه دهخدا، ۱۳۷۷ش، ج ۱۱، ص۱۷۰۳۷.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ یہ لفظ کنیت کی شکل میں ایک لقب ہے کیونکہ آپکا «فرجہ» نامی کوئی بیٹا نہیں تھا اور اس کنیت کی وجہ یہ ہے کہ عباسؑ ہر اس شخص کے کام کو حل کرتے ہیں جو ان سے متوسل ہوتے ہیں۔<ref>المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲.</ref>
*{{حدیث|ابوالفَرجَة}} فرجہ، غم دور کرنے  اور راہ حل دینے کے معنی میں ہے۔<ref>دہخدا، لغت‌نامہ دہخدا، ۱۳۷۷ش، ج ۱۱، ص۱۷۰۳۷.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ یہ لفظ کنیت کی شکل میں ایک لقب ہے کیونکہ آپکا «فرجہ» نامی کوئی بیٹا نہیں تھا اور اس کنیت کی وجہ یہ ہے کہ عباسؑ ہر اس شخص کے کام کو حل کرتے ہیں جو ان سے متوسل ہوتے ہیں۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲.</ref>


===القاب===
===القاب===
عباسؑ کے لیے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں ان میں سے بعض پرانے ہیں اور بعض جدید ہیں جنہیں لوگوں نے آپ کی صفات اور فضیلتوں کی بنیاد پر آپ سے منسوب کیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۴- ۲۰؛ بهشتی، قهرمان علقمه، ۱۳۷۴ش، ص۴۵-۵۰؛ هادی منش، «کنیه‌ها و لقب‌‌های حضرت عباس(ع)»، ص۱۰۶.</ref>آپ کے بعض القاب مندرجہ ذیل ہیں:
عباسؑ کے لیے متعدد القاب ذکر ہوئے ہیں ان میں سے بعض پرانے ہیں اور بعض جدید ہیں جنہیں لوگوں نے آپ کی صفات اور فضیلتوں کی بنیاد پر آپ سے منسوب کیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۴- ۲۰؛ بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۴۵-۵۰؛ ہادی منش، «کنیہ‌ہا و لقب‌‌ہای حضرت عباس(ع)»، ص۱۰۶.</ref>آپ کے بعض القاب مندرجہ ذیل ہیں:
* '''قمر بنی‏ ہاشم''' <ref>ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص90/ابن نما حلی، مثیر الاحزان، ص254۔</ref> حضرت عباسؑ نہایت نورانی چہرہ کے مالک تھے جو آپ کے کمال و جمال کی نشانیوں میں شمار ہوتا تھا اسی بنا پر آپ کو قمر بن ہاشم کا لقب دیا گیا تھا۔<ref>باقرشریف قرشى، زندگانى حضرت ابوالفضل العباس  علیہ السلام، فارسی ترجمہ از سید حسن اسلامی۔</ref>
* '''قمر بنی‏ ہاشم''' <ref>ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص90/ابن نما حلی، مثیر الاحزان، ص254۔</ref> حضرت عباسؑ نہایت نورانی چہرہ کے مالک تھے جو آپ کے کمال و جمال کی نشانیوں میں شمار ہوتا تھا اسی بنا پر آپ کو قمر بن ہاشم کا لقب دیا گیا تھا۔<ref>باقرشریف قرشى، زندگانى حضرت ابوالفضل العباس  علیہ السلام، فارسی ترجمہ از سید حسن اسلامی۔</ref>
* '''باب الحوائج''' <ref> العباس بن ‏علیؑ، ص 30 </ref> حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ایک '''باب الحوائج''' ہے اور آپ کا یہ لقب آشناترین اور مشہورترین القاب میں سے ہے۔ بہت سارے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ کہ اگر حضرت عباس سے متوسل ہوجائیں تو ان کی حاجت پوری ہوتی ہے۔<ref>بهشتی، قهرمان علقمه، ۱۳۷۴ش، ص۴۸؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۳۶-۳۷.</ref>
* '''باب الحوائج''' <ref> العباس بن ‏علیؑ، ص 30 </ref> حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ایک '''باب الحوائج''' ہے اور آپ کا یہ لقب آشناترین اور مشہورترین القاب میں سے ہے۔ بہت سارے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ کہ اگر حضرت عباس سے متوسل ہوجائیں تو ان کی حاجت پوری ہوتی ہے۔<ref>بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۴۸؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۳۶-۳۷.</ref>
* '''سقّا''' یہ لقب مورخین اور نسب شناسوں کے درمیان مشہور ہے<ref>المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۴؛ امین، اعیان الشیعه، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۱۲-۴۱۳؛ ابوالفرج الاصفهانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۱۷-۱۱۸ </ref> آپ نے کربلا میں تین مرتبہ اہل حرم اور امام حسینؑ کے خیموں تک پانی پہنچایا۔<ref> طعمه، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق، ص۲۳۸.</ref>
* '''سقّا''' یہ لقب مورخین اور نسب شناسوں کے درمیان مشہور ہے<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۴؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۱۲-۴۱۳؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۱۱۷-۱۱۸ </ref> آپ نے کربلا میں تین مرتبہ اہل حرم اور امام حسینؑ کے خیموں تک پانی پہنچایا۔<ref> طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق، ص۲۳۸.</ref>
* الشهید<ref>المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۰۸-۱۰۹ </ref>
* الشہید<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۰۸-۱۰۹ </ref>
* پرچمدار اور علمدار<ref> ابن شهر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، مطبعه العلمیه، ج۴، ص۱۰۸؛ علامه مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۴۰.</ref>
* پرچمدار اور علمدار<ref> ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، مطبعہ العلمیہ، ج۴، ص۱۰۸؛ علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۴۰.</ref>
* '''طیار''' <ref> بطل العلقمی، ج 2، ص 108 -109 </ref> یہ لقب عالم قدس اور بہشت جاویدان کی فضاؤں میں حضرت ابوالفضل العباسؑ کی شان و مرتبت کو نمایاں کرتا ہے۔ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] نے فرمایا: "عباس کے ہاتھ [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کی حمایت میں قلم ہونگے اور پروردگار متعال اس کو دو شہ پر عطا فرمائے گا اور وہ اپنے چچا [[جعفر بن ابی طالب|جعفر طیار]] کی مانند جنت میں پرواز کرے گا۔ <ref> قمر بنی ‏ہاشم، ص‏19/ مولد العباس بن‏ علیؑ، ص 60 </ref>
* '''طیار''' <ref> بطل العلقمی، ج 2، ص 108 -109 </ref> یہ لقب عالم قدس اور بہشت جاویدان کی فضاؤں میں حضرت ابوالفضل العباسؑ کی شان و مرتبت کو نمایاں کرتا ہے۔ [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] نے فرمایا: "عباس کے ہاتھ [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کی حمایت میں قلم ہونگے اور پروردگار متعال اس کو دو شہ پر عطا فرمائے گا اور وہ اپنے چچا [[جعفر بن ابی طالب|جعفر طیار]] کی مانند جنت میں پرواز کرے گا۔ <ref> قمر بنی ‏ہاشم، ص‏19/ مولد العباس بن‏ علیؑ، ص 60 </ref>
*'''الشہید''': <ref> وہی ماخذ </ref> شہادت ابوالفضلؑ کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے جو آپ کی حیات مبارکہ کے افق پر چمک رہا ہے اور آپ کے اس لقب کی بنیاد آپ کی شہادت ہی ہے۔
*'''الشہید''': <ref> وہی ماخذ </ref> شہادت ابوالفضلؑ کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے جو آپ کی حیات مبارکہ کے افق پر چمک رہا ہے اور آپ کے اس لقب کی بنیاد آپ کی شہادت ہی ہے۔
*'''عبد صالح''' <ref> ابوالفرج الاصفہانی، وہی ماخذ، ص 124۔ </ref> یہ وہ لقب ہے جس کی طرف [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] نے بھی آپ کے زیارتنامے میں اشارہ فرمایا ہے۔ : <font color = green>{{حدیث|'''"اَلسَّلامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للهِ وَلِرَسُولِهِ وَلاَِميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِمْ وَسَلَّمَ"۔'''}}</font color = green> (ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے خدا کے نیک بندے اے اللہ، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|اس کے رسول]]، [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]] اور [[امام حسن علیہ السلام|حسن]] و [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] علیہم السلام کے اطاعت گزار و فرمانبردار۔۔۔"۔  <ref>شیخ عباس قمی، مفاتيح الجنان، الْمَطْلَبُ الثّاني في زِيارَۃ الْعَبّاسِ بْن عَلىّ بْن اَبي طالِب(عليهم السلام)۔</ref>
*'''عبد صالح''' <ref> ابوالفرج الاصفہانی، وہی ماخذ، ص 124۔ </ref> یہ وہ لقب ہے جس کی طرف [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] نے بھی آپ کے زیارتنامے میں اشارہ فرمایا ہے۔ : <font color = green>{{حدیث|'''"اَلسَّلامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا الْعَبْدُ الصّالِحُ الْمُطيعُ للهِ وَلِرَسُولِهِ وَلاَِميرِالْمُؤْمِنينَ وَالْحَسَنِ والْحُسَيْنِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِمْ وَسَلَّمَ"۔'''}}</font color = green> (ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے خدا کے نیک بندے اے اللہ، [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|اس کے رسول]]، [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین]] اور [[امام حسن علیہ السلام|حسن]] و [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] علیہم السلام کے اطاعت گزار و فرمانبردار۔۔۔"۔  <ref>شیخ عباس قمی، مفاتيح الجنان، الْمَطْلَبُ الثّاني في زِيارَۃ الْعَبّاسِ بْن عَلىّ بْن اَبي طالِب(عليہم السلام)۔</ref>
* ''' علمدار''' <ref> عمدۃ الطالب، ص‏280۔</ref> حضرت عباس کے مشہور القاب میں '''علمدار''' (حامل اللواء) شامل ہے؛ حضرت عباسؑ روز [[عاشورا|عاشور]] اہم ترین اور قابل قدر ترین پرچم کے حامل تھے جو [[امام حسین علیہ السلام|سیدالشہداء امام حسینؑ]] کا پرچم تھا۔<ref>باقرشریف قرشى، وہی ماخذ۔</ref>
* ''' علمدار''' <ref> عمدۃ الطالب، ص‏280۔</ref> حضرت عباس کے مشہور القاب میں '''علمدار''' (حامل اللواء) شامل ہے؛ حضرت عباسؑ روز [[عاشورا|عاشور]] اہم ترین اور قابل قدر ترین پرچم کے حامل تھے جو [[امام حسین علیہ السلام|سیدالشہداء امام حسینؑ]] کا پرچم تھا۔<ref>باقرشریف قرشى، وہی ماخذ۔</ref>
* '''کبش الکتیبہ''': وہ لقب ہے جو سپہ سالاری کے زمرے میں اعلی ترین رتبے کے حامل سپہ سالار کو دیا جاتا ہے جس کی بنیاد حُسنِ تدبیر اور شجاعت و دلاوری نیز ماتحت افواج کو محفوظ رکھنے جیسے اوصاف ہوتے ہیں۔<ref>باقرشریف قرشى، وہی ماخذ۔</ref>
* '''کبش الکتیبہ''': وہ لقب ہے جو سپہ سالاری کے زمرے میں اعلی ترین رتبے کے حامل سپہ سالار کو دیا جاتا ہے جس کی بنیاد حُسنِ تدبیر اور شجاعت و دلاوری نیز ماتحت افواج کو محفوظ رکھنے جیسے اوصاف ہوتے ہیں۔<ref>باقرشریف قرشى، وہی ماخذ۔</ref>
سطر 56: سطر 56:
==حالات زندگی==
==حالات زندگی==
[[ملف:گنبد حرم حضرت عباس (ع).JPG|تصغیر|حضرت عباس علیہ السلام کے روضے کا گنبد اور منارہ]]
[[ملف:گنبد حرم حضرت عباس (ع).JPG|تصغیر|حضرت عباس علیہ السلام کے روضے کا گنبد اور منارہ]]
بعض محققین کا کہنا ہے کہ  آپ کی واقعہ کربلا سے پہلے کی زندگی کے بارے جنگ صفین کی بعض گزارشات کے علاوہ کوئی خاص اطلاعات میسر نہیں ہیں۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ محمودی، ماه بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۸</ref>
بعض محققین کا کہنا ہے کہ  آپ کی واقعہ کربلا سے پہلے کی زندگی کے بارے جنگ صفین کی بعض گزارشات کے علاوہ کوئی خاص اطلاعات میسر نہیں ہیں۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۸</ref>
===ولادت===
===ولادت===
حضرت عباس کی ولادت کے سال کے بارے میں اختلاف ہے۔ <ref>الاوردبادی، حیاة ابی‌الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۱. محمودی، ماه بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱.</ref> یہ اختلافات امام علیؑ کی شہادت کے وقت عباسؑ کی عمر کے بارے میں موجود اختلافات کی بنا پر ہیں۔ بعض نے 16 سے 18 سال تک کی عمر کا کہا ہے۔<ref>محمودی، ماه بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱ و ۵۰.</ref> جبکہ دوسرے بعض نے اس وقت آپ کی عمر کو 14 سال اور نابالغی کا دور قرار دیا ہے۔<ref>الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۲؛ طعمه، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق، ص۲۴۲</ref>
حضرت عباس کی ولادت کے سال کے بارے میں اختلاف ہے۔ <ref>الاوردبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۱. محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱.</ref> یہ اختلافات امام علیؑ کی شہادت کے وقت عباسؑ کی عمر کے بارے میں موجود اختلافات کی بنا پر ہیں۔ بعض نے 16 سے 18 سال تک کی عمر کا کہا ہے۔<ref>محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۳۱ و ۵۰.</ref> جبکہ دوسرے بعض نے اس وقت آپ کی عمر کو 14 سال اور نابالغی کا دور قرار دیا ہے۔<ref>الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۲؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق، ص۲۴۲</ref>
مشہور قول کے مطابق آپ  [[سنہ ۲۶ ہجری قمری|۲۶ھ]] کو [[مدینہ]]  میں پیدا ہوئے۔ .<ref>زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۸۹-۹۰؛ ابن نما حلی، مثیر الاحزان، ۱۳۸۰ش، ص۲۵۴؛ امین، اعیان الشیعه، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹.</ref>  اردوبادی کے کہنے کے مطابق قدیمی منابع میں آپ کی ولادت کے مہینے اور دن کے بارے میں بھی کچھ نہیں ملتا ہے اور صرف تیرہویں صدی ہجری میں لکھی گئی  انیس الشیعہ نامی کتاب میں اپ کی تولد کو [[۴ شعبان]]  قرار دیا ہے۔.<ref>الاوردبادی، حیاة ابی‌الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۴</ref>  [[روایات]] کے مطابق، جب آپ پیدا ہوئے تو امام علیؑ نے اپنی گود میں لیا اور اسے عباس نام دیا اور ان کے کانوں میں [[اذان]] اور [[اقامه]] پڑھی پھر اس کے بازوؤں کا بوسہ لیا اور رونے لگا تو اما البنین نے رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایاتمہارے بیٹے کے دونوں بازو [[حسینؑ]] کی مدد میں تن سے جدا ہونگے اور اللہ تعالی ان کے کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلے اسے آخرت میں دو پر عطا کرے گا۔.<ref>کلباسی، خصائص العباسیه، ۱۴۰۸ق، ص۱۱۹-۱۲۰.</ref> عباس کے دونوں بازوؤں کے کاٹنے پر گریہ کرنے کا ذکر دوسری بعض روایات میں بھی ذکر ہوا ہے۔ <ref>دیکھیں: ناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ق، ص۶۱-۶۲؛ خصائص العباسیه، ص۱۱۹-۱۲۰؛ خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ۱۳۷۸ش، ص۱۴۰.</ref>
مشہور قول کے مطابق آپ  [[سنہ ۲۶ ہجری قمری|۲۶ھ]] کو [[مدینہ]]  میں پیدا ہوئے۔ .<ref>زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۸۹-۹۰؛ ابن نما حلی، مثیر الاحزان، ۱۳۸۰ش، ص۲۵۴؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹.</ref>  اردوبادی کے کہنے کے مطابق قدیمی منابع میں آپ کی ولادت کے مہینے اور دن کے بارے میں بھی کچھ نہیں ملتا ہے اور صرف تیرہویں صدی ہجری میں لکھی گئی  انیس الشیعہ نامی کتاب میں اپ کی تولد کو [[۴ شعبان]]  قرار دیا ہے۔.<ref>الاوردبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ۱۴۳۶ق، ص۶۴</ref>  [[روایات]] کے مطابق، جب آپ پیدا ہوئے تو امام علیؑ نے اپنی گود میں لیا اور اسے عباس نام دیا اور ان کے کانوں میں [[اذان]] اور [[اقامہ]] پڑھی پھر اس کے بازوؤں کا بوسہ لیا اور رونے لگا تو اما البنین نے رونے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایاتمہارے بیٹے کے دونوں بازو [[حسینؑ]] کی مدد میں تن سے جدا ہونگے اور اللہ تعالی ان کے کٹے ہوئے بازوؤں کے بدلے اسے آخرت میں دو پر عطا کرے گا۔.<ref>کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۴۰۸ق، ص۱۱۹-۱۲۰.</ref> عباس کے دونوں بازوؤں کے کاٹنے پر گریہ کرنے کا ذکر دوسری بعض روایات میں بھی ذکر ہوا ہے۔ <ref>دیکھیں: ناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ق، ص۶۱-۶۲؛ خصائص العباسیہ، ص۱۱۹-۱۲۰؛ خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۷۸ش، ص۱۴۰.</ref>


=== ازواج اور اولاد ===
=== ازواج اور اولاد ===
عباسؑ [[لبابہ]] بنت [[عبید اللہ بن عباس]] بن [[عبدالمطلب]] کے ساتھ 40 سے 45 ہجری قمری درمیان رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے<ref>الزبیری، نسب قریش، ۱۹۵۳م، ج۱، ص۷۹؛ زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۹۸. </ref>  جس کا ثمرہ دو بیٹے "[[فضل بن عباس بن علی|فضل]] اور [[عبید اللہ بن عباس بن علی|عبید اللہ]]" تھے۔<ref>الحائری الشیرازی، ذخیرة الدارین، ۱۳۴۵ق، ج۱، ص۱۴۵</ref> فرزندش عبیدالله با دختر امام سجاد ازدواج کرد.<ref> آپ کے بیٹے عبیداللہ نے امام سجاد کی بیٹی سے شادی کی۔<ref>المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق،  ج۳، ص۴۲۹.</ref> بعض مولفین نے حسن، قاسم، محمد نام کے بیٹے اور ایک بیٹی کا نام ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ قاسم اور محمد روز [[عاشورا]] اپنے والد کی شہادت کے بعد وہ بھی شہید ہوئے ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ج۲، ص۱۲۳</ref>  
عباسؑ [[لبابہ]] بنت [[عبید اللہ بن عباس]] بن [[عبدالمطلب]] کے ساتھ 40 سے 45 ہجری قمری درمیان رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے<ref>الزبیری، نسب قریش، ۱۹۵۳م، ج۱، ص۷۹؛ زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۹۸. </ref>  جس کا ثمرہ دو بیٹے "[[فضل بن عباس بن علی|فضل]] اور [[عبید اللہ بن عباس بن علی|عبید اللہ]]" تھے۔<ref>الحائری الشیرازی، ذخیرۃ الدارین، ۱۳۴۵ق، ج۱، ص۱۴۵</ref> فرزندش عبیداللہ با دختر امام سجاد ازدواج کرد.<ref> آپ کے بیٹے عبیداللہ نے امام سجاد کی بیٹی سے شادی کی۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق،  ج۳، ص۴۲۹.</ref> بعض مولفین نے حسن، قاسم، محمد نام کے بیٹے اور ایک بیٹی کا نام ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ قاسم اور محمد روز [[عاشورا]] اپنے والد کی شہادت کے بعد وہ بھی شہید ہوئے ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۲۳</ref>  
بہر صورت حضرت عباسؑ کی نسل '''عبید اللہ''' اور اس کے بیٹے حسن سے چلی۔ حضرت عباس کے بیٹے مشہور علویوں میں سے تھے اور ان میں سے بہت سارے عالم، شاعر، قاضی اور حاکم تھے۔ .<ref>ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ج۲، ص۱۱۸؛ محمودی، ماه بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۸۹.</ref>  مثلا حسن کا ایک بیٹا عبیداللہ اور اس کا بیٹآ عبداللہ مدینہ اور مکہ میں قاضی تھے۔  <ref>هادی‌منش، «فرزندان و نوادگان حضرت عباس»</ref> حضرت عباس کی نسل افریقہ اور ایران تک پھیل گئی ہے۔<ref>ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ج۲، ص۱۱۸</ref> بعض نے پھیلنے کی وجہ کو ظالم حکومتوں کی وجہ سے حضرت عباس کی نسل کا مہاجرت کرنا بتایا ہے۔<ref>ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ج۲، ص۱۲۶</ref>
بہر صورت حضرت عباسؑ کی نسل '''عبید اللہ''' اور اس کے بیٹے حسن سے چلی۔ حضرت عباس کے بیٹے مشہور علویوں میں سے تھے اور ان میں سے بہت سارے عالم، شاعر، قاضی اور حاکم تھے۔ .<ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۱۸؛ محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۸۹.</ref>  مثلا حسن کا ایک بیٹا عبیداللہ اور اس کا بیٹآ عبداللہ مدینہ اور مکہ میں قاضی تھے۔  <ref>ہادی‌منش، «فرزندان و نوادگان حضرت عباس»</ref> حضرت عباس کی نسل افریقہ اور ایران تک پھیل گئی ہے۔<ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۱۸</ref> بعض نے پھیلنے کی وجہ کو ظالم حکومتوں کی وجہ سے حضرت عباس کی نسل کا مہاجرت کرنا بتایا ہے۔<ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ج۲، ص۱۲۶</ref>


===جنگ صفین ===
===جنگ صفین ===
بعض کتابوں کے مطابق [[جنگ صفین|صفین]] میں حضرت عباس ان افراد میں سے تھے جنہوں نے مالک اشتر کی سپہ سالاری میں فرات پر حملہ کیا اور امام علیؑ کی فوج کو پانی لے آیا۔<ref>حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۴۳۷؛ الموسوي المقرم، العبّاس (عليه السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref>جنگ صفین میں شام کے ابن شعثاء اور اس کے سات بیٹوں کا حضرت عباس کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر بھی ہوا ہے۔ <ref>الموسوي المقرم، العبّاس (عليه السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref>  شام کے لوگ ابن شعثاء کو ہزار آدمی کے برابر سمجھتے تھے۔ <ref>الموسوي المقرم، العبّاس (عليه السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref> آپ کی جنگ صفین کے بعد سے واقعہ کربلا تک کے درمیانی عرصے کی زندگی کے بارے میں تاریخی منابع میں کچھ ذکر نہیں ہوا ہے۔
بعض کتابوں کے مطابق [[جنگ صفین|صفین]] میں حضرت عباس ان افراد میں سے تھے جنہوں نے مالک اشتر کی سپہ سالاری میں فرات پر حملہ کیا اور امام علیؑ کی فوج کو پانی لے آیا۔<ref>حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۴۳۷؛ الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref>جنگ صفین میں شام کے ابن شعثاء اور اس کے سات بیٹوں کا حضرت عباس کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر بھی ہوا ہے۔ <ref>الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref>  شام کے لوگ ابن شعثاء کو ہزار آدمی کے برابر سمجھتے تھے۔ <ref>الموسوي المقرم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۲۴۲؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۵.</ref> آپ کی جنگ صفین کے بعد سے واقعہ کربلا تک کے درمیانی عرصے کی زندگی کے بارے میں تاریخی منابع میں کچھ ذکر نہیں ہوا ہے۔


اردوبادی کہتا ہے کہ حضرت علیؑ کی امام حسین کے بارے میں کی جانے والی وصیت کے بارے میں سنا تو بہت ہے لیکن ابھی تک اس کے لیے کوئی مستند نہیں ملی ہے۔ <ref>اوردبادی، حیاة ابی‌الفضل العباس، ص۵۵</ref>
اردوبادی کہتا ہے کہ حضرت علیؑ کی امام حسین کے بارے میں کی جانے والی وصیت کے بارے میں سنا تو بہت ہے لیکن ابھی تک اس کے لیے کوئی مستند نہیں ملی ہے۔ <ref>اوردبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ص۵۵</ref>


بچپن سے ہی اپنے والد سے علم حاصل کیا۔ امام علیؑ فرماتے ہیں: {{حدیث|اِنَّ وَلَدِی العَبّاسَ زُقَّ العِلمَ زَقّاً}} میرے فرزند عباس نے اس طرح علم حاصل کیا جسطرح کبوتر کا بچہ اپنی ماں سے غذا حاصل کرتا ہے۔<ref> الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۲۔</ref>  ۱۴ سال تک اپنے والد کے ساتھ زندگی بسر کی اور ہمیشہ اپنے باپ کے ساتھ رہے۔<ref> الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۳۔</ref> ۳۷ھ میں [[جنگ صفین]] میں شرکت کی۔<ref>الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۴۔</ref> انکی شجاعت کے متعلق اقوال نقل ہوئے ہیں۔<ref>حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۴۳۷؛ بیرجندی، کبریت احمر، ۱۳۷۷ش، ص۳۸۵۔ </ref>
بچپن سے ہی اپنے والد سے علم حاصل کیا۔ امام علیؑ فرماتے ہیں: {{حدیث|اِنَّ وَلَدِی العَبّاسَ زُقَّ العِلمَ زَقّاً}} میرے فرزند عباس نے اس طرح علم حاصل کیا جسطرح کبوتر کا بچہ اپنی ماں سے غذا حاصل کرتا ہے۔<ref> الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۲۔</ref>  ۱۴ سال تک اپنے والد کے ساتھ زندگی بسر کی اور ہمیشہ اپنے باپ کے ساتھ رہے۔<ref> الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۳۔</ref> ۳۷ھ میں [[جنگ صفین]] میں شرکت کی۔<ref>الناصری، مولد العباس بن علی، ۱۳۷۲ش، ص۶۴۔</ref> انکی شجاعت کے متعلق اقوال نقل ہوئے ہیں۔<ref>حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۴۳۷؛ بیرجندی، کبریت احمر، ۱۳۷۷ش، ص۳۸۵۔ </ref>
سطر 75: سطر 75:
{{محرم کی عزاداری}}
{{محرم کی عزاداری}}
{{اصلی|واقعہ کربلا}}
{{اصلی|واقعہ کربلا}}
کربلا کے واقعے میں شرکت حضرت عباس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے اور اسی وجہ سے شیعوں کے ہاں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عباس کو [[قیام امام حسینؑ]] کی اہم شخصیات میں سے شمار کیا ہے۔<ref>شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۴.</ref>اس کے باوجود بہت ساری کتابوں میں حضرت عباس کے بارے میں الگ سے لکھا گیا ہے۔ امام حسینؑ کی مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ تک کے سفر اور محرم 61ھ سے پہلے تک حضرت عباس کے بارے میں کوئی تاریخی رپورٹ یا روایت میں کچھ نہیں ملتا ہے۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ دیکھیں: مظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليه السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمه، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌جوزی‌، تذكرة الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعه العلامه الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴ و ۵</ref>  
کربلا کے واقعے میں شرکت حضرت عباس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے اور اسی وجہ سے شیعوں کے ہاں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عباس کو [[قیام امام حسینؑ]] کی اہم شخصیات میں سے شمار کیا ہے۔<ref>شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۴.</ref>اس کے باوجود بہت ساری کتابوں میں حضرت عباس کے بارے میں الگ سے لکھا گیا ہے۔ امام حسینؑ کی مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ تک کے سفر اور محرم 61ھ سے پہلے تک حضرت عباس کے بارے میں کوئی تاریخی رپورٹ یا روایت میں کچھ نہیں ملتا ہے۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ دیکھیں: مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌جوزی‌، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴ و ۵</ref>  
===مکہ میں خطبہ دینا===
===مکہ میں خطبہ دینا===
''خطیب کعبہ'' نامی کتاب کے مصنف نے حضرت عباس سے ایک خطبے کی نسبت دی ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبه، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>وہ اس خطبے کو ''مناقب سادۃ ‎الکرام'' نامی کتاب کی ایک یادداشت کی طرف استناد دیتا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبه، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>اس گزارش کے مطابق حضرت عباس نے آٹھویں ذی الحجہ کو کعبہ کی چھت پر ایک خطبہ دیا جس میں [[امام حسینؑ]] کے مقام کو بیان کرتے ہوئے [[یزید]] کو ایک شرابخوار شخص معرف کیا اور لوگوں کا اس کی بیعت کرنے کی مذمت کی۔ آپ نے اس خطبے میں تاکید کی کہ جبتک زندہ ہے کسی کو امام حسینؑ شہید کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اور امام حسینؑ کو شہید کرنے کا تنہا راستہ پہلے انہیں قتل کرنا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبه، ۱۳۸۶ش، ص۴۶-۴۸.</ref> [[جویا جهان‌بخش]] اس خطبے کو ادبی اعتبار سے نقد کرتے ہوئے اس کتاب کا مصنف اور اصل کتاب مجہول الحال قرار دبتے ہوئے اسے رد کیا ہے اور تصریح کی ہے کہ یہ ماجرا دوسری کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔<ref>جهان‌بخش، «گنجى نويافته يا وهمى بربافته؟»، ص۲۸-۵۶.</ref>
''خطیب کعبہ'' نامی کتاب کے مصنف نے حضرت عباس سے ایک خطبے کی نسبت دی ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>وہ اس خطبے کو ''مناقب سادۃ ‎الکرام'' نامی کتاب کی ایک یادداشت کی طرف استناد دیتا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>اس گزارش کے مطابق حضرت عباس نے آٹھویں ذی الحجہ کو کعبہ کی چھت پر ایک خطبہ دیا جس میں [[امام حسینؑ]] کے مقام کو بیان کرتے ہوئے [[یزید]] کو ایک شرابخوار شخص معرف کیا اور لوگوں کا اس کی بیعت کرنے کی مذمت کی۔ آپ نے اس خطبے میں تاکید کی کہ جبتک زندہ ہے کسی کو امام حسینؑ شہید کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اور امام حسینؑ کو شہید کرنے کا تنہا راستہ پہلے انہیں قتل کرنا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶-۴۸.</ref> [[جویا جہان‌بخش]] اس خطبے کو ادبی اعتبار سے نقد کرتے ہوئے اس کتاب کا مصنف اور اصل کتاب مجہول الحال قرار دبتے ہوئے اسے رد کیا ہے اور تصریح کی ہے کہ یہ ماجرا دوسری کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔<ref>جہان‌بخش، «گنجى نويافتہ يا وہمى بربافتہ؟»، ص۲۸-۵۶.</ref>
=== سقائے دشت کربلا ===
=== سقائے دشت کربلا ===
سات [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری کو عبید اللہ ابن زیاد نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کو حکم دیا کہ حسینؑ اور اس کے ساتھیوں پر فرات کا پانی بند کیا جائے تو [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے حضرت عباسؑ کو بلا کر 30 سواروں اور 20 پیادوں کا ایک دستہ دیا اور ہدایت کی کہ جاکر اپنے مشکوں میں پانی بھر کر لائیں۔ حضرت عباسؑ نے ان افراد کی مدد سے شریعۂ فرات پر تعینات یزیدی لشکر کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور خیام تک کافی مقدار میں پانی پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور اس حملے میں امام کے یار و انصار میں سے کوئی ایک بھی شہید نہیں ہوا لیکن عمر سعد کی لشکر کے بعض افراد مارے گئے۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۱۲؛ امین، اعیان الشیعه، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۳۰؛ ابوالفرج الاصفهانی، مقاتل الطالبین، ۱۴۰۸ق، ص۷۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۷؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۲.</ref>
سات [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری کو عبید اللہ ابن زیاد نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کو حکم دیا کہ حسینؑ اور اس کے ساتھیوں پر فرات کا پانی بند کیا جائے تو [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے حضرت عباسؑ کو بلا کر 30 سواروں اور 20 پیادوں کا ایک دستہ دیا اور ہدایت کی کہ جاکر اپنے مشکوں میں پانی بھر کر لائیں۔ حضرت عباسؑ نے ان افراد کی مدد سے شریعۂ فرات پر تعینات یزیدی لشکر کو پسپا ہونے پر مجبور کیا اور خیام تک کافی مقدار میں پانی پہنچانے میں کامیاب ہوئے اور اس حملے میں امام کے یار و انصار میں سے کوئی ایک بھی شہید نہیں ہوا لیکن عمر سعد کی لشکر کے بعض افراد مارے گئے۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ۱۹۶۷م، ج۵، ص۴۱۲؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۳۰؛ ابوالفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبین، ۱۴۰۸ق، ص۷۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۷؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۲.</ref>


===امان نامے کو ٹھکرانا===
===امان نامے کو ٹھکرانا===
سطر 85: سطر 85:
پہلا امامن نامہ عبداللہ بن ابی المحل بن حزام عامری لے آیا۔ وہ حضرت عباسؑ کی والد [[ام البنین]] کا بھتیجا تھا۔ وہ عبیداللہ بن زیاد سے اپنی پھوپھی زاد بھائیوں کے لیے امان نامہ لینے میں کامیاب ہوا اور اسے اپنے غلام کے ہاتھوں انہیں بھیجدیا۔ جب عباس اور ان کے بھائیوں نے اس امان نامے کو پڑھا تو کہا کہ ہم اللہ کی امان میں ہیں اور ایسے کسی ذلت آمیز امان نامے کے محتاج نہیں۔<ref>الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۸-۳۴۹؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۳.  </ref>
پہلا امامن نامہ عبداللہ بن ابی المحل بن حزام عامری لے آیا۔ وہ حضرت عباسؑ کی والد [[ام البنین]] کا بھتیجا تھا۔ وہ عبیداللہ بن زیاد سے اپنی پھوپھی زاد بھائیوں کے لیے امان نامہ لینے میں کامیاب ہوا اور اسے اپنے غلام کے ہاتھوں انہیں بھیجدیا۔ جب عباس اور ان کے بھائیوں نے اس امان نامے کو پڑھا تو کہا کہ ہم اللہ کی امان میں ہیں اور ایسے کسی ذلت آمیز امان نامے کے محتاج نہیں۔<ref>الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۸-۳۴۹؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۳.  </ref>


دوسرا امان نامہ [[شمر بن ذی الجوشن]] نے ظهر [[عاشورا]] عباس اور ان کے بھائیوں کے لیے پیش کیا اور پھوپھی کے بیٹے کہتے ہوا آواز دی لیکن جواب نہیں ملا۔ امام حسینؑ نے بھائیوں سے فرمایا اگرچہ شمر [[فاسق]] لیکن اس کا جواب دو۔ شمر نے امان نامے کو یزید کی اطاعت اور تسلیم ہونے کے ساتھ مشروط کردیا۔ حضرت عباس نے وہ اور اس کے امان نامے پر لعنت بھیجتے ہوئے کہا: «اے دشمن خدا! موت ہو تم پر کہ ہمیں کفر کی اور میرے بھائی حسینؑ کو چھوڑنے کی دعوت دے رہے ہو۔»<ref> ابن اثیر، الکامل، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ۱۶۲؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۹؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۴.</ref>
دوسرا امان نامہ [[شمر بن ذی الجوشن]] نے ظہر [[عاشورا]] عباس اور ان کے بھائیوں کے لیے پیش کیا اور پھوپھی کے بیٹے کہتے ہوا آواز دی لیکن جواب نہیں ملا۔ امام حسینؑ نے بھائیوں سے فرمایا اگرچہ شمر [[فاسق]] لیکن اس کا جواب دو۔ شمر نے امان نامے کو یزید کی اطاعت اور تسلیم ہونے کے ساتھ مشروط کردیا۔ حضرت عباس نے وہ اور اس کے امان نامے پر لعنت بھیجتے ہوئے کہا: «اے دشمن خدا! موت ہو تم پر کہ ہمیں کفر کی اور میرے بھائی حسینؑ کو چھوڑنے کی دعوت دے رہے ہو۔»<ref> ابن اثیر، الکامل، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ۱۶۲؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۹؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۴.</ref>


=== بھائیوں کی شہادت===
=== بھائیوں کی شہادت===
تاریخی گزارشات کے مطابق [[امام علی علیه السلام|امام علیؑ]] کی [[ام‌البنین]] سے شادی کے نتیجے میں چار بیٹے ابوالفضل«عباس»، ابو عبدالله «جعفر»، ابو محمد «عبدالله» و ابو عمر «عثمان» پیدا ہوئے۔ عباسؑ نے روز عاشورا اپنے بھائیوں کو خود سے پہلے میدان جنگ بھیجا اور ان سے پہلے تینوں بھائی شہید ہوئے۔<ref>الاوردبادی، موسوعه العلامه الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۶۹-۷۱.</ref> عباس 36 سال کی عمر میں، جعفر 29، عبدالله 25، اور عثمان 21 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔<ref>الاوردبادی، موسوعه العلامه الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۷۳-۸۴.</ref>
تاریخی گزارشات کے مطابق [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] کی [[ام‌البنین]] سے شادی کے نتیجے میں چار بیٹے ابوالفضل«عباس»، ابو عبداللہ «جعفر»، ابو محمد «عبداللہ» و ابو عمر «عثمان» پیدا ہوئے۔ عباسؑ نے روز عاشورا اپنے بھائیوں کو خود سے پہلے میدان جنگ بھیجا اور ان سے پہلے تینوں بھائی شہید ہوئے۔<ref>الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۶۹-۷۱.</ref> عباس 36 سال کی عمر میں، جعفر 29، عبداللہ 25، اور عثمان 21 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔<ref>الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۷۳-۸۴.</ref>


ابن اثیر نے کتاب الکامل میں لکھا ہے کہ عباسؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا:«تقدّموا حتى أرثكم» مجھ سے پہلے جنگ کو چلے جاؤ تاکہ میں تم سے ارث پاوں۔<ref>ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۶ق،  ج۴، ص۷۶.</ref>بعض محققین نے اس بات کو غلط اور وہم قرار دیا ہے کیونکہ عباس کو معلوم تھا کہ اس وقت ان کو بھی قتل ہونا ہے تو ارث پانے کا معنی نہیں رکھتا ہے۔<ref>الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليه السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۴-۱۸۶؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۲۱-۲۲؛  میردریکوندی، دریای تشنه؛ تشنه دریا، ۱۳۸۲ش، ص۵۴-۵۶. </ref>  در مقابل، از [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] اور دینوری نے نقل کیا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں سے کہ تم جاکر اپنے بھائی سید اور مولا کا دفاع کرو تاکہ تم مارے جاؤ تو وہ قتل نہیں ہوگا۔<ref>الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليه السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۵؛ بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ص۹۶.</ref> اردوبادی احتمال دیتا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں کو اپنے سے پہلے اس لیے میدان بھیجا تاکہ ان کو جہاد کے لیے تیار کرنے کا ثواب اور بھائیوں کی شہادت پر صبر کر کے صابرین کا ثواب بھی حاصل کرسکے۔<ref>الاوردبادی، موسوعه العلامه الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۱۰۶.</ref>
ابن اثیر نے کتاب الکامل میں لکھا ہے کہ عباسؑ نے اپنے بھائیوں سے کہا:«تقدّموا حتى أرثكم» مجھ سے پہلے جنگ کو چلے جاؤ تاکہ میں تم سے ارث پاوں۔<ref>ابن اثیر، الکامل، ۱۳۸۶ق،  ج۴، ص۷۶.</ref>بعض محققین نے اس بات کو غلط اور وہم قرار دیا ہے کیونکہ عباس کو معلوم تھا کہ اس وقت ان کو بھی قتل ہونا ہے تو ارث پانے کا معنی نہیں رکھتا ہے۔<ref>الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۴-۱۸۶؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۲۱-۲۲؛  میردریکوندی، دریای تشنہ؛ تشنہ دریا، ۱۳۸۲ش، ص۵۴-۵۶. </ref>  در مقابل، از [[فضل بن حسن طبرسی|طبرسی]] اور دینوری نے نقل کیا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں سے کہ تم جاکر اپنے بھائی سید اور مولا کا دفاع کرو تاکہ تم مارے جاؤ تو وہ قتل نہیں ہوگا۔<ref>الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۸۵؛ بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ص۹۶.</ref> اردوبادی احتمال دیتا ہے کہ عباسؑ نے بھائیوں کو اپنے سے پہلے اس لیے میدان بھیجا تاکہ ان کو جہاد کے لیے تیار کرنے کا ثواب اور بھائیوں کی شہادت پر صبر کر کے صابرین کا ثواب بھی حاصل کرسکے۔<ref>الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۱۰۶.</ref>


===روز عاشورا رجزخوانی===
===روز عاشورا رجزخوانی===
[[واقعہ کربلا]] میں حضرت عباسؑ کے مختلف رجز نقل ہوئے ہیں:<ref>مراجعہ کریں:کلباسی، خصائص عباسیه، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱-۱۸۸؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶-۱۱۲؛الاوردبادی،موسوعه العلامه الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵-۱۷۶. </ref>  
[[واقعہ کربلا]] میں حضرت عباسؑ کے مختلف رجز نقل ہوئے ہیں:<ref>مراجعہ کریں:کلباسی، خصائص عباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۱-۱۸۸؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶-۱۱۲؛الاوردبادی،موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵-۱۷۶. </ref>  
{{شعر2|أقسمت باللّه الأعز الأعظم|و بالحجور صادقا و زمزم}}
{{شعر2|أقسمت باللّہ الأعز الأعظم|و بالحجور صادقا و زمزم}}
{{شعر2
{{شعر2
|عرض=(۷۰ به معنای کامل است)
|عرض=(۷۰ به معنای کامل است)
|و ذو الحطيم و الفنا المحرم|ليخضبنّ‌ اليوم جسمي بالدم  
|و ذو الحطيم و الفنا المحرم|ليخضبنّ‌ اليوم جسمي بالدم  
|ذاك حسين ذو الفخار الأقدم|أمام ذي الفضل و ذي التكرّم<ref>ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴؛المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵-۱۷۶.</ref>
|ذاك حسين ذو الفخار الأقدم|أمام ذي الفضل و ذي التكرّم<ref>ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴؛المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵-۱۷۶.</ref>
}}
}}


{{شعر2
{{شعر2
|عرض=(۷۰ به معنای کامل است)
|عرض=(۷۰ به معنای کامل است)
الله ان قطعتم یمینی|انی احامی ابدا عنی دینی
اللہ ان قطعتم یمینی|انی احامی ابدا عنی دینی
|عن امام صادق الیقین|نجل النبی الطاهر الامین<ref>المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵؛ کلباسی، خصائص عباسیه، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۷؛ الاوردبادی،موسوعه العلامه الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۲۰؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۰.</ref>  
|عن امام صادق الیقین|نجل النبی الطاہر الامین<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۵؛ کلباسی، خصائص عباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۸۷؛ الاوردبادی،موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۲۰؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۰.</ref>  
}}
}}
=== شہادت  ===
=== شہادت  ===
حضرت عباس کی شہادت کی کیفیت اور وقت کے بارے میں تین قول پائے جاتے ہیں؛ [[۷ محرم]]، [[۹ محرم]] و دس محرم۔ محمد حسن مظفر نے پہلے دو قول کو ضعیف اور بہت نادر قرار دیا ہے اور اکثر مورخین کی گزارشات اور تصریح کے مطابق حضرت عباس قطعی طور پر  [[۱۰ محرم]] کو شہید ہوئے ہیں۔<ref>المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۲.</ref>  
حضرت عباس کی شہادت کی کیفیت اور وقت کے بارے میں تین قول پائے جاتے ہیں؛ [[۷ محرم]]، [[۹ محرم]] و دس محرم۔ محمد حسن مظفر نے پہلے دو قول کو ضعیف اور بہت نادر قرار دیا ہے اور اکثر مورخین کی گزارشات اور تصریح کے مطابق حضرت عباس قطعی طور پر  [[۱۰ محرم]] کو شہید ہوئے ہیں۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۲.</ref>  


تاریخ نگاروں نے حضرت عباسؑ کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں:<ref> خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۲؛ دیکھیں:بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ مظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليه السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمه، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌جوزی‌، تذكرة الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعه العلامه الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۵-۳۵۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۸۴-۱۲۰؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۲۸ق، ص۳۳۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۴؛ سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۴۵۷.</ref>بہت ساری کتابوں کی نقل کے مطابق عباسؑ [[اصحاب امام حسین|اصحاب]] اور [[بنی‌هاشم]] کے آخری فرد کی شہادت تک میدان کو نہیں گئے تھے<ref>اردوبادی، حیاة ابی‌الفضل العباس، ص۱۹۲-۱۹۴</ref>ان کی شہادت کے بعد خیموں میں پانے لانے کا قصد کیا۔ آپ نے [[عمر سعد|عمر‌بن سعد]] کی لشکر پر حملہ کیا اور فرات تک پہنچ گیا۔ بعض مقاتل میں آیا ہے کہ عباس نے ہاتھوں کے چلو کو پانی پینے کی قصد سے بھر دیا اور جیسے ہی منہ کے قریب کیا تو پانی زمین پر گرایا اور تشنہ لب، مشک پر کر کے فرات سے باہر آیا۔ واپسی پر دشمن نے ان پر حملہ کیا اور آپ نے نخلستان میں دشمن کا مقابلہ کیا اور خیموں کی جانب نکلا تو [[زید بن ورقاء جهنی]] نے کسی خرما کے اوٹ سے آکر آپ کے دائیں ہاتھ پر ایک ضربت ماری عباسؑ نے تلوار بایاں ہاتھ میں لیا اور دشمن سے جنگ جاری رکھااسی اثناء میں ایک درخت کے اوٹ میں گھات لگائے [[حکیم بن طفیل سنبسی]] نے آپ کے داہنے ہاتھ پر وار کیا اور اس کے بعد عباسؑ کے سر پر گرز مارا اور آپ کو شہید کیا<ref>المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۴- ۱۷۸؛الاوردبادی، موسوعه العلامه الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۴؛ شیخ مفید، ترجمه ارشاد، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۴۱۱-۴۱۲؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ج۲، ص۳۴؛ مقرم، حادثه کربلا در مقتل مقرم، ص۲۶۲؛ ابن شهرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۶ق، ج۳، ص۲۵۶.</ref>
تاریخ نگاروں نے حضرت عباسؑ کی شہادت کی کیفیت کے بارے میں مختلف روایات نقل کی ہیں:<ref> خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۲؛ دیکھیں:بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌جوزی‌، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۵-۳۵۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۸۴-۱۲۰؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۲۸ق، ص۳۳۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۴؛ سبط ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۲۶ق، ج۲، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۴۵۷.</ref>بہت ساری کتابوں کی نقل کے مطابق عباسؑ [[اصحاب امام حسین|اصحاب]] اور [[بنی‌ہاشم]] کے آخری فرد کی شہادت تک میدان کو نہیں گئے تھے<ref>اردوبادی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، ص۱۹۲-۱۹۴</ref>ان کی شہادت کے بعد خیموں میں پانے لانے کا قصد کیا۔ آپ نے [[عمر سعد|عمر‌بن سعد]] کی لشکر پر حملہ کیا اور فرات تک پہنچ گیا۔ بعض مقاتل میں آیا ہے کہ عباس نے ہاتھوں کے چلو کو پانی پینے کی قصد سے بھر دیا اور جیسے ہی منہ کے قریب کیا تو پانی زمین پر گرایا اور تشنہ لب، مشک پر کر کے فرات سے باہر آیا۔ واپسی پر دشمن نے ان پر حملہ کیا اور آپ نے نخلستان میں دشمن کا مقابلہ کیا اور خیموں کی جانب نکلا تو [[زید بن ورقاء جہنی]] نے کسی خرما کے اوٹ سے آکر آپ کے دائیں ہاتھ پر ایک ضربت ماری عباسؑ نے تلوار بایاں ہاتھ میں لیا اور دشمن سے جنگ جاری رکھااسی اثناء میں ایک درخت کے اوٹ میں گھات لگائے [[حکیم بن طفیل سنبسی]] نے آپ کے داہنے ہاتھ پر وار کیا اور اس کے بعد عباسؑ کے سر پر گرز مارا اور آپ کو شہید کیا<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۴- ۱۷۸؛الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ج۹، ص۲۱۹-۲۲۰؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۰۶- ۱۱۴؛ شیخ مفید، ترجمہ ارشاد، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۴۱۱-۴۱۲؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ج۲، ص۳۴؛ مقرم، حادثہ کربلا در مقتل مقرم، ص۲۶۲؛ ابن شہرآشوب، مناقب آل ابی‌طالب، ۱۳۷۶ق، ج۳، ص۲۵۶.</ref>
بعض گزارشات نے لکھا ہے کہ جب عباسؑ شہید ہوئے تو امام حسینؑ بھائی کی لاش پر حاضر ہوئے اور بہت روئے اور فرمایا: {{حدیث|اَلآنَ اِنکَسَرَ ظَهری وَ قَلَّت حیلَتی}}: اب میری کمر ٹوٹ گئی اور چارہ جوئی کم ہوگئی۔<ref>المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۳. </ref>
بعض گزارشات نے لکھا ہے کہ جب عباسؑ شہید ہوئے تو امام حسینؑ بھائی کی لاش پر حاضر ہوئے اور بہت روئے اور فرمایا: {{حدیث|اَلآنَ اِنکَسَرَ ظَهری وَ قَلَّت حیلَتی}}: اب میری کمر ٹوٹ گئی اور چارہ جوئی کم ہوگئی۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴؛ خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۳. </ref>




== فضائل اور خصوصیات ==
== فضائل اور خصوصیات ==
بعض نے حضرت عباس کی خصوصیات میں سے سب سے اہم خصوصیت [[امام علی علیه السلام|امام علیؑ]]، [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]]  کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو قرار دیا ہے۔<ref>المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۱-۱۲؛ کلباسی، خصائص العباسیه، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۷-۱۰۸؛ همان، ۱۲۳؛ همان، ۲۰۳؛ الموسوي المقرم، العبّاس(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۱۳۰</ref> اسی لئے روایات میں آیا ہے کہ عباسؑ نے ان سے علم کا فیض حاصل کیا ہے۔<ref>زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۶۶.</ref> بعض معتقد ہیں کہ اگرچہ حضرت عباسؑ چہادہ معصوم کے درجے میں نہیں ہیں لیکن آپ معصومین کے ان کے ساتھ سب سے نزدیک شخص ہیں اور انسانیت میں معصومین کے بعد دوسرے طبقے کے لوگوں میں سے ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: کلباسی، خصائص العباسیه، ۱۳۸۷ش، ص۱۲۳؛ بهشتی، قهرمان علقمه،‌۱۳۷۴ش، ص۱۰۳؛ همان، ۱۰۷.</ref>   
بعض نے حضرت عباس کی خصوصیات میں سے سب سے اہم خصوصیت [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]]، [[امام حسنؑ]] اور [[امام حسینؑ]]  کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو قرار دیا ہے۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۱-۱۲؛ کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۷-۱۰۸؛ وہی حوالہ، ۱۲۳؛ وہی کتاب، ۲۰۳؛ الموسوي المقرم، العبّاس(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۱۳۰</ref> اسی لئے روایات میں آیا ہے کہ عباسؑ نے ان سے علم کا فیض حاصل کیا ہے۔<ref>زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۶۶.</ref> بعض معتقد ہیں کہ اگرچہ حضرت عباسؑ چہادہ معصوم کے درجے میں نہیں ہیں لیکن آپ معصومین کے ان کے ساتھ سب سے نزدیک شخص ہیں اور انسانیت میں معصومین کے بعد دوسرے طبقے کے لوگوں میں سے ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۲۳؛ بہشتی، قہرمان علقمہ،‌۱۳۷۴ش، ص۱۰۳؛ وہی کتاب، ۱۰۷.</ref>   


عباسؑ کی زندگی کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے کبھی بھی اپنے آپ کو اپنے بھائی امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے برابر نہیں سمجھا اور ہمیشہ ان کو اپنا امام سمجھتے تھے اور خود  ان کا مطیع اور فرماں بردار تھے۔<ref>مظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۳۵۵-۳۵۶؛ محمودی، ماه بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۹۷.</ref>  اور ہمیشہ اپنے بھائیوں کو «یابن رسول الله» یا «یا سیدی» اور اس جیسے دیگر الفاظ کے ذریعے پکارتے تھے۔ <ref>مظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۳۵۵-۳۵۶؛ بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۱-۷۳.</ref>
عباسؑ کی زندگی کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے کبھی بھی اپنے آپ کو اپنے بھائی امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے برابر نہیں سمجھا اور ہمیشہ ان کو اپنا امام سمجھتے تھے اور خود  ان کا مطیع اور فرماں بردار تھے۔<ref>مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۳۵۵-۳۵۶؛ محمودی، ماہ بی غروب، ۱۳۷۹ش، ص۹۷.</ref>  اور ہمیشہ اپنے بھائیوں کو «یابن رسول اللہ» یا «یا سیدی» اور اس جیسے دیگر الفاظ کے ذریعے پکارتے تھے۔ <ref>مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۳۵۵-۳۵۶؛ بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۱-۷۳.</ref>


=== ظاہری خصوصیات ===
=== ظاہری خصوصیات ===
کلباسی نے اپنی کتاب «[[خصائص العباسیه(کتاب)|خصائص العباسیه]]» لکھا ہے کہ حضرت عباسؑ حسین و خوبرو تھےاور اسی وجہ سے آپ کو قمر بنی ہاشم کہا جاتا تھا<ref>کلباسی، خصائص العباسیه، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۷-۱۰۹؛ المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۹۴</ref> تاریخی گزارشوں کے مطابق آپ بنی ہاشم کے خاص مردوں میں سے شمار ہوتے تھے اور آپ کا بدن مضبوط، لمبے قد کے تھے اس حد تک کہ گھوڑے پر سوار ہوتے تو پاوں زمین تک پہنچ جاتے تھے۔<ref>طعمه، تاريخ مرقد الحسين و العباس،١۴١۶ق، ص۲۳۶؛ المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۹۴.</ref>
کلباسی نے اپنی کتاب «[[خصائص العباسیہ(کتاب)|خصائص العباسیہ]]» لکھا ہے کہ حضرت عباسؑ حسین و خوبرو تھےاور اسی وجہ سے آپ کو قمر بنی ہاشم کہا جاتا تھا<ref>کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۷-۱۰۹؛ المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۹۴</ref> تاریخی گزارشوں کے مطابق آپ بنی ہاشم کے خاص مردوں میں سے شمار ہوتے تھے اور آپ کا بدن مضبوط، لمبے قد کے تھے اس حد تک کہ گھوڑے پر سوار ہوتے تو پاوں زمین تک پہنچ جاتے تھے۔<ref>طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس،١۴١۶ق، ص۲۳۶؛ المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۹۴.</ref>
کلباسی کے کہنے کے مطابق ایک اور خصوصیت حضرت عباسؑ کی جس کی دوست اور دشمن سب نے تعریف کی ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا ہے وہ آپ کی شجاعت ہے۔<ref>کلباسی، خصائص العباسیه، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹.</ref>بعض نے حضرت عباسؑ کے جود و کرم کو بھی بیان کیا ہے جو ہر عام خاص کے لیے پسند تھی اور اس صفت میں آپ لوگوں کے لئے نمونہ عمل بن گئے تھے۔<ref>طعمه، تاريخ مرقد الحسين و العباس،١۴١۶ق، ص۲۳۶.</ref>
کلباسی کے کہنے کے مطابق ایک اور خصوصیت حضرت عباسؑ کی جس کی دوست اور دشمن سب نے تعریف کی ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کرسکتا ہے وہ آپ کی شجاعت ہے۔<ref>کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹.</ref>بعض نے حضرت عباسؑ کے جود و کرم کو بھی بیان کیا ہے جو ہر عام خاص کے لیے پسند تھی اور اس صفت میں آپ لوگوں کے لئے نمونہ عمل بن گئے تھے۔<ref>طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس،١۴١۶ق، ص۲۳۶.</ref>


===عباس کے مقام پر شہداء کا رشک===
===عباس کے مقام پر شہداء کا رشک===
عباسؑ کو روز عاشورا امام حسینؑ کے بزرگترین اصحاب میں سے شمار کیا ہے۔<ref>خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۵۹.</ref>آپ [[واقعه کربلا]] میں [[امام حسین علیه السلام|امام حسینؑ]] کی فوج کے علمدار تھے۔<ref>مراجعہ کریں: خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۳- ۱۲۶.</ref>امام حسینؑ نے حضرت عباس کے بارے میں «میری جان آپ پر فدا میرے بھائی» کا جملہ آپ کے بارے میں کہا<ref> مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۰</ref>اور اسی طرح آپ کی جسد پر روئے ہیں<ref>المظفر، موسوعه بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴.</ref> بعض ان کلمات اور حرکات کو شیعوں کے تیسرے امام کے ہاں آپ کی عظمت اور اعلی مرتبے کی علامت سمجھتے ہیں۔
عباسؑ کو روز عاشورا امام حسینؑ کے بزرگترین اصحاب میں سے شمار کیا ہے۔<ref>خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۵۹.</ref>آپ [[واقعہ کربلا]] میں [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کی فوج کے علمدار تھے۔<ref>مراجعہ کریں: خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۳- ۱۲۶.</ref>امام حسینؑ نے حضرت عباس کے بارے میں «میری جان آپ پر فدا میرے بھائی» کا جملہ آپ کے بارے میں کہا<ref> مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۰</ref>اور اسی طرح آپ کی جسد پر روئے ہیں<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۱۷۸؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج ۵، ص۹۸؛ الخوارزمی، مقتل الحسین (ع)، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۴.</ref> بعض ان کلمات اور حرکات کو شیعوں کے تیسرے امام کے ہاں آپ کی عظمت اور اعلی مرتبے کی علامت سمجھتے ہیں۔
بہشت میں حضرت عباس کے مقام کے بارے میں احادیث میں تاکید ہوئی ہے اور [[امام سجاد علیه السلام|امام سجادؑ]] نے جب حضرت عباس کے بیٹے [[عبیدالله بن عباس بن علی|عبیدالله]] کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں جارے ہوئے اور فرمایا"بےشک خدا کی بارگاہ میں عباسؑ کو وہ مرتبت و منزلت ملی ہے کہ تمام شہداء روز قیامت آپ کا مقام دیکھ کر رشک و غبطہ کرتے ہیں [اور اس مقام کے حصول کی آرزو کرتے ہیں]۔<ref>شیخ صدوق، خصال، ۱۴۱۰ق، ص۶۸</ref>بعض نے نقل کیا ہے کہ واقعہ عاشورا کے بعد [[بنی‌اسد|بنی اسد]] نے [[امام سجاد علیه السلام|امام سجادؑ]] کے ساتھ [[شهداے کربلا]] کی تمام لاشوں کو دفنایا لیکن صرف امام حسینؑ اور حضرت عباسؑ کی لاشوں کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ان دو شہیدوں کو دفن کرنے کے لیے میری کچھ اور لوگ مدد کرینگے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔<ref> بهشتی، قهرمان علقمه، ۱۳۷۴ش، ص۶۵.</ref>
بہشت میں حضرت عباس کے مقام کے بارے میں احادیث میں تاکید ہوئی ہے اور [[امام سجاد علیہ السلام|امام سجادؑ]] نے جب حضرت عباس کے بیٹے [[عبیداللہ بن عباس بن علی|عبیداللہ]] کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں جارے ہوئے اور فرمایا"بےشک خدا کی بارگاہ میں عباسؑ کو وہ مرتبت و منزلت ملی ہے کہ تمام شہداء روز قیامت آپ کا مقام دیکھ کر رشک و غبطہ کرتے ہیں [اور اس مقام کے حصول کی آرزو کرتے ہیں]۔<ref>شیخ صدوق، خصال، ۱۴۱۰ق، ص۶۸</ref>بعض نے نقل کیا ہے کہ واقعہ عاشورا کے بعد [[بنی‌اسد|بنی اسد]] نے [[امام سجاد علیہ السلام|امام سجادؑ]] کے ساتھ [[شہداے کربلا]] کی تمام لاشوں کو دفنایا لیکن صرف امام حسینؑ اور حضرت عباسؑ کی لاشوں کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ان دو شہیدوں کو دفن کرنے کے لیے میری کچھ اور لوگ مدد کرینگے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔<ref> بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۶۵.</ref>


[[امام صادق علیه السلام|امام صادقؑ]] سے منقول ہے کہ ہمارے چچا عباس بصیرت شعار، دوراندیش، مضبوط ایمان کا حامل، جانباز اور ایثار کی حد تک امام حسینؑ کی رکاب میں جہاد کرنے والا۔ اور یہ بھی نقل ہوا ہے کہ ہمارے چچا عباس، دور اندیش، مضبوط ایمان کے حامل تھے اور امام حسینؑ کی رکاب میں جہاد کیا اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔<ref>کلباسی، خصائص العباسیه، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹. ابن عنبه، عمده الطالب ۱۳۸۱ق، ص ۳۵۶.</ref>آپ سے ایک اور روایت میں یوں نقل ہوا ہے کہ  
[[امام صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] سے منقول ہے کہ ہمارے چچا عباس بصیرت شعار، دوراندیش، مضبوط ایمان کا حامل، جانباز اور ایثار کی حد تک امام حسینؑ کی رکاب میں جہاد کرنے والا۔ اور یہ بھی نقل ہوا ہے کہ ہمارے چچا عباس، دور اندیش، مضبوط ایمان کے حامل تھے اور امام حسینؑ کی رکاب میں جہاد کیا اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔<ref>کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹. ابن عنبہ، عمدہ الطالب ۱۳۸۱ق، ص ۳۵۶.</ref>آپ سے ایک اور روایت میں یوں نقل ہوا ہے کہ  


اللہ رحمت کرے میرے چچا عباس بن علیؑ پر، جنہوں نے ایثار اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا اور اپنی جان اپنے بھائی (امام حسینؑ) پر قربان کردی حتی کہ دشمنوں نے ان کے دونوں ہاتھ قلم کردیئے چناچہ خداوند متعال نے ہاتھوں کے بدلے انہیں دو شہ پر عطا کئے جن کے ذریعے وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں۔<ref>شیخ صدوق، خصال، ۱۴۱۰ق، ص۶۸. کلباسی، خصائص العباسیه، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹. </ref>
اللہ رحمت کرے میرے چچا عباس بن علیؑ پر، جنہوں نے ایثار اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا اور اپنی جان اپنے بھائی (امام حسینؑ) پر قربان کردی حتی کہ دشمنوں نے ان کے دونوں ہاتھ قلم کردیئے چناچہ خداوند متعال نے ہاتھوں کے بدلے انہیں دو شہ پر عطا کئے جن کے ذریعے وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں۔<ref>شیخ صدوق، خصال، ۱۴۱۰ق، ص۶۸. کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹. </ref>


بعض کا کہنا ہے کہ [[زیارت ناحیه مقدسه]] میں آپ کے بارے میں جو کلمات موجود ہیں وہ امام زمانہ کی نظر میں آپ کی عظمت کو بیان کرتی ہیں۔<ref>دیکھیں: خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۳- ۱۲۶.</ref>
بعض کا کہنا ہے کہ [[زیارت ناحیہ مقدسہ]] میں آپ کے بارے میں جو کلمات موجود ہیں وہ امام زمانہ کی نظر میں آپ کی عظمت کو بیان کرتی ہیں۔<ref>دیکھیں: خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۳- ۱۲۶.</ref>


==معیت امام حسن ==
==معیت امام حسن ==
سطر 136: سطر 136:
حضرت عباسؑ [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسنؑ]] کے دور امامت میں آپؑ کی خدمت میں پا برکاب تھے اور [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسنؑ]] کو درپیش معاویہ اور اس کے کارگزاروں کی جانب سے مسلسل مخالفتوں اور دشمنیوں اور سازشوں کے باوجود ـ جو ہر وقت [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|آپؑ]] کے لئے خطرات کا سبب تھیں ـ عباسؑ پوری قوت سے بھائی کی حفاظت میں کوشاں رہے۔ عباسؑ اپنے بھائی [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسنؑ]] کے دور میں [[شیعیان آل رسولؐ]] اور امام کے درمیان واسطہ تھا جو غریبوں اور محتاجوں کو اپنے بھائی کے الطاف و عنایات سے بہرہ مند کرتے رہتے تھے۔ سائلین اور غرباء و مساکین ـ جو اپنی حاجتیں [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسنؑ]] کے پاس لے آتے تھے ـ اپنے مسائل [[عباسؑ|باب الحوائج]] کے سامنے بیان کرتے تھے اور آپ ان کے مسائل بھائی [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسنؑ]] کے لئے بیان کرتے تھے اور ان کے سلسلے میں بھائی کے جاری کردہ حکم پر عمل کرتے تھے۔
حضرت عباسؑ [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسنؑ]] کے دور امامت میں آپؑ کی خدمت میں پا برکاب تھے اور [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسنؑ]] کو درپیش معاویہ اور اس کے کارگزاروں کی جانب سے مسلسل مخالفتوں اور دشمنیوں اور سازشوں کے باوجود ـ جو ہر وقت [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|آپؑ]] کے لئے خطرات کا سبب تھیں ـ عباسؑ پوری قوت سے بھائی کی حفاظت میں کوشاں رہے۔ عباسؑ اپنے بھائی [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسنؑ]] کے دور میں [[شیعیان آل رسولؐ]] اور امام کے درمیان واسطہ تھا جو غریبوں اور محتاجوں کو اپنے بھائی کے الطاف و عنایات سے بہرہ مند کرتے رہتے تھے۔ سائلین اور غرباء و مساکین ـ جو اپنی حاجتیں [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسنؑ]] کے پاس لے آتے تھے ـ اپنے مسائل [[عباسؑ|باب الحوائج]] کے سامنے بیان کرتے تھے اور آپ ان کے مسائل بھائی [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسنؑ]] کے لئے بیان کرتے تھے اور ان کے سلسلے میں بھائی کے جاری کردہ حکم پر عمل کرتے تھے۔


نیز، جس وقت [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسنؑ]] اسلام دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور دشمنوں نے آپ کے جسم مبارک کو [[مدینہ]] میں تیروں کا نشانہ بنایا گیا، علوی و ہاشمی غیرت نے عباسؑ کا ہاتھ تلوار کے قبضے تک پہنچا دیا؛ لیکن آپ کو اپنے شہید بھائی کی بات یاد آئی چنانچہ امام وقت کی خالص پیروی ـ جو آپ کی زندگی میں حرف اول تھی ـ نے آپ کو صبر و حلم کی دعوت دی۔<ref> سپهسالار عشق، ص47 </ref>
نیز، جس وقت [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسنؑ]] اسلام دشمنوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور دشمنوں نے آپ کے جسم مبارک کو [[مدینہ]] میں تیروں کا نشانہ بنایا گیا، علوی و ہاشمی غیرت نے عباسؑ کا ہاتھ تلوار کے قبضے تک پہنچا دیا؛ لیکن آپ کو اپنے شہید بھائی کی بات یاد آئی چنانچہ امام وقت کی خالص پیروی ـ جو آپ کی زندگی میں حرف اول تھی ـ نے آپ کو صبر و حلم کی دعوت دی۔<ref> سپہسالار عشق، ص47 </ref>


یقینا [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبیؑ]] کے حضور حضرت عباسؑ کے فعال کردار کا بہترین گواہ [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] کا قول ہے؛ امام نے حضرت عباسؑ کے زيارتنامے میں فرمایا: [سلام ہو آپ پر اے اللہ کے صالح بندے اور اس کے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]، [[امام علی علیہ السلام|امیر المؤمنین]]، [[امام حسن علیہ السلام|حسن]] اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] ـ صلی اللہ علیہم _ کے مطیع و فرمانبردار۔<ref> کامل الزیارات، ص786 </ref>
یقینا [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبیؑ]] کے حضور حضرت عباسؑ کے فعال کردار کا بہترین گواہ [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] کا قول ہے؛ امام نے حضرت عباسؑ کے زيارتنامے میں فرمایا: [سلام ہو آپ پر اے اللہ کے صالح بندے اور اس کے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]، [[امام علی علیہ السلام|امیر المؤمنین]]، [[امام حسن علیہ السلام|حسن]] اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] ـ صلی اللہ علیہم _ کے مطیع و فرمانبردار۔<ref> کامل الزیارات، ص786 </ref>
سطر 142: سطر 142:
== حضرت عباس اور عاشورا ==
== حضرت عباس اور عاشورا ==
===  پیغام رسانی ===
===  پیغام رسانی ===
[[تاسوعا|نویں محرم]] کے دن یا اسی دن رات کے وقت جب [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] لشکر اشقیاء کے سامنے کھڑے ہوکر آواز دی: اے خدا کے فوجیو!! اپنی سواریوں پر بیٹھ جاؤ اور جنت کی بشارت وصول کرو! ۔<ref>[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کی دنیا پرستی کا قصہ متواتر ہے چنانچہ وہ رے اور ہمدان کی حکومت پانے کے لئے کربلا آیا تھا اور اس کے اس اقدام کے کوئی دینی اور مذہبی محرکات نہ تھے۔ چنانچہ وہ نہ اپنے آپ کو اور نہ ہی اپنے لشکر کو اللہ کا لشکر نہیں سمجھتا تھا لیکن اموی روایت کی پیروی کرتے ہوئے اس نے اپنی سپاہ کو جنت کی بشارت دی جبکہ اس کو اپنے اور اپنی سپاہ کے انجام بخیر نہ ہونے کا یقین تھا۔ روایت ہے کہ جب ابن زياد نے اس کو امام حسینؑ کے قتل کا حکم دیا تو اس نے ابتداء میں انکار کیا لیکن جب ابن زياد نے دھمکی دی کہ اسے رے اور ہمدان کی حکومت نہ ملے گی [یا بروایتے اگر اطاعت کرے تو اسے رے و ہمدان کی حکومت ملے گی] تو اس نے سرتسلیم خم کیا کاتب رجوع کریں: واقدی، محمد بن سعد بن منیع‏، الطبقات الکبری‏، ج 5، ص 128، دار الکتب العلمیة، بیروت، چاپ دوم، 1418ہجری۔</ref> تو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے حضرت عباسؑ کو ہدایت کی کہ جاکر دشمن کے حملے کو کل ([[روز عاشورا|عاشورا]]) تک مؤخر کروائیں چنانچہ آپ دشمن کی لشکرگاہ میں جاکر ایک رات مہلت لینے میں کامیاب ہوئے اور جنگ مؤخر ہوئی؛<ref> الإرشاد، ص335/ مناقب آل‏ ابی ‏طالب، ج4، ص98/ بحارالأنوار، ج44، ص391/طبرسی، اعلام الوری، ج1ص454و455/ تاریخ الطبری، ج5، ص416/ اعیان الشیعة، ج7، ص430/ سید عبدالرزاق مقرم لکھتے ہیں: [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے حضرت ابوالفضلؑ سے کہا: اس قوم سے کہہ دو کہ [[شب عاشورا]] مجھے مہلت دے کیونکہ خدا جانتا ہے کہ '''"إني أُحِبُّ الصلوة له"''' یعنی میں اس کی بارگاہ میں نماز کو دوست رکھتا ہوں؛ اور [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] اور اصحاب و انصار نیز حرم کی خواتین نے وہ رات اللہ کی عبادت میں گذاری۔ رجوع کریں: سید عبدالرزاق مقرم موسوی، مقتل الحسينؑ، ص256۔</ref>
[[تاسوعا|نویں محرم]] کے دن یا اسی دن رات کے وقت جب [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] لشکر اشقیاء کے سامنے کھڑے ہوکر آواز دی: اے خدا کے فوجیو!! اپنی سواریوں پر بیٹھ جاؤ اور جنت کی بشارت وصول کرو! ۔<ref>[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کی دنیا پرستی کا قصہ متواتر ہے چنانچہ وہ رے اور ہمدان کی حکومت پانے کے لئے کربلا آیا تھا اور اس کے اس اقدام کے کوئی دینی اور مذہبی محرکات نہ تھے۔ چنانچہ وہ نہ اپنے آپ کو اور نہ ہی اپنے لشکر کو اللہ کا لشکر نہیں سمجھتا تھا لیکن اموی روایت کی پیروی کرتے ہوئے اس نے اپنی سپاہ کو جنت کی بشارت دی جبکہ اس کو اپنے اور اپنی سپاہ کے انجام بخیر نہ ہونے کا یقین تھا۔ روایت ہے کہ جب ابن زياد نے اس کو امام حسینؑ کے قتل کا حکم دیا تو اس نے ابتداء میں انکار کیا لیکن جب ابن زياد نے دھمکی دی کہ اسے رے اور ہمدان کی حکومت نہ ملے گی [یا بروایتے اگر اطاعت کرے تو اسے رے و ہمدان کی حکومت ملے گی] تو اس نے سرتسلیم خم کیا کاتب رجوع کریں: واقدی، محمد بن سعد بن منیع‏، الطبقات الکبری‏، ج 5، ص 128، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، چاپ دوم، 1418ہجری۔</ref> تو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے حضرت عباسؑ کو ہدایت کی کہ جاکر دشمن کے حملے کو کل ([[روز عاشورا|عاشورا]]) تک مؤخر کروائیں چنانچہ آپ دشمن کی لشکرگاہ میں جاکر ایک رات مہلت لینے میں کامیاب ہوئے اور جنگ مؤخر ہوئی؛<ref> الإرشاد، ص335/ مناقب آل‏ ابی ‏طالب، ج4، ص98/ بحارالأنوار، ج44، ص391/طبرسی، اعلام الوری، ج1ص454و455/ تاریخ الطبری، ج5، ص416/ اعیان الشیعۃ، ج7، ص430/ سید عبدالرزاق مقرم لکھتے ہیں: [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے حضرت ابوالفضلؑ سے کہا: اس قوم سے کہہ دو کہ [[شب عاشورا]] مجھے مہلت دے کیونکہ خدا جانتا ہے کہ '''"إني أُحِبُّ الصلوۃ لہ"''' یعنی میں اس کی بارگاہ میں نماز کو دوست رکھتا ہوں؛ اور [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] اور اصحاب و انصار نیز حرم کی خواتین نے وہ رات اللہ کی عبادت میں گذاری۔ رجوع کریں: سید عبدالرزاق مقرم موسوی، مقتل الحسينؑ، ص256۔</ref>


=== خیام کی حفاظت ===
=== خیام کی حفاظت ===
سطر 173: سطر 173:


=== زیارت‌ نامے===
=== زیارت‌ نامے===
«پژوهشی در سیره و سیمای عباس بن علی» نامی کتاب اور بعض دیگر کتابوں کے مطابق حضرت عباس کے لیے 11 زیارت نامے ذکر ہوئے ہیں۔<ref>مراجعہ کریں:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۱۸۱-۳۲۱</ref>البتہ ان میں سے بعض زیارت نامے باقی زیارت ناموں کو خلاصہ کر کے لکھا ہے۔<ref>مراجعہ کریں:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۳۲۱</ref> ان میں سے تین زیارت امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔<ref>مراجعہ کریں:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۲۸۲، ۳۰۴، ۳۰۵</ref>اور بعض کا کسی معصوم سے نقل ہونے کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔<ref>مراجعہ کریں:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۳۱۷</ref>
«پژوہشی در سیرہ و سیمای عباس بن علی» نامی کتاب اور بعض دیگر کتابوں کے مطابق حضرت عباس کے لیے 11 زیارت نامے ذکر ہوئے ہیں۔<ref>مراجعہ کریں:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۱۸۱-۳۲۱</ref>البتہ ان میں سے بعض زیارت نامے باقی زیارت ناموں کو خلاصہ کر کے لکھا ہے۔<ref>مراجعہ کریں:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۳۲۱</ref> ان میں سے تین زیارت امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہیں۔<ref>مراجعہ کریں:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۲۸۲، ۳۰۴، ۳۰۵</ref>اور بعض کا کسی معصوم سے نقل ہونے کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔<ref>مراجعہ کریں:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۳۱۷</ref>


ان زیارت ناموں میں سے بعض میں آپ کی تعریف و تمجید کے کلمات آئے ہیں جیسے عبد صالح، پیغمبر اکرمؐ کے جانشین کا مطیع اور ان کی تصدیق کرنے والا اور وفادار نیز اللہ، رسولؐ اور ائمہ کا مطبع قرار دیا ہے۔ اور بدریوں اور مجاہدوں کی طرح اللہ کی راہ میں کام کیا ہے۔<ref>رک:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۲۸۳</ref>
ان زیارت ناموں میں سے بعض میں آپ کی تعریف و تمجید کے کلمات آئے ہیں جیسے عبد صالح، پیغمبر اکرمؐ کے جانشین کا مطیع اور ان کی تصدیق کرنے والا اور وفادار نیز اللہ، رسولؐ اور ائمہ کا مطبع قرار دیا ہے۔ اور بدریوں اور مجاہدوں کی طرح اللہ کی راہ میں کام کیا ہے۔<ref>رک:خرمیان، ابوالفضل العباس، ص۲۸۳</ref>


=== کرامات===
=== کرامات===
حضرت عباسؑ کی بہت ساری کرامات شیعوں کے ہاں مشہور ہیں اور آپ سے متوسل ہوکر بیماروں کی شفایابی اور  دیگر مشکلات حل ہونے کے بارے میں متعدد واقعات لوگوں کے درمیان مشہور ہیں۔ "در کنار علقمه کرامات العباسیه" نامی کتاب میں آپ کی کرامات کے بارے میں 72 قصے جمع کیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: محمودی، در کنار علقمه، ۱۳۷۹ش</ref> ربانی خلخالی نے بھی کتاب «چهره درخشان قمر بنی‌هاشم» میں حضرت عباسؑ کی تقریبا 800 [[کرامت]] جمع کیا ہے۔ انہوں نے کتاب کی ہر جلد میں 250 واقعات نقل کی ہے۔ (البتہ ان میں سے بعض واقعات مکرر نقل ہوئی ہیں۔) ان واقعات کے درمیان بعض واقعات شیعوں کے علاوہ دیگر ادیان اور مذاہب کے لوگوں جیسے اهل سنت، مسیحی، کلیمی اور زرتشتیوں کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہیں<ref>مراجعہ کریں: ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی‌هاشم، ۱۳۸۰ش.</ref>ان کرامات میں سے بعض کرامات مختلف لوگوں کا آپ سے متوسل ہونے اور برجستہ علماء کرام کا متوسل ہونے کے بارے میں ذکر ہوئی ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی‌هاشم، ۱۳۸۰ش.</ref>
حضرت عباسؑ کی بہت ساری کرامات شیعوں کے ہاں مشہور ہیں اور آپ سے متوسل ہوکر بیماروں کی شفایابی اور  دیگر مشکلات حل ہونے کے بارے میں متعدد واقعات لوگوں کے درمیان مشہور ہیں۔ "در کنار علقمہ کرامات العباسیہ" نامی کتاب میں آپ کی کرامات کے بارے میں 72 قصے جمع کیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: محمودی، در کنار علقمہ، ۱۳۷۹ش</ref> ربانی خلخالی نے بھی کتاب «چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم» میں حضرت عباسؑ کی تقریبا 800 [[کرامت]] جمع کیا ہے۔ انہوں نے کتاب کی ہر جلد میں 250 واقعات نقل کی ہے۔ (البتہ ان میں سے بعض واقعات مکرر نقل ہوئی ہیں۔) ان واقعات کے درمیان بعض واقعات شیعوں کے علاوہ دیگر ادیان اور مذاہب کے لوگوں جیسے اہل سنت، مسیحی، کلیمی اور زرتشتیوں کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہیں<ref>مراجعہ کریں: ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم، ۱۳۸۰ش.</ref>ان کرامات میں سے بعض کرامات مختلف لوگوں کا آپ سے متوسل ہونے اور برجستہ علماء کرام کا متوسل ہونے کے بارے میں ذکر ہوئی ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم، ۱۳۸۰ش.</ref>


==شیعہ ثقافت اور عباسؑ==
==شیعہ ثقافت اور عباسؑ==
سطر 184: سطر 184:


=== آپ سے توسل===
=== آپ سے توسل===
بعض کا کہنا ہے کہ حضرتؑ عباس کے ساتھ شیعوں کی شدید محبت اور عشق واضح ہے اور اسی وجہ اکثر لوگ اپنی حاجات پوری ہونے کے لیے ائمہؑ سے بھی زیادہ عباسؑ سے متوسل ہوتے ہیں۔.<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ص۱۴۹؛ کلباسی، خصائص العباسیه، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۳-۲۱۴.</ref> بعض نے آپؑ کی [[اهل‌سنت]]، [[مسیحیت|مسیحی]]، [[کلیمی]] اور [[ارمنی]] لوگوں کو ہونے والی بعض کرامات بیان کر کے یہ دعوا کرتے ہیں کہ وہ لوگ بھی آپ سے متوسل ہوتے ہیںـ.<ref>ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۶۷؛ کلباسی، خصائص العباسیه، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۴</ref>
بعض کا کہنا ہے کہ حضرتؑ عباس کے ساتھ شیعوں کی شدید محبت اور عشق واضح ہے اور اسی وجہ اکثر لوگ اپنی حاجات پوری ہونے کے لیے ائمہؑ سے بھی زیادہ عباسؑ سے متوسل ہوتے ہیں۔.<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ص۱۴۹؛ کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۳-۲۱۴.</ref> بعض نے آپؑ کی [[اہل‌سنت]]، [[مسیحیت|مسیحی]]، [[کلیمی]] اور [[ارمنی]] لوگوں کو ہونے والی بعض کرامات بیان کر کے یہ دعوا کرتے ہیں کہ وہ لوگ بھی آپ سے متوسل ہوتے ہیںـ.<ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۶۷؛ کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۲۱۴</ref>
=== آپ سے منسوب عزاداری ===
=== آپ سے منسوب عزاداری ===
محرم الحرام کے ابتدائی دس دنوں میں جہاں عزاداری ہوتی ہے ان میں سے ایک دن آپؑ کی عزاداری سے خاص ہے۔ اکثر جگہوں پر نو محرم کو [[روز تاسوعا]] کے عنوان سے حضرت عباس کے لیے [[عزاداری]]  کے ساتھ مختص کرتے ہیں۔ لیکن برصغیر کے بعض علاقوں میں آٹھ محرم الحرام کا دن آپ کے ساتھ خاص ہے۔ <ref>حسام مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۱۱۰-۱۱۱</ref>  
محرم الحرام کے ابتدائی دس دنوں میں جہاں عزاداری ہوتی ہے ان میں سے ایک دن آپؑ کی عزاداری سے خاص ہے۔ اکثر جگہوں پر نو محرم کو [[روز تاسوعا]] کے عنوان سے حضرت عباس کے لیے [[عزاداری]]  کے ساتھ مختص کرتے ہیں۔ لیکن برصغیر کے بعض علاقوں میں آٹھ محرم الحرام کا دن آپ کے ساتھ خاص ہے۔ <ref>حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۱۱۰-۱۱۱</ref>  


*[[یوم العباس زنجان]]: ہر سال آٹھ محرم کے عصر کو بہت سارے عزادار [[حسینیه اعظم زنجان]] سے امامزاده سید ابراهیم تک ایران کے شہر زنجان میں جمع ہوتے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق 2016ء کو 9700 دنبے اور 2015 کو 12000 دنبے ذبح ہوگئے جنہیں لوگوں نے نذر کیا تھا بعض کا ادعا ہے کہ اس عزاداری میں تقریبا 5 لاکھ لوگ جمع ہوتے ہیں اور یہ عزاداری ایرانی ایک معنوی میراث کے نام سے ثبت ہوچکی ہے۔ <ref>[http://www.yjc.ir/fa/news/6258117/%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%A8%D8%A7%D8%B3-%D8%AF%D8%B1-%D8%B2%D9%86%D8%AC%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D8%B2%D8%B1%DA%AF%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D9%85%DB%8C%D8%B9%D8%A7%D8%AF%DA%AF%D8%A7%D9%87-%D8%B9%D8%A7%D8%B4%D9%82%D8%A7%D9%86-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86%DB%8C-%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%D8%B4%D9%88%D8%B1 باشگاه خبرنگاران جوان، ۱۳۹۶/۷/۷، خبر شماره ۶۲۵۸۱۱۷]</ref>
*[[یوم العباس زنجان]]: ہر سال آٹھ محرم کے عصر کو بہت سارے عزادار [[حسینیہ اعظم زنجان]] سے امامزادہ سید ابراہیم تک ایران کے شہر زنجان میں جمع ہوتے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق 2016ء کو 9700 دنبے اور 2015 کو 12000 دنبے ذبح ہوگئے جنہیں لوگوں نے نذر کیا تھا بعض کا ادعا ہے کہ اس عزاداری میں تقریبا 5 لاکھ لوگ جمع ہوتے ہیں اور یہ عزاداری ایرانی ایک معنوی میراث کے نام سے ثبت ہوچکی ہے۔ <ref>[http://www.yjc.ir/fa/news/6258117/%DB%8C%D9%88%D9%85-%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%A8%D8%A7%D8%B3-%D8%AF%D8%B1-%D8%B2%D9%86%D8%AC%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D8%B2%D8%B1%DA%AF%D8%AA%D8%B1%DB%8C%D9%86-%D9%85%DB%8C%D8%B9%D8%A7%D8%AF%DA%AF%D8%A7%D9%87-%D8%B9%D8%A7%D8%B4%D9%82%D8%A7%D9%86-%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86%DB%8C-%D8%AF%D8%B1-%DA%A9%D8%B4%D9%88%D8%B1 باشگاہ خبرنگاران جوان، ۱۳۹۶/۷/۷، خبر شمارہ ۶۲۵۸۱۱۷]</ref>


=== کاشف الکرب کا ذکر ===
=== کاشف الکرب کا ذکر ===
«یا کاشفَ الکَرْبِ عنْ وَجهِ الْحُسَین اِکْشِفْ کَرْبی بِحَقِّ أَخیکَ الحُسَین» کا ذکر حضرت عباس سے متوسل ہونے کے لیے مشہور ذکر ہے اور بعض دفعہ اس ذکر کو 133 مرتبہ پڑھنے کی تجویز دی جاتی ہے۔ <ref>ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی‌هاشم، ج۲، ص۳۲۶</ref> یہ ذکر حدیث کی شیعہ کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے۔  
«یا کاشفَ الکَرْبِ عنْ وَجهِ الْحُسَین اِکْشِفْ کَرْبی بِحَقِّ أَخیکَ الحُسَین» کا ذکر حضرت عباس سے متوسل ہونے کے لیے مشہور ذکر ہے اور بعض دفعہ اس ذکر کو 133 مرتبہ پڑھنے کی تجویز دی جاتی ہے۔ <ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم، ج۲، ص۳۲۶</ref> یہ ذکر حدیث کی شیعہ کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے۔  
===  دیگر رسومات ===
===  دیگر رسومات ===
#'''[علم نکالنا:''' امام حسین کی عزاداری میں جناب عباس کی یاد میں علم نکالا جاتا ہے۔ <ref>حسام مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۵۴-۳۵۶.</ref>
#'''[علم نکالنا:''' امام حسین کی عزاداری میں جناب عباس کی یاد میں علم نکالا جاتا ہے۔ <ref>حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۳۵۴-۳۵۶.</ref>
#'''[[سقایی]]:''' جسے اردو میں "سبیل" کہا جاتا ہے اور عزاداری کے ایام میں جلوس میں آنے والوں کو پانی اور شربت سے سیراب کیا جاتا ہے۔ <ref>حسام مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۲۸۱-۲۸۳؛ ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ۱۳۸۶ش، ج۳، ص۱۸۲-۲۱۳.</ref> اور سبیلیں لگانا ان ممالک میں رائج ہے جہاں شیعہ بستے ہیں اور عزاداری برپا کرتے ہیں۔<ref>ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ۱۳۸۶ش، ج۳، ص۱۸۲-۲۱۳.</ref>
#'''[[سقایی]]:''' جسے اردو میں "سبیل" کہا جاتا ہے اور عزاداری کے ایام میں جلوس میں آنے والوں کو پانی اور شربت سے سیراب کیا جاتا ہے۔ <ref>حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۲۸۱-۲۸۳؛ ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۳، ص۱۸۲-۲۱۳.</ref> اور سبیلیں لگانا ان ممالک میں رائج ہے جہاں شیعہ بستے ہیں اور عزاداری برپا کرتے ہیں۔<ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۳، ص۱۸۲-۲۱۳.</ref>
#حضرت عباس کی [[قسم]] کھانا: عباس کے نام کھانا شیعہ اور بعض اہل سنت کے ہاں بھی مرسوم ہے یہاں تک کہ بعض نے نقل کیا ہے کہ بعض شیعہ اختلافات کو ختم کرنے کے لیے حضرت عباس کی قسم کھاتے ہیں۔ اور بعض شیعہ اپنے قرارداد، عہد و پیمان کو حضرت عباسؑ کی قسم سے تضمین کرتے ہیں۔ بعض نے آپ کے نام قسم کھانے کی وجہ آپؑ کی شجاعت، وفاداری، غیرت، ادب اور جوانمردی بیان کیا ہے۔<ref>میردریکوندی، دریای تشنه؛ تشنه دریا، ۱۳۸۲ش، ص۱۱۱-۱۱۳.</ref> البتہ آپ کے نام قسم کھانا عراق کے بعض اہل سنت کے ہاں بھی بہت رائج ہے، کہا جاتا ہے کہ حردان تکریتی سابق وزیر دفاع عراق سے نقل کیا ہے کہ احمد حسن البکر (عراق کا سابق صدر)، صدام اور بعض دیگر لوگ ایک عہد باندھنا چاہتے تھے اور اس عہدو پیمان کی مضبوط کرنے اور خیانت سے بچنے کےلیے قسم کھانے کا کہا۔ اور قسم کھانے کے لیے بعض نے ابوحنیفہ کے محل دفن کی تجویز دی لیکن آخر کار قسم کھانے حضرت عباس کے حرم جاکر وہاں قسم کھانا طے ہوا۔<ref>التكريتي، مذكرات حردان التكريتي،۱۹۷۱م، ص۵. </ref>  
#حضرت عباس کی [[قسم]] کھانا: عباس کے نام کھانا شیعہ اور بعض اہل سنت کے ہاں بھی مرسوم ہے یہاں تک کہ بعض نے نقل کیا ہے کہ بعض شیعہ اختلافات کو ختم کرنے کے لیے حضرت عباس کی قسم کھاتے ہیں۔ اور بعض شیعہ اپنے قرارداد، عہد و پیمان کو حضرت عباسؑ کی قسم سے تضمین کرتے ہیں۔ بعض نے آپ کے نام قسم کھانے کی وجہ آپؑ کی شجاعت، وفاداری، غیرت، ادب اور جوانمردی بیان کیا ہے۔<ref>میردریکوندی، دریای تشنہ؛ تشنہ دریا، ۱۳۸۲ش، ص۱۱۱-۱۱۳.</ref> البتہ آپ کے نام قسم کھانا عراق کے بعض اہل سنت کے ہاں بھی بہت رائج ہے، کہا جاتا ہے کہ حردان تکریتی سابق وزیر دفاع عراق سے نقل کیا ہے کہ احمد حسن البکر (عراق کا سابق صدر)، صدام اور بعض دیگر لوگ ایک عہد باندھنا چاہتے تھے اور اس عہدو پیمان کی مضبوط کرنے اور خیانت سے بچنے کےلیے قسم کھانے کا کہا۔ اور قسم کھانے کے لیے بعض نے ابوحنیفہ کے محل دفن کی تجویز دی لیکن آخر کار قسم کھانے حضرت عباس کے حرم جاکر وہاں قسم کھانا طے ہوا۔<ref>التكريتي، مذكرات حردان التكريتي،۱۹۷۱م، ص۵. </ref>  
#[[نذر عباس]]: نذر عباس اس کھانے کو کہا جاتا ہے جو حضرت عباس کے نام دیا جاتا ہے جس میں بعض جگہوں پر مخصوص ذکر بھی پڑھتے ہیں۔ <ref>حسام مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۲۷۴-۲۷۵.</ref>
#[[نذر عباس]]: نذر عباس اس کھانے کو کہا جاتا ہے جو حضرت عباس کے نام دیا جاتا ہے جس میں بعض جگہوں پر مخصوص ذکر بھی پڑھتے ہیں۔ <ref>حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۲۷۴-۲۷۵.</ref>
#[[عباسیہ]] یا بیت العباس: اس مکان کو کہا جاتا ہے جو حضرت عباس کے نام پر بنایا جاتا ہے اور وہاں عزاداری کی جاتی ہے۔ اور یہ جگہے امام بارگاہ اور حسینیہ کی طرح عزاداری سے مخصوص ہیں۔<ref>ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۴۳-۲۵۸.</ref>  
#[[عباسیہ]] یا بیت العباس: اس مکان کو کہا جاتا ہے جو حضرت عباس کے نام پر بنایا جاتا ہے اور وہاں عزاداری کی جاتی ہے۔ اور یہ جگہے امام بارگاہ اور حسینیہ کی طرح عزاداری سے مخصوص ہیں۔<ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۴۳-۲۵۸.</ref>  
#روز جانباز: یا (غازیوں کا دن) ایرانی کلینڈر میں [[۳ شعبان|سوم شعبان]] روز ولادت حضرت عباسؑ کو غازیوں اور جنگی زخمیوں کا دن کا نام دیا ہے۔<ref>[http://www.iranculture.org/fa/simpleView.aspx?provID=948 مصوب جلسه ۳۸۵ شورای عالی انقلاب فرهنگی در تاریخ ۱۳۷۵/۷/۱۰.] </ref>
#روز جانباز: یا (غازیوں کا دن) ایرانی کلینڈر میں [[۳ شعبان|سوم شعبان]] روز ولادت حضرت عباسؑ کو غازیوں اور جنگی زخمیوں کا دن کا نام دیا ہے۔<ref>[http://www.iranculture.org/fa/simpleView.aspx?provID=948 مصوب جلسہ ۳۸۵ شورای عالی انقلاب فرہنگی در تاریخ ۱۳۷۵/۷/۱۰.] </ref>
#پنجہ: بعض شیعہ علاقوں میں پنجہ کو علم کے اوپر رکھا جاتا ہے جو حضرت عباسؑ کے کٹے ہوئے ہاتھوں کی نشانی ہے لیکن چونکہ پنجے میں پانچ انگلیاں ہیں تو بعض علاقوں میں اسے پنجتن پاک کی علامت سمجھتے ہیں۔ <ref> بلوکباشی، «مفاهیم و نمادگارها در طریقت قادری»، ص۱۰۰.</ref>
#پنجہ: بعض شیعہ علاقوں میں پنجہ کو علم کے اوپر رکھا جاتا ہے جو حضرت عباسؑ کے کٹے ہوئے ہاتھوں کی نشانی ہے لیکن چونکہ پنجے میں پانچ انگلیاں ہیں تو بعض علاقوں میں اسے پنجتن پاک کی علامت سمجھتے ہیں۔ <ref> بلوکباشی، «مفاہیم و نمادگارہا در طریقت قادری»، ص۱۰۰.</ref>


==آپ سے منسوب مکانات اور عمارتیں==
==آپ سے منسوب مکانات اور عمارتیں==
سطر 211: سطر 211:
===مقام کف العباس===
===مقام کف العباس===
{{اصلی|کف‌العباس}}
{{اصلی|کف‌العباس}}
مقام کف‌العباس ان دو جگہوں کا نام ہے جہاں حضرت عباسؑ کے بازو بدن سے جدا ہوکر زمین پر گرپڑے۔ یہ دونوں مقام حضرت عباس کی حرم کے شمال مشرق اور جنوب مشرق میں بازار کی دو گلیوں کی ابتدا میں واقع ہیں۔ ان دونوں مقامات پر مختصر مکان بنا ہے جہاں زوار زیارت کرنے جاتے ہیں۔<ref>علوی، راهنمای مصور سفر زیارتی عراق، ۱۳۹۱ش، ص۳۰۰</ref>
مقام کف‌العباس ان دو جگہوں کا نام ہے جہاں حضرت عباسؑ کے بازو بدن سے جدا ہوکر زمین پر گرپڑے۔ یہ دونوں مقام حضرت عباس کی حرم کے شمال مشرق اور جنوب مشرق میں بازار کی دو گلیوں کی ابتدا میں واقع ہیں۔ ان دونوں مقامات پر مختصر مکان بنا ہے جہاں زوار زیارت کرنے جاتے ہیں۔<ref>علوی، راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، ۱۳۹۱ش، ص۳۰۰</ref>


===قدم‌گاه‌، سقاخانه و سقانفار===
===قدم‌گاہ‌، سقاخانہ و سقانفار===
خلخالی کی رپورٹ کے مطابق ایران میں جناب عباسؑ کے مختلف [[قدمگاہ]] ہیں جو آپ سے منسوب ہیں اور ہمیشہ لوگ وہاں نذر و نیاز کرتے ہیں اور اپنی حاجات لینے جاتے ہیں اور اللہ کے حضور دعائیں مانگتے ہیں اور عبادت بجا لاتے ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۶۷-۲۷۴.</ref> ان قدمگاہوں میں [[سمنان]]، [[هویزه]]، [[بوشهر]] اور [[شیراز]] کے قدمگاہ شمار کئے جاتے ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۶۷-۲۷۴.</ref> خلخالی کا کہنا ہے کہ ایران کے شہر لار میں [[نظرگاہ]] پایا جاتا ہے جہاں پر وہاں کے اہل سنت باشندے ہر منگل کو اپنے گھروالوں کے ساتھ جاتے ہیں اور حاجات پوری ہونے کی نیت سے [[نذر]] و نیاز دیتے ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۶۷.</ref>
خلخالی کی رپورٹ کے مطابق ایران میں جناب عباسؑ کے مختلف [[قدمگاہ]] ہیں جو آپ سے منسوب ہیں اور ہمیشہ لوگ وہاں نذر و نیاز کرتے ہیں اور اپنی حاجات لینے جاتے ہیں اور اللہ کے حضور دعائیں مانگتے ہیں اور عبادت بجا لاتے ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۶۷-۲۷۴.</ref> ان قدمگاہوں میں [[سمنان]]، [[ہویزہ]]، [[بوشہر]] اور [[شیراز]] کے قدمگاہ شمار کئے جاتے ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۶۷-۲۷۴.</ref> خلخالی کا کہنا ہے کہ ایران کے شہر لار میں [[نظرگاہ]] پایا جاتا ہے جہاں پر وہاں کے اہل سنت باشندے ہر منگل کو اپنے گھروالوں کے ساتھ جاتے ہیں اور حاجات پوری ہونے کی نیت سے [[نذر]] و نیاز دیتے ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۶۷.</ref>


*[[سقاخانه]]: بعض علاقوں میں شیعوں کی مخصوص نشانیوں میں سے ایک ہے جو شارع عام پر لوگوں کو پانی پلانے اور ثواب کے حصول کے لیے بناتے ہیں۔ شیعہ ثقافت میں سقاخانہ حضرت عباسؑ کا واقعہ کربلا میں پانی پلانے کی یاد میں بنایا جاتا ہے اور [[امام حسین(ع)]] و حضرت عباس کے نام سے مزین ہوتا ہے۔ بعض لوگ حاجات پوری ہونے کے لیے وہاں پر شمع بھی جلاتے ہیں یا دھاگہ باندھتے ہیں۔ <ref>اطیابی، «سقاخانه‌های اصفهان»، ص۵۵-۵۹.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ دنیا کی مختلف جگہوں پر سقاخانے بنے ہیں جو حضرت عباس کی یادگار ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چهره درخشان قمر بنی هاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۴۰-۲۴۱‍.</ref>
*[[سقاخانہ]]: بعض علاقوں میں شیعوں کی مخصوص نشانیوں میں سے ایک ہے جو شارع عام پر لوگوں کو پانی پلانے اور ثواب کے حصول کے لیے بناتے ہیں۔ شیعہ ثقافت میں سقاخانہ حضرت عباسؑ کا واقعہ کربلا میں پانی پلانے کی یاد میں بنایا جاتا ہے اور [[امام حسین(ع)]] و حضرت عباس کے نام سے مزین ہوتا ہے۔ بعض لوگ حاجات پوری ہونے کے لیے وہاں پر شمع بھی جلاتے ہیں یا دھاگہ باندھتے ہیں۔ <ref>اطیابی، «سقاخانہ‌ہای اصفہان»، ص۵۵-۵۹.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ دنیا کی مختلف جگہوں پر سقاخانے بنے ہیں جو حضرت عباس کی یادگار ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۴۰-۲۴۱‍.</ref>


*[[سقانفار|سَقَّانِفار]]: یا ساقی‌نِفار یا سقّاتالار اس مکان کا نام ہے جو ایران کا صوبہ [[مازندران]] میں مذہبی عزاداری منعقد کرنے اور نذر ادا کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور عام طور پر یہ مکان کسی مذہبی مکان جیسے [[مسجد]]، [[امام بارگاہ]] اور [[حسینیه]] کے ساتھ میں بنایا جاتا ہے۔سقانفار‌ حضرت عباسؑ  سے منسوب ہیں اور بعض لوگ انہیں «ابوالفضلی» بھی کہتے ہیں۔<ref>حسام مظاهری، فرهنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۲۸۰.</ref>
*[[سقانفار|سَقَّانِفار]]: یا ساقی‌نِفار یا سقّاتالار اس مکان کا نام ہے جو ایران کا صوبہ [[مازندران]] میں مذہبی عزاداری منعقد کرنے اور نذر ادا کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور عام طور پر یہ مکان کسی مذہبی مکان جیسے [[مسجد]]، [[امام بارگاہ]] اور [[حسینیہ]] کے ساتھ میں بنایا جاتا ہے۔سقانفار‌ حضرت عباسؑ  سے منسوب ہیں اور بعض لوگ انہیں «ابوالفضلی» بھی کہتے ہیں۔<ref>حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۲۸۰.</ref>


==آپ سے منسوب تصویر==
==آپ سے منسوب تصویر==
[[ملف:شمایل منتسب به حضرت عباس.jpg|تصغیر| تصویری معروف از شمایل حضرت عباس(ع)]]
[[ملف:شمایل منتسب به حضرت عباس.jpg|تصغیر| تصویری معروف از شمایل حضرت عباس(ع)]]
بعض علاقوں میں کچھ ایسی تصاویر پائی جاتی ہیں جو عباس ابن علیؑ سے جانی جاتی ہیں۔بہت سارے امامبارگاہوں میں یہ تصاویر نظر آتی ہیں لیکن بہت سارے فقہا نے ان تصاویر کو آپ سے منسوب کرنے کو نہیں مانا ہے لیکن اس کے باوجود ان تصاویر کا ماتمی دستوں میں یا امامبارگاہوں میں نصب کرنا اگر کسی حرام کام میں پڑنے کا موجب نہ بنے اور بے احترامی بھی نہیں ہوتی ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔لیکن اس کے باوجود تاکید کی ہے کہ ایسی تصاویر کو ان جگہوں پر نصب نہ کیا جائے۔<ref>محمودی، مسائل جدید از دیدگاه علما و مراجع، ۱۳۸۸ش، ۴، ص ۱۰۵-۱۰۷</ref>
بعض علاقوں میں کچھ ایسی تصاویر پائی جاتی ہیں جو عباس ابن علیؑ سے جانی جاتی ہیں۔بہت سارے امامبارگاہوں میں یہ تصاویر نظر آتی ہیں لیکن بہت سارے فقہا نے ان تصاویر کو آپ سے منسوب کرنے کو نہیں مانا ہے لیکن اس کے باوجود ان تصاویر کا ماتمی دستوں میں یا امامبارگاہوں میں نصب کرنا اگر کسی حرام کام میں پڑنے کا موجب نہ بنے اور بے احترامی بھی نہیں ہوتی ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔لیکن اس کے باوجود تاکید کی ہے کہ ایسی تصاویر کو ان جگہوں پر نصب نہ کیا جائے۔<ref>محمودی، مسائل جدید از دیدگاہ علما و مراجع، ۱۳۸۸ش، ۴، ص ۱۰۵-۱۰۷</ref>


آخری سالوں میں دو فلمیں واقعہ عاشورا کی محوریت میں بنی «[[مختارنامه]]» اور «[[رستاخیز]]»۔ مختارنامہ میں مراجع کی مخالفت کی وجہ سے آپ کا چہرہ نہیں دکھایا گیا۔<ref>[http://fararu.com/fa/news/62702/18-%D8%AF%D9%82%DB%8C%D9%82%D9%87-%D8%A7%D8%B2-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D8%A7%D8%B1%D9%86%D8%A7%D9%85%D9%87-%D8%B3%D8%A7%D9%86%D8%B3%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%AF ۱۸ دقیقه از "مختارنامه" سانسور شد، سایت خبری فرارو.]</ref>اور رستاخیز فیلم کی اصلاحات کے باوجود اب تک ریلیز ہونے کی اجازت حاصل نہیں کر سکی ہے۔<ref>[https://www.isna.ir/news/94042413880/%D8%A7%D8%B8%D9%87%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF%D8%B1%D8%B6%D8%A7-%D8%AF%D8%B1%D9%88%DB%8C%D8%B4-%D9%BE%D8%B3-%D8%A7%D8%B2-%D8%AA%D9%88%D9%82%D9%81-%D8%A7%DA%A9%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D8%AE%DB%8C%D8%B2 اظهارات احمدرضا درویش پس از توقف اکران «رستاخیز»، خبرگزاری ایسنا.] </ref>
آخری سالوں میں دو فلمیں واقعہ عاشورا کی محوریت میں بنی «[[مختارنامہ]]» اور «[[رستاخیز]]»۔ مختارنامہ میں مراجع کی مخالفت کی وجہ سے آپ کا چہرہ نہیں دکھایا گیا۔<ref>[http://fararu.com/fa/news/62702/18-%D8%AF%D9%82%DB%8C%D9%82%D9%87-%D8%A7%D8%B2-%D9%85%D8%AE%D8%AA%D8%A7%D8%B1%D9%86%D8%A7%D9%85%D9%87-%D8%B3%D8%A7%D9%86%D8%B3%D9%88%D8%B1-%D8%B4%D8%AF ۱۸ دقیقہ از "مختارنامہ" سانسور شد، سایت خبری فرارو.]</ref>اور رستاخیز فیلم کی اصلاحات کے باوجود اب تک ریلیز ہونے کی اجازت حاصل نہیں کر سکی ہے۔<ref>[https://www.isna.ir/news/94042413880/%D8%A7%D8%B8%D9%87%D8%A7%D8%B1%D8%A7%D8%AA-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF%D8%B1%D8%B6%D8%A7-%D8%AF%D8%B1%D9%88%DB%8C%D8%B4-%D9%BE%D8%B3-%D8%A7%D8%B2-%D8%AA%D9%88%D9%82%D9%81-%D8%A7%DA%A9%D8%B1%D8%A7%D9%86-%D8%B1%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D8%AE%DB%8C%D8%B2 اظہارات احمدرضا درویش پس از توقف اکران «رستاخیز»، خبرگزاری ایسنا.] </ref>


== کتابیات==
== کتابیات==
حضرت عباسؑ کے بارے میں اب تک بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے فارسی زبان میں بعض مندرجہ ذیل ہیں:
حضرت عباسؑ کے بارے میں اب تک بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے فارسی زبان میں بعض مندرجہ ذیل ہیں:


#زندگانی قمر بنی هاشم، ظهور عشق اعلی، حسین بدرالدین، تهران ، مهتاب، ۱۳۸۲ش.
#زندگانی قمر بنی ہاشم، ظہور عشق اعلی، حسین بدرالدین، تہران ، مہتاب، ۱۳۸۲ش.
#ساقی خوبان، شرح زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، محمد چقایی اراکی، قم، نشر مرتضی،۱۳۷۶ش.
#ساقی خوبان، شرح زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، محمد چقایی اراکی، قم، نشر مرتضی،۱۳۷۶ش.
#زندگانی حضرت ابوالفضل العباس علمدار کربلا، رضا دشتی، تهران ، موسسه پازینه، ۱۳۸۲ش.
#زندگانی حضرت ابوالفضل العباس علمدار کربلا، رضا دشتی، تہران ، موسسہ پازینہ، ۱۳۸۲ش.
#چهره درخشان قمر بنی هاشم ابوالفضل العباس، علی ربانی خلخالی، قم، مکتب الحسین، ۱۳۷۸ش.(۳جلد)
#چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم ابوالفضل العباس، علی ربانی خلخالی، قم، مکتب الحسین، ۱۳۷۸ش.(۳جلد)
#ابوالقربه، شرح زندگانی حضرت ابوالفضل(ع)، مجید زجاجی مجرد کاشانی، تهران ، سبحان، ۱۳۷۹ش.
#ابوالقربہ، شرح زندگانی حضرت ابوالفضل(ع)، مجید زجاجی مجرد کاشانی، تہران ، سبحان، ۱۳۷۹ش.
#عباس(ع) سپهسالار کربلا، زندگینامه، عباس شبگاهی شبستری، تهران، حروفیه، ۱۳۸۱ش.
#عباس(ع) سپہسالار کربلا، زندگینامہ، عباس شبگاہی شبستری، تہران، حروفیہ، ۱۳۸۱ش.


== متعلقہ مضامین ==
== متعلقہ مضامین ==
سطر 267: سطر 267:
<div class="reflist4" style="height: 200px; overflow: auto; padding: 3px" >
<div class="reflist4" style="height: 200px; overflow: auto; padding: 3px" >
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
* اظهارات احمدرضا درویش پس از توقف اکران «رستاخیز»، خبرگزاری ایسنا، تاریخ خبر: ۱۳۹۴/۰۴/۲۴، کد خبر: ۹۴۰۴۲۴۱۳۸۸۰، تاریخ بازدید:۱۳۹۶/۱۰/۰۴.
* اظہارات احمدرضا درویش پس از توقف اکران «رستاخیز»، خبرگزاری ایسنا، تاریخ خبر: ۱۳۹۴/۰۴/۲۴، کد خبر: ۹۴۰۴۲۴۱۳۸۸۰، تاریخ بازدید:۱۳۹۶/۱۰/۰۴.
* ابن اثیر، علی بن محمد، الكامل في التاريخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۶ق.
* ابن اثیر، علی بن محمد، الكامل في التاريخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۶ق.
* ابن اعثم الکوفی، احمد بن علی، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، چاپ اول، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م.
* ابن اعثم الکوفی، احمد بن علی، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، چاپ اول، ۱۴۱۱ق/۱۹۹۱م.
* ابن شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، النجف، مطبعة الحیدریة، ۱۳۷۶ق.
* ابن شہرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب، النجف، مطبعۃ الحیدریۃ، ۱۳۷۶ق.
* ابن طاووس، رضی‌ الدین علی بن موسی بن جعفر، اللهوف، قم، انتشارات الشریف الرضی، ۱۴۱۲ق.
* ابن طاووس، رضی‌ الدین علی بن موسی بن جعفر، اللہوف، قم، انتشارات الشریف الرضی، ۱۴۱۲ق.
* ابن عنبه، احمد، عمدة الطالب فی انساب آل ابی طالب، نجف، ۱۳۸۱ق/۱۹۶۱م.
* ابن عنبہ، احمد، عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب، نجف، ۱۳۸۱ق/۱۹۶۱م.
* ابن قولویه قمی، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، ترجمه محمد جواد ذهنی تهرانی، تهران، انتشارات پیام حق، چاپ دوم، ۱۳۷۷ش.
* ابن قولویہ قمی، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، ترجمہ محمد جواد ذہنی تہرانی، تہران، انتشارات پیام حق، چاپ دوم، ۱۳۷۷ش.
* ابن نما حلی، جعفر بن محمد، مثیر الاحزان، ترجمه علی کرمی، قم، نشر حاذق، چاپ اول، ۱۳۸۰ش.
* ابن نما حلی، جعفر بن محمد، مثیر الاحزان، ترجمہ علی کرمی، قم، نشر حاذق، چاپ اول، ۱۳۸۰ش.
* ابن‌جوزی‌، یوسف‌ بن‌ قزاوغلی، تذكرة الخواص، قم، الشریف الرضی، ۱۴۱۸ق.  
* ابن‌جوزی‌، یوسف‌ بن‌ قزاوغلی، تذكرۃ الخواص، قم، الشریف الرضی، ۱۴۱۸ق.  
* ابو مخنف، لوط بن یحیی، وقعة الطف، تحقیق هادی یوسفی غروی، قم، مجمع جهانی اهل البیت، ۱۴۳۳ق-۱۳۹۰ش.
* ابو مخنف، لوط بن یحیی، وقعۃ الطف، تحقیق ہادی یوسفی غروی، قم، مجمع جہانی اہل البیت، ۱۴۳۳ق-۱۳۹۰ش.
* ابوالفرج الاصفهانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت، موسسة الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۷م.
* ابوالفرج الاصفہانی، علی بن الحسین، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت، موسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۸ق/۱۹۸۷م.
* اطیابی، اعظم، «سقاخانه‌های اصفهان»، مجله‌ی فرهنگ مردم، تابستان ۱۳۸۳-شماره ۱۰.
* اطیابی، اعظم، «سقاخانہ‌ہای اصفہان»، مجلہ‌ی فرہنگ مردم، تابستان ۱۳۸۳-شمارہ ۱۰.
* الاوردبادی، محمدعلی، حیاة ابی‌الفضل العباس، در موسوعة العلامة الاوردبادی، ج۷، دار الکفیل، کربلا، ۱۴۳۶ق.
* الاوردبادی، محمدعلی، حیاۃ ابی‌الفضل العباس، در موسوعۃ العلامۃ الاوردبادی، ج۷، دار الکفیل، کربلا، ۱۴۳۶ق.
* البغدادی، محمد بن حبیب، المحبّر، بیروت، منشورات دار الآفاق الجدیدة، بی تا.
* البغدادی، محمد بن حبیب، المحبّر، بیروت، منشورات دار الآفاق الجدیدۃ، بی تا.
* التكريتي، عبد الله طاهر، مذكرات حردان التكريتي، بی جا، بی مکان.
* التكريتي، عبد اللہ طاہر، مذكرات حردان التكريتي، بی جا، بی مکان.
* الحائری الشیرازی، سید عبدالمجید، ذخیره الدارین فیما یتعلق بمصائب الحسین، نجف، مطبعة المرتضویة، ۱۳۴۵ق.
* الحائری الشیرازی، سید عبدالمجید، ذخیرہ الدارین فیما یتعلق بمصائب الحسین، نجف، مطبعۃ المرتضویۃ، ۱۳۴۵ق.
* الخوارزمی، الموفق بن احمد، مقتل الحسین (ع)، تحقیق و تعلیق محمد السماوی، قم، انوار الهدی، الاولی، ۱۴۱۸ق.
* الخوارزمی، الموفق بن احمد، مقتل الحسین (ع)، تحقیق و تعلیق محمد السماوی، قم، انوار الہدی، الاولی، ۱۴۱۸ق.
* الدینوری، ابوحنیفه احمد بن داوود، الاخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر مراجعه جمال الدین شیال، قم، منشورات رضی، ۱۳۶۸ش.
* الدینوری، ابوحنیفہ احمد بن داوود، الاخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم، منشورات رضی، ۱۳۶۸ش.
* الزبیری، المصعب بن عبدالله بن المصعب، نسب قریش، دارالمعارف للطباعة والنشر، ۱۹۵۳م.
* الزبیری، المصعب بن عبداللہ بن المصعب، نسب قریش، دارالمعارف للطباعۃ والنشر، ۱۹۵۳م.
* الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ طبری)، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیم، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، ۱۹۶۷م.
* الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ طبری)، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، چاپ دوم، ۱۹۶۷م.
* المظفر، عبدالواحد بن احمد، موسوعه بطل العلقمی، نجف، مطبعه الحیدریه، ۱۴۲۹ق.
* المظفر، عبدالواحد بن احمد، موسوعہ بطل العلقمی، نجف، مطبعہ الحیدریہ، ۱۴۲۹ق.
* الموسوي المُقرّم، السيّد عبد الرزّاق، العبّاس (عليه السلام)، تحقيق: سماحة الشيخ محمّد الحسّون، نجف، مكتبة الروضة العبّاسيّة، ۱۴۲۷ق.
* الموسوي المُقرّم، السيّد عبد الرزّاق، العبّاس (عليہ السلام)، تحقيق: سماحۃ الشيخ محمّد الحسّون، نجف، مكتبۃ الروضۃ العبّاسيّۃ، ۱۴۲۷ق.
* الناصری، محمد علی، مولد العباس بن علی(ع)، قم، انتشارات شریف الرضی، ۱۳۷۲ش.  
* الناصری، محمد علی، مولد العباس بن علی(ع)، قم، انتشارات شریف الرضی، ۱۳۷۲ش.  
* امین، سید محسن، اعیان الشیعة، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ق.
* امین، سید محسن، اعیان الشیعۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ق.
* [http://www.yjc.ir/ باشگاه خبرنگاران جوان]
* [http://www.yjc.ir/ باشگاہ خبرنگاران جوان]
* بغدادی، محمد، العباس بن علي(ع)، کربلا، العتبة الحسينية المقدسة، ۱۴۳۳ق.
* بغدادی، محمد، العباس بن علي(ع)، کربلا، العتبۃ الحسينيۃ المقدسۃ، ۱۴۳۳ق.
* بلاذری، أحمد بن يحيى، جمل من انساب الأشراف، تحقيق سهيل زكار و رياض زركلى، بيروت، دار الفكر، ط الأولى، ۱۴۱۷ق-۱۹۹۶م.
* بلاذری، أحمد بن يحيى، جمل من انساب الأشراف، تحقيق سہيل زكار و رياض زركلى، بيروت، دار الفكر، ط الأولى، ۱۴۱۷ق-۱۹۹۶م.
* بلوکباشی، علی، «مفاهیم و نمادگارها در طریقت قادری»، مردم‌شناسی و فرهنگ عامه ایران، تهران، ۱۳۵۶ش،
* بلوکباشی، علی، «مفاہیم و نمادگارہا در طریقت قادری»، مردم‌شناسی و فرہنگ عامہ ایران، تہران، ۱۳۵۶ش،
* بهشتی، احمد، قهرمان علقمه، تهران،‌ انتشارات اطلاعات، ۱۳۷۴ش.
* بہشتی، احمد، قہرمان علقمہ، تہران،‌ انتشارات اطلاعات، ۱۳۷۴ش.
* بیرجندی، محمدباقر، کبریت احمر، تهران، کتاب فروشی اسلامیه، ۱۳۷۷ش.
* بیرجندی، محمدباقر، کبریت احمر، تہران، کتاب فروشی اسلامیہ، ۱۳۷۷ش.
* جهان‌بخش، جویا، گنجی نویافته یا وهمی بربافته؟، در مجله آينه پژوهش، شماره ۱۱۸، مهر و آبان ۱۳۸۸ش.
* جہان‌بخش، جویا، گنجی نویافتہ یا وہمی بربافتہ؟، در مجلہ آينہ پژوہش، شمارہ ۱۱۸، مہر و آبان ۱۳۸۸ش.
* حائری مازندرانی، محمدمهدی، معالی السبطین، بیروت، موسسه النعمان، ۱۴۱۲ق،
* حائری مازندرانی، محمدمہدی، معالی السبطین، بیروت، موسسہ النعمان، ۱۴۱۲ق،
* حسام مظاهری، محسن، فرهنگ سوگ شیعی، تهران، خیمه، ۱۳۹۵ش.
* حسام مظاہری، محسن، فرہنگ سوگ شیعی، تہران، خیمہ، ۱۳۹۵ش.
* خراسانی قاینی بیرجندی، محمد باقر، کبریت الاحمر (فی شرائط المنبر)، تهران، اسلامیه، ۱۳۸۶ق.
* خراسانی قاینی بیرجندی، محمد باقر، کبریت الاحمر (فی شرائط المنبر)، تہران، اسلامیہ، ۱۳۸۶ق.
* [http://sc/pages/ دبیرخانه شورای عالی انقلاب فرهنگی]
* [http://sc/pages/ دبیرخانہ شورای عالی انقلاب فرہنگی]
* دهخدا، علی اکبر، لغت‌نامه دهخدا، تهران، انتشارات دانشگاه تهران، ۱۳۷۷ش.
* دہخدا، علی اکبر، لغت‌نامہ دہخدا، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷ش.
* ربانی خلخالی، علی، چهره درخشان قمر بنی هاشم ابوالفضل العباس علیه السلام، انتشارات مکتب الحسین علیه السلام، قم، ۱۳۷۸ش.
* ربانی خلخالی، علی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم ابوالفضل العباس علیہ السلام، انتشارات مکتب الحسین علیہ السلام، قم، ۱۳۷۸ش.
* زجاجی کاشانی، مجید، سقای کربلا، تهران، نشر سبحان، ۱۳۷۹ش.
* زجاجی کاشانی، مجید، سقای کربلا، تہران، نشر سبحان، ۱۳۷۹ش.
* سبط ابن جوزی، یوسف بن حسام الدین، تذکرة الخواص، تحقیق حسین تقی زاده، قم، مرکز الطباعة و النشر للمجمع العالمی لاهل البیت، الطبعة الاولی، ۱۴۲۶ق.
* سبط ابن جوزی، یوسف بن حسام الدین، تذکرۃ الخواص، تحقیق حسین تقی زادہ، قم، مرکز الطباعۃ و النشر للمجمع العالمی لاہل البیت، الطبعۃ الاولی، ۱۴۲۶ق.
* شریف قرشی، باقر، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ترجمه سید حسن اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۸۶ش.
* شریف قرشی، باقر، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ترجمہ سید حسن اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۳۸۶ش.
* شیخ صدوق، محمد بن علی، خصال، تحقیق علی اکبرغفاری، بیروت، موسسه الاعلمی للمطبوعات، الطبعة الاولی، ۱۴۱۰/۱۹۹۰.
* شیخ صدوق، محمد بن علی، خصال، تحقیق علی اکبرغفاری، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، الطبعۃ الاولی، ۱۴۱۰/۱۹۹۰.
* شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، الناشر سعید بن جبیر، الاولی، ۱۴۲۸ق.
* شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، الناشر سعید بن جبیر، الاولی، ۱۴۲۸ق.
* شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشادفی معرفة حجج الله علی العباد، ترجمه حسن موسوی‌مجاب، ‏قم، انتشارات سرور‏‫، ۱۳۸۸ش.‮‬‮‬
* شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشادفی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ترجمہ حسن موسوی‌مجاب، ‏قم، انتشارات سرور‏‫، ۱۳۸۸ش.‮‬‮‬
* طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری بأعلام الهدی، قم، موسسةآل البیت لاحیا التراث، ۱۴۱۷ق.
* طبرسی، فضل بن الحسن، اعلام الوری بأعلام الہدی، قم، موسسۃآل البیت لاحیا التراث، ۱۴۱۷ق.
* طعمه، سلمان هادی، تاريخ مرقد الحسين و العباس، بیروت، موسسه الاعلمی للمطبوعات، ١۴١۶ق.
* طعمہ، سلمان ہادی، تاريخ مرقد الحسين و العباس، بیروت، موسسہ الاعلمی للمطبوعات، ١۴١۶ق.
* علامه مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، موسسة الوفاء، ۱۴۰۳ق.
* علامہ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، بیروت، موسسۃ الوفاء، ۱۴۰۳ق.
* علوی، سید احمد، راهنمای مصور سفر زیارتی عراق، قم، نشر معروف، ۱۳۹۱ش.
* علوی، سید احمد، راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، قم، نشر معروف، ۱۳۹۱ش.
* قمی، شیخ عباس، نفس المهموم، ترجمه ابوالحسن شعرانی، قم، هجرت، چاپ سوم، ۱۳۷۶ش.
* قمی، شیخ عباس، نفس المہموم، ترجمہ ابوالحسن شعرانی، قم، ہجرت، چاپ سوم، ۱۳۷۶ش.
* کلباسی نجفی، محمدابراهیم، الخصائص العباسیه، المکتبة الحیدریة، قم، ۱۴۲۰ق.
* کلباسی نجفی، محمدابراہیم، الخصائص العباسیہ، المکتبۃ الحیدریۃ، قم، ۱۴۲۰ق.
* کلباسی نجفی، محمدابراهیم، خصائص العباسیه، ترجمه و تحقیق: محمداسکندری، انتشارات صیام، تهران، ۱۳۸۷ش.
* کلباسی نجفی، محمدابراہیم، خصائص العباسیہ، ترجمہ و تحقیق: محمداسکندری، انتشارات صیام، تہران، ۱۳۸۷ش.
* محمودی، عباسعلی، ماه بی غروب؛ زندگی‌نامه اوالفضل العباس، تهران، فیض کاشانی، ۱۳۷۹ش.
* محمودی، عباسعلی، ماہ بی غروب؛ زندگی‌نامہ اوالفضل العباس، تہران، فیض کاشانی، ۱۳۷۹ش.
* محمودی، سید محسن، مسائل جدید از دیدگاه علما و مراجع، وارمین، موسسه علمی فرهنگی صاحب الزمان(عج)،۱۳۸۸ش،
* محمودی، سید محسن، مسائل جدید از دیدگاہ علما و مراجع، وارمین، موسسہ علمی فرہنگی صاحب الزمان(عج)،۱۳۸۸ش،
* محمودی، سید محمدحسین، در کنار علقمه کرامات العباسیه، انتشارات نصایح، قم، ۱۳۷۹ش.
* محمودی، سید محمدحسین، در کنار علقمہ کرامات العباسیہ، انتشارات نصایح، قم، ۱۳۷۹ش.
*مهدوی، سید مصلح‌الدین، اعلام اصفهان، تحقیق: غلامرضا نصر‌اللهی، سازمان فرهنگی تفریحی شهرداری اصفهان، اصفهان، ۱۳۸۶ش.
*مہدوی، سید مصلح‌الدین، اعلام اصفہان، تحقیق: غلامرضا نصر‌اللہی، سازمان فرہنگی تفریحی شہرداری اصفہان، اصفہان، ۱۳۸۶ش.
* میردریکوندی، رحیم، دریای تشنه؛ تشنه دریا(نگاهی به زندگانی علمدار کربلا حضرت ابوالفضل العباس(ع))، قم، ۱۳۸۲ش.
* میردریکوندی، رحیم، دریای تشنہ؛ تشنہ دریا(نگاہی بہ زندگانی علمدار کربلا حضرت ابوالفضل العباس(ع))، قم، ۱۳۸۲ش.
* هادی‌منش، ابوالفضل، «فرزندان و نوادگان حضرت عباس»، نشریه فرهنگ کوثر، قم، انتشارات آستانه مقدسه حضرت معصمومه، ش ۶۴، ۱۳۸۴ش.
* ہادی‌منش، ابوالفضل، «فرزندان و نوادگان حضرت عباس»، نشریہ فرہنگ کوثر، قم، انتشارات آستانہ مقدسہ حضرت معصمومہ، ش ۶۴، ۱۳۸۴ش.
* هادی‌منش، ابوالفضل، «کنیه‌ها و لقب‌های حضرت عباس(ع)»، نشریه مبلغان، شماره ۱۰۶.
* ہادی‌منش، ابوالفضل، «کنیہ‌ہا و لقب‌ہای حضرت عباس(ع)»، نشریہ مبلغان، شمارہ ۱۰۶.
* هادی‌منش، ابوالفضل، «نگاهی به شخصیت و عملکرد حضرت عباس(ع)پیش از واقعه کربلا»، نشریه مبلغان، شماره ۵۸.
* ہادی‌منش، ابوالفضل، «نگاہی بہ شخصیت و عملکرد حضرت عباس(ع)پیش از واقعہ کربلا»، نشریہ مبلغان، شمارہ ۵۸.
* يونسيان، على اصغر، خطيب كعبه، تهران، آيينه زمان، ۱۳۸۶ش.  
* يونسيان، على اصغر، خطيب كعبہ، تہران، آيينہ زمان، ۱۳۸۶ش.  
* ۱۸ دقیقه از "مختارنامه" سانسور شد، سایت خبری فرارو، تاریخ خبر: ۱۳۸۹/۰۹/۱۴ ، کد خبر: ۶۲۷۰۲، تاریخ بازدید: ۱۳۹۶/۱۰/۰۴.
* ۱۸ دقیقہ از "مختارنامہ" سانسور شد، سایت خبری فرارو، تاریخ خبر: ۱۳۸۹/۰۹/۱۴ ، کد خبر: ۶۲۷۰۲، تاریخ بازدید: ۱۳۹۶/۱۰/۰۴.
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
</div>
</div>
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,892

ترامیم