مندرجات کا رخ کریں

"آخرت" کے نسخوں کے درمیان فرق

7,833 بائٹ کا ازالہ ،  2 دسمبر 2019ء
سطر 67: سطر 67:
* [[قیامت]]
* [[قیامت]]
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
==قرآن میں عالم آخرت کی خصوصیات==
[[قرآن]] مجید میں عالم آخرت سے مربوط بنیادی مسائل کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے:
*عالم آخرت میں اجتماعی نظام، تعاون اور انسانی مدنیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان انفرادی طور پر خدا کے حضور میں پیش ہونگے اور اپنے معاملات کو خود ہی چلائیں گے: زمین و آسمان میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کی بارگاہ میں بندہ بن کر حاضر ہونے والا نہ ہو ، خدا نے سب کا احصائ کرلیا ہے اور سب کو باقاعدہ شمار کرلیا ہے، اور سب ہی کل روز هقیامت اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے ہیں۔<ref>مریم ۹۳ـ ۹۵</ref>
*اعالم آخرت میں انسان صرف اس دنیا میں انجام دینے والے اعمال اور افکار کے نتائج سے سروکار رکھتا ہے: انسان کو اس کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔<ref>نجم،۳۹</ref>
*عالم ہستی کی شناخت اور حقایق کی تشخیص میں انسان جن مشکلات اور شکوک و شبہات میں گرفتار ہوتے ہیں اس عالم میں ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔
*عالم آخرت میں تمام حقائق سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہونگے۔ وہاں نہ فکر و نظر کی گوئی گنجائش ہے اور نہ اختلاف نظر کی:  یقینا تم اس کی طرف سے غفلت میں تھے تو ہم نے تمہارے پردوں کو اُٹھادیاہے اور اب تمہاری نگاہ بہت تیز ہوگئی ہے ۔<ref>ق،۲۲</ref>
*جب انسان عالم آخرت میں داخل ہوتے ہیں تو اس پر آشکار ہو جاتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی علت یا سبب مستقل نہیں تھی اور ہمیشہ مؤثر واقعی صرف خدا کی ذات تھا: اس دن خدا سب کو پورا پورا بدلہ دے گا اور لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ خدا یقینا برحق اور حق کا ظاہر کرنے والا ہے۔<ref>نور، ۲۵</ref>
*جو کچھ عالم آخرت میں انسان کے نصیب میں ہو گا وہ یا "[[نعمت]]" ہے یا "[[عذاب]]"۔ آخرت کی نعمت اور غذاب کی لذت اور درد دینا کی نعمت اور عذاب کی لذت اور درد کے ساتھ قابل مقایسہ نہیں ہے اور اس دنیا کے کسی بھی ترازو سے ان تعمتوں اور عذاب کو کو تولا نہیں جا سکتا: ان کے گرد سونے کی رکابیوں اور پیالیوں کا دور چلے گا اور وہاں ان کے لئے وہ تمام چیزیں ہوں گی جن کی دل میں خواہش ہو اور جو آنکھوں کو بھلی لگیں اور تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو۔ <ref>زخرف، ۷۱</ref>؛ مگر جو منھ پھیر لے اور [[کافر]] ہوجائے، تو خدا اسے بہت بڑے عذاب میں مبتلا کرے گا۔<ref>غاشیہ، ۲۳ـ۲۴</ref>
*[[قرآن|قرآن مجید]] میں "بہشت‌" جو زمین اور آسمانوں کی وسعتوں سے زیادہ اور "خدا کی خشنودی" جو بہشت سے بھی بڑا ہے، کو اخروی نعمتوں کیلئے بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے:  اللہ نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں سے ان بہشتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے نیز ان کے لئے ان ہمیشگی کے بہشتوں (سدا بہار باغوں) میں پاک و پاکیزہ مکانات ہوں گے۔ اور اللہ کی خوشنودی سب سے بڑی ہے۔ یہی ہے بہت بڑی کامیابی۔<ref>توبہ،۷۲</ref>
*[[جہنم]] کی آگ اور "خدا سے دوری" کو اخروی عذاب کے نمونے کے طور پر پیش کیا ہے:  ہرگز (ایسا نہیں کہ جزا وسزا نہ ہو) یہ لوگ اس دن اپنے پروردگار (کی رحمت سے) (محجوب اور محروم) رہیں گے۔ پھر یہ لوگ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ <ref>مطّففین،۱۵ـ۱۶</ref>
*عالم آخرت میں نعمتوں اور عذاب میں موجود افراد نعمات اور عذاب کے درجات میں مساوی نہیں ہیں۔ یہ درجات اس دنیا میں انجام دینے والے اعمال اور افکار کے تناسب سے ان نعمتوں اور عذاب کے درجات میں بھی تفاوت پایا جاتا ہے:  (دیکھو) ہم نے (یہاں) کس طرح بعض لوگوں کو بعض پر فضیلت دی ہے اور آخرت تو درجات کے اعتبار سے بہت بڑی ہے اور فضیلت کے لحاظ سے بھی بہت بڑی ہے۔ <ref>اسراء، ۲۱</ref>
*عالم دنیا میں ممکن ہے بعض عوامل کی وجہ سے انسان اپنے سعی و تلاش کے مطابق مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکیں لیکن آخرت میں انسان کو اس کے اعمال اور افکار کا پورے کا پورا نتیجہ ملے گا اور کوئی عامل یا سبب اس کے حصول میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ہے:  تو جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس (کی جزا) دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر بدی کی ہوگی وہ بھی اس (کی سزا) کو دیکھ لے گا۔<ref>زلزلہ ۷ـ‌۸</ref>
*عالم آخرت میں خدا کی مغفرت اور رحمت بہت سارے لوگوں کو جس ان مغفرتوں اور رحمتوں کے لائق اور سزاوار ہونگے، کے شامل حال ہونگے اور وہ اخروی عذاب سے نجات پائیں گے: اور (کفار کیلئے) آخرت میں سخت عذاب ہے اور (مؤمنین کیلئے) اللہ کی طرف سے بخشش اور خوشنودی ہے اور دنیاوی زندگی دھوکے کے ساز و سامان کے سوا کچھ نہیں ہے۔<ref>حدید، ۲۰</ref>
*اس دنیا میں انسان کے نیک اعمال بیج کی طرح ہے جو آخرت کی کھیتی میں سبز ہوگا اور اپنے صاحب کے پاس پنہج جائے گا۔ وہ لوگ جو اپنی تمام تر کوششوں کو صرف اسی دنیاوی فوائد تک پہنچنے میں صرف کرتے ہیں انہیں آخرت میں کچھ بھی نہیں ملی گا:  جوشخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کردیتے ہیں اور جو (صرف) دنیا کی کھیتی چاہتا ہے تو ہم اس میں سے اسے کچھ دے دیتے ہیں مگر اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔<ref>شوری، ۲۰</ref>
*[[قرآن]] کی نظر میں عالم آخرت صرف انسان تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام موجودات آخرت میں خدا کی بارگاہ میں محشور ہونگے: آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ خدائے رحمن کی بارگاہ میں بندہ بن کر حاضر ہونے والے ہیں۔<ref>مریم، ۹۳</ref>
*قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عالم آخرت پر ایمان لانا تمام انبیاء کی دعوت کا بنیادی رکن تھا۔ وہ آیات جو انبیاء کی تبلیغ میں وحدت رویہ اور اصول واحد پر دلالت کرتی ہیں وہ اس بات کی گواہ ہے۔


== حوالہ جات==
== حوالہ جات==
confirmed، templateeditor
8,796

ترامیم