مندرجات کا رخ کریں

"آخرت" کے نسخوں کے درمیان فرق

773 بائٹ کا اضافہ ،  25 جنوری 2017ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 33: سطر 33:
[[قرآن]]، [[سنت]] اور مسلمان دانشمندوں کے آثار میں عالم آخرت پر ایمان لانے کو تمام اعتقادات کا اساسی محور قرار دیا گیا ہے۔ [[برزخ]]، [[قیامت]]، [[رستاخیز|حشر]] و نشر، [[صراط]]، [[حساب]]، [[شفاعت]]، [[بہشت]] اور [[دوزخ]] وغیرہ عالم آخرت‌ کے واقعات میں سے ہیں اور آخرت پر ایمان لانا ان تمام چیزوں پر ایمان لانے کو بھی شامل کرتا ہے۔
[[قرآن]]، [[سنت]] اور مسلمان دانشمندوں کے آثار میں عالم آخرت پر ایمان لانے کو تمام اعتقادات کا اساسی محور قرار دیا گیا ہے۔ [[برزخ]]، [[قیامت]]، [[رستاخیز|حشر]] و نشر، [[صراط]]، [[حساب]]، [[شفاعت]]، [[بہشت]] اور [[دوزخ]] وغیرہ عالم آخرت‌ کے واقعات میں سے ہیں اور آخرت پر ایمان لانا ان تمام چیزوں پر ایمان لانے کو بھی شامل کرتا ہے۔


==قرآن میں عالم آخرت کی خصوصیات==<!--
==قرآن میں عالم آخرت کی خصوصیات==
کلیات مربوط بہ اوصاف عالم آخرت کہ در [[قرآن]] مجید ذکر شدہ بدین شرح است:
[[قرآن]] مجید میں عالم آخرت سے مربوط بنیادی مسائل کی طرف یوں اشارہ کیا گیا ہے:
*در عالم آخرت نظام اجتماعی و تعاون و مدنیت انسانی در کار نیست. در آن جہان، ہر انسانی بہ گونہ انفرادی در پیشگاہ خدا حاضر می‌شود و ہستی خود را ادامہ می‌دہد: ہمہ آنان کہ در آسمان‌ہا و زمین‌اند... تنہا بہ پیشگاہ خدا می‌آیند.<ref>مریم ۹۳ـ ۹۵</ref>
*عالم آخرت میں اجتماعی نظام، تعاون اور انسانی مدنیت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس دنیا میں ہر انسان انفرادی طور پر خدا کے حضور میں پیش ہونگے اور اپنے معاملات کو خود ہی چلائیں گے: زمین و آسمان میں کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کی بارگاہ میں بندہ بن کر حاضر ہونے والا نہ ہو ، خدا نے سب کا احصائ کرلیا ہے اور سب کو باقاعدہ شمار کرلیا ہے، اور سب ہی کل روز هقیامت اس کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے ہیں۔<ref>مریم ۹۳ـ ۹۵</ref>
*در آن جہان، ہر انسانی تنہا با نتیجہ افکار و اعمال خود کہ در زندگی دنیوی داشتہ است، سر و کار دارد: انسان را جز کوشش وی، چیزی نیست.<ref>نجم،۳۹</ref>
*اعالم آخرت میں انسان صرف اس دنیا میں انجام دینے والے اعمال اور افکار کے نتائج سے سروکار رکھتا ہے: انسان کو اس کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔<ref>نجم،۳۹</ref>
*از تردیدہا و حیرت‌ہایی کہ برای تشخیص حقایق جہان ہستی در دنیا گریبان‌گیر آدمی می‌شود، در آن جہان خبری نیست.
*عالم ہستی کی شناخت اور حقایق کی تشخیص میں انسان جن مشکلات اور شکوک و شبہات میں گرفتار ہوتے ہیں اس عالم میں ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔
*در آنجا حقیقت ناب بر ہمہ انسان‌ہا مکشوف است. نہ «نظر» در آنجا معنا دارد و نہ اختلاف نظر: تو از این [[رستاخیز]] در غفلت بودی، ما پردہ را از برابر تو برگرفتیم و چشم تو امروز بیناست.<ref>ق،۲۲</ref>
*عالم آخرت میں تمام حقائق سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہونگے۔ وہاں نہ فکر و نظر کی گوئی گنجائش ہے اور نہ اختلاف نظر کی: یقینا تم اس کی طرف سے غفلت میں تھے تو ہم نے تمہارے پردوں کو اُٹھادیاہے اور اب تمہاری نگاہ بہت تیز ہوگئی ہے ۔<ref>ق،۲۲</ref>
*ہنگامی کہ انسان وارد عالم آخرت می‌شود، بر او آشکار می‌گردد کہ در این جہان ہیچ یک از علل و اسباب، در تأثیر استقلال نداشتہ‌اند و ہمیشہ مؤثر واقعی فقط خداوند بودہ است: در روز رستاخیز خدا پاداش ایشان را بی‌کاستی خواہد داد و ایشان خواہند دانست کہ تنہا حق آشکار خدا است.<ref>نور، ۲۵</ref>
*جب انسان عالم آخرت میں داخل ہوتے ہیں تو اس پر آشکار ہو جاتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی علت یا سبب مستقل نہیں تھی اور ہمیشہ مؤثر واقعی صرف خدا کی ذات تھا: اس دن خدا سب کو پورا پورا بدلہ دے گا اور لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ خدا یقینا برحق اور حق کا ظاہر کرنے والا ہے۔<ref>نور، ۲۵</ref>
*آنچہ در عالم آخرت بہ انسان می‌رسد، یا «[[نعمت]]» است یا «[[عذاب]]». نعمت‌ہا و عذاب‌ہای اخروی از نظر ایجاد لذت و درد برای آدمی با نعمت‌ہا و عذاب‌ہای دنیا قابل مقایسہ نیست و کمیت و کیفیت آن‌ہا بہ حدود شناختہ شدہ در این جہان محدود نیست: در آنجا (در [[بہشت]]) است آنچہ جان‌ہا آرزو کند و چشم‌ہا را خوش آید و شما در آن جاودانان خواہید بود‌<ref>زخرف، ۷۱</ref>؛ کسی کہ روی بگرداند و [[کافر]] شود، خدا او را بہ بزرگ‌ترین عذاب‌ہا معذب خواہد ساخت.<ref>غاشیہ، ۲۳ـ۲۴</ref>
*جو کچھ عالم آخرت میں انسان کے نصیب میں ہو گا وہ یا "[[نعمت]]" ہے یا "[[عذاب]]"۔ آخرت کی نعمت اور غذاب کی لذت اور درد دینا کی نعمت اور عذاب کی لذت اور درد کے ساتھ قابل مقایسہ نہیں ہے اور اس دنیا کے کسی بھی ترازو سے ان تعمتوں اور عذاب کو کو تولا نہیں جا سکتا: ان کے گرد سونے کی رکابیوں اور پیالیوں کا دور چلے گا اور وہاں ان کے لئے وہ تمام چیزیں ہوں گی جن کی دل میں خواہش ہو اور جو آنکھوں کو بھلی لگیں اور تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو۔ <ref>زخرف، ۷۱</ref>؛ مگر جو منھ پھیر لے اور [[کافر]] ہوجائے، تو خدا اسے بہت بڑے عذاب میں مبتلا کرے گا۔<ref>غاشیہ، ۲۳ـ۲۴</ref>
*در [[قرآن|قرآن مجید]] «بہشت‌ہا» کہ بہ پہنای آسمان‌ہا و زمین است و «خشنودی خدا» کہ از بہشت‌ہا بسی بزرگ‌تر است، دو مظہر اساسی نعمت‌ہای اخروی معرفی شدہ است: خدا بہ مردان و زنان [[ایمان|مؤمن]]، بہشت‌ہایی را کہ از زیر درختان آن‌ہا جوی‌ہا روان است وعدہ دادہ و اینان در بہشت جاودانند و خشنودی خدا از آن ہم برتر است<ref>توبہ،۷۲</ref>
*[[قرآن|قرآن مجید]] میں "بہشت‌" جو زمین اور آسمانوں کی وسعتوں سے زیادہ اور "خدا کی خشنودی" جو بہشت سے بھی بڑا ہے، کو اخروی نعمتوں کیلئے بطور نمونہ پیش کیا گیا ہے: اللہ نے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں سے ان بہشتوں کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے نیز ان کے لئے ان ہمیشگی کے بہشتوں (سدا بہار باغوں) میں پاک و پاکیزہ مکانات ہوں گے۔ اور اللہ کی خوشنودی سب سے بڑی ہے۔ یہی ہے بہت بڑی کامیابی۔<ref>توبہ،۷۲</ref>
<!--
*آتش [[جہنم]] و «محجوبیت از خداوند» دو مظہر اساسی عذاب اخروی بہ شمار آمدہ است: چنین نیست (کہ کافران می‌پندارند)، ایشان در آن روز از رحمت خداوند خویش محجوبند. آنگاہ ایشان بہ [[دوزخ]] افکندہ خواہند شد.<ref>مطّففین،۱۵ـ۱۶</ref>
*آتش [[جہنم]] و «محجوبیت از خداوند» دو مظہر اساسی عذاب اخروی بہ شمار آمدہ است: چنین نیست (کہ کافران می‌پندارند)، ایشان در آن روز از رحمت خداوند خویش محجوبند. آنگاہ ایشان بہ [[دوزخ]] افکندہ خواہند شد.<ref>مطّففین،۱۵ـ۱۶</ref>
*ہمہ انسان‌ہایی کہ در عالم آخرت بہ نعمت یا عذاب می‌رسند، در درجات نعمت و یا درکات عذاب مساوی نیستند. این درجات و درکات متناسب با افکار و اعمال انسان‌ہا در این جہان، مراتب بسیار متفاوت دارد: درجات و مراتب آخرت برتر و بزرگ‌تر است.<ref>اسراء، ۲۱</ref>
*ہمہ انسان‌ہایی کہ در عالم آخرت بہ نعمت یا عذاب می‌رسند، در درجات نعمت و یا درکات عذاب مساوی نیستند. این درجات و درکات متناسب با افکار و اعمال انسان‌ہا در این جہان، مراتب بسیار متفاوت دارد: درجات و مراتب آخرت برتر و بزرگ‌تر است.<ref>اسراء، ۲۱</ref>
confirmed، templateeditor
8,796

ترامیم