گمنام صارف
"افعال کا حسن اور قبح" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←محل بحث
imported>Mabbassi م (←محل بحث) |
imported>Mabbassi م (←محل بحث) |
||
سطر 7: | سطر 7: | ||
:حسن اور قبح سے کمال اور نقص مراد لئے جاتے ہیں نیز حسن اور قبح افعال اختیاری کیلئے صفت بنتے ہیں ۔ جیسے کہا جاتا ہے العلم حسن و الجہل قبیح۔ یعنی علم حاصل کرنا نفس کیلئے کمال ہے اور جہل نفس کی نسبت نقص ہے ۔اس معنی کے لحاظ سے اکثر اخلاقی صفات حسن اور قبح رکھتی ہیں یعنی ان کا ہونا نفس کیلئے کمال اور نہ ہونا نقص ہوتا ہے ۔اس لحاظ سے ان صفات کا حسن یا نہ ہونا قبیح ہونا ایسامعنی ہے جس سے اشاعرہ بھی اختلاف نہیں رکھتے ہیں جیسا کہ ایجی نے مواقف میں کہا ہے ۔ | :حسن اور قبح سے کمال اور نقص مراد لئے جاتے ہیں نیز حسن اور قبح افعال اختیاری کیلئے صفت بنتے ہیں ۔ جیسے کہا جاتا ہے العلم حسن و الجہل قبیح۔ یعنی علم حاصل کرنا نفس کیلئے کمال ہے اور جہل نفس کی نسبت نقص ہے ۔اس معنی کے لحاظ سے اکثر اخلاقی صفات حسن اور قبح رکھتی ہیں یعنی ان کا ہونا نفس کیلئے کمال اور نہ ہونا نقص ہوتا ہے ۔اس لحاظ سے ان صفات کا حسن یا نہ ہونا قبیح ہونا ایسامعنی ہے جس سے اشاعرہ بھی اختلاف نہیں رکھتے ہیں جیسا کہ ایجی نے مواقف میں کہا ہے ۔ | ||
:'''دوسرا معنا''': | :'''دوسرا معنا''': | ||
:ملائمت نفس یا منافرت نفس مراد لیتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے {{حدیث|ھذ المنظر حسن}} (یہ منظر خوبصورت ہے){{حدیث|ھذا المنظر قبیح}} یا افعال اختیاریہ میں کہتے ہیں:{{حدیث| نوم القیلوله حسن}} (قیلولہ کی نیند کرنا اچھا ہے){{حدیث|الاکل عند الجوع حسن}}(بھوک کے وقت کھانا کھانا حسن یعنی اچھا ہے )۔ ان افعال میں حسن اور قبح کی بازگشت حقیقت میں نفس کی طرف لوٹتی ہے یعنی انسانی نفس کو اس سے لذت محسوس ہونے کی وجہ سے انسانی نفس اس کی طرف میلان رکھتا ہے یا انسانی نفس اس سے قبح کا احساس کرتا ہے اور اس سے دوری اختیاری کرتا ہے ۔یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ وسیع تر ہے ۔ یہ قسم اشاعرہ اور عدلیہ کے درمیان محل نزاع نہیں ہے ۔ | :ملائمت نفس یا منافرت نفس مراد لیتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے {{حدیث|ھذ المنظر حسن}} (یہ منظر خوبصورت ہے){{حدیث|ھذا المنظر قبیح}} یا افعال اختیاریہ میں کہتے ہیں:{{حدیث| نوم القیلوله حسن}} (قیلولہ کی نیند کرنا اچھا ہے){{حدیث|الاکل عند الجوع حسن}}(بھوک کے وقت کھانا کھانا حسن یعنی اچھا ہے )۔ ان افعال میں حسن اور قبح کی بازگشت حقیقت میں نفس کی طرف لوٹتی ہے یعنی انسانی نفس کو اس سے لذت محسوس ہونے کی وجہ سے انسانی نفس اس کی طرف میلان رکھتا ہے یا انسانی نفس اس سے قبح کا احساس کرتا ہے اور اس سے دوری اختیاری کرتا ہے ۔اس قسم میں کبھی حسن اور قبح کو مصلحت اور مفسدہ سے بھی تعبیر کرتے ہیں<ref>شیخ مظفر ،اصول الفقہ ، ج 2 ص 274 با حوالۂ قوشجی ،شرح التجرید،ص338 ۔ایجی، المواقف ج 3 ص 262۔</ref> ۔یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ وسیع تر ہے ۔ یہ قسم اشاعرہ اور عدلیہ کے درمیان محل نزاع نہیں ہے ۔ | ||
: '''تیسرا معنا''': | : '''تیسرا معنا''': | ||
:حسن اور قبح سے مدح اور ذم مراد لیا جاتا ہے یعنی عقلا کے نزدیک اس فعل کو انجام دینے والا قابل مدح اور ستائش ہے نیز ثواب کا مستحق ہے۔ لہذا وہ فعل حسن ہے یا اس فعل کو انجام دینے والا قال مذمت ہے اور عقاب کا مستحق ہے ۔ لہذا وہ فعل قبیح ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ حسن وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک کرنا چاہئے اور قبح وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک نہیں کرنا چاہئے ۔عقل اس بات کو درک کرتی ہے کہ حسن فعل کو انجام دینا چاہئے اور قبیح کو ترک کرنا چاہئے۔<ref>شیخ مظفر ،اصول الفقہ،ج 1 ص ؛نیز ر ک: میثم بحرانی ،قواعد المرام،ص 104؛ایجی ،المواقف ج3 ص261؛قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ض8 ص 181،.... ۔</ref> | :حسن اور قبح سے مدح اور ذم مراد لیا جاتا ہے یعنی عقلا کے نزدیک اس فعل کو انجام دینے والا قابل مدح اور ستائش ہے نیز ثواب کا مستحق ہے۔ لہذا وہ فعل حسن ہے یا اس فعل کو انجام دینے والا قال مذمت ہے اور عقاب کا مستحق ہے ۔ لہذا وہ فعل قبیح ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ حسن وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک کرنا چاہئے اور قبح وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک نہیں کرنا چاہئے ۔عقل اس بات کو درک کرتی ہے کہ حسن فعل کو انجام دینا چاہئے اور قبیح کو ترک کرنا چاہئے۔<ref>شیخ محمد رضا مظفر ،اصول الفقہ،ج 1 ص ؛نیز ر ک: میثم بحرانی ،قواعد المرام،ص 104؛ایجی ،المواقف ج3 ص261؛قاضی جرجانی ،شرح المواقف،ض8 ص 181،.... ۔</ref> | ||
پہلے اور دوسرے معنا کی نسبت عدلیہ اور اشاعرہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ تیسر معنا کی نسبت عدلیہ افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ انکار کرتے ہیں ۔ افعال کے حسن اور قبح کے قائلین کے درمیان درج ذیل تفصیل پائی جاتی ہے : | پہلے اور دوسرے معنا کی نسبت عدلیہ اور اشاعرہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے جبکہ تیسر معنا کی نسبت عدلیہ افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ انکار کرتے ہیں ۔ افعال کے حسن اور قبح کے قائلین کے درمیان درج ذیل تفصیل پائی جاتی ہے : | ||
سطر 16: | سطر 16: | ||
حسن اور قبح افعال کی ذات کو نہیں بلکہ ان کی ایسی صفات کو لاحق ہوتا ہے جو فعل کیلئے لازم ہوتی ہیں۔ | حسن اور قبح افعال کی ذات کو نہیں بلکہ ان کی ایسی صفات کو لاحق ہوتا ہے جو فعل کیلئے لازم ہوتی ہیں۔ | ||
فعل کی ایسی صفت سے متصف ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ قبح کا باعث بنتا ہے ۔ | فعل کی ایسی صفت سے متصف ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ قبح کا باعث بنتا ہے ۔ | ||
حسن میں صرف قباحت کے موجب نہ پایا جانا ہی کافی ہے ۔ | حسن میں صرف قباحت کے موجب کا نہ پایا جانا ہی کافی ہے ۔ | ||
حسن اور قبح کا ذاتی ہونا | حسن اور قبح کا ذاتی ہونا | ||
جب تیسرے معنی کے مطابق افعال کے حسن و قبح کا لحاظ کیا جاتا ہے تو ہم کچھ ایسے افعال پاتے ہیں کہ وہ افعال خود حسن اور قبح کی علت ہوتے ہیں ۔ یعنی جب ہم اس فعل کا لحاظ کرتے ہیں تو وہ فعل کسی بھی دوسرے لحاظ کے بغیر خود فعل حسن یا قبح کی علت ہوتا ہے یوں کہئے کہ حسن اور قبح بعض افعال کی ذات میں پوشیدہ ہوتا ہے ۔مثلا عدل، علم،ظلم، جہل وغیرہ میں جب بھی کسی جگہ عدل کا عنوان صدق کرے گا تو وہاں حسن کا ذاتی طور پر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ عدل کبھی بھی حسن کے بغیر قابل تصور نہیں ہے ۔جیسے ھی کوئی شخص عدل کرے گا تو عقلا کے نزدیک ایسا شخص قابل ستائش ہے۔پس یہی وجہ ہے کہ عدل کرنے والا کسی بھی دین سے تعلق رکھتا ہو عقلا کے نزدیک وہ قابل مدح اور ستائش کا مستحق ہے ۔اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ عدل ہمیشہ حسن رکھتا ہے اور کبھی بھی عدل کا حسن کے بغیر پایا جانا ممکن نہیں ہے ۔ اسی طرح جب کوئی شخص ظلم کرتا ہے تو عقلا اس کے اس ظلم کے وجہ سے اسکی سرزنش کرتے ہیں ۔ | |||
اس کے بر خلاف بعض افعال ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں حسن یا قبح کا عنوان کسی دوسرے لحاظ یا عنوان کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے ۔مثلا مارنا اس فعل کو اگر ادب سکھانے کی وجہ سے انجام دیں تو حسن پایا جاتا ہے اور | |||
:دوسری قسم : | |||