گمنام صارف
"فاطمہ بنت امام حسن" کے نسخوں کے درمیان فرق
←کنیت، القاب و منزلت
imported>E.musavi |
imported>E.musavi |
||
سطر 32: | سطر 32: | ||
'''ترجمہ''': امعبداللہ اتنی صادقہ اور نیک کردار کی مالکہ تھیں کہ امام حسنؑ کے خاندان میں آپ جیسی کوئی خاتون نہیں دیکھی گئی۔|تاریخ بایگانی| مآخذ = <small>[[بحارالانوار]]، ج۴۶، ص۲۱۵ ؛ [[اصول کافی]]، ج۲، ص۴۴۶.</small>| تراز = چپ| چوڑائی= 270px| اندازه خط = 15px|بیک گراونڈ کلر=#FFF2F2| گیومه نقل قول =| سمت مآخذ = بائیں}} | '''ترجمہ''': امعبداللہ اتنی صادقہ اور نیک کردار کی مالکہ تھیں کہ امام حسنؑ کے خاندان میں آپ جیسی کوئی خاتون نہیں دیکھی گئی۔|تاریخ بایگانی| مآخذ = <small>[[بحارالانوار]]، ج۴۶، ص۲۱۵ ؛ [[اصول کافی]]، ج۲، ص۴۴۶.</small>| تراز = چپ| چوڑائی= 270px| اندازه خط = 15px|بیک گراونڈ کلر=#FFF2F2| گیومه نقل قول =| سمت مآخذ = بائیں}} | ||
فاطمہ بنت حسن کی کنیت ام محمد،<ref> تاریخ مدینہ دمشق، ج۷۰، ص۲۶۱</ref> ام عبد اللہ،<ref> بحار الانوار، ج۴۶، ص۲۱۵</ref> یا ام عبدہ<ref> اعیان الشیعہ، ج۸، ص ۳۹۰</ref> ہے اور ان کا لقب ([[حدیث]] کے مطابق) صدیقہ ہے۔<ref> اصول کافی، ج۲، ص۴۴۶</ref> ایک روایت کے مطابق [[جابر بن عبداللہ انصاری]] کہتے ہیں کہ میں نے [[مصحف فاطمہ]] ؑ میں آئمہ طاہرین کی ماؤوں کے نام دیکھے۔ اس روایت میں ام عبد اللہ بنت حسن بن علی بن ابی طالب کو حضرت [[امام محمد باقر]] ؑ کی والدہ کہا ہے۔<ref> بحار الانوار، ج۳۶، ص۱۹۴</ref> | فاطمہ بنت حسن کی کنیت ام محمد،<ref> تاریخ مدینہ دمشق، ج۷۰، ص۲۶۱</ref> ام عبد اللہ،<ref> بحار الانوار، ج۴۶، ص۲۱۵</ref> یا ام عبدہ<ref> اعیان الشیعہ، ج۸، ص ۳۹۰</ref> ہے اور ان کا لقب ([[حدیث]] کے مطابق) صدیقہ ہے۔<ref> اصول کافی، ج۲، ص۴۴۶</ref> ایک روایت کے مطابق [[جابر بن عبداللہ انصاری]] کہتے ہیں کہ میں نے [[مصحف فاطمہ]] ؑ میں آئمہ طاہرین کی ماؤوں کے نام دیکھے۔ اس روایت میں ام عبد اللہ بنت حسن بن علی بن ابی طالب کو حضرت [[امام محمد باقر]] ؑ کی والدہ کہا گیا ہے۔<ref> بحار الانوار، ج۳۶، ص۱۹۴</ref> | ||
حضرت [[امام محمد باقر]] کہتے ہیں: ایک مرتبہ ان کی والدہ نے اشارے کے ذریعے دیوار کو گرنے سے روک دیا۔<ref> بحار الانوار، ج۴۶، ص۲۱۵؛ منتهی الامال ج۲، ص۱۷۳</ref> | حضرت [[امام محمد باقر]] کہتے ہیں: ایک مرتبہ ان کی والدہ نے اشارے کے ذریعے دیوار کو گرنے سے روک دیا۔<ref> بحار الانوار، ج۴۶، ص۲۱۵؛ منتهی الامال ج۲، ص۱۷۳</ref> |