"قیام امام حسینؑ" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi |
||
سطر 29: | سطر 29: | ||
==قیام کے متعلق مختلف نظریات == | ==قیام کے متعلق مختلف نظریات == | ||
ابن تیمیہ (متوفیٰ 728) نے اپنی کتاب منہاج السنہ میں امام حسین ؑ کے قیام کے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے:۔ | |||
:{{حدیث|'''فَتَبَيَّنَ أَنَّ الْأَمْرَ عَلَى مَا قَالَهُ أُولَئِكَ، وَلَمْ يَكُنْ فِي الْخُرُوجِ لَا مَصْلَحَةُ دِينٍ وَلَا مَصْلَحَةُ دُنْيَا ، بَلْ تَمَكَّنَ أُولَئِكَ الظَّلَمَةُ الطُّغَاةُ مِنْ سِبْطِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَتَّى قَتَلُوهُ مَظْلُومًا شَهِيدًا، وَكَانَ فِي خُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ مِنَ الْفَسَادِ مَا لَمْ يَكُنْ حَصَلَ لَوْ قَعَدَ فِي بَلَدِهِ، فَإِنَّ مَا قَصَدَهُ مِنْ تَحْصِيلِ الْخَيْرِ وَدَفْعِ الشَّرِّ لَمْ يَحْصُلْ مِنْهُ شَيْءٌ، بَلْ زَادَ الشَّرُّ بِخُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ، وَنَقَصَ الْخَيْرُ بِذَلِكَ، وَصَارَ ذَلِكَ سَبَبًا لِشَرٍّ عَظِيمٍ'''}}<ref>ابن تیمیہ، منہاج السنۃ ج 4 صص 530،531۔</ref>ترجمہ:واضح ہو گیا کہ حقیقت امر وہی تھی جو اصحاب نے کہا تھا<ref>اس سے پہلے عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن مطیع وغیرہ کا ذکر کیا ہے کہ انہوں امام حسین ؑ کو خروج سے منع کیا تھا۔</ref> اور اس (یزید) کے خلاف خروج میں نہ توکوئی دنیاوی مصلحت تھی اور نہ کوئی اخروی مصلحت ہی موجود تھی بلکہ ممکن ہے سبط رسول اللہ کی جانب سے یہ ظلمت اور بغاوت ہو یہانتک کہ انہوں نے اسے مظلوم شہید کیا اس کے قتل اور خروج کے فساد سے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔اگر وہ اپنے شہر میں رہتا (تو اچھا تھا) کیونکہ جس خیر اور دفع شر کا اس نے ارادہ اور قصد کیا تھا ان میں سے اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے خروج اور قتل سے شر میں اضافہ ہوا اور خیر میں کمی ہوئی اور یہ شر عظیم کا سبب بن گیا۔ | |||
{{حدیث|'''فَتَبَيَّنَ أَنَّ الْأَمْرَ عَلَى مَا قَالَهُ أُولَئِكَ، وَلَمْ يَكُنْ فِي الْخُرُوجِ لَا مَصْلَحَةُ دِينٍ وَلَا مَصْلَحَةُ دُنْيَا ، بَلْ تَمَكَّنَ أُولَئِكَ الظَّلَمَةُ الطُّغَاةُ مِنْ سِبْطِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَتَّى قَتَلُوهُ مَظْلُومًا شَهِيدًا، وَكَانَ فِي خُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ مِنَ الْفَسَادِ مَا لَمْ يَكُنْ حَصَلَ لَوْ قَعَدَ فِي بَلَدِهِ، فَإِنَّ مَا قَصَدَهُ مِنْ تَحْصِيلِ الْخَيْرِ وَدَفْعِ الشَّرِّ لَمْ يَحْصُلْ مِنْهُ شَيْءٌ، بَلْ زَادَ الشَّرُّ بِخُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ، وَنَقَصَ الْخَيْرُ بِذَلِكَ، وَصَارَ ذَلِكَ سَبَبًا لِشَرٍّ عَظِيمٍ'''}}<ref>ابن تیمیہ، منہاج السنۃ ج 4 صص 530،531۔</ref>ترجمہ:واضح ہو گیا کہ حقیقت امر وہی تھی جو اصحاب نے کہا تھا<ref>اس سے پہلے عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن مطیع وغیرہ کا ذکر کیا ہے کہ انہوں امام حسین ؑ کو خروج سے منع کیا تھا۔</ref> اور اس (یزید) کے خلاف خروج میں نہ توکوئی دنیاوی مصلحت تھی اور نہ کوئی اخروی مصلحت ہی موجود تھی بلکہ ممکن ہے سبط رسول اللہ کی جانب سے یہ ظلمت اور بغاوت ہو یہانتک کہ انہوں نے اسے مظلوم شہید کیا اس کے قتل اور خروج کے فساد سے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔اگر وہ اپنے شہر میں رہتا (تو اچھا تھا) کیونکہ جس خیر اور دفع شر کا اس نے ارادہ اور قصد کیا تھا ان میں سے اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے خروج اور قتل سے شر میں اضافہ ہوا اور خیر میں کمی ہوئی اور یہ شر عظیم کا سبب بن گیا۔ | |||
نسخہ بمطابق 13:49، 9 اکتوبر 2015ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم [[صارف:imported>Mabbassi|imported>Mabbassi]] ([[Special:Contributions/imported>Mabbassi|حصہ]] · [[Special:Log/imported>Mabbassi|شراکت]]) نے 9 سال قبل کی۔ |
قیام امام حسین علیہ السلام ایک ایسا موضوع ہے جس کے متعلق عرصۂ دراز سے گفتگو کرتے ہوئے اس قیام کی مختلف وجوہات کو بیان کیا جارہا ہے اور اسلامی تاریخ کے ہردور میں اظہارِ خیال کیاگیا ہے ۔اِس تحریک اور قیام کے مختلف مقاصد اور محرکات بیان کئے گئے ہیں۔اظہارِ خیال کرنے والے بعض حضرات نے انتہائی جزئی مطالعے، کوتاہ فکری، کسی خاص فکری رجحان سے وابستگی یا بدنیتی کی بنا پرامام حسین ؑ کے قیام کا مقصد ایسی چیزوں کو قرار دیا ہے جو اسلام کی روح، تاریخی حقائق، امام حسین ؑ کی شخصیت اور آپ ؑ کے مقامِ عصمت وامامت کے یکسرمنافی ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ نواسہ رسول کا اقدام نسلی یا قبائلی چپقلش کا نتیجہ تھا، جبکہ اس کے مقابلے میں مثبت فکر رکھنے والوں نے اس امام حسین ؑ کے اس قیام کو شہادت کے حصول، تشکیل حکومت یا اصلاح حکومت جیسے عناوین سے تعبیر کیا ہے ۔ان تمام پہلوؤں سے قطع نظر واقعہ کربلا تاریخ ایک ایسا موڑ ہے جس نے تاریخ انسانیت میں ایک ایسا انقلاب ایجاد کیا کہ جس اثرات آج بھی صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ دنیا کے مختلف مذاہب اور مکاتب فکر پر اس کے اثرات کا مشادہ کیا جا سکتا ہے ۔
ابتدائیہ
مکتب تشیع کسی اختلاف کے بغیر اس بات کا قائل ہے کہ مولائے کائنات سے لیکر امام مھدی (ع) تک تمام آئمہ معصومین (ع) تخلیق کے اعتبار سے پاک و پاکیزہ ہیں جن کی حقیقت "حقیقت محمدیہ" ہے۔اس بنا پر اصل خلقت کے اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ کمالات و فضائل میں تمام آئمہ برابر ہیں۔ یعنی جو فضیلت کسی ایک امام کے لئے ثابت ہو دوسرے آئمہ کے لیے بھی خودبخود ثابت ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو امامت میں نقص لازم آئے گا کہ جو عقلا باطل اور محال ہے۔
بعض آئمہ (ع) کی زندگی میں کچھ خاص مواقع اور فرصتیں پیش آتی رہی ہیں کہ جو دوسرے اماموں کی زندگی میں پیش نہیں آئی تھیں۔ لہٰذا بہت سارے آئمہ کو بعض کام انجام دینے کی فرصت اور موقع نصیب نہیں ہوتا رہا ہے۔ جیسے بنی امیہ کے سقوط اور بنی عباس کے برسر اقتدار آنے کے دوران امام صادق علیہ السلام کو فرصت ملی اور آپ نےاس سے مکمل فائدہ اٹھاتے ہوئے علمی کارنامہ انجام دینا شروع کئے کہ جس کے نتیجے میں ایک تخمینے کے مطابق چار ہزار سے زیادہ شاگردوں کو تربیت کیا۔ اسلام واقعی کی دنیا میں پہچان کروائی اور مذہب تشیع کو عروج دیا۔ لیکن زندگی کے آخر میں بنی عباس کی ظالمانہ حکومت نے ان پر مصائب ڈھانا شروع کر دئے اور آخر کار منصور نے زہر دے کر شہید کردیا۔
اب اگر یہ کہا جاتا ہے کہ امام جعفر صادق (ع) مذہب تشیع کے رئیس اور اسلام کو دوباره زندگی دینے والے ہیں تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی آئمہ کے اندر معاذ اللہ اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں تھی۔ یا امام حسین (ع) نے قیام کیا اور حیرت انگیز کارنامہ انجام دے کر اسلام کو حیات جاودانہ عطا کی تو دوسرے امام یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ یا امام حسن (ع) تکوینی طور پر قیام کرنے سے عاجز تھے۔ تاریخ کا دقیق مطالعہ کرنے سے یہ تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں کہ امام حسین کا قیام پہلے مرحلے پر "قیام حسنی" ہے دوسرے مرحلے پر حسینی ہے۔
اصحاب رسول اللہ اور معروف شخصیات کی رائے
مکتب تشیع میں امام ایک ایسی شخصیت ہے جو عصمت کے درجے پر فائز ہوتی ہے ۔ لہذا اس بنا پر ایسی شخصیت کے بارے میں یہ سوچنا ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے افعال کو کسی حکمت و عقلی سبب کی رعایت کئے بغیر انجام دے۔ اس وجہ سے مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے دانشوران واقعہ کربلا کے بعد سے لے کر آج تک اس بات پر متفق ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا یہ اقدام ایک مثبت اقدام تھاالبتہ اس اقدام کے بیان میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے ۔لیکن اس کے برعکس کچھ کا یہ کہنا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا یہ اقدام نا درست تھا جیسا کہ بعض اصحاب رسول یا تابعین اسی نظر کے قائل نظر آتے ہیں ۔اس رائے کا مستند ان اصحاب کے اقوال کو قرار دیا جاتا ہے کہ جس کا اظہار انہوں نے امام حسین ؑ سے اس موضوع کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ ان میں سے چند ایک کی گفتگو میں واقع ہونے والے نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
- حکوت کاحصول
امام حسین ؑ نے دنیاوی مقاصد میں سے اپنی حکومت کے قیام کیلئے یہ اقدام کیا ۔ یہ رائے اس وقت مدینے اور مکہ کی بعض شخصیات کے اذہان میں موجود تھی اور انہوں نے اسی اعتقاد کی بنا پر امام حسین ؑ کو یزید کے خلاف قیام سے روکنے کی کوشش کی ۔ مثال کے طور پر عبد اللہ بن عمر نے حضرت امام حسین کو کوفہ جانے سے روکنے کیلئے ان الفاظ میں سر زنش کی ۔
- لا تخرج فانّ رسول اللہ خیّره اللہ بین الدنیا و الآخرہ فاختار الآخرہ و انّک بضعہ منہ ولا تعاطھا یعنی الدنیا ترجمہ: تم خروج نہ کرو کیونکہ رسول کو اللہ نے دنیا اور آخرت اختیار کرنے کا اختیار دیا تھا اور رسول اللہ نے آخرت کو اختیار کیا تم تو اسی کا ٹکڑا ہو تم اپنے آپ کو اس میں مشغول نہ کرو ۔ ۔[1]
- آسودہ حالی کے خاتمے کا ڈر
عبد اللہ بن مطیع کی یہ روایت منقول ہے :۔ لما خرج الحسين بن علي من المدينة يريد مكة ، مر بابن مطيع وهو يحفر بئره فقال له : أين فداك أبي وامي ؟ قال : أردت مكة - قال : وذكر له أنه كتب إليه شيعته بها - فقال له ابن مطيع : اين فداك أبي وامي ؟ متعنا بنفسك ولا تسر إليهمعبد اللہ بن مطیع کے کنواں کھودنے کے وقت جب حضرت امام حسین کی اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے امام سے کہا :میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کہاں کا ارادہ ہے ؟امام نے جواب دیا مکے کا۔تو اس نے کہا : آپ کی ذات کی وجہ سے تو ہم آسودگی کی زندگی گزار رہے ہیں آپ اس سفر پہ مت جائیں ۔[2] دوسری روایت میں کہا کہ آپ عراق مت جائیں خدا کی قسم اگر انہوں نے تمہیں قتل کر دیا تو وہ ہمیں غلام بنا لیں گے ۔[3]
- امام وقت کے خلاف خروج نا درست اقدام
ابو سعید خدری :اپنے نفس کو بچاؤ اور گھر میں ہی رہو اپنے امام کے خلاف خروج نہ کرو۔[4]
- یزید کے خلاف قیام میں قتل ہونا خودکشی ہے
ابو واقد لیثی نے امام کو قیام سے منع کرتے ہوئے کہا : میں نے اسے منع کیا کہ وہ قیام نہ کرے کیونکہ اس کا یہ قیام کسی سبب کے بغیر ہے اور اس نے اپنے نفس کو خود قتل کیا ہے ۔[5]
- موجودہ حاکم کی بیعت نہ کرنا درست اقدام
محمد بن حنفیہ: اے میرے بھائی !تم مجھے سب سے زیادہ عزیز ہو اور محبوب ہو ......تم یزید بن معاویہ کی بیعت سے دوری اختیار کرو اور جہاں تک ہو سکے شہروں دور رہو ۔پھر اپنے قاصد لوگوں کی جانب روانہ کرو اور انہیں اپنی جانب بلاؤ اگر تمہارے پیغام کو قبول کریں تو الحمد للہ اور اگر وہ کسی اور پر [6]اتفاق کریں تو انکے اس عمل سے تمہارے دین میں کوئی کمی نہیں ہوئی ،نہ تمہارے فضل میں کمی ہو گی......۔
- کوفہ کی بے وفائی اور مکہ میں رہنا
عبد اللہ بن عباس نے مکہ میں کہا : تم انکے پاس جارے ہو جنہوں نے آپکے والد کو قتل کیا اور آپکے بھائی کو زخمی کیا۔یقینا وہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے لہذا آپ مکہ میں ہی قیام کریں۔
آپ یمن کی طرف جائیں جہاں آپ کے والد کے شیعوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور وہ اہک وسیع و عریض جگہ ہے ۔ جب ابن عباس کو آپ کے قطعی ارادے کا علم ہو گیا تو کہا اپنے ساتھ عورتوں اور بچوں کو مت لے جائیں ۔ مبادا تمہیں حضرت عثمان بن عفان کی طرح بچوں کی موجودگی میں قتل کر دیں۔[6]
قیام کے متعلق مختلف نظریات
ابن تیمیہ (متوفیٰ 728) نے اپنی کتاب منہاج السنہ میں امام حسین ؑ کے قیام کے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے:۔
- فَتَبَيَّنَ أَنَّ الْأَمْرَ عَلَى مَا قَالَهُ أُولَئِكَ، وَلَمْ يَكُنْ فِي الْخُرُوجِ لَا مَصْلَحَةُ دِينٍ وَلَا مَصْلَحَةُ دُنْيَا ، بَلْ تَمَكَّنَ أُولَئِكَ الظَّلَمَةُ الطُّغَاةُ مِنْ سِبْطِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَتَّى قَتَلُوهُ مَظْلُومًا شَهِيدًا، وَكَانَ فِي خُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ مِنَ الْفَسَادِ مَا لَمْ يَكُنْ حَصَلَ لَوْ قَعَدَ فِي بَلَدِهِ، فَإِنَّ مَا قَصَدَهُ مِنْ تَحْصِيلِ الْخَيْرِ وَدَفْعِ الشَّرِّ لَمْ يَحْصُلْ مِنْهُ شَيْءٌ، بَلْ زَادَ الشَّرُّ بِخُرُوجِهِ وَقَتْلِهِ، وَنَقَصَ الْخَيْرُ بِذَلِكَ، وَصَارَ ذَلِكَ سَبَبًا لِشَرٍّ عَظِيمٍ[7]ترجمہ:واضح ہو گیا کہ حقیقت امر وہی تھی جو اصحاب نے کہا تھا[8] اور اس (یزید) کے خلاف خروج میں نہ توکوئی دنیاوی مصلحت تھی اور نہ کوئی اخروی مصلحت ہی موجود تھی بلکہ ممکن ہے سبط رسول اللہ کی جانب سے یہ ظلمت اور بغاوت ہو یہانتک کہ انہوں نے اسے مظلوم شہید کیا اس کے قتل اور خروج کے فساد سے کچھ حاصل نہیں ہوا ۔اگر وہ اپنے شہر میں رہتا (تو اچھا تھا) کیونکہ جس خیر اور دفع شر کا اس نے ارادہ اور قصد کیا تھا ان میں سے اسے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے خروج اور قتل سے شر میں اضافہ ہوا اور خیر میں کمی ہوئی اور یہ شر عظیم کا سبب بن گیا۔
- ↑ طبرانی ، معجم الاوسط ج 1 ص 189۔ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق ج 14 ص 208۔ابن کثیر ،البدایہ و النہایہ ج 8 ص 175
- ↑ ابن عساکر، ترجمہ الامام حسین،ص1۔
- ↑ ابن عساکر ،ترجمہ الامام الحسین ص 292۔
- ↑ ابن عساکر،ترجمہ الامام الحسین 294۔
- ↑ ابن عساکر،ترجمہ الامام الحسین 294۔
- ↑ ملخص :دینوری ، الاخبار الطوال 244۔ طبری ،تاریخ الامم و الملوک۔ ذیل سنۃ ستین۔ابن اثیر ،الکامل فی التاریخ ج 4 ص 39۔
- ↑ ابن تیمیہ، منہاج السنۃ ج 4 صص 530،531۔
- ↑ اس سے پہلے عبد اللہ بن عمر اور عبد اللہ بن مطیع وغیرہ کا ذکر کیا ہے کہ انہوں امام حسین ؑ کو خروج سے منع کیا تھا۔