مندرجات کا رخ کریں

"صلح حدیبیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Smnazem
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi
سطر 111: سطر 111:


==صلح حدیبیہ کی برکات==
==صلح حدیبیہ کی برکات==
صلح [[حدیبیہ]]، تاریخ کی گواہی اور [[رسول خدا(ص)]] کی پیشنگوئیوں اور [[قرآن]] کے وعدوں کے عین مطابق، مسلمانوں کے لئے بہت سی برکات کا سبب ہوئی۔ مؤرخین کے مطابق، [[اسلام]] کے صدر اول میں فتح حدیبیہ سے عظیم تر کوئی فتح مسلمانوں کے نصیب نہیں ہوئی کیونکہ اس کی روشنی میں جنگ کے بادل چھٹ گئے اور دعوت [[اسلام]] کو فروغ ملا اور [[اسلام]] پورے جزیرۃ العرب میں پھیل گیا؛ یہاں تک کہ معاہدہ صلح سے اس کی پامالی تک صرف 22 مہینوں کے عرصے میں اسلام قبول کرنے والے افراد کی تعداد اس زمانے تک اسلام قبول کرنے والے افراد سے کہیں زیادہ تھی۔ چنانچہ سنہ 8 ہجری میں [[فتح مکہ]] کے لئے عزیمت کرتے وقت [[رسول اللہ(ص)]] کی سپاہ 10000 افراد پر مشتمل تھی اور قریش کے عمائدین ـ منجملہ [[ابو سفیان]]، [[خالد بن ولید]] اور [[عمرو عاص]] نے ان ہی ایام میں اسلام قبول کیا۔<ref>رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص624۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص788۔</ref>
صلح [[حدیبیہ]] تاریخ کی گواہی اور [[رسول خدا(ص)]] کی پیشنگوئیوں اور [[قرآن]] کے وعدوں کے عین مطابق، مسلمانوں کے لئے بہت سی برکات کا سبب ہوئی۔ مؤرخین کے مطابق، [[اسلام]] کے صدر اول میں فتح حدیبیہ سے عظیم تر کوئی فتح مسلمانوں کے نصیب نہیں ہوئی کیونکہ اس کی روشنی میں جنگ کے بادل چھٹ گئے اور دعوت [[اسلام]] کو فروغ ملا اور [[اسلام]] پورے جزیرۃ العرب میں پھیل گیا؛ یہاں تک کہ معاہدہ صلح سے اس کی پامالی تک صرف 22 مہینوں کے عرصے میں اسلام قبول کرنے والے افراد کی تعداد اس زمانے تک اسلام قبول کرنے والے افراد سے کہیں زیادہ تھی۔ چنانچہ سنہ 8 ہجری میں [[فتح مکہ]] کے لئے عزیمت کرتے وقت [[رسول اللہ(ص)]] کی سپاہ 10000 افراد پر مشتمل تھی اور قریش کے عمائدین ـ منجملہ [[ابو سفیان]]، [[خالد بن ولید]] اور [[عمرو عاص]] نے ان ہی ایام میں اسلام قبول کیا۔<ref>رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص624۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص788۔</ref>
گوکہ ابو سفیان کے قبول اسلام کے بارے میں اختلاف ہے اور زیادہ مستند قول یہ ہے کہ اس نے [[رسول خدا(ص)]] اور [[اسلام]] کے خلاف بےحد وحساب ریشہ دوانیوں کے بعد، سنہ 8 ہجری میں [[فتح مکہ]] کے دوران [[عباس بن عبد المطلب]] کی وساطت سے [[رسول خدا(ص)]] کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص817-818۔</ref> اور آپ(ص) نے اس کے گھر کو پرامن پناہ گاہ قرار دیا۔<ref>الواقدی، وہی ماخذ۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج4، ص44۔</ref>
گوکہ ابو سفیان کے قبول اسلام کے بارے میں اختلاف ہے اور زیادہ مستند قول یہ ہے کہ اس نے [[رسول خدا(ص)]] اور [[اسلام]] کے خلاف بےحد وحساب ریشہ دوانیوں کے بعد، سنہ 8 ہجری میں [[فتح مکہ]] کے دوران [[عباس بن عبد المطلب]] کی وساطت سے [[رسول خدا(ص)]] کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا<ref>الواقدی، المغازی، ج2، ص817-818۔</ref> اور آپ(ص) نے اس کے گھر کو پرامن پناہ گاہ قرار دیا۔<ref>الواقدی، وہی ماخذ۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج4، ص44۔</ref>


گمنام صارف