مندرجات کا رخ کریں

"صلح حدیبیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 70: سطر 70:
[[قریش]] عجیب مخمصے میں پڑ گئے تھے چنانچہ انھوں نے مکرز بن حفص کو ـ جو شجاعت اور بےباکی کے حوالے سے مشہور تھا ـ 40 یا 50 سواروں کا ایک دستہ دے کر مسلمانوں کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ مسلمانوں کے گرد ایک جولان دے اور اگر ہو سکے تو ان میں چند افراد کو گرفتار کرکے لائے تاکہ مسلمانوں کے چند یرغمالی ان کے ہاتھ میں ہوں اور یوں اپنی تجاویز مسلمانوں پر مسلط کرسکیں۔ لیکن مکرز اور اس کے ساتھی نہ صرف کسی کو گرفتار نہ کرسکے بلکہ وہ سب مسلمان پہرےداروں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ انہیں [[رسول خدا(ص)]] کی خدمت میں حاضر کیا گیا تو آپ(ص) نے ـ اسی سبب کہ جنگ پر مامور نہ تھے ـ ان کی رہائی کا فرمان جاری کیا؛ حالانکہ مکرز اور اس کے ساتھیوں نے گرفتاری سے قبل مسلمانوں کی طرف تیر پھینکے تھے اور مسلمانوں کو آزار و اذیت پہنچائی تھی اور حتی کہ بعض روایات کے مطابق ابن زنیم نامی مسلمان کو قتل بھی کیا تھا۔ بہر حال وہ [[رسول اللہ(ص)]] کے حکم پر رہا کئے گئے اور [[قریش]] کی طرف پلٹ گئے۔<ref>رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص602۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص779۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات، ج2، ص96ـ97۔</ref>
[[قریش]] عجیب مخمصے میں پڑ گئے تھے چنانچہ انھوں نے مکرز بن حفص کو ـ جو شجاعت اور بےباکی کے حوالے سے مشہور تھا ـ 40 یا 50 سواروں کا ایک دستہ دے کر مسلمانوں کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ مسلمانوں کے گرد ایک جولان دے اور اگر ہو سکے تو ان میں چند افراد کو گرفتار کرکے لائے تاکہ مسلمانوں کے چند یرغمالی ان کے ہاتھ میں ہوں اور یوں اپنی تجاویز مسلمانوں پر مسلط کرسکیں۔ لیکن مکرز اور اس کے ساتھی نہ صرف کسی کو گرفتار نہ کرسکے بلکہ وہ سب مسلمان پہرےداروں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ انہیں [[رسول خدا(ص)]] کی خدمت میں حاضر کیا گیا تو آپ(ص) نے ـ اسی سبب کہ جنگ پر مامور نہ تھے ـ ان کی رہائی کا فرمان جاری کیا؛ حالانکہ مکرز اور اس کے ساتھیوں نے گرفتاری سے قبل مسلمانوں کی طرف تیر پھینکے تھے اور مسلمانوں کو آزار و اذیت پہنچائی تھی اور حتی کہ بعض روایات کے مطابق ابن زنیم نامی مسلمان کو قتل بھی کیا تھا۔ بہر حال وہ [[رسول اللہ(ص)]] کے حکم پر رہا کئے گئے اور [[قریش]] کی طرف پلٹ گئے۔<ref>رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص602۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص779۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات، ج2، ص96ـ97۔</ref>


== قریش کی طرف نمائندہ روانہ کرنا ==
[[رسول اللہ(ص)]] نے [[قریش]] کی طرف نمائندہ روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابتداء میں [[عمر بن خطاب|عمر]] کو اس مہم کے لئے منتخب کیا لیکن عمر نے کہا: [[مکہ]] میں میرے اعزاء اور اقارب طاقتور نہیں ہیں جو مجھے [[قریش]] کی دست درازی سے تحفظ دیں اور میری حمایت کریں اور [[قریش]] جانتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ کس قدر دشمنی رکھتا ہوں لہذا عین ممکن ہے کہ وہ مجھے قتل کریں!؛ چنانچہ انھوں نے جانے سے انکار کیا اور [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے بطور نمائندہ بھیجنے کی تجویز دی؛ کیونکہ عثمان کا تعلق [[بنو امیہ]] سے تھا اور [[قریش]] کے درمیان ان کے اعزاء و اقارب با اثر تھے۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص782۔</ref>۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص89۔</ref>
[[پیغمبر اکرم(ص)]] نے عثمان کو [[مکہ]] روانہ کیا اور مکیوں کو ایک بار پھر اپنے ارادے (یعنی [[کعبہ|خانۂ خدا]] کی زیارت اور [[مدینہ]] واپس جانے) سے آگاہ کیا؛ لیکن وہ پھر بھی نہ مانے اور عثمان کو واپس نہیں جانے دیا جس کے نتیجے میں افواہ اڑی کہ عثمان کو [[قریش]] نے قتل کردیا ہے۔ یہ خبر آنے کے بعد [[رسول خدا(ص)]] نے اصحاب کو [[بیعت]] کے لئے بلایا جو [[بیعت رضوان]] کے نام سے مشہور ہوئی۔<ref>رجوع کریں: الواقدی، المغازی، ج2، ص603۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص782۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ، ج2، ص632۔</ref> جَدّ بن قَیس کے سوا [[حدیبیہ]] میں موجود باقی تمام اصحاب نے [[رسول خدا(ص)]] کے ہاتھ پر بیعت کی۔<ref>ابن هشام، السيرة النبوية، ج3، ص782۔</ref>


==پاورقی حاشیے==
==پاورقی حاشیے==
گمنام صارف