گمنام صارف
"غزوہ ذی امر" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Noorkhan کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 21: | سطر 21: | ||
| یادداشت = | | یادداشت = | ||
}} | }} | ||
==پاورقی حاشیے== | {{تاریخ صدر اسلام}} | ||
{{حوالہ جات}} | {{پیغمبر خدا(ص) کی مدنی زندگی}} | ||
'''غزوہ ذی امر''' ۔<ref>شريعتمداري، چكيده تاريخ پيامبر اسلام صلي الله عليه و آله، ص 274۔</ref> بمقام نجد اور موضع "النخیل"<ref>خطیب بغدادی، الطبقات الكبرى، ج2، ص34۔</ref>۔<ref>واقدی، المغازى، ج1، ص193۔</ref>۔<ref>حموی، معجم البلدان، ج1، ص252۔</ref>۔<ref>البغدادي صفي الدين، مراصد الاطلاع، ج1، ص116۔</ref> [عربی میں: '''''غزوة ذي أمر''''']، یا '''غزوہ غطفان''' یا '''غزوہ انمار'''، [[رسول خدا(ص)]] کے غزوات میں سے ایک ہے۔ چونکہ [[رسول اللہ|پیغمبر(ص)]] کو اس مہم کے لئے [[مدینہ]] سے 100 کلومیٹر دور نجد میں غطفان کے علاقے کے ایک موضع "ذی امر" تک جانا پڑا لہذا اس کو ذی امر کہا گیا۔ یہ واقعہ [[ہجرت]] کے پچیسویں مہینے میں 12 [[ربیع الاول]] کو رونما ہوا۔ | |||
==وجۂ تسمیہ== | |||
یہ غزوہ غطفان میں ذی امر مقام پر ہوا جس بنا پر اس کو غزوہ ذی امر اور غزوہ غطفان کہتے ہیں۔ | |||
==سبب جنگ== | |||
جنگ کی وجہ یہ تھی کہ غطفان کے قبائل "بنو ثعلبہ" اور "بنو محارب" کی ایک مشترکہ جماعت اکٹھی ہوئی اور اس نے مسلمانوں پر حملہ کرنے، [[مدینہ]] کو غارت کرنے اور غنیمت حاصل کرنے کرنے کا منصوبہ بنایا ہے؛ اور اس گروہ کا سالار [[دعثور بن حارث محاربی]] ہے ـ جس کا نام خطیب بغدادی نے "غورث" لکھا ہے۔ | |||
==رسول اللہ(ص) کا جوابی اقدام== | |||
[[رسول خدا(ص)]] کو خبر ملی تو آپ(ص) نے پنج شنبہ 12 [[ربیع الاول]] کو 450 مسلمانوں کا لشکر لے کر تیز رفتاری سے منطقۂ "ذو امر" کی طرف عزیمت کی اور اپنی غیر موجودگی میں [[عثمان بن عفان]] کا انتظام سونپ دیا۔ [[کوہ احد]] اور [[مدینہ]] کے درمیان سے گذرنے والے راستے سے<ref>وفاء الوفاء 379/2۔</ref> روانہ ہوئے اور [[مدینہ]] سے ایک منزل (= 22 کلومیٹر) دور خبیب نامی درے سے گذرے <ref>البكري الاندلسي، معجم ما استعجم، ج2، ص306۔</ref> [[مدینہ]] سے نجد جانے والے راستے میں ذوالقصہ کی طرف بڑھے۔ راستے میں مسلمانوں کو ایک مرد نظر آیا جس کا تعلق بنو ثعلبہ سے تھا اور [[مدینہ]] جارہا تھا۔ اس نے مسلمانوں کے پوچھنے پر کہا: "مجھے معلوم ہوا ہے کہ [[دعثور بن حارث]] نامی شخص اپنے قبیلے کے افراد کے ہمراہ اپنا علاقہ چھوڑ کر نکلا ہے"۔ اس شخص کو [[رسول اللہ|پیغمبر اسلام]] کی خدمت میں حاضر کیا گیا تو آپ(ص) نے اس کو اسلام کی دعوت دی اور اس نے اسلام قبول کیا اور کہا کہ "ہمارے قبائل کے لوگ آپ کے سامنے آ کر نہیں لڑیں گے اور آپ کے آنے کی خبر پاکر پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف چلے جائیں گے؛ میں آپ کے ساتھ آتا ہوں اور خفیہ داخلی راستوں اور ان کے کمزور نقاط سے آپ کو خبر دوں گا۔ [[رسول اللہ]](ص) نے اسے [[بلال حبشی]] کے سپرد کیا۔ اس شخص نے ریت کے ٹیلے سے گذرنے والا ایک راستہ دکھایا جس سے گذر کر لشکر اسلام غطفانیوں کے قریب پہنچ گئے اور دوسری طرف سے غطفانی پہاڑوں کی چوٹیوں کی طرف بھاگے۔ <ref>واقدی، المغازي، 193/1۔</ref> | |||
==تفصیلی واقعہ اور ایک معجزہ== | |||
دعثور اپنے آدمیوں کے ساتھ پہاڑیوں کی چوٹیوں کی طرف بھاگا اور ان میں سے بنو ثعلبہ کا ایک مرد دیکھا گیا جس کو مسلمانوں نے گرفتار کرکے [[رسول اللہ]](ص) کی خدمت میں حاضر کیا؛ آپ(ص) نے اس کو اسلام کی دعوت دی جو اس نے قبول کی۔ [[رسول خدا(ص)]] نے اس شخص کو [[بلال بن رباح|بلال حبشی]] کے سپرد کیا۔ | |||
بعدازاں شدید بارش ہوئی یہاں تک کہ [[رسول خدا(ص) سمیت لشکر [[اسلام]] میں شامل تمام مجاہدین کا لباس بھیگ گیا چنانچہ مسلمان ارد گرد پھیل گئے اور اپنے لباس کی اصلاح میں مصروف ہوئے۔ [[رسول اللہ]] (صلی اللہ علیہ و آلہ]] نے بھی اپنا جامہ اتار کر نچوڑا اور سکھانے کے لئے ایک درخت کی ٹہنی پر بچھایا اور خود اسی درخت کی چھاؤں میں آرام کرنے لگے۔ اسی اثناء میں دعثور تلوار لے کر آپ(ص) کے سرہانے آ موجود ہوا اور کہا '''يا مـُحمـّد مـَنْ يَمْنَعُك مِنّي الْيَوْم'''؛ يعنى كون ہے آج جو آپ کو میرے شر سے بچائے؟۔ [[رسول اللہ]](ص) نے فرمایا: میرا بچانے والا '''اللہ''' ہے۔ اسی اثناء میں [[جبرائیل]] نے ایک ضربت اس کے سینے پر ماری اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور وہ پشت کے بل زمین پر آرہا۔ چنانچہ [[رسول خدا(ص)]] نے جھپٹ کر اس کی تلوار اٹھائی اور اس کے سر آ کر کھڑے ہوئے اور فرمایا: '''مَنْ يَمْنَعُكَ مِنّي'''؛ [اب تم بتاؤ] کہ تمہيں مجھ سے کون بچائے گا؟ کہنے لگا: '''من يمنعك مني قال لا أحد وأنا أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله''' کوئی نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور [[رسول اللہ|محمد]] اللہ کے [[رسول اللہ|رسول]] ہیں۔ آپ(ص) نے تلوار اس کو لوٹا دی اور اپنی قوم کے پاس لوٹ کر چلے گیا اور اپنی قوم کو [[اسلام]] کی دعوت دی۔ خداوند متعال نے یہ آیت اسی واقعے کے بارے میں اتاری: | |||
:'''<font color = green>يـا اَيُّهاِ الَّذينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللّهِ عَلَيْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوُمٌ اَنْ يَبْسُطُوا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ</font>'''<ref>سوره مائده، آيه 11۔</ref>۔ <br/> ترجمہ: اے ایمان لانے والو!اللہ کی نعمت کو جو تم پر ہے یاد کرو جب کہ ایک جماعت نے ارادہ کیا کہ وہ تمہاری جانب دست درازی کریں تو اللہ نے انکے ہاتھوں کوتم سے روک دیا۔<ref>قمي، شيخ عباس، منتهی الآمال، بـاب اوّل در تاريخ خاتم الا نبياء(ص)۔</ref> ابن سعد اور<ref>ابن سعد، الطبقات الكبري، ج2، ص34۔</ref> ابن ہشام<ref>ابن هشام، سيرة النبي، ج2، ص425۔</ref> نے لکھا ہے کہ آپ(ص) نے اپنی باطنی قوت سے اس شخص کے ہاتھ پر لرزہ طاری کیا جس کی وجہ سے شمشیر اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ | |||
[[سید ہاشم رسولی محلاتی]] لکھتے ہیں کہ بارش ہوئی تو بنو غطفان کے بھاگے ہوئے افراد اپنی نظریں [[رسول خدا(ص)]] پر جمائے ہوئے تھے اور جب سیلاب [[رسول خدا(ص)]] اور لشکر اسلام کے درمیان حائل ہوا تو اپنے دلیر سپہ سالار [[دعثور بن حارث]] سے کہا: تمہارے لئے مناسب موقع فراہم ہوا ہے جاؤ اور [[رسول اللہ|محمد]](ص) کا کام تمام کرو کیونکہ مسلمان آپ(ص) کی مدد کے لئے نہیں آسکتے۔ اور یوں اس نے آپ(ص) کی جان کا قصد کیا اور ہوا وہی جو نقل ہوا؛ دعثور نے اسلام قبول کیا اور عرض کیا بعد ازیں ہرگز دشمنوں کو آپ کے خلاف اکٹھا نہیں کروں گا۔ اور کہا: خدا کی قسم آپ مجھ سے بہتر ہیں اور مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی۔<ref>رسولی محلاتی، زندگانی حضرت محمد صلی الله علیه و آله، ص291۔</ref> | |||
==جنگ کا نتیجہ== | |||
بنی ثعلبہ کا ایک شخص جس کا نام "محمد بن سعد" نے "جبار" نقل کیا ہے، | |||
مسلمانوں سے ملا اور مسلمان ہوا اور غزوہ ذی امر میں مسلمانوں کا راہنما بنا۔ اور دوسری طرف سے [[مدینہ]] پر چڑھائی کی غرض سے اکٹھا ہونے والے لشکر کا سپہ سالا دعثور بن حارث المحاربی متذکرہ بالا واقعے کے بعد مسلمان ہوا اور جاتے ہوئے [[رسول اللہ]] سے عرض کیا کہ آپ مجھ سے بہتر ہیں۔ "رسولی محلاتی" لکھتے ہیں کہ یہ کہہ کر دعثور اپنے قبیلے میں پہنچا اور جب اس سے پوچھا گیا کہ "تم نے [[رسول اللہ|محمد]] کو قتل کیوں نہیں کیا؟ تو اس نے جواب دیا: "میں نے ایک بلند قامت سفید پوش آدمی کو دیکھا جس نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور میں پیٹھ کے بل زمین پر گرا اور میں سمجھ گیا کہ وہ یک فرشتہ ہے اور اور میں گواہی دیتا ہوں کہ [[رسول اللہ|محمد]] اللہ کے رسول ہیں اور اس کے بعد کسی کو آپ(ص) کے خلاف نہیں اکساؤں گا۔<ref>رسولی محلاتی، وہی ماخذ۔</ref> | |||
==عظیم مہم== | |||
مبارک پوری نے اپنی کتاب ''رحیق مختوم'' میں لکھا ہے کہ یہ عظیم ترین فوجی مہم تھی جس کی ـ سنہ 3 ہجری میں ـ [[جنگ احد]] سے قبل تک [[رسول اللہ]](ص) قیادت کی تھی۔ گوکہ مبارکپوری کا کہنا ہے کہ [[رسول اللہ]](ص) [[محرم الحرام]] میں اس معرکے کے لئے [[مدینہ]] سے خارج ہوئے اور [[صفر المظفر]] کے مہینے کے دوران اسی علاقے میں قیام پذیر رہے۔<ref>مبارک پوری، الرحیق المختوم، صص218ـ219۔</ref> | |||
پاورقی حاشیے== | |||
{{حوالہ جات|2}} | |||
==مآخذ== | |||
{{ستون آ|2}} | |||
* قرآن کریم، ترجمہ: سید علی نقوی نقوی (لکھنوی)۔ | |||
* البغدادي صفي الدين، عبد المؤمن بن عبد الحق، مراصد الأطلاع على أسماء الأمكنة البقاع، المحقق: علي محمد البجاوي، الحلبي - تصوير دار المعرفة، رقم الطبعة: 1 سنة النشر: 1373 – 1954 | |||
* البكري الاندلسي، عبد الله بن عبد العزيز، معجم ما استعجم من اسماء البلاد والمواضع، تحقیق: مصطفى السقا المدرس، الطبعة الثالثة، بيروت ۔ 1403 ه - 1983 م | |||
* مبارکپوری (المباركفوري)، صفی الرحمن، دار احیاء التراث ـ 1396 هجری قمری / 1976 عیسوی۔ | |||
* خلیل، شوقی، أطلس السيرة النبوية، طبع دارالفکر ـ دمشق۔ الطبعة الثانية ـ 1423 هجری قمری/ 2003 عیسوی۔ | |||
* ابن سعد، محمد منيع الهاشمي بالولاء، البصري، الطبقات الكبرى السيرة الشريفة النبوية، المحقق: إحسان عباس الناشر: دار صادر - بيروت الطبعة: الأولى، 1968 م | |||
* ابن هشام، ابن عبدالملک، سيرة النبي صلی الله عليه وآله۔ | |||
* قمی، شیخ عباس، منتهی الآمال۔ | |||
* محلاتی، هاشم رسولی، زندگانی حضرت محمد صلی الله علیه و آله، | |||
{{ستون خ}} | |||
{| border="2" align="center" width="60%" | {| border="2" align="center" width="60%" |