مندرجات کا رخ کریں

"شیخ مفید" کے نسخوں کے درمیان فرق

4,576 بائٹ کا ازالہ ،  10 ستمبر 2018ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 286: سطر 286:
</div>
</div>


==شیخ مفید کے زمانے کا بغداد==
==ہزار سالہ عالمی کانفرنس==
عباسی خلیفہ [[منصور]] نے 145 ھ میں [[بغداد]] نامی دیہات کا نام "مدینۃ السلام" میں بدل کر اس شہر کی تعمیرات پر خصوصی توجہ دی لیکن یہ شہر اپنے قدیمی نام کی شہرت پر باقی رہا۔ اس شہر کے ایک محلے کا نام [["کرخ"]] تھا۔ قرائن کی بنا پر وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ چوتھی صدی میں کافی تعداد میں شیعہ یہاں موجود تھے <ref>ر ک :المنتظم چوتھی صدی کے اواخر کی دہائی واقعات دیکھیں۔</ref> ساتویں صدی میں صرف شیعہ نشین ہی تھے جبکہ باقی اطراف اہل سنت رہائش پذیر تھے۔<ref>معجم البلدان ج4 ص 448۔</ref>
 


[[مامون]] کے زمانے سے یہ شہر ایک علمی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا فقہاء ،متکلمین ادباءوغیرہ نے اس شہر میں سکونت اختیار کی جیسا کہ اس کی بارے میں [[ابن طیفور]] کی "کتاب بغداد " میں اس کی تصریح موجود ہے۔<ref>کتاب بغداد ج1 ص36۔</ref> ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہی صورتحال شیخ مفید کے زمانے میں اسی طرح باقی تھی کیونکہ بغداد کی مختلف شخصیات سے مختلف جگہوں پر شیخ مفید کی دوسرے مذہب کے علماء سے علمی بحثیں اس کا ایک عمدہ مؤید ہے۔جہاں یہ علمی بحثیں بغداد کی علمی حیثیت کو اجاگر کرتی ہیں اس کے ساتھ ہی وہ شیخ مفید کے بلند علمی مقام کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
===شیخ مفید اور دوسرے مذاہب کے علماء===
===شیخ مفید اور دوسرے مذاہب کے علماء===
شیخ مفید نے مختلف اوقات میں دوسرے مذہب کے جن علماء سے علمی گفتگو کی۔ ان کے اسماء درج ذیل ہیں :
شیخ مفید نے مختلف اوقات میں دوسرے مذہب کے جن علماء سے علمی گفتگو کی۔ ان کے اسماء درج ذیل ہیں :
سطر 329: سطر 328:


شیخ مفید نے شیخ صدوق کی روش کے برعکس س انداز تالیف کو تبدیل کیا اور اسے وسعت بخشی۔[[اصول فقہ]] اور [[علم کلام]] کے بنیادی اصولوں پر ابحاث کو شیعوں میں رائج کیا لہذا انہوں نے شیعہ عقائد کو قرآنی آیات احادیث کے ساتھ  ساتھ علم کلام کے اصولوں اور اور معیاروں پر میزان کرنے کی کوشش کی۔ اپنے عقائد کے بیان اور ثابت کرنے میں "معقولات" پر انحصار کرنے کی روش نے شیخ مفید کو ایک نئے مکتب کے طور پر متعارف کروایا ہے۔نیز [[بغداد]] میں شیخ مفید کے علمی مقام کی وجہ سے بغداد کو جلدی ہی شیعوں کے علمی مقام کا درجہ حاصل ہو گیا اور ایک ہی وقت میں "بغداد اور قم" شیعوں کے دو علمی مرکز شمار کئے جانے لگے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس زمانے میں تشیع کے دو مکتب "مکتب [[بغداد]]" جس  کی علمی ریاست شیخ مفید کے پاس اور "مکتب [[قم]]" کہ جس کی علمی ریاست شیخ صدوق کے ہاتھوں تھی تو یہ بے جا نہ ہو گا۔
شیخ مفید نے شیخ صدوق کی روش کے برعکس س انداز تالیف کو تبدیل کیا اور اسے وسعت بخشی۔[[اصول فقہ]] اور [[علم کلام]] کے بنیادی اصولوں پر ابحاث کو شیعوں میں رائج کیا لہذا انہوں نے شیعہ عقائد کو قرآنی آیات احادیث کے ساتھ  ساتھ علم کلام کے اصولوں اور اور معیاروں پر میزان کرنے کی کوشش کی۔ اپنے عقائد کے بیان اور ثابت کرنے میں "معقولات" پر انحصار کرنے کی روش نے شیخ مفید کو ایک نئے مکتب کے طور پر متعارف کروایا ہے۔نیز [[بغداد]] میں شیخ مفید کے علمی مقام کی وجہ سے بغداد کو جلدی ہی شیعوں کے علمی مقام کا درجہ حاصل ہو گیا اور ایک ہی وقت میں "بغداد اور قم" شیعوں کے دو علمی مرکز شمار کئے جانے لگے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس زمانے میں تشیع کے دو مکتب "مکتب [[بغداد]]" جس  کی علمی ریاست شیخ مفید کے پاس اور "مکتب [[قم]]" کہ جس کی علمی ریاست شیخ صدوق کے ہاتھوں تھی تو یہ بے جا نہ ہو گا۔
===اسلام اور عقل===
شیخ مفید اسلام کے عقائد اور  معارف دین کے مسائل میں بحث و تمحیص کو جائز سمجھتے جبکہ بعض علماء بحث وتمحیص کو جائز نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے بدعت قرار دیتے ہوئے منطقی اور عقلی دلیلوں سے استدلال کرنے کو بدعت اور حرام کہتے تھے۔مثلا عبد الرحمن بن علی بن محمد ابو الفرج احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں :علم کلام جاننے والا کبھی فلاح نہیں پائے گا علمائے علم کلام زنادقہ ہیں <ref>تلبیس ابلیس ص102</ref>۔ اسی طرح [[ابن قدامہ]] علم کلام کی مخالفت میں اپنے بزرگان کے اقوال نقل کرتے ہوئے ابو یوسف کا یہ قول نقل کرتے  ہیں:جس نے علم کلام کی تعلیم حاصل کی وہ زندیق یعنی کافر ہو گیا <ref>تحریم النظر فع علم الکلام ص102</ref>
===یقینی خبر===
شیخ مفید خبر واحد کے ساتھ استدلال کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ وہ صرف اس صورت میں خبر واحد کے ساتھ استدلال جائز سمجھتے جب اس کے ساتھ کوئی ایسا قرینہ موجود جو اس کے سچے ہونے پر دلالت کرے۔اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے "[[اوائل المقالات]]" میں کہتے ہیں" اسلام میں خبر واحد پر اعتماد کرتے ہوئے کسی چیز پر ایمان پر رکھنا جائز نہیں ہے۔ہاں اگر خبر واحد کے ساتھ کوئی ایسی چیز موجود ہو جو راوی کے سچے ہونے پر دلالت کرے تو تو درست ہے۔شیعوں میں جمہور، [[معتزلہ]]، [[محکمہ]] اور [[مرجئہ]] میں سے ایک طائفے کا یہی مسلک ہے۔<ref>اوئل المقالات ص122۔</ref>۔نیز [[شیخ صدوق]] کی جانب سے نقل کی گئی روایات کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں ایسی اخبار کہ جو یقین آور نہ ہوں وہ اس بات کا موجب نہیں بنتی کہ ان پر اعتقاد رکھا جائے یا ان پر عمل کیا جائے لہذا اس لئے ان روایات پر اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے۔  <ref>مسائل السرویہ ص72</ref>۔اسی طرح ان کے شاگرد سید مرتضی بھی اسی نظریے کے قائل تھے اور وہ کہتے ہیں ہمارے تمام اصحاب سلف سے ہوں یا خلف سے ہوں انہوں نے نے اسلام میں خبر واحد اور قیاس پر عمل کرنے سے منع کیا ہے۔


==وفات==
==وفات==
گمنام صارف