مندرجات کا رخ کریں

"شیخ مفید" کے نسخوں کے درمیان فرق

4,383 بائٹ کا ازالہ ،  10 ستمبر 2018ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 335: سطر 335:
===یقینی خبر===
===یقینی خبر===
شیخ مفید خبر واحد کے ساتھ استدلال کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ وہ صرف اس صورت میں خبر واحد کے ساتھ استدلال جائز سمجھتے جب اس کے ساتھ کوئی ایسا قرینہ موجود جو اس کے سچے ہونے پر دلالت کرے۔اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے "[[اوائل المقالات]]" میں کہتے ہیں" اسلام میں خبر واحد پر اعتماد کرتے ہوئے کسی چیز پر ایمان پر رکھنا جائز نہیں ہے۔ہاں اگر خبر واحد کے ساتھ کوئی ایسی چیز موجود ہو جو راوی کے سچے ہونے پر دلالت کرے تو تو درست ہے۔شیعوں میں جمہور، [[معتزلہ]]، [[محکمہ]] اور [[مرجئہ]] میں سے ایک طائفے کا یہی مسلک ہے۔<ref>اوئل المقالات ص122۔</ref>۔نیز [[شیخ صدوق]] کی جانب سے نقل کی گئی روایات کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں ایسی اخبار کہ جو یقین آور نہ ہوں وہ اس بات کا موجب نہیں بنتی کہ ان پر اعتقاد رکھا جائے یا ان پر عمل کیا جائے لہذا اس لئے ان روایات پر اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے۔  <ref>مسائل السرویہ ص72</ref>۔اسی طرح ان کے شاگرد سید مرتضی بھی اسی نظریے کے قائل تھے اور وہ کہتے ہیں ہمارے تمام اصحاب سلف سے ہوں یا خلف سے ہوں انہوں نے نے اسلام میں خبر واحد اور قیاس پر عمل کرنے سے منع کیا ہے۔
شیخ مفید خبر واحد کے ساتھ استدلال کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ وہ صرف اس صورت میں خبر واحد کے ساتھ استدلال جائز سمجھتے جب اس کے ساتھ کوئی ایسا قرینہ موجود جو اس کے سچے ہونے پر دلالت کرے۔اس نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے "[[اوائل المقالات]]" میں کہتے ہیں" اسلام میں خبر واحد پر اعتماد کرتے ہوئے کسی چیز پر ایمان پر رکھنا جائز نہیں ہے۔ہاں اگر خبر واحد کے ساتھ کوئی ایسی چیز موجود ہو جو راوی کے سچے ہونے پر دلالت کرے تو تو درست ہے۔شیعوں میں جمہور، [[معتزلہ]]، [[محکمہ]] اور [[مرجئہ]] میں سے ایک طائفے کا یہی مسلک ہے۔<ref>اوئل المقالات ص122۔</ref>۔نیز [[شیخ صدوق]] کی جانب سے نقل کی گئی روایات کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں ایسی اخبار کہ جو یقین آور نہ ہوں وہ اس بات کا موجب نہیں بنتی کہ ان پر اعتقاد رکھا جائے یا ان پر عمل کیا جائے لہذا اس لئے ان روایات پر اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے۔  <ref>مسائل السرویہ ص72</ref>۔اسی طرح ان کے شاگرد سید مرتضی بھی اسی نظریے کے قائل تھے اور وہ کہتے ہیں ہمارے تمام اصحاب سلف سے ہوں یا خلف سے ہوں انہوں نے نے اسلام میں خبر واحد اور قیاس پر عمل کرنے سے منع کیا ہے۔
===سہو نبیؐ===
شیخ مفید سہوِ نبی( نبی اکرمؐ کا بھولنا) کے قائل نہیں تھے اور آپ نے نبی اکرمؐ سے سہو و نسیان کی نفی میں ایک رسالہ "عدم سہو النبی " کے نام سے تالیف کیا  جس میں اس بات کو بیان کیا کہ نبی پیدائش سے لے کر آخر عمر تک زندگی کے کسی بھی حصے میں کبیرہ یا صغیرہ گناہ اور سہو و نسیان کا ارتکاب نہیں کرتا ہے۔اس رسالے میں آیات قرانی کے حوالے سے ظن اور گمان پر عمل کرنے کو دلیل کے طور پر ذکر کیا اور کہا کہ جب کسی خبر واحد میں رسول گرامی کے بارے یہ کہا جائے کہ آپ سے فراموشی سرزد ہوئی ہے اور اس خبر سے یقین پیدا نہ تو ایسی خبر پر اعتقاد پر رکھنا حرام ہے نیز ہمیں اس خبر سے عدول کرنا چاہئے اور نبی اکرمؐ کے بارے میں ان کی عصمت کا یقین رکھنا چاہئے جبکہ شیخ صدوق اس کے برعکس  آپ کی روز مرہ کی زندگی کے بارے میں سہو نبی کے قائل تھے البتہ وہ بھی احکام دین کی تبلیغ میں نبی اکرمؐ کی نسبت سہو کی نفی کرتے ہیں۔


درست ہے کہ [[بغداد]] میں تشیع کافی تعداد میں موجود تھی لیکن اس کے باوجود اہل سنت برادران پھر بھی اکثریت میں تھے۔ اسی وجہ سے شیعہ علماء کا اکثر سروکار اہل سنت علماء سے رہتا تھا۔ اس کے علاوہ یہاں [[معتزلین]] کی ایک قابل توجہ تعداد بھی یہاں مقیم تھی اور اہل سنت میں سے یہ مکتب عقلانیت کی جانب زیادہ میلان رکتا تھا۔اس کی وجہ سے عقلانیت نے شیعہ اکابرین پر اثر چھوڑا۔اس بات کو شیخ مفید کی تصانیف میں واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔
==اقوال علماء ==
اہل سنت اور شیعہ کی رجال و تراجم کی تمام کتب میں ان کا تعارف مذکور ہے لیکن ہم یہاں ان میں صرف چند ایک سے ان کے بارے میں اقتباسات نقل کرتے ہیں۔
===علمائے شیعہ===
*[[شیخ طوسی]] ان کا تعارف ان الفاظ میں کرواتے ہیں:۔۔۔مذہب امامیہ کے متکلمین میں سے تھے۔اپنے زمانے کی علمی ریاست ان پر منتہی ہوتی،وہ علوم اور علم کلام میں مقدم، فقہاء پر برتر، حسن خاطر ،دقیق الفطین اور حاضر جواب تھے۔
*[[نجاشی]] کہتے ہیں :ہمارے بزرگ، ہمارے استاد(اللہ ان سے راضی ہو) فقہ، کلام ،روایت ، موثق اور صاحب علم ہونے  میں ان کے فضل کی جس قدر توصیف بیان کی جائے وہ اس سے کہیں زیادہ مشہور ہیں۔
*[[ابن ندیم]]: ہمارے زمانے میں ابو عبد اللہ کی طرف شیعہ متکلمیں کی علمی ریاست منتہی ہوتی،اپنے دور کے تمام اصحاب پر علم کلام میں فوقیت رکھتے،تاریخ سے مطلع اور بہترین یادداشت کے مالک تھے میں نے جب انہیں دیکھا تو ایک بارع شخص پایا۔
*[[ابن طی حلبی]] نے [["تاریخ امامیہ"]] میں کہا :وہ ایک صوفی منش انسان تھے۔امامیہ مذہب کے ترجمان،فقہ اور کلام کے ماہر جو حکومت بویہ میں اپنی جلالت اور ابوہت کے ساتھ ہر عقیدے کے شخص سے مناظرہ کرتے تھے۔کثرت سے صدقہ دیتے ، پرہیزگار ، صوم و صلات کے پابند اور حسن لباس کے مالک تھے۔
*[[آیت اللہ حلی]]:شیعہ مشائخین میں سب سے افضل اور ان کے رئیس ،تمام متاخرین کے استاد، فقہ اور کلام میں جس قدر انکی تعریف کی جائے ان کی فضیلت کی شہرت اس سے کہیں زیادہ ہے۔
                     
==وفات==
==وفات==


گمنام صارف