مندرجات کا رخ کریں

"امام حسین علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 40: سطر 40:


آپ کے کلمات [[حدیث]]، [[دعا]]، خط، شعر اور [[خطبہ]] کی شکل میں [[موسوعۃ کلمات الامام الحسین (کتاب)|موسوعۃ کلمات الامام الحسین]] اور [[مسند الامام الشہید (کتاب)|مسند الامام الشہید]] نامی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں۔ آپ کی شخصیت اور زندگی پر بھی بہت ساری کتابیں، انسائکلوپیڈیا، مقتل اور تحلیلی تاریخ کی شکل میں لکھی گئیں ہیں۔
آپ کے کلمات [[حدیث]]، [[دعا]]، خط، شعر اور [[خطبہ]] کی شکل میں [[موسوعۃ کلمات الامام الحسین (کتاب)|موسوعۃ کلمات الامام الحسین]] اور [[مسند الامام الشہید (کتاب)|مسند الامام الشہید]] نامی کتابوں میں جمع کئے گئے ہیں۔ آپ کی شخصیت اور زندگی پر بھی بہت ساری کتابیں، انسائکلوپیڈیا، مقتل اور تحلیلی تاریخ کی شکل میں لکھی گئیں ہیں۔
==مقام و منزلت==
شیعہ اور سنی روایات کے مطابق حسین بن علیؑ [[اصحاب کساء]] میں سے ایک تھے۔<ref> مسلم، صحیح مسلم، 1423ق، ج15، ص190؛ کلینی،الکافی،1363، ج‏1، ص287</ref> اور [[مباہلہ]] میں بھی آپ شریک تھے <ref> مفید، الارشاد، 1413، ج1، ص168.</ref> اور اپنے بھائی کے ساتھ [[آیہ مباہلہ]] میں «ابناءَنا» کے مصداق ہیں۔<ref> زمخشری، الکشاف، 1415 ق، ذیل آیہ 61 آل عمران؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1405 ھ، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران.</ref> اسی طرح [[آیہ تطہیر]] جو [[اہل بیت]] کی شان میں نازل ہوئی اس میں بھی آپ شامل ہیں۔<ref> احمد بن حنبل، مسند احمد، دار صادر، ج 1، ص331؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن، 1419ق، ج3، ص799؛ شوکانی، فتح القدیر، عالم الکتب، ج4، ص279</ref>
امام حسنؑ کی شہادت کے بعد اگرچہ [[بنی ہاشم]] میں عمر میں بہت سے افراد امام حسینؑ سے بڑے تھے لیکن آپؑ سب سے شریف فرد تھے؛ [[یعقوبی]] کے نقل کے مطابق معاویہ نے حسن بن علی کی شہادت کے بعد [[ابن عباس]] سے کہا: اب اپنی قوم کے آپ بزرگ ہیں تو ابن عباس نے ان کے جواب میں کہا: جب تک حسین زندہ ہیں میں بزرگ نہیں ہوں۔<ref> یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص226؛ ابن سعد، الطبقات الکبری،1418، ج10، ص363.</ref> اسی طرح بنی ہاشم کے بعض مشورے ہوئے ہیں جن میں حسین بن علی کی نظر سب پر فوقیت رکھتی تھی۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418، ج10، ص414ـ416</ref>
نقل ہوا ہے کہ [[عمرو بن عاص]] بھی آپ کو زمین پر اہل آسمان کے نزدیک محبوب ترین فرد سمجھتا تھا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418، ج10، ص395؛ ابن ابی‌ شیبہ، المصنَّف، 1409ق، ج7، ص269</ref>
=== اہل سنت کی نظر ===
[[اہل سنت]] کی معتبر کتابوں میں امام حسینؑ کی فضیلت کے بارے میں بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418، ج10، ص376-410؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج3، ص7؛ مسلم، صحیح مسلم، 1423ق، ج15، ص190؛ ابن کثیر،  تفسیر القرآن، 1419ق، ج3، ص799؛ مراجعہ کریں [http://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/931082 حسینی شاهرودی، «امام حسین ؑ و عاشورا از دیدگاه اهل سنت»] و [http://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/52950 ایوب، م، ترجمہ قاسمی، «فضایل امام حسین علیه السلام در احادیث اہل سنت»]</ref> فضیلت کی روایات کے علاوہ اللہ کی راہ میں امام حسینؑ کی جان اور مال کی قربانی کی وجہ سے بھی مسلمانوں کے اعتقادات آپ کی نسبت مضبوط ہوگئے ہیں۔<ref>[http://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/52950 ایوب، م، ترجمہ قاسمی، «فضایل امام حسین علیہ السلام در احادیث اہل سنت»]</ref>
امام حسینؑ کے قیام کے بارے میں [[اہل سنت]] کے یہاں دو نظریات پائے جاتے ہیں ایک گروہ اس کو بے اہمیت سمجھتا ہے جبکہ دوسرا گروہ اس کی تعریف و تمجید کرتا ہے۔
مخالفوں میں سے ایک ابوبکر ابن عربی ہے جس نے امام حسین کے قیام کو کم اہمیت سمجھتے ہوئے کہتا ہے کہ لوگوں نے (جو لوگ امت میں اختلاف پھیلاتے ہیں اس سے جنگ کرنے کے بارے میں) پیغمبر کی احادیث سن کر حسین سے لڑنے لگے۔<ref> ابوبکر ابن عربی، العواصم من القواصم، المکتبۃ السلفیۃ، ص232.</ref>
[[ابن تیمیہ]] بھی کہتا ہے کہ حسین بن علیؑ نہ صرف حالات کی اصلاح کے باعث نہیں بنے بلکہ شر و فساد کا باعث بنے۔<ref> ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ق، ج4، ص530-531.</ref>
{{شعر2|تا قیامت قطع استبداد کرد|موج خون او، چمن ایجاد کرد}}
{{شعر2|مدعایش سلطنت بودی اگر|خود نکردی با چنین سامان سفر}}
{{شعر2|رمز قرآن از حسین آموختیم|ز آتش او شعلہ ہا افروختیم}}
[[ابن خلدون]] نے ابن عربی کی باتوں کو ٹھکراتے ہوئے کہا ہے کہ ظالم اور ستمگروں سے لڑنے کے لیے عادل امام کا ہونا شرط ہے اور حسینؑ اپنے زمانے کے عادل ترین فرد تھے اور اس جنگ کرنے کے حق دار تھے۔<ref> ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص217.</ref>
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: جب یزید کا فسق سب پر آشکار ہوا تو حسین نے اس کے خلاف قیام کو اپنے پر [[واجب]] سمجھا کیونکہ وہ خود کو اس کام کا اہل سمجھتے تھے۔<ref> ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص216.</ref> آلوسی نے روح المعانی میں ابن عربی کے خلاف بد دعا کرتے ہوئے اس کی بات کو جھوٹ اور سب سے بڑا تہمت قرار دیا ہے۔<ref> آلوسی، روح المعانی، 1415ق، ج13، ص228.</ref>
عباس محمود عقاد اپنی کتاب ابو الشهداء الحسین بن علی میں لکھتا ہے: یزید کے دور میں حالات اس نہج پر پہنچے تھے کہ شہادت کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔<ref> عقاد، ابو الشهداء، 1429ق، ص207.</ref> اور اس کا کہنا تھا کہ ایسے قیام بہت کم لوگوں کی طرف سے واقع ہوتے ہیں جو اسی کام کے لیے ہی خلق ہوئے ہیں ان کی تحریک کو دوسروں کی تحریک سے مقایسہ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ کچھ اور طرح سے سمجھتے ہیں اور کچھ اور چاہتے ہیں۔<ref> عقاد، ابو الشهداء، 1429ق، ص141.</ref>
اہل سنت کے مصنف [[طہ حسین]] کا کہنا ہے کہ حسین کا بیعت نہ کرنا دشمنی اور ضد کی وجہ سے نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر یزید کی بیعت کرتے تو اپنے وجدان سے خیانت کرتے اور دین کی مخالفت کرتے، کیونکہ یزید کی بیعت ان کی نظر میں گناہ تھا۔<ref> طہ حسین، علی و بنوہ، دار المعارف، ص239</ref>
عمر فروخ کہتا ہے کہ ظلم کے بارے میں سکوت کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے اور آج کے مسلمانوں کے لیے ضرورت یہی ہے کہ ہمارے درمیان ایک حسینی قیام کرے اور ہمیں سیدھے راستے میں حق کی دفاع کرنے کی رہنمائی کرے۔<ref> فروخ، تجدید فی المسلمین لا فی الإسلام، دار الكتاب العربی، ص152</ref>
یزید پر امام حسینؑ کا قاتل ہونے کے ناطے لعنت کرنے کے بارے میں بھی اہل سنت میں دو نظریات پائے جاتے ہیں اور اہل سنت کے بہت سارے علما اس لعنت کے جواز کے قائل ہیں بلکہ یزید پر لعنت کو [[واجب]] سمجھتے ہیں۔<ref> ناصری داودی، انقلاب کربلا از دیدگاه اهل سنت، 1385، ص287-319.</ref>
[[ملف:مسند الامام الشهید.jpg|150px||تصغیر|[[مسند الامام الشهید]] امام حسینؑ کے کلمات کا مجموعہ]]


==نام، نسب، کنیت اور القاب==
==نام، نسب، کنیت اور القاب==
سطر 288: سطر 319:
امام حسینؑ اور ان کے تقریبا 72 اصحاب کے لاشوں<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387، ج5، ص455</ref> کو [[11 محرم|11]]<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص455.</ref> یا [[13 محرم]] کو [[بنی اسد]] کے ایک گروہ نے یا ایک اور نقل کے مطابق [[امام سجادؑ]] کی ہمراہی میں اسی شہادت پانے والی جگہ میں دفن کیا گیا۔<ref> مقرم، مقتل الحسین، 1426ق، ص335-336</ref>
امام حسینؑ اور ان کے تقریبا 72 اصحاب کے لاشوں<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387، ج5، ص455</ref> کو [[11 محرم|11]]<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ق، ج5، ص455.</ref> یا [[13 محرم]] کو [[بنی اسد]] کے ایک گروہ نے یا ایک اور نقل کے مطابق [[امام سجادؑ]] کی ہمراہی میں اسی شہادت پانے والی جگہ میں دفن کیا گیا۔<ref> مقرم، مقتل الحسین، 1426ق، ص335-336</ref>


====نظریات اور آثار====
==== نظریات و آثار ====
{{اصلی|قیام امام حسین}}
{{اصلی|قیام امام حسین}}
امام حسینؑ کے [[مدینہ]] سے [[مکہ]] اور وہاں سے [[کوفہ]] کی جانب حرکت اور پھر کربلا میں [[عمر بن سعد کا لشکر|لشکر عمر سعد]] سے جنگ کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک نظرئے کے مطابق یہ حرکت قیام اور جنگ کی عرض سے نہیں تھی بلکہ صرف جان کی حفاظت کی خاطر تھی۔(شیخ [[علی‌ پناہ اشتہاردی]] کا نظریہ)<ref> اشتہاردی، ہفت سالہ چرا صدا درآورد؟، 1391، ص154.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ آپ نے حکومت تشکیل دینے کے لیے قیام کیا ہے۔ گزشتہ علما میں سے [[سید مرتضی]]<ref> سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء، 1409ق، ص227-228.</ref> اور معاصرین میں [[نعمت اللہ صالحی نجف آبادی|صالحی نجف‌ آبادی]] نے اپنی کتاب، [[شہید جاوید]] میں اس نظرئے کو بیان کیا ہے۔<ref> صالحی نجف‌ آبادی، شہید جاوید، 1387، ص157-158.</ref> جبکہ بعض اس نظرئے کے مخالف ہیں جیسے؛ [[شیخ مفید]]، [[سید بن طاووس]] اور [[علامہ مجلسی]]۔<ref> صحتی سردرودی، 1385، ص296-299.</ref>  
امام حسینؑ کے [[مدینہ]] سے [[مکہ]] اور وہاں سے [[کوفہ]] کی جانب حرکت اور پھر کربلا میں [[عمر بن سعد کا لشکر|لشکر عمر سعد]] سے جنگ کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ ایک نظرئے کے مطابق یہ حرکت قیام اور جنگ کی عرض سے نہیں تھی بلکہ صرف جان کی حفاظت کی خاطر تھی۔(شیخ [[علی‌ پناہ اشتہاردی]] کا نظریہ)<ref> اشتہاردی، ہفت سالہ چرا صدا درآورد؟، 1391، ص154.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ آپ نے حکومت تشکیل دینے کے لیے قیام کیا ہے۔ گزشتہ علما میں سے [[سید مرتضی]]<ref> سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء، 1409ق، ص227-228.</ref> اور معاصرین میں [[نعمت اللہ صالحی نجف آبادی|صالحی نجف‌ آبادی]] نے اپنی کتاب، [[شہید جاوید]] میں اس نظرئے کو بیان کیا ہے۔<ref> صالحی نجف‌ آبادی، شہید جاوید، 1387، ص157-158.</ref> جبکہ بعض اس نظرئے کے مخالف ہیں جیسے؛ [[شیخ مفید]]، [[سید بن طاووس]] اور [[علامہ مجلسی]]۔<ref> صحتی سردرودی، 1385، ص296-299.</ref>  
سطر 296: سطر 327:
بہت سے مسلمان اور غیر مسلمانوں نے بھی امام حسینؑ کو اپنے لیے فداکاری، ظلم کے خلاف ڈٹنے، آزادی طلبی، اقدار کی حفاظت اور حق طلبی میں آئیڈیل قرار دیا ہے۔{{حوالہ درکار}}
بہت سے مسلمان اور غیر مسلمانوں نے بھی امام حسینؑ کو اپنے لیے فداکاری، ظلم کے خلاف ڈٹنے، آزادی طلبی، اقدار کی حفاظت اور حق طلبی میں آئیڈیل قرار دیا ہے۔{{حوالہ درکار}}


== خصوصیات اور فضائل ==
== خصوصیات و فضائل ==
{{اصلی|اہل بیتؑ|اصحاب کساء|مباہلہ|آیت تطہیر|حدیث ثقلین}}
{{اصلی|اہل بیتؑ|اصحاب کساء|مباہلہ|آیت تطہیر|حدیث ثقلین}}
===ظاہری صفات===
===ظاہری صفات===
سطر 309: سطر 340:
*حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔<ref> انساب الاشراف، 1417ق، ج3، ص142؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، 1418ق، ج10، ص385.</ref>  
*حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔<ref> انساب الاشراف، 1417ق، ج3، ص142؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، 1418ق، ج10، ص385.</ref>  
* جو میرے ان دو بیٹوں (حسن و حسین) کو چاہے گویا اس نے مجھے چاہا ہے جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے گویا مجھ سے دشمن کی ہے۔<ref> احمد ہبن حنبل، المسند، دار صادر، ج2، ص440؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، 1406ق، ج3، ص166؛ ترمذی، سنن ترمذی، 1403ق، ج5، ص324.</ref>
* جو میرے ان دو بیٹوں (حسن و حسین) کو چاہے گویا اس نے مجھے چاہا ہے جس نے ان دونوں سے دشمنی کی اس نے گویا مجھ سے دشمن کی ہے۔<ref> احمد ہبن حنبل، المسند، دار صادر، ج2، ص440؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، 1406ق، ج3، ص166؛ ترمذی، سنن ترمذی، 1403ق، ج5، ص324.</ref>
===مقام و منزلت===
شیعہ اور سنی روایات کے مطابق حسین بن علیؑ [[اصحاب کساء]] میں سے ایک تھے۔<ref> مسلم، صحیح مسلم، 1423ق، ج15، ص190؛ کلینی،الکافی،1363، ج‏1، ص287</ref> اور [[مباہلہ]] میں بھی آپ شریک تھے <ref> مفید، الارشاد، 1413، ج1، ص168.</ref> اور اپنے بھائی کے ساتھ [[آیہ مباہلہ]] میں «ابناءَنا» کے مصداق ہیں۔<ref> زمخشری، الکشاف، 1415 ق، ذیل آیہ 61 آل عمران؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1405 ھ، ذیل آیہ 61 سورہ آل عمران.</ref> اسی طرح [[آیہ تطہیر]] جو [[اہل بیت]] کی شان میں نازل ہوئی اس میں بھی آپ شامل ہیں۔<ref> احمد بن حنبل، مسند احمد، دار صادر، ج 1، ص331؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن، 1419ق، ج3، ص799؛ شوکانی، فتح القدیر، عالم الکتب، ج4، ص279</ref>
امام حسنؑ کی شہادت کے بعد اگرچہ [[بنی ہاشم]] میں عمر میں بہت سے افراد امام حسینؑ سے بڑے تھے لیکن آپؑ سب سے شریف فرد تھے؛ [[یعقوبی]] کے نقل کے مطابق معاویہ نے حسن بن علی کی شہادت کے بعد [[ابن عباس]] سے کہا: اب اپنی قوم کے آپ بزرگ ہیں تو ابن عباس نے ان کے جواب میں کہا: جب تک حسین زندہ ہیں میں بزرگ نہیں ہوں۔<ref> یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص226؛ ابن سعد، الطبقات الکبری،1418، ج10، ص363.</ref> اسی طرح بنی ہاشم کے بعض مشورے ہوئے ہیں جن میں حسین بن علی کی نظر سب پر فوقیت رکھتی تھی۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418، ج10، ص414ـ416</ref>
نقل ہوا ہے کہ [[عمرو بن عاص]] بھی آپ کو زمین پر اہل آسمان کے نزدیک محبوب ترین فرد سمجھتا تھا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418، ج10، ص395؛ ابن ابی‌ شیبہ، المصنَّف، 1409ق، ج7، ص269</ref>


===شہادت کی پیش گوئی===
===شہادت کی پیش گوئی===
سطر 356: سطر 381:
{{اصلی| حرم امام حسین ؑ|تخریب حرم امام حسین}}
{{اصلی| حرم امام حسین ؑ|تخریب حرم امام حسین}}
گزاراشات کے مطابق امام حسینؑ کی قبر پر پہلی عمارت [[مختار ثقفی]] کے دور میں ان کے حکم سے تعمیر ہوئی اور اس وقت سے اب تک کئی بار حرم کی مرمت ہوئی ہے اور وسعت دی گئی ہے،<ref> آل طعمہ، کربلا و حرم‌ہای مطہر، مشعر، ص89-112</ref> اسی طرح کئی بار بعض [[بنی عباس|خلفا عباسی]]<ref> ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفۃ، ص477.</ref> اور [[وہابیوں]]<ref> نگاهی نو بہ جریان عاشورا، 1387ش، ص425.</ref> نے اس کو مسمار بھی کیا ہے۔ یہاں تک کہ [[متوکل عباسی]] نے وہاں پر کھیتی باڑی کرنے اور قبر کو زیر آب لانے کا حکم دیا۔<ref> شیخ طوسی، الامالی، 1414ق، ص327؛ ابن شہر آشوب، المناقب، 1379، ج2، ص211.</ref>
گزاراشات کے مطابق امام حسینؑ کی قبر پر پہلی عمارت [[مختار ثقفی]] کے دور میں ان کے حکم سے تعمیر ہوئی اور اس وقت سے اب تک کئی بار حرم کی مرمت ہوئی ہے اور وسعت دی گئی ہے،<ref> آل طعمہ، کربلا و حرم‌ہای مطہر، مشعر، ص89-112</ref> اسی طرح کئی بار بعض [[بنی عباس|خلفا عباسی]]<ref> ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، دار المعرفۃ، ص477.</ref> اور [[وہابیوں]]<ref> نگاهی نو بہ جریان عاشورا، 1387ش، ص425.</ref> نے اس کو مسمار بھی کیا ہے۔ یہاں تک کہ [[متوکل عباسی]] نے وہاں پر کھیتی باڑی کرنے اور قبر کو زیر آب لانے کا حکم دیا۔<ref> شیخ طوسی، الامالی، 1414ق، ص327؛ ابن شہر آشوب، المناقب، 1379، ج2، ص211.</ref>
==اہل سنت کی نظر==
[[اہل سنت]] کی معتبر کتابوں میں امام حسینؑ کی فضیلت کے بارے میں بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، 1418، ج10، ص376-410؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج3، ص7؛ مسلم، صحیح مسلم، 1423ق، ج15، ص190؛ ابن کثیر،  تفسیر القرآن، 1419ق، ج3، ص799؛ مراجعہ کریں [http://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/931082 حسینی شاهرودی، «امام حسین ؑ و عاشورا از دیدگاه اهل سنت»] و [http://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/52950 ایوب، م، ترجمہ قاسمی، «فضایل امام حسین علیه السلام در احادیث اہل سنت»]</ref> فضیلت کی روایات کے علاوہ اللہ کی راہ میں امام حسینؑ کی جان اور مال کی قربانی کی وجہ سے بھی مسلمانوں کے اعتقادات آپ کی نسبت مضبوط ہوگئے ہیں۔<ref>[http://www.noormags.ir/view/fa/articlepage/52950 ایوب، م، ترجمہ قاسمی، «فضایل امام حسین علیہ السلام در احادیث اہل سنت»]</ref>
امام حسینؑ کے قیام کے بارے میں [[اہل سنت]] کے یہاں دو نظریات پائے جاتے ہیں ایک گروہ اس کو بے اہمیت سمجھتا ہے جبکہ دوسرا گروہ اس کی تعریف و تمجید کرتا ہے۔
مخالفوں میں سے ایک ابوبکر ابن عربی ہے جس نے امام حسین کے قیام کو کم اہمیت سمجھتے ہوئے کہتا ہے کہ لوگوں نے (جو لوگ امت میں اختلاف پھیلاتے ہیں اس سے جنگ کرنے کے بارے میں) پیغمبر کی احادیث سن کر حسین سے لڑنے لگے۔<ref> ابوبکر ابن عربی، العواصم من القواصم، المکتبۃ السلفیۃ، ص232.</ref>
[[ابن تیمیہ]] بھی کہتا ہے کہ حسین بن علیؑ نہ صرف حالات کی اصلاح کے باعث نہیں بنے بلکہ شر و فساد کا باعث بنے۔<ref> ابن تیمیہ، منہاج السنۃ النبویۃ، 1406ق، ج4، ص530-531.</ref>
{{شعر2|تا قیامت قطع استبداد کرد|موج خون او، چمن ایجاد کرد}}
{{شعر2|مدعایش سلطنت بودی اگر|خود نکردی با چنین سامان سفر}}
{{شعر2|رمز قرآن از حسین آموختیم|ز آتش او شعلہ ہا افروختیم}}
[[ابن خلدون]] نے ابن عربی کی باتوں کو ٹھکراتے ہوئے کہا ہے کہ ظالم اور ستمگروں سے لڑنے کے لیے عادل امام کا ہونا شرط ہے اور حسینؑ اپنے زمانے کے عادل ترین فرد تھے اور اس جنگ کرنے کے حق دار تھے۔<ref> ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص217.</ref>
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: جب یزید کا فسق سب پر آشکار ہوا تو حسین نے اس کے خلاف قیام کو اپنے پر [[واجب]] سمجھا کیونکہ وہ خود کو اس کام کا اہل سمجھتے تھے۔<ref> ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص216.</ref> آلوسی نے روح المعانی میں ابن عربی کے خلاف بد دعا کرتے ہوئے اس کی بات کو جھوٹ اور سب سے بڑا تہمت قرار دیا ہے۔<ref> آلوسی، روح المعانی، 1415ق، ج13، ص228.</ref>
عباس محمود عقاد اپنی کتاب ابو الشهداء الحسین بن علی میں لکھتا ہے: یزید کے دور میں حالات اس نہج پر پہنچے تھے کہ شہادت کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں تھا۔<ref> عقاد، ابو الشهداء، 1429ق، ص207.</ref> اور اس کا کہنا تھا کہ ایسے قیام بہت کم لوگوں کی طرف سے واقع ہوتے ہیں جو اسی کام کے لیے ہی خلق ہوئے ہیں ان کی تحریک کو دوسروں کی تحریک سے مقایسہ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ یہ لوگ کچھ اور طرح سے سمجھتے ہیں اور کچھ اور چاہتے ہیں۔<ref> عقاد، ابو الشهداء، 1429ق، ص141.</ref>
اہل سنت کے مصنف [[طہ حسین]] کا کہنا ہے کہ حسین کا بیعت نہ کرنا دشمنی اور ضد کی وجہ سے نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر یزید کی بیعت کرتے تو اپنے وجدان سے خیانت کرتے اور دین کی مخالفت کرتے، کیونکہ یزید کی بیعت ان کی نظر میں گناہ تھا۔<ref> طہ حسین، علی و بنوہ، دار المعارف، ص239</ref>
عمر فروخ کہتا ہے کہ ظلم کے بارے میں سکوت کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے اور آج کے مسلمانوں کے لیے ضرورت یہی ہے کہ ہمارے درمیان ایک حسینی قیام کرے اور ہمیں سیدھے راستے میں حق کی دفاع کرنے کی رہنمائی کرے۔<ref> فروخ، تجدید فی المسلمین لا فی الإسلام، دار الكتاب العربی، ص152</ref>
یزید پر امام حسینؑ کا قاتل ہونے کے ناطے لعنت کرنے کے بارے میں بھی اہل سنت میں دو نظریات پائے جاتے ہیں اور اہل سنت کے بہت سارے علما اس لعنت کے جواز کے قائل ہیں بلکہ یزید پر لعنت کو [[واجب]] سمجھتے ہیں۔<ref> ناصری داودی، انقلاب کربلا از دیدگاه اهل سنت، 1385، ص287-319.</ref>
[[ملف:مسند الامام الشهید.jpg|150px||تصغیر|[[مسند الامام الشهید]] امام حسینؑ کے کلمات کا مجموعہ]]


==امام حسین کی معنوی میراث==
==امام حسین کی معنوی میراث==
گمنام صارف