مندرجات کا رخ کریں

"تاسوعا" کے نسخوں کے درمیان فرق

123 بائٹ کا ازالہ ،  11 نومبر 2015ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{محرم کی عزاداری}}
{{محرم کی عزاداری}}
'''تاسوعا'''؛ 9 [[محرم الحرام|محرم]] کا دن اور اس سے مراد [[واقعۂ عاشورا|واقعۂ کربلا]] کی تاسوعا (= [[9 محرم|9 محرم الحرام]] سنہ 61 ہجری قمری) ہے۔ ایسے ہی دن سنہ 61 ہجری قمری میں [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]]، [[عبید اللہ بن زیاد]] کا خط لے کر [[کربلا]] میں داخل ہوا جس میں [[عمر بن سعد بن ابی وقاص]] کو حکم دیا گیا تھا کہ یا تو وہ [[امام حسین]](ع) کے ساتھ سخت گیرانہ اور سنجیدہ رویہ اپنائے یا پھر لشکر کی قیادت شمر کے سپرد کر دے۔ عمر بن سعد نے لشکر کی کمان شمر کو سپرد کرنے سے اجتناب کیا اور [[امام حسین]](ع) کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوا۔ اس دن عمر بن سعد کے لشکر نے [[خیام حسینی]] کی طرف یلغار کرنے کا ارادہ کیا تو [[امام حسین]](ع) نے اپنے بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|عباس بن علی]] کو ابن سعد کی طرف بھیجا کہ وہ انہیں ایک رات کی مہلت دے۔
'''تاسوعا'''؛ 9 [[محرم الحرام|محرم]] کا دن اور اس سے مراد [[واقعۂ عاشورا|واقعۂ کربلا]] کی تاسوعا (= [[9 محرم|9 محرم الحرام]] سنہ 61 ہجری قمری) ہے. ایسے ہی دن سنہ 61 ہجری قمری میں [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]]، [[عبید اللہ بن زیاد]] کا خط لے کر [[کربلا]] میں داخل ہوا جس میں [[عمر بن سعد بن ابی وقاص]] کو حکم دیا گیا تھا کہ یا تو وہ [[امام حسین]](ع) کے ساتھ سخت گیرانہ اور سنجیدہ رویہ اپنائے یا پھر لشکر کی قیادت شمر کے سپرد کر دے. عمر بن سعد نے لشکر کی کمان شمر کو سپرد کرنے سے اجتناب کیا اور [[امام حسین]](ع) کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوا. اس دن عمر بن سعد کے لشکر نے [[خیام حسینی]] کی طرف یلغار کرنے کا ارادہ کیا تو [[امام حسین]](ع) نے اپنے بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|عباس بن علی]] کو ابن سعد کی طرف بھیجا کہ وہ انہیں ایک رات کی مہلت دے.


نیز اسی دن شمر [[حضرت عباس علیہ السلام|عباس بن علی]](ع) اور [[ام البنین]] کے دوسرے بیٹوں کے لئے امان نامہ لایا لیکن [[عباس بن علی]](ع) نے امان نامہ قبول نہیں کیا۔ اسی بنا پر یہ دن [[شیعہ|شیعیان اہل بیت]](ع) کے نزدیک بہت زیادہ مذہبی اہمیت کا حامل ہے۔ [[شیعہ|شیعیان]] [[اہل بیت]](ع) تاسوعا کو یوم [[عباس بن علی]](ع) کے طور پر مناتے ہیں اور اس کو [[روز عاشورا]] کی مانند تعظیم و تکریم اور احترام و عقیدت سے مناتے ہیں اور اس دن [[عباس علمدار(ع)]] کے فضائل بیان کرتے ہیں اور ان کی عزاداری کرتے ہیں۔ اس دن ایران میں، [[عاشورا]] کی مانند سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔
نیز اسی دن شمر [[حضرت عباس علیہ السلام|عباس بن علی]](ع) اور [[ام البنین]] کے دوسرے بیٹوں کے لئے امان نامہ لایا لیکن [[عباس بن علی]](ع) نے امان نامہ قبول نہیں کیا. اسی بنا پر یہ دن [[شیعہ|شیعیان اہل بیت]](ع) کے نزدیک بہت زیادہ مذہبی اہمیت کا حامل ہے. [[شیعہ|شیعیان]] [[اہل بیت]](ع) تاسوعا کو یوم [[عباس بن علی]](ع) کے طور پر مناتے ہیں اور اس کو [[روز عاشورا]] کی مانند تعظیم و تکریم اور احترام و عقیدت سے مناتے ہیں اور اس دن [[عباس علمدار(ع)]] کے فضائل بیان کرتے ہیں اور ان کی عزاداری کرتے ہیں. اس دن ایران میں، [[عاشورا]] کی مانند سرکاری چھٹی ہوتی ہے.


==تاسوعا کے معنی==
==تاسوعا کے معنی==
[[محرم الحرام]] کے نویں دن کو "تاسوعا" کہا جاتا ہے۔ تاسوعا "تسع" ـ بمعنی 9 یا نویں سے ماخوذ ہے لیکن اس کی شہرت کا سبب وہ واقعات ہیں جو [[محرم الحرام]] سنہ 61 ہجری کو سرزمین [[کربلا]] میں رونما ہوئے ہیں۔
[[محرم الحرام]] کے نویں دن کو "تاسوعا" کہا جاتا ہے. تاسوعا "تسع" ـ بمعنی 9 یا نویں سے ماخوذ ہے لیکن اس کی شہرت کا سبب وہ واقعات ہیں جو [[محرم الحرام]] سنہ 61 ہجری کو سرزمین [[کربلا]] میں رونما ہوئے ہیں.


==روز تاسوعا کے واقعات==
==روز تاسوعا کے واقعات==
تاسوعا کا دن وہ آخری دن ہے جس دن [[امام حسین]](ع) اور آپ(ع) کے اصحاب نے رات کو بھی دیکھا اور یہ دن [[واقعۂ عاشورا]] کی شب سے منسلک ہے۔
تاسوعا کا دن وہ آخری دن ہے جس دن [[امام حسین]](ع) اور آپ(ع) کے اصحاب نے رات کو بھی دیکھا اور یہ دن [[واقعۂ عاشورا]] کی شب سے منسلک ہے.




===کربلا میں شمر کی آمد===
===کربلا میں شمر کی آمد===
9 محرم ـ تاسوعا ـ کے دن ظہر سے پہلے [[شمر بن ذی الجوشن]] چار ہزار سپاہی لے کر سرزمین [[کربلا]] میں داخل ہوا۔<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص94۔</ref>۔<ref>ابن شهرآشوب، مناقب ج4، ص98۔</ref> وہ [[عمر بن سعد]] کے لئے [[عبیداللہ بن زیاد]] کا خط لے کر آیا تھا چنانچہ کربلا پہنچتے ہی اس نے خط ابن سعد کے سپرد کیا۔ اس خط میں ابن زياد نے ابن سعد کو حکم دیا تھا کہ یا تو [[امام حسین]](ع) کو بیعت پر مجبور کرے یا پھر آپ(ع) کے خلاف لڑائی چھیڑ دے۔
9 محرم ـ تاسوعا ـ کے دن ظہر سے پہلے [[شمر بن ذی الجوشن]] چار ہزار سپاہی لے کر سرزمین [[کربلا]] میں داخل ہوا.<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص94.</ref>.<ref>ابن شهرآشوب، مناقب ج4، ص98.</ref> وہ [[عمر بن سعد]] کے لئے [[عبیداللہ بن زیاد]] کا خط لے کر آیا تھا چنانچہ کربلا پہنچتے ہی اس نے خط ابن سعد کے سپرد کیا. اس خط میں ابن زياد نے ابن سعد کو حکم دیا تھا کہ یا تو [[امام حسین]](ع) کو بیعت پر مجبور کرے یا پھر آپ(ع) کے خلاف لڑائی چھیڑ دے.


عبید اللہ نے اس خط کے ضمن میں عمر بن سعد کو دھمکی آمیز انداز سے لکھا تھا کہ اگر وہ اس کے احکامات کی مکمل تعمیل نہ کرے تو اس کو لشکر سے کنارہ کشی کرکے اس کی سربراہی کا عہدہ شمر کے سپرد کرنا پڑے گا۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسه1، ص466۔</ref>۔<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ص94۔</ref>۔<ref>ابن شهرآشوب، مناقب ج4، ص98۔</ref>۔<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج5، صص414-415۔</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص88۔</ref>۔<ref>مسکویه، ابوعلی، تجارب الامم، ج2، صص72-73۔</ref>۔<ref>ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج4، ص55۔</ref>
عبید اللہ نے اس خط کے ضمن میں عمر بن سعد کو دھمکی آمیز انداز سے لکھا تھا کہ اگر وہ اس کے احکامات کی مکمل تعمیل نہ کرے تو اس کو لشکر سے کنارہ کشی کرکے اس کی سربراہی کا عہدہ شمر کے سپرد کرنا پڑے گا.<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسه1، ص466.</ref>.<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ص94.</ref>.<ref>ابن شهرآشوب، مناقب ج4، ص98.</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج5، صص414-415.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص88.</ref>.<ref>مسکویه، ابوعلی، تجارب الامم، ج2، صص72-73.</ref>.<ref>ابن اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، ج4، ص55.</ref>


ابن سعد نے عبیداللہ کا خط پڑھ کر شمر سے کہا: "میں لشکر کی امارت تمہارے حوالے نہیں کروں گا اور میں تیرے وجود میں اس کام کی اہلیت نہیں دیکھ رہا ہوں چنانچہ میں اس کام کو خود ہی سرانجام تک پہنچا دوں گا؛ تم صرف پیدل دستوں کے سالار رہو"۔<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ص183۔</ref>۔<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص415۔</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89۔</ref>۔<ref>مسکویه، تجارب الامم، ص73۔</ref>۔<ref>ابن اثیر،الکامل...، ص56۔</ref>۔<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص454۔</ref>
ابن سعد نے عبیداللہ کا خط پڑھ کر شمر سے کہا: "میں لشکر کی امارت تمہارے حوالے نہیں کروں گا اور میں تیرے وجود میں اس کام کی اہلیت نہیں دیکھ رہا ہوں چنانچہ میں اس کام کو خود ہی سرانجام تک پہنچا دوں گا؛ تم صرف پیدل دستوں کے سالار رہو".<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ص183.</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص415.</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89.</ref>.<ref>مسکویه، تجارب الامم، ص73.</ref>.<ref>ابن اثیر،الکامل...، ص56.</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص454.</ref>


===ام البنین(س) کے فرزندوں کے لئے امان نامہ===
===ام البنین(س) کے فرزندوں کے لئے امان نامہ===
([[کوفہ]] میں) شمر نے عمر سعد کے لئے عبیداللہ کا خط لینا چاہا تو اس [[ام البنین]](س) کے بھتیجے [[عبداللہ بن ابی المحل]] کے ساتھ مل کر اپنے بھانجوں کے لئے امان نامہ دینے کی درخواست کی۔ عبیداللہ نے اس تجویز کو پسند کیا۔<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص415</ref>۔<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ص246</ref>۔<ref>ابن اثیر،الکامل...، ص56۔</ref>
([[کوفہ]] میں) شمر نے عمر سعد کے لئے عبیداللہ کا خط لینا چاہا تو اس [[ام البنین]](س) کے بھتیجے [[عبداللہ بن ابی المحل]] کے ساتھ مل کر اپنے بھانجوں کے لئے امان نامہ دینے کی درخواست کی. عبیداللہ نے اس تجویز کو پسند کیا.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص415</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ص246</ref>.<ref>ابن اثیر،الکامل...، ص56.</ref>


عبداللہ بن ابی المحل نے مذکورہ امان نامہ اپنے غلام "کزمان یا عرفان" کے ہاتھوں [[کربلا]] ارسال کیا اور کربلا پہنچنے کے بعد امان نامے کا متن [[ام البنین]](س) کے فرزندوں کے لئے پڑھا۔ لیکن انھوں نے امان نامہ مسترد کیا۔<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...،ج5، ص415</ref>۔<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص93-94</ref>۔<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ص246</ref>۔<ref>ابن اثیر، الکامل...، ص56۔</ref>
عبداللہ بن ابی المحل نے مذکورہ امان نامہ اپنے غلام "کزمان یا عرفان" کے ہاتھوں [[کربلا]] ارسال کیا اور کربلا پہنچنے کے بعد امان نامے کا متن [[ام البنین]](س) کے فرزندوں کے لئے پڑھا. لیکن انھوں نے امان نامہ مسترد کیا.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...،ج5، ص415</ref>.<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص93-94</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ص246</ref>.<ref>ابن اثیر، الکامل...، ص56.</ref>


دوسری روایت کے مطابق شمر خود ہی امان نامہ لے کر [[کربلا]] میں [[عباس بن علی]](ع) اور ان کے بھائیوں [[عبداللہ بن علی|عبداللہ]]، [[جعفر بن علی|جعفر]] اور [[عثمان بن علی|عثمان]] کو پہنچایا۔<ref>حسنی، ابن عنبه، عمدة الطالب فی ...، ص327</ref>۔<ref>الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص246۔</ref>
دوسری روایت کے مطابق شمر خود ہی امان نامہ لے کر [[کربلا]] میں [[عباس بن علی]](ع) اور ان کے بھائیوں [[عبداللہ بن علی|عبداللہ]]، [[جعفر بن علی|جعفر]] اور [[عثمان بن علی|عثمان]] کو پہنچایا.<ref>حسنی، ابن عنبه، عمدة الطالب فی ...، ص327</ref>.<ref>الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ص246.</ref>


[[عباس بن علی|عباس(ع)]] اور ان کے بھائی [[امام حسین|ابا عبداللہ الحسین(ع)]] کے پاس بیٹھے تھے اور شمر کا جواب دے رہے تھے۔ [[امام حسین|امام(ع)]] نے بھائی [[عباس بن علی|عباس(ع)]] سے فرمایا: "گو کہ وہ فاسق ہے لیکن اس کا جواب دے دو، بےشک وہ تمہارے مامؤوں میں سے ہے"۔ [[عباس بن علی|عباس]]، [[عبداللہ بن علی|عبداللہ]]، [[جعفر بن علی|جعفر]] اور [[عثمان بن علی|عثمان]] علیہم السلام باہر آئے اور شمر سے کہا: "کیا چاہتے ہو؟" شمر نے ان سے کہا: "اے میرے بھانجو! تم امان میں ہو؛ میں نے تمہارے لئے [[عبید اللہ بن زیاد]] سے امان نامہ حاصل کیا ہے"۔ لیکن عباس اور ان کے بھائیوں نے مل کر کہا: "خدا تم پر اور تمہارے امان نامے پر لعنت کرو؛ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم امان میں ہوں اور [[حضرت فاطمہ|بنت پیمبر]](ص) امان میں نہ ہوں"۔<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف ج3، ص184</ref>۔<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص416</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89</ref>۔<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ج1، ص246</ref>۔<ref>ابن اثیر، الکامل...، ج4، ص56۔</ref>
[[عباس بن علی|عباس(ع)]] اور ان کے بھائی [[امام حسین|ابا عبداللہ الحسین(ع)]] کے پاس بیٹھے تھے اور شمر کا جواب دے رہے تھے. [[امام حسین|امام(ع)]] نے بھائی [[عباس بن علی|عباس(ع)]] سے فرمایا: "گو کہ وہ فاسق ہے لیکن اس کا جواب دے دو، بےشک وہ تمہارے مامؤوں میں سے ہے". [[عباس بن علی|عباس]]، [[عبداللہ بن علی|عبداللہ]]، [[جعفر بن علی|جعفر]] اور [[عثمان بن علی|عثمان]] علیہم السلام باہر آئے اور شمر سے کہا: "کیا چاہتے ہو؟" شمر نے ان سے کہا: "اے میرے بھانجو! تم امان میں ہو؛ میں نے تمہارے لئے [[عبید اللہ بن زیاد]] سے امان نامہ حاصل کیا ہے". لیکن عباس اور ان کے بھائیوں نے مل کر کہا: "خدا تم پر اور تمہارے امان نامے پر لعنت کرو؛ یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ ہم امان میں ہوں اور [[حضرت فاطمہ|بنت پیمبر]](ص) امان میں نہ ہوں".<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف ج3، ص184</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص416</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ج1، ص246</ref>.<ref>ابن اثیر، الکامل...، ج4، ص56.</ref>


[[ام البنین سلام اللہ علیہا|ام البنین]](س) کے فرزندوں کی طرف سے ابن زیاد کا امان نامہ مسترد ہونے کے بعد عمر بن سعد کے لشکر کو حکم دیا گیا کہ جنگ کی تیاری کریں؛ چنانچہ سب سوار ہوئے اور پنجشنبہ (= جمعرات) 9 [[محرم الحرام|محرم]] بوقت عصر [[امام حسین]](ع) اور آپ(ع) کے اصحاب و خاندان کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوئے۔<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ص184</ref>۔<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص416</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89</ref>۔<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ج1، ص249</ref>۔<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص454۔</ref>
[[ام البنین سلام اللہ علیہا|ام البنین]](س) کے فرزندوں کی طرف سے ابن زیاد کا امان نامہ مسترد ہونے کے بعد عمر بن سعد کے لشکر کو حکم دیا گیا کہ جنگ کی تیاری کریں؛ چنانچہ سب سوار ہوئے اور پنجشنبہ (= جمعرات) 9 [[محرم الحرام|محرم]] بوقت عصر [[امام حسین]](ع) اور آپ(ع) کے اصحاب و خاندان کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوئے.<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ص184</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص416</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ج1، ص249</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص454.</ref>


===جنگ کی تیاری===
===جنگ کی تیاری===
9 [[محرم الحرام|محرم]] بوقت عصر صحرای [[کربلا]] میں [[عمر سعد]] کی سپاہ کی نقل و حرکت بڑھ گئی اور [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] [[امام حسین]](ع) کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوا اور اپنی سپاہ کو بھی جنگ کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا۔ اس نے اپنی سپاہ میں منادی کرا دی کہ "يا خيل الله ارکبی و بالجنة ابشري"،‌ اے خدا کے لشکریو! سوار ہوجاؤ کہ میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں!"۔ [[کوفہ|کوفی]] سب سوار ہوئے اور جنگ کے لئے تیار۔<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ص184</ref>۔<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص416</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89</ref>۔<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ج1، ص249</ref>۔<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص454۔</ref>
9 [[محرم الحرام|محرم]] بوقت عصر صحرای [[کربلا]] میں [[عمر سعد]] کی سپاہ کی نقل و حرکت بڑھ گئی اور [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] [[امام حسین]](ع) کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہوا اور اپنی سپاہ کو بھی جنگ کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا. اس نے اپنی سپاہ میں منادی کرا دی کہ "يا خيل الله ارکبی و بالجنة ابشري"،‌ اے خدا کے لشکریو! سوار ہوجاؤ کہ میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں!". [[کوفہ|کوفی]] سب سوار ہوئے اور جنگ کے لئے تیار.<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، ص184</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، ص416</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص89</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ج1، ص249</ref>.<ref>طبرسی، اعلام الوری ...، ج1، ص454.</ref>


لشکر میں شور اور ہنگامہ بپا ہوا، [[امام حسین|امام(ع)]] اپنے خیمے کے سامنے بیٹھے تھے اور اپنی تلوار پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ بہن [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینب]](س) لشکر [[کوفہ]] میں شور و غل کی صدائیں سن کر بھائی کے قریب آئیں اور کہا: "بھائی جان! کیا آپ قریب تر آنے والی صدائیں سن رہے ہیں؟"۔ [[امام حسین]](ع) نے سر اٹھا کر فرمایا: "میں نے نانا [[رسول اللہ]](ص) کو خواب میں دیکھا اور آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "بہت جلد ہمارے پاس آؤگے"۔ [[امام حسین]](ع) نے [[عباس بن علی]](ع) کو فرمایا: "اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں؟"۔
لشکر میں شور اور ہنگامہ بپا ہوا، [[امام حسین|امام(ع)]] اپنے خیمے کے سامنے بیٹھے تھے اور اپنی تلوار پر ٹیک لگائے ہوئے تھے. بہن [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینب]](س) لشکر [[کوفہ]] میں شور و غل کی صدائیں سن کر بھائی کے قریب آئیں اور کہا: "بھائی جان! کیا آپ قریب تر آنے والی صدائیں سن رہے ہیں؟". [[امام حسین]](ع) نے سر اٹھا کر فرمایا: "میں نے نانا [[رسول اللہ]](ص) کو خواب میں دیکھا اور آپ(ص) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: "بہت جلد ہمارے پاس آؤگے". [[امام حسین]](ع) نے [[عباس بن علی]](ع) کو فرمایا: "اے عباس! میری جان فدا ہو تم پر، اپنے گھوڑے پر سوار ہوجاؤ اور ان کے پاس جاؤ اور پوچھو کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کس لئے آگے بڑھ آئے ہیں؟".


[[عباس بن علی|حضرت عباس(ع)]] [[زہیر بن قین]] اور [[حبیب بن مظاہر]] سمیت 20 سواروں کے ہمراہ دشمن کی سپاہ کی طرف چلے گئے اور اور ان سے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟ اور تم چاہتے کیا ہو؟" انھوں نے کہا: "[[عبیداللہ بن زیاد|امیر]] کا حکم ہے کہ ہم آپ سے کہہ دیں کہ یا [[بیعت]] کرو یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ"۔ [[حضرت عباس علیہ السلام|حضرت عباس(ع)]] نے کہا: "اپنی جگہ سے ہلو نہیں حتی کہ میں [[امام حسین|ابا عبداللہ (ع)]] کے پاس جاؤں اور تمہارا پیغام آپ(ع) کو پہنچا دوں"۔ وہ مان گئے چنانچہ [[عباس بن علی|حضرت عباس]](ع) اکیلے [[امام حسین]](ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ انہیں پیش آمدہ صورت حال سے آگاہ کریں۔<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، صص184-185</ref>۔<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، صص416-418</ref>۔<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص97- 98</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص90</ref>۔<ref>الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، صص249-250</ref>۔<ref>مسکویه، تجارب الامم، صص73- 74۔</ref>
[[عباس بن علی|حضرت عباس(ع)]] [[زہیر بن قین]] اور [[حبیب بن مظاہر]] سمیت 20 سواروں کے ہمراہ دشمن کی سپاہ کی طرف چلے گئے اور اور ان سے پوچھا: "کیا ہوا ہے؟ اور تم چاہتے کیا ہو؟" انھوں نے کہا: "[[عبیداللہ بن زیاد|امیر]] کا حکم ہے کہ ہم آپ سے کہہ دیں کہ یا [[بیعت]] کرو یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ". [[حضرت عباس علیہ السلام|حضرت عباس(ع)]] نے کہا: "اپنی جگہ سے ہلو نہیں حتی کہ میں [[امام حسین|ابا عبداللہ (ع)]] کے پاس جاؤں اور تمہارا پیغام آپ(ع) کو پہنچا دوں". وہ مان گئے چنانچہ [[عباس بن علی|حضرت عباس]](ع) اکیلے [[امام حسین]](ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ انہیں پیش آمدہ صورت حال سے آگاہ کریں.<ref>البلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، صص184-185</ref>.<ref>الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و...، ج5، صص416-418</ref>.<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، صص97- 98</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص90</ref>.<ref>الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، صص249-250</ref>.<ref>مسکویه، تجارب الامم، صص73- 74.</ref>


[[امام حسین]](ع) نے [[عباس بن علی|حضرت عباس(ع)]] سے فرمایا: "اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو انہیں راضی کرو کہ جنگ کو کل تک ملتوی کریں اور آج رات کو ہمیں مہلت دیں تا کہ اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز کریں اور اس کی درگاہ میں [[نماز]] بجا لائیں؛ خدا جانتا ہے کہ میں اس کی بارگاہ میں نماز اور اس کی کتاب کی تلاوت کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں۔‌<ref>الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج5، ص417</ref>۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص91</ref>۔<ref>ابن اثیر،الکامل...، ص57۔</ref>
[[امام حسین]](ع) نے [[عباس بن علی|حضرت عباس(ع)]] سے فرمایا: "اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو انہیں راضی کرو کہ جنگ کو کل تک ملتوی کریں اور آج رات کو ہمیں مہلت دیں تا کہ اپنے پروردگار کے ساتھ راز و نیاز کریں اور اس کی درگاہ میں [[نماز]] بجا لائیں؛ خدا جانتا ہے کہ میں اس کی بارگاہ میں نماز اور اس کی کتاب کی تلاوت کو بہت زیادہ دوست رکھتا ہوں.‌<ref>الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج5، ص417</ref>.<ref>شیخ مفید، الارشاد، ج2، ص91</ref>.<ref>ابن اثیر،الکامل...، ص57.</ref>


جب تک [[عباس بن علی|عباس(ع)]] [[امام حسین]](ع) کے ساتھ گفتگو کررہے تھے، ان کے ساتھیوں [[حبیب بن مظاہر]] اور [[زہیر بن قین]] نے بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر ابن سعد کی سپاہ کے ساتھ گفتگو کی اور انہیں [[امام حسین]](ع) کے ساتھ جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کی جبکہ اسی حال میں وہ ابن سعد کے سپاہیوں کی پیشقدمی بھی روک رہے تھے۔<ref>الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج5، صص416-417</ref>۔<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ص98</ref>۔<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ص249-250</ref>۔<ref>تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ "البلاذری، احمد بن یحیی"، انساب الاشراف، ص184۔</ref>
جب تک [[عباس بن علی|عباس(ع)]] [[امام حسین]](ع) کے ساتھ گفتگو کررہے تھے، ان کے ساتھیوں [[حبیب بن مظاہر]] اور [[زہیر بن قین]] نے بھی موقع سے فائدہ اٹھا کر ابن سعد کی سپاہ کے ساتھ گفتگو کی اور انہیں [[امام حسین]](ع) کے ساتھ جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کی جبکہ اسی حال میں وہ ابن سعد کے سپاہیوں کی پیشقدمی بھی روک رہے تھے.<ref>الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج5، صص416-417</ref>.<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ص98</ref>.<ref>الخوارزمی،مقتل الحسین(ع)، ص249-250</ref>.<ref>تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ "البلاذری، احمد بن یحیی"، انساب الاشراف، ص184.</ref>


[[عباس بن علی|ابوالفضل العباس(ع)]] دشمن کے سپاہیوں کی طرف آئے اور [[امام حسین]](ع) کی درخواست ان تک پہنچا دی اور اس رات کو ان سے مہلت مانگی۔ ابن سعد نے [[امام حسین]](ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کو ایک رات کی مہلت کی درخواست سے اتفاق کیا۔<ref>الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج5، ص417</ref>۔<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ص98</ref>۔<ref>ابن اثیر،الکامل...، ص57۔</ref> اس دن [[امام حسین]](ع) اور آپ(ع) کے خاندان اور اصحاب و انصار کے خیام کا محاصرہ کیا گیا۔
[[عباس بن علی|ابوالفضل العباس(ع)]] دشمن کے سپاہیوں کی طرف آئے اور [[امام حسین]](ع) کی درخواست ان تک پہنچا دی اور اس رات کو ان سے مہلت مانگی. ابن سعد نے [[امام حسین]](ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کو ایک رات کی مہلت کی درخواست سے اتفاق کیا.<ref>الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج5، ص417</ref>.<ref>الکوفی، ابن اعثم، الفتوح، ص98</ref>.<ref>ابن اثیر،الکامل...، ص57.</ref> اس دن [[امام حسین]](ع) اور آپ(ع) کے خاندان اور اصحاب و انصار کے خیام کا محاصرہ کیا گیا.


===امام صادق(ع) کی حدیث===
===امام صادق(ع) کی حدیث===
[[امام جعفر صادق علیہ السلام]] نے ایک [[حدیث]] کے ضمن میں اس روز کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا:
[[امام جعفر صادق علیہ السلام]] نے ایک [[حدیث]] کے ضمن میں اس روز کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا:
:<font color = blue>"'''‌تاسوعا یوم حوصر فیه الحسین(ع) واصحابه بکربلاء واجتمع علیه خیل اهل الشام واناخوا علیه وفرح ابن مرجانة وعمر بن سعد بتواتر الخیل وکثرتها واستضعفوا فیه الحسین(ع) واصحابه وایقنوا انه لا یأتی الحسین(ع) ناصر ولا یمده اهل العراق</font>'''" <br/> ترجمہ: تاسوعا وہ دن ہے جس دن حسین(ع) اور اصحاب حسین کربلا میں محصور ہوئے اور شامی سپاہ ان کے خلاف اکٹھی ہوئی۔ ابن مرجانہ / ابن زیاد اور عمر سعد اتنا بڑا لشکر فراہم ہونے پر خوش ہوئے اور اس دن حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کو کمزور سمجھا اور انھوں نے یقین کرلیا کہ حسین(ع) کے لئے کوئی کمک نہیں آئے گی اور عراقی آپ(ع) کی مدد نہیں کریں گے۔<ref>کلینی، الکافی، ج4، ص147</ref>۔<ref>مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج45، ص95</ref>۔<ref>عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعه، ج10، ص460۔</ref>
:<font color = blue>"'''‌تاسوعا یوم حوصر فیه الحسین(ع) واصحابه بکربلاء واجتمع علیه خیل اهل الشام واناخوا علیه وفرح ابن مرجانة وعمر بن سعد بتواتر الخیل وکثرتها واستضعفوا فیه الحسین(ع) واصحابه وایقنوا انه لا یأتی الحسین(ع) ناصر ولا یمده اهل العراق</font>'''" <br/> ترجمہ: تاسوعا وہ دن ہے جس دن حسین(ع) اور اصحاب حسین کربلا میں محصور ہوئے اور شامی سپاہ ان کے خلاف اکٹھی ہوئی. ابن مرجانہ / ابن زیاد اور عمر سعد اتنا بڑا لشکر فراہم ہونے پر خوش ہوئے اور اس دن حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کو کمزور سمجھا اور انھوں نے یقین کرلیا کہ حسین(ع) کے لئے کوئی کمک نہیں آئے گی اور عراقی آپ(ع) کی مدد نہیں کریں گے.<ref>کلینی، الکافی، ج4، ص147</ref>.<ref>مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج45، ص95</ref>.<ref>عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعه، ج10، ص460.</ref>


==اہل تشیع کے ہاں اس دن کی اہمیت==
==اہل تشیع کے ہاں اس دن کی اہمیت==
اس دن رونما ہونے والے واقعات کی بنا پر یہ دن [[شیعہ|شیعیان اہل بیت]](ع) کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ [[شیعہ|شیعیان]] [[اہل بیت]](ع) تاسوعا کو [[عباس بن علی|قمر بنی ہاشم]] عباس(ع) سے منسوب کرتے ہیں؛ اور اس کو [[روز عاشورا]] کی مانند تعظیم و تکریم اور احترام و عقیدت سے مناتے ہیں اور اس دن [[عباس علمدار(ع)]] کے فضائل بیان کرتے ہیں اور ان کی عزاداری کرتے ہیں۔
اس دن رونما ہونے والے واقعات کی بنا پر یہ دن [[شیعہ|شیعیان اہل بیت]](ع) کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے. [[شیعہ|شیعیان]] [[اہل بیت]](ع) تاسوعا کو [[عباس بن علی|قمر بنی ہاشم]] عباس(ع) سے منسوب کرتے ہیں؛ اور اس کو [[روز عاشورا]] کی مانند تعظیم و تکریم اور احترام و عقیدت سے مناتے ہیں اور اس دن [[عباس علمدار(ع)]] کے فضائل بیان کرتے ہیں اور ان کی عزاداری کرتے ہیں.


اس دن ایران اور بعض [[شیعہ]] اکثریتی ممالک میں، [[عاشورا]] کی مانند سرکاری چھٹی ہوتی ہے؛ اس دن بھی [[عزاداری]] اور سوگواری کے با شکوہ اور مفصل مراسمات منعقد کئے جاتے ہیں اور عزاداروں کے دستے اور جلوس نکالے جاتے ہیں اور لوگ سینہ زنی اور ماتم کرتے ہیں۔
اس دن ایران اور بعض [[شیعہ]] اکثریتی ممالک میں، [[عاشورا]] کی مانند سرکاری چھٹی ہوتی ہے؛ اس دن بھی [[عزاداری]] اور سوگواری کے با شکوہ اور مفصل مراسمات منعقد کئے جاتے ہیں اور عزاداروں کے دستے اور جلوس نکالے جاتے ہیں اور لوگ سینہ زنی اور ماتم کرتے ہیں.




سطر 56: سطر 56:
<gallery>
<gallery>


ملف:آیین عزاداری تاسوعای حسینی در بم.jpg|صوبہ کرمان کے شہر "بم" میں تاسوعا کی عزاداری۔
ملف:آیین عزاداری تاسوعای حسینی در بم.jpg|صوبہ کرمان کے شہر "بم" میں تاسوعا کی عزاداری.
ملف:آیین عزاداری تاسوعای حسینی در مشهد.jpg|خراسان رضوی کے شہر [[مشہد]] میں تاسوعا کی عزاداری۔
ملف:آیین عزاداری تاسوعای حسینی در مشهد.jpg|خراسان رضوی کے شہر [[مشہد]] میں تاسوعا کی عزاداری.
ملف:موکب عزادارن حسینیه اعظم زنجان.jpg|موکب عزاداری [[حسینیہ اعظم زنجان]]۔
ملف:موکب عزادارن حسینیه اعظم زنجان.jpg|موکب عزاداری [[حسینیہ اعظم زنجان]].
ملف:موکب عزادارن حسینیه اعظم زنجان.jpg1.jpg|موکب عزاداری حسینیه اعظم زنجان۔
ملف:موکب عزادارن حسینیه اعظم زنجان.jpg1.jpg|موکب عزاداری حسینیه اعظم زنجان.
ملف:موکب عزادارن حسینیه اعظم زنجان.jpg2.jpg|موکب عزاداری حسینیه اعظم زنجان۔
ملف:موکب عزادارن حسینیه اعظم زنجان.jpg2.jpg|موکب عزاداری حسینیه اعظم زنجان.
ملف:کاروان عزاداران حضرت اباعبدالله در خمینی شهر.jpg|کاروان عزاداران [[امام حسین|حضرت اباعبداللہ(ع)]] خمینی شہر، [[اصفہان]]۔
ملف:کاروان عزاداران حضرت اباعبدالله در خمینی شهر.jpg|کاروان عزاداران [[امام حسین|حضرت اباعبداللہ(ع)]] خمینی شہر، [[اصفہان]].
ملف:آیین سینه زنی با سنج ئ دمام در بوشهر.jpg|[[بوشہر]] میں سینہ زنی کے مراسمات سنج و دمام کے ساتھ۔
ملف:آیین سینه زنی با سنج ئ دمام در بوشهر.jpg|[[بوشہر]] میں سینہ زنی کے مراسمات سنج و دمام کے ساتھ.
</gallery>
</gallery>
</center>
</center>
گمنام صارف