مندرجات کا رخ کریں

"حوزہ علمیہ قم" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 75: سطر 75:
ان دانش پرور خاندانوں کے علاوہ، جس چیز نے حوزہ قم کو مزید رونق بخشی وہ اس شہر میں علویوں اور سادات کی موجودگی تھی۔ علویوں نے کم از کم دو راستوں سے حوزہ کے رونق کو مدد پہنچائی:
ان دانش پرور خاندانوں کے علاوہ، جس چیز نے حوزہ قم کو مزید رونق بخشی وہ اس شہر میں علویوں اور سادات کی موجودگی تھی۔ علویوں نے کم از کم دو راستوں سے حوزہ کے رونق کو مدد پہنچائی:
* پہلی بات یہ کہ حوزہ قم کی تاریخ کے مختلف مقاطع و مراحل میں علوی خاندانوں میں سے کثیر تعداد میں علماء اور صاحبان دانش و حکمت ابھر آئے اور
* پہلی بات یہ کہ حوزہ قم کی تاریخ کے مختلف مقاطع و مراحل میں علوی خاندانوں میں سے کثیر تعداد میں علماء اور صاحبان دانش و حکمت ابھر آئے اور
* دوسری بات یہ کہ یہ افراد بہت زیادہ لائق احترام تھے اور لوگ ان سے شدید عقیدت رکھتے تھے اور جب ان کا انتقال ہوا تو اسی شہر میں مدفون ہوئے چنانچہ ان کے مزارات نے سرزمین قم کو تقدس بخشا اور اس شہر کو [[ائمۂ شیعہ]] کی تعلیمات کی روشنی میں علوم دینیہ کی تعلیم و تدریس کے مرکز و محور میں تبدیل کیا۔<ref>ائمہ معصومین(ع) کی طرف سے قم کی تعریف و تمجید کے لئے رجوع کریں: قمی، تاريخ قم، ص 90ـ100؛ محمدباقر مجلسى، بحار الانوار، ج48، ص317، ج57، ص214، 217۔</ref> [[امام علی رضا علیہ السلام|امام رضا]](ع) کی ہمشیرہ [[حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا|فاطمہ معصومہ(س)]] کو قم میں علویوں کی نامور ترین شخصیت قرار دیا جانا چاہئے جو سنہ 202 ہجری قمری میں [[امام رضا|امام ہشتم(ع)]] کی ولایت عہدی کے بعد [[مدینہ]] سے [[خراسان]] روانہ ہوئیں اور قم میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔<ref>قمی، تاريخ قم، ص 213۔</ref>
* دوسری بات یہ کہ یہ افراد بہت زیادہ لائق احترام تھے اور لوگ ان سے شدید عقیدت رکھتے تھے اور جب ان کا انتقال ہوا تو اسی شہر میں مدفون ہوئے چنانچہ ان کے مزارات نے سرزمین قم کو تقدس بخشا اور اس شہر کو [[ائمۂ شیعہ]] کی تعلیمات کی روشنی میں علوم دینیہ کی تعلیم و تدریس کے مرکز و محور میں تبدیل کیا۔<ref> ائمہ معصومین (ع) کی طرف سے قم کی تعریف و تمجید کے لئے رجوع کریں: قمی، تاريخ قم، ص 90ـ100؛ محمد باقر مجلسى، بحار الانوار، ج48، ص317، ج57، ص214، 217۔</ref> [[امام علی رضا علیہ السلام|امام رضا]] (ع) کی ہمشیرہ [[حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا|فاطمہ معصومہ(س)]] کو قم میں علویوں کی نامور ترین شخصیت قرار دیا جانا چاہئے جو سنہ 202 ھ میں [[امام رضا|امام ہشتم(ع)]] کی ولایت عہدی کے بعد [[مدینہ]] سے [[خراسان]] روانہ ہوئیں اور قم میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔<ref> قمی، تاريخ قم، ص 213۔</ref>
* قمى نے [[تاریخ قم]]<ref>تاریخ قمی، ص224ـ228۔</ref> کئی علوی فقہاء کا تذکرہ کیا ہے جن کی نسل [[علی بن جعفر عریضی|على بن جعفر عُریضى]] کے توسط سے [[امام صادق(ع)]] تک پہنچتی ہے۔
* قمى نے [[تاریخ قم]] <ref>تاریخ قمی، ص224ـ228۔</ref> کئی علوی فقہاء کا تذکرہ کیا ہے جن کی نسل [[علی بن جعفر عریضی|على بن جعفر عُریضى]] کے توسط سے [[امام صادق(ع)]] تک پہنچتی ہے۔
* تاریخی منابع میں مذکور ہے کہ [[امام موسی کاظم علیہ السلام|امام موسى بن جعفر]](ع)، کی پانچویں پشت پر [[محمدبن موسى بن اسحق]] بھی فقیہ تھے۔<ref>نائینى، انوار المشعشعین، ج1، ص517۔</ref>
* تاریخی منابع میں مذکور ہے کہ [[امام موسی کاظم علیہ السلام|امام موسى بن جعفر]] (ع)، کی پانچویں پشت پر [[محمد بن موسى بن اسحق]] بھی [[فقیہ]] تھے۔<ref> نائینى، انوار المشعشعین، ج1، ص517۔</ref>
* [[موسی مبرقع]] ابن [[امام محمد تقی علیہ السلام|امام جواد]](ع) ان علماء اور فضلاء میں سے تھے جو ہجرت کرکے قم میں آبسے تھے<ref>قمی، تاريخ قم، ص215۔</ref> ان کے فرزند قم میں رضوی کے عنوان سے مشہور ہوئے۔<ref>ابن عنبه، ص230۔</ref> ان کے فرزند احمد بن موسی، کے ایک بیٹے کا نام [[ابو الحسن موسى بن احمد]] تھا (جو سنہ 371 ہجری قمری میں زندہ تھے)۔ وہ نہایت منکسر المزاج اور ہر دلعزیز عالم تھے اور ذاتی کیاست کی بنا پر ـ نوجوانی کے باوجود ـ انہیں [[قم]]، [[آوہ]]، [[كاشان]] اور [[خورزن]] کے علویوں کی نقابت ان کو سونپی گئی تھی۔ ان کے زمانے میں قم اور مضافات میں سادات کے خُرد و کلاں کی تعداد 331 افراد تک پہنچ گئی تھی۔<ref>قمی، تاريخ قم، ص220۔</ref>
* [[موسی مبرقع]] ابن [[امام محمد تقی علیہ السلام|امام جواد]] (ع) ان علماء اور فضلاء میں سے تھے جو ہجرت کرکے قم میں آبسے تھے<ref> قمی، تاريخ قم، ص215۔</ref> ان کے فرزند قم میں رضوی کے عنوان سے مشہور ہوئے۔<ref> ابن عنبہ، ص230۔</ref> ان کے فرزند احمد بن موسی، کے ایک بیٹے کا نام [[ابو الحسن موسى بن احمد]] تھے (جو سنہ 371 ھ میں حیات تھے)۔ وہ نہایت منکسر المزاج اور ہر دلعزیز عالم تھے اور ذاتی کیاست کی بنا پر نوجوانی کے باوجود انہیں [[قم]]، آوہ، [[كاشان]] اور خورزن کے علویوں کی نقابت ان کو سونپی گئی تھی۔ ان کے زمانے میں قم اور مضافات میں سادات کے خُرد و کلاں کی تعداد 331 افراد تک پہنچ گئی تھی۔<ref> قمی، تاريخ قم، ص220۔</ref>
* دوسرے علوی علماء میں سے، [[حمزہ بن محمد بن احمد]] تھے جو [[زید بن علی|زید بن على بن الحسین]] کی نسل سے تھے۔ انھوں نے قم میں [[على بن ابراہیم بن ہاشم]] سے [[حدیث]] سنی اور خود [[رجب المرجب]] سنہ  339ہجری قمری میں صدوق کے لئے [[حدیث]] نقل کی۔<ref>ابن بابویه، معانى الاخبار، ص301۔</ref>
* دوسرے علوی علماء میں سے، [[حمزہ بن محمد بن احمد]] تھے جو [[زید بن علی|زید بن على بن الحسین]] کی نسل سے تھے۔ انھوں نے قم میں [[على بن ابراہیم بن ہاشم]] سے [[حدیث]] سنی اور خود [[رجب المرجب]] سنہ  339 ہجری میں صدوق کے لئے [[حدیث]] نقل کی۔<ref> ابن بابویہ، معانى الاخبار، ص301۔</ref>
* ایک علوی عالم دین ـ جنہیں ''تاریخ قم'' کے مؤلف نے<ref>قمی، تاریخ قم، ص 228۔</ref> نے ایسے [[فقیہ]] کے عنوان سے یاد کیا ہے ـ "ابو الفضل حسین بن حسن بن على بن على بن الحسین(ع)" ہیں، جنہوں نے [[امام حسن عسکری علیہ السلام|امام حسن عسکری]](ع) سے [[حدیث]] روایت کی ہے۔<ref>قم میں دیگر علوی فقہاء سے متعارف ہونے کے لئے رجوع کریں: قمی، تاريخ قم، ص225۔</ref>
* ایک علوی عالم دین جنہیں تاریخ قم کے مؤلف نے<ref>قمی، تاریخ قم، ص 228۔</ref> نے ایسے [[فقیہ]] کے عنوان سے یاد کیا ہے: ابو الفضل حسین بن حسن بن على بن على بن الحسین (ع) ہیں، جنہوں نے [[امام حسن عسکری علیہ السلام|امام حسن عسکری]] (ع) سے [[حدیث]] روایت کی ہے۔<ref> قم میں دیگر علوی فقہاء سے متعارف ہونے کے لئے رجوع کریں: قمی، تاريخ قم، ص225۔</ref>


==دوسرے مشہور علماء==
==دوسرے مشہور علماء==
گمنام صارف