"اولوا العزم" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←بعض انبیاء عظام
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←صاحبان عہد) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 33: | سطر 33: | ||
بعض [[مفسر|مفسرین]] کا خیال ہے کہ "آیت اولو العزم" میں لفظ "مِن" بیانی ہے (یعنی اپنے سے ما قبل عبارت کو واضح کرتا ہے) اور صبر و استقامت اور اللہ کی آزمائش سے گذرنا، تمام انبیاء اور رسل کی خصوصیت ہے۔<ref>ابن عاشور، التحریر والتنویر، 426۔</ref>۔<ref>الطوسى، تفسیر تبیان، ج9،ص287۔</ref>۔<ref>زمخشری، تفسیر کشاف، ج4،ص313۔</ref>۔<ref>فخرالدین، تفسیر کبیر، ج27،ص35۔</ref> تاہم یہاں [[رسول]] اور [[نبی]] کے درمیان فرق کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ | بعض [[مفسر|مفسرین]] کا خیال ہے کہ "آیت اولو العزم" میں لفظ "مِن" بیانی ہے (یعنی اپنے سے ما قبل عبارت کو واضح کرتا ہے) اور صبر و استقامت اور اللہ کی آزمائش سے گذرنا، تمام انبیاء اور رسل کی خصوصیت ہے۔<ref>ابن عاشور، التحریر والتنویر، 426۔</ref>۔<ref>الطوسى، تفسیر تبیان، ج9،ص287۔</ref>۔<ref>زمخشری، تفسیر کشاف، ج4،ص313۔</ref>۔<ref>فخرالدین، تفسیر کبیر، ج27،ص35۔</ref> تاہم یہاں [[رسول]] اور [[نبی]] کے درمیان فرق کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ | ||
===بعض | ===بعض انبیا عظام=== | ||
اکثر [[مفسر|مفسرین]] کی رائے ہے کہ لفظ "مِن" مذکورہ آیت میں "من تبعیضیہ" ہے اور یوں صرف انبیاء عظام کا ایک خاص گروہ اولو العزم انبیاء کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔<ref>ابن عاشور، التحریر والتنویر، 426۔</ref>۔<ref>الطوسى، التبیان فی تفسیر القرآن، ج9،ص287۔</ref>۔<ref>زمخشری، الکشاف ج4،ص313۔</ref>۔<ref>فخرالدین، تفسیر کبیر، ج27،ص35۔</ref> | اکثر [[مفسر|مفسرین]] کی رائے ہے کہ لفظ "مِن" مذکورہ آیت میں "من تبعیضیہ" ہے اور یوں صرف انبیاء عظام کا ایک خاص گروہ اولو العزم انبیاء کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔<ref>ابن عاشور، التحریر والتنویر، 426۔</ref>۔<ref>الطوسى، التبیان فی تفسیر القرآن، ج9،ص287۔</ref>۔<ref>زمخشری، الکشاف ج4،ص313۔</ref>۔<ref>فخرالدین، تفسیر کبیر، ج27،ص35۔</ref> | ||
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اولوالعزم وہ اٹھارہ رسل۔<ref> | بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اولوالعزم وہ اٹھارہ رسل۔<ref>حضرت ابراہیم، حضرت اسحق، حضرت یعقوب، حضرت نوح ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ، حضرت ایوب ، حضرت یوسف ، حضرت موسی ، حضرت ہارون ، حضرت زکریا ، حضرت یحیی ، حضرت عیسی ، حضرت الیاس ، حضرت اسمعیل ،حضرت یسع علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت لوط علیہم السلام۔</ref> ہیں جن کا ذکر [[سورہ انعام]] کی آیات (74 تا 90) میں آیا ہے اور خداوند متعال نے آیت 90 میں ارشاد فرمایا ہے کہ: <font color=green>"'''فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ'''"</font>، اور ان کی ہدایت کی پیروی کیجئے۔ اور بعض کا کہنا ہے کہ اولو العزم انبیاء 9 ہیں جبکہ بعض دوسروں نے 7 یا 6 بتائی ہے۔<ref>الطباطبائی، المیزان، ج18، ص333۔</ref>۔<ref>الآلوسی، روح المعانى، ج26، ص34و 35۔</ref> | ||
[[علامہ محمد حسین طباطبائی|علامہ طباطبائی]] اور بعض دوسرے مفسرین نے صرف صاحب [[شریعت]] انبیاء یعنی [[حضرت نوح علیہ السلام|نوح]]، [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسٰی]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسٰی]] اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد]] علیہم السلام کو ہی اولو العزم پیغمبروں کے عنوان سے متعارف کرایا ہے<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔</ref>۔<ref>البحرانى، البرهان، ج3، ص776۔</ref>۔<ref>المراغی، تفسیر مراغى، ج21، ص132 و ج26، ص29۔</ref> اور ان کا کہنا ہے کہ اس مدعا پر دلالت کرنے والی [[روایت|روایات]] [[حدیث مستفیض|مستفیض]] <ref>[[حدیث مستفیض]] وہ [[حدیث]] ہے جس کے راوی تین سے زیادہ اور [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد سے کم ہو؛ اور اس کی چار قسمیں ہیں: [[حدیث مشہور]]، [[حدیث عزیز]]، [[حدیث مفرد]] اور [[حدیث غریب]]۔ [http://wiki.ahlolbait.com/index.php/%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB_%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%81%DB%8C%D8%B6 حدیث مستفیض]۔</ref> کی حد تک پہنچتی ہیں۔<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص145 و 146 و ج18 ص220۔</ref> لیکن بعض دوسروں کی رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ روایات [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد تک نہیں پہنچتیں؛ لہذا یہ یقین کا موجب نہیں ہیں اور [[قرآن کریم]] میں بھی ایسی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے جو صاحب شریعت پیغمبروں کی تعداد کو پانچ تک محدود کرے۔<ref>الآلوسی، روح المعانى، ج18، ص333۔</ref>۔<ref>مصباح، محمدتقى، راه و راهنماشناسى، ج5، ص329۔</ref> | [[علامہ محمد حسین طباطبائی|علامہ طباطبائی]] اور بعض دوسرے مفسرین نے صرف صاحب [[شریعت]] انبیاء یعنی [[حضرت نوح علیہ السلام|نوح]]، [[حضرت ابراہیم علیہ السلام|ابراہیم]]، [[حضرت موسی علیہ السلام|موسٰی]]، [[حضرت عیسی علیہ السلام|عیسٰی]] اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد]] علیہم السلام کو ہی اولو العزم پیغمبروں کے عنوان سے متعارف کرایا ہے<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص213۔</ref>۔<ref>البحرانى، البرهان، ج3، ص776۔</ref>۔<ref>المراغی، تفسیر مراغى، ج21، ص132 و ج26، ص29۔</ref> اور ان کا کہنا ہے کہ اس مدعا پر دلالت کرنے والی [[روایت|روایات]] [[حدیث مستفیض|مستفیض]] <ref>[[حدیث مستفیض]] وہ [[حدیث]] ہے جس کے راوی تین سے زیادہ اور [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد سے کم ہو؛ اور اس کی چار قسمیں ہیں: [[حدیث مشہور]]، [[حدیث عزیز]]، [[حدیث مفرد]] اور [[حدیث غریب]]۔ [http://wiki.ahlolbait.com/index.php/%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB_%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%81%DB%8C%D8%B6 حدیث مستفیض]۔</ref> کی حد تک پہنچتی ہیں۔<ref>الطباطبائی، المیزان، ج2، ص145 و 146 و ج18 ص220۔</ref> لیکن بعض دوسروں کی رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ روایات [[حدیث متواتر|تواتر]] کی حد تک نہیں پہنچتیں؛ لہذا یہ یقین کا موجب نہیں ہیں اور [[قرآن کریم]] میں بھی ایسی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں ہے جو صاحب شریعت پیغمبروں کی تعداد کو پانچ تک محدود کرے۔<ref>الآلوسی، روح المعانى، ج18، ص333۔</ref>۔<ref>مصباح، محمدتقى، راه و راهنماشناسى، ج5، ص329۔</ref> |