"سورہ آل عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←مباہلہ) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 59: | سطر 59: | ||
[[آیت مباہلہ]] دو عیسائی راہب عاقب اور سید نیز نجران کے عیسائیوں کی اس جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو [[پیغمبر اکرمؐ]] کے پاس آئے تھے اور مختلف امور پر بحث و گفتگو کے بعد [[اسلام]] لانے سے انکار کیے اور آپس میں یہ طے پایا کہ ایک دوسرے پر لعنت کریں گے تا کہ جھوٹوں پر خدا کا [[عذاب]] نازل ہو۔ دوسرے دن پیغمبر اسلام [[امام حسنؑ]]، [[امام حسینؑ]]، [[حضرت فاطمہ (س)]] اور [[امام علیؑ]] کے ہمراہ [[مباہلہ]] کے لئے صحرا تشریف لے آئے۔ جب مسیحیوں نے یہ منظر دیکھا تو تو مباہلہ کرنے سے انکار کیا اور پیغمبر اکرمؐ کو [[جزیہ]] دینے پر راضی ہو گئے۔ احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: اگر عیسائی مباہلہ اور لعن کرتے تو ان پر آگ کی بارش ہو جاتی۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ح۲، ص۷۶۲؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۱۰۷.</ref> | [[آیت مباہلہ]] دو عیسائی راہب عاقب اور سید نیز نجران کے عیسائیوں کی اس جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جو [[پیغمبر اکرمؐ]] کے پاس آئے تھے اور مختلف امور پر بحث و گفتگو کے بعد [[اسلام]] لانے سے انکار کیے اور آپس میں یہ طے پایا کہ ایک دوسرے پر لعنت کریں گے تا کہ جھوٹوں پر خدا کا [[عذاب]] نازل ہو۔ دوسرے دن پیغمبر اسلام [[امام حسنؑ]]، [[امام حسینؑ]]، [[حضرت فاطمہ (س)]] اور [[امام علیؑ]] کے ہمراہ [[مباہلہ]] کے لئے صحرا تشریف لے آئے۔ جب مسیحیوں نے یہ منظر دیکھا تو تو مباہلہ کرنے سے انکار کیا اور پیغمبر اکرمؐ کو [[جزیہ]] دینے پر راضی ہو گئے۔ احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: اگر عیسائی مباہلہ اور لعن کرتے تو ان پر آگ کی بارش ہو جاتی۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ح۲، ص۷۶۲؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۱۰۷.</ref> | ||
===یہودیوں کا ایمان لانا اور مرتد ہونا=== | ===یہودیوں کا ایمان لانا اور مرتد ہونا=== | ||
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 72: {{قرآن کا متن|"وَقَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ؛|ترجمہ= اہل کتاب کا ایک گروہ (اپنے لوگوں سے) کہتا ہے کہ جو کچھ مسلمانوں پر نازل ہوا ہے اس پر صبح کے وقت ایمان لے آؤ اور شام کے وقت انکار کر دو۔ شاید (اس ترکیب سے) وہ مسلمان (اپنے دین سے) پھر جائیں۔ "}} کے بارے میں آیا ہے کہ [[خیبر]] میں مقیم یہودیوں میں سے 12 افراد نے [[مسلمانوں]] کو اسلام کی تعلیمات سے متعلق شک و تردید میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے آپس میں یہ طے کیا کہ صبح کے وقت محمدؐ کے لائے ہوئے دین پر [[ایمان]] کا اظہار کریں گے اور شام کو یہ کہ کر اسلام سے روگردانی اختیار کریں گے کہ [[قرآن]] میں غور و فکر اور اپنے علماء کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد اسلام کے باطل ہونے اور محمدؐ کے جھوٹے ہونے پر یقین ہو گیا ہے۔ یوں محمدؐ کے [[صحابہ|اصحاب]] جو ہمیں اہل کتاب اور عالم مانتے ہیں اپنے اعتقادات میں شک کرنے لگیں گے اور ہمارے دین پر ایمان لے آئیں گے۔ [[خداوندعالم]] نے اس آیت کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ اور مسلمانوں کو یہودیوں کے اس مکر و فریب سے آگاہ فرمایا۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ح۲، ص۷۷۳-۷۷۴؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۱۱۱.</ref> | |||
== متن اور ترجمہ == | == متن اور ترجمہ == |