"سورہ آل عمران" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 53: | سطر 53: | ||
[[طبرسی]] [[تفسیر مجمع البیان]] میں ربیع بن انس سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سورہ آل عمران کی پہلی اسی آیتیں نجران کے عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جن کی قیادت ان کے تین بزرگان کر رہے تھے جن کا نام "عاقب"، "ایہم" اور "ابو حارثہ بن علقمہ" بتایا جاتا ہے جو [[پیغمبر اسلامؐ]] سے گفتگو کرنے [[مدینہ]] آئے تھے۔ اس بیان کے مطابق یہ لوگ [[نماز عصر]] کے بعد پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام اور [[حضرت عیسی]] سے متعلق بعض ہونے والی گفتگو میں پیغمبر اکرمؐ کے دلائل کے سامنے جواب نہ دے سکے اور خاموش ہو گئے۔ اس گفتگو کے بعد سورہ آل عمران کی ابتدائی اسی سے زیادہ آیتیں نازل ہوئیں۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۶۹۵-۶۹۶.</ref> {{نوٹ|تفاسیر میں سورہ آل عمران کی ابتدائی اسی آیتوں کے بارے میں مزید شأن نزول کا تذکرہ موجود ہے خواہشمند حضرات مراجعہ کریں: طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ذیل آیات ۱۲، ۱۸، ۲۳، ۲۶، ۲۸، ۳۱، ۵۹، ۶۸، ۷۷، ۷۹ و ۸۳؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۱۰۰-۱۱۵.}} | [[طبرسی]] [[تفسیر مجمع البیان]] میں ربیع بن انس سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سورہ آل عمران کی پہلی اسی آیتیں نجران کے عیسائیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جن کی قیادت ان کے تین بزرگان کر رہے تھے جن کا نام "عاقب"، "ایہم" اور "ابو حارثہ بن علقمہ" بتایا جاتا ہے جو [[پیغمبر اسلامؐ]] سے گفتگو کرنے [[مدینہ]] آئے تھے۔ اس بیان کے مطابق یہ لوگ [[نماز عصر]] کے بعد پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام اور [[حضرت عیسی]] سے متعلق بعض ہونے والی گفتگو میں پیغمبر اکرمؐ کے دلائل کے سامنے جواب نہ دے سکے اور خاموش ہو گئے۔ اس گفتگو کے بعد سورہ آل عمران کی ابتدائی اسی سے زیادہ آیتیں نازل ہوئیں۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۶۹۵-۶۹۶.</ref> {{نوٹ|تفاسیر میں سورہ آل عمران کی ابتدائی اسی آیتوں کے بارے میں مزید شأن نزول کا تذکرہ موجود ہے خواہشمند حضرات مراجعہ کریں: طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ذیل آیات ۱۲، ۱۸، ۲۳، ۲۶، ۲۸، ۳۱، ۵۹، ۶۸، ۷۷، ۷۹ و ۸۳؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۱۰۰-۱۱۵.}} | ||
===یہودیوں اور مشرکین کی نابودی=== | ===یہودیوں اور مشرکین کی نابودی=== | ||
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 12: {{قرآن کا متن|"قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ؛|ترجمہ=(اے رسول!) کافروں سے کہہ دو کہ عنقریب تم (اہل اسلام کے مقابلہ میں) مغلوب ہوگے اور جہنم کی طرف محشور ہوگے اور وہ کیا بری آرام گاہ ہے۔"}} کی [[شأن نزول]] کے بارے میں آیا ہے کہ جب [[جنگ بدر]] میں [[اسلام|مسلمانوں]] کو فتح نصیب ہوئی تو مدینہ کے یہودیوں نے کہا کہ یہ پیغمبر وہی ہیں جن کی بشارت [[توریت]] میں دی گئی ہے پس ان پر [[ایمان]] لانا چاہئے؛ لسکن ان میں سے بعض کہنے لگے کہ صبر کریں اور ان کی بعض مزید جنگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ جب [[جنگ احد]] میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو یہودی شک و تردید میں پڑ گئے اور کعب بن اشرف یہودیوں کے بعض اکابرین کے ساتھ [[مکہ]] چلے گئے اور [[ابوسفیان]] کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف مشترکہ اقدام کرنے کی حامی بھر لیے، یہ آیت ان کے اس اقدام کی مذمت میں نازل ہوئی ہے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۲، ص۷۰۶؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۱۰۰.</ref> | |||
=== | ===مباہلہ===<!-- | ||
نزول [[آیه مباهله]] را درباره دو راهب مسیحی به نام عاقب، سید و هیئتی از [[مسیحیان نجران]] دانستهاند که نزد [[پیامبر(ص)]] آمدند و بعد از گفتگو با آن حضرت، [[اسلام]] نیاوردند و قرار شد روز بعد همدیگر لعن کنند تا دروغگو مشمول [[عذاب]] خداوند گردد. روز بعد پیامبر اسلام به همراه [[امام حسن(ع)|حسن]]، [[امام حسین(ع)|حسین]]، [[حضرت فاطمه(س)|فاطمه]] و [[امام علی(ع)|علی]] برای [[مباهله]] به صحرا آمدند. هنگامی که مسیحیان چنین صحنهای را مشاهده کردند دعوت به مباهله را نپذیرفتند و با پیامبر قرارداد پرداخت [[جزیه]] بستند. در روایات است که پیامبر(ص) فرمود اگر حاضر به ملاعنه (لعن کردن متقابل) میشدند تمام صحرا آتشباران میشد.<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ح۲، ص۷۶۲؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۱۰۷.</ref> | نزول [[آیه مباهله]] را درباره دو راهب مسیحی به نام عاقب، سید و هیئتی از [[مسیحیان نجران]] دانستهاند که نزد [[پیامبر(ص)]] آمدند و بعد از گفتگو با آن حضرت، [[اسلام]] نیاوردند و قرار شد روز بعد همدیگر لعن کنند تا دروغگو مشمول [[عذاب]] خداوند گردد. روز بعد پیامبر اسلام به همراه [[امام حسن(ع)|حسن]]، [[امام حسین(ع)|حسین]]، [[حضرت فاطمه(س)|فاطمه]] و [[امام علی(ع)|علی]] برای [[مباهله]] به صحرا آمدند. هنگامی که مسیحیان چنین صحنهای را مشاهده کردند دعوت به مباهله را نپذیرفتند و با پیامبر قرارداد پرداخت [[جزیه]] بستند. در روایات است که پیامبر(ص) فرمود اگر حاضر به ملاعنه (لعن کردن متقابل) میشدند تمام صحرا آتشباران میشد.<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ح۲، ص۷۶۲؛ واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۱۰۷.</ref> | ||