|
|
سطر 72: |
سطر 72: |
| *شرح خطبۃ السیدۃ زینب(س) فی مجلس یزید بن معاویہ، نوشتۀ رجب بن حسن؛ این کتاب را انتشارات میراث ماندگار در سال 1400ش منتشر کردہ است۔<ref>بنحسن، شرح خطبۃ السیدۃ زینب(س)، 1400ش، صفحہ شناسنامہ کتاب۔</ref> | | *شرح خطبۃ السیدۃ زینب(س) فی مجلس یزید بن معاویہ، نوشتۀ رجب بن حسن؛ این کتاب را انتشارات میراث ماندگار در سال 1400ش منتشر کردہ است۔<ref>بنحسن، شرح خطبۃ السیدۃ زینب(س)، 1400ش، صفحہ شناسنامہ کتاب۔</ref> |
| {{خالی بماند}} | | {{خالی بماند}} |
|
| |
| --> | | --> |
|
| |
| ==دربار یزید==
| |
| [[روز عاشورا]] کو [[امام حسینؑ]] کی شہادت کے بعد آپ کی [[اہل بیت]] کو دوسرے بازماندگان کے ساتھ اسیر کیا گیا۔ [[اسیران کربلا]] کے اس قافلے کو [[کوفہ]] میں دربار [[ابن زیاد]] اور کوفہ و [[شام]] کے بازاروں سے لے کر [[یزید]] کے دربار تک لے جایا گیا۔ جب شام کے سرکردگان جنہیں یزید نے جنگ میں اپنی کامیابی پر جشن منانے کیلئے دعوت دی تھی، یزید کے محل میں پہنچے تو اس نے اسیران کربلا کو [[شہدائے کربلا]] کے کٹے ہوئے سروں کے ساتھ اپنی محفل میں لانے کا حکم دیا۔<ref> جعفری، سیدحسین محمد، تشیع در مسیر تاریخ، مترجم سیدمحمدتقی آیت اللہی، چاپ10، ص80۔</ref>
| |
|
| |
| جب یزید کے دربار میں [[زینب کبری]](س) کی نظر اپنے بھائی [[امام حسینؑ]] کے کٹے ہوئے سر پر پڑی تو ایک نہایت ہی افسردہ آواز میں فریاد بلند کی:
| |
| :::اے حسین اے محبوب رسول خدا،اے فرزند [[مکہ]] و [[منا]]، اے فرزند [[فاطمہ زہرا(س)]] سیدۃ نساء عالمین اور اے فرزند بنت مصطفیؐ۔
| |
|
| |
| اس واقعے کے راوی نقل کرتے ہیں: خدا کی قسم حضرت زینب(س) کی اس فریاد کے ساتھ یزید کے دربار میں موجود تمام لوگوں نے رونا شروع کیا اس موقع پر یزید بھی خاموش بیٹھا تھا!!
| |
|
| |
| یزید نے چھڑی لانے کا حکم دیا پھر اس کے ساتھ امام حسینؑ کے مبارک ہونٹوں کے ساتھ کھیلنا شروع کیا۔ "ابو برزہ اسلمی" (جو کہ پیغمبر اکرمؐ کے صحابہ میں سے تھا، وہ بھی یزید کے دربار میں حاضر تھا) نے یزید سے مخاطب ہو کر کہا:اے یزید! آیا اس چھڑی کے ساتھ فاطمہ کے نور نظر، حسینؑ کے ہونٹوں سے کھیلتے ہو؟! میں نے اپنی آنکھوں سے پیغمبر اکرمؐ کو دیکھا جو حسینؑ اور اس کے بھائی حسنؑ کے ہونٹوں کا بوسہ لیتے ہوئے فرما رہے تھے: "آپ دونوں جنت کے حوانوں کے سردار ہیں خدا تمہیں شہید کرنے والے کو ہلاک کرے اور اس پر لعنت بھیجے اور اس کا ٹھکانہ جہنم قرار دے جو بہت بری جگہ ہے۔
| |
|
| |
| اس موقع پر یزید کو بہت غصہ آیا اور اس نے اس شخص کو اپنی محفل سے نکال باہر کرنے کا حکم دیا پھر اس نے کچھ شعر گنگنانا شروع کیا جسے ابن زبعری نے [[غزوہ احد]] کے بعد گنگنایا تھا۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج45، ص132-133۔</ref>:
| |
|
| |
| {{شعر2|
| |
| {{حدیث|لَیتَ أَشْیاخی بِبَدْر شَہدُوا}}|{{حدیث|جَزِعَ الْخَزْرَجُ مِنْ وَقْعِ الاَْسَلْ}}
| |
| |{{حدیث|فَأَہلُّوا وَ اسْتَہلُّوا فَرَحاً}}|{{حدیث|ثُمَّ قالُوا یایزیدُ لاتَشَلْ}}}}
| |
| {{شعر2
| |
| |کاش کہ میرے وہ بزرگ جو جنگ بدر میں قتل کر دیئے گئے تھے وہ آج ہوتے اور دیکھتے| کہ کس طرح قبیلہ خزرج نیزہ مارنے کے بجائے گریہ وزاری میں مشغول ہیں۔
| |
| |اس وقت وہ خوشی میں فریاد کرتے| اور کہتے : اے یزید ! تیرے ہاتھ شل نہ ہوں!}}
| |
| یزید کے اس شعر کے بعد حضرت زینب(س) نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا۔
| |
|
| |
| == خطبے کا مضمون ==
| |
| حضرت زینب(س) نے اپنے خطبے کو خدا کی حمد و ثنا، [[پیغمبر اکرمؐ]] پر درود و سلام اور بدکاروں کے بارے میں [[قرآن]] کی ایک آیت سے شروع کیا۔ اس کے بعد ظالموں کو مہلت دینے کی الہی سنت سے مربوط قرآنی آیت سے استناد کرتے ہوئے [[امام حسین]] کے اہل بیت پر روا رکھنے والے ظلم و ستم اور انہیں شہروں اور بازاروں میں پھرائے جانے پر یزید کی سرزنش کی اور اس برے فعل کی علت کو یزید کا وہ کینہ قرار دیا جو [[جنگ بدر]] سے یزید کے دل میں پیدا ہوا تھا۔ آگے چل کر آپ(س) نے یزید کے برے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے [[واقعہ کربلا]] میں ظلم و ستم روا رکھنے والوں سے نفرت کا اظہار کیا اور آخر میں [[وحی]] اور [[نبوت]] کو اہل بیتؑ کے ساتھ مختص کرتے ہوئے اہل بیت کے تذکرے کو لوگوں کے دلوں سے نکالنے کی یزید کی کوشش کو بے ثمر قرار دے دیا۔
| |
|
| |
| ==خطبے کا متن اور ترجمہ== | | ==خطبے کا متن اور ترجمہ== |
| {{نقل قول دوقلو طبقاتی تاشو | | {{نقل قول دوقلو طبقاتی تاشو |